از: مولانا  نوشیر احمد

(خادم حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی  رحمۃ اللہ علیہ)

            سیاسی اورملی قیادت کے موجودہ منظرنامے پرجن شخصیات کواپنی سماجی،تعلیمی اور مذہبی خدمات کی بدولت ہر طبقے کا اعتبارحاصل تھا،ان میں حضرت مولانا محمد اسرارالحق قاسمی کا نام نمایاں تھا۔ان کی خدمات کا سلسلہ ہر اس طبقے سے جڑاہواتھا جو معاشی،تعلیمی اور سماجی طور پر پچھڑا ہوا ہے۔ انھوں نے ان طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیاجوسماج میں حاشیائی حیثیت کے حامل ہیں ۔ حضرت نے بڑی خاموشی کے ساتھ ان طبقات کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے اورانھیں زیورِعلم سے آراستہ کرنے کی کوشش کی۔خاص طور پر انھوں نے ان دورافتادہ علاقوں کواپنامیدانِ عمل بنایا، جہاں علم اورتہذیب و دانش کی روشنی آزادی کے بعدبھی نہیں پہنچ سکی تھی۔روشن اورتاب ناک علاقوں کوسجانا سنوارنا اتنا مشکل نہیں ہوتاجتناکہ تاریک اور اندھیرے علاقوں کوروشن کرنا۔ مولانا نے اس سمت میں سوچ کر یقیناً ایک ایسا کارنامہ انجام دیا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان علاقوں کے عوام انھیں بھول سکتے ہیں ۔جن کے نصیب میں محرومیاں ،تاریکیاں ہی لکھی ہوئی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت کواپنے علاقے میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل تھی اورلوگ انھیں ’’ایم پی صاحب‘‘ کہنے کے بجائے ’’حضرت صاحب‘‘ ہی کہتے تھے،خاص طور پرخواتین کے درمیان حضرت کاغیر معمولی احترام تھا اور الیکشن کے دنوں میں وہ مولاناکی کامیابی کے لیے روزے بھی رکھتی تھیں ، حضرت کے جنازے میں جہاں دوردورسے لوگوں نے شرکت کی وہیں خواتین کی بہت بڑی تعدادبھی اظہارغم کرتے ہوئے اکٹھاہوئیں ۔

            مولانا کی شخصیت بین الاقوامی سطح پر بھی متعارف ہے اور ان کی فعال قیادت کوصرف برصغیر نہیں ؛ بلکہ برطانیہ اوردیگرممالک کے باشعورلوگ بھی تسلیم کرتے اور خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کسی ایک دائرے میں قید نہیں تھی؛بلکہ انھوں نے مختلف محاذپراپنی فعالیت کاثبوت دیااوراپنی شخصیت کے تحرک سے مسلم قیادت کوبھی ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔

            مولانا کو عملی طورپرمیدانِ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ہی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا اندازہ ہوگیا تھا؟اس لیے نامساعدحالات کے باوجودبھی انھوں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی،جس نے آگے چل کرایک تحریک اور مشن کی شکل اختیار کرلی۔آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن مولانا کے خوابوں کی وہ تعبیر ہے،جس نے بہت سے پژمردہ آنکھوں میں مستقبل کے خواب روشن کردیے اوراسی ادارے کی وجہ سے بہت سے وہ افراد بھی تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کر رہے ہیں جومعمولی تعلیم کا بھی تصور نہیں کر سکتے تھے۔آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن نے روزبروز اپنے دائرئہ کار کو وسعت دے کر ان علاقوں کو بھی اپنی تعلیمی بیداری مہم میں شامل کیا، جہاں سرکاری سطح پرتعلیم اور تدریس کے انتظامات نہیں تھے۔اس طرح مولانا نے اپنے فاؤنڈیشن کے ذریعے تعلیم کی روشنی ان پسماندہ علاقوں تک بھی پہنچائی جہاں آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی تاریکی ہی تاریکی تھی۔

حضرت نے باضابطہ میدان سیاست میں سرگرم ہونے کے بعد بھی اپنے تعلیمی مشن کو ترک نہیں کیا؛بلکہ اس کے دائرے کو اور وسعت دینے کی انھوں نے بھر پور کوشش کی اور آج اللہ کا فضل ہے کہ اس تعلیمی مشن کی وجہ سے طلباء اور طالبات عصری اور دینی علوم سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ کشن گنج میں ’’ملی گرلس اسکول‘‘ اس کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔جہاں تقریباً 500 لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ،جنہیں دینی ماحول میں عصری تعلیم سے آراستہ کیاجاتاہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے چار صوبوں جھارکھنڈ، مغربی بنگال،بہار اور یوپی کی غریب و خستہ حال مسلم بستیوں میں سیکڑوں مکاتب قائم کیے،جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں ،غازی آباد،مغربی بنگال اور کشن گنج میں حفظ قرآن مجید کے مدرسے قائم کیے، جہاں سیکڑوں غریب طلباکو مفت طعام وقیام کی سہولیات میسر ہیں ۔فاؤنڈیشن کے زیراہتمام مولانانے ملک کے مختلف پسماندہ علاقوں میں تین سوسے زائدمساجدبھی تعمیرکروائیں ۔ مولاناکی تعلیمی جدوجہد کا ایک اور کارنامہ ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ ضلع کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی شاخ کا قیام ہے، اس کے لیے سخت جدوجہدسے کام لیا، بہت سے لوگوں نے سیاسی وجوہات کی بناپرآپس میں ہی انتشارپیداکرنے کی کوشش کی؛ مگرمولانانے نہایت بصیرت اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے نہ صرف علاقے کے تمام مسلمانوں کومتحدکیا؛بلکہ اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف مظاہرات کیے اوربالآخر حکومت نے ان کامطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کشن گنج میں ’’اے ایم یو‘‘ کی شاخ قائم کی ۔ اسی طرح گزشتہ سال تین طلاق بل کے سلسلے میں بھی حضرت نے زبردست دینی وملی غیرت وبصیرت کامظاہرہ کیااورلوک سبھامیں بل پاس ہوجانے کے بعد مولانانے پارٹی کودھمکی دی کہ اگرراجیہ سبھامیں بل کی مخالفت نہیں کی گئی تووہ پارٹی سے استعفادے دیں گے، مولاناکے اس رویے کاپارٹی پرغیرمعمولی اثرہوااوربالآخرکانگریس نے راجیہ سبھامیں پوری قوت سے اس بل کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں تین طلاق بل پاس نہ ہوسکا۔

            حضرت مولانا1942 میں موضع ٹپو ضلع کشن گنج بہار میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے مدارس میں حاصل کرنے کے بعد 1964ء میں ہندوستان کے مشہوردینی ادارہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم مولانا ہمیشہ ممتاز طالب علموں میں سر فہرست رہے۔ فراغت کے بعد ملی و سماجی کاموں میں پورے جو ش و جذبہ کے ساتھ مشغول ہوگئے۔مولانا اپنی محنت، لگن اور اخلاص کی بدولت ہر محاذپر نمایاں نظر آئے۔ دینی، ملّی، سماجی امور میں ان کی بے پناہ دلچسپی کی وجہ سے ہی جمعیۃ علماء ہند جیسی مقتدر تنظیم کے اکابرین نے جمعیۃ کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں اورایک طویل عرصہ تک جمعیۃ سے وابستہ رہتے ہوئے حضرت مولانا نے جمعیت کے دائرہ تعارف اور حلقۂ اثر کو وسعت عطا کی اور مختلف سطحوں پر ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جوجمعیۃ کی تاریخ کا روشن حصہ ہیں ۔

            مولانا نے ملت کی فلاح وبہبود اور رہنمائی کے تعلق سے سیاسی سطح پر بھی اہم خدمات انجام دیں ، ملک کے مسلمانوں کی آواز کو پارلیمنٹ میں بلند کرنے کے لیے انہوں نے متعدد بار کشن گنج سے پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ان کی ایمان داری، دیانت داری، لگن ومحنت اور کارہائے نمایاں کو دیکھتے ہوئے عوام نے محدود وسائل کے باوجود انھیں 2009ء کے عام انتخابات میں بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا۔پہلی مدت کارمیں ان کی خدمات اور سماجی و سیاسی خدمات کو دیکھتے ہوئے 2014ء کے عام انتخابات میں ؛جب کہ بہارہی نہیں ،پورے ہندوستان میں کانگریس کو مجموعی طورپربدترین شکست کا سامناکرناپڑا،ایسے میں مولانانے تقریباً دولاکھ ووٹوں سے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ مولانا موصوف واحدایسے ممبرپارلیمنٹ تھے جو حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پرچل کر پوری جرأت وبے باکی کے ساتھ ملت کے مسائل کو پارلیمنٹ میں اٹھاتے تھے اورمسلمانوں کو درپیش مشکلات کے تئیں ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔

            ملی اتحاد اور قومی یکجہتی کے لیے حضرت کی طویل جدوجہد کے تابندہ نقوش عوامی ذہنوں میں محفوظ ہیں ۔ مولانا کی کوششوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچا؛ بلکہ ان کی قیادت سے برادرانِ وطن بھی فیضیاب ہوئے۔ان کا ذہن مذہبی اور مسلکی تعصب سے پاک تھا۔ انھوں نے ہمیشہ انسانی جذبے، احترام آدمیت اور خدمتِ خلق کے تحت سیاسی اور سماجی قیادت کی ہے اور ان کی راہ میں کبھی مذہب یا مسلک حائل نہیں ہوا۔انھوں نے ہر کام انسانی دردمندی و جذبے کے تحت کیا۔ ان کے اندر بے پناہ عجز و انکساری بھی تھی اور خلوص و استغنا بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی عوام کی نظر میں مولاناکو ہردلعزیز رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔مولانانے کبھی شرافت نفسی کا دامن نہیں چھوڑا، ہمیشہ سادگی و خلوص کا اعلی نمونہ پیش کیا،یہی وجہ ہے کہ نہ صرف آپ کے معاصر علمائے کرام آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے؛ بلکہ آپ کے سیاسی مخالفین بھی آپ کی قدر کرتے تھے۔خود حضرت مولانانے بھی کبھی کسی سیاسی مخالف کے خلاف طعن و تشنیع کی زبان استعمال نہیں کی،آپ نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے سامنے بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا،یہ آپ کا ایسا وصف تھاجس کی ہر طبقے میں قدر کی جاتی تھی۔ اسی طرح شب وروزسیاسی وسماجی مصروفیات میں سرگرم رہنے کے باوجودآپ کی عملی زندگی پرکوئی فرق نہیں پڑتاتھا؛ چنانچہ آپ فرائض ونوافل کی پابندی کے ساتھ تاعمر تہجدکے بھی پابندرہے؛ بلکہ آخرشب میں بیدارہوتے اورتہجدپڑھنے کے بعدکچھ دیر تلاوتِ قرآن کریم فرماتے پھرفجرکی نمازاول وقت میں پڑھ کراستراحت فرماتے تھے ، ان کی وفات بھی اسی وقت ہوئی، جب تہجدکے لیے بیدارہوئے تھے اوروضوکے بعدنمازکی تیاری کررہے تھے۔

            حضرت مولانا نے ملک و ملت کی خدمت کا ایک اورطریقہ یہ اختیار کیا تھاکہ انھو ں نے اپنے قلم سے ملک و معاشرے کی رہنمائی کی اور عوام کو بیدار کیا۔ تصنیفی محاذ پر مولانا مستقل سرگرم رہے اور مختلف سیاسی، سماجی اور اسلامی موضوعات پر انھوں نے نہ صرف ہندوستان کے مقتدر اخبارات میں مضامین اورکالم لکھے بلکہ کتابیں بھی تصنیف کیں اور ان کتابوں کو عوام و خواص دونوں حلقوں میں محبوبیت اور مقبولیت بھی نصیب ہوئی۔ ان کی کتابوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ان کی کتابوں کے ترجمے انگریزی زبان کے علاوہ ہندی، گجراتی،مراٹھی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی شائع ہوئے۔ مولانا محمد اسرارالحق قاسمی سیاسی، سماجی اور تصنیفی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سلسلۂ تصوف وسلوک سے بھی وابستہ تھے اورفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسین مظاہری رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ و مجاز تھے۔ ان کی وفات کے بعدانہوں نے نمونۂ سلف حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مولانا کو ان سے اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔مولانا محمد اسرار الحق قاسمی کے اندر جو خاکساری وانکساری تھی وہ انہی پاک باز بزرگوں کی صحبتوں کا فیض تھا۔ وفات کے وقت حضرت کی عمر بیاسی سال تھی، پسماندگان میں تین بیٹے اوردوبیٹیاں ہیں ۔ اچانک حضرت مولاناکی وفات کا سانحہ ہندوستان ہی نہیں ؛ بلکہ تمام امت مسلمہ کے لیے عظیم خسارہ ہے، خاص طورپر ملک کے موجودہ ماحول میں آپ جیسے صاحبِ بصیرت قائد و رہنما کی مسلمانوں کو شدید ضرورت تھی؛مگر ظاہر ہے کہ قضائے الہی کے مطابق ہر شخص کاایک وقت مقرر ہے جس کی آمد کے بعد اسے اس دنیاکو خیرباد کہناہے۔ لہذاہم اللہ عزوجل کے اس فیصلے پرراضی برضاہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولاناؒ کے تمام حسنات کو قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگذر کرتے ہوئے ان کے درجات بلند فرمائے!

—————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1،  جلد:103‏،  ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء

٭           ٭           ٭

Related Posts