از: عبید اللہ فاروق قاسمی بارہ بنکوی مدرسہ ضیاء الحرم جبری خورد، بارہ بنکی
ایشیاء کی شہرئہ آفاق دینی تعلیم گاہ دارالعلوم دیوبند کا مشہور احاطہ ”احاطہٴ مولسری“ اپنی نظیر آپ ہے، یہ احاطہ دارالعلوم کے احاطوں میں علمی اور تربیتی خدمات کے اعتبار سے سب سے فائق ہے۔
باہر سے آنے والے زائرین جب دارالعلوم کی زیارت کی غرض سے یہاں تشریف لاتے ہیں اور اس کے گوشے گوشے کو عقیدت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تو ان کے دلوں میں خوشی ومسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ذہنی اور قلبی، ایسا سکون ملتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے دنیا کو بھول جاتے ہیں؛ مگر جب اس احاطے میں قدم رکھتے ہیں تو سب سے زیادہ متاثر اسی احاطے سے ہوتے ہیں اور رُوحانی سرور اور قلبی تسکین مکمل طور پر یہیں ملتی ہے۔ اسی طرح دارالعلوم سے فارغ ہوکر جانے والے طلبہ کو ان کی یادوں، خیالوں اور خوابوں میں ستانے، تڑپانے، اور بے قرار کرنے میں اس کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔
سندِ فراغت پاکر یہاں سے رخصت ہونے والے طلبہ کو اس احاطہ کی عظمت واہمیت، ان کی اخیرسالوں کی تعلیمی سرگرمیاں، تقریر وتحریر میں حصہ لینے کے مواقع، رفیقوں کے ساتھ دل لگی،، نودرے میں ہونے والے تکرار ومطالعہ اور زمانہٴ امتحان میں شب بے داری کے واقعات ان کو دوبارہ مادرِ علمی کی زیارت پر مجبور کرتے ہیں۔
اس کی ابتداء ”باب قاسم“ سے اور انتہاء ”دارالحدیث“ پر جاکر ہوتی ہے، ”باب قاسم“ قدیم طرز کا یہ شاہکار، بلند وبالا پُرشکوہ باب الداخلہ اپنے اندر تاریخ دارالعلوم اور اس کے خلوص وللہیت کی مثال رکھتا ہے۔ یہ چند کمروں پر مشتمل ہے، کچھ حجرے طلبہ کی رہائش کے لیے، تو کچھ انتظامی امور میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تاریخی حیثیت سے کب وجود پذیر ہوا؛ اس کے بارے میں جستجو کے باوجود صحیح معلوم نہ ہوسکا؛ البتہ اس پر لگے ہوئے کتبے پر دارالعلوم کی تاسیس کی تاریخ رقم ہے، ایسا لگتا ہے کہ جب دارالعلوم کی اولین عمارتیں بننا شروع ہوئیں، انھیں میں اس کی تعمیرعمل میں آئی ہے، اس کی بالائی منزل میں دفتر محاسبی ہے، جس کے کارندے دارالعلوم کے حساب وکتاب کا کام بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں۔ یہ شعبہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ حساب بھی بذریعہٴ رسید تکمیل پزیر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی شفافیت بالکل عیاں ہے۔ طلبہٴ دارالعلوم کے وظائف اور امدادی سامان یہیں سے وصول کیے جاتے ہیں، اسی دفتر میں ترکی حکومت کی جانب سے عطا کردہ قیمتی ہدیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جُبّہٴ مبارکہ سے مس شدہ رُومال مبارک رکھا ہوا ہے، جو اس کے حسن وجمال کو دوبالا کرتا ہے، آنے والے زائرین عقیدت مندانہ جذبات سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ اس کی تاریخی حیثیت کے بارے میں رُوداد دارالعلوم ۱۳۳۲ھ میں لکھا ہوا ہے کہ ”دارالعلوم نے جنگ بلقان کے زمانے میں ترک مجروحین ومہاجرین کی انجمن ہلالِ احمر کے ذریعے ہندوستان میں قابل قدر امدادی خدمات انجام دی تھیں، اُن سے سلطان محمد پنجم بہت متاثر ہوئے؛ چنانچہ سلطان المعظم نے اپنے اس تاثر کا اظہار اس طرح فرمایا کہ دولتِ عثمانیہ کا سب سے بڑا تبرک ہدیہ یعنی جُبّہٴ مبارکہ کا غلاف دارالعلوم کو عطا فرمایا، پھر آگے اس متبرک ہدیہ کے صفاتی احوال لکھے ہوئے ہیں کہ ”یہ غلاف رومال کی شکل میں ہے، کپڑا سفید، نہایت مہین اور خوش وضع ہے، وسط میں جلی قلم سے سیاہ حروف سے یہ شعر لکھا ہوا ہے۔
نُورُ الھُدیٰ بہ تکرِیْماً صَلُّوا عَلیہ، وسَلِّمُوا تَسْلِیماً
کناروں پر ترکی زبان میں ان کے شعر لکھے ہوئے ہیں۔ (رُوداد دارالعلوم دیوبند ۱۳۳۲ھ)
گیٹ سے داخل ہوتے ہی اس کی بائیں جانب لٹکتا ہوا گھنٹہ نظر آتا ہے، جو طلباء، ارباب حل وعقد اور منتظمین کو قت کی پابندی پر اُبھارتا ہے، اس کے شمال میں دارالعلوم دیوبند کی قدیم طرز کی بنی ہوئی مسجد قدیم کے دو چھوٹے چھوٹے زینے ہیں جو مسجد میں جاکر کھلتے ہیں، انھیں زینوں کے ساتھ مسجد کا میذنہ بھی ہے، جو اذانِ بلالی کی یاد تازہ کرہے۔
اس مسجد کا سنگ بنیاد ۴/ربیع ۱۳۲۷ھ کو رکھا گیا، اس مسجد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے موسسین اور معماران شیخ الہند، حکیم مسعود صاحب خلفِ صادق حضرت گنگوہی، مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی، حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب، حافظ احمد صاحب خلف الصدق حضرت نانوتوی اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی جیسے اساطین علماء رَبّانی تھے، یہ حضرات طلباء کے ساتھ اینٹیں اور گارے اٹھانے میں شریک کار تھے، یہ روح پرور منظر تعمیرِ کعبہ کی سنتِ خلیل اللّٰہی کی ایک عقیدتی مثال ہے۔ اس کے اوصاف کے بارے میں تاریخ دارالعلوم میں لکھا ہوا ہے کہ ”مسجد کے مُسقف دو درجے ہیں، بیرونی دیواریں پتھر کی ہیں، جن پر نہایت نفیس نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، اوپرسنگ مرمر کا کتبہ نصب ہے، جس پر شیخ الہند کے اشعار کندہ ہیں، جس کے آخری مصرع ”مقرون شدہ عبادت وعلم، درمدرسہ خانقاہ دیدہ ام“ میں (۱۳۲۸ھ) سن تعمیر مضمر ہے۔ (تاریخ دارالعلوم ، ج۱،ص:۲۲۰)
پھر اس گیٹ کو پار کرنے کے بعد سامنے ایک بہت بڑا صحن ہے، جو ”احاطہٴ مولسری“ سے موسوم ہے، اس کی دائیں جانب کے بالکل کنارے پر شعبہٴ تکمیل افتاء کی درس گاہ ہے، جس کی عظمت و اہمیت سب پر ظاہر ہے۔ فقہ وفتویٰ کے حوالے سے دارالعلوم کا مسلکی مزاج، اعتدال پر مبنی ہے، اس سلسلے میں دارالعلوم ”کورانہ تقلید“ کی صرف مذمت ہی نہیں؛ بلکہ اس کا شدید مخالف ہے اور نہ آزادیٴ اجتہاد کا قائل ہے؛ بلکہ کسی نئے مسئلے کا حل قرآن وسنت اور سلف کے قائم کردہ اصولوں سے مستنبط کرتے ہیں ؛ چنانچہ اس سلسلے میں قاری محمد طیب صاحب نے بالتفصیل وضاحت فرمائی ہے، آپ لکھتے ہیں: ”غرض نہ تو وہ مجتہدین فی الدین کے بعد اجتہاد مطلق کے قائل ہیں؛ جب کہ عملاً اس کا وجود ہی باقی نہیں رہا اور نہ جنسِ اجتہاد کی کلی نفی کرکے فتاویٰ کے حقائق وعلل کے استخراج اور ان کے موٴیدات کے استنباط یا متماثل جزئیات سے جزئیاتِ وقت کے استخراج سے گریزاں ہیں؛ بلکہ تقلید کے ساتھ تحقیق کا ملا جلا رنگ لیے ہوئے ہیں ۔
(علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج ص۱۴۴)
دارالعلوم بھی اس شعبہ کا بہت قدرداں ہے، خوش نصیب طلبہ ہی اس شعبہ کی تکمیل کرپاتے ہیں، ہر سال طلبہ کی ایک بڑی جماعت ایسی ہوتی ہے، جو افتاء کی تعلیم اور فتویٰ نویسی کی تربیت حاصل کیے بغیر حسرت ویاس کے عالم میں یہاں سے چلی جاتی ہے اور تاحیات اس کا شدید قلق رہتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ کی اہمیت ہندوپاک، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے مدارس سے جاری کردہ فتووں سے بڑھ کر ہے، یہاں کے فتوے لوگوں کے دلوں میں سند کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کی رائے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے، اس حوالے سے دارالعلوم بالکل منفرد ہے، اس کی بے نظیر فقہی خدمات کا قدرے اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ۱۳۳۹ھ سے ۱۳۴۶ھ تک کے فتووں کی تعداد( ۳۷۵۶۱) ہے ؛ حالانکہ یہ تعداد صرف مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے دورِ افتاء کی ہے اس سے پہلے دارالعلوم میں فتووں کے ریکارڈ کرنے کا انتظام نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ حضرت قاری محمد طیب صاحب کے تخمینے کے مطابق صرف مفتی عزیزالرحمن نے تقریباً تین لاکھ استفتاء کے جوابات دیے ہیں۔ جب فتووں کے دفتروں کی کثرت ہوتی چلی گئی تو دارالعلوم نے ان کو ازسرنو ترتیب و تدوین کے لیے مفتی محمد ظفیرالدین صاحب رحمة اللہ علیہ کو اس کی ذمے داری سونپی، ان کی محنت وکوشش کے نتیجے میں گیارہ ضخیم جلدیں مرتب ہوئیں، جو ”فتاویٰ دارالعلوم“ کے نام سے مشہور ہیں۔ ادھر کافی عرصے سے تدوین وترتیب کا کام زیرالتوا تھا؛ اس لیے اربابِ حل وعقدنے اس کی تکمیل کے لیے ایک مستقل شعبہ بعنوان ”شعبہٴ ترتیبِ فتاویٰ دارالعلوم“ قائم کیا ہے۔ الحمدللہ یہ کام بہت تیزی سے چل رہا ہے اب تک سولہ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ نیز یہ شعبہ بھی احاطہٴ مولسری کے قریب ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم کی عظمت وعقیدت لوگوں کے دلوں میں اتنی رچی بسی ہے کہ دارالعلوم نے ۲۰۰۲ء میں جب امریکہ نے افغانستان سے جنگ کرنے کے لیے اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ٹھان لی تو اس وقت اُس نے امریکہ اور یورپ کی مصنوعات خریدوفروخت کے خلاف فتویٰ دیا، اس فتویٰ کا اثر لوگوں پر ایسا ہوا کہ انھوں نے خریدوفروخت تو درکنار، اُن اشیاء کو توڑڈالا، مسلمان (خواہ ان کا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو) خریدتے وقت اس قدر احتیاط کرتے اور یہ معلوم کرتے کہ یہ سامان امریکہ اور یوروپ کا تونہیں ہے، انھوں نے اس سوال کو بیع وشرا کا ایک جزولاینفک بنالیا تھا۔
اس فتوے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ کا اقتصادی بجٹ خسارے میں چلاگیا، اُس نے مجبوراً لوگوں کو لبھانے کے لیے نصف قیمت پر سامان بیچنا شروع کردیا، پھر دارالعلوم کے فتوے کو بے وزن کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریین نے طرح طرح سے اس کو ذلیل کیا، کبھی اس کے فتوے کو لے کر دارالعلوم کا مذاق اُڑایا، تو کبھی مسلک کو لے کر جگ ہنسائی کی، پرنٹ اورالکٹرونک میڈیا نے اس سازش کا بھرپور ساتھ دیا اور اب بھی دے رہے ہیں، چند سال قبل پیش آنے والے ”عمرانہ کیس، عورتوں کی ملازمت کرنا اور کریڈٹ کارڈ جیسے ظاہر الثبوت مسائل میں دارالعلوم کی عظمت کی پامالی، اسی ناپاک سازش کی بدنما مثالیں ہیں؛ لیکن ذاتِ الٰہی نے اس بار بھی دارالعلوم کو صہیونی پالیسیوں سے محفوظ رکھا اور اس کی عظمت میں کمی نہ آنے دی؛ البتہ اس پروپیگنڈے سے دارالعلوم کے فتووں کی افادیت پوری دنیا میں پھیل گئی، بیرونِ ممالک کے لوگوں نے بھی استفتاء کرنا شروع کیا تو دارالعلوم نے اسی احاطہ کے مشرقی جانب ”شعبہٴ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ“ قائم فرمایا، انٹرنیٹ سے روزانہ دسیوں استفتاء آتے ہیں اور ان کا جواب بذریعہٴ انٹرنیٹ دیا جاتا ہے۔ والحمد علی ذلک۔
اسی احاطے کے مشرقی جانب میں ”مولسری کا کنواں“ ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کا پانی کھینچنے والا ہینڈپائپ بھی ہے، یہ کنواں بھی ایک خوابی بشارت سے مشرف ہے، اس کی بابت تاریخ دارالعلوم دیوبندکے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ”ایک مرتبہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ دارالعلوم کا یہ کنواں دودھ سے بھرا ہوا ہے اوپر مَن تک دودھ آیا ہوا ہے کہ ہاتھ سے دودھ لے سکتے ہیں، اس کی مَن پر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں لوگ دُودھ لے کر جارہے ہیں، کوئی مشک بھر کرلیے جارہا ہے، کوئی بالٹی بھرکر، کوئی لوٹا بھر کر، کوئی پیالہ بھرکر، جس کے ہاتھ میں برتن نہیں وہ چلوبھرکر لیے جارہا ہے۔
خواب دیکھ کر میں اس کا مطلب اور تعبیر سمجھنے کے لیے منکشف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ”کنواں“ تو مدرسہ کی صورتِ مثالی ہے، دودھ ”علم“ کی صورت ہے، ذاتِ اقدس نبوی قاسم العلوم (علم کی تقسیم کنندہ) ہے اور دودھ لینے والے مدرسہ کے طلبہ ہیں (مقدمہٴ تاریخ دارالعلوم دیوبند،ص:۵۰)
یقینا انبیاء علیہم الصلاة والسلام کے منامِ مبارک کے علاوہ کسی بشر کا خواب یقینی دلیل نہیں بن سکتا، تاہم رویائے صالحہ کشف والہام اور القاء قلبی ہونے کی وجہ سے یہ خواب مُبشِّرات میں سے ہے، پھر حدیث نبوی ”مَنْ رَآني في المَنَامِ فقد رآني فِيْ الیقظة“ (شمائل ترمذی) کی وجہ سے اس کی قوت مزید بڑھ گئی۔
آپ اس کی حقیقت سے متعارف ہوچکے تو اب اس کے پانی کی تاثیر بھی مولانا مناظر احسن گیلانی کی زبانی سنتے چلیے:
فرماتے ہیں کہ ”اتنا لذیذ، اتنا خوش گوار، اتنا شیریں، صاف وسبک اور خنک پانی، میں نے اس سے پہلے نہیں پیا۔“ (احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، ص۲۴)
اب اس کے سامنے دیکھیے تو دونوں جانب مولسری کے درخت نظر آئیں گے، ان سایہ فگن درختوں نے دارالعلوم کی تاریخ اور قبل دارالعلوم کے حالات کو دیکھا ہے، نہ جانے یہ کتنی مرتبہ امت کی زبوں پرروئے ہوں گے اور بناء دارالعلوم کے وقت امت کی بازیافتگی پر مسکرائے ہوں گے۔
ان درختوں کے سائے تلے کتنے سہ روزہ، ہفتہ واری، پندرہ روزہ اور ماہ نامہ عربی، اردو، بنگلہ، آسامی اور تمل زبان میں نکلنے والے پرچے اپنا وجود برقرار رکھے ہیں، ان پرچوں کے ذریعہ طلبہ صحافت اور تصنیف کی مشق وتمرین کرتے ہیں، ان سے طلبہ کو زبان وادب کا کافی شعور بیدار ہوجاتاہے۔ کچھ شعر وشاعری میں امتیازی شان کے حامل ہیں تو بعض پرچوں کی خصوصیت جامعہ کی اخباری نشریہ کی ہے اس سے صحافتی ذوق پروان چڑھتا ہے — دیواری پرچوں کا یہ سلسلہ ”بابِ قاسم “سے شروع ہوتا ہے اور ان درختوں کے اردگرد اور قرب وجوار کی دیواروں میں آویزاں پرچوں کی بہتات ہے، ان پرچوں کے ذریعے طلبہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں، گویا یہ میدانِ صحافت کے سنگِ میل کو عبور کرنے کا پہلا قدم ہے، دیواری پرچوں کی افادیت اور دارالعلوم دیوبند کے طرز پر دیگر مدارسِ عربیہ کی نقل ومحاکات کے بارے میں مولانا نورعالم خلیل امینی (استاذ ادب عربی ورئیس تحریر مجلہ الداعی، دارالعلوم دیوبند) اپنا تاثر لکھتے ہیں کہ ”دیواری اخبارات ورسائل کی اب دارالعلوم میں بہار آئی ہوئی ہے۔ دارالعلوم میں فکر وعمل کا جو ساز چھڑتا ہے خدائے حکیم کی توفیق سے ہرمدرسے میں ناگزیر طور پر اس کی محاکات شروع ہوجاتی ہے․․․․ بقدرِ توفیق بہت سے مرکزی مدرسوں میں دیواری رسالوں کا نظام رائج ہوا اور ہورہا ہے۔ دیواری رسالوں کے ذریعے بطورِ خاص سیکڑوں؛ بلکہ ہزاروں طلبہ کی تحریر میں حسن وجمال کی قلم لگی، کتنے خوش نصیب عربی کے باکمال خطاط بن گئے، نہ صرف عربی خط؛ بلکہ مطلقاً خوش خطی کا ذدوق پروان چڑھا اور نسل نو میں عربی زبان کو ہمہ گیر پیمانے پر سیکھنے کا ولولہ بیدار ہوا۔
(مقدمہ خط رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں، ص:۸)
اب بالکل سامنے دیکھیے دو منزلوں پر مشتمل لال رنگ کی قدیمی طرز کی تاریخی عمارت نظر آئے گی، یہ عمارت نودروں پر محیط ہے، جس کو ”نودرہ“ کے نام سے ساری دنیا جانتی ہے۔ یہ دارالعلوم کی سب سے پہلی عمارت ہے، جس کی سن تعمیر۱۳۹۲ھ ہے۔ اس تاریخی منزل کے تذکرے کے بغیر تاریخ دارالعلوم ادھوری ہے، یہی وہ جگہ ہے جو کسی زمانے میں دیوبند نامی بستی کی کوڑی تھی؛ لیکن اپنے اندر دنیا کی علمی، عملی، تہذیبِ اسلامی اوراحیائے قرآن وسنت کی نشاةِ ثانیہ کا راز چھپائے ہوئے تھی، یہی وہ جگہ ہے جو مولانا محمد قاسم نانوتوی کے خواب ”کہ میں بیت اللہ کی چھت پر کھڑا ہوا ہوں اور میرے ہاتھ، پاؤں کی انگلیوں سے نہریں جاری ہیں جو اطرافِ عالم میں پھیل رہی ہیں جس کی اس دور کے بزرگوں نے یہ تعبیر دی تھی کہ آپ سے علومِ نبوت کا فیضان تمام دنیا میں جاری ہوگا تھی، یہی وہ جگہ ہے جو سیداحمد شہید کی پیشین گوئی کہ ”مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آرہی ہے“ کی حقیقت ہے۔ (مقدمہٴ تاریخ دارالعلوم)
یہی وہ جگہ ہے کہ جس کے محلِ وقوع کی تعیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس نے خواب میں فرمائی ہے، جس کو حضرت مولانا ریاست علی ظفربجنوری دامت برکاتہم نے ترانہٴ دارالعلوم میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے
ع خود ساقیِ کوثر نے رکھی میخانے کی بنیاد یہاں
اس کی تاریخی استناد اور اس کی تعمیری جائے وقوع کی تعیین کی کارگذاری بڑی دلچسپ اور ایمان افروز ہے، جس کے بارے میں قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم لکھتے ہیں کہ ”جب (نودرے کی) تعمیر کا مسئلہ سامنے آیا․․․․․ (تو) شب میں حضرت مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم ثانی دارالعلوم نے خواب میں دیکھا کہ اس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف ارزانی فرمائی، دستِ مبارک میں عصا ہے، آپ نے فرمایا کہ جو یہ بنیاد کھودی گئی ہے، اس سے صحن مدرسہ چھوٹا اور تنگ رہے گا، یہ فرماکر آپ نے جانبِ شمال دس بیس گز آگے بڑھ کر عصائے مبارک سے نشان لگایا اور ایک لانبی لکیر کھینچ دی کہ اس جگہ بنیاد کھودی جائے۔ بیدار ہوتے ہی مولانا ممدوح اس جگہ پر گئے تو لکیر کا نشان اسی طرح موجود پایا، جس طرح حضور … نے عصائے مبارک سے لگایا تھا۔ مولانا نے پھر نہ ممبران سے پوچھا نہ کسی سے مشورہ کیا؛ بلکہ نئی بنیاد اسی جگہ کھودوائی۔ (مقدمہٴ تاریخ دارالعلوم دیوبند، ص۴۷)
جب اس کی بنیاد ساقیِ کوثر نے رکھی ہے تو سنگ بنیاد عاشقانِ نبوت، وفادارانِ آبروائے اسلام نے رکھا ہے۔ ارواحِ ثلاثہ میں ہے کہ سنگ بنیاد مولانا احمد علی محدث سہارن پوری کے دستِ مبارک سے رکھوایا گیا، پھر ایک ایک اینٹ حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت مولانا مظہرنانوتوی، حضرت میاں جی منے شاہ اور حضرت حاجی عابدرحمہم اللہ نے رکھی۔ (ارواحِ ثلاثہ حکایت ۲۵۲)
جب بنیاد رکھی جاچکی تو سب لوگوں نے مل کر اس کی بقا وترقی کے لیے نہایت خشوع وخضوع سے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی، پھر اس کے بعد حضرت نانوتوی نے فرمایا: کہ ”عالمِ مثال میں اس کی اس مدرسے کی شکل ایک معلق ہانڈی کے مانند ہے جب تک اس کا مدار توکل اوراعتماد علی اللہ پر رہے گا، یہ مدرسہ ترقی کرتا رہے گا۔
بفضلہ تعالیٰ آج بھی دارالعلوم ترقی کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے، اس کے خلاف جب بھی غیروں نے سازشیں رچی ہیں، تو خدائے قدوس نے ان کی سازشوں کو ناکام کردیا ہے، اسی لیے آج ساری باطل دنیا کی نگاہیں، اس کی ترقی وشہرت کو متزلزل کرنے میں لگی ہیں، مگر قاضیِ تقدیر ہمیشہ اس کی ترقی کا فتویٰ دیتا ہے اور دے رہا ہے اوران شاء اللہ دیتا رہے گا۔ (والحمد علی ذلک)
”نودرے“ کی بالائی منزل ”دارالحدیث فوقانی) کی تعمیر ۱۳۵۳ھ میں شروع ہوگئی؛ جب کہ اس سے پہلے دارالحدیث بنی ہے؛ لیکن جب دارالعلوم کی ترقی روز افزوں اور طلبہ کی کثرت ہوتی چلی گئی، اس کی ضرورت کا احساس شدید ہوتا چلا گیا، جس کے باعث فوقانی دارلحدیث کا قیام عمل میں آیا اور چند سالوں میں ایک عظیم الشان ”ہال“ تعمیر ہوا۔
احاطہٴ مولسری کی دوجانبوں میں قرأت اور تجوید کی درس گاہیں ہیں، جن سے اٹھنے والی روح پرور قرآن پاک کی شیریں تلاوت ”قال اللہ وقال الرسول“ کا حسین امتزاج پیدا کرتی ہے۔ اس شعبہ کی ابتدا، ۱۳۲۱ھ میں ہوئی اور فراغت کے لیے اس کا التزام ۱۳۵۱ھ میں ہوا ہے، اس کے اغاز کے وقت خدا کا کرشمہ دیکھیے کہ جس طرح دارالعلوم کا آغاز ایک استاذ اور ایک شاگرد سے ہوا تھا، اسی طرح یہ شعبہ بھی ایک استاذ اورایک شاگرد سے شروع ہوا ہے، استاذ تھے جناب قاری عبدالوحید خاں الٰہ آبادی اور شاگرد تھے حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب۔
دارالعلوم نے جس طرح لاکھوں ماہرین پختہ کار علماء پیدا کیے ہیں، جو اپنے میدانِ علم وعمل کے فردِ فرید ہیں، اسی طرح دارالعلوم نے ماہرین قراء، بہترین مُجودین کو پیدا کیا ہے،جو اپنی مثال قائم کیے ہوے ہیں۔
چونکہ دارالعلوم ۱۳۵۱ھ سے فضلاء کے لیے قرأت وتجوید کا پڑھنا لازم قرار دیا ہے؛ اس لیے کوئی بھی فاضل اپنی علمی تکمیل اس کے بغیر نہیں کرسکتا، یہ سچ ہے کہ دارالعلوم نے اپنے فارغین کو ”قال اللہ وقال الرسول“ کی عملی تفسیر بناتا ہے۔ مزید اس کی بہترائی کے لیے کوشاں اور نیک مفید مشوروں کا خواہاں بھی ہے، اسی لیے دنیا اس کے فضلاء کو آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔
اس کے علاوہ چند ذیلی شعبہ ہیں، جیسے شعبہٴ تبلیغ، شعبہٴ اوقاف، شعبہٴ برقیات، وغیرہ، جو تندہی سے اپنے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔
دارالعلوم کے ذکرِ خیر کے وقت دارالتفسیر، دارالحدیث، دارالافتاء، دارجدید، جامع رشید، باب الظاہر، مدنی گیٹ وغیرہ کا تذکرہ ضروری ہے؛ مگر چوں کہ اس مضمون کو احاطہٴ مولسری اوراس کے شعبہ جات سے متعارف کرانا تھا، اس لیے ان کے تذکروں کو ان شاء اللہ ایک مستقل مضمون میں بیان کیاجائے گا۔
***
———————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 96 ، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء