از: مفتی محمد جعفرملی رحمانی
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
” اے رسولو! پاکیزہ نفیس چیزیں کھاوٴ اور نیک عمل کرو ، بلاشبہ میں تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہوں“
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے تمام انبیاء اور پیغمبروں کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایتیں دی ہیں؛
(۱)حلال وپاکیزہ کھانا کھاوٴ۔ (۲) نیک وصالح عمل کرو۔
ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں، ان کا غیر طیب وغیرپاکیزہ غذا کھانا اور غیر صالح عمل کرنا ممکن نہیں، تو انہیں حکم دے کر درحقیقت ان کی امتوں کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اِن دو چیزوں کا اہتمام کریں۔
علماء کرام نے ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ ذکر کرنے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ حلال غذا کا عملِ صالح میں بڑا دخل ہوتا ہے، جب انسان کی غذا حلال وپاکیزہ ہوتی ہے، تو اسے نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے، اوراگر غذا حرام ہوتو نیک کاموں کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اسے اس میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں، اور وہ نیک کاموں سے دور ہی رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حلال آمدنی وکمائی کے لیے محنت وکوشش کو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” حلال کمائی کا طلب کرنا فرض ہے“
آج ہمارے معاشرہ کا بگاڑ وفساد جودن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے، اور اصلاح ودرستگی کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں، اس کی جہاں بہت ساری وجوہ ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ہم حلال آمدنی وحلال کمائی کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہے ہیں جتنی دینی چاہیے،مسلمانوں کا تاجر طبقہ یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ وہ جن چیزوں کی تجارت کررہا ہے، شریعت کی نگاہ میں ان کی خرید وفروخت جائز ہے بھی یا نہیں؟ اور تجارت کی کونسی صورتیں درست ہیں اور کونسی ممنوع، مثلاً :
۱-موجودہ دور میں زمین کی خرید وفروخت
آج کل زمینوں کی خرید وفروخت بڑے پیمانے پر اس طرح کی جارہی ہے کہ خریدار، مالکِ زمین سے زمین کا سودا کرلیتا ہے، اور بیعانہ کے طور پراسے کچھ رقم دیدیتا ہے، جسے مارکیٹنگ کی زبان میں ”ٹوکن “ سے تعبیر کرتے ہیں، پھر پوری قیمت کی ادائیگی اور خریدی رجسٹری کے لیے ایک مدت متعین ہوتی ہے، مدت پوری ہونے پر خریدار پوری رقم دے کر مالکِ زمین سے اپنے نام زمین کی خریدی رجسٹری کرواتا ہے ، مگر اس مدت کے درمیان خریدار ،اس زمین کی خریدی رجسٹری اپنے نام پر ہونے سے پہلے ہی اسے کسی تھرڈ پارٹی (Third Party)کے ہاتھوں منافع کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے، اور اس سے حاصل کردہ رقم سے مالکِ زمین کا پورا پیمینٹ ادا کردینے کے بعد جو رقم بچتی ہے اسے منافع کے طور پر رکھ لیتا ہے، یعنی ابھی یہ زمین اس کی ملک میں آئی بھی نہیں کہ اس سے پہلے ہی وہ اسے کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے، شریعت اس طرح کی بیع کو ناجائز کہتی ہے؛ کیوں کہ اس طرح کی بیع میں دھوکہ و غرر ہے،وہ اس طرح کہ ہوسکتا ہے خریدار پارٹی مدت پوری ہونے سے پہلے مفلس وکنگال ہوجائے، اور زمین دار کووقت پر مقررہ قیمت نہ ادا کرسکے، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہوپائے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ مدت پوری ہونے سے پہلے خود زمین دارکی مدتِ عمر پوری ہوجائے، اور زمین پر اس کے ورثاء کے نام چڑھ جائیں،اور وہ اس زمین کو فروخت نہ کریں، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری نہ ہو پائے،معلوم ہوا کہ بیع کی یہ صورت دھوکہ اور غرر پر مشتمل ہے ، جس سے شریعت منع کرتی ہے ۔ (احکام القرآن للجصاص:۲/۲۱۹)
بندے نے زمینوں کا کاروبار کرنے والے کئی لوگوں کو اس ناجائز صورت کی طرف متوجہ کیا، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پارٹی نمبر وَن (First Party) یعنی مالکِ زمین سے اسٹامپ بنوالیتے ہیں اور اس اسٹامپ کی بنیاد پرتھرڈ پارٹی کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں، میں نے ان سے پوچھا :
”کیا اس اسٹامپ کی حیثیت انتقالِ ملک کی ہے؟ یعنی کیا اس اسٹامپ کے ذریعہ خریدار زمین کا مالک بن جاتا ہے، اور زمین، زمین دار کی ملک سے نکل کر خریدار کی ملک میں داخل ہوجاتی ہے؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ نہیں ، ایسا نہیں ہے؛بلکہ اسٹامپ کی حیثیت محض اتنی ہے کہ اس میں مذکور مدت پوری ہونے کے بعد خریدار پیمینٹ کی ادائیگی ،اور زمین دار خریدی دینے کا مکلف وپابند ہوتا ہے“۔
ان کے اس جواب کے لحاظ سے اسٹامپ پیپر (Stamp Paper) محض وعدہٴ بیع (Agreement to sale) ہوا، نہ کہ بیع، اور وعدہٴ بیع سے نہ تو بیع پوری ہوتی ہے اور نہ ہی مبیع (زمین) پر خریدار کی ملک ثابت ہوتی ہے،تو اسے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں فروخت کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے،جب کہ شریعت غیر مملوکہ وغیر مقبوضہ (Without Owned and Possessed) کی بیع سے منع کرتی ہے، جب بیع کی یہ شکل جائز نہیں ہے ، تو اس کے منافع بھی جائز نہیں ہوں گے، کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے :”الخراج بالضمان“۔ ”خراج ضمان کے سبب ہے“۔ یعنی کسی بھی چیز کے منافع کا جواز ، ضمان اور رسک کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے،جب کہ بیع کی اس صورت میں زمین خریدار کے ضمان اور رسک میں داخل ہی نہیں ہوتی ،اور وہ اس سے پہلے ہی اسے تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں بیچ کر منافع کماتا ہے، تویہ منافع کیسے جائز ہوں گے!!
اسی طرح بعض سرمایہ دار مشارکت (Partnership) میں اپنا سرمایہ اس شرط پر لگاتے ہیں کہ وہ ہر مہینہ ایک متعینہ رقم کے بطور نفع حقدار ہوں گے ، خواہ نفع کچھ بھی ہو، یا یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ کاروبار میں ہونے والے نقصان کے ذمہ دار نہیں ہوں گے،پارٹنر شپ کی یہ صورت بھی درست نہیں ہے ؛کیوں کہ پارٹنر شپ کے درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک فریق کے لیے نفع کی ایک خاص مقدار متعین نہ کی جائے(بلکہ متوقع نفع میں فیصد کو متعین کیا جائے) ، اور شریک و پارٹنر کاروبار میں ہونے والے نقصان میں بھی اپنے سرمایہ کے تناسُب سے شریک ہو۔ (فتاوی عثمانی :۳/۳۵)
۲-ایم ایل ایم (M.L.M) یعنی ملٹی لیول مارکیٹنگ
آج کل ایسے ادارے وجود میں آئے ہیں جو مختلف اسکیموں کو ممبر در ممبر آگے بڑھاتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ادارہ ایک آدمی کو ممبربناتا ہے، اس سے پانچ سوروپئے فیس لیتاہے ، اور اس ممبرشپ کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ اس ادارہ کی مصنوعات (Product) مثلاً: کوئی چیز جس کی قیمت بازار میں پچاس روپئے ہیں، تووہ چیز اسے چالیس روپئے میں ملتی ہے ، اور اس پر یہ لازم ہوتاہے کہ وہ مزید پانچ ممبر تیار کریں ،اگر وہ ایک آدمی کو ممبر بنادے توادارہ اس کو دوسوروپئے دیتا ہے ،اور جب پانچ ممبرہوجائیں تو اسے مزید آٹھ سو روپئے یعنی کل ایک ہزا ر روپئے ملتے ہیں ، اسی طرح ادارہ ہرنئے ممبر سے پانچ سو روپئے ممبر ی فیس وصول کرتاہے ،اور اس پر بھی لازم ہوتاہے کہ وہ پانچ ممبر بنائے ،اور اس ممبر بنانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ،اب جب بھی ادارہ میں نئے ممبر کا اضافہ ہوتاہے، ادارہ کو بلامحنت ومشقت مفت میں تین سوروپئے،اور پہلے ممبر کو بلا عوض دوسوروپئے کا فائدہ ہوتاہے ،اس طرح کی اسکیم کھلم کھلا قماربازی(جوا) ہے ،اور اس میں سود بھی پایا جا تاہے؛ اس لیے یہ بھی شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔
۳-تجارتی انعامی اسکیمیں
(۱)کبھی کوئی کمپنی یہ طے کرتی ہے کہ جو ہم سے اتنے اتنے روپئے کا سامان خریدے گا ، ہم اس کو عمرہ کرائیں گے، یاہم اس کو ڈرائیور سمیت گاڑی فراہم کریں گے ، جس پر وہ فلاں فلاں مقامات کی سیر وتفریح کے لیے جاسکتا ہے۔
(۲)اسی طرح کبھی کوئی کمپنی اپنی مصنوعات(Product)فروخت کرنے والے دکانداروں سے ، یا کوئی دکاندار اپنے خریداروں سے یہ کہتا ہے کہ اگر اتنا اتنا سامان خریدوگے ، تو ہم تم کو کوپن دیں گے، پھر ان دکانداروں اور خریداروں کے درمیان قرعہ اندازی ہوتی ہے، جن کے نام قرعہ نکلتا ہے وہ انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
(۳) کبھی کوئی کمپنی یا دکاندار اپنے خریداروں سے یہ کہتا ہے کہ جوبھی ہم سے اتنا سامان خریدے گا، ہم سب کو انعام دیں گے، لیکن یہ انعام مالیتوں کے اعتبار سے مختلف ہوں گے، جن کا تعین قرعہ اندازی سے ہوگا۔
اس طرح کی تجارتی انعامی اسکیموں کے ذریعے خریداروں کو انعام کی لالچ دے کر انہیں بے جا فضول خرچی اور غیر ضروری خریداری کی طرف راغب کیا جاتا ہے، اور متعلقہ کمپنی اور دکاندار پوری ہوشیاری کے ساتھ ایسے حربے اپناتے ہیں کہ لاکھوں خریداروں میں سے محض کچھ خریدار ان کے اس انعام کے مستحق قرار پاتے ہیں، اور دوسرے خریداروں کے لیے سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، نیز کاروبار کے اس طریقہ کے پیچھے جوئے اور قمار ہی کی روح کارفرما ہوتی ہے، اس لیے شرعاً یہ ناجائز ہے۔(فتاوی عثمانی:۳/۲۵۵،جدید فقہی مسائل: ۴/۲۷۶،المسائل المہمة :۱/۱۳۳)
۴-گولڈ مائن انٹرنیشنل اسکیم
اسی طرح کی ایک اسکیم ” گولڈ مائن انٹر نیشنل “(Gold mine international)نامی کمپنی نے پوری دنیا میں پھیلا رکھی ہے،اس کمپنی کا طریقہ ٴ کاروبار نیٹ ورک مارکیٹنگ کی طرح ہے، جو مختلف مصنوعات اور سونے کے سکے بھی تیار کرکے فروخت کرتی ہے، کمپنی اپنی تمام مصنوعات کی تشہیر لوگوں میں لوگوں ہی کی زبانی کراتے ہوئے اپنے نئے گاہک (Customers) بنانے کا کام بھی معقول معاوضے کے عوض لوگوں سے لیتی ہے، اس طرح لوگ کمپنی کو نئے گاہک فراہم کرتے ہیں اورکمپنی لوگوں کو اس کے بدلے کمیشن ادا کرتی ہے۔گرچہ یہ دلالی ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس دلالی کے لیے ”GMI“کمپنی کی کوئی چیز مثلاً گھڑی یا کوئی اور پراڈکٹ(Product) خریدنا ضروری ہے، یہ اجارے میں شرطِ فاسد ہے ، اس کے علاوہ اس اسکیم میں اور دوسری خرابیاں بھی موجود ہیں، جن کی وجہ سے شرعاً یہ ناجائز ہے ۔
۵-”جیونا “کمپنی اسکیم
آج کل” جیونا“نام سے ایک کمپنی قائم ہے ،جس کی اسکیم یہ ہے کہ پینتیس سو روپے دیکر اس کے ممبر بن جاؤ اور ان ساڑ ھے تین ہزار کے عوض کمپنی کوئی شیٴ نہیں دیگی؛ لیکن اگر یہ ممبر کم سے کم مزید دو ممبرکمپنی کے لیے بنا دیتا ہے ،یعنی یوں کہیے کہ کمپنی کو سات ہزار روپے دوسرے دو فردوں سے لادیتا ہے، تو کمپنی اسے اس میں سے بطورِ کمیشن چھ سو روپئے ادا کرے گی اورا گر ان دو ممبروں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بنا تاہے، توجہاں ان دو ممبروں کو چھ چھ سو روپئے بطورِ کمیشن ملیں گے، وہیں پہلے ممبرکومزیدبارہ سو روپئے ملیں گے، یعنی کل اٹھارہ سو روپئے ملیں گے اور اگر یہ چا ر ممبر وں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بناتا ہے، توان میں سے ہر ایک کو چھ چھ سو اور پہلے کو گذشتہ کے اٹھارہ سو میں مز ید چوبیس سو روپئے ملاکر، یعنی کل بیالیس سو روپئے دیئے جائیں گے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا ویسے ویسے پہلے ممبر کو بھی ہرممبر پر کمیشن ملتا رہے گا ۔اسکیم کی یہ صورت جوا اور باطل طریقہ سے لوگوں کے اموال کھا نے کی حرمتِ صریحہ پر مشتمل ہے، اس لیے اس طر ح کی اسکیموں کا ممبر بنا اور بنانا دونوں عمل شرعاً ناجائز وحرام ہے اوراس پر ملنے والا کمیشن بھی حرام ہے؛ ا س لیے اس طر ح کی اسکیموں میں شرکت سے کلی اجتناب ضروری ہے۔
۶-غرر وقمار پر مشتمل ایک ممبرساز اسکیم
آج کل عموماً تاجریاکمپنی وغیرہ ممبر سازی کے ذریعہ فریج ،کولر ،واشنگ مشین ،سائیکل ، موٹر سائیکل وغیرہ اسکیم کے تحت فروخت کرتے ہیں ،جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی چیز کی اصل قیمت بازار میں مثلاً :پانچ ہزار روپے ہیں ،تو وہ لوگ پوری رقم یکبارگی لینے کے بجائے،سوروپے ماہانہ ادا کرنے والے سوممبر پینتالیس ماہ کے لیے بنالیتے ہیں ،اور ہرماہ پابندی کے ساتھ قرعہ اندازی کی جاتی ہے ، اگر پہلے ہی ماہ میں کسی ممبر کانام قرعہ اندازی سے نکل آتاہے ،تو اس کو صرف سوروپے میں پانچ ہزار کی چیز مل جاتی ہے ،اور اگر کسی کا نام دوسرے ماہ میں نکلا تو پانچ ہزار کی چیز اسے صرف دوسومیں مل جاتی ہے ،اسی طرح ہرماہ قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو وہ چیز جمع شدہ رقم کے عوض ملتی رہتی ہے ،اب پینتالیسویں ماہ میں جتنے ممبرباقی رہیں گے، سب کو وہ چیز دیدی جائے گی ، اس طرح کی اسکیم شرعاً قمار(جوا) کو شامل ہے ،نیز بوقتِ عقد، ثمن مجہول ہوتاہے ، لہذا یہ اسکیم چلانا ،اس میں حصہ لینا ،اور قرعہ اندازی سے طے شدہ اشیاء کاحاصل کرناشرعاً ناجائز ہے ۔
۷-کمی بیشی کے ساتھ چیک کی خرید وفروخت
بسا اوقات تاجر حضرات آپس میں نقد روپیوں کی بجائے چیک سے لین دین کیا کرتے ہیں،چیک کے بھنانے میں چونکہ وقت لگ جاتا ہے اورتاجر کو فوری نقد روپیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ، چیک میں لکھی ہوئی رقم سے کم میں ،کسی اور کے ہاتھ اس چیک کو فروخت کردیتا ہے، خریدار وقتِ مقررہ پر اس چیک کو بھنالیتا ہے ،اور اپنی اصل رقم اضافہ کے ساتھ رکھ لیتا ہے۔شرعاً اس طرح چیک کی خریدوفروخت ربوا اور سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔
۸-مروجہ لاٹری
حالیہ زمانے میں بازارکے اندرلاٹری کی مختلف صورتیں مروج ہیں ،جن میں سے ایک مشہور صورت یہ ہے کہ بازاروں میں مخصوص جگہ پرلاٹری کی مختلف ٹکٹیں، مختلف قیمتوں میں فروخت ہوتی ہیں ،خریدار کسی ایک قیمت یا الگ الگ قیمتوں کے کچھ ٹکٹ خرید لیتاہے ،پھر جب خریدار کا ریکارڈ اصل مرکز میں پہنچتاہے ، اور اس کے نام لاٹری نکل آتی ہے تو اسے متعینہ رقم ملتی ہے ،جو اکثر اوقات روپیہ ہی کی صورت میں ہوتی ہے ،اور ٹکٹ کی رقم سے زیادہ ہی ہوتی ہے، یہ سود ہے جوشرعاً حرام ہے، نیز اس میں نفع ونقصان مبہم اور خطرے میں رہتاہے ،کہ نام نکل آیا تو نفع ہوگا، اور اگر نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی ،علاوہ ازیں یہ ٹکٹ خریدنے والے کی محنت کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ محض بَخت (قسمت ) واتفاق پر مبنی ہوتا ہے کہ اس کا نام نکل بھی سکتاہے اور نہیں بھی نکل سکتا ہے ،ایسے ہی مبہم اور پر خطر نفع ونقصان کو قمار کہتے ہیں ،جو شرعاًناجائز وحرام ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کا وہ طبقہ جو ملازمت کرتا ہے ، خواہ وہ حکومت کے ملازم ہوں یا کسی نجی وپرائیویٹ کمپنی کے ، وہ اپنی ملازمت کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے، اوقاتِ ملازمت میں دیانت داری وایمانداری کے ساتھ اپنے مفوضہ کاموں کو انجام نہیں دیتے، جب کہ انہیں جو تنخواہیں دی جارہی ہیں ،وہ ان کی خدمات کا ہی عوض ہیں، تووہ اپنی تنخواہوں کی محض اتنی ہی مقدار کے حقدار ہیں جس کے مقابل انہوں نے خدمات انجام دی ہیں، وہ مقدار جس کے مقابل خدمات انجام نہیں دی گئیں ، اس کے وہ حقدار نہیں، تو تنخواہوں کا وہ حصہ حلال کہاں ہوا، جب کہ اس کو حلال سمجھ کر استعمال کیا جارہا ہے، یہی کچھ حال ادارہ اور کمپنیوں کے ذمہ داروں کا ہے کہ وہ ملازمین سے بھرپور خدمات وصول کرتے ہیں اور خدمات کے عوض (تنخواہ) کی ادائیگی میں ان کا استحصال کرتے ہیں ، تو روپیوں کی وہ قدر جو انہوں نے اپنے ملازمین کا استحصال کرکے پسِ پشت ڈال دی، وہ ان کے لیے کیسے حلال ہوگی!!
اب رہا عام مسلمان جو نہ تاجر ہے اورنہ ملازم ؛ بلکہ وہ محنت ومزدوری کرکے یا کھیتی باڑی کرکے، یا مال مویشی کے ذریعے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے، اس کے پاس بھی حلال وحرام کی تمیز باقی نہیں رہی، یا ہے بھی تو وہ اس کا پاس ولحاظ نہیں کرتا، ایسا لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانہ کی پیشین گوئی فرمائی تھی وہ بالکل آچکا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو لیا وہ حلال ہے یا حرام“۔ (بخاری ،۲/۸۴۲،مشکوة)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کسبِ حلال کی فکر کی توفیق سے نوازیں؛ تاکہ دنیا میں آفتوں اور پریشانیوں سے حفاظت اور آخرت میں نجاح وفلاح نصیب ہو۔ (آمین)
***
—————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 96 ، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء