از: مولانا معین الدین سیدپور، ننفاماری، بنگلہ دیش
”مسدّس حالی“ خواجہ الطاف حسین حالی کی شہرہ آفاق اور لافانی نظم ہے، جس میں انھوں نے مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستان بڑے درد انگیز انداز میں بیان کی ہے اور مسلمانوں کو عمل پر ابھارنے کی کوشش کی ہے، جناب ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ”مسدّس حالی ۱۸۷۹ء کی تصنیف ہے اور یہ اردو میں پہلی طویل قومی نظم ہے، جس میں مسلمانوں کی مذہبی، تہذیبی اور علمی زندگی کا ارتقا دکھایا گیا ہے، ظہور اسلام اور مسلمانوں کے زوال کی کہانی باہم شیروشکر ہوگئی ہے۔ نظم کا مقصد ایک طرح سے قومی بیداری اور اس ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ کرنا مقصود ہے، جو معاشی اور اخلاقی تنزّل کی وجہ سے ظہور میں آ یا ہے، اس کے لیے شاعر نے ان تمام عیوب اور کمزوریوں کو انتہائی موثر اور درد انگیز طریقہ سے بیان کیا ہے۔ اس کا مقصد احساس زیاں کو بیدار کرنا تھا اور مسلمانوں کی پستی کا علاج بھی۔“ جب کہ خود خواجہ الطاف حسین حالی نے مسدس کے بارے میں یوں وضاحت کی ہے کہ ”اس مسدس کے آغاز میں پانچ سات بند تمہید کے طور پر لکھ کر عرب کی ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے، جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا تھا، پھر کوکب اسلام کا ظہور ہونا اور نبی اُمّی کی تعلیم سے اس ریگستان کا سرسبز وشاداب ہوجانا اوراس ابررحمت کا ہرا بھرا چھوڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی ودنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ان کے تنزّل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لیے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ بنایا ہے جس میں آکر وہ اپنے خدوخال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہوگئے۔“
اردو میں اگرچہ مسدّس کسی الگ صنف سخن کی حیثیت نہیں رکھتی، تاہم یہ اردو شاعری کا اہم جز ہے، عربی اور فارسی شاعری میں مسدّس کاوجود نہیں ہے؛ لیکن اردو میں حالی کے مدوجزر اسلام اور شکوہ وجواب شکوہ چونکہ اس طرز میں لکھا گیا ہے، لہٰذا نظم کی اس صورت کو کافی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔
مسدّس چھ مصرعوں والی نظم کو کہتے ہیں، اس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ اس کے پہلے چار مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اورآخری شعر کسی اور قافیہ میں آتا ہے۔ مسلسل واقعات، یعنی قومی، سیاسی اور اخلاقی موضوعات کی ادائیگی کے لیے مسدّس نہایت موزوں صنف ہے۔
مسدّس حالی اوراس کی خدمات: اردو ادب میں بہت سی کتابیں معرض وجود نہیں آئی ہیں، ان میں بیشتر نظم اور متعدد نثر سے وابستہ ہیں؛ لیکن بہت کم کتابیں ایسی ہیں جنھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے تاج سے نوازا گیا ہو، اگر اس قسم کی تصنیفات کا شمار کیا جائے تو حالی کی ”مدوجزرِ اسلام“ ایک اہم مقام پائے گی۔ اس کے پیش کردہ خیالات لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں؛ بلکہ اکثر اشعار آج بھی زبان زد خاص ہیں، اگرچہ اس کا پہلا دیباچہ ۱۲۹۶ھ اور دوسرا دیباچہ ۱۳۵۳ھ میں مرتب ہوا اور اس کی اس بات کو ایک عرصہ گذر چکا ہے؛ لیکن آج بھی اس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
مسدّس حالی کی شہرت عام کا راز: جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ مسدّس حالی اردو ادب کی ایک مایہ ناز تصنیف ہے، یہ کتاب اور اس کے پیش کردہ خیالات دراصل اس عہد کا تقاضہ تھے اور مولانا حالی نے مسدّس لکھ کر پورا کیا۔
یہ ایک لازمی بات ہے کہ جب کسی تلخ حقیقت کا برملا اظہار کیا جاتا ہے تو اس حقیقت کے پسِ پردہ کام کرنے والوں کو سخت دُکھ اور کرب ہوتا ہے؛ لیکن اس حقیقت کی اثرانگیزی سے انکار نہیں کیا جاتا۔ یہی حال اس عہد کا تھا۔ حالی نے عرب کے بدووں کے حالات اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد ہندوستان کے بے عمل علماء کی بھی نقاب کشائی کی ہے۔ مذہب فروش علماء اور پیروں کی قلعی کھول کے رکھ دی۔ جھوٹی اور نکمّی شاعری کو زہرِہلاہل سے موسوم کیا، حتیٰ کہ مسلمان معاشرہ کا کوئی ایسا طبقہ نہ تھا، جس کی خامیوں اور خرابیوں کو بروائے کار نہ لایاگیا ہو۔ اس حقیقت نے دل پر اثر کیا اور حالات نے ایک نیارُخ اختیار کیا، لہٰذا اس سلسلہ میں مسدّس کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کا محرومیِ اقتدار: مسدّس حالی دراصل ایک آئینہ ہے، جس میں ہم اس عہد کے مسلمان طبقہ کی تصویر دیکھ سکتے ہیں؛ کیوں کہ مسلمانوں کا آفتاب غروب ہوچکا تھا، سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہوچکا تھا، اب مسلمان ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بنا پر انگریزوں کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے تھے، برگزیدہ افراد کو چُن چُن کر ختم کیا جارہا تھا، کل جن لوگوں کے قدموں کی خاک ٓانکھوں کے لیے سُرمہ کی حیثیت رکھتی تھی بقول میر تقی میر ع
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
مسلمان اقتدار کے تخت سے نیچے آن پڑا تھا، اس صدمہ کو برداشت کرنا، اس کے بس کا روگ نہ تھا، لہٰذا وہ ذہنی توازن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے؟ اس کشمکش میں اس کے دن اور رات گذررہے تھے، ایسے حالات میں مسلمانوں کو اس کی تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے ہمّت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا؛ بلکہ صبر وقناعت اور ہمّت سے کام لے کر اپنی نئی راہیں متعین کیں، اس مقصد کے لیے سرسید احمد خان نے خواجہ الطاف حسین حالی کو مسدّس لکھنے کو کہا۔ اس مسدّس نے مسلمانوں کو ان کی تباہی وتنزّل کے اسباب سے آگاہ کیا اور یہ بتایا کہ اس قسم کے حادثہ سے انھیں کیوں کر دوچار ہونا پڑا اور اب انھیں کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؛ لہٰذا اب یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ”مسدّس حالی “ ایک ایسی انگشتری ہے جس میں اس عہد کے واقعات کے نگینے جڑے ہیں۔یہ نظم ایک ایسا جامِ جم ہے جس میں ہم اس عہد کے مسلمانوں کو ماتم کناں دیکھتے ہیں اور ہمارا دل بھی ان کی حالت پر رقت سے بھر آتا ہے۔ اس بنا پر اگر” مسدّس حالی“ کو اس عہد کی مبسوط تاریخ کہا جائے تو چنداں بے جانہ ہوگا۔ لہٰذا کسی ایسی اہم تاریخی دستاویز کو نظرانداز کرنا کسی قوم کے لیے ممکن نہیں، بس یہی صورت حال ”مسدس حالی“ کی ہے۔
مسدّس حالی ایک مرثیہ ہے: جب کسی قوم پر ادبار اور آزمائش کی گھڑی آتی ہے تو شعراء و ادباء اُن کو اپنے الفاظ کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں، قومیں تباہ ہوئیں، لیکن ان کے شعراء اور ادباء آگے بڑھے، قوم کے ساتھ مل کر آنسو بہائے اور اس قدر بہائے کہ آنسو خشک ہوگئے۔ صرف اس لیے کہ ان کی قوم گریہ وزاری میں نہ لگی رہے؛ بلکہ تعمیری تدابیر اختیار کرکے بغداد کی تباہی میں شیخ سعدی علیہ الرحمہ کی طرح خاموش نہ رہ سکے۔ انھوں نے تباہی بغداد پر ماتم کیا، ابن ابیر نے کلیجہ چھلنی کرڈالا، ابن بدروں نے اندلس کی تباہی پر آنسوؤں کے دریا بہادیے؛ اسی مقصد کی خاطر حالی نے قومی مرثیہ لکھا ۔ خود بھی رویا اور دوسروں کو بھی رُلایا، گویا مُسدّس آنسوؤں کا پہلا قطرہ تھا جو شاعر کے حسّاس دل سے آنکھوں کی راہ سے ٹپکا اور تمام قوم کو رُلایا اور جگایا۔
مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی تاریخ: ”مسدس حالی“ ایک تاریخ ہے، جس میں مسلمانوں کو ان کی عظمت گذشتہ سے آگاہ کیاگیا ہے، مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے قابلِ فخر کارناموں سے آشناکیا اور انھیں بتایا کہ ان کا ماضی کتنا روشن اور شاندار تھا، تمام اقوام ِعالم ان کے سامنے مات کھا گئیں، وہ ہمت وحوصلہ کے سہارے آگے بڑھے اور نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک پھیل گئے، ان کے پاس عقیدئہ محکم، درست کردار اور حسین کارنامے تھے، اسی وجہ سے وہ دنیا پر چھاگئے، اس مقصد کی خاطر حالی نے تمام واقعات کو ایک زنجیر کی کڑیوں کی صورت دی ہے، سب سے پہلے اسلام سے پہلے عربوں کی سیاسی، اخلاقی اور مذہبی حالت کا ذکر حضور صلى الله عليه وسلم کی ولادت، نبوت ورسالت اور نُسخہٴ کیمیا کا اثر، مسلمانوں کی فتوحات، علوم میں ترقی اور عظیم تعمیرات اور آثار کا ذکر سلسلہ در سلسلہ کیاہے تاکہ کوئی کڑی ایک دوسرے سے الگ نہ ہونے پائے، ان تمام باتوں کے ذکر کا مقصد مسلمانوں کی آنکھوں سے مایوسی اور ناامیدی کی پٹیاں کھولنا تھا، مسلمانوں نے جب اپنی عظمت رفتہ کی داستان سُنی تو ان کی آنکھوں میں امید اورہمّت کی چمک آگئی اور دوبارہ وہ نئے ارادے اور توقعات لے کر اُٹھ بیٹھے، یہ سب ”مسدّس حالی“ کا اثر تھا۔
قومی تاریخ ایک آئینہ: جناب خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی مُسدّس میں مسلمان قوم کی تیرہ چودہ سو سالہ زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، کس طرح اس قوم نے سطحِ ارضی پر ایک نیا مقام حاصل کیا، اقوام عالم کی نگاہیں خیرہ کر دیں، اسی طرح ہندوستان میں مسلمان قوم کا عروج، مسلمان سلطنت کا قیام، اسلام کا بول بالا اور اس کے جملہ تعلقات پھر اس قوم کے اِدبار کا زمانہ، آفتابِ اقبال کا غروب، یعنی تمام واقعات کو سلسلہ وار بیان کیاگیا ہے؛ تاکہ مسلمانوں کو اپنی عظمتِ رفتہ کا احساس ہوسکے اور وہ دوبارہ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے آگے قدم بڑھائیں۔
حوصلہ وہمّت کی نئی راہیں: حالی نہ صرف قوم کی کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے؛ بلکہ قوم کا حوصلہ بھی بڑھایا ہے اور اسی مقصد کی خاطر ”ضمیمہ“ لکھا گیا ہے۔ اس سے پہلے اختتام میں محض مایوسی اور ناامیدی تھی، جو قوم کے لیے بہتر نہ تھی؛ لہٰذا خواجہ نے ۱۳۵۳ھ میں مسدّس میں ”ضمیمہ“ کا اضافہ کیا اور قوم کو نئے حوصلے اور بلند عزائم کی راہیں دکھلائیں۔
بس اے نا امیدی نہ یوں دل بجھا تو جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو فسردہ دلوں کے دل آخر بڑھا تو
تیرے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں
جل کھیتیاں تونے سرسبز کی ہیں
حالی کے اس انداز نے مایوس اور بے حس قوم میں زندگی پیدا کی اور ان کو نئے حوصلے دیے، اس سے قوم کے سامنے ترقی کی نئی منزلیں متعین ہونے لگیں۔ شاعر نے اپنے کو اس بات کا احساس دلایا کہ اگر شکار آسان نہ ہوتو گھوڑے کو سرپٹ دوڑانا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر انسان نے بھاری بوجھ اٹھارکھا ہو تو بیل کو تیز ہانکنا ضروری نہیں ہے، لہٰذا اگر زمانہ ہم سے زور آزماہے تو کوئی بات نہیں، یہی تو حقیقت ہے کہ جس میں اپنا زور دکھانے کا وقت ہے، اس وقت جو لوگ کام کریں گے، اس سے انھیں خود اور ان کی قوم کو بھی فائدہ پہنچے گا، لہٰذا شاعر کہتا ہے۔
تمھیں مشکلیں اپنی آساں کروگے تمھیں درد کا اپنے درماں کروگے
تمھیں اپنی منزل کا ساماں کروگے کروگے تمھیں کچھ اگر یاں کروگے
چھپیا دست ہمّت میں زور قضا ہے
مثل ہے کہ ہمّت کا حامی خدا ہے
مسدّسِ حالی کا ادبی اور فنّی پہلو: مسدّس حالی نہ صرف مضمون اور مواد کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے؛ بلکہ اعلیٰ ادبی اور فنّی خصوصیات کا حامل بھی ہے، سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ حالی نے قومی تاریخ کے لیے مسدّس کوکیوں منتخب کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں کربلا اور اہلِ بیت کے واقعات کے اظہار کا بہترین ذریعہ مُسدّس سمجھا جاتا تھا۔ اس طرز میں غم والم کی داستانیں سُنا سُنا کر لوگوں کو رُلایا جاتا تھا؛ چونکہ حالی ہی حقیقتاً قوم کا مرثیہ بھی لکھ رہے تھے، لہٰذا انھوں نے مُسدّس کو اس مقصد کے لیے موزون ترین صنف تصوّر کیا اور اسی کو اپنایا۔
فنّی لحاظ سے مثنوی محض رزم وحزن کے واقعات کے لیے مخصوص ہوچکی تھی، لہٰذا ممکن نہ تھا کہ اس کے ایک ایک شعر میں تاریخ کے علاحدہ واقعات کا ذکر کیا جاتا۔ بنا بریں حالی نے مُسدّس کو اپنایا، اس کے ہربند میں الگ الگ واقعات کے تذکرہ کی گنجائش تھی،اس میں تمام واقعات سامع پر کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جس سے ہرقاری صحیح نتیجہ اخذ کرسکتا ہے۔
مسدّس حالی اور سلاست زبان: روانیِ الفاظ اور برجستگی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ الفاظ بالکل سیدھے سادھے ہیں، ناجائز مبالغہ سے پرہیز کیاگیاہے، لمبی چوڑی تشبیہات اور استعارات سے بھی گریز کیاگیاہے؛ لیکن اس کے باوجود تمام نظم رقتِ قلب، وفورِ جذبات اور جوشِ بیان سے بھرپور ہے اور یہی اس کی عمدگی ہے۔
اردو شاعری پر اثر: خواجہ الطاف حسین حالی کی اس نظم نے نہ صرف مسلمان قوم کو خوابِ خرگوش سے جگایا؛ بلکہ اردو شاعری کو بھی نئی منزلوں اور بلند مقاصد سے آگاہ کیا، یہ مُسدّس اردو زبان کی پہلی نظم ہے، اس نے اردو شاعری کے دھارے کو موڑدیا، اس سے اردو شاعری کا نیادور شروع ہوتا ہے، اِسے الہامی نظم کہاجاسکتا ہے، مُسدّس سے اردو میں قومی اور وطنی نظموں کی بنیاد پڑی، یہ نظم زوالِ اسلام کی کہانی ہی نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کے تنزّل کا مرثیہ بھی ہے، اس کے ساتھ مسلمانوں کو عظمتِ رفتہ کا احساس دلاکر کچھ کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اس نظم نے مسلمانوں کے لیے بانگِ جرس کا کام کیا ہے، حالی نے مُسدّس میں تمام قومی اچھائیوں اور بُرائیوں کا جائزہ لیا ہے اور اس میں خلوص اور شاعرانہ دردمندی ہے، فنّی اعتبار سے مُسدّس میں کچھ ایسی خوبیاں ہیں جو آج کے دور کی شاعری کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی ہیں، زبان کی سادگی، سلاست، دور ازکار تشبیہوں اور استعاروں سے پرہیزایسی چیزیں ہیں،جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، اس نظم میں حقیقت نگاری، سادہ بیانی اور اثرانگیزی کے تمام عناصر موجود ہیں، جس سے اعلیٰ درجہ کی نظم تخلیق ہوتی ہے۔ مُسدّس سے قومی شاعری کا آغاز ہوتا ہے، جس کی آخری کڑی علامہ اقبال کی قومی اور ملّی شاعری ہے۔ اس نظم کی ایک اور بڑی خوبی اس کا تسلسل ہے؛ اس لیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام نظم ایک ہی وقت، ایک ہی مجلس میں ختم کی گئی ہے؛ کیونکہ نظم میں کوئی بے ربطی دکھائی نہیں دیتی۔ سرسید احمد خاں کی طرح حالی کو بھی مسلمانوں کی زبوں حالی اور تباہی وبربادی کا بڑا غم ہے۔ عظمتِ رفتہ کی یاد ان کو بے چین کردیتی ہے، اسی جذبہ نے انھیں مُسدّس لکھنے پر مجبور کیا اور ان کی مشہور دعا کا پہلا مصرعہ ہے۔ع
”اے خاصہٴ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے!“
اسی قومی درد کی ترجمانی کرتا ہے۔
لیے علم وفن ان سے نصرانیوں نے کیا کسب اخلاق روحانیوں نے
ادب ان سے سیکھا اصفہانیوں نے کہا بڑھ کے لبیک یزدانیوں نے
ہر اک دل سے رشتہ جہالت کا توڑا
کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا
مُسدّس آج بھی عوام میں اسی طرح مقبول ہے جیسی پہلے تھی اس کے بقائے دوام کا اندازہ جناب سرسید احمد خاں کے اس قول سے لگایاجاسکتا ہے کہ ”اگر خدا نے مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے میرے لیے کیا تحفہ لائے ہوتو، میں کہہ دوں گا کہ حالی سے مُسدّس لکھوالایا ہوں۔“
اب آخیر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے حوالے پر ختم کرتا ہوں۔ ”انیسویں صدی میں کسی شخص نے ہماری زبان وادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے، جتنے حالی نے، وہ ہماری جدید شاعری کے امام اور مجتہدہیں۔“ جبکہ پروفیسر احتشام حسین کا کہنا ہے کہ :
”خواجہ الطاف حسین کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔“
اسی طرح پروفیسر جناب رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ”مُسدّس حالی وہ شاہکار ہے، جس نے شاعری کی دنیا میں اور قوم کی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کردیا۔ حالی اگر کچھ نہ لکھتے، صرف مُسدّس ہی لکھتے تو بھی وہ بڑی شخصیت ہوتے۔“
الغرض ”مدوجزر اسلام یا مُسدّس حالی “ ایک عہد آفریں کارنامہ ہے، جس نے سرسید کی اصلاحی تحریک علی الخصوص ان کے تعلیمی پہلو کو مسلمانوں میں مقبول عام بنانے میں اہم حصّہ لیا اور جہاں تک اصلاحی تحریک کا تعلق ہے، مُسدّس حالی اس تحریک کی ہمہ گیرمقبولیت اور کامیابی کا زینہ بن گئی۔
—————–
ماخذات:
(۱) کاروان ادب: از ڈاکٹر اے وحید۔
(۲) تاریخ نظم ونثر اردو: از آغامحمد باقر۔
(۳) مختصر تاریخ ادب اردو: از ڈاکٹر اعجاز حسین۔
(۴) تذکرے وتبصرے: از پروفیسر سراج الاسلام۔
(۵) تنقیدی ادب: از پروفیسر طفیل دارا۔
(۶) اردو شاعری کا ارتقا: از پروفیسر جمیل احمد انجم۔
***
———————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 96 ، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء