سوال: ارشاد نبویﷺ   ’’إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘  کے پیشِ نظر نماز میں احرفِ سبعہ کے ساتھ تلاوت کرنا جائز ہے؟ کیا حضور ﷺ ، صحابۂ کرامؓ، تابعین، ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے نماز میں احرفِ سبعہ کے ساتھ تلاوت ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو امت میں اس کا رواج کیوں نہیں رہا؟ فقط والسلام

المستفتی: مسعود عالم، بہرائچ، یوپی

باسمہٖ تعالیٰ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق:  حدیث نبوی  ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘  میں  ’’سبعۃ أحرف‘‘ کی تشریح ایک معرکۃ الآراء بحث ہے،جس میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں ؛ لیکن یہ بات طے ہے کہ  ’’سبعۃ أحرف‘‘  سے سات مشہور قراء تیں مراد نہیں ہیں ؛ کیوں کہ قرآن کریم کی متواتر قراء تیں سات میں منحصر نہیں ؛ بلکہ اور بھی متعدد قراء تیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ، سات حروف پر نازل کرنے کا راجح ترین مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی قراء توں میں سات نوعیت کے اختلافات رکھے گئے ہیں : (۱) اسماء کا اختلاف، جس میں افراد، تثنیہ وجمع اور تذکیر وتانیث دنوں کااختلاف داخل ہے، اس کی مثال ہے  وَتَمَّتْ کلمۃ ربک،  جو ایک قراء ت میں وتمت کلمات ربک بھی پڑھاگیا ہے۔ (۲) افعال کا اختلاف کہ کسی قراء ت میں صیغہ ماضی ہو اور کسی میں دوسرا صیغہ ہو، مثلاً  ربنا باعد بین أسفارنا،  اور دوسری قراء ت میں رَبُّنَا بَعَّدَ بین أسفارنا  بھی آیا ہے۔ (۳) وجوہ اعراب کا اختلاف اس کی مثال ہے:  ولا یضارَّ کاتب اور لا یُضارُّ کاتب۔ (۴) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف مثلاً  ’’تجري مِنْ تحتہا الأنہار‘‘  اور ایک قراء ت بغیر  ’’مِنْ‘‘  کے ہے۔ (۵) تقدیم و تاخیر کا اختلاف، مثلاً  ’’وجائت سکرۃ الموت بالحق‘‘  اور دوسری قراء ت میں ہے  ’’وجائت سکرۃ الحق بالموت‘‘۔ (۶) بدلیت کا اختلاف کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے، دوسری قراء ت میں اس کی جگہ دوسرا لفظ، مثلاً  نُنْشِزُہَا،  اور بعض میں اس کی جگہ ’’نَنْشُرُہا‘‘ ہے۔ (۷) لہجوں کا اختلاف، جس میں تفخیم، ترقیق، اِمالہ قصر، مد، ہمزہ اظہار ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں ، مثلاً موسیٰ اور ایک قراء ت میں اسے مُوْسَيْ کی طرح پڑھا جائے گا (از علوم القرآن، باب سوم، ص:۹۸، ۱۵۵، ۱۰۸ وغیرہ)

            رہا ان قراء توں کو نماز میں پڑھنا تو فی نفسہٖ یہ درست ہے؛ لیکن امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کی جو قراء ت ہو (جیسا کہ عموماً قراء ت عاصم بروایت حفص رائج ہے) وہی اختیار کرے؛ کیوں کہ عوام ناواقفیت میں اعتراض کرنے لگتے ہیں ، یا نمازوں کی صحت کے بارے میں شبہے میں پڑجاتے ہیں ؛ بلکہ بعض دفعہ (خصوصاً امالے وغیرہ کی قراء تیں سن کر) ہنسنے لگتے ہیں ، جس سے قرآن کے استخفاف کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اور ان کو گناہ ہوگا؛ اس لیے امام کو نامانوس قراء تیں نہیں پڑھنی چاہئیں ۔ ہاں اگر کوئی شخص نماز میں پڑھنا چاہتا ہے اور قراء تیں جانتا بھی ہے، تو اسے چاہیے کہ انفرادی نمازوں میں پڑھ لیا کرے۔

            فی الدر: ویجوز بالروایات السبع، لکن الأولی أن لا یقرأ بالغریبۃ، عند العوام صیانۃ لدینہم، وفي الرد: قولہ: بالروایات السبع: بل یجوز بالعشر أیضاً، کما نص علیہ أہل الأصول۔ قولہ: بالغریبۃ، أي: بالروایات الغریبۃ والإمالات، لأن بعض السفہاء یقولون ما لا یعلمون، فیقعون في الإثم والشقاء، ولا ینبغي للأئمۃ أن یحملوا العوام علی ما فیہ نقصان دینہم، ولا یقرأ عندہم مثل قرائۃ أبي جعفر وابن عامر، وعلي بن حمزۃ الکسائي صیانۃ لدینہم، فلعلہم یستخفون أو یضحکون، وإن کل القرائات والروایات صحیحۃ، فصیحۃ الخ (الدر مع الرد ۲/۲۶۲، ط: زکریا، الصلاۃ/ صفۃ الصلاۃ/ فصل)

الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ،   محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۹؍۲؍۱۴۴۱ھ

==============================

            سوال: ترکی حکومت کے زیراہتمام ایک سیریل بنام {دیریلیش اِرْطَغْرَل} جس کی ۲۰۱۴ء کے دسمبر سے ۲۰۱۹ء کی مئی تک ۱۵۰ قسطیں آچکی ہیں ، اکثر قسط کا دورانیہ دو گھنٹے کے کم وبیش ہے جو کہ پوری دنیا میں بہت دیکھاجارہاہے، خصوصاً مسلمانوں میں زیادہ رائج ہے۔ عوام کے ساتھ ساتھ بعض خواص بھی اس سیریل کے دیکھنے کے بہت عادی ہوگئے ہیں ۔ تُرک حکومت یہ سیریل اس واسطے بنوارہی ہے کہ لوگوں کو خلافت عثمانیہ کی پوری کہانی معلوم ہوجائے۔ اس سیریل کا حال یہ ہے کہ اس میں عشق ومعشوقی کو بھی رکھا گیا ہے۔ خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں نے اس سیریل میں اپنے کردار انجام دئیے ہیں ، شاید ہر قسط کے آخر میں دعاء بھی کی جاتی ہے۔ طیب اردگان اور ترک کے وزیراعظم وغیرہ اس سیریل کے حمایتی ہیں ۔ الحمدللہ بندہ عاجز نے اب تک ایک قسط کا کچھ حصہ بھی نہیں دیکھا جو کچھ بیان کیا وہ دوسرے سے سن کر اور کچھ یوٹیوب وغیرہ سے معلومات حاصل کرکے بیان کیا؛ البتہ دیکھنے والوں کا دیوانہ پن دیکھا اور جانا ہوں ایسا لگتا ہے کہ دیکھنے والوں کو دیکھنے کا نشہ چڑھ گیا ہے۔ مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا شریعت ایسے سیریل بنانے اور ان کو دیکھنے کی اجازت دیتی ہے؟ ایسا سیریل بنانا اور اس کا دیکھنا دونوں کا کیا حکم ہے؟ مزید یہ کہ جو قوم آج کل فحش فلمیں ننگے ناچ دیکھنے کی عادی ہوچکی ہے اسے اس کے بجائے کیا یہ سیریل دیکھنے کی اجازت ہوگی؟ جیسے مثلاً شراب کی جگہ کوئی دوسری مشروب پلادیں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔

باسمہٖ تعالیٰ

            الجواب وباللّٰہ التوفیق: سیریل یا فلم کیسی بھی ہو اس میں کم از کم تین خرابیاں ، یعنی ویڈیو گرافی، رقض وموسیقی اور اجنبی عورتوں کی موجودگی ضرور پائی جاتی ہیں  اور یہ تینوں امور ناجائز ہیں ، چنانچہ تصویر کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ تصویر بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو! (بخاری، اللباس، عذاب المصورین، رقم ۵۹۵۰) اور میوزک کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور لہوولعب اور گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کا حکم دیا، (مشکاۃ، حدود، بیان خمر، فصل ثالث ۳۶۵۴) اور بے پردہ اجنبی عورتوں کی موجوگی میں جو قباحت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ پھر وہ فلمیں جن میں سلاطین اسلام کی تاریخ بیان کی جاتی ہے ان میں ایک مزید خرابی یہ ہے کہ لوگ ایسی فلمیں دیکھنے کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، یا ہلکا سمجھتے ہیں اور گناہ کو ہلکا سمجھنا یا گناہ ہی نہ سمجھنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ اور سلسلہ وار فلموں کے دیکھنے کی لوگوں کو جولت لگتی ہے اس میں ضیاع وقت، نمازوں کا چھوٹنا اور دیگر ضروری کاموں سے غفلت، مذکورہ بالا خرابیوں پر مستزاد ہیں ؛ جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ کوئی جائز کھیل تماشہ بھی اگر فرائض وواجبات میں کوتاہی کا سبب بننے لگے تو وہ ناجائز ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی تاریخی فلموں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ بہت سارے واقعات محض فرضی یا مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتے ہیں ۔ جس میں کذب وافتراء اور غیبت تک کی نوبت آجاتی ہے۔

            مختصراً یہ کہ سوال میں مذکورہ نوعیت کے سیریل، تصویرکشی، موسیقی، بے پردہ اجنبی عورتوں کی موجودگی کی وجہ سے ناجائز ہیں اور گناہ کو ہلکا سمجھنے، فرائض وواجبات میں غفلت اور دوسری خرابیوں کی وجہ سے اس حرمت میں اور شناعت آجاتی ہے۔ آپ نے اچھا کیا کہ یہ سیریل نہیں دیکھا۔

            آپ کی آخری بات کے سلسلے میں گزارش ہے کہ مذکورہ سیریل فحش فلموں سے بچنے کا حل نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ یہ سیریل خود ناجائز ہیں ، گویا دونوں زہر ہیں کوئی ہلکا کوئی تیز۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں سے بچنے کی فکر کی جائے اور یہ انسان کے اپنے ارادے اور عادت بنانے پرمبنی ہے۔ اس کے لیے ناجائز چیزیں اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ؛ بلکہ مباح ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں ، مثلاً: قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے معانی اور تفسیر، اچھے بامعنی اشعار اور نعتیہ کلام سننا مجاہدین اولیاء اللہ کے حیرت انگیز واقعات کو پڑھنا، سننا  اپنایا جاسکتا ہے۔

الجواب صحیح: فخر الاسلام عفی عنہ،   محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند فقط  واللہ تعالیٰ أعلم زین الاسلام قاسمی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۹؍۲؍۱۴۴۱ھ

==============================

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12،  جلد:103‏،  ربیع الاول– ربیع الثانی 1441ھ مطابق نومبر – دسمبر  2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts