حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            ۱۸؍محرم الحرام ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۹ء بروزچہار شنبہ، دارالعلوم دیوبند کے قدیم استاذ حضرت مولانامحمد جمال صاحب میرٹھی وفات پاگئے،  إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔  اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور اُن کے اعمال حسنہ کو قبول فرمائے۔ آمین!

            یہ بات قارئین کے علم میں ہے کہ تقدیر الٰہی کے تحت سال میں کم از کم دو تین مختلف شماروں کا حرف آغاز کسی نہ کسی رخصت پذیرشخصیت سے متعلق لکھنا پڑتا ہے؛ لیکن اس بار تو اس عمل میں وقفہ بھی نہیں ہوا؛ کیوںکہ گزشتہ شمارے میں شیخ طریقت حضرت مولانا محمدطلحہ کاندھلوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت سے محرومی ہمارا موضوع تھی کہ اس ماہ دارالعلوم دیوبند کے ایک محترم استاذ رہ گزار آخرت ہوگئے اور قلم، اُن کی یاد میں چلنے پر مجبور ہوگیا۔

            حضرت مولانا محمد جمال صاحب بلندشہری ثم میرٹھی ۱۹۸۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے قافلۂ تدریس میں شامل ہوئے تھے؛ لیکن اپنی فراغت اور تجربہ کے لحاظ سے وہ بہت قدیم تھے، انھوں نے دورئہ حدیث ۱۹۵۶ء میں پڑھا تھا، دوسرے لفظوں میں وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ سے مکمل بخاری شریف پڑھنے والی آخری جماعت کا حصہ تھے، کہ اس کے بعد والے تعلیمی سال کے درمیان ہی میں حضرتؒ کی وفات ہوگئی۔ حضرت شیخ الاسلام سے نسبت شاگردی کا شرف بھی اب تیزی سے کم یاب ہورہا ہے، اس وقت دیوبند اور دارالعلوم میں دو تین ہی حضرات باقی ہیں جنھوںنے حضرت شیخ الاسلام سے بخاری شریف پڑھنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ غالباً ملک وبیرون ملک بھی ایسے حضرات کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے۔

            حضرت مولانا محمد جمال صاحب رحمہ اللہ نے فراغت کے بعدگجرات اور تمل ناڈو کے مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد ۱۹۸۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد کی نگاہ انتخاب اُن پر پڑی اور وہ اس قافلۂ خیر میں شامل ہوگئے۔ یہاں ان سے مختلف کتابوں کا درس متعلق رہا جن میں جلالین، ہدایہ اور مقامات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

            ایک طویل تدریسی تجربہ کے بعد مولانا مرحوم نے قلم سنبھالا اور ان کے ہاتھ سے متعدد کتب جن میں  اکثر درسی کتابوں کی شروحات ہیں، وجود میں آئیں۔ خاص طور سے جلالین شریف کی شرح جمالین نے تو خوب شہرت حاصل کی۔ اس کے علاوہ ہدایہ، حسامی اور مقامات وغیرہ کی شروحات بھی انھوں نے لکھیں۔ دارالعلوم میں تکمیلات کے طلبہ کو پیش کیے جانے والے محاضرات کے تحت شیعیت سے متعلق محاضرہ مولانا مرحوم کے ذمہ تھا، اس موضوع پر ان کے محاضرات کا مجموعہ بھی معروف ہے اور اسی موضوع پر ایک مفید کتاب ’’شیعہ مذہب تاریخ کے آئینے میں‘‘ ان کے قلم سے نکلی۔ اس طرح اللہ رب العزت نے مولانا کو تدریسی اورتحریری میدانوں میں وسیع خدمات کی توفیق سے نوازا۔

            حضرت مولانا محمد جمال صاحب رحمہ اللہ کا تمام اکابر دارالعلوم سے تعلق استوار تھا، خاص طور پر حضرت مولانا معراج الحق صاحب قدس سرہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب کیرانوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ سے ان کے تعلقات قریبی تھے۔ حضرت مولانا ریاست علی صاحب کی مجلس کے تو وہ بلاناغہ حاضر باش؛ بلکہ استاذ محترم حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ کے الفاظ میں صاحب ترتیب تھے اس صفت میں ان کے شریک حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی رحمہ اللہ تھے۔

            مولانا مرحوم کو قدرت نے بڑا نرم اور قابل قبول مزاج عطا کیا تھا۔ ان کا لہجہ بھی نرم تھا اور مزاج بھی۔ کسی کی دل آزاری وہ نہیں کرتے تھے۔ یک سوئی سے اپنے کام میںلگے رہتے تھے۔ اپناکام حتی الامکان خود کرنے کے عادی تھے، سادہ زندگی گذارتے تھے، لباس میں بھی سادگی نمایاں تھی، طلبہ پر مشفق ومہربان تھے، اسی لیے طلبہ اُن سے مانوس رہتے اور آسانی سے استفادہ کرسکتے تھے۔

            اِدھر کچھ عرصہ سے ان کی صحت پر شوگر کے اثرات غالب آنے لگے تھے، ضعف پڑھتا جارہا تھا، چنانچہ اس سال اُن کے صاحبزادگان نے بہ اصرار ان کو گھر پر رکھ کر خدمت کی، جب کہ مولانا مرحوم بار بار دارالعلوم آکر اپنی تدریسی خدمات میں مشغول ہونا چاہتے تھے؛ لیکن صحت اس کی متحمل نہیں تھی، پھر بھی وہ اسی حال میں دو تین بار آئے اور گئے۔ آخر کار محرم الحرام کی ۱۸؍تاریخ کو میرٹھ میں ان کے مکان پر آخری وقت آگیا اور وہ اپنے تین صاحبزادگان اور صاحبزادیوں کے علاوہ ہزاروں تلامذہ کو سوگ وار چھوڑ کر مالک حقیقی سے جاملے۔ اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور اُن کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے، آمین!

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 10،  جلد:103‏،  صفر المظفر 1441ھ مطابق اكتوبر 2019ء

*    *    *

Related Posts