فرقہ پرستی اور اس کے خطرناک مضمرات

حرفِ آغاز

حبیب الرحمن اعظمی

دین اسلام اور اسلامی تعلیمات پر بیجا اعتراضات اور غیر معقول نقد و تبصرہ آج کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ بڑا طویل ہے جس کے ڈانڈے صلیبی جنگوں سے ملتے ہیں، مگر ۱۱/ستمبر ۲۰۰۲ء کو امریکہ کی ایک مرکزی عمارت پر کچھ نامعلوم افراد کے وحشتناک اور تباہ کن حملہ کے بعد اس گمانِ محض پر کہ یہ حملہ آور اسلام کے نام لیواتھے۔ امریکہ اور اسلام دشمنی میں اس کی ہم خیال طاقتوں نے ، اسلام، اسلامی تعلیم و ثقافت اور پوری ملت اسلامیہ پر بہتان تراشیوں کی غیر متناہی ہمہ گیر مہم چھیڑ رکھی ہے، جس سے شہہ پاکر ملک کی بعض وہ تنظیمیں جو خود امن و سلامتی کی سب سے بڑی دشمن ہیں، جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلود ہیں، جن کی بے پناہ سفاکیوں نے ارض وطن کے چہرے کو رنگین کردیا ہے اپنے جذبہٴ مسلم آزاری اور ذوق شرانگیزی کی تسکین کے لیے بے محابا اسلام، اسلامی کی مقدس ترین کتاب اور مسلمانوں کے بارے میں بیہودہ زبان درازیاں کررہی ہیں اور اپنے جہاں سوز افکار و نظریات اور زیردستوں کے خون میں ڈوبی ہوئی اپنی تاریخ سے دنیا کا رخ پھیرنے کے لیے اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف محاذ کھول دیا ہے، احترام آدمیت اور انسانی اخوت سے دنیا کو روسناش کرانے والی مقدس کتاب الٰہی کو نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری کا معلم بتا کر اس میں ترمیم و تنسیخ کا انتہائی شرمناک مطالبہ کررہی ہیں، جس کی بناء پر باہمی ہم آہنگی کا شیرازہ منتشر ہورہا ہے اور ملک میں فرقہ واریت و مذہبی منافرت فروغ پارہی ہے جو کسی جمہوری اسٹیٹ کے لیے برقِ سوزاں سے کم تباہ کن نہیں ہے؛ مگر یہ شرانگیز عناصر ایس، آئی ایم کے ساختہ پرداختہ نہیں ہیں جنھیں کسی معقول ثبوت کے بغیر دیش وِرُودِھی بتاکر پس دیوار زنداں کردیاگیا بلکہ آر، ایس، ایس کے خانہ زاد اور پریوار سے تعلق رکھتے ہیں جن کا کاروبار حکومت میں خاصا دخل ہے، اس لیے اس جمہوریت سوز و سیکولرزم کش رویے پر سرکاری اہل کار سے لے کر قانون و انصاف کے پہرے دار تک سب ہی مہر بلب ہیں۔

اس انتشار پسند گروہ کی حکومتی سطح پر یہ خاموش ہم نوائی ایک بڑے طوفان کا پتہ دے رہی ہے جسے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے آشنا بخوبی سمجھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ باہمی انتشار و منافرت کی کوکھ سے جنم لینے والی اس تباہی سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے رہبران قوم اور ہمدردان ملک نے اپنے طور پر کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور بنارکھا ہوگا مگر ان کی جانب سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش اور موٴثر اقدام بظاہر نظر نہیں آرہا ہے، جو دردمند ارباب فکر و نظر کے لیے باعث تشویش ہے۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ملک و وطن کے تحفظ و ترقی کے تعلق سے دوسروں کے مقابلے میں ایک مسلمان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ کیونکہ اپنے ملک کے تحفظ و صیانت اور تعمیر و ترقی کا ایک فریضہ تو اس کے وطن ہونے کے ناطے عائد ہوتا ہے۔ وطن سے پیار و محبت ایک فطری وطبعی امر ہے اور ظاہر ہے کہ آدمی کو جس چیز کے ساتھ محبت اور قلبی تعلق ہوتا ہے ہمہ وقت اس کی فلاح و بہبود کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ ہندوستان چونکہ ہمارا ملک اور وطن ہے لہٰذا اس اٹوٹ رشتہ کی بناء پر اس کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے لیے سعی و کوشش کے فطری طور پر ہم پابند ہیں۔

پھر ہم اگر وطنی لحاظ سے ہندوستانی ہیں تو مذہبی طورپر پابند اسلام اورمسلمان ہیں ۔ ہماری ان دونوں حیثیتوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد و ٹکراؤ نہیں ہے اور ہمارے مذہب کا یہ تاکیدی حکم ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور دیش باسیوں کے جان و مال وغیرہ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں امن و امان کی فضا بحال رکھنے میں ادنی درجہ کی بھی غفلت اور سستی نہ برتی جائے۔ نیز ملک کوہر طرح کے فتنہ و فساد اور دست و برد سے بچانے کی ممکنہ کوشش کی جائے اور ضرورت پڑنے پر اس راہ میں جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کی جانی چاہیے، ہماری فقہ کی کتابیں ملک و وطن کی خدمت و حفاظت وغیرہ کے احکام ومسائل سے بھری ہیں تفصیل کے طالب ان کی مراجعت کرسکتے ہیں۔

لہٰذا دیگر بردران وطن کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری بڑھی ہوئی ہے کہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے موٴثر کوشش کریں۔ پھر یہ بھی اطمینان کرلیجیے کہ اس جدوجہد کے لیے طول طویل طریقہ کار مرتب کرنے یا کسی منصوبہ سازی کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ خدا ے حکیم و علیم کا فرستادہ دستور العمل ہی ہمارے لیے کافی ہوگا اور پورے وثوق اور کامل یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فرقہ پرستی مخالف جنگ میں اگریہ خدائی دستور العمل ہمارے ہاتھوں میں رہا تو فتح و کامرانی ہمارے قدم چومے گی۔

”وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّیّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیَ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ“ (سورة فصلت آیة: ۳۴)

ترجمہ: اور برابر نہیں نیکی اور نہ بدی جواب میں وہ کہہ جو اس سے بہتر ہو پھر تو دیکھ لے کہ تجھ میں اور جس میں دشمنی تھی گویا دوست دار ہے قرابت والا۔

حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانی اپنے تفسیری فوائد میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

خوب سمجھ لو نیکی، بدی کے،بدی، نیکی کے برابر نہیں ہوسکتیں بلکہ دونوں کی تاثیر جدا گانہ ہے لہٰذا ایک مرد مسلم اور موٴمن قانت کا مسلک ہونا چاہیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک گنجائش ہو برائی کے مقابلہ میں بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تواسکے مقابل وہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے جو اس سے بہتر ہو مثلاً غصہ کے جواب میں بردباری، گالی کے جواب میں تہذیب شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی و مہربانی سے پیش آئے اس طرز عمل کے نتیجہ میں دیکھ لوگے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑجائے گا اور گودل سے دوست نہ بنے تاہم ایک وقت آئے گا جب وہ ظاہر میں ایک گہرے اور گرم جوش دوست کی طرح تم سے برتاؤ کرنے لگے گا، ہاں کسی کی طبیعت کی افتادہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی و خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے مگر ایسے افراد کم ہیں۔

مندرجہ خدائی دستور العمل کو پڑھئے اور غور و فکر کے لیے بار بار پڑھئے اور اپنے آپ کو اس کا پابند بناکر وقت ضائع کیے بغیر میدان عمل میں کود پڑئیے پھر دیکھئے ملک میں نفرت و عداوت اور انتشار و تفرقہ کی بجائے محبت و اخوت اور اتحاد و یگانگت کا راج ہوگا اور فرقہ پرستی اپنی موت آپ مرجائے گی۔ یہی وہ طریقہٴ زندگی ہے جس پر کاربند ہوکر ہمارے اسلاف نے دنیا جہان کے زمین و آسمان بدل دئیے تھے اور ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنالیاتھا۔

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

———————-

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 08 ، جلد: 93 شعبان 1430 ھ مطابق اگست 2009ء

Related Posts