حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
ملت اسلامیہ ہند کے بچوں کا تعلیم و تحصیل کے اعتبار سے اگر تجزیہ کیا جائے تو بلا مبالغہ تیس فیصد بچے ایسے ملیں گے جنھوں نے زندگی میں اسکول یا مکتب کا منھ تک نہ دیکھا ہوگا، باقی ستر فیصد میں پینسٹھ فی صد بچے اسکول، کالج وغیرہ عصری تعلیم گاہوں کا رخ کرتے ہیں جن میں تقریباً نصف یا اس سے کچھ زائد میٹرک اور ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے بہ چند وجوہ تعلیمی مشغلہ کو خیر باد کہہ کر گھر لوٹ آتے ہیں، بس لگ بھگ تیس فیصد ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑی درسگاہوں تک پہنچتے ہیں۔ بقیہ مشکل سے چار پانچ فی صد بچے دینی مدارس میں داخل ہوتے ہیں پھر ان میں ایک تعداد ایسے بچوں کی ہوتی ہے جن کے والدین اپنی معاشی کمزوری کی بنا پر عصری تعلیم گاہوں کے بارِ گراں کے متحمل نہیں ہوتے؛ اس لیے انھیں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، وغیرہ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں، جہاں سے فارغ ہوکر وہ طبّی جامعات یا ایسی یونیورسٹیوں میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں مدارس کی سند پر داخلہ مل جاتا ہے، جو اسی مقصد و ارادہ سے مدارس دینیہ میں داخلہ لیتے ہیں۔
یہ مسلم بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کا ایک سرسری نظری تجزیہ ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش سے انکار نہیں؛ لیکن غیر معمولی تفاوت یقینا نہیں ہوگا۔ اس تجزیاتی تفصیل کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ بہی خواہان ملت اور دانشوران قوم سب سے پہلے ملت کے ان تیس فیصد نونہالوں کی فکر کرتے جو پرائمری اسکول کی تعلیم تک سے نابلد ہیں اور ان اسباب و عوامل کا پتہ لگاتے جن سے مجبور ہوکر ان کے والدین انھیں علم و ہنر سے آراستہ کرنے کی بجائے ان پڑھ اور جاہل رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں پھر اپنے فکر و عمل کو بروئے کار لاکر ان رکاوٹوں کو دور کرکے ان بچوں کو اسکول تک پہنچانے کی سعی مشکور کرتے، پھر دوسرے مرحلہ میں ان تیس چالیس فیصد مستقبل کے متوقع معماروں کو اپنی مخلصانہ توجہ کا مرکز بناتے جو منزلِ مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے ان وجوہ و اسباب کی تشخیص و تعیین کی جاتی جن سے متاثر ہوکر ہمارے مستقبل کے یہ متوقع معمار اور روشن چراغ بڑی حد تک راستہ طے کرلینے کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ کھوبیٹھتے ہیں، پھر دانشورانہ جدوجہد سے انھیں ایسا سازگار ماحول مہیا کیا جاتا کہ راہ کی تکان محسوس کیے بغیر وہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے۔
لیکن نہ جانے کیوں اس منطقی ترتیب کو پس انداز کرکے قوم کے بہی خواہوں اور دانشوروں کی تمام تر فکری و قلمی توانائیاں ان چارپانچ فیصد بچوں کے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے کی تجویزوں پر صرف ہورہی ہیں جو دینی درسگاہوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اب اسے قوم کی محرومی بلکہ بدقسمتی سے تعبیر نہ کیا جائے تو پھر کیا کہا جائے کہ ہمارے وہ ستّر فیصد نونہال جو تعلیمی تربیت گاہوں سے دور ہوکر در در کی ٹھوکریں کھاتے پھررہے ہیں وہ تو اپنے ہمدردوں و بہی خواہوں کی نگاہ التفات سے یکسر محروم رہیں اور ان کی ساری توجہات کا مرکز وہ چار پانچ فیصد بچے بن جائیں جو بلاشبہ تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں ع
میں ادھر تھا منتظر کرم کہ نگاہ ناز ادھر پڑی
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آپ کسی ہندی یا اردو اخبار کو اٹھالیجیے آپ کو اس میں کسی نہ کسی دانشور مفکر قوم کا آرٹیکل، مراسلہ یا تقریر کا اقتباس دینی مدرسوں کی اصلاح سے متعلق ضرور پڑھنے کو مل جائے گا؛ چنانچہ ابھی چند ہفتے گذرے ہیں کہ ملک کے ایک عظیم عصری دانش گاہ کی عظیم ترین شخصیت نے بھی مدارس کی جدید کاری کے نام سے موجودہ مدارس کی خدمات کو بے وقعت بلکہ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں حائل خلیج ٹھہرایا ہے۔ گویا ان کی نظر میں قوم مسلم کی زبوں حالی اور زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی پس ماندگی کے تمام تر ذمہ دار یہی قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور ان کی درسگاہیں ہیں، قوم کے بہی خواہ ان دانشوروں میں بعض تو اپنی تہ داریوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اشارے کنائے میں اور بعض اپنی ظفرمندیوں کے زعم بیجا میں کھل کر مدارس دینیہ اور ان میں پڑھنے پڑھانے والے طلبہ و اساتذہ کو قوم و ملت پر بوجھ ہونے کا طعنہ دینے میں کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتے اور ملت کو اس بار گراں سے سبکدوش کرنے اور قوم کو فلاح کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بے چین ہیں کہ ان دینی درسگاہوں کو کم از کم نیم عصری تربیت گاہوں میں تبدیل کردیا جائے؛ تاکہ ملت کے نونہال یکسو ہوکر تہذیبِ نو سے پورے طور پر فیض یاب ہوسکیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم معاشرہ کو اپنی تمدنی زندگی کے لیے اگر انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر اور سائنسداں کی احتیاج ہے جس کا حصول عصری تعلیم گاہوں کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے، تو کیا مسلم معاشرہ کو اپنے دین و مذہب کی بقاء اور حفاظت کے لیے علوم شریعت کے حاملین اور اسلامی تعلیمات کے ماہرین کی ضرورت نہیں؟ رب کائنات کے اس فرمان کے مطابق ”فَلَولاَ نَفر مِن کُلِ فِرقَةٍ مِنھم طَائِفةٌ لِیَتَفَقّھُوا فی الدِین وَلِینذِروا قومَھم اذا رجَعُوا لَعَلَّھُمْ یَحذَرُوْنَ“ اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو اسلامی تعلیمات و احکام کی ماہر ہو، اور کون نہیں جانتا کہ جماعتِ مسلمین کے اس اجتماعی فریضہ کو یہی اسلامی علوم کے مراکز انجام دے رہے ہیں۔ اور بغیر کسی تردد کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس لادینی اور سیکولر اسٹیٹ میں اسلامی شعار و آثار کے محافظ و نگراں یہی دینی مدارس ہیں ، انھیں کی جدوجہد اور سعی و عمل سے ہمارا مذہبی تشخص اور دینی ورثہ جو اپنے آباء و اجداد سے نسلاً بعد نسلٍ ہم تک پہنچا ہے غیروں کی دست وبرد سے محفوظ ہے۔ مدارس کا یہی کردار اسلام دشمن طاقتوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ اسلامی تعلیمی اداروں کو ان کے اصلی کردار سے محروم کردینے کے لیے یورپ و امریکہ کی زیر سرپرستی بین الاقوامی سطح پر مہم جاری ہے، مدارس دینیہ اور ان کے خدام، ان دین مخالف طاقتوں کے الزام بیجا اور ستم ناروا کو جھیلتے ہوئے اپنی وسعت و طاقت کے مطابق تحفظ دین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ ایسے حالات میں جبکہ اسلام، اسلامی تعلیمات و روایات، اور ان کے علمی و ثقافتی اداروں پر ہر طرف سے پیہم حملے ہورہے ہیں ہمارے ان بہی خواہوں اور ملت کے دانشوروں کا مدارس اسلامیہ کی اصلاح و تہذیب کے نام پر یہ موجودہ قلمی جہاد بے وقت کی شہنائی ہے یا بت سحر آفریں کی کارفرمائی۔ خدا ہی بہتر جانے۔
بگولے اس لیے منڈلارہے ہیں میرے مدفن پر
کہ یہ دھبہ بھی کیوں باقی رہے صحرا کے دامن پر
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:100 ، رجب1437 ہجری مطابق مئی 2016ء