از: مولانا شاہد قاسمی سیتاپوری
فاضل دارالعلوم دیوبند
لودھی خاندان کے عہد ۱۵۲۶ء میں بابر نے ہندوستان پرحملہ کر کے خانوادۂ مغلیہ کی بنیاد ڈالی اور مغل حکومت ہندوستان پر قائم ہو گئی۔جس نے یکے بعد دیگرے ہندوستان کو ۲۱حکمراں دیئے، خاندان مغلیہ کی بنیاد بابر تیموری نے رکھی اور فتح کے چار سال گزرے تھے کہ ۱۵۳۰ء میں موت کا پیغام آپہنچا پھر ہمایوں دس سال تک تخت نشین رہا؛ لیکن ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے ہندوستان سے مار بھگا یا(۱)۔ ۱۵/سال جلا وطنی کے بعد آخری عمر میں شاہ ایران کی مدد سے اسے موقع ملا تو خاندان سوری کو شکست دیکر ہندوستان پر قبضہ کیا (۲)۔ پھر اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں نے اسلامی ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے ومستحکم دور کا آغازکیا۔اس کے بعدسلطنت واقتدار کی یہ امانت علم وادب، حوصلہ وہمت اور زہد وتقوی کے مظہر جمیل ’’ابوالمظفر محی الدین اورنگ زیب عالمگیرؒ ‘‘ کی طرف منتقل ہوگئی۔
آپ کا شمار ان سلاطین اسلام میں ہوتا ہے جنھوں نے پچاس برس سے زائد اورنگ ِ حکومت پر جلوہ گر رہ کر بلا تفریق مذہب وملت،انتہائی جاں فشانی وجواں مردی کے ساتھ جہاں بانی کے لائق تقلید نمونے چھوڑے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ حضرت اورنگ زیب ؒتاریخ ہند کی وہ مظلوم شخصیت ہیں جنہیں متعصب مورخین نے بت شکن،ہندوکش اور ظالم وجابر بادشاہ کی حیثیت سے متعارف کرایاہے۔
اس مضمون میں آپ کی شخصیت کو موضوع بناتے ہوئے حیات وخدمات کا تذکرہ نیز مستند تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں الزامات کا تجزیہ کیا جائے گا۔
ولادت
حضرت اورنگ زیب عالم گیر کی ولادت باسعادت کے بارے میں سلطان نورالدین جہانگیرؒ رقم طرز ہیں کہ
’’اتوار ماہ آبان سن۱۴؍جلوس(بہ مطابق ۱۵؍ذیقعدہ ۱۰۲۷ھ)کواللہ تعالی نے آصف خاں کی لڑکی (ممتاز محل )کے بطن سے شاہ جہاں کو ایک فرزند عطاکیا‘‘۔(۳)
مولانا سید محمد میاں دیوبندی ؒلکھتے ہیں کہ
’’جس طرح اورنگ زیب کی تمام عمر گھر سے باہر اور دارالسلطنت سے دور گزری اسی طرح اس کی ولادت وموت دونوں پر دیس میں واقع ہوئیں جہاں گیر احمد نگر کے سپہ سالارملک عنبر کو شکست دے کر آگرہ کی طرف اطمینان سے واپس آرہا تھا کہ گجرات کی انتہائی سرحد پر بمقام ذوحد۔ ہندوستان کے سب سے بڑے تاجدارنے عالم وجود میں قدم رکھا۔ابتدائی رسوم پورا کرکے اوجین پہنچا، اور جشن ولادت پوری شان وشوکت سے منایا گیا ‘‘۔(۴)
تعلیم وتربیت
بہ قول علامہ فضل امام خیرآبادی ملاابو الواعظ ہر گامی سے ابتدائی تعلیم کے منازل طے کیے(۴)۔ علم وادب مولوی سید محمد قنوجی سے حاصل کیا(۵)،اور بہ قول سید صباح الدین عبدالرحمن:
’’اورنگ زیب کی تعلیم لائق اور قابل اساتذہ کی نگرانی میں ہوئی،جن ارباب علم وکمال سے اس نے فیض حاصل کیا،ان کے نام یہ ہیں :مولانا عبداللطیف سہارنپوری،مولانا ہاشم گیلانی،علامہ سعد اللہ، ملا موہن بہاری،مولانا سید محمد قنوجی،ملا شیخ احمد معروف بہ ملاجیون،شیخ عبدالقوی،دانشمند خان‘‘۔(۶)
علوم دینیہ سے شغف
بعد تحصیل علم ہر قسم کے عیش وآرام کو ترک کرکے کتب خانہ میں وقت صرف ہوتا تھا کتب بینی سے تمام علوم میں کامل دستگاہ حاصل ہو گئی تھی اورعلوم دینیہ سے فطری رغبت تھی۔مآثر عالم گیری میں ہے :
’’قبلہ عالم کے کمالات کسبیہ کا عظیم الشان کارنامہ علوم دینیہ یعنی فقہ و تفسیر وحدیث کی تحصیل ہے،جہاں پناہ کو اما م غزالی ؒکی تصنیفات، شیخ شرف الدین منیری ؒکے منظومات اور شیخ شمس الدین ؒوقطب الدین ؒ محی ا لدین شیرازی ؒکے رسائل سے خاص شوق تھا،اور یہ کتابیں اکثر مطالعہ میں رہتی تھیں ‘‘(۷)۔
علمی کمالات
سید صباح الدین عبدالرحمن لکھتے ہیں کہ
حفظ قرآن : ’’اورنگ زیب حافظ قرآن بھی تھا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اس نے کلام پاک اس وقت حفظ کیا جب وہ اپنی عمر کے ۴۳/ویں سال میں تھا‘‘۔(۸)
جیسا کہ مآثر عالم گیری میں ہے :
’’حضرت کے فضائل میں سب سے اہم وعظیم الشان امر حفظ قرآن کریم کی سعادت ہے، اگرچہ ابتداء ہی سے قبلہ عالم کو اکثر سورتیں قرآن مجید حفظ تھیں ؛لیکن تمام وکمال کلام پاک کے حفظ سے بعد جلوس بہرہ اندو ز ہوئے ‘‘۔(۹)
فن خطاطی: اسی کے ساتھ ساتھ فن خطاطی میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں ،جو کہ محض ذاتی زیب وزینت کے لیے نہیں تھا؛ بلکہ اس کے ذریعہ حصول سعادت دین کے ساتھ کسب معاش دنیا بھی کرتے تھے، فرصت کے اوقات میں کلام پاک کے نسخے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے جس کا سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔مآثر عالم گیری میں ہے :
’’قبلہ عالم خط نسخ نہایت خوب تحریر فرماتے تھے اور اس کی کتابت پر حضرت کو خاص قدرت حاصل تھی،جہاں پناہ نے دو قرآن مجید اپنے قلم خاص سے تحریر فرما کر مبلغ سات ہزار روپے جلد بندی وجدول کی زیب وزینت میں صرف فرمائے،اور دونوں نسخے مدینہ منورہ میں حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندربہ طور نذر رکھوا دئیے‘‘۔(۱۰)
عالم گیر ؒکا ذوق ادب
سید صباح الدین عبدالرحمن رقم طراز ہیں کہ
’’اس کا انشاء پر داز انہ جوہرفارسی نثر لکھنے میں چمکا،بابر وجہاں گیر کی طرح اس کے قلم میں بھی غیر معمولی قوت تھی اور اگر حکمرانی کرنے کے بجائے وہ کوئی کتاب لکھتا تو وہ بلا شک وشبہ ایک معجز نگار اور سحر پر داز ادیب ہوتا ‘‘۔(۱۱)
عالمگیر ؒکے خطوط کی ہمہ گیری کے متعلق سید نجیب اشرف ندوی رقم طراز ہیں کہ
’’اورنگ زیب کے خطوط۔۔۔۔گلہائے رنگا رنگ کے بہترین مجموعہ ہیں ۔وہ کون سی چیز ہے جو اس مجموعہ میں نہ ہو اور وہ کون سی شئی ہے جس میں حقیقت نگاری کے ساتھ کمال ادب کو جگہ نہ دی گئی ہو‘‘۔(۱۲)
تصوف وسلوک
عالم گیر ؒنے سلو ک وطریقت کی بھی تعلیم حاصل کی،اس سلسلہ میں حضرت مجدد الف ثانی ؒکی تعلیمات سے متأثر تھا اسی لیے ان کے فرزند ارجمند حضرت محمد معصوم قدس سرہ کے رشد وہدایت سے مستفید ہوتا رہا ‘‘۔(۱۳)
نمایاں اوصاف وخصوصیات
مختلف سوانح نگارومؤرخین نے اس بادشاہ کی قلمی تصویر پیش کرکے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یوں کیاجا سکتا ہے کہ
’’حضرت عالم گیر ؒمذہبی معاملات کے بے حد پابند۔حنفی المسلک سنی،فرائض خمسہ کے پابند، وضو پر دوام اور زبان کلمۂ طیبہ کاورد،نماز باجماعت مسجد میں ،زکوۃ شرعی کی ادائیگی کا اہتمام،رمضان میں صوم وتراویح ودیگر ایام بیض کے روزوں کی پابندی کرتے تھے، حج بیت اللہ کے بے حد مشتاق رہتے(۱۴)مزامیر،غیر شرعی لباس اور چاندی وسونے کے برتنوں سے اجتناب کرتے،مجلس غیبت سے پاک رہتی اور رعایا کے ساتھ کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے ‘‘۔(۱۵)
اس کے علاوہ بزرگان دین سے عقیدت، فقیروں کے دوست،ریاکاروں کے دشمن،بیدار مغز، جفاکش، عادل،منصف، دوراندیش، روادار،طبیعت کے پارسا،حسن سلوک کے پیکرِ مجسم اور انتہائی جری وبے باک تھے،اورنگ زیب ؒنے اپنی بہادری وبے خوفی کا پہلا ثبوت چودہ برس کی عمر میں دیا تھا، جب وہ ایک مست ہاتھی کے سامنے کھلے میدان میں ڈٹ گئے۔(۱۶)
تخت نشینی کے اسباب
۱۰۶۷ ھ مطابق ۱۶۵۷ء میں شاہ جہاں سخت علیل ہوا، تو اس نے اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کو ولی عہد نامزد کیا(۱۷)جس وقت شجاع بنگالہ کا،مر ادبخش گجرات کا اور اورنگ زیب دکن کا صوبے دار تھا، شاہجہاں نے عمر بھر دارا کی ناجائز حمایت کرکے دوسرے بیٹوں کو نقصان پہنچایا تھا،اوردارا نے بھی بھائیوں کے خلاف سازش رچ کر نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا(۱۸)۔ بھائیوں کے آپسی فکری تضاد نے بھی راہ ہموار کی،داراشکوہ اکبری سوچ کا مالک ہونے کی باعث ہندوؤں اور راجپوتوں میں ہر دل عزیز تھا جب کہ اورنگ زیب راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان علماء وعوام کی آخری امید تھا۔شجاع نے شیعہ مذہب اختیار کرکے ایرانی امراء کی حمایت حاصل کرلی تھی،مراد بخش شمشیر وشراب کا رسیا ہونے کی وجہ سے فوجی افسروں وسپاہیوں میں پسند کیا جاتا تھا(۱۹)۔ ان تمام اسباب کے باوجود اگردارا شکوہ شاہ جہاں کی خبر علالت نہ چھپاتا،بھائیوں کے وکلاء کو گرفتار نہ کرتا، بھائیوں کے خلاف لشکر نہ بھیجتا،جس کے سبب شجاع بنگال سے چل پڑا،اورنگ زیب ؒنے نقل وحرکت شروع کی مراد کو بھی ساتھ لیا،ادھر دارا کے لشکر نے اجین میں روکا مگر فوج شکست کھا گئی، پھر دارا میدان میں آیا،ادھر راجپوت جان توڑ لڑ رہے تھے، ادھر اورنگ زیب مع فوج جرأت وبے باکی سے لڑ رہا تھاپھر آخر دارا شکست کھاکر فرار ہوا اوراورنگ زیب نے آگرہ پر تسلط قائم کر لیا۔(۲۰)
اورنگ زیب ؒکی تخت نشینی
قاضی شوکت فہمی رقم طراز ہیں :
’’اورنگ زیبؒ کی تخت نشینی نہ تو کسی قلعہ میں انجام دی گئی نہ ہی شاہی محل میں بلکہ نہایت سادا طریقہ پر دہلی کے قریب ’’باغ اعزاء ‘‘یعنی میدان جنگ میں ۱۰۶۸ھ مطابق ۱۶۵۸ء میں تخت نشیں ہوا‘‘۔(۲۱)
اورنگ زیب نے زمام سلطنت ہاتھ میں لینے کے بعد اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا،نیا سکہ جاری کروایا جس پر صرف کلمہ لکھا ہوا تھا، پہلے کی طرح بادشاہ کا نام کندہ نہ تھا، یہ اس بات کا اعلان تھا کہ قوانین ملکی میں تبدیلی آرہی ہے، اور شرعی قوانین کا نفاذ سختی سے کیا جائے گا اور ایک نیا ہندوستان جنم لے رہا ہے۔
اورنگ زیب عالم گیر ؒکی زریں خدمات اورنمایا کارنامے
اگر یہ صحیح ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو آپ یقین کریں بادشاہ کے فضل وکمال، عظمت وہمہ گیری، بیدار مغزی وجفا کشی کا اندازہ اس کی خدمات سے ہوتا ہے اور کسی شخصیت کو پر کھنے کی کسوٹی فقط یہی ہے کہ اس نے کیا کارنامے انجام دیئے ؟اس کی جدو جہدسے کیا نتائج بر آمد ہوئے ؟بلا خوف وتردد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر ؒنے بر صغیر ہند میں دینی،علمی،اصلاحی، رفاہی اور سیاسی طور پر اپنی خدمات وکارنامے کے ایسے واضح نقوش ثبت کیے ہیں کہ مستقبل کا مؤرخ ان کا تذکرہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔عیاں راچہ بیاں ؟تو ضیح موضوع کے طور پر چند زریں خدمات وکارنامے رقم کیے جاتے ہیں :
دینی وعلمی کارنامے
اورنگ زیب عالمگیر ؒکے علم وفن سے خصوصی شغف کے سبب اپنی سلطنت میں اس کی ترویج واشاعت کے لیے ہر ممکن صورت اختیار کی،کتاب وسنت کی تعلیم اوراحیائے دین کے لیے مندرجہ ذیل کارنامے انجام دئیے:
مدارس ومکاتب کا قیام
مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
’’اورنگ زیب نے مرکزی شہر وں کے علاوہ چھوٹے قصبات وقریات میں بھی دینی درسگاہیں قائم کیں ،ان کے معلّمین کے وظیفے جاری کیے،جو علماء ذاتی طور پر تعلیم وتدریس کا کام انجام دیتے تھے انھیں اور جو مدرسین سرکاری مدراس سے وابستہ تھے ہر ایک کو بڑی بڑی جاگیریں عطا کرکے فکر معاش سے فارغ البال کر دیا۔(۲۲)
تدوین فتاوی عالم گیریؒ
عہد عالم گیری کا سب سے اہم علمی کارنامہ فتاوی عالم گیری کی تدوین ہے۔ سید صباح الدین عبد الرحمن رقم طراز ہیں :
’’عالم گیر ؒنے اپنے زمانۂ حکومت میں محسوس کیا کہ حنفی مذہب کے فقہی مسائل مخلوط طور پر تمام کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور کوئی خاص کتاب جو تمام مسائل پر حاوی ہو موجو د نہیں ہے؛ اس لیے فتوی دینے کے لیے تمام کتابوں کی چھان بین کرنی پڑتی ہے۔ان ہی مشکلوں کا لحاظ کرکے ممتاز علماء کے ایک گروہ سے مفتی ٰ بہ مسائل منتخب کرکے کتاب کی تدوین کی درخواست کی ‘‘۔(۲۳)
تقریباً پچاس صاحب نظر علماء(۲۴) کی جماعت شیخ نظام الدین برہان پوری ؒ کی سرکردگی میں تشکیل دی،بادشاہ خود بہ نفس نفیس اس کی تدوین میں شریک تھے۔ روزانہ بالالتزام پڑھواکر سنتے تشفی وتسلی کے لیے جرح وقدح کرتے اوراصلاح وترمیم بھی ہوتی(۲۵)۔ آٹھ سال(۲۶) کی محنت اور آٹھ لاکھ کے صرفہ کے ساتھ کام پایۂ تکمیل تک پہنچا اور ایسا علمی کارنامہ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھاجائے گا،جو بیرون ہند بھی ’’فتاوی ہندیہ‘‘ کے نام سے قابل اعتماد ومستند مأخذ سمجھا جاتا ہے۔(۲۷)
علم حدیث سے لگاؤ
عالمگیر کو علم حدیث سے خاص لگاؤ تھا؛ بلکہ کمال حاصل تھا،دور حکمرانی سے پہلے ایک کتاب ’’الاربعین‘‘ لکھی جس میں چالیس احادیث نبویہ کو جمع کیا۔اسی طرح ایک دوسری کتاب زمانۂ حکومت میں لکھی،پھر ان دونوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور عمدہ حاشیہ بھی لگایا۔(۲۸)
اصلاحی کارنامے
اورنگ زیب ؒکی تخت نشینی کے زمانے کی اخلاقی واجتماعی حالت کے متعلق ڈاکٹر ہنٹرایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ
’’لیکن نہ اکبر کا بیٹا اور نہ اس کا پوتا شاہ جہاں بد چلنی وبد اخلاقی کے اس طوفان کا مقابلہ کر سکا جو الحاد وتشکک کی تین نسلوں کے درمیا ن بڑھتا چلاآرہا تھا۔بدچلنی کے سیلاب کے ساتھ تو ہم پرستی بھی آگئی تھی، جادوگر وں ، رمّالوں اور کرامت کے دعوے داروں سے دارالخلافۃ بھراپُرا تھا ‘‘۔(۲۹)
چناں چہ بہ قول شیخ اکرا م :
’’اورنگ زیب ؒنے سلطنت ہاتھ میں لینے کے بعد اپنی پوری توجہ ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے میں صرف کردی،بھنگ کی کاشت وشراب نوشی کی ممانعت کردی گئی،جوا بند کردیا،بدکاری کے خلاف پوری کوشش کی،بازاری عورتوں کو شادی ورنہ ملک چھوڑنے کا حکم دیا‘‘۔(۳۰)
اور بہ قول اکبر شاہ نجیب آبادی ؒ:
’’اس کے ساتھ ساتھ اپنی پوری توجہ عہدا کبری کے مخالف اسلام اثرات کو مٹانے، شیعیت کے اثر کو کم کرنے، ایران کے مجوسیت آمیز اثرات جو ایرانی تقویم وجشن نو روز کی شکل میں پائے جاتے تھے ختم کرنے کے اقدامات کیے‘‘۔(۳۱)
مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ؒلکھتے ہیں کہ
’’محتسب کا شرعی محکمہ قائم کیا؛ تاکہ خلق خدا کو منہیات ومحرمات سے منع کرے حکومت کی بیش قرار نا مشروع آمدنیاں موقوف کیں ،سر ودورقّاصی کو موقوف کیا(۳۲)،شرعی قاضی مقررکیا،ان کو اعلی اختیار دے کر شرعی قانون وآئین کے اجراء کے لیے مسائل فقہیہ کی ترتیب کا بیڑا اٹھایا ‘‘۔(۳۳)
رفاہی کارنامے
مولانا محمد میاں صاحبؒ رقم طراز ہیں کہ
’’راستوں پر منزلیں ۔سرائیں ۔قدیم سڑکوں کی مرمت،دریاؤں پر پل،بڑے بڑے دریاؤں پر کشتیاں ، سڑکوں پر چوکیاں ،غریب ومعذور لوگوں کے لیے غریب خانہ ومطب بنوائے، مساجد اور مندروں کے لیے اراضی وقف کیں ،رسم ستی(۳۴)کی ممانعت فرمائی، ہجڑا بنانے کی رسم ختم کی گئی،تمام غلوں سے ما حصل کل اجناس کا افادۂ عام کے واسطے دوامی معاف کیا ‘‘۔(۳۵)
الغرض اناج،راہ داری،کرور گیری،اسباب کے محصول اور موروثی مطالبات وغیرہ رعیت کی خاطر یہ ساری رقمیں معاف کردی گئیں ۔(۳۶)
٭ ٭ ٭
حواشی
(۱) اس خاندان میں تین حکمراں ہوئے اور ۱۵سال حکومت کی۔
(۲) تزک جہاں گیری صفحہ ۲۹۶۔
(۳) علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد /۱صفحہ ۲۷۷۔
(۴) تاریخ ملت، سلاطین ہند جلد /۲صفحہ ۱۱۱۔
(۵) مآثر عالمگیری صفحہ ۱۴۵۔
(۶) بزم تیموریہ جلد /۳صفحہ ۲۔
(۷) مآثر عالمگیری صفحہ ۳۸۸۔
(۸) بزم تیموریہ جلد /۳صفحہ ۷۔
(۹) مآثر عالم گیری صفحہ ۳۸۸۔
(۱۰) مآثر عالمگیری صفحہ ۵۳۲۔
(۱۱) بزم تیمور جلد یہ/۳صفحہ۴۲۔
(۱۲) مقدمہ رقعات عالم گیری صفحہ جلد /۱۔
(۱۳) خزینۃ الاصفیاء صفحہ ۶۴۰۔
(۱۴) اگرچہ حج نہ کیا مگر اس کی تلافی کرتے تھے۔
(۱۵) ملخص اقوال سلف جلد /۳ صفحہ ۲۳۳، مومن قوم اپنی تاریخ کے آئینے میں صفحہ ۸۴، رجال من التاریخ صفحہ ۲۶۴۔
(۱۶) ملاحظہ ہو:احکام عالم گیر ی صفحہ ۲۷تا ۳۳، سلاطین ہند جلد /۲صفحہ ۱۲، ہندوستان پر مغلیہ حکومت صفحہ۱۸۸۔
(۱۷) ایضاًصفحہ ۲۱۴۔
(۱۸) ایضاً صفحہ /۲۱۰۔
(۱۹) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :رود کوثر صفحہ ۴۵۵۔
(۲۰) احکام عالم گیری صفحہ ۳۳۔
(۲۱) رجال من التاریخ صفحہ ۲۶۴، اورنگزیب حالات وواقعات کے آئینے میں صفحہ ۳۵تا ۴۵۔
(۲۲) ہندوستان پر مغلیہ حکومت صفحہ ۲۲۹۔
(۲۳) مقالات حبیب جلد /۱صفحہ ۳۴تا۳۵، تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:بزم تیموریہ جلد /۲صفحہ ۸۹، تاریخ دارالعلوم جلد /۱صفحہ ۸۷۔
(۲۴) بزم تیموریہ جلد /۳صفحہ ۲۳۔
(۲۵) جن کی فہرست مقالات حبیب جلد /۱صفحہ ۳۵پر موجود ہے۔
(۲۶) ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت جلد /۱صفحہ ۹۲تا۹۳‘نزہۃ الخواطر جلد /۶صفحہ ۷۳۷۔
(۲۷) بعض قول کے مطابق آغاز ۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۸ھ میں ہوا اور تکمیل ۱۰۸۰ھ یا ۱۰۸۱ ھ میں ہوئی (ماہنامہ بینات ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ۔
(۲۸) رجال من التاریخ صفحہ ۲۶۸،رودکوثر صفحہ ۴۷۷، سلاطین ہند جلد /۲صفحہ ۱۲۶، مجلۃ ’’الدین ‘‘۹-۲۰۰۸ء صفحہ ۸۹، مقدمہ فتاوی عالم گیری۔
(۲۹) بینات کراچی ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ۔
(۳۰) بحوالہ رود کوثر صفہ ۴۵۷۔
(۳۱) ایضاً۴۵۸۔
(۳۲) قول حق صفحہ ۱۲۳۔
(۳۳) بادشاہ نکل کر میدان میں آتا تھا اورمخلوق اس کی زیارت کرتی تھی۔
(۳۴) تاریخ دعوت وعزیمت جلد /۵صفحہ ۴۳۔
(۳۵) ہندؤں میں مردہ شوہر کے ساتھ بیوی کے جل کر مرنے کی رسم (فیروز اللغات ص/۴۱۴)۔
(۳۶) علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد /۱صفحہ ۳۳۴۔
————————————-
دارالعلوم ، شمارہ : 8، جلد:103، ذی الحجہ 1440ھ مطابق اگست 2019ء
٭ ٭ ٭