سوال: میں نے لائف انشورنس کمپنی سے ایک منافع کی پالیسی لی تھی (انشورنس اور سیونگ) میں آٹھ سال سے ہر سال 25,000 روپے جمع کررہا تھا، یہ پالیسی اکیس سال کی ہے اور کل رقم پانچ لاکھ اور ساتھ ساتھ بونس کی رقم ہوگی، مجھے معلوم ہوا کہ ایل آئی سی پالیسی حرام ہے؛ کیوں کہ کمپنی جو اضافی بونس دیتی ہے اس میں سود شامل ہوتا ہے، اس لیے میں نے مستقل طور پر وہ پالیسی بند کردی اور اب تک میں نے 2,00,000روپے جمع کیے ہیں اور میں بونس کی رقم 1,73,000 کا مستحق ہوں ، میں نے چونکہ درمیان میں ہی پالیسی بند کی ہے، اس لیے کمپنی نے بھاری جرمانہ عائد کردیا اور میرے بینک اکائونٹ میں صرف 1,49,200 روپے آئے جو کہ میری جمع پونجی سے کم ہے، پالیسی کے ایجنٹوں سے مجھے معلوم ہوا کہ درمیان میں پالیسی بند کرنے پر کمپنی جمع شدہ اصل رسم کے چالیس پرسینٹ اور پلس چالیس پرسینٹ بونس کے مطابق حساب کرتی ہے، اس لیے کپنی کا حساب اس طرح ہے؛ 80000 + 69200 = Rs. 1,49,200 ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ 1,49,200 میں سے میرے لیے کتنی رقم حلال ہے؟ میری اصل رقم صرف 80000روپے ہے اور بقیہ 69,200روپے حرام ہیں ؛ چونکہ بونس ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ میں نے چونکہ 2,00,000 روپے جمع کیے ہیں اور مجھے اس سے کم رقم ملی ہے یعنی 1,49,200 تو کیا یہ پوری رقم میرے لیے حلال ہے؟ براہ کرم جواب دیں ۔ جزاک اللہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:- صورت مسئولہ میں کمپنی نے جرمانہ کے طور پر آپ کی جمع شدہ رقم سے جو کٹوتی کی ہے، وہ شریعت کی نظر میں ناجائز وناحق اور بے بنیاد ہے ؛ کیوں کہ اسلام میں مالی جرمانہ نہیں ہے(امداد الفتاوی ۲:۵۳۷ سوال: ۶۴۴،عزیز الفتاوی ص۷۲۴، ۷۲۵ سوال: ۱۴۲۲،امداد المفتین ص۷۵۱ سوال: ۸۱۳،فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۴:۱۳۴ ،۱۳۵ سوال :۶۷۹۵ اور احسن الفتاوی ۵:۵۴۲ -۵۶۷ بشکل مقالہ بنام :تحریر المقال فی التعزیر بالمال) ؛ اس لیے کمپنی نے ۴۰؍ پرسینٹ جو بونس دیا ہے، وہ جرمانہ کی جگہ ہوکر آپ کے لیے جائز ہوگا، آپ کسی شک شبہ کے بغیر وصول شدہ ساری رقم اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں (امداد المفتین ص ۷۰۶، سوال: ۷۴۳، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)۔
لا بأخذ مال فی المذھب، بحر۔۔۔۔۔ وفی المجتبی أنہ کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحدود، باب التعزیر، ۶: ۱۰۵، ۱۰۶، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)، والحاصل أن المذھب عدم التعزیر بأخذ المال (رد المحتار، ۶: ۱۰۶)، مستفاد: فإذا ظفر بمال مدیونہ لہ الأخذ دیانۃ؛ بل لہ الأخذ من خلاف الجنس (رد المحتار، کتاب السرقۃ، مطلب في أخذ الدائن من مال مدیونہ من خلاف جنسہ ۶: ۱۵۷)۔
فقط واللہ تعالیٰ أعلم
الجواب صحیح: | محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲؍۳؍۱۴۴۰ھ=۱۱؍۱۱؍۲۰۱۸ء |
===========================
سوال: میرا نام حسین احمد ہے، کوئٹہ پاکستان کا رہائشی ہوں ، میں سرکاری ٹینڈرز میں بطور ٹھیکیدار شرکت کرتا ہوں اکثر یوں ہوتا ہے کہ کسی ٹینڈر میں حصہ لینے والے دو میں سے ایک ٹھیکیدار دوسرے کو اس ٹینڈر کی کل رقم سے ایک متعین رقم یا شرح دے کر اسے مقابلے سے دست بردار کرادیتا ہے یا بہت سے ٹھیکیدار مل کر ایک رقم یا شرح طے کرکے سب میں برابر تقسیم کرکے ایک ٹھیکیدار کے حق میں دست بردار ہوتے ہیں جسے رنگ کہا جاتا ہے، کیا رنگ کا رقم اٹھانا یا دینا شرعاً جائز ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق:- سرکاری ٹینڈرز میں جو ٹھیکہ دار ، امیدوار ہوتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کا معاملہ ٹینڈر جاری کرنے والے سرکاری ادارے سے ہوتا ہے، کسی ٹھیکہ دار کا دوسرے ٹھیکہ دار سے کوئی معاملہ نہیں ہوتا اور نہ ایک کا دوسرے پر کوئی حق ہوتا ہے، جیسے: انتخابات میں اگر کسی عہدہ کے متعدد امیدوار ہوں تو ان میں کسی کا دوسرے امیدوار سے کوئی معاملہ یا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا؛ اس لیے اگر کوئی یا چند ٹھیکہ دار مقابلے سے دست بردار ہوتے ہیں تو ان کے لیے ٹینڈر قبول کرنے والے ٹھیکہ دار سے کوئی معاوضہ لینا، ہرگز جائز نہیں ، یہ بلاشبہ رشوت اور حرام ہے۔ اور اگر متعدد امید وار ہونے کی وجہ سے ٹھیکہ مناسب قیمت پر نہیں مل پاتا ہے تو امید وار آپس میں باہمی رضامندی سے باری باری ٹینڈر قبول کرنے کا نظام بناسکتے ہیں ، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ:{وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ} بالرشوۃ وسائر الوجوہ المحرمۃ (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورۃ آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱:۲۰۲)، وقال تعالی أیضاً في مقام آخر: {سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ} (سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ: ۴۲)، اتفقوا جمیع المتأولین لہٰذہ الآیۃ علی أن قبول الرشاء محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت التي حرمہ اللّٰہ تعالیٰ، والرشوۃ تنقسم إلیٰ وجوہ: منہا: الرشوۃ في الحکم، وذلک محرم علی الراشي والمرتشي جمیعًا، وہو الذي قال فیہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعن اللّٰہ الراشي والمرتشي، وہو الذي یمشي بینہما، فذلک لایخلو من أن یرشوہ لیقض لہ بحقہ أو بما لیس بحق لہ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للجصاص ۲؍۴۳۳ لاہور سہیل اکیڈمی)، عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الأقضیۃ ، باب في کراہیۃ الرشوۃ ۲:۵۰۴ رقم: ۳۵۸۰، ط: دار الفکر بیروت، سنن الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء في الراشي والمرتشي في الحکم، ۱:۲۴۸، رقم: ۱۳۳۷، وہٰکذا في سنن ابن ماجۃ، کتاب الأحکام، باب التغلیظ في الحیف والرشوۃ، رقم: ۲۳۱۳، ط: دار الفکر بیروت، صحیح ابن حبان رقم: ۵۰۵۴)، من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دارإحیاء التراث العربي بیروت)۔
فقط واللہ تعالیٰ أعلم
الجواب صحیح: | محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۴؍۲؍۱۴۴۰ھ=۲۴؍۱۰؍۲۰۱۸ء |
===========================
سوال: میراسوال یہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں پائوں ملنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ احادیث کی روشنی میں وضاحت فرماویں ۔ میں سعودی میں ہوتا ہوں ، یہاں اکثر امام حضرات کو پائوں ملاتے ہوئے دیکھتاہوں ۔ جزاک اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللّٰہ التوفیق:-سجدہ کی حالت میں دونوں رانیں باہم ملالینا سنت ہے ، علم الفقہ میں نماز کی سنتوں کے بیان میں ہے: سجدے کی حالت میں دونوں رانوں کا ملا ہوا رکھنا (علم الفقہ، مکمل، ص: ۲۱۳، مطبوعہ:کراچی) اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو کتے کی طرح اپنے ہاتھ نہ بچھائے اور اپنی دونوں رانیں باہم ملالے(صحیح ابن حبان)۔ اور سجدہ میں پیروں کی ایڑیاں بھی باہم ملانا سنت ہے جیسا کہ صحیح ابن حبان اور شرح مشکل الآثار وغیرہ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے نقل کیا گیا ہے اور یہ روایت مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے فرمایا: اکثر لوگ اس سنت سے غافل ہیں (العرف الشذی)۔
عن أبي ھریرۃؓ أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إذا سجد أحدکم فلا یفترش افتراش الکلب ولیضم فخذیہ (صحیح ابن حبان،کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ذکر الأمر بضم الفخذین عند السجود للمصلي، ۵: ۲۴۴، ۲۴۵، رقم الحدیث: ۱۹۱۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)، قالت عائشۃؓ: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان معي علی فراشي فوجدتہ ساجداً راصاً عقبیہ الخ (المصدر السابق، ص: ۳۷۸، رقم الحدیث: ۱۹۳۰)، قالت عائشۃؓ: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ وکان معي علی فراشي فوجدتہ ساجداً راصاً عقبیہ الخ (شرح مشکل الآثار، باب بیان مشکل ما روي عنہ علیہ السلام في الشیطان أنہ یجري من ابن آدم مجری الدم الخ، ۱: ۱۰۴، رقم الحدیث: ۱۱۱، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)، إسنادہ صحیح علی شرط مسلم؛ فإن عمارۃ بن غزیۃ لم یرو لہ البخاري، وإنما استشھد بہ، ورواہ ابن خزیمۃ ۶۵۴ والحاکم ۱:۲۲۸، ۲۲۹ والبیھقي ۲: ۱۱۶ من طریق سعید بن أبي مریم بھذا الإسناد (ھامش شرح مشکل الآثار)، وفي صحیح ابن حبان عن عائشۃؓ الرص بین العقبین في السجدۃ أي: ضمھما، وأکثر الناس عن ھذا غافلون (العرف الشذي، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في التسبیح في الرکوع والسجود، ۱: ۲۶۹، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)، قولہ: ’’ویسن إلصاق کعبیہ‘‘: قال السید أبو السعود: وکذا في السجود أیضاً (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۲: ۱۹۶، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)۔
فقط واللہ تعالیٰ أعلم
الجواب صحیح: | محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد مصعب عفی عنہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند | محمدنعمان سیتاپوری غفرلہٗ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲؍۳؍۱۴۴۰ھ=۱۱؍۱۱؍۲۰۱۸ء |
——————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:103، ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء
٭ ٭ ٭