از:مولانا مفتی رشید احمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم، تراج، سورت
مومن کے عمل کا اجر وثواب
موٴمن اس عارضی دنیوی زندگی میں اپنی موت سے پہلے پہلے جو بھی نیک کام کرے گا؛ چاہے اپنی زبان سے ہو کہ ہاتھ سے یا اپنے مال کے ذریعہ اس کا ثواب ضرور پائے گا یعنی عمل کا اجر اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا؛ لیکن مرنے کے بعد عمل کا دفتر بند ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی عمل کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے؛ اس لیے نیکیوں پر اجر و ثواب کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے؛ البتہ چند اعمال واسباب ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا اجر میت کو پہنچتا رہتا ہے (یہی حال اس کے برے عمل اور گناہ کا ہے) حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (رواہ مسلم) جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے؛ مگر تین چیزیں: (۱) ایک صدقہٴ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (۲) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (۳) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرتی رہے، ان تین قسم کے اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یعنی اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا۔
ایک دوسرے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا: ان مما یلحق الموٴمن عملہ وحسناتہ بعد موتہ علمًا علّمہ ونشرہ أو ولدًا صالحا ترکہ أو مصحفا ورّثہ أو مسجدًا بناہ أو بیتاً لابن السبیل بناہ أو نھرًا اجراہ أو صدقة أخرجھا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحقہ من بعد موتہ (الترغیب، ص۱۹۶/۱ عن ابن ماجہ) بے شک موٴمن کے عمل اور اس کی نیکیوں میں سے جس کا ثواب موٴمن کو اس کے مرنے کے بعد پہنچتا رہتا ہے: (۱) وہ علم ہے جو اس نے دوسرے کو سکھایا اور پھیلایا (۲) یا نیک اولاد جو اس نے چھوڑی ہے (۳) یاقرآن پاک کا کسی کو وارث بنایا یعنی تلاوت کے لیے وقف کردیا (۴) یا مسجد تعمیر کی (۵) یا مسافر کے لیے کوئی سرائے یعنی مسافر خانہ بنایا (۶) یا نہر جاری کی (۷) یا اپنے مال میں سے نفلی صدقہ نکالا، تندرستی اور زندگی میں تو ان چیزوں کا اجر وثواب مرنے کے بعد بھی میت کو پہنچتا رہے گا۔
ایصال ثواب اور اس کے اغراض
جس طرح میت کو اپنے بعض اعمال کا اجر وثواب پہنچتے رہنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور اہل ایمان کا ان احادیث پر عمل بھی پایاجاتا ہے، اسی طرح میت کو کسی نیک عمل کے ذریعہ نفع پہنچانا اور میت کا اس سے نفع اٹھانا احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ مثلاً حضرت انس بن مالک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے لیے صدقہ کرتے ہیں اور ان کی طرف سے حج کرتے ہیں، کیا ان اعمال کا ثواب ان مُردوں تک پہنچتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی خوش ہوتا ہے، جب اسے کھجور کا طبق ہدیہ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی قبر کی زیارت کی اور قبر کے پاس یٰسین شریف پڑھی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
ایصال ثواب کا منشا عموماً یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میت سے عذاب میں تخفیف کردیتے ہیں یا دور فرمادیتے ہیں، کبھی میت کے درجات کی بلندی یا میت پر شفقت وترحم ہوتا ہے، کبھی اس کا مقصد والدین کی طاعت ہوتا ہے اور کبھی میت کے حق کی ادائیگی یااس کے احسان کا بدلہ دینا ہوتا ہے۔ اور ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہو۔ یہ سب دینی مقاصد ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں، جیسے حدیث شریف میں آیاہے کہ جو شخص قبرستان گیا اور یٰسین شریف پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس دن مردوں سے عذاب میں تخفیف کرتے ہیں اور مُردوں کی تعداد کے برابرپڑھنے والے کو اجر دیتاہے۔ بہرحال ایصال ثواب ایک شرعی مقصد ہے۔
تنبیہ: میت کو نفع پہنچانے اورپہنچنے کے ذرائع میں سے ولد صالح کااپنے والدین کے لیے دعا کرنا یا دوسرے اشخاص کا میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی ایصال ثواب کے حکم کلی شرعی میں داخل ہے، جیساکہ مذکورہ احادیث میں اس کا ذکر صراحتاً موجود ہے۔
ایصال ثواب کے مختلف طریقے
ایصال ثواب چاہے مالی عبادت کے ذریعہ ہو، جیسے صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا (یا پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا) یا بدنی عبادت سے ہو، جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وذکر واعتکاف اور طواف یا نفل حج یا عمرہ ایسے عمل کے ذریعہ ہو جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا نہر کھدوانا (آج کل بورنگ کردینا) یا پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کرنا یا اولاد کو دینی تعلیم دلانا وغیرہ ان سب چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراس سے میت کو خوشی وراحت ملتی ہے۔
پس فرائض کے سوا ہر نیک عمل سے چاہے کرتے وقت مُردوں کی طرف سے نیت کی ہو یا کرکے اس کا ثواب بخشا جائے اور ثواب چاہے کسی خاص میت کو بخشے یاتمام مومنین کو اور چاہے عمل کرنے والا تنہا کرے یا چند افراد مل کر انجام دیں ہر طرح مُردوں کو نفع پہنچانا درست اور ثابت ہے؛ بلکہ زندوں کو بھی ثواب بخشنا درست اور جائز ہے۔ الاصل اَنَّ کلمَن اَتی بعبادةٍ مّا أی سواء کانت صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو قراء ةً أو ذکرًا أو طوافًا أو حجًا أو عمرةً ․․․ جمیع أنواع البر (شامی وبحر) الافضل لمن یتصدق نفلاً اَن ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من أجرہ شیء ھو مذھب أھل السنة والجماعة (شامی) اصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی قسم کی عبادت کرے خواہ نماز ہو یاروزہ یا صدقہ یاقرأت قرآن یا ذکر یا طواف یا حج یا عمرہ․․․․ ہر طرح کی نیکیوں کا ثواب پہنچانا درست ہے اور ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے؛ اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔ فھذہ الآثار وما قبلھا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وھو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللہ بہ مبلغ التواتر(فتح القدیر صفحہ۱۴۲:۳) علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ احادیث و آثار بکثرت ہیں طوالت کی وجہ سے ہم نے ترک کردیا، ان سب سے قدر مشترک ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص کسی بھی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور نفع دے گا یہ بات یقینی ہے۔
ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن
قرآن پاک کی تلاوت چاہے انفرادی طور پر ہو یا کسی جگہ اکٹھے ہوکر دونوں طرح صحیح اور مستحسن ہے۔ تلاوتِ قرآن کی اصل غایت تو رضائے الٰہی ہے؛ لیکن دوسرے مقاصد خیر کے لیے بھی قرآن کریم کا پڑھنا احادیث وآثار سے ثابت ہے؛ چنانچہ ایصال ثواب کے لیے جو ایک شرعی مقصد ہے، قرآن کریم کا پڑھنا خیرالقرون کے زمانہ سے جاری اور صحابہٴ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ان لکل شیء قلب وقلب القرآن یسین فاقروٴہا علی موتاکم ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، قرآن پاک کا دل سورئہ یٰسین ہے، پس اسے مردوں پر پڑھا کرو؛ اس لیے میت کے لیے یٰسین شریف پڑھنا اور پڑھوانا دونوں درست ہے۔ (فتح القدیر) محی السنہ امام نووی اپنی کتاب ”التبیان فی آداب حملة القرآن“ میں انصار مدینہ کا ایک معمول نقل کرتے ہیں الأنصار اذا حضروا عند المیت قروٴا سورة البقرة․ انصار مدینہ جب میت کے پاس حاضر ہوتے تو سورئہ بقرہ پڑھا کرتے تھے۔ مشہور شارحِ مشکوٰة ملا علی قاری جلیل القدر تابعی امام شعبی کا قول نقل کرتے ہیں کانت الأنصار اذا مات لھم المیت اختلفوا الی قبرہ یقروٴن القرآن (مرقات صفحہ ۱۹۸:۴) علامہ ابن القیم نے بھی اپنی کتاب ”الروح/۹۳“ میں امام شعبی کا قول ذکر کیا ہے، یعنی انصار میں جب کسی کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر جاتے اور قرآن پڑھتے تھے۔ اس سلسلہ میں مختلف احادیث وآثار ذکر کرکے ملا علی قاری لکھتے ہیں الأحادیث المذکورة وھی ان کانت ضعیفة فمجموعھا یدل علی أن لذلک اصلاً وان المسلمین ما زالوا فی کل عصر ومصر یجتمعون ویقروٴن لموتاھم مِن غیر نکیر فکان ذلک اجماعًا یعنی میت کے ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن کی مذکورہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں؛ مگر مجموعہ دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل موجود ہے؛ چنانچہ مسلمان ہر زمانہ اور شہر میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی میت کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، پس عملاً یہ اجماع ہوگیا۔ (مرقات، ص:۱۹۹:۴) اور جب خیرالقرون؛ بلکہ ایک جماعت صحابہ سے اس کا ثبوت موجود ہے، تو پھر ایصال ثواب کے لیے اجتماعی قرأتِ قرآن کو بدعت نہیں کہا جائے گا؛ البتہ اگر خلاف شرع کسی پابندی کے ساتھ کیا جائے تو پھر ممنوع کہلائے گا۔
مروّجہ قرآن خوانی کا حکم فتاویٰ کی روشنی میں
عوام میں پائی جانے والی قرآن خوانی کئی پابندیوں اور لازم کیے ہوئے امور کے ساتھ ہوا کرتی ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل خیرالقرون میں نہیں ملتی، ایسی خلاف شرع پابندی اور التزام والی قرآن خوانی قابل ترک ہے، اس میں شرکت بھی ممنوع ہے۔
(۱) امام ربّانی فقیہ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: ”ثواب میت کو پہنچانا بلا قید وتاریخ وغیرہ اگر ہوتو عین ثواب ہے اور جب تخصیصات اور التزامات مروّجہ ہوں تو نادرست اور باعث مواخذہ ہوجاتاہے“ (فتاویٰ رشیدیہ)
(۲) حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری مفتی اعظم گجرات تحریر فرماتے ہیں: رسم ورواج کی پابندی اور برادری کی مروت اور دباؤ کے بغیر اور کوئی مخصوص تاریخ اور دین معین کیے بغیر اور دعوت کا اہتمام اور اجتماعی التزام کے بغیر میت کے متعلقین، خیرخواہ اور عزیز واقرباء ایصال ثواب کی غرض سے جمع ہوکر قرآن خوانی کریں تو یہ جائزہے ممنوع نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۳۸۹/۱)
(۳) حضرت مولانا سیدزوّار حسین نقشبندی اپنی کتاب ”عمدة الفقہ“ میں لکھتے ہیں: قرأت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلاکراہت جائز ہے؛ جبکہ پڑھنے والے اجرت پرنہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔ (عمدة الفقہ،ص:۵۳۶/۲)
(۴) حضرت فقیہ الامت مفتی اعظم ہند مفتی محمودحسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامدا ومصلیا ”افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں؛ لیکن زور سے پڑھیں تب بھی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۵/۱) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ایصال ثواب میں نہ تاریخ کی قید ہے کہ شب برأت ۱۵/شعبان، ۱۰/محرم اور ۱۲/ربیع الاوّل ہو۔ نہ ہیئت کی قید ہے کہ چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جائے یا کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ دی جائے۔ نہ سورتوں وآیتوں کی تخصیص ہے کہ قل اور پنج آیات ہو اورنہ کسی اور قسم کی قید ہے یہ سب قید ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے، صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۰۶/۱ قدیم)
(۵) حضرت مفتی احمد بیمات خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامداً ومصلیاً۔ جب کسی دن یا تاریخ کو لازم نہ کیاجائے کھانے پینے کا مستقل انتظام نہ کیا جائے نیز اسے ایسا ضروری اور لازم نہ سمجھا جائے کہ اس قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر طعن و تشنیع کی جائے تو بغرض ایصال ثواب جائزہے؛ اس لیے کہ ایصال ثواب کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب (فتاویٰ فلاحیہ، ص:۴۰۸/۱)
قرآن خوانی میں خلاف شرع امور سے احتراز
حدیث و فقہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کے لیے مالی عبادتوں کا طریقہ زیادہ نفع بخش ہے کہ اس سے عام انسان کو بھی نفع ہوتا ہے اور میت کو بھی اجر وثواب پہنچتا رہتا ہے؛ البتہ قرأت قرآن (قرآن خوانی) کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے، تو پھر فقہ وفتاویٰ کی روشنی میں چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
(۱) قرآن پڑھنے یا پڑھوانے پراجرت مقرر نہ کی جائے اورنہ اجرت لی جائے۔ بہت سے علاقہ میں قرآن خوانی کرانے والے حافظ وغیرہ سے کم یا زیادہ پڑھنے پر معاوضہ کی پیش کش کرتے ہیں اور کبھی پڑھنے والے خود ہی معاوضہ طے کرتے ہیں اور بعض مرتبہ بغیر طے کیے ہدیہ کے نام پر دیا جاتا ہے؛ چونکہ قرآن خوانی کرانے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ دینا ہوگا اور پڑھنے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ ضرور ملے گا؛ اس لیے یہ نذرانہ (ہدیہ) بھی جسے مجلس کے بعد پیش کرنے کا رواج ہے اجرت کے مشابہ ہے؛ لہٰذا یہ سب صورت ناجائز ہے اور اس طرح پڑھنے پر اجر وثواب نہیں ملتا ہے، تو ایصال ثواب کیسے ہوگا؟
(۲) قرآن خوانی میں شرکت کرنا برادری مروت کے دباؤ یا بدنامی کے ڈر سے نہ ہو اسی طرح قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر کوئی طعن وملامت نہ کیا جائے۔ قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے عموماً برادری مروت کی وجہ سے بیٹھتے ہیں، کبھی قرآن خوانی کرانے والوں کے طعن وملامت سے بچنے کے لیے شریک ہوتے ہیں، ایسی قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ کسی غریب ومسکین اور مستحق کی حاجت ضروریہ پوری کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جائے۔
(۳) انتقال کے بعد قرأت قرآن کے لیے دنوں کی تخصیص نہ ہو جیسے تیسرے دن اور دسویں دن میں قرآن خوانی کرنا پھر چالیسویں دن میں کرنا پھر سال پورا ہونے پرکرنا۔ عوام کے نزدیک یہ تیجہ، چہلم اور برسی وغیرہ ایسے متعین ہیں کہ ذرا بھی اس میں خلاف نہیں کیاجاتا، اسی طرح قرآن خوانی کے لیے تاریخ متعین نہ ہو مثلاً ۲۷ویں رجب، ۱۵ویں شعبان، دسویں محرم، ۱۲ویں ربیع الاوّل وغیرہ۔ اگر دن یا تاریخ کے التزام کے ساتھ قرآن خوانی کی جاتی ہے تو پھر یہ شرع کے خلاف ہے، اس میں شرکت ممنوع ہے؛ بلکہ اسے بند کرنے کی سعی کی جائے۔
(۴) خاص ہیئت کے ساتھ، خاص سورتیں اور خاص آیتوں کے پڑھنے کو ضروری قرار نہ دیا جائے جیسے کھانا سامنے رکھ کر چاروں قل اور پنج آیات پڑھ کر ایصال ثواب کرنا؛ کیونکہ ثواب کا پہنچنا اس طریقہ پر موقوف نہیں ہے، اگر اس طرح کیا جائے گا تو یہ طریقہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابل ترک ہوگا۔
(۵) مجلس قرآن خوانی کے بعد شریک ہونے والوں کو کھلانا یا پلانا یا شیرینی تقسیم کرنے کا التزام نہ ہو۔ عام طور سے قرآن خوانی کے بعد کم از کم شیرینی (یعنی کوئی بھی میٹھی چیز پھل یا مٹھائی یا نان خطائی وغیرہ) تقسیم کرنے کو لازم سمجھتے ہیں اور بعض مرتبہ شریک ہونے والے اگر شیرینی تقسیم نہ کی جائے تو طنز کرتے ہیں، یہ دونوں صورتیں غلط ہیں اور قابل اصلاح ہیں۔
(۶) قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے کا مقصد شہرت وتفاخر یا دنیوی جاہ ومنصب کاحصول ہے یا قرآن پڑھوانے والا خود ہی شہرت وتفاخر کے لیے کررہاہے تو یہ بھی جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں دونوں فریق قابل موٴاخذہ ہیں ثواب تو کہاں ملے گا؟
حاصل یہ کہ کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے شریعت میں مختلف طریقے ہیں، کسی بھی طریقہ پر عمل کیا جاسکتا ہے؛ البتہ ایسا طریق اختیار کیا جائے تو بہتر ہے جس سے عام لوگوں کو تادیر فائدہ حاصل ہوتا رہے اورمیت کو بھی اس کا اجر وثواب پہنچتا رہے اور ختم قرآن کرنا یا کم از کم یٰسین شریف پڑھنا یا پڑھوانا بھی درست ہے، شرط یہ ہے کہ خلاف شرع قید وپابندی نہ ہو چاہے مسجد میں ہو یا گھر میں۔ زمانہٴ سلف سے اس کا معمول جاری ہے؛ چنانچہ مدارسِ دینیہ میں بھی کسی شخصیت کے انتقال پر اگر قرآن خوانی ہوتی ہے تو وہ مذکورہ قیود وپابندیوں سے خالی ہواکرتی ہے؛ اس لیے ایسی پاکیزہ قرآن خوانی کے جائز؛ بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اکابر علمائے دیوبند اور اسلاف کے واقعات میں اس کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے صاحب زادے ریاست دکن کے قاضی مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی کا جب انتقال ہوا، اس وقت برصغیر کے سیکڑوں مدارس میں؛ جبکہ ہزاروں کبار علماء موجود تھے، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ (تفصیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کی سالانہ روئداد ملاحظہ ہو) لہٰذا بعض اہل علم کا ایصال ثواب کے لیے مطلقاً اجتماعی قراٴت قرآن کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
البتہ خواہش پرستوں نے اِس عمل صالح میں مختلف پابندیاں لگادی ہیں، جو شرع کے خلاف ہیں اور عوام میں ایسی ہی قرآن خوانی کا رواج چل رہاہے اور لوگ ان پابندیوں کے نبھانے کو ضروری سمجھتے ہیں اس لیے احادیث وفتاویٰ کی روشنی میں ایسی مروّجہ قرآن خوانی قابلِ اصلاح ہے۔ دین کا صحیح فہم رکھنے والے سنجیدہ اور بااثر حضرات کو چاہیے کہ خلاف شرع امور سے اپنے علاقے کے لوگوں کو روکنے کی جدوجہد فرمائیں۔
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:100 ، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء