سوال:  قربانی کے بڑے جانور میں گھر کا سربراہ ایک ایک حصے میں صرف اپنے پیسے ڈالتے ہوئے کیا اپنی بیوی بچے کا حصہ بھی ڈال سکتا ہے یعنی پیسے صرف سربراہ کے ہوں اور ایک حصہ سربراہ کا دوسرا بیوی کا تیسرا بچے کا، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے تک کی شرکت درست ہے، اگر گھر کا سربراہ مالدار اور صاحب نصاب ہے اور وہ بڑا جانور مکمل اپنے پیسے سے لیتا ہے اور ایک حصہ اپنے نام سے دوسرا اپنی بیوی کے نام سے اور تیسرا اپنے بچے کے نام سے قربانی کرتا ہے یعنی اس بڑے جانور میں اپنے گھر والوں کو بھی شریک کرلیتا ہے اور پیسہ تنہا وہ سربراہ ہی دیتا ہے اور ایسا کرنے کا معمول ہے یا بیوی بچوں سے اجازت لے کر کرتا ہے تو شرعاً اس طرح قربانی میں حرج نہیں ، قربانی درست ہے ’’لو ضحی عن أولادہ الکبار وزوجتہ لا یجوز إلا بإذنہم، وعن الثانی أنہ یجوز استحسانًا بلا إذنہم۔۔۔۔ ولعلہ ذہب إلی ان العادۃ إذا جرت من الأب فی کل سنۃ صار کالإذن منہم۔ (شامی، زکریا ۹/۴۵۷)

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند   فقط  واللہ أعلم وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۴؍۱۱؍۱۴۳۹ھ

==============================

            سوال:حدیث میں جو آیا ہے کہ جب اذان ہوتی ہے توشیطان پاد مارتا ہے کیا مراد ہے اس سے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: حدیث کا متن وترجمہ اس طرح ہے:  عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا نُودي للصلاۃ، أدبر الشیطان لہ ضُراط حتی لا یسمع التّاذین۔

            ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان (اذان کی جگہ سے) ریح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے؛ تاکہ وہ اذان نہ سن سکے۔

            حدیث کی شرح ومراد بیان کرتے ہوئے علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہ تشبیہ پر محمول ہے یعنی شیطان کا شغل ووظیفہ یہ ہے کہ وہ خود کو اذان سننے سے غافل رکھنا چاہتا ہے، اس کی ا یسی حرکت کو ایسی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے جو کان کو بھردے اور کچھ بھی سنائی نہ دے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ حدیث حقیقت پر محمول ہے؛ اس لیے کہ شیاطین بھی کھاتے پیتے ہیں تو ان کا ریح خارج کرناممکن ہے، یعنی اللہ کے ذکر سے خوف کھاتے ہوئے واقعی وہ ریح خارج کرتے ہوئے بھاگتا ہے یا مراد یہ ہے کہ شیطان لعین اللہ کے ذکر کا استخفاف کرتا ہے یعنی مذاق اڑاتا ہے۔ مرقات میں ہے:  (حتی لا یسمع التاذین) تعلیل لإدبارہ۔ قال الطیبی: شبہ شغل الشیطان نفسہ، وإغفالہ عن سماع الأذان بالصوت الذی یملأ السمع۔۔۔ وقیل: ہذا محمول علی الحقیقۃ؛ لأن الشیاطین یأکلون ویشربون، کما ورد فی الأخبار، فلا یمتنع وجود ذلک منہم خوفا من ذکر اللّٰہ، أو المراد استخفاف اللعین بذکر اللّٰہ تعالی الخ (مرقات: ۲؍۳۲۵، فیصل دیوبند)

الجواب صحیح: فخرالاسلام عفی عنہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند   فقط  واللہ أعلم وقار علی غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند 9؍9؍۱۴۳۹ھ

=========================

——————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 8،  جلد:103‏،  ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء

Related Posts