از: مفتی رشید احمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم تراج، سورت
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، امابعد:
اسلامی اخلاق وآداب جسے پیغمبر اعظم نبی آخر الزماں حضرت محمد صلى الله علیہ وسلم نے انسانوں کی تہذیب و شائستگی کیلئے تفصیل سے بیان کیا اور امت کو اس سے آراستہ ہونے کی ترغیب دی اور اپنی ذات مبارکہ کو عملی نمونہ بناکر پیش کیا ہے، صالحین نے اپنی حیات مستعار کو اُن اخلاق وآداب سے مزین کیا اور وہ حقوق بجالائے کہ اللہ کے یہاں العبد بلکہ نعم العبد بن گئے۔
اُن ہزاروں آداب میں سے ایک اہم ادب ”تیامُن“ (یعنی کسی کام کو داہنے ہاتھ یا داہنے جانب سے انجام دینا) ہے جس کی رعایت رکھنا شرافت کی علامت اور سعادت کا ذریعہ ہے، رسول مقبول صلى الله علیہ وسلم نے اس کا بہت اہتمام فرمایا ہے اور اس سے اپنی محبت کا اظہار فرماکر امت کو متوجہ کیا ہے اسی ادب کے متعلق یہ چند سطور نذر قارئین ہیں۔
تیامن پر کلام کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ”سنت“ یعنی رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم کے محبوب عمل کے مقام و مرتبہ کے کچھ ذکر سے اپنے دلوں کو تازہ کرلیں اور اس کی قدر و منزلت سے اپنے سینوں کو روشن کرلیں۔
(۱)عن ابن مسعود رضى الله تعالى عنه قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکل عمل شِرّةٌ ولِکلّ شرةٍ فترةٌ فمن کانت فترتہ الی سنتی فقد اہتدیٰ ومن کانت غیر ذلک فقد ہلک (رواہ ابن حبان)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه حضور صلى الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ہر عمل کیلئے ایک ہمت (وقوت) ہوتی ہے اور ہر ہمت کیلئے ضعف ہوتا ہے پس جس کا ضعف سنت کی طرف ہو (یعنی باوجود ضعف کے سنت پر عمل ترک نہ ہو) تو وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کی کم ہمتی سنت کی طرف نہ ہو یعنی بے ہمتی سے سنت ترک کردے تو اس کے لئے ہلاکت (کا خطرہ) ہے۔
(۲)عن الحسن بن ابی الحسن قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم عمل قلیلٌ فی سُنةٍ خیرٌ من عملٍ کثیر فی بدعةٍ.
حضرت حسن رضى الله تعالى عنه سے مروی ہے پیغمبر صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا سنت کے مطابق تھوڑا عمل بہتر ہے زیادہ عمل سے جو بدعت کے ساتھ ہو۔ (۲/۱۱ الشفاء للقاضی عن المصنَّف)
(۳)عن ابی ہریرة عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال المتمسک بسنتی عند فساد امتی لہ مائة اجر شہید. (الشفاء، ص:۲/۱۲ عن مجمع الزوائد)
حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ امت کے فساد کے زمانہ میں (یعنی سنت کی ناقدری اور عام بیزاری کی حالت میں) میری سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے والے کو سوشہیدوں کا ثواب ملے گا۔
(۴)کتب عمررضى الله تعالى عنه الی ابی موسٰی رضى الله تعالى عنه لا تشتغلوا بالبناء قد لکم فی بناء فارس والروم کفایة الزموا السنة تبقی لکم الدولة. (فیض القدیر علی جامع الصغیر ۵/۱۵)
امیرالمومنین حضرت عمر نے ابوموسیٰ اشعری (یمن کے گورنر) کو لکھا کہ تعمیرات میں اپنے آپ کو مشغول نہ کرو تمہارے لئے فارس و روم کی عمارتوں میں کفایت ہے۔ تم سنت کو لازم پکڑو تمہاری سلطنت باقی رہے گی۔
(۵)قال ابن شہاب بلَغنا عن رجال من اہل العلم قالوا الاعتصام بالسنة نجاةٌ.
ابن شہاب زہری رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اہل علم کی طرف سے یہ جملہ پہنچاہے کہ سنت کا اہتمام کرنا نجات کا ذریعہ ہے۔
مستحبات کی رعایت اور ترک سنت کا انجام
قطب الاقطاب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ الله علیہ نے اپنی کتاب ”الاعتدال فی مراتب الرجال“ (اسلامی سیاست) میں بعض اہل علم کا یہ کلام جو بہت سی حدیثوں کا نچوڑ ہے ذکر کیا ہے من تہاون بالاداب عوقب بحرمان السنة ومن تہاون بالسنة عوقب بحرمان الفرائض ومن تہاون بالفرائض عوقب بحرمان المعرفة. یعنی جس نے آداب ومستحبات کو حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا تو اس کی سزا سنت موٴکدہ سے محرومی ہے اور جو شخص سنت موٴکدہ کو معمولی سمجھ کر چھوڑے گا تو اسے فرائض سے محرومی کی سزا دی جائے گی اور جو شخص فرائض کو بھی معمولی سمجھ کر ترک کرے گا تو (خطرہ ہے کہ ) معرفتِ ایمان سے محروم کردیا جائے۔
دیکھئے آداب ومستحبات کا ترک موٴمن کو رفتہ رفتہ کہاں تک پہنچادیتا ہے معلوم ہوا کہ ایمان کی حفاظت کیلئے فرائض کا اہتمام اور فرائض پر استقامت کیلئے سنتوں کی پابندی لازم ہے اور سُنن پر دوام کیلئے آداب ومستحبات کی رعایت مطلوب و مقصود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ آئندہ کل (قیامت کے دن) اللہ سے فرمانبردار بندہ بن کر ملاقات کرے تو چاہئے کہ اِن پنج گانہ نماز کی پابندی وہاں کرے جہاں اَذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرے) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلى الله علیہ وسلم کیلئے کچھ سُنن ہُدیٰ مشروع کیے ہیں اور جماعت کے ساتھ نماز یہ بھی سُنن ہُدی میں سے ہے اور اگر تم نے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لی جیسا کہ یہ متخلف (منافق) اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کردوگے اوراگر اپنے نبی کی سنت ترک کروگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔ (الترغیب للمنذری ۱/۲۷۳)
تیامن کی سنت
علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ الله علیہ اپنی کتاب تحفہ الاخیار باحیاء سنة سید الابرابر کے شروع میں سنت کی شرعی واصطلاحی تعریف میں علماء کے بائیس(۲۲) اقوال (مع نقد) ذکر کرکے اخیر میں لکھتے ہیں… اگر حضور صلى الله علیہ وسلم کی مواظبت علی سبیل العبادة ہے یعنی بحیثیت عبادت کسی عمل پر پابندی فرمائی ہے تو ایسے اعمال سنن ہُدی ہیں اوراگر مواظبت علی سبیل العادة ہے یعنی اپنی طبیعت و عادت کے اعتبار سے عمل کیا اور اس پر پابندی فرمائی ہے تو ایسے افعال سُنن زوائد ہیں جیسے لباس کا پہننا، داہنے ہاتھ سے کھانا اور داخل ہونے میں داہنے پیر کو مقدم رکھنا وغیرہ۔ اور حضور صلى الله علیہ وسلم کی مواظبت تیامُن پر سنن زوائد میں سے ہے۔ (تحفة الاخیارص:۸۳)
تیامُن سے محبت کی حکمت
حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنہا فرماتی ہیں کان یعجبہ التیمن فی تنعلہ وترجلہ وطہورہ وفی شانہ کلہ کہ حضور صلى الله علیہ وسلم نعلین پہننے میں، کنگھا کرنے میں اور طہارت میں اور تمام احوال میں تیمن کو پسند کرتے تھے۔ ابن ابی جمرہ صاحب بہجة النفوس محبتِ تیامن کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
. . . . والحکمة فی حبہ فانما ذلک ایثار لما آثرہ الحکیم بحکمتہ وذلک لانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما رأی ان اللّٰہ تعالٰی فضل الیمین واہلَہ وما اثنی علیہ فاحب ما آثرہ العلیم الحکیم فیکون من باب التناہی فی تعظیم الشعائر فیکون دالاً علی قوة الایمان. انتہی (السعایہ، ۱/۱۷۵)
یعنی پیغمبر صلى الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ ربِ کائنات حکیم مطلق نے یمین اور اہل یمین کو فضیلت دی ہے اور اپنے کلام پاک میں ان کی تعریف فرمائی ہے تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے پسند فرمایا اس چیز کو جسے علیم وحکیم نے ترجیح دی ہے۔ پس یہ شعائر الٰہی کی غایت تعظیم کے قبیل سے ہے جو قوتِ ایمان کی دلیل ہے۔
چنانچہ قرآن پاک میں ہے فاما من اوتی کتٰبہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا. واصحٰب الیمین وما اصحٰب الیمین فی سِدر مخضود وطلح منضود وظل ممدود وماء مسکوب. واما ان کان من اصحٰب الیمین فسَلٰم لک من اصحٰب الیمین. اس کے علاوہ بھی آیتوں میں یمین کا ذکر اہتمام سے کیاگیا ہے جیسے وما تلک بیمینک یٰموسٰی، اور ولا تخطہ بیمینک، تو پیغمبر صلى الله علیہ وسلم نے بھی اچھے کاموں میں یمین کو ترجیح دی اور تیامن سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا بلکہ ازلی دشمن شیطان کی مخالفت میں اختیار یمین کی تاکید فرمائی۔
تیامن کے اختیار کے مواقع
حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها کی حدیث کاَنَ یُحِبُّ التیمن الخ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ میں مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ ابن ابی جمرہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت عائشہ کا قول فی شأنہ کلہ مجمل لفظ ہے اگر صرف شأنہ کلہ کہہ کر خاموش ہوجاتیں تو شأنہ سے کیا مراد ہے اس کی تقدیرات مختلف ہوتی، حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها نے تین چیزیں ذکر فرماکر اجمال کی تفصیل کردی اور التباس کو دور کردیا اس لئے کہ طہور ذکر کیا جو مفروضات میں سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ طہور شطر ایمان ہے اور ترجیل مستحبات میں سب سے موٴکد ہے اور پھر تنعل ذکر کیا جو مباحات میں سب سے ارفع ہے، تو حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم جمیع مفروضات، مستحبات اور مباحات میں تیامن کو پسند فرماتے تھے۔ (السعایہ ۱/۱۷۵)
ابوداؤد میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ کانت ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الیمنی لطہورہ وطعامہ والیسری لخلائہ وما کان من اذی.
طبرانی کی روایت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے ہے: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا لبس نعلا بدأ بالیمنی واذا خلع خلع الیسری وکان اذا دخل المسجد ادخل رجلہ الیمنی.
حضرت حفصہ رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یجعل یمینہ لطعامہ وشرابہ وثیابہ ویجعل یسارہ لما سوی ذلک. (اذکار للنووی عن ابی داؤد)
حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها کی ایک روایت میں ما استطاع کی قید مذکور ہے کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یحب التیمن ما استطاع فی شأنہ کلہ الخ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلى الله علیہ وسلم تیامن کا اہتمام تب تک فرماتے جب کوئی امر مانع نہ ہو فنبہ علی المحافظة علی ذلک مالم یمنع مانع (عمدة القاری ۳/۳۱)
تیامن کا مفہوم اور اس کی رعایت کی صورتیں
تیمُّن اور تیامُن باب تفعل وتفاعل سے ہے اس کا ماخذ یُمن اور یمین ہے جس کے اصل معنی قوت، برکت، اور سعادت وغیرہ ہیں چونکہ دست راست (داہنے ہاتھ) میں بنسبت بائیں ہاتھ کے قوت زیادہ ہوتی ہے اس لئے دائیں کو یمین اور بائیں کو یسار کہتے ہیں۔ اور جانب یمین کو ایمن یا میمنہ اور اس کے مقابل کو ایسر یا میسرہ کہا جاتا ہے، لہٰذا تیمُّن وتیامُن کے معنی یمین سے کسی کام کو کرنا، یا جانب یمین سے شروع کرنا، یا یمین کی طرف آنا، یا برکت حاصل کرنا وغیرہ۔ (مفردات ص:۶۱۳ قاموس ۴/۲۸۸) قولہ التیمُّن لفظ مشترک بین الابتداء بالیمین وبین تعاطی الشی بالیمین وبین التبرک وبین قصد الیمین ولکن القرینة دلت علی ان المراد المعنی الاول. (عمدة القاری ۳/۳۱)
حضرت عائشہ رضى الله تعالى عنها کی حدیث میں ابتداء بالیمین اور ابتداء بالشق اور یمن دونوں معنی ہیں (ارشاد الساری ۱/۴۵۰) حدیث کا مطلب خیز ترجمہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ الله علیہ کے الفاظ میں ملاحظہ ہو ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کاموں میں ہمیشہ دائیں جانب کو پسند فرماتے تھے اگر کنگھا کرتے تو پہلے دائیں جانب پھر بائیں جانب۔ اگر جوتا پہنتے تو پہلے داہنے پیر میں پھر بائیں پیر میں جوتا ڈالتے۔ اگر کرتہ پہنتے تو پہلے آستین میں دائیں ہاتھ ڈالتے پھر بایاں۔ دانتوں میں اگر مسواک کرتے تو پہلے دائیں جانب لیجاتے پھر بائیں جانب۔ ہر اچھی چیز میں آپ صلى الله علیہ وسلم دائیں جانب کو پہلے اختیار فرماتے یہی کام موٴمن کا ہونا چاہئے کہ ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو پہلے اختیار کرے۔
پیغمبر صلى الله علیہ وسلم سے قولاً وعملاً جہاں جہاں تیامن کی رعایت کرنا منقول ہے اس کی مختلف جہتیں ہیں۔
تیامُن وتیمُن کے معنی۔ کما مرّ۔ کسی کام کو یمین سے کرنا یا جانب یمین سے شروع کرنا ہے اور (۱) جانب یمین کا اعتبار عموماً فاعل کے لحاظ سے ہوتا ہے البتہ (۲) بعض مقام پر غیر فاعل کے لحاظ سے تیامن کی رعایت مطلوب ہے ”جیسے نبی کریم صلى الله عيله وسلم نے حلاّق سے کہا لو بال کترو اور دائیں جانب اشارہ کیا پھر بائیں جانب نائی کے حوالہ کیا۔ معلوم ہوا کہ حلق میں محلوق کا دایاں مراد ہے“ (تنویرالشعور ص:۱۵) یا جیسے مجلس میں صدر مجلس کی جانب سے کوئی شئی پیش کی جائے یا تقسیم کی جائے تو میر مجلس کے اعتبار سے تیامن کی رعایت مستحب ہے نہ کہ قاسم ومقسوم کے لحاظ سے۔ (۳) بعض موقع پر یمین کی جانب آنے کو بھی تیامن میں شمار کیاگیا ہے جیسے کہ تین انگلیوں سے تناول کے بعد لعوقِ اصابع کا طریق امام نووی رحمہ الله علیہ نے لکھا ہے کہ پہلے وسطی پھرمُسبِّحہ پھر ابہام۔ اسی طرح ناخن تراشنے میں داہنے ہاتھ کے مُسَبِّحہ (شہادت کی انگلی) سے شروع کرکے خنصر کی طرف آئے۔ (۴) بعض جگہ تیامن تیاسر دونوں کا اختیار ہے جیسے حضور صلى الله علیہ وسلم کسی کے گھر کے دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں۔ (۵) بعض مقام پر تیامن افضل ہونے کے باوجود جانب یسار میں کوئی وجہ ترجیح ہوتو پھر یسار کو اختیار کرنا اولیٰ اور راجح ہوگا جیسے امام کے داہنے طرف نماز میں رہنا افضل ہے مگر بائیں صف میں مصلی کم ہوں تو پھر بائیں طرف کھڑے ہونے میں زیادہ اجر ہے اور جیسے انگوٹھی کہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے ابتداءً داہنے میں پہنی لیکن آخر الامرین بائیں ہاتھ میں پہننا ہے جیساکہ محدثین نے ذکر کیا ہے (۶) بعض احکامِ شرعی میں یمین کی ترجیح کی نوعیت بالکل الگ ہے نہ ابتداء بالیمین ہے اور نہ ابتداء بالشق الایمن ہے جیسے تحریمہ میں ہاتھ باندھنے میں کہ یمین اوپر اور یسار نیچے ہوتا ہے اور جیسے تکفین میں کہ بائیں طرف کے کپڑے کو پہلے پھر داہنے طرف کے کپڑے کو لپیٹا جاتا ہے تاکہ داہنا اوپر رہے اور بایاں نیچے۔ (۷) اور بعض موقع پر یمین ویسار کی جہت موجود ہے لیکن شریعت نے فعل کے انجام دینے میں تیامن کا اعتبار نہیں کیا جیسے خوین (رخسار) کو وضوء میں دھونا کہ وجہ پورا ایک عضو شمار کیاگیا ہے۔ نیز مسح رأس اور اُذنین میں کہ ایک ساتھ کیا جاتا ہے (۸) اور بعض فعل شرعی وہ ہے جس کا تحقق ایک ہی جہت میں متعین ہے جیسے معانقہ کہ وہ بائیں طرف ہی کیا جاتا ہے چونکہ قلب بائیں جانب ہے اور معانقہ بشاشت قلبی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔
(۹) اور اگر کسی چیز کا وجود ہی خیرالقرون میں نہیں تھا مثلاً دستی گھڑی تو اس میں پہننے والے کی اپنی صوابدید اور ترجیح پر مدار ہوگا۔ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ الله علیہ سے جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کی مجلس میں کسی نے سوال کیا کہ گھڑی کونسے ہاتھ میں پہننی مستحب ہے؟ حضرت نے ارشاد فرمایاکہ حضور صلى الله علیہ وسلم کے زمانہ میں گھڑی نہیں تھی۔
تیامن کے مواقع کی تفصیل
تیامن کا اہتمام کرنا (اور تیاسر کا بھی) پیغمبر صلى الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے جن مواقع میں ثابت ہے علمائے امت نے ان کو جمع کردیا نیز ایک ضابطہ بھی تحریر فرمایا ہے۔
شارح مسلم شریف امام محی الدین نووی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں: ہذہ قاعدة مستمرة فی الشرع وہی اَن ما کان من باب التکریم والتشریف کلبس الثیاب والسراویل والخف ودخول المسجد والسواک والاکتحال وتقلیم الاظفار وقص الشارب وترجیل الشعر وہو مشطہ ونتف الابط وحلق الرأس، والسلام من الصلاة وغسل اعضاء الطہارة والخروج من الخلاء والاکل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الاسود وغیر ذلک مما ہو فی معناہ یستحب التیامن فیہ اما ما کان بضدہ کدخول الخلاء والخروج من المسجد والامتخاط والاستنجاء وخلع الثوب والسراویل والخف وما اشبہ ذلک فیستحب التیاسر فیہ وذلک کلہ لکرامة الیمین وشرفہا واللّٰہ اعلم (نووی شرح مسلم ۱/۱۳۲، فتح الباری ۱/۳۶۲، عمدة القاری ۳/۳۲)
وفی البنایہ اتفق العلماء بانہ یستحب تقدیم الیمنی فی کل ما ہو من باب التکریم کالوضوء والغسل، ولبس الثوب والنعل، والخف، والسراویل ودخل المسجد والسواک والاکتحال وتقلیم الاظفار، وقص الشارب، ونتف الابط، وحلق الرأس، والسلام من الصلاة، والخروج من الخلاء، والاکل، والشرب، والمصافحہ واستلام الحجر الاسود، والاخذ والعطاء وغیر ذلک. ویستحب تقدیم الیسار فی ضد ذلک کالامتخاط والاستنجاء ودخول الخلاء والخروج من المسجد ونزعِ الخف والسراویل والثوب واشباہ دلک انتہی (السعایہ ۱/۱۷۶)
یعنی ہر وہ کام جو تکریم و تشریف اور تزیین کے قبیل سے ہو تو علماء کا اتفاق ہے کہ یمین کو مقدم کرنا مستحب ہے جیسے وضوء، اور غسل میں کرتہ، پائجامہ، موزہ اور نعلین کے پہننے میں، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کترنا، مونچھ تراشنا، بالوں میں کنگھا کرنا، موئے بغل اکھیڑنا (صاف کرنا) سرمنڈانا، نماز سے سلام پھیرنا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کا استلام کرنا، اور لینا، دینا وغیرہ ان سب میں تیامن مستحب ہے اور جو کام کرامت وشرافت کے قبیل سے نہ ہوں جیسے بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، رینٹ صاف کرنا (یعنی ناک کی صفائی) استنجاء کرنا، موزہ، نعلین، کرتا اور پائجامہ کا نکالنا اوراس کے مانند کاموں میں تیاسر مستحب ہے۔
یستحب ان یبتدیٴ فی لبس الثوب والنعل والسراویل وشبہہا بالیمین من کمیہ ورِجلی السراویل ویخلع الایسر ثم الایمن وکذلک… والمصافحہ واستلام الحجر الاسود واخذ الحاجة من انسان ودفعہا الیہ وما اشبہ ہذا کلہ یفعلہ بالیمین وضدہ بالیسار (اذکار للنووی ۱/۲۷) . . . . والصلاة علی میمنة الامام ومیمنة المسجد . . . لایقال حلق الرأس من باب الازالة فیبدأ فیہ بالایسر لانہ من باب التزین وقد ثبت الابتداء فیہ بالایمن (ارشاد الساری للقسطلانی ۱/۴۵۰)
انشاء اللہ مذکورہ مقامات کی الگ الگ مختصر تشریح حوالوں کے ساتھ بعد میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
معانقہ کا معہود طریقہ
حضرت فقیہہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی کے انتقال کے بعد بلکہ شاید پہلے معانقہ کے سلسلہ میں ایک اختلاف یہ نمودار ہوا کہ اس کا جو معہود طریقہ ہے اس کے خلاف سینہ کو سینہ سے داہنے جانب (جوقلب سے خالی ہے) ملایا جائے اور بطور دلیل یہ کہا جاتا کہ تیامن مستحب ہے جیساکہ حدیث شریف میں آیا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یحب التیامن فی شأنہ کلہ شانہ کے عموم سے استفادہ کرتے ہوئے معانقہ میں بھی تیامن کا لحاظ کیا جانے لگا رفتہ رفتہ اس خیال میں شدت آنے لگی کہ اگر اُن سے معانقہ کیلئے آگے بڑھتا تو گرمجوشی سے ان کے سینہ کو اپنے دائیں جانب کھینچ لیتے حتی کہ علماء وفضلاء کو بھی تشویش ہوجاتی اور جب معانقہ کی نوبت آتی تو دائیں بائیں کے چکر میں پڑجاتے۔
چونکہ تیامن کا استحباب ظاہر ہے اور معانقہ کا بائیں جانب ہونا بھی عیاں ہے اس لئے حادث طریق کو خاموشی سے کرگذرتے اور بعض علماء قدیم طریقہ کو خلافِ سنت سمجھنے لگے جیساکہ راقم کو سابقہ پڑا۔ پس اِس بناء پر کہ امت کے اسلاف متقدمین ومتأخرین اور بعد کے علماء اسلام اور ماضی قریب کے ہمارے علمائے ہند بالخصوص اکابر دیوبند جو اعمقہم علمًا وامثلہم طریقة کے مصداق تھے اور یہ طریق معانقہ خیرالقرون سے ان ہی متبعین شریعت کے تعامل سے گذرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے جو بائیں جانب ہوتا ہے اور قدرتی ترجیح (کہ قلب بائیں جانب ہے) کے موافق ہے۔ ناچیز نے یہ تحقیق پیش کی ہے اور تیامن کے بارے میں سابقہ تفصیلی کلام بھی اسی خاطر پیش کیاگیا ہے، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ تحریر دلچسپ اور دل پذیر ثابت ہوگی۔
اسلامی تحیہ اور معانقہ
دوشخص جب آپس میں ملاقات کرتے تو اظہار تعلق ومحبت میں ایک دوسرے کو زمانہٴ جاہلیت میں ”حیّاک اللّٰہ“ یا ”انعم صباحا“ جیسے الفاظ سے مبارکباد دیتے تھے۔ اِس تحیہ سے انکار مقصد صرف دنیاوی زندگی کی بقا ہوتا لیکن یہ عارضی حیات بھی اگر مصائب وشدائد میں گھری ہو تو پھر زندگی کا کیا لطف کہ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔
اس لئے مذہبِ اسلام نے (جوکہ انسان کی طبائع اور نفسیات کا بھرپور لحاظ رکھتا ہے) تحیہ کیلئے ایسا لفظ تجویز کیا جو انسان کے تحیہ کا سب سے پہلا کلمہ ہے جس میں اشارہ ہے کہ محض زندگی مقصود نہیں بلکہ خالق کی یاد کے ساتھ جان ومال کی سلامتی اور ہر ایک سے امن وآشتی مطلوب ومرغوب ہے تاکہ دنیا کی کھیتی سے آخرت کے گھر کیلئے پاکیزہ اعمال لیجاسکے۔ سلام سے محبت کی تخم ریزی ہوتی ہے، اخوت قائم ہوتی ہے، سنتِ نبوی عام ہوتی ہے، رشتہ استوار ہوتا ہے، صلہ رحمی میں دوام ہوتا ہے اور رضائے مولیٰ نصیب ہوتی ہے۔ مزیداظہار محبت کیلئے مصافحہ ہے جو سلام کا تکملہ ہے۔ ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ، باہم مودّت میں دوام واضافہ کا سبب ہے۔ تیسری چیز ہے سینہ سے سینہ ملاکر غایتِ مسرت وبشاشت قلب کا اظہار کرنا ہے جسے عرف عام میں معانقہ کہتے ہیں۔
معانقہ احادیث وآثار کی روشنی میں
معانقہ کاوجود قدیم زمانہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے فطری احکام کا مکلف کیا اور بہت سے امور میں آپ کو اوّلیت کی فضیلت عطا فرمائی ہے ان میں ایک عمل معانقہ بھی ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ الله علیہ نے موطأ مالک کی شرح میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے معانقہ کیا گویا معانقہ شریعتِ ابراہیمی کے بقایا میں سے ہے۔ اور دین فطرت کے سب سے بڑے داعی رسول عربی صلى الله علیہ وسلم اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام سے معانقہ کا ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔
(۱) عن عائشة رضى الله تعالى عنها قالت قدم زید بن حارثة المدینة ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی بیتی فاتاہ فقرع الباب فقام الیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عریانا یجر ثوبہ واللّٰہِ مارأیتہ عریانا قبلہ ولا بعدہ فاعتنقہ وقبلہ. (رواہ الترمذی فی باب المعانقہ)
یعنی پیغمبر صلى الله علیہ وسلم زید بن حارثہ کی طرف برہنہ بدن بڑھے اور ان سے معانقہ فرمایا۔
(۲) عن ایوب بن بُشَیر عن رجل من عَنَزة انہ قال لابی ذر ہل کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصافحکم اذا لقیتموہ قال مالقیتُہ قط الاصافحنی وبعث الی ذاتَ یوم ولم اکن فی اہلی فلما جئتُ اُخبِرتُ فاتیتُہ وہو علی سریر فالتزنی فکانت تلک اجود واجود. (رواہ ابوداؤد فی کتاب الادب)
اس حدیث کے تحت ملاعلی قاری رحمہ الله علیہ صاحب مرقاة لکھتے ہیں قولہ اجود ای من المصافحہ فی افاضة الروح والراحة او احسن من کل شیء. (حاشیہ مشکوٰة)
مولانا عبدالحق محدث دہلوی صاحب راشعة اللمعات لکھتے ہیں ”پس معانقہ کرد مُرا پس بود آں معانقہ جیدتر وسرہ تر از معانقہ ہائے مردم یا از مصافحہ کہ آنحضرت میکرد درافاضہ وایصال ذوق وراحت“ (اشعہ ۴/۲۵)
مولانا خلیل احمد سہارنپوری صاحب بذل المجہود لکھتے ہیں فالتزمنی ای عانقنی فکانت تلک المعانقہ اجود واجود ای احسن واطیب. (بذل۱۳/۵۹۹)
وعلم من ہذا الحدیث جواز المعانقہ فی غیر حالة القدوم اظہارًا لشدة المحبة والعنایة. (تعلیق الصبیح ۵/۱۱۹)
امام بیہقی نے اپنی کتاب ”الآداب“ میں مذکورہ حدیث میں یہ تفصیل نقل کی ہے:
لم یلقنی قط الا اخذ بیدی الا مرة واحدة وکانت تلک اجودہن ارسل الی فی مرضہ الذی توفی فیہ فاتیتُہ وہو مضطجع فاکببتُ علیہ فرفع یدہ فالتزمنی (الآداب ص۹۴)
حضرت ابوذررضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے اپنے مرض الوفات میں مجھے بلا بھیجا میں آیا آپ (صلى الله علیہ وسلم) چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے میںآ پ پر جھکا تو آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور مجھے چمٹایا یعنی سینہ سے لگایا۔ یہ معانقہ روحانیت اور راحتِ باطنی کے افاضہ میں مصافحہ سے عمدہ تھا یا اور لوگوں کے معانقہ سے عمدہ تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر سے واپسی کے علاوہ حالت میں بھی معانقہ درست ہے انتہائی محبت وتوجہ کے اظہار کیلئے۔ اور الآداب للبیہقی کی روایت سے معلوم ہوا کہ یہ معانقہ حضور صلى الله علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں لیٹنے کی حالت میں ہوا ہے۔ یہ صورت بہت سے اکابر کے یہاں بھی پیش آئی ہے مثلاً حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی نے مرض الوفات میں اپنے صاحبزادے مولانا یوسف صاحب کاندھلوی کو سینہ سے لگایا اور روحانی فیض منتقل فرمایا۔
(۳) عن عکرمة بن ابی جہل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم جئتُہ مرحبا بالراکب المہاجر (مشکوٰة)
مصنف تعلیق الصبیح مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں کان شدید العداوة لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہو وابوہ وکان فارسا مشہورا ہرب یوم الفتح فلحق بالیمن فلحقت بہ امرأتہ ام حکیم بنت حارث ابن ہشام فاتت بہ البنیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما راہ قال مرحبا بالراکب المہاجر. وفی روایة لما راٰہ قام الیہ فاعتنقہ وقال مرحبا بالراکب المہاجر فاسلم بعد الفتح (تعلیق ۵/۱۲۰)
یعنی عکرمہ بن ابی جہل کو فتح مکہ کے بعد جب آپ کی خدمت میں اُن کی بیوی ام حکیم لیکر آئیں تو حضور صلى الله علیہ وسلم حضرت عکرمہ کی طرف بڑھے اور معانقہ فرمایااور مرحبا بالراکب المہاجر کہہ کر استقبال کیا۔
(۴) عن الشعبی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم تلقی جعفر بن ابی طالب فالتزمہ وقبل بین عینیہ وعن جعفر بن ابی طالب فی قصة رجوعہ من ارض الحبشة قال فخرجنا حتی اتینا المدینة فتلقائی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعتنقنی ثم قال ما ادری انا بفتح خیبر افرح ام بقدوم جعفر ووافق ذلک فتح خیبر. (رواہ فی شرح السنة)
یعنی حضرت جعفررضى الله تعالى عنه جب حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آرہے تھے تو راستہ میں خیبر اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا کہتے ہیں کہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے میرا استقبال کیااور مجھ سے معانقہ فرمایا۔
(۵) عن رجل من بنی حریش قال ضمنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسال علَیّ مِن عرق ابطیہ مثل ریح المسک (مواہب لدنیہ ۲/۵۷)
قبیلہ بنوحریش کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے مجھے (اپنے سینہ سے) لگایا تو حضور صلى الله علیہ وسلم کے بغل مبارک کا پسینہ مثل مشک کے مجھ پر بہہ پڑا۔
(۶) عن ابن عباس رضى الله تعالى عنه قال ضمنی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی صدرہ فقال اللہم علمہ الحکمة.
حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا اور یہ دعا دی۔
(۷) عن ابی ہریرة قال خرجت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی طائفة من النہار حتی اتی خباءَ فاطمة فقال أثَمّ لُکعُ أثَمّ لُکعُ یعنی حَسَنًا فلم یلبث ان جاء یسعی حتی اعتنق کل واحد منہما صاحبہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللہم انی أحِبُّہ فاَحِبَّہ واَحِبَّ من یُحبُّہ (متفقہ علیہ، مشکوٰة ص۵۶۸)
(۸) عن یعلی بن مرة انہ قال: خرجنا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ودُعینا الی طعام فاذا حُسَیناً یلعب فی الطریق فاسرع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم امام القوم ثم بسط یدیہ فجعل الغلام یفِرّ ہہنا وہہنا ویضاحکہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی اخذہ فجعل احدی یدیہ فی ذقنہ والأخری فی رأسہ ثم اعتنقہ ثم قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حسینٌ مِنی فانا من حُسینٍ احَبَّ اللّٰہ من احَبَّ حسیناً، الحسین سبط من الاسباط (ادب المفرد ص ۱۱۶ فی باب معانقہ الصبی)
اِن دونوں روایتوں میں ہے کہ پیغمبر صلى الله علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے معانقہ فرمایا۔
(۹) عن ابن عقیل ان جابر بن عبد اللّٰہ حدثہ انہ بلغہ حدیث عن رجل من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فابتعتُ بعیرًا فشددت الیہ رحلی شہرا حتی قدمتُ الشام فاذا عبد اللّٰہ بن اُنیس فبعثت الیہ ان جابرًا بالباب فرجع الرسول فقال جابر بن عبداللّٰہ؟ فقلت نعم فخرج فاعتنقنی الخ (ادب المفرد باب المعانقہ ص۳۸۷)
یعنی حضرت جابر بن عبداللہ جب علومسند کے حصول کیلئے ایک ماہ کی طویل مسافت طے کرکے حضرت عبداللہ بن انیس رضى الله تعالى عنه کے پاس پہنچے تو اطلاع پاکر عبداللہ بن انیس گھر سے نکلے اور ان سے معانقہ کیا۔
(۱۰) عن ام الدرداء قالت قدم علینا سلمان فقال این احی قلتُ فی المسجد فاتاہ فلمّا راہ اعتنقہ (طحاوی شریف ۲/۳۶۲)
(۱۱) محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں: حضرت عمر جب ملک شام پہنچے اور وہاں تمام امرائے لشکر اور سربرآوردہ لوگوں سے ملاقات ہوچکی تو فرمایا میرے بھائی کہاں ہیں لوگوں نے پوچھا کون؟ فرمایا ابوعبیدہ، لوگوں نے کہا ابھی آتے ہیں جب وہ آئے تو حضرت عمررضى الله تعالى عنه نے سواری سے اترکر اُن سے معانقہ کیا۔ (اعیان الحجاج ص ۴۳)
(۱۲) اور مغفرت کے چھینٹوں سے نہائے ہوئے حجاج کرام سے فرشتے جیسے مقرب بندوں کے معانقہ کرنے کی خبر صادقِ مصدوق صلى الله علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ الله علیہ نے فضائل حج میں ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے ”ان الملائکة لتصافح رکبان الحاج وتعتنق المشاة“
غرض معانقہ کا عمل پیغمبر صلى الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے بخوبی ثابت و منقول ہے، طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضى الله تعالى عنه کی حدیث نقل کی ہے۔
اخرج الطبرانی فی الاوسط من حدیث انس کانوا اذا تلاقوا تصافحوا واذا قدموا من سفر تعانقوا (تحفة الاحوذی ۷/۵۵۴)
امام بیہقی رحمہ الله علیہ نے امام شعبی رحمہ الله علیہ کا قول نقل کیا ہے کان اصحاب محمد اذا التقوا صافحوا فاذا قدموا من سفر عانق بعضہم بعضاً (الآداب ص۹۴)
فقیہہ ابواللیث سمرقندی لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام جب سفر سے واپس آتے تو ایک دوسرے سے معانقہ کرتے اور بعض بعض کی پیشانی کو بوسہ دیتے تھے۔ (بستان العارفین ص۸۷)
امام غزالی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں الالتزام والتقبیل قد ورد بہ الخبر عند القدوم من السفر (احیاء)
معلم الحجاج میں شرح شرعة الاسلام سے اس طرح نقل کیا کہ اصحاب رسول صلى الله علیہ وسلم جب آپس میں ملاقات کرتے تو معانقہ کرتے اور جب الگ ہوتے تو مصافحہ کرتے، اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے اور مغفرت طلب کرتے تھے۔ (ص۳۴) اور کتاب الامامة والسیاسة سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه اور حضرت زبیررضى الله تعالى عنه گھمسان کی لڑائی سے قبل ملے اور دونوں نے معانقہ کیا اور روئے (حدود اختلاف ص۷۸)
معلوم ہوا کہ معانقہ مختلف احوال میں ثابت ہے: ازیں جا معلوم گردد کہ معانقہ در غیر حال قدوم از سفر نیز آمدہ از برائے اظہار محبت وعنایت۔ (شعة اللمعات ۴/۲۵)
معانقہ کی ممانعت والی حدیث کے جوابات
معانقہ کے سلسلہ میں حضرت انس رضى الله تعالى عنه کی ایک روایت ایسی ہے جس میں ممانعت ہے عن انس بن مالک انہم قالوا: یا رسول اللّٰہ أینحنی بعضنا لبعض اذا التقینا قال لا قالوا أفیعانق بعضنا بعضاً قال لا قوالا افیصافح بعضنا بعضاً قال تصافحوا (معانی الآثار للطحاوی ۲/۳۶۲)
اور ترمذی میں اس طرح ہے: الرجل منا یلقی اخاہ او صدیقہ أینحنی لہ قال لا قال أفیلتزمہ ویقبلہ قال لا قال أفیاخذ بیدہ ویصافحہ قال نعم. (ترمذی باب المعانقہ)
امام طحاوی باب المعانقہ کے اخیر میں لکھتے ہیں فہولاء اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد کانوا یتعانقون فدل ذلک ان ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اباحة المعانقہ متأخر عما روی عنہ من النہی عن ذلک.
یعنی ممانعت والی روایت امام ابوجعفر طحاوی کے نزدیک منسوخ ہے اسلئے کہ معانقہ کی اجازت والی روایت متأخر ہے جیساکہ الآداب للبیہقی کے الفاظ سے بھی واضح ہے (حدیث نمبر۲ میں دیکھئے)
شیخ ابومنصور ماتریدی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ان المکروہ من المعانقہ ما کان علی وجہ الشہوة واما علی وجہ البر والکرامة فجائزة وقیل الخلاف فیما اذا لم یکن علیہ غیر الازار اما اذا کان علیہ قمیص اوجبةٌ فلا بأس بالاجماع (تعلیق الصبیح ۵/۱۱۷)
یعنی وہ معانقہ مکروہ ہے جو بطور شہوت کے ہو لیکن اگر حسن سلوک اور اکرام کے طور پر کیا جائے تو درست ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر معانقہ کرنے والے کے بدن پر سوائے تہہ بند کوئی کپڑا نہ ہو تو مکروہ ہے اوراگر جسم پر کرتا، یا جبہ (وغیرہ) ہو تومعانقہ بالاتفاق جائز ہے۔
معانقہ کے مواقع
وقیل المکروہ ہو ما کان علی سبیل التملق والتعظیم والجائز ما کان عند التودیع و القدوم او لطول عہد الملاقاة او لشدة الحبّ فی اللّٰہ و عند الامن. (بذل المجہود ۱۳/۵۹۹)
یعنی مکروہ معانقہ وہ ہے جو تملق وچاپلوسی کے طریقہ پر ہو اور جو معانقہ رخصت کرتے وقت، سفر سے واپسی کے وقت، ملاقات کا زمانہ طویل ہوجانے کے وقت یا حُبّ فی اللہ کے غلبہ کے وقت، اور شہوت اور برائی کے اندیشہ سے اَمن کے وقت کیا جاتا ہے وہ جائز ہے۔ نیز حالت مرض میں بھی معانقہ کرنا حضرت ابوذررضى الله تعالى عنه کی حدیث سے معلوم ہوا۔ (اشعة اللمعات ۴/۲۴۴)
معانقہ کی حقیقت لغویہ اور حقیقت شرعیہ عرفیہ
معانقہ، تعانق اور اعتنق عُنق سے مفاعلہ، تفاعل اور افتعال کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں گردن سے گردن ملانا (جیساکہ مصافحہ کے لغوی معنی ہتھیلی کا ہتھیلی سے ملانا) ہے۔
لغوی حقیقت میں صرف گردن ملانا ہے جبکہ عرف شریعت میں اس کی حقیقت محض گردن ملانا نہیں ہے بلکہ (محبت قلبی کے اظہار میں) سینہ سے سینہ ملانا ہے۔
محدثین نے اپنی کتابوں میں مصافحہ ومعانقہ پر مستقل باب قائم کرکے معانقہ سے متعلق جو احادیث وآثار بیان کئے ہیں کما ذکرتُ شیئاً منہا. اُن میں تین طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ اعتنقنی، ضمنی، التزمنی. پہلے لفظ میں گردن کا ملانا ظاہر ہے، دوسرے لفظ میں سینہ کا ملانا بھی صراحتاً موجود ہے اور تیسرے لفظ میں سینہ کا لگانا اقتضاءً ہے۔ البتہ پہلا لفظ باب مفاعلہ اور تفاعل سے بھی آثار میں وارد ہے۔ تینوں کا مصداق ایک ہے یعنی سینہ سے سینہ لگانا جس کو عرف عام میں معانقہ کہتے ہیں۔
بہرحال سابقہ احادیث و آثار اور اقوالِ علماء سے معلوم ہوگیا کہ پیغمبر صلى الله علیہ وسلم اور صحابہ میں معانقہ کا معمول تھا اور سلف وخلف میں بھی توارث و تعامل قائم ہے۔ تواب معانقہ کا جو طریقہ پیغمبر صلى الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا رہا ہے وہی اس لفظ کی حقیقت شرعیہ عرفیہ ہے اور وہی طریقہ معہود اور مستحب ہوگا۔
معانقہ میں قلبی پہلوکی رعایت مطلوب ہے
(۱) معانقہ (یعنی سینہ سے سینہ ملانا) کا عمل ہر انسان کے اپنے بائیں جانب سے انجام پاتا ہے جیساکہ علمائے امت اور اہل اسلام کے تعامل سے ثابت ہے اور تعامل حجة شرعیہ ہے۔ بذلک جرت العادة الفاشیة وہی احدی الحجج (ہدایہ) پس اسکے مطابق عمل کرنا ہی صحیح عمل کہلائیگا۔
(۲) اہل علم جانتے ہیں کہ اکابر علماء اور مشائخ صوفیاء کی عملی زندگی امت کیلئے اتباع سنت کا نمونہ ہوتی ہے عوام تو ان کے عمل سے استدلال کرتے ہیں لیکن علماء ان کے عمل کو دیکھ کر اتباعِ سنت کا یقین کرتے ہیں۔ مثلاً ماضی قریب کے ہی حضرات اکابر کو دیکھئے: سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ الله علیہ جو بمنزل شجر طوبی کے ہیں اور ان کے خلفاء اور خلفاء کے خلفاء شاخ بار آور ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ الله علیہ لکھتے ہیں: سینہ سے سینہ ملاکر سب کچھ ملنے کے واقعات مشائخ کے کثرت سے ہیں (اکابر کا سلوک واحسان ص ۶۳)
حضرت فقیہہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی جو حضرت شیخ الہند رحمہ الله علیہ کے اجل خلفاء میں ہیں آپ کے شیخ طریقت وجامع شریعت ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے اور اتباع سنت میں آپ کی زندگی رچی بسی معلوم ومشاہد ہے۔
راقم السطور کو حضرت والا کے پاس ایک عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا ہے چھتہ مسجد دارالعلوم دیوبند میں حضرت اقدس کی زیارت وملاقات اور استفادہ کیلئے آنے والے ملک کے اکابر وعلماء کے ساتھ آمد ورخصت کے وقت مصافحہ ومعانقہ اور خود حضرت فقیہہ الامت کے ہند کے طول وعرض میں اور بیرون ممالک تشریف لیجانے اور واپسی کے موقع پر بھی سینکڑوں اہل علم ومتعلقین سے مصافحہ ومعانقہ کا منظر بار بار ناچیز نے بچشم اعتبار مشاہدہ کیاہے۔ ہمیشہ معہود طریقہ کے مطابق کرتے ہوئے پایا۔ حضرت کو خلافِ مستحب عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ چہ جائے کہ اس پر اصرار ہو۔
اور پھر قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ جن کے خلفاء دنیا کے مختلف خطوں میں علمی وروحانی فیض پہنچا رہے ہیں آپ نے اپنے مسترشدین و معتقدین کے ساتھ جب کبھی معانقہ فرمایا وہ تعامل اور معہود طریقہ کے مطابق ہی ہوا کرتا تھا۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے ڈاکٹر مولانا اسماعیل مدنی خلیفہ شیخ الحدیث (مقیم امریکہ) لکھتے ہیں۔ ہمارا چھ نفری قافلہ . . . قبیل نماز جمعہ سہارنپور پہنچا جمعہ کی نماز حضرت شیخ کے ساتھ اداکرکے مصافحہ کیلئے ہم لوگ آگے بڑھے سب سے پہلے بندہ نے معانقہ کیا حضرت پر گریہ طاری ہوگیا سب ساتھیوں نے باری باری معانقہ کیا (حضرت مولانا زکریا کاندھلوی اور دیگر اکابر کا رمضان ص ۳۹)
غرض حضرات صوفیائے کرام کے یہاں معانقہ کا طریقہ یہی ہے کہ سینہ سے سینہ (یعنی دل سے دل) ملاکر محبت کا اظہار فرمارہے ہیں یا روحانی فیض سے مرید باصفاء کو بہرہ ور کررہے یں اگرچہ بغیر معانقہ کے بھی چشمہٴ فیض رواں رہتا ہے۔
(۳) حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ الله علیہ قیّم وقت ہونے کے ساتھ فقیہہ الامت بھی تھے دارالعلوم دیوبند اور ہندوستان کے بلاتردد مفتی اعظم تھے۔ آپ کا ایک جملہ ظریفانہ مگر فقیہانہ اس سلسلہ میں حقیقت کشا ہے مولانا مسعود احمد غازی آبادی خلیفہ حضرت فقیہہ الامت نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ کوئی مہمان آئے اور حضرت سے معروف طریقہ کے مطابق معانقہ کرکے دوسری جانب بھی سینہ بڑھایا تو حضرت فقیہہ الامت نے فرمایا کہ ”بھئی دل تو ایک ہی ہے“ یا ”ایک ہی جانب ہے“۔ اس سے معلوم ہوا کہ معانقہ ایک ہی مرتبہ ہوگا اور قلبی جانب میں ہوگا۔ پتہ چلا کہ عوام میں دو یا تین مرتبہ معانقہ کرتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے۔
(۴) حجة الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی معانقہ کی حکمت اور راز شریعت ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں والسر فی المصافحة وقولہ مرحبًا لفلان معانقة القادم ونحوہا انہا زیادة فی التبشیش ورفع الوحشة والتدابر. (حجة اللہ البالغہ)
(ترجمہ) اور راز مصافحہ میں اور اس کے کسی کو خوش آمدید کہنے میں اور آنے والے سے معانقہ کرنے میں اور اس کے مانند میں یہ ہے کہ یہ چیزیں مودّت، بشاشت، رفع وحشت اور دفع قطع تعلقی میں اضافہ ہے۔ (رحمہ اللہ الواسعہ ۵/۵۵۱)
پس جب معانقہ میں قلبی مودّت وبشاشت اور دل سے وحشت وبغض کے رفع کا اظہار ہے تو حکمت کا تقاضہ ہے کہ معانقہ کرنے والوں کا سینہ اس طرح ملے کہ گویا دونوں کے دل مل گئے تاکہ ظاہر اور معنی میں مطابقت ہوجائے اور دل ہر انسان کے سینہ میں بس ایک ہی اور وہ بھی بائیں جانب رکھا گیا ہے ما جعل اللّٰہ لرجل من قلبین فی جوفہ اس لئے معانقہ میں وہی جہت اپنے مقصود کے لحاظ سے متعین ہوجاتی ہے اور تعامل اس کا شاہد ہے پس اس کی رعایت کرنا شرعاً مطلوب ہے اور وہی سنت کے موافق ہے۔
(۵) حدیث یحب التیامن فی شأنہ کلہ کی شرح کرتے ہوئے امام نووی نے شرح مسلم میں تیامن کے بہت سے مواقع ذکر کئے ہیں اور کم وبیش دوسرے شراح اور محدثین نے بھی بیان کیا ہے۔ فقہاء نے بھی اختصار وتفصیل سے اُن مواقع کو جمع کیاہے۔ حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ الله علیہ نے السعایہ میں البنایہ شرح الہدایہ سے وہ مقامات شمار کرائے ہیں جیساکہ تیامن کے مضمون میں گذرچکا اِن تمام مواقع پر پھر نظرڈالیئے تو معلومہوگا کہ تیامن کا استحباب وہاں ہے جہاں یمین و شمال دونوں سے عمل کا تعلق ہے تو اب سوال یہ ہے کہ فعل کی ابتداء کدھر سے کی جائے یا دونوں میں سے کس سے فعل کو انجام دیا جائے جواب دیاگیا کہ جو عمل باب تکریم وتزئین اور تشریف سے ہے اس میں تیامن مستحب ہے یہی وجہ ہے کہ مصافحہ کو شمار کرایا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت ہے والمصافحة بکلتا یدیہ سُنة (تعلیق الصبیح) تو پہلے داہنا ہاتھ بڑھائے۔ اور معانقہ باجودیکہ وہ تکریم کے قبیل سے ہے اور راقم آثم نے فتح الباری، عمدة القاری، قسطلانی، بذل المجہود، نووی شرح مسلم، فتح تعلیق الصبیح، مرقاة المفاتیح، اشعة اللمعات، وغیرہ کتب حدیث کی متعدد شروح اور کتب فقہ میں متعلق مقام کا مطالعہ کیاگیا مگر معانقہ کہیں مذکور نہیں پایا حتی کہ بطور استثناء بھی کسی نے ذکر سے تعرض نہیں کیا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ عرف شریعت میں معانقہ کی ایک ہی صورت متعین ہے۔ اس سلسلہ میں دو نکتے مزید پیش کئے جاتے ہیں وہذا ان کا صحیحاً فمن اللّٰہ عز وجلّ والاّ فمِن نَفسِی ومِن الشیطانِ – نعوذ باللّٰہ منہما –
(۶) افاضہ واستفاضہ اور محبت کا اصل ذریعہ قلب ہے اور اس کے لئے جانبین سے قلوب کا متوجہ ہونا ضروری ہے قرب مکان ضروری نہیں ہے لیکن محبت کی کشش جب زیارت و ملاقات پر آمادہ کرتی ہے اور وصال کے قریب پہنچادیتی ہے تو بتقاضہٴ فرطِ محبت دل کا دل سے ظاہراً اتصال بھی مرغوب ہوجاتا ہے اور معانقہ کی صورت میں مطلوب شرعی بن جاتا ہے۔ بعض حکم شرعی میں اس کی نظیر دیکھی جاسکتی ہے۔
دیکھئے خانہ کعبہ کے طواف کیلئے حجر اسود کا استلام کرکے جب دائیں طرف رخ کیا جاتاہے تو کعبہ بائیں جانب ہوجاتا ہے اور یہی مقصود اور شرعی حکم بھی ہے اس میں یہ لطیف حکمت مرعیٰ ہوسکتی ہے کہ مومن دور رہ کر نمازوں میں خانہ کعبہ کا استقبال کیاکرتا تھا لیکن جب اس کی زیارت ولقاء نصیب ہوئی تو طواف کرنے والا شوقِ وصال میں اپنے قلب کو جوکہ مَورِد انوار ہے بیت اللہ کے مقابل جو کہ قلب الارض ہونے کی وجہ سے مہبطِ رحمت ہے اس طرح رکھتا ہے کہ درمیان میں خود طواف کرنے والے کا شق اَیمن بھی حائل نہیں ہے تاکہ بخوبی رحمت الٰہی سے مستفیض ہو۔
(۷) اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ان کے دل کو جو مرکز تصدیق ہے اپنے دست راست سے جانب راست میں آدم کے سینہ میں رکھا جو قدرتی طور پر آدم علیہ السلام کے اعتبار سے جانب یسار میں ہوا تاکہ ہر انسان جب بھی اللہ رب العزت کے سامنے حاضر ہو تو اس کا دل اس کے رب کے جانب یمین میں ہو کما ہو یلیق بشأنہ.
پس دل اگرچہ ہر شخص کے اپنے بائیں پہلو میں ہے لیکن جو انسان جب آمنے سامنے ہوتے ہیں تو ہر ایک کا دل دوسرے کے حق میں دائیں جانب ہوا کرتا ہے اور چونکہ دل مرکز اخلاق وآئینہ محبت ہے ”الموٴمن مِرَاةُ الموٴمن“ تو قیمتی ہونے کی وجہ سے سامنے دائیں جانب ہونا چاہئے اور یہی بہتر ہے۔ اس لحاظ سے معانقہ میں ہر شخص اپنی دائیں طرف مائل ہوتا ہے پس باعتبار آخر یہ بھی تیامن کی ایک شل ہے، واللہ اعلم۔
بحقیقة الحال فقط اِن ارید الاّ الاصلاح ما استطعت، وما توفیقی الا باللّٰہ علیم توکلت والیہ انیب. وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین.
___________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 08 ، جلد: 93 شعبان 1430 ھ مطابق اگست 2009ء