از: مولانادبیر احمد قاسمی    

استاذ مدرسہ اسلامیہ شکرپور، بھروارہ، ضلع دربھنگہ (بہار)

قرآن مجید علوم ومعانی کا ایک بے کراں سمندر ہے، اس کے حقائق و معانی کی گرہ کشائی اور اسرار وحکم کی جستجو وتلاش کا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب یہ نبی آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا؛ لیکن آج تک کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ اس نے اس بحرعلم وحکمت کی تمام وسعتوں کو پالیاہے۔

انسانی تحقیقات جتنی بھی حیران کن اور ذہن وعقل کو مبہوت اور ششدر کردینے والی ہوں، ایک خاص مدت کے بعد ان کی آب وتاب اور چمک دمک ماند پڑجاتی ہے؛ لیکن یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس کے معارف و حقائق اور علوم وحکمت کی جدت وندرت پر امتدادِ زمانہ کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

مسلمان مصنّفین نے لغات، تاریخ، اصول، احکام اور دوسری بے شمار جہتوں سے قرآن کی جو خدمت انجام دی ہے، تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اس خدمت میں عرب ومصر، بلخ ونیشاپور، سمرقند وبخارا اور دنیا کے دوسرے بلاد وممالک کے مصنّفین اور اصحابِ علم نے جہاں حصہ لیا وہیں برصغیر ہندوپاک کے علماء بھی اس کارِ عظیم میں ہرقدم پر ان کے دوش بہ دوش اور شانہ بہ شانہ رہے۔

برصغیر کے علماء کی قرآنی خدمات کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی مصنفات کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔

علماء ہندوپاک نے قرآنی موضوعات پر اردو زبان میں جہاں بہت سی بیش قیمت کتابیں تالیف کی ہیں، وہیں انھوں نے اس موضوع پر عربی زبان میں بھی نہایت گراں قدر علمی ذخیرہ چھوڑا ہے۔

علماء ہندوپاک کی قرآنی خدمات میں ایک اہم نام تفسیرمظہری کا ہے، یہ حضرت مرزا مظہرجان جاناں کے خلیفہ اجل قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تالیف ہے؛ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے اور دس جلدوں پر مشتمل ہے۔

قاضی ثناء اللہ صاحب: مختصر حالات

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ۱۱۴۳ھ میں پیداہوئے، انھوں نے جس خاندان میں آنکھیں کھولیں وہ علم وفضل کا گہوارہ تھا، ان کے پیش رو بزرگوں میں سے متعدد منصبِ قضا کی زینت رہ چکے تھے، ان کے بڑے بھائی مولوی فضل اللہ ایک بلند پایہ عالم دین اورنیک صفت بزرگ تھے، وہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے فیض یافتگان اوراس سلسلے کے اونچے بزرگوں میں سے تھے۔

قاضی صاحب کا سلسلہٴ نسب حضرت شیخ جلال الدین کبیر اولیاء چشتی کے واسطے سے حضرت عثمان غنی تک پہنچتا ہے۔

قاضی صاحب کی شخصیت میں شروع ہی سے وہ اوصاف نمایاں تھے جو ان کے تابناک اور روشن مستقبل کا پتہ دے رہے تھے۔

محض سات برس کی عمر میں انھوں نے حفظ قرآن مکمل کرلیا تھا، سولہ سال کی عمر میں وہ ظاہری علوم کی تحصیل سے فارغ ہوچکے تھے، اس کے علاوہ علماءِ محققین کی کم وبیش ساڑھے تین سو کتابیں اس مدت میں ان کے مطالعہ سے گزرچکی تھیں۔

دوسال تک انھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کے حلقہٴ درس میں شریک رہ کر فقہ وحدیث کی تکمیل کی۔

ابھی ظاہری علوم کی تحصیل سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ باطنی احوال کی اصلاح کی فکر دامن گیر ہوئی، نظر انتخاب حضرت شیخ الشیوخ شاہ عابدسنامی پر پڑی، ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔

حضرت شیخ کی توجہِ کامل اور قاضی صاحب کے صفائے باطن کا یہ اثر تھا کہ وہ سلوک کی منزلیں نہایت تیزی سے طے کرنے لگے اور نہایت تھوڑی مدت میں روحانیت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔

اس کے بعد انھوں نے حضرت شاہ عابد ہی کے حسب ہدایت حضرت مرزا مظہر جان جاناں سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا، حضرت مرزاصاحب کافیض اس وقت پورے ملک میں جاری تھا اور ہزاروں تشنگانِ حق اس چشمہٴ ہدایت سے سیراب ہورہے تھے۔

مرزا صاحب کے فیض تربیت نے ان کو بہت جلد تپا کر کندن بنادیااور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ظاہری علوم سے فراغت اور طریقہٴ نقشبندیہ کی خلافت حاصل کرنے کے بعد خدمتِ دین اور اصلاحِ خلق کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔

مرزا صاحب قاضی صاحب کو بے حدعزیز رکھتے تھے، ان کو قاضی صاحب سے کس درجہ تعلق خاطر تھا او روہ ان کے علمی اور روحانی کمالات کے کس درجہ معترف ومداح تھے، اس کا اندازہ ان کے درج ذیل اقوال سے لگایاجاسکتا ہے!

مرزا صاحب فرماتے ہیں: ”میری نسبت اور ان کی نسبت علوِمرتبہ میں مساوی ہے․․․․ وہ ظاہری اور باطنی کمالات کے اجتماع کی وجہ سے عزیز ترین موجودات میں سے ہیں، وہ صلاح وتقویٰ اور دیانت کی مجسم روح ہیں۔“

حضرت شاہ غلام علی فرماتے ہیں: ”مجھے خود حضرت کی زبانی سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ اگر قیامت کے دن خدا نے مجھ سے پوچھا کہ تم میری درگاہ میں کیا تحفہ لائے ہو، تو میں عرض کروں گا ”ثناء اللہ پانی پتی“۔

قاضی صاحب جہاں تصوف و سلوک میں اعلیٰ مقام کے حامل تھے، وہیں وہ ظاہری علوم میں بھی امامت واجتہاد کے مرتبہ پر فائز تھے، ان کا تصوف ان کے علم سے مغلوب نہیں ہوا اور نہ اعمالِ تصوف ان کے ذوق علم ومطالعہ میں کمی پیدا کرسکے۔

حضرت شاہ غلام علی فرماتے ہیں: ”حضرت قاضی زبدئہ علماءِ ربانی اور مقربِ بارگاہِ یزدانی ہیں، عقلی ونقلی علوم میں انھیں کامل دسترس ہے، فقہ اور اصول میں وہ مجتہد کے مرتبہ پر فائز ہیں۔“

حضرت شاہ عبدالعزیز ان کو ”بیہقی وقت“ کہا کرتے تھے۔

حضرت مرزا مظہر جان جاناں سے انھوں نے ”عَلَم الہدی“ کا لقب پایا تھا۔

قاضی صاحب خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے فقہ، حدیث اور تفسیر میں رائے صائب عطا فرمائی ہے۔“

قاضی صاحب کے علمی متروکات ان کی تیس سے زائد کتابیں ہیں، جن میں بیشتر اب تک غیرمطبوعہ ہیں، ان کتابوں کے خطی نسخے شاہ ابوالحسن زیدفاروقی لاہور پاکستان کے کتب خانہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

تفسیرمظہری

یوں تو قاضی صاحب کی تمام کتابیں معلومات وحقائق کا مرقع اور علوم ومعارف کاگنجینہ ہیں؛ لیکن ان کی کتابوں میں جو شہرت اور مقبولیت تفسیر مظہری کو حاصل ہوئی وہ ان کی کسی اور کتاب کو نہیں حاصل ہوئی۔

ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ اس تفسیر کی ان خصوصیات کا جائزہ لیں گے، جس نے اس کو خاص و عام ہر دو طبقہ میں شہرت ومقبولیت عطا کی ہے۔

مسائل فقہیہ

عربی زبان میں ایسی متعدد تفسیریں لکھی جاچکی ہیں، جن میں فقہی رنگ بہت نمایاں ہے، جصاص کی ”احکام القرآن“ اور امام قرطبی کی ”الجامع لاحکام القرآن“ اس سلسلے کی بہت مشہور کتابیں ہیں۔ اوّل الذکر تفسیر میں تو خاص طور پر ان ہی آیات کی تفسیر کی گئی ہے جن سے فقہی مسائل واحکام مستنبط ہوتے ہیں۔

 تفسیرمظہری میں فقہی احکام جس کثرت سے ذکر کیے گئے ہیں کہ اگر ان سب کو بھی فقہی ترتیب پر جمع کردیا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ احکام القرآن کے موضوع پر ایک نہایت وقیع اور قیمتی کتاب تیار ہوجائے گی۔

قاضی صاحب نے اس تفسیر میں نہ صرف یہ کہ فقہی مسائل کثرت سے ذکر کیے ہیں؛ بلکہ انھوں نے ائمہٴ فقہاء کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کو بھی ذکر کیا ہے، ان کے استدلال کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مسلکِ راجح کی ترجیحی وجوہات پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔

نمونہ کے لیے یہاں چند مثالیں قلم بند کی جاتی ہیں:

غلام کے لیے اپنے آقا سے طلب کتابت کن شرائط کے ساتھ جائز ہے، اس سلسلے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض علماء اس کے لیے عقل اور بلوغ کی شرط لگاتے ہیں، ان کا استدلال اس آیت سے ہے ”والذین یبتغون الکتاب مما ملکت أیمانکم فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرًا“ (سورة النور، آیت۳۳) وہ فرماتے ہیں خیرًا سے مراد یہاں عقل اور بلوغ ہے۔

قاضی صاحب اس استدلال پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: طلبِ کتابت جس کاذکر اس آیت کے شروع میں ہے، اسی وقت ممکن ہے؛ جب کہ غلام اس کی اہلیت یعنی عقل ودانائی ہو، اگر غلام غیر عاقل ہو تو اس کی طرف سے طلبِ کتابت سرے سے غیرمعتبر ہوگی؛ لہٰذا جب یبتغون الکتاب کے ضمن میں اس شرط کا ذکر پہلے آچکا تو خیرًا سے بھی عقل ودانائی ہی مراد لینا تکرار اور اعادہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

بلوغ کی شرط کا جہاں تک ذکر ہے تو وہ اس لیے ضروری نہیں کہ نابالغ سمجھدار غلام سے بھی طلبِ کتابت کا تحقق ہوسکتا ہے۔

قاضی صاحب کے فقہی استنباطات نہایت لطیف ہیں جو ان کی فقہی بالغ نظری اور بصیرت کے غماز ہیں۔ سورہٴ معارج کی آیت الاعلی أزواجھم أو ماملکت أیمانھم (سورة المعارج، آیت۳۰) کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عورت کا اپنے مملوک غلام سے تعلق جسمانی قائم کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ لفظ علی بتارہا ہے کہ مالک مملوک کے مقابلے میں برتر اور اعلیٰ ہے، لہٰذا اگر عورت اپنے غلام سے جسمانی تعلقات قائم کرے گی تو یہ فرق ختم ہوجائے گا؛ کیوں کہ فاعل اعلیٰ ہوتا ہے۔

بالائے قدم (پازیب وغیرہ کی جگہ) ستر میں شامل ہے، قاضی صاحب اس کے شامل ستر ہونے کو قرآن کی اس آیت سے ثابت کرتے ہیں ”ولا یضربن بأرجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن“ (سورہ النور، آیت۳۱) فرماتے ہیں: پازیب وغیرہ مخفی زینتیں ہیں، ان کا چھپانا جب اس آیت کی رو سے واجب اور ضروری ہے تو محل پازیب کا چھپانا تو بدرجہٴ اولیٰ ضروری ہوگا۔

استئذان کی جملہ صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی کے گھر کے باہر خاموشی سے اس کے اندر سے نکلنے کا انتظار کیاجائے، نہ داخلہ کی اجازت طلب کی جائے اورنہ اس کو آواز دی جائے۔

حضرت ابن عباس ایک انصاری صحابی کے پاس طلبِ حدیث کے لیے جاتے اور خاموشی سے ان کے گھر سے باہر نکلنے کا انتظار کرتے۔ یہ واقعہ مذکورہ مسئلہ کی دلیل ہے۔ حضرت قاضی صاحب فرماتے ہیں: آیتِ قرآنی ”ولو أنھم صبروا حتی تخرج الیھم لکان خیرا لھم“ (سورة الحجرات۵) کو بھی اس مسئلہ کی دلیل قرار دیا جاسکتا ہے۔

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز ابتداء فرض تھی۔ بعد میں اس کی فرضیت آپ کے حق میں باقی رہی یا نہیں اس سلسلے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ بعد کے ایام میں تہجد کی فرضیت آپ سے ساقط کردی گئی تھی۔ قاضی صاحب کا استدلال آیتِ ذیل سے ہے ”ومن اللیل فتجھد بہ نافلة لک“ (سورة الاسراء۷۹)

فرماتے ہیں اگر بعد کے دور میں تہجداسی طرح آپ پر فرض باقی رہتا تو لک کے بجائے علیک کہاجاتا۔

اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ نمازِ تہجد تو تمام امت کے لیے نفل ہے؛ لہٰذااگر اس کو نبی کے حق میں بھی نفل ہی قرار دیا جائے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ خاص اس کے ادا کرنے کاحکم دیناکوئی معنی نہیں رکھتا؛ کیونکہ تہجد کی ادائیگی سے جہاں عام لوگوں کے گناہ دھلتے ہیں وہیں یہ حضراتِ انبیاء کے لیے ترقی درجات کا ذریعہ ہے؛ کیونکہ انبیاء خطاؤں اور لغزشوں سے پاک ہوتے ہیں۔

بلاخوفِ تامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس تفسیر میں فقہی رنگ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس کے موٴلف کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی اعتدال کی راہ نہیں چھوڑتے، گروہی عصبیت یا مسلکی تعصب کا شائبہ ان کی تحریروں میں نظر نہیں آتا؛ اس لیے باوجودے کہ قاضی صاحب مذہب حنفی کے شارح اور ترجمان تھے؛ لیکن بہت سے مقامات پر انھوں نے ائمہٴ ثلاثہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے۔

احادیث کا بہ کثرت ذکر کرنا

کون نہیں جانتا کہ حدیث وسنت کلامِ الٰہی کی شرح اور اس کے اجمال کی تفصیل ہے؛ لیکن اس کے باوجود ایسی تفاسیر کم نظر آتی ہیں جن میں احادیث وروایات بہ کثرت ذکر کی گئی ہوں اور آیت کی تشریح روایت سے کی گئی ہو۔

تفسیر مظہری کا یہ خاص امتیاز ہے کہ اس میں نقل روایت کا کثرت سے اہتمام کیاگیا ہے، قاضی صاحب نے فقہی احکام، تصوف وسلوک کے مسائل، فضائل سور وآیات اور فضائل تسبیحات واذکار وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بہ کثرت روایات نقل کی ہیں؛ بلکہ عام مفسرین کی روش سے ہٹ کر بہت سی احادیث کے صحت وضعف پر محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کی روشنی میں بحث بھی کی ہے۔

امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہر قسم کے غلہ پھل اور سبزی میں زکوٰة واجب ہے، امام شافعی کے نزدیک صرف اس پیداوار میں زکوٰة واجب ہے جس میں غذائیت ہے، ان کے نزدیک سبزیوں میں کسی قسم کی زکوٰة نہیں ہے، ان کی دلیل حضرت معاذ کی یہ روایت ہے: ”کھیرا، ککڑی، خربوزہ، تربوزہ، انار، گنا اور سبزیاں معاف ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں زکوٰة معاف کردی ہے“۔

قاضی صاحب اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ”اس حدیث کی روایت میں ضعف بھی ہے اور انقطاع بھی، اس کے راویوں میں سے اسحاق اور ابن نافع ضعیف ہیں، یحییٰ بن معین کاقول ہے کہ نافع کچھ نہیں، اس کی حدیثیں نہ لکھی جائیں، امام احمد اور امام نسائی نے اس کو متروک الحدیث قرار دیا ہے۔

قاضی صاحب نے اس مقام پر شافعی کے مسلک کی موید متعدد حدیثیں مختلف طرق سے نقل کی ہیں اور ان روایتوں کے ضعف پر نہایت تفصیل سے کلام کیاہے۔

تصوف وسلوک کے مسائل

قاضی ثناء اللہ صاحب کی شخصیت علمی اور روحانی کمالات کی جامع تھی۔ جیساکہ ان کے حالات میں گزرچکا ہے وہ ایک بلند پایہ محدث، بالغ نظر فقیہ اور باکمال مفسر ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ باطن اور نیک صفت بزرگ بھی تھے، انھوں نے ظاہری علوم کی تحصیل کے ساتھ اپنے بزرگوں سے اخلاق و تصوف کا درس بھی لیا تھا، تصوف میں انہماک اور اپنے شیخ اور مرشد سے غایت درجہ عقیدت ومحبت ہی کا یہ اثر تھا کہ انھوں نے اپنی اس معرکة الآرا تفسیر کو اپنے شیخ کی طرف منسوب کیا۔

اس کتاب میں انھوں نے جہاں دوسرے مسائل ذکر کیے ہیں، وہیں اس میں انھوں نے تصوف کے انتہائی دقیق مسائل اور باریک نکات بھی ذکر کیے ہیں، یہاں اس کی بس ایک مثال کافی ہوگی!

صوفیاء کرام فرماتے ہیں: سالک کو فناء قلب کا مقام مشائخ کے توسط کے بغیر نہیں حاصل ہوسکتا، قاضی صاحب آیت قرآنی تعرج الملٰئکة والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین ألف سنة (سورة المعارج، آیت۴) کے ذیل میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سالک کو فناء قلب کا مقام اسی وقت حاصل ہوگا جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشائخ کے واسطے سے محبتِ الٰہی کا فیضان اسے حاصل ہو۔ مشائخ کے واسطے کے بغیر اگر وہ صرف عبادات وریاضات کے ذریعہ فناءِ قلب کا مقام حاصل کرنا چاہے تو اسے پچاس ہزار سال تک ریاضت ومجاہدہ کرنا ہوگا، ظاہر ہے کہ جب دنیا کا اس قدر طویل مدت تک باقی رہنا محال اور ناممکن ہے تو کسی ایک فردِ بشر کا اتنے لمبے عرصہ تک زندہ رہنا کیسے ممکن ہوسکتاہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت اور فناءِ قلب کا مرتبہ اس وقت تک نہیں حاصل ہوسکتا؛ جب تک کہ شیخ کے توسط سے فیضان الٰہی کی کشش حاصل نہ ہو، ان افراد کو براہِ راست روح کے توسط سے یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے انھیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے کی ضرورت پڑتی ہے۔“

اپنے شیخ ومرشد حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے ارشادات وملفوظات بھی انھوں نے جگہ جگہ نقل کیے ہیں، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، امام یعقوب کرخی وغیرہ اکابر صوفیاء کے ارشادات کو بھی انھوں نے متعلقہ آیتوں کے ذیل میں تفصیل سے نقل کیا ہے۔

اس تفسیر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں تصوف وسلوک کے بہت سے مسائل کو احادیث اور آیات سے مدلل کرکے بیان کیاگیا ہے۔

صوفیا کے افکار ونظریات پر ہونے والی تنقیدات کا بھی اس میں انھوں نے نہایت تحقیق کے ساتھ جواب لکھا ہے۔

اس موضوع پر ان کا سب سے قیمتی اور مشہور ومتداول رسالہ ”ارشاد الطالبین“ ہے اس کے علاوہ دو رسالے اور انھوں نے اس موضوع پر تحریر کیے ہیں۔

(۱) رسالہ ”احقاق در رد اعتراضات شیخ عبدالحق محدث برکلام حضرت مجدد“ یہ رسالہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ان اعتراضات کے جواب میں لکھا گیا ہے جو حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے حضرت مجدد کے کلام پر کیے تھے۔

(۲) ”رسالہ درجوابِ شبہات برکلامِ امامِ ربانی“ اس رسالہ میں بھی انھوں نے حضرت مجدد کے معارف کی تحقیق کی ہے اور ان شبہات اور اشکالات کو رفع کیاہے جو ان کے کلام پر وارد کیے گئے ہیں۔

قاضی صاحب کے تصوف کی خاص بات یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط سے پاک ہے، وہ قرآن کو تصوف کے تابع کرنے کے قائل نہ تھے، انھوں نے کتاب وسنت سے تصوف کومدلل کرنے کی کوشش کی؛ اس لیے ان کا نظریہٴ تصوف ان نظریات کی آمیزش سے پاک ہے جو شریعت اسلامی کی روح سے غیر ہم آہنگ ہیں۔

قاضی صاحب صوفیاء کے اقوال کی تشریح اور قرآنی آیات سے اس کی تطبیق کے دوران آیت کے اصل الفاظ اور اس کے سیاق و سباق پر ہمیشہ نگاہ رکھتے ہیں اور نظمِ قرآنی، آیت کے سیاق وسباق اوراندازِ عبارت سے سرمو انحراف نہیں کرتے۔

ذیل میں ہم چند ایسی مثالیں نقل کرتے ہیں جن سے ان کے علمی اور تحقیقی مزاج اور کمال احتیاط کا پتہ چلتا ہے۔

ھل ینظرون الا أن یأتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملٰئکة وقضي الأمر (سورة البقرة، آیت۲۱۰)

آیت بالا کی تفسیر میں اہل السنة والجماعة کی متفقہ رائے تفصیل سے نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ان جیسی آیات کی تفسیر میں اہل سلوک کا مسلک کچھ اور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ بلاکیف، اس کا صفاتِ جسمیہ اور حدوث کی علامات سے پاک ہونا تفصیل سے لکھنے کے بعد اپنا کلام اس پر ختم کرتے ہیں۔

”ان حقیقتوں کا ادراک اہل دل اور اصحابِ ذوق حضرات ہی کرسکتے ہیں، جنھوں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے وہ اس کی صحیح تعبیر سے قاصر ہیں، یہ چیزیں جب لوگوں کے سامنے بیان کی جاتی ہیں تو ان کی عقل حیران وششدر رہ جاتی ہے اور معنی مرادی کے علاوہ کچھ اور سمجھ لیتے ہیں؛ لہٰذا ایسی چیزوں میں سکوت لازم ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور اللہ ورسول کے علاوہ کسی کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ ان آیات کی تفسیر اپنی طرف سے کرے۔“

فخذ أربعة من الطیر فصرھن الیک ثم اجعل علی کل جبل منھن جزئًا ثم ادعھن یاتینک سعیًا الخ (سورة البقرة، آیت۲۶۰)

قاضی صاحب نے اس مقام پر پہلے آیت کی تفسیر میں عطاء بن رباح، حضرت ابن عباس اور عطا خراسانی وغیرہ کا قول نقل کیا ہے، پھر اس کے بعد أربعة من الطیر کی حکمت، مقامِ فنا اور مقامِ بقاء کی تشریح، مذکورہ پرندوں کے خصوصی اوصاف اور ان کی حکمت پر خالص صو فیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر انھوں نے جوبات کہی ہے وہ ان کے معتدل نقطئہ نظر کی پوری عکاسی کرتی ہے۔ فرماتے ہیں: ”وھذہ کلمات من أھل الاعتبار لامدخل لھا فی التفسیر“

یہ صرف اہلِ تصوف کی حکمت آفرینیاں ہیں، تفسیر آیت سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

تنقید وتجزیہ

کسی بھی فن کے ماہرین کے اقوال اس فن میں مرجع واستناد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ اس لیے متاخرین کی کتابوں میں ان کا مذکور ہونا ناگزیر ہے۔ قاضی صاحب نے بھی اس تفسیر میں ائمہ فن کے اقوال جگہ جگہ نقل کیے ہیں؛ لیکن انھوں نے ان اقوال کے نقل کردینے پر ہی صرف اکتفا نہیں کیا ہے؛ بلکہ نہایت تحقیق اور گہری بصیرت کے ساتھ ان کے تمام پہلوؤں کاجائزہ بھی لیا ہے، جن اقوال میں انھیں کمزوری کا کوئی پہلو نظر آیا اس پر انھوں نے تنقید کی ہے اور مسلکِ راجح کو اختیار کیاہے۔

آیتِ قرآنی ”أولٰئک الّذِین ھدی اللہ، فبھداھم اقتدہ“ (سورة الانعام) کی تفسیر میں قاضی بیضاوی تحریر فرماتے ہیں کہ ”ہداہم“ سے مراد عقیدئہ توحید اور دین کے وہ اصول ہیں جو تمام شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ اس سے فروعی مسائل مراد نہیں ہیں؛ کیونکہ فروعی احکام میں تو انبیاء میں اختلاف ہے؛ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گذشتہ تمام انبیاء کی شریعتوں پر چلنے کا حکم دیاگیا اور آپ گذشتہ شرائع کے مکلف تھے۔

قاضی صاحب نے علامہ بیضاوی کے اس قول کو ذکر کرنے کے بعد درجِ ذیل الفاظ میں اس پر تنقید کی ہے:

”تمام انبیاء امرِ خداوندی کے مکلف تھے، اگر گذشتہ شریعتوں کے فروعی احکام کو بذریعہ وحی منسوخ نہیں کیاگیاتھا تو ان فروعی احکام کی تعمیل بھی سب کے لیے ضروری تھی اور اگر وحی متلویا وحی غیر متلو کے ذریعہ سابق فروعی احکام کو منسوخ کرکے جدید احکام نازل کیے گئے تو اب ان جدید احکام کی تعمیل لازم ہے، غرض یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام گذشتہ شریعتوں کے فروعی احکام پر بھی عمل کے پابند تھے بشرطیکہ جدید شریعت میں ان کو منسوخ نہ کردیاگیا ہو۔“

فقہ واصول، تفسیر وحدیث، ادب وبلاغت، فلسفہ وکلام، نحو وصرف، غرض علومِ عالیہ یا علومِ آلیہ میں سے کوئی ایسا علم نہیں ہے جس پر موٴلف کی گہری نظر نہ ہو؛ اس لیے اس کتاب میں قرآنی آیات کی تفسیر کے ضمن میں جگہ جگہ ان علوم کے دقیق اور باریک مسائل کا ذکر بھی ملتا ہے اور ان کی عمدہ تحقیق اور تنقید بھی۔ صاحبِ مدارک اور امامِ بیضاوی نے سورة الزمر کی آیت ”والّذی جاء بالّصدق وَصَدَّقَ بہ أولٰئک ھم المتّقون“ (الزمر۳۳) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تقاضائے عربیت یہ ہے کہ جاء اور صدّق کا فاعل ایک قرار دیا جائے، یعنی جو اس قرآن کو لے کر آیا اسی نے اس کی تصدیق کی کیوں کہ اگر صدّق کا فاعل اس کو قرار نہ دیا جائے جو جاء کا فاعل ہے تو اسمِ موصول الّذی یہاں محذوف ماننا پڑے گا، جو کہ جائز نہیں ہے یا فاعل کی ضمیر محذوف ماننی ہوگی جب کہ مرجع مذکور نہیں ہے۔

قاضی صاحب اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

”صاحبِ مدارک اور بیضاوی نے یہ کیسے لکھ دیا کہ موصول یعنی الّذی کو صدّق سے پہلے محذوف ماننا جائز نہیں ہے۔ کلبی، قتادہ، ابوالعالیہ اور مقاتل جیسے ائمہ تفسیر نے تو وہی بات لکھی ہے جو ہم نے پہلے ذکر کی۔ موصول کے حذف کیے جانے کی مثال حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعر ہے

أمن یھجوا رسول اللہ منھم        ویمدحہ ویَنْصُرُہ سواء

کیا ان میں سے وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو اور (وہ شخص جو) آپ کی تعریف کرتاہے اور آپ کی مدد کرتا ہے برابر ہوسکتے ہیں۔

مثالِ مذکور میں دوسرے مصرعہ میں من اسمِ موصول محذوف ہے۔

تفسیر مظہری پر کرنے کے کام

اس میں شبہ نہیں کہ اس تفسیر کو عوام وخواص ہردوطبقہ میں بے حد مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی، اس کے سہل اسلوب نگارش طرز بیان کی سادگی، حسن ترتیب اور جامعیت کی وجہ سے تمام لوگوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ بعض دوسری جہتوں سے اس سے اسی قدر بے توجہی بھی برتی گئی۔

ہندوپاک سے اب تک اس کے متعدد اردو عربی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں؛ لیکن اس کا کوئی بھی ایڈیشن ان خصوصیات سے مزین نہیں ہے جس سے قاری کے لیے استفادہ کی راہ آسان ہوتی ہے۔

اردو زبان میں میری معلومات کے مطابق اب تک اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں : اس کا پہلا اردو ترجمہ ندوة المصنّفین نے شائع کیاتھا، یہ ترجمہ تشریحی ہے اور بہت سے ضروری اضافات پر مشتمل ہے، بعض مقامات پر تعلیقات اور حواشی بھی درج ہیں؛ لیکن ان خوبیوں کے ساتھ اس میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ آغاز کتاب میں نہ کوئی پیش لفظ اور مقدمہ ہے اور نہ کتاب اور صاحب کتاب کا کوئی تعارف ہے۔

اس کا دوسرا اردو ترجمہ حال ہی میں ملک کے مشہور اشاعتی ادارے فرید بک ڈپو نے شائع کیاہے، یہ ترجمہ پہلے ترجمہ کے مقابلے میں کسی قدر لفظی ہے؛ البتہ کتاب کے اس ایڈیشن میں مآخذ کی نشان دہی اور روایات کی تخریج کردی گئی ہے۔

لیکن اس تفسیر پر کرنے کے بہت سے کام ابھی بھی باقی ہیں۔

جس جامعیت کے ساتھ اس میں فقہی احکام کا احاطہ کیاگیا ہے اس کی نظیر کم از کم علماءِ ہند کی لکھی ہوئی تفسیروں میں نہیں ملتی ہے، ضرورت ہے کہ ان تمام احکام اور مسائل کو فقہی ترتیب وتبویب کے ساتھ ایک مستقل کتاب میں جمع کیا جائے، جہاں تعلیقات اور حواشی کی ضرورت ہو وہاں حواشی لکھے جائیں، فقہی عبارتوں کے حوالے لکھے جائیں اور احادیث وآثار کی تخریج کی جائے۔

یہ کتاب اگرچہ بہت سی خصوصیات اور خوبیوں کی جامع ہے اور بعض جہتوں سے منفرد اورامتیازی شان کی حامل ہے؛ لیکن اب تک عالم عرب میں اس کا کماحقہ تعارف نہیں ہوسکا ہے، اس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس سے ناواقف اور اس کے فوائد علمیہ سے محروم ہے؛ بلکہ یہ عدمِ واقفیت کتاب کی علمی خدمت اور جدید طرز پر اس کی طباعت کی راہ میں بھی حائل ہے۔

ایڈٹنگ اور تحقیق وتخریج کاکام کرنے والے حضرات اگر اس جانب متوجہ ہوں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔

اس وقت جبکہ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کی غیرمعمولی ترقی اور سی ڈی وانٹرنیٹ کے فیض عام نے ماضی کے اندوختوں کی بازیافت اور جدید طرز پر اس کی تہذیب وتنسیق اور تخریج کے کام کو بہت حد تک آسان بنادیا ہے اس میں یہ کام زیادہ فرصت طلب اور فراغت ویکسوئی کا متقاضی بھی نہیں ہے۔

——————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد:100 ‏، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء

Related Posts