(۱)
نام کتاب : فقیہ عصر میرکارواں
(حیات وخدمات حضرت مفتی محمدظفیرالدین مفتاحیؒ، مفتی دارالعلوم دیوبند)
مرتب : مولانا مفتی اخترامام عادل قاسمی
ناشر : مفتی ظفیرالدین اکیڈمی، وادارہ ’’دعوتِ حق‘‘ جامعہ ربانی منوروا شریف،
سمستی پور (بہار)
صفحات : ۲۹۱
قیمت : (درج نہیں )
تعارف نگار : مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند
====================
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز مفتی، بافیض مدرس اورمعروف ترین مصنف حضرت استاذ محترم مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر سات سال کا عرصہ گزرچکا ہے، مسجد قدیم سے دارالافتاء کی طرف جاتے ہوئے، آج بھی ایسا لگتا ہے کہ حضرت ایک بڑی مسند پر ٹیک لگائے، فتویٰ لکھ رہے ہوں گے، سلام کے ساتھ داخل ہوتے ہی محبت وشفقت بھرے انداز میں خیریت پوچھیں گے۔۔۔ حضرت کی وفات کے بعد بہت سے شاگردوں نے خاکے اور تاثرات لکھے، اخبار ورسائل میں طبع ہوئے؛ لیکن اخبار ورسائل کی ایک خاص مدت ہوتی ہے، اس کے بعد وہ طاق نسیاں کے سپرد ہوجاتے ہیں ، اسی موقع سے حضرت مولانا اخترامام عادل قاسمی زیدمجدہٗ نے حضرت کے شاگردوں اور اہل تعلق کو اکٹھا کیا، امارت شرعیہ پٹنہ کے سالانہ تعلیمی و تربیتی کیمپ کا موقع تھا؛ چنانچہ حضرت مفتی صاحب پر مقالات پڑھے گئے، خدمات کا تعارف پیش کیاگیا، اس اجلاس میں مولانا موصوف نے ’’مفتی ظفیرالدین اکیڈمی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا اور سارے مقالات کی طباعت واشاعت کا مژدہ سنایا، راقم حروف بھی اس میں مدعو تھا، تصانیف کا تعارف اور سوانحی خاکہ پیش کرنے کا موقع نصیب ہوا، ماشاء اللہ محترم موصوف کا وعدہ مذکورہ بالا مجموعہ کی شکل میں پورا ہوا، اس میں چوبیس پچیس اہل قلم کے مقالات جمع کیے گئے ہیں ، اس میں مرتب محترم کا وہ مضمون بھی شروع میں شامل ہے، جو حیدرآباد کی ایک تہنیتی تقریب میں پیش کیاگیا تھا، حضرت مفتی صاحب مرحوم کو پسند آیاتھا، اسی مجموعہ کی طرح اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی نے بھی ’’حیاتِ ظفر‘‘ کے نام سے مضامین جمع کیے ہیں ؛ مگر دونوں کی ترتیب اور مواد میں تنوع ہے، اگرچہ حضرت مفتی صاحب نے ’’خودنوشت‘‘ بھی مرتب فرمائی تھی، جو آپ کی زندگی میں طبع ہوکر مقبول ہوئی، اس کا ایڈیشن ختم ہوگیا، اب بازار میں نایاب ہے اور بعض مضامین شائع نہ ہوسکے، وہ اب تک غیرمطبوع ہیں ۔
سردست مجموعہ میں حضرت مفتی صاحب کے عزیزوں کے مضامین بھی ہیں ، ڈاکٹر احمد سجاد قاسمی، جناب وصی احمد شمسی (مدھوبنی) اور سب سے چھوٹے پوتے افضل سجاد ظفیر کے مضامین بھی شامل ہیں ، آخر الذکر کا عنوان ہے: ’’دادا جان کی کہانی سب سے چھوٹے پوتے کی زبانی‘‘، مضمون پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کی قلمی اور اسلوبیاتی خصوصیات اگلی نسل میں بھی منتقل ہوئی ہے، بے تکلفی، برجستگی اور سادگی اتنی گویا مخاطب کی بات مخاطب کی زبان میں کہی جارہی ہے، جن اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں ان میں اہم شخصیات مولانا غلام محمد وستانوی کے علاوہ حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہٗ مہتمم دارالعلوم دیوبند اور مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہٗ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی صاحب کے مایہ ناز شاگردان حضرت مولانا سعیدالرحمن الاعظمی اور مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی ناظم امارت شرعیہ بھی ہیں ، سارے مضامین،مقالات اور تاثرات پُرمواد ہیں ، ان سب میں بلامبالغہ مرتب محترم کے دونوں مضامین راقم حروف کو بڑے اچھے لگے، اللہ کرے یہ مجموعہ قارئین کے نزدیک قبولیتِ تامہ حاصل کرے!
(۲)
نام کتاب : مقام محمود
تالیف : مولانااختر امام عادل قاسمی
ناشر : مفتی ظفیرالدین اکیڈمی جامعہ ربانی، منورواشریف، سمستی پور (بہار)
سن اشاعت : ربیع الاوّل ۱۴۳۷ھ/ نومبر ۲۰۱۵ء
صفحات : ۴۵۶ قیمت: (درج نہیں )
تبصرہ نگار : مولانااشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند
====================
’’مقام محمود‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والا شفاعت کبریٰ کا مقام ہے، جس مقام پر پہنچ کر (عرش کے نیچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی تعریف سجدہ میں گرکر اتنی دیر تک کریں گے کہ باری تعالیٰ خوش ہوکر مرضی کے مطابق دعائیں قبول فرمائیں گے، اس مقام کی وجہ سے ساری خلائق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کریں گی، یہ ایسا آخری بلند مقام ہوگا جو کسی نبی کو بھی نصیب نہیں ، انبیائے کرام کہیں گے: اے کاش! ہمیں وہ مقام ملا ہوتا، گویا ایک حسین غبطے اور رشک کا مقام ہوگا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی امتیاز کی وجہ سے جناب مولانا مفتی اخترامام عادل قاسمی زیدمجدہٗ نے اپنے مطبوعہ مضامینِ سیرت کے مجموعے کا نام مقام محمود رکھا،اس میں صرف ان مضامین کو شامل کیاگیا ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی اور عملی کمالات کابیان ہے، تفسیر قرآن مجید کے بعد سیرت ہی ایسا موضوع ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا، قرآن پاک کے عجائب کی طرح سیرت کے عجائب بھی ختم ہونے والے نہیں ہیں ، قند مکرر کی طرح قیامت تک ذکر سیرت سے مسلمانوں کے فکر وفن اور زبان وقلم اور ان کے کام ودہن شیرینی حاصل کرتے رہیں گے۔
’’مقام محمود‘‘ کے مؤلف نے ایک سوچار کتابوں کی مدد سے سات ابواب پرمشتمل ساڑھے چار سو سے زائد صفحات کا مجموعہ قارئین کی بارگاہ میں پیش کیا ہے، یہ پیش کش ایسی ہے کہ شروع کرنے کے بعد قاری کی لذت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، فہرست عناوین سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ یہ مجموعہ طلبہ، علماء اور خطباء کے علاوہ عام اردو قارئین کے لیے بھی مفید ہے۔
—————————————
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:103، ربیع الثانی – جمادی الاول 1440ھ جنوری 2019ء
٭ ٭ ٭