از: مولانااشتیاق احمد قاسمی‏، دارالعلوم حیدرآباد

آج کے ترقی یافتہ دور میں ایجادات و اختراعات کی کمی نہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نت نئی تبدیلیاں ہورہی ہیں، تجارت و معیشت کے فروغ کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں، جب کوئی نئی شکل سامنے آتی ہے تو اسے اختیار کرنے، یا نہ کرنے کے لیے ہر مسلمان جواز اور عدمِ جواز سے متعلق معلومات چاہتاہے؛ کیوں کہ ان کی تعیین کے بغیر عملی زندگی میں ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے، اہلِ فقہ وفتاویٰ کے لیے ان احکام کابتانا تو مشکل نہیں ہوتا، جو قرآن، حدیث اور فقہ میں صراحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، لیکن تغیر زمانہ کی وجہ سے جو نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ان کا شرعی حکم بتانا، ذرا مشکل ہوتا ہے؛ اس لیے کہ حلت و حرمت کی تعیین کے لیے پہلے علت معلوم کرنی ہوتی ہے، یا نظائرِ فقہیہ کو دیکھ کر علتِ مشترکہ کی بنیاد پر حکم لگایا جاتاہے، یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے؛ اس لیے کہ جس طرح کسی حرام کوحلال کہنا جائز نہیں، اسی طرح کسی حلال کو حرام کہنا بھی درست نہیں ہے، اس موڑ پر مسئلہ بتانے والا واقعتا اپنے کو جنت اورجہنم کے درمیان محسوس کرنے لگتا ہے۔

معیشت کے انھیں جدید طریقوں میں نیٹ ورکنگ (Net working) طریقہ آج کل بہت عام ہورہاہے، پہلے تو کمپنیاں کم تھیں، لیکن آج کل مختلف کمپنیاں اپنے کاروبار کو اس انداز پر پھیلارہی ہیں، دارالافتاء میں اس طرح کے سوالات کثرت سے آرہے ہیں کہ ان کمپنیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا ان میں شرکت جائز ہے یا ناجائز؟ زیرِ قلم مقالہ میں اسی سے متعلق تفصیلی بحث پیش کی جارہی ہے، اس کی شرعی عقلی اور معیشتی حیثیت پر بحث کرنے سے پہلے اس طریقہٴ تجارت کا تعارف پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

تعارف:

”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ یہ انگریزی تعبیر ہے، اس کا اردو ترجمہ ”بچھے ہوئے جال نما تجارت“ سے کرسکتے ہیں، اس تجارت میں ایک آدمی کمپنی کا ممبر بنتا ہے، پھر چند دوسروں کو ممبر بناتا ہے، پھر یہ سب بہت سارے لوگوں کو اپنے تحت ممبر بناتے ہیں تو ایک دوسرے سے سلسلہ وار ملی ہوئی تجارت کی یہ صورت ”جال“ کے مشابہ ہوجاتی ہے،اسے ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing) بھی کہتے ہیں، اس کو اردو میں ”مختلف السطح تجارت“ کہہ سکتے ہیں؛ اس لیے کہ اس میں ہر ممبر کی سطح اور اس کی حیثیت برابر نہیں ہوتی؛ بلکہ جو پہلے شامل ہوتے ہیں، ان کی اونچی، زیادہ نفع بخش اور بعد والے کی اس سے نیچی اور کم نفع والی سطح ہوتی ہے،اس میں پڑامیڈ اسکیم (Pyramid scheme) کے نظریہ کے مطابق کام ہوتا ہے، پرامیڈ ”مخروطی“ اور ”اہرامی“ شکل کو کہتے ہیں، یعنی گاجر و مولی کو اُلٹ کر جو صورت بنتی ہے، وہی شکل اس کی ہوتی ہے، یعنی پہلے ایک ممبر ہوتا ہے، پھر اس سے متصل ممبران بڑھتے اورپھیلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں؛ بلکہ جو شخص کمپنی کا ممبر بنتا ہے،اسی کو کمپنی کی مصنوعات فراہم کی جاتی ہیں، خریدار کو خریدی ہوئی اشیاء تو ملتی ہیں، ساتھ ہی کمپنی اس کو ترغیب دیتی ہے کہ آپ اپنے تحت مزید ممبر بنائیے، کمپنی کا سامان فروخت کرنے میں تعاون کیجئے، لہٰذا خریدار جن لوگوں کو ممبر بناتا ہے، اور کمپنی سے سامان خریدنے کے لیے آمادہ کرتاہے،اس پر کمپنی کمیشن (Commission) دیتی ہے، پھر یہ کمیشن صرف ان خریداروں تک محدود نہیں رہتا، جن کو اس نے خریدار بنایا ہے؛ بلکہ اس کے ذریعہ بنے ہوئے خریداروں سے آگے جتنے خریدار تیار ہوئے ہیں، ان کی خریداری پر بھی پہلے شخص کو کمیشن ملتا رہتا ہے، اور مرحلہ وار یہ سلسلہ بہت آگے تک چلاجاتا ہے، مثال کے طورپر اگر پہلے مرحلہ میں دو ممبر بنے، پھر ہر ایک نے دو دو لوگوں کو ممبر بنایا تو دوسرے مرحلہ میں چارہوگئے، پھر ہر ایک نے دو دو ممبر بنائے تو تیسرے مرحلہ میں آٹھ ہوگئے، پھر ہر ایک نے دو دو ممبر بنائے تو چوتھے مرحلہ میں ممبروں کی تعداد سولہ تک پہنچ گئی، پہلے ممبر نے صرف دو ممبر خود بنائے تھے لیکن اس کو دوسرے تیسرے اور چوتھے مراحل میں بنے ہوئے سولہ ممبروں کی خریداری تک کا کمیشن ملتا رہے گا اوریہ سلسلہ آگے بھی بڑھے گا، وضاحت کے لیے ذیل کا نقشہ ملاحظہ ہو:

درج بالا نقشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مرحلہ میں ممبران کی تعداد اس سے اوپر کے مرحلہ کے مقابلہ میں دوگنی ہوتی ہے، اور آخری مرحلہ کے ممبران کی تعداد اوپر کے تمام مرحلوں کے ممبران کی مجموعی تعداد سے بھی کچھ بڑھی ہوئی ہوتی ہے، جیسا کہ مذکورہ نقشہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ چوتھے مرحلہ میں ممبران کی تعداد سولہ ہے جب کہ اوپر کے سارے ممبران کی تعداد چودہ ہی ہے، اس طرح مجموعی تعداد تیس ہوگئی، اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو دسویں مرحلہ میں ممبروں کی تعداد ایک ہزار چوبیس (۱۰۲۴) اور کل ممبران کی تعداد دو ہزار چھیالیس (۲۰۴۶) ہوجائے گی۔

اس طرح نیچے کے ممبروں کی خریداری کاکميشن اوپر والے کو ملتا رہے گا، کمپنی کی ماہانہ خریداری جس طرح بڑھتی ہے، اسی طرح ممبروں کو دیے جانے والے کمیشن میں بھی ضابطہ کے مطابق فی صدی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

اوراس اضافہ کی حد بعض کمپنیوں میں متعین ہوتی ہے، مثلاً ایموے (Amway) میں اکیس فی صد (21%) تک ہی کمیشن پہنچتی ہے؛ البتہ غیرمعمولی کارکردگی ظاہر ہونے اور خریداری کی ایک مخصوص اونچی سطح پر پہنچنے کی صورت میں کمپنی متعینہ کمیشن پر کچھ رقم اعزازی طورپر رائلٹی (Royalty) کے نام سے دیتی ہے۔

اپنے تحت مطلق ممبر بنانا ہی کمیشن پانے کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ مخصوص تعداد کی شرط ہوتی ہے، مثلاً افراد کی مجموعی تعداد کم از کم نو اس طور پر ہونا کہ ہر مرحلہ میں کم از کم تین ممبر ہوں تب ہی کمپنی کمیشن جاری کرے گی، ایک بار کمیشن پالینے کے بعد پھر نو ممبران کی زیادتی شرط ہوتی ہے۔ (سہ ماہی بحث ونظر ص:۱۶۵،۱۶۶) البتہ ہر کمپنی کے ضابطہ میں تعداد کا تفاوت ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔

اگر کوئی آدمی راست ممبر بننا چاہے تو بعض کمپنیوں میں اس کی اجازت نہیں ہوتی، اس کو بھی کسی کے تحت ہی ممبر بننا پڑتا ہے، اس طرح کی کمپنیوں میں اکثر ایسی ہی ہیں، جن کی مصنوعات ممبر ہی کے توسط سے خریدی جاسکتی ہیں، البتہ بعض کمپنیاں بغیر ممبر بنے بھی اپنی مصنوعات کے خریدے جانے کی سہولت دیتی ہیں، مگر رعایت ممبر ہی کے ساتھ خاص ہوتی ہے، ان کے یہاں بھی اوپر والے ممبران کو نیچے اور کافی نیچے والے ممبران کا کمیشن دینا اصول میں داخل ہوتا ہے۔

ممبر بننے کے وقت کمپنی کچھ سامان (ان کے بقول) رعایتی قیمت پر دیتی ہے، اور کچھ متعین روپے ممبری فیس، اور لٹریچر وغیرہ کا معاوضہ بتاکر لے لیتی ہے، رعایت کے نام پر جن پیسوں کو واپس کرنا چاہیے، درحقیقت انہیں کو فیس وغیرہ کے نام سے وصول کرلیتی ہے، گویا ضابطہ میں کمپنی کے پاس ممبر کا ایک روپیہ بھی نہیں رہتا جس کا وہ مطالبہ کرسکے۔

کمپنی میں ممبر شپ (Member ship) کی برقراری کے لیے سالانہ کچھ متعین رقم تجدیدی فیس کے طور پر ادا کرنی پڑتی ہے، اور بعض میں ہر مہینہ کم از کم سورپے کا مال خریدناشرط ہے؛ مثلاً R.C.M کمپنی۔

اس تجارت سے وابستہ لوگوں کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ عام طور پر مصنوعات کی تشہیر (Advertise) پر کافی اخراجات آتے ہیں، اس لیے کمپنی کی کوشش ہے، کہ جو رقم تشہیر پر خرچ ہوتی ہے، وہ اس کے بجائے خود گاہکوں (ممبروں) کو دی جائے، اس لیے ممبران کو کمیشن دیا جاتا ہے۔

حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے، اس لیے کہ یہ کمپنیاں تشہیر کے لیے لٹریچر چھاپتی اور تقریباً ہر ماہ ممبران کو بھیجتی ہیں، کیسٹ، اور سی ڈی بھی فراہم کرتی ہیں، ان کے علاوہ مختلف اوقات میں سیمینار کرواتی ہیں، کیا ان سب میں کچھ خرچ نہیں ہوتا؟ اگر مان لیا جائے کہ خرچ نہیں ہوتا تو ان کمپنیوں کے سامان نہایت سستے کیوں نہیں ملتے؟ یہ لوگ عام طور سے ٹھنڈے مشروب (Cold drink) کی مثال دیتے ہیں کہ اس میں ایک روپیہ صرفہ آتا ہے اور وہ دس روپے کے ملتے ہیں، اگر یہ صحیح ہے تو یہ کمپنیاں اپنے سامان کی قیمت بازاری بھاؤ سے دس گنی کم کیوں نہیں رکھتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ممبر سازی کے ذریعہ روپے بٹورنے کے ڈھکوسلے ہیں، باقی کچھ نہیں۔

ہندوستان میں نیٹ ورک کمپنیاں:

ہندوستان میں غالباً سب سے پہلے ایموے انڈیا (Amway India) کمپنی ۱۹۹۵/ میں آئی، اور لوگوں کو اکٹھا کرکے بے تحاشا روپے بٹورنے لگی، اپنے ممبروں کو جلد سے جلد مالدار ہونے اور راتوں رات لکھ پتی بننے کا خواب دکھانے لگی، ۱۹۹۸/ میں یہ کمپنی بعض ذرائع سے دیوبند کے عوام اور دارالعلوم دیوبند کے طلبہ میں متعارف ہوئی، اور بہت سے طلبہ جائز وناجائزکی تحقیق کیے بغیر، بظاہر جائز خیال کرکے اس کے جال میں پھنس گئے، ان میں بعض میرے احباب بھی تھے، اس کی شرعی صورت دریافت کرنے کے لیے میں نے اس کے تعارف نامے پڑھے اور پروگراموں میں کئی بار شرکت کی، مجھے چند بنیادی اشکالات ہوئے اور جواز پر انشراح نہیں ہوا، پھر دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے جو عدمِ جواز کافتویٰ شائع ہوا، تو اس کمپنی میں بلاسوچے سمجھے شریک ہوجانے والے ساتھیوں کو افسوس ہوا، مجھے اس بات پر زیادہ افسوس تھا کہ کمپنی نے ہراباغ دکھلاکر کئی لاکھ روپے طلبہ کے ہاتھوں سے لے لیے تھے، یہ تذکرہ اس لیے کیا کہ اچھے اچھے لوگ اس طرح کی کمپنیوں کے دامِ تزویر میں پھنس جاتے ہیں اور خاص کربے روزگار نوجوانوں کے لیے ایسی کمپنیاں بہت ہی کشش کا باعث ہوتی ہیں، نوجوانوں کو جلد سے جلد کروڑپتی بننے کا خواب نظر آنے لگتا ہے،اور نسخہ بھی اتنا آسان کہ جس میں نہ سرمایہ کاری کرنی پڑے اور نہ ہی زیادہ محنت ہو بلکہ بعض مراحل میں محنت بھی نہیں کرنی پڑتی اور سرمایہ تو کمپنی میں سرے سے باقی ہی نہیں ہے، گویا بے محنت وبے سرمایہ بہ عجلت مالداری کی ہوس دماغ میں بھرجاتی ہے۔

”ایموے انڈیا“ کے علاوہ آرسی، سی، ایم (R.C.M) وغیرہ دیگر کئی ناموں سے کافی تعداد میں کمپنیاں میدانِ عمل میں اتری ہوئی ہیں، اور جلد مالدار ہونے کا جھانسا دے کر ناعاقبت اندیش افراد سے سرمایہ جمع کررہی ہیں، اسی وجہ سے گذشتہ سالوں میں (غالباً ۲۰۰۶/ میں) روزنامہ ”منصف“ حیدرآباد میں ہندوستان کے شعبہٴ اقتصادیات کی طرف سے ایسی کمپنیوں کے دھوکے اور ضرر سے بچے رہنے کی تلقین و تاکید کی گئی تھی، اس لیے کہ ایسی کمپنیاں ملکی اقتصاد کے لیے زہرِ ہلاہل ہیں، ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ”ایموے“ کا مالک سارے لوگوں کے پیسے جمع کرکے فرار ہوگیا تھا، جس سے اس کمپنی کے ممبران میں کافی تشویش پائی جارہی تھی، لیکن چند دنوں کے بعد ہی ازسرِ نو اس کمپنی نے سنبھالا لیا، تب جاکر ممبران کی جان میں جان آئی، اس لیے تعارف کراتے وقت اب اس کمپنی کا نام لینے میں وہ لوگ ہچکچاتے ہیں۔

دیگر ممالک میں:

”ملٹی لیول کمپنیاں“ ہندوستان میں تو بیسویں صدی کی آخری دہائی میں متعارف ہوئی ہیں، لیکن اس سے پہلے دیگر ممالک خاص کر یورپی ممالک میں یہ تجربہ کے مرحلے سے گذرچکی ہیں، خود ”ایموے“ کے پروگراموں میں بھی اس کی صراحت کی جاتی رہی ہے، تعارف کرانے والے اس انداز سے بیان بازی کرتے ہیں کہ جیسے یہ کمپنیاں ان ترقی یافتہ ممالک کو فیض یاب کرکے اب ہمارے ملک کو بھی فیض یاب کرنے آئی ہیں، حالانکہ بات ایسی نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اِن کو اُن ممالک سے راندئہ درگاہ کردیاگیا ہے، وہاں کے ماہرینِ اقتصادیات نے انھیں مسترد کردیا ہے اور چونکہ اس کے بنیادی ساخت (System) میں دھوکہ اور تجارتی چال بازی (Busness fraud) ہے؛ اس لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے، اور حکومتوں نے ان کے ضرر سے بچنے کی تلقین کی ہے، ان کے نعرے ضرور دلکش ہیں لیکن حقیقت میں پرفریب ہیں، انجام کار ساری رقوم ان کمپنیوں اور اداروں کے مالکان کی جھولی میں چلی جاتی ہیں، ممبران کو سوائے سراب اور دھوکہ کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

پڑوسی ملک پاکستان میں بھی ملٹی لیول مارکیٹنگ کی دھوکہ بازی، غیراخلاقی اور ناجائز لین دین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرکت سے گریز کرنے کی تلقین کی گئی ہے، تفصیل (SECP) کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ (بحوالہ سہ ماہی بحث ونظرص:۳۶۱)

امریکہ میں اسی طرز کی ایک کمپنی اسکائی بزکوم (Skybiz.com) ہے،اس کمپنی کی شاخیں متعدد ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں، مگر خود امریکی حکومت نے مذکورہ کمپنی پر عوام کے ساتھ دھوکہ دہی اور چال بازی (Fraud) کا الزام عائد کیا ہے، اسی کے پیش نظر ”اوکلاہومااسٹیٹ“ کی عدالت نے کمپنی کی سرگرمیاں روک دینے،اور کمپنی کے کارکنوں اورایجنٹ حضرات کا سرمایہ اوراجرت انھیں واپس کیے جانے کے پیش نظر اس کمپنی کے اثاثے منجمد کردینے کا فیصلہ کیاہے۔ (دیکھئے امریکی وزارتِ تجارت کی ویب سائٹ: http://www.Ftc.gov/opa/2001/06sky.htm بحوالہ بحث ونظر شمارہ ۶۸، ۶۹ جنوری – جون ۲۰۰۵/ص:۱۶۳)

جاپان اور چین میں ۱۹۹۸/ میں ایموے (Amway) اوراس طرز کی کمپنیوں پر پابندی لگ چکی ہے۔ (اخبار منصف: مینارئہ نور ۲۴/۳/۱۴۲۸ھ)

مصنوعات محض بطورِ حیلہ:

جب بھی اس کمپنی کے تعارفی پروگراموں میں سمجھنے کی نیت سے شرکت کا اتفاق ہوا، یا اس کمپنی کے ممبران کو نئے ممبر کی تشکیل کرتے ہوئے دیکھا تو ایک خاص چیز محسوس ہوئی کہ وہ نئے افراد کی شمولیت سے حاصل ہونے والے کمیشن کا لالچ خوب خوب دلاتے ہیں، اور حقیقت میں بھی نیٹ ورکنگ سسٹم میں کمیشن کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے،اور مصنوعات ثانوی درجہ رکھتی ہیں، نئے ممبر کو شمولیت پر راضی کرنے کے لیے خیالی کمیشن کا ذکر ہی کافی سمجھاجاتا ہے، اس کے بغیرمصنوعات کی مارکیٹنگ ناممکن ہے۔

(۱)              مصنوعات کے ثانوی درجہ میں ہونے کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ ”ایموے کمپنی“ جب شروع ہوئی تھی تو اس کی مصنوعات بہت تھوڑی تھیں اکثر دھونے پونچھنے کے سیال (Liquid) مواد ہی تھے، مثلاً شیمپو(Shampoo) کپڑا فرش اور کار دھونے کا سیال مادہ، ٹوتھ پیسٹ (Tooth paste)، کریم (Cream) وغیرہ اور ساری چیزیں نہایت مہنگی اورگراں قیمت تھیں، اکثر چیزیں بازاری قیمت سے تین، چار بلکہ چھ گنا مہنگی تھیں، اگرچہ یہ دعویٰ تھا کہ یہ چیزیں معیار میں اعلیٰ و ارفع ہیں، لیکن وہ شامل ہونے والے ممبران کی معاشی حیثیت سے بھی نہایت ہی وراء الوراء اور بلند تھیں۔ وہ ممبران ایسی بھی چیز لائے تھے، جن کی انھیں کبھی ضرورت پیش نہ آئی، وہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ گئیں، مثلاً کار اور فرش دھونے والے قیمتی مواد وغیرہ یہ صورتِ حال اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انھوں نے کمیشن حاصل کرنے ہی کے لیے شمولیت اختیار کی تھی، آج بھی یہ صورتِ حال باقی ہے کہ شامل ہونے والے محض کمیشن کی نیت سے شامل ہوتے ہیں، اگر انھیں لوگوں سے بالفرض یہ کہاجائے کہ بلاممبر بنے محض مصنوعات استعمال کرنے کے لیے مذکورہ کمپنی کی اشیاء خریدیں تو وہ ہرگز نہیں خریدیں گے، بلکہ اس کے بالمقابل اسی جنس کی اشیاء دوسری کمپنی کی خریدیں گے،جو بہ نسبت معیاری اورمعتدل قیمت کی ہوں گی، انھیں کو اپنے لیے مناسب حال سمجھیں گے، اسی طرح اگران کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے ممبر بن جانے کے بعد کمپنی بند ہوجائے گی اور ان کو کمیشن ملنے کی نوبت نہیں آئے گی، تو بھی ایسی صورت میں وہ ہرگز ہرگز مذکورہ کمپنی کی مصنوعات نہیں خریدیں گے، یہ صورت بھی ببانگِ دُہَل یہ پکاررہی ہے کہ ان کمپنیوں میں شامل ہونے والے کمیشن کو ہدف اور مقصدِ اصلی بناتے ہیں، مصنوعات محض بہانہ ہوتی ہیں۔

(۲)             اور بالفرض مصنوعات اگر سستی بھی ہوں تو بھی ممبران کی نیت اور ان کا قصد وارادہ نئے ممبران بناکر کمیشن حاصل کرنا ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ معاشرہ میں کوئی بے عقل ہی ہوگا، جو ابتدائی مرحلہ میں ہی (بقول ان کے) رعایتی قیمت پر سامان حاصل کرلینے پر اکتفاء کرے اور کمیشن بلکہ بے تحاشا کمیشن حاصل کرنے کی نیت نہ کرے، یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اشیاء کی محض جودت وعمدگی اور رعایت بتاکر ایک ممبر تیار کرنا بھی مشکل بلکہ محال ہوگا، اس لیے کہ دنیا کی ساری کمپنیاں اپنی مصنوعات کی عمدگی اورارزانی ہی بتاکر اشتہار دیتی ہیں، ایسی صورت میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کی سرے سے کوئی خصوصیت باقی نہیں رہ جائے گی۔

(۳)            مصنوعات کی حیثیت ثانوی اور کمیشن کی اوّلی ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی کمپنیوں کے اصول و ضوابط کااکثر حصہ کمپنیوں میں شرکت اور اسی سے متعلق شرائط واحکام پر مشتمل ہوتا ہے، ان کے تعارف ناموں میں خریداری اور سامان کا ذکر چند فقرات میں ہی ہوتا ہے، اس جگہ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کیا اس طرزِ عمل کا مقصد صرف مصنوعات کی خرید و فروخت ہے؟ اور شرکت و ممبرسازی ضمنی ہے؟ یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟

(۴)            جیسا کہ ”تعارف“ میں یہ بتایاگیا تھا کہ اپنی ممبری باقی رکھنے کے لیے سالانہ متعین رقم جمع کرنی پڑتی ہے اور بعض میں ماہانہ متعین خریداری شرط ہے، یہ اس طرح کی کمپنیوں کے شرائط میں داخل ہے، ظاہر ہے کہ ادائیگی، مارکیٹنگ میں تسلسل باقی رکھنے کا عوض ہی ہے، یہ کوئی اور چیز نہیں ہے، اس لیے کہ مصنوعات کی خریداری اوراس کا معاوضہ تو ابتداء میں ہی پورا ہوچکا ہے، اگر مصنوعات کی فروخت مقصود ہوتی تو یہ رقم بلا سامان نہ لی جاتی۔

(۵)             یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ یہ کمپنیاں ممبرسازی کے لیے پورا تعاون فراہم کرتی ہیں، لیکن مصنوعات کی فروخت میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا، بلکہ کھلی مارکیٹ میں لاکر فروخت کرنا ضابطہ کے خلاف بتاتی ہیں، ظاہر ہے کہ جہاں کھلی مارکیٹ میں مصنوعات آئیں گی تو سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا، لوگ جب دوسری کمپنیوں کی مصنوعات سے موازنہ کریں گے، تو ان کی حیثیت گھٹ جائے گی اور حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔

(۶)             ملٹی لیول کی بعض کمپنیاں خواہش مند حضرات کو مصنوعات خریدے بغیر بھی شرکت کی اجازت دیتی ہے،اگر مصنوعات کی فروخت ہی مقصود ہوتی تو ایسی اجازت ہرگز نہ دیتیں۔ (دیکھئے بحث ونظر، ص:۱۷۴، ۱۷۵)

اوپر بیان کردہ ساری تفصیل کا حاصل یہ نکلا کہ اس طرح کی کمپنیوں کا مصنوعات فروخت کرنا درحقیقت پروگرام میں شریک ہونے کا حیلہ اور بہانہ ہے، اصل مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن حاصل کرنا ہے۔

بنیادی خرابی:

بنیادی خرابی جس کی وجہ سے عالمی پیمانے پر اس کمپنی کو مسترد کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نظام میں دوام و استمرار کی صلاحیت نہیں ہے، اس کے ابتدائی مراحل میں تو ممکن ہے کہ آسانی سے کچھ ممبر بن جائیں، لیکن چند مرحلوں کے بعد ممبربنانا دشوار ہوجائے گا، اور ایک ایسا مرحلہ آئے گا کہ اس کے بعد مزید ممبربنانے کی گنجائش باقی نہ رہے گی، مثال کے طور پر کسی شہر میں کمپنی ایسے کاروبار کا آغاز کرے اور مختلف گاہکوں کے ذریعہ پہلے مرحلہ کے خریدار ساڑھے چھ ہزار ہوجائیں، اور ہر ممبر کے ذمہ نو ممبر بنانے کی ذمہ داری ہو، جیسا کہ بعض کمپنیوں میں ہے تو چوتھے ہی مرحلہ میں ان کی تعداد چوہتر لاکھ اڑتیس ہزار پانچ سو (۷۴۳۸۵۰۰) ہوجاتی ہے، یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ہندوستان کے چھ سات بڑے شہروں کو چھوڑ کر پورے شہر کا احاطہ کرتی ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات عملاً ممکن نہیں کہ کوئی شہر پورا کا پورا اس اسکیم سے جڑ جائے۔ (مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ روزنامہ منصف حیدرآباد ۲۴/ربیع الاول ۱۴۲۸ھ ”مینارئہ نور“ ص:۱) تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی صورت میں اوپر کے لوگوں کو تو کثیر نفع حاصل ہوگا، لیکن آخری مرحلہ کے ممبران بلاکمیشن حاصل کیے گھاٹے میں رہ جائیں گے، حالانکہ اخیر کے مرحلہ میں اوپر کی بہ نسبت زیادہ ممبران ہوتے ہیں، یہ خرابی ایسی ہے کہ اسے ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔

لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس طرح کی کمپنیوں میں کمیشن پانے کے لیے ممبروں کی تعداد اور مراحل کا آگے بڑھانا شرط ہوتا ہے، اس لیے جن کمپنیوں میں مثلاً تین مراحل میں نوممبران کی شرط ہے، ان میں نیچے سے تین مرحلوں کے لوگ بلاکمیشن رہ جائیں گے، اور یہ خرابی ایسی ہے کہ جس وقت بھی کمپنی موقوف ہوگی، اس سے نیچے کے چند مراحل کے لوگ محروم رہ جائیں گے اور چونکہ نیچے کے مراحل میں ممبروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ہر لمحہ اکثر ممبران گھاٹے میں رہتے ہیں، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کمپنی کے پانچ چھ فی صد لوگ تو بہت سارا نفع حاصل کرتے ہیں، بقیہ چورانوے فی صد لوگ امید و بیم میں رہ کر نقصان اٹھاتے ہیں یا یہ کہ اپنی اصل رقم سے بھی ہاتھ دھولیتے ہیں۔ حاصل یہ کہ چند ممبران کے منافع کی خاطر اکثر ممبران کا نقصان برداشت کرنا، اس نظام کی سب سے بڑی بنیادی خرابی ہے۔

اس نظام کی تائید کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ کمپنی کے ذمہ داران اور چند دیگر لوگوں کے مفاد کی خاطر عوام کو دھوکہ میں مبتلا ہونے کی تائید کی جائے۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کامدار ہی ”پھنسنے پھنسانے“ پر ہے، جہاں ایک آدمی ممبر بنتا ہے اور ممبری فیس کی ادئیگی کے ساتھ کچھ اور روپے سامان کی خریداری کے نام پرہاتھ سے چلے جاتے ہیں؛ بس اُسے اپنے پیسے کی بازیابی اور مزید کی ہوس سوار ہوجاتی ہے، چونکہ کمپنی سے محض سامان حاصل کرنا مقصد نہیں ہوتا؛ بلکہ منافع اور کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے؛ اس لیے دوسروں کو مختلف انداز میں سچ اور جھوٹ بول کر پھانسنے کی کوشش کرنے لگتاہے، پھر اگلا آدمی بھی اسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے، کمپنی کی خرابیاں سامنے آنے کے باوجود منافع کے لالچ میں اپنی زبان مہر بند رکھتا ہے، تنقید کا ایک لفظ نہ تو بولتا ہے اور نہ ہی بولنے دیتا ہے، اگر مصنوعات کی خریداری ہی مقصود ہوتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی۔

بہت سے لوگ ممبر بن تو جاتے ہیں مگر چرب زبان اور لسّان نہیں ہوتے، یا جھوٹ سچ ملاکر بولنے کی عادت نہیں ہوتی، وہ ممبر بنانے سے یا تو بالکل عاجز رہتے ہیں یا ممبر کی مطلوبہ تعداد مہیا نہ کرنے کی صورت میں وہ کمیشن اور منافع سے محروم رہتے ہیں۔

ماہرینِ اقتصادیات کی رائے:

چونکہ یہ نظام ”سودی نظام“ سے بھی بدتر ہے؛ اس لیے کہ سودی نظام میں مخصوص محتاجوں اور سودی قرض لینے اور سودی معاملہ کرنے والوں کی دولت ساہوکاروں اور سودخوروں کے پاس آتی ہے، نیٹ ورک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے اتنے مرتب اور وسیع پیمانے پر سود اکٹھا نہیں ہوتا۔

نیٹ ورکنگ کے اس نظام میں کافی بڑے پیمانے پر دولت سمٹتی ہوئی، چند اوپر کے ممبران کے پاس مربوط انداز اور مخروطی (Pyramid) شکل میں جمع ہوتی رہتی ہے، نیچے کے ممبران منافع سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دولت کی ترکیز دونوں میں ہے مگر نیٹ ورک مارکیٹنگ میں سودی نظام کی بہ نسبت زیادہ ہے، اس لیے عالمی پیمانے پر نیٹ ورک مارکیٹنگ کو مسترد کیا جارہاہے۔

ماہرینِ اقتصادیات ومعاشیات نے نیٹ ورکنگ سسٹم کو ”کینسر کی سوجن“ سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح کینسر آلود خلیہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے جسم کو مسموم کرکے جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے، اسی طرح نیٹ ورک مارکیٹنگ میں ممبرسازی کے ذریعہ پورا معاشرہ لپیٹ میں آکر اقتصادی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔

”سودی نظام“ میں چونکہ بنیادی خرابی ترکیزِ دولت (Collection of wealth) ہے، اس میں مال دار زیادہ مال دار اور غریب زیادہ غریب ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسلام نے اسے مسترد کردیا، تو ظاہر ہے کہ کوئی ایسا نظام یا ایسی معاشری صورت جس میں ترکیزِ دولت سودی نظام سے بھی زیادہ مہلک ہو، تو اس کی تائید اسلام کیسے کرسکتا ہے؟ اور جب خود سودی نظام نے ”نیٹ ورکنگ“کو مسترد کردیا ہے، تو ”اسلامی نظامِ دولت“ اسے سینے سے لگالے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔

یہاں تک پوری گفتگو ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ کا تعارف، اس کے اقتصادی اور اخلاقی پہلو پر کی گئی، ماہرِ اقتصادیات کی آراء اور عالمی پیمانے پر اس طریقہٴ تجارت کی مخالفت کی وجوہات بیان کی گئیں، جن سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس طرز کی مارکیٹنگ کسی طرح بھی سرمایہ کاروں اور ملک کے حق میں مفید نہیں ہے، اس سے معاشرہ شدید مالی بحران کا شکار ہوگا، دولت سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے گی اور بس۔

شرعی حیثیت:

اسلام نے ہر اس معاملہ کومسترد کردیا ہے، جس میں دغا فریب اور دھوکہ دھڑی پائی جاتی ہو؛ یا جس میں ملکی بدانتظامی اور لوگوں کی ضرررسانی کا عنصر پایا جائے، یا جس میں مفادِ عامہ کی چیزوں پر چند افراد کے قبضہ کی صورت پائی جائے، یا جس میں خرید وفروخت کے ساتھ کوئی شرط لگادی جائے، یا وہ معاملہ ایسا ہو کہ جس میں بیع کے ساتھ کسی دوسرے معاملہ کا قصد کیا جاتا ہو اور بیع کا صرف بہانہ ہو، اسی طرح وہ معاملہ بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں، جس میں نزاع اور لڑائی کا احتمال ہو، جس میں دو معاملہ کو ایک کردیاگیا ہو وغیرہ وغیرہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ایسے ”نو“ وجود بیان فرمائے ہیں، جن کی وجہ سے شریعت نے معاملات کو مکروہ و ناجائز قرار دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے رحمة اللہ الواسعہ ج:۲/۵۶۲ تا ۵۸۴)

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم دریافت کرنے کے لیے مذکورہ بالا اقتباس کو پڑھ کر اگراس طرزِ تجارت پر نگاہ ڈالی جائے تو ادنیٰ تأمل کے بعد ہی اس کا عدمِ جواز کھل کر سامنے آجائے گا؛ اس لیے کہ اس میں عدمِ جواز کی متعدد وجوہ پائی جاتی ہیں۔

ذیل میں مزید تفصیل سے عدم جواز کی وجوہ بیان کی جاتی ہیں:

(۱) نفع حاصل کرنے کے لیے شریعت نے جو اصول بتائے ہیں، ان میں یا تو سرمایہ اور محنت دونوں ہوتی ہیں، جیسے بیع وشرا؛ یا صرف محنت ہوتی ہے اور سرمایہ دوسرے کا ہوتا ہے، جیسے مضاربت وغیرہ، لیکن ایسی کوئی صورت شرعاً جائز نہیں ہے، جس میں نہ تو محنت ہو اور نہ ہی سرمایہ لگے۔

نیٹ ورٹ مارکیٹنگ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ممبر بنتا ہے تو کمپنی ممبری فیس لے لیتی ہے،اور اپنی مصنوعات دے کر ان کی قیمت الگ سے لیتی ہے، قانونی لحاظ سے کمپنی کے پاس ممبر کا کوئی رقمی مطالبہ نہیں رہ جاتا، گویا کمپنی میں رقم اور سرمایہ لگاہوا نہیں ہے۔

پھر جب ممبرسازی ہوتی ہے، تو پہلے مرحلہ میں مان لیا جائے کہ اپنے تحت ممبربنانے میں محنت ہوئی، صرف انھیں ممبران کی تشکیل کا معاوضہ اگر ملے تو اسے کسی درجہ میں جائز کہا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ سرمایہ نہیں لیکن محنت تو پائی گئی، لیکن دوسرے تیسرے اور بعد کے مراحل میں ممبرسازی میں اس کی کوئی محنت نہیں ہوئی تو بعد کے ممبران کا تشکیلی معاوضہ کس طرح جائز ہوگا، جب کہ وہاں نہ تو محنت ہے اور نہ ہی سرمایہ!

اس تجارت سے منسلک حضرات یہ کہتے ہیں کہ ”آئندہ مراحل میں بھی کارکنوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے، جیسے لوگوں کو سمجھانا، مال کی اہمیت بتانا، ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنا وغیرہ“ لیکن تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پہلا ممبر براہِ راست ممبر بنانے کے بعد اگر آئندہ مرحلوں میں کوئی تعاون نہ کرے تب بھی وہ کمپنی کے اصول کے مطابق کمیشن کا مستحق قرار پاتا ہے، حاصل یہ کہ آئندہ مراحل میں بلا سرمایہ اور بلا محنت کمیشن آنا اس طرزِ تجارت کی سب سے بڑی خرابی ہے۔

پہلے مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ بھی درست نہیں:

اس طرح کی کمپنیوں میں ہر مرحلہ کی ممبرسازی کا معاوضہ الگ الگ نہیں دیا جاتا؛ بلکہ اپنے تحت چند مراحل میں مخصوص تعداد پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً بعض کمپنیوں میں یہ شرط ہے کہ جب ممبران کی تعداد ”نو“ ہوجائے اور وہ بھی تین مراحل میں ہوں تب ان سب کی خریداری کا متعین کمیشن اوپر کے ممبر کو دی جائے گی، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ہی نہیں دوسروں کے بنائے ہوئے ممبران کا معاوضہ بھی ساتھ ہوکر ملے گا، اس لیے حلال و حرام میں اجتماع کی وجہ سے یہ معاوضہ لینا بھی حرام ہوگا۔

فقہ کا قاعدہ ہے: اذَا اجْتَمَعَ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ غُلِّبَ الْحَرَامُ (الاشباہ والنظائر:۱/۳۳۵) ترجمہ: جب حلال وحرام جمع ہوجائیں تو حرام کو غالب مانا جاتا ہے۔

(۲) شریعت میں ”سود“ اس لیے حرام ہے کہ اس میں زر سے زر حاصل کرنے کا ذریعہ اور بہانہ بنایا جاتا ہے، اس میں نہ تو کوئی پیداوار سامنے آتی ہے اور نہ ہی محنت پائی جاتی ہے، اس طرح جب زر سے زر پیدا کرنے کی ریت چل پڑتی ہے، تو لوگ بنیادی ذرائع معاش مثلاً کھیتیاں اور کاریگریاں چھوڑ دیتے ہیں اوریہ مثل زبانِ حال سے دہرائی جانے لگتی ہے، ”جب روٹی ملے یوں، تو کھیتی کرے کیوں؟“ (رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۲)

نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی ممبری فیس کے طور پر تھوڑا سرمایہ لگاکر پیسوں سے پیسے حاصل کرنے کا حیلہ اختیار کیاجاتا ہے، ہر ممبر کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اپنے نیچے زیادہ سے زیادہ ممبران آجائیں تاکہ اچھی خاصی رقم کسی محنت ومشقت کے بغیر کمیشن کے طور پر ان کے پاس جمع ہوجائے؛ حالانکہ زر سے زر کشید کرنا سود ہے، اس طرز کی تجارت کو ربوا سے کافی مشابہت ہے، جسے قرآنِ پاک میں حرام فرمایاگیاہے:

”أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“ (بقرہ:۵۷۲)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قراردیا ہے“

(۳) شرعی لحاظ سے ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ کہ اس کمپنی میں شریک ہونے والوں کا مقصد کمپنی کا سامان خریدنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور نفع کمانا ہی مدِنظر رہتا ہے، گویا مقصود کمیشن ہے سامان نہیں، سامان کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے شرعی حکم معلوم کرتے وقت مقصود اور غلبہ کا ہی اعتبار ہوگا، جیسا کہ فقہی قواعد اس کی طرف مشیر ہیں:

(الف) العِبْرَةُ فِیْ الْعُقُوْدِ لِلْمَقَاصِدِ وَالْمَعَانِیْ لاَ لِلْألْفَاظِ وَالْمَبَانِیْ . (قواعد الفقہ ص:۹۱)

ترجمہ: ”معاملات میں مقاصد ومعانی ہی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ و عبارت کا نہیں“

(ب) اَلْعِبْرَةَ لِلْغَالِبِ الشَّائِعِ لاَ لِلنَّادِرِ. (ایضاً)

ترجمہ: ”رائج وغالب حیثیت کا ہی اعتبار ہوتا ہے، نادر و کم یاب کا نہیں“

(ج) التابِعُ لا یَتَقَدَّمُ عَلَی الْمَتْبُوْعِ . (الاشباہ والنظائرج:۱/۳۶۵)

ترجمہ: تابع کو متبوع پر مقدم نہیں کیا جاسکتا۔

نیٹ ورک سسٹم میں شمولیت کا اصلی مقصد چونکہ کمیشن اور نفع حاصل کرنا ہی ہے، یہی پہلو شریک ہونے والوں کے لیے باعثِ کشش ہے؛ اس لیے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ آدمی ممبر بننے کی فیس دے کر امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتاہے، ہوسکتاہے کہ اس بہانے کافی منافع ہاتھ آجائیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لگایا تھا وہ بھی ڈوب جائے یہی حقیقت ہے جوئے اور قمار کی۔

”ہُوَ کُلُّ لَعِبٍ یُشْتَرَطُ فِیْہِ غَالِبًا أن یَّأخُذَ الْغَالِبُ شَیْئًا مِنَ الْمَغْلُوْبِ وَأصْلُہ أن یَّأخُذَ الْوَاحِدُ مِنْ صَاحِبِہ شَیْئًا فَشَیْئًا فِی اللَّعِبِ“ (ص:۴۳۴)

ترجمہ: قمار (ہار جیت کا) ہر وہ کھیل ہے جس میں اکثر یہ شرط ہوتی ہے کہ جو غالب ہوگا، وہ مغلوب سے کچھ لے گا، اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی سے کھیل میں تھوڑا تھوڑا کچھ لیتا رہتا ہے۔

اور قمار کی تعریف یوں لکھی ہے:

انَّہ تَعْلِیقُ الْمِلْکِ عَلَی الْخَطَرِ وَالْمَالُ فِی الْجَانِبَیْنِ (قواعد الفقہ ص:۴۳۴، فتاوی ابن تیمیہ ۱۹/۲۸۴)

ترجمہ: ملکیت کو جوکھم پر معلق کرنا، جب کہ دونوں جانب مال ہو۔

حاصل یہ کہ قمار (جوا) میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر ہوتا ہے؛ احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سا مال مل جائے گا، اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے،اسی کو ”مخاطرہ“ اور قرآن کی اصطلاح میں ”میسر“ کہتے ہیں۔

جوئے کا مدار لالچ، جھوٹی آرزو اور فریب خوردگی کی پیروی پر ہے،جوا کمزوروں کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیتا ہے، ہارنے والااگر خاموش رہتاہے تو محرومی اور غصہ میں خون کا گھونٹ پی کر خاموش رہتا ہے،اور اگر دوسرے فریق سے لڑتا ہے، تو اس کی کوئی نہیں سنتا کیوں کہ ”خود کردہ را علاجے نیست“ جوئے کا تمدن اور باہمی تعاون میں کچھ حصہ نہیں۔ (مستفاد از رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۴۱)

مفتی بغداد، صاحبِ ”روح المعانی“ علامہ محمد آلوسی نے میسر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

المَیْسِرُ… امَّا من الیُسْرِ لأنہ أخذُ المال بِیُسْرٍ وَسُہُوْلَةٍ (روح المعانی: ۲/۱۱۳)

یعنی ”میسر“ یا تو یُسر سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں، کسی کا مال آسانی اور سہولت سے مارلینا، میسر (جوا) کے ذریعہ لوگوں کے اموال آسانی سے جھپٹ لیے جاتے ہیں۔

نیٹ ورک مارکیٹنگ کی موجودہ شکل اگرچہ نئی ہے، لیکن بہرحال اس میں جوئے کی حقیقت پائی جارہی ہے، جیساکہ غور کرنے والوں پر مخفی نہیں، جوئے کی حرمت سود کی طرح نص قطعی سے ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . (مائدہ:۹۰)

ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (بیان القرآن)

(۴) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں وہی آدمی کامیاب و بامراد ہوتا ہے، جو تیز طرار، باتونی اور لسّان ہو، سامنے والوں کو متأثر کرکے ممبر بنالیتا ہو، جو لوگ اس طرح کی شاطرانہ چال نہیں چلتے، یا یہ صلاحیت ان میں نہیں ہوتی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں، ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے اور وہ دھوکہ کھاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔

ایسے دھوکہ کی بیع و شراء کو سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے: نَہَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْغَرَرِ. (سنن ترمذی:۱/۲۳۳)

مبسوط میں علامہ سرخسی رحمة الله عليه نے غرر کی تعریف اس طرح کی ہے۔ الغَرَرُ مَا یَکُوْنُ مَسْتُوْرَ الْعَاقِبَةِ . (المبسوط:۱۲/۱۹۴)

جس کاحاصل یہ ہے کہ غرر میں انجام معلوم نہیں ہوتا، مذکورہ طرزِ تجارت میں نفع ملنے اور نہ ملنے کا پتا نہیں ہوتا، گویا قمار (جوا) ہی کی دوسری تعبیر ”بیع غرر“ ہے۔

بعض لوگوں نے اس طرزِ تجارت کو لاٹری (Lottery) سے بھی بدتر بتایا ہے؛ اس لیے کہ لاٹری میں ٹکٹ خرید کر آدمی سکون سے انتظار کرتا ہے، لیکن اس میں ممبرشپ حاصل کرنے کے بعد ممبرسازی کے لیے خوب دوڑ دھوپ کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے پھر بھی ممبر نہ بنانے کی صورت میں اصل سرمایہ سے بھی ہاتھ دھولیتا ہے، اور کمپنی رُک جانے کے وقت نیچے کے تین درجوں کے لوگ یقینا محروم رہ جاتے ہیں، اس لیے اس میں نفع کا چانس لاٹری سے بھی کم ہے، اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہی سلسلہ کا آخری آدمی ہوگا، تو ہرگز سامان خرید کردہ ممبر نہیں بنے گا، حقیقت یہ ہے کہ اس میں ”غرر کثیر“ ہے، جس سے باز رہنے کی تلقین سرکار دوعالم … نے فرمائی ہے۔ (بحث ونظر ص:۱۷۲)

(۵) اسلام نے اپنے تجارتی اصول میں ملکی مصلحت کا خیال رکھا ہے، مصنوعی رکاوٹ ملکی مصلحت کے لیے نہایت ہی مضر ثابت ہوتی ہے، اس سے اشیاء کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ہے، تجارت کا مال تمام شہریوں تک پہنچنے کے بجائے چند لوگوں کے پاس ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے۔

زمانہٴ جاہلیت میں جب کوئی دیہاتی سوداگر شہر میں اپنا سامانِ تجارت لے کر پہنچتا تھا، تو شہر کے بعض تُجّار اس سے کہتے کہ ابھی تم خود سے سامان نہ بیچو؛ اس لیے کہ ابھی بھاؤ کم ہے، سستا بک جائے گا؛ بلکہ تم ہمارے حوالے کردو! چند دنوں بعد تم کو ہم مہنگا بیچ کر دیں گے، اس میں بائع کا بھی ضرر ہوتاتھا؛ یہ تُجّار جھوٹی قیمت بتادیتے تھے، اور عوام کو بھی اشیاء مہنگی ملتی تھی،اس کو اصطلاح میں ”بیع الحاضر للبادی“ کہتے ہیں۔

سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم نے اس طرزِ تجارت سے منع فرمادیا تاکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو، اور ”مصنوعی رکاوٹ“ کا رواج ختم ہوجائے۔ (سنن ترمذی:۱/۲۳۲، ابواب البیوع، رحمة اللہ الواسعہ: ۴/۵۷۶، میں تفصیل ملاحظہ کیجیے)

زمانہٴ جاہلیت میں اسی سے ملتی جلتی یہ شکل بھی تھی کہ جب کوئی تاجر دیہات سے شہر میں آتا تھا تو شہر کے بعض تجار شہر سے باہر نکل کر ان سے پہلے ہی ملتے،اور سارا مال خرید لیتے تھے تاکہ یہ مال شہر میں نہ آسکے اور سارے لوگ ان سے خریدنے پر مجبور ہوں، اس کو اصطلاح میں ”تلقیِ جلب“ کہا جاتاہے، سرکارِ دوعالم … نے ان دونوں صورتوں کو اس لیے منع فرمایاہے، (سنن ترمذی: ۱/۲۳۲) اس لیے کہ دونوں میں اشیاء چند آدمیوں کے ہاتھوں میں جاکر عوام کے لیے مہنگی ہوجاتی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: الدرالمختار مع ردالمحتار: ۴/۱۴۸ رشیدیہ پاکستان)

نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بھی یہ خرابی ہے کہ ہر آدمی ان کمپنیوں کے سامان نہیں خرید سکتا، صرف ممبران ہی خریدسکتے ہیں؛ اس لیے بھی اشیاء نہایت ہی گراں ہوتی ہیں۔

(۶) اس طرح کی کمپنیوں میں اشیاء کی قیمت عام مارکیٹ ریٹ (Market rate) کے مقابلہ میں تین گنا بلکہ چھ گنا زیادہ ہوتی ہے، اشیاء کی جودت و عمدگی کا دعویٰ بھی فضول معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ اگر وہی اشیاء عام مارکیٹ میں رکھی جائیں، تو لوگ ہرگز اتنی قیمت میں نہیں خریدیں گے، دوسری کمپنیوں کی مصنوعات ہی کو ترجیح دیں گے۔

خلاصہ یہ کہ یہ گرانی فقہ کی اصطلاح میں ”غبن فاحش“ کہلاتی ہے، جو مکروہ ہے، حتیٰ کہ شریعت نے مشتری کو غبنِ فاحش کی وجہ سے مبیع (خریدی ہوئی چیز) کے واپس کرنے کا حق دیا ہے۔ (رد المحتار:۴/۱۷۸، رشیدیہ پاکستان)

(۷) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة الله عليه نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں ممنوع معاملات کی جملہ ”نو“ وجوہ میں سے چوتھی وجہ یہ بیان فرمائی ہے:

”وَمِنْہَا أن یُّقْصَدَ بِہٰذَا الْبَیْعِ مُعَامَلَةٌ أُخْریٰ یَتَرَقَّبُہَا فِیْ ضِمْنِہ أوْ مَعَہ “ الخ

ترجمہ: اور ممانعت کی انھیں وجوہ میں سے یہ ہے کہ اس بیع سے کسی ایسے دوسرے معاملے کا قصد ہو، جس کا وہ بیع کے ضمن میں یا بیع کے ساتھ انتظار کرتا ہو۔

خرید و فروخت کو خالص رکھنا ضروری ہے، اگر خرید وفروخت کے ساتھ کسی اور معاملہ کا قصد ہوجائے تو بیع فاسد ہوجاتی ہے۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ میں بظاہر تو آدمی کمپنی کا سامان خریدتاہے؛ لیکن مقصد ممبرسازی کے ذریعہ کمیشن کمانا ہوتا ہے،اس وجہ سے بھی تجارت کی یہ شکل ناجائز معلوم ہوتی ہے۔

(۸) رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ”بیع بالشرط“ کو منع فرمایا ہے: أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَہٰی عَنْ بَیْعٍ وَشَرْطٍ . (مجمع الزوائد:۴/۸۵)

بیع اور شرط ایک ساتھ جمع کرناجائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ شرطوں کی وجہ سے آدمی معاملہ تو ضرورت کی وجہ سے کرتا ہے اور شرط نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیتا ہے، نیٹ ورک مارکیٹنگ میں کمپنی کا مال خریدنے کے ساتھ ہی یہ شرط ہوتی ہے، کہ مثلاً:

(الف) کمپنی کا مال بازار میں رکھ کر بیچ نہیں سکتے۔

(ب) کمپنی کے مال یا اس کے طریقہٴ کار کی خامیاں بیان نہیں کرسکتے۔

(ج) کمپنی کا سامان لینے کیلئے ایجنٹ اور ممبر بننا شرط ہے، ممبری فیس ضرور وصولی جائیگی۔

(د) بعض کمپنیوں میں رعایتی قیمت پر سامان لینے کے لیے ممبر ہونا اور ممبری فیس ادا کرنا ضروری ہے، بغیر ممبر بنے سامان خریدنے پر سامان مہنگا ملے گا۔

گویا اس طرزِ تجارت میں بیع کے ساتھ ایسی شرط؛ بلکہ چند شرطیں موجود ہوتی ہیں، جو مقتضائے عقد کے خلاف ہیں؛ اس لیے یہ معاملہ فاسد ہوگا، ہدایہ میں ہے: کُلُّ شَرْطٍ لاَیَقْتَضِیْہِ الْعَقْدُ وَفِیْہِ مَنْفَعَةٌ لِأَحَدٍ المُتَعَاقِدَیْنِ اَوْ لِلْمَعْقُوْدِ عَلَیْہِ وَہُوَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْتِحْقَاقِ فَیْفْسُدُ. (مع فتح القدیر:۳/۲۶، البحرالرائق: ۵/۱۸۲)

(۹) نیٹ ورک مارکیٹنگ میں خرید و فروخت کے معاملہ کے ساتھ اجارہ (یعنی ایجنٹ بننے کی ملازمت) مشروط ہے؛ اس لیے ایسے عقدِ بیع اور عقدِ اجارہ کو دومعاملوں کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں، اور یہ حدیث شریف کی رو سے ممنوع ہے، ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضي الله تعالى عنه کی ایک روایت ہے:

نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ . (ترمذی: ۱/۲۳۳، ابواب البیوع)

ترجمہ: ”آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایاہے“۔

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:

نَہٰی رَسُوْلَ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفَقَةٍ وَاحِدَةٍ . (مسند احمد حدیث نمبر:۳۷۷۴)

ترجمہ: ”آپ نے ایک معاملہ میں دو معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے“۔

(نوٹ: نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ناجائز ہونے کی شرعی وجوہات میں سے ساتویں، آٹھویں اور نویں وجوہات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ اشتیاق)

(۱۰) نیٹ ورٹ مارکیٹنگ پر گہری نگاہ ڈالنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں درحقیقت لوگوں کو موہوم کمیشن کا لالچ دلاکر باطل اور ناجائز طریقے سے مال کھانے کا طرز اپنایا گیا ہے، اس طرزِ معاملہ کو ماہرینِ اقتصادیات ”تعاملِ صغری“ (Zero sum game) کہتے ہیں، جس میں بعض افراد نفع پاتے ہیں اور اکثر خسارہ میں رہتے ہیں۔ (بحث ونظر ص:۱۷۰) اللہ تعالیٰ نے باطل طریقہٴ کسب کو سختی سے منع فرمایا ہے:

یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأکُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ . (نساء:۲۹)

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے واقع ہو۔

اہل فقہ و فتاویٰ کی آراء:

نیک ورک مارکیٹنگ چونکہ معاشی، اخلاقی اور شرعی ہرلحاظ سے ناقابلِ قبول ہے، اس لیے اکابرِ امت نے اس سے بچے رہنے کی تلقین فرمائی ہے، ذیل میں اختصار کے ساتھ چند اکابر اہلِ علم کے نام لکھے جاتے ہیں۔

عرب علماء میں:

شیخ محمد صالح المنجد، ڈاکٹر عبدالحئی یوسف، ڈاکٹر احمد بن موسیٰ (طائف) اوراحمد خالد ابوبکر زیدمجدہم۔

پاکستانی علماء میں:

مفتی محمد عصمت اللہ بتصدیق مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجدہما دارالعلوم کراچی، مفتی محمد ہلال صاحب زیدمجدہ جامعة العلوم الاسلامیہ پاکستان، اور مفتی محمد نعیم صاحب زیدمجدہ خیرالمدارس ملتان۔ (تلخیص مقالات سولہواں فقہی سمینار فقہ اکیڈمی انڈیا)

ہندوستانی علماء میں:

حضرت الاستاذ مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی زیدمجدہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی محمد ظفیرالدین صاحب زیدمجدہ مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاط صاحب رحمة الله عليه نائب مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی محمودحسن صاحب بلند شہری مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث زیدمجدہ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد برہان الدین سنبھلی زیدمجدہ، حضرت مفتی محمد ظہور صاحب زیدمجدہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، حضرت الاستاذ مفتی محمد طاہر زیدمجدہ مفتی مظاہر علوم سہارنپور، حضرت مفتی محمد سلمان منصور پوری زیدمجدہ مفتی مدرسہ شاہی مراد آباد، حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد رحمة الله عليه امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد، حضرت مفتی محمد جمال الدین صاحب دارالعلوم حیدرآباد، یہ فتاویٰ اور رائیں تو انفرادی طور پر ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں سمینار منعقدہ دارالعلوم مہذب پور اعظم گڑھ میں علماء اور مفتیان کرام کی ایک عظیم جماعت نے اتفاقِ رائے کے ساتھ عدمِ جواز کی تجویز پاس فرمائی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: ”حوالہ (ب:۶۸۱) … یہ کاروبار نہ تو شرکتِ مضاربت پر مبنی ہے، نہ ہی شرکتِ عنان کے طریقہ پر ہے، بلکہ یہ کاروبار خالص قمار اور سٹے پر مبنی ہے، ۴۴۰۰ آدمی جمع کرتا ہے، اگر کمپنی کے مزاج کے مطابق ممبرسازی میں وہ کامیاب ہوگیا تو اُسے گھر بیٹھے بیٹھے ایک بہت بڑی رقم ملتی رہے گی، اور اگر ممبرسازی میں ناکام رہا تو اس کے روپے بھی سوخت ہوجاتے ہیں، جو کام نفع و نقصان کے درمیان دائر ہو اور مبہم ہو، وہ شریعت کی اصطلاح میں ”قمار اور جوا“ کہلاتا ہے، جو بنصِ قطعی حرام ہے، علاوہ اس کاروبار میں ”صَفْقَةٌ فِیْ صَفْقَتَیْنِ“ کی صورت بھی پائی جاتی ہے، اس میں ”بیع و شرط“ کے ایک ساتھ جمع ہونے کی بات بھی پائی جاتی ہے، جو ”نہی النبیُّ عن بَیْعٍ وَشَرْطٍ“ کے خلاف ہے، اس طرح کی متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں، مسلمانوں کے لیے ایسی کمپنی میں شرکت کرنا جائز نہیں فقط واللہ اعلم، حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، مفتی دارالعلوم دیوبند ۲/۶/۱۴۲۶ھ، الجواب صحیح: (دستخط) ”کفیل الرحمن نشاط، محمدظفیرالدین عفی عنہ“ مع مہر دارالافتاء۔

مظاہر علوم سہارنپور کافتویٰ: حوالہ: (۴۴۲) … ”ایم وے“ کمپنی کا لٹریچر ہم نے دیکھاہے، اس کے طریقہٴ تجارت میں بعض شرطیں مقتضائے عقد کے خلاف ہیں، مثلاً ایک شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کا ممبر کمپنی کے سامان کو بازار میں باقاعدہ دوکان لگاکر فروخت نہیں کرسکتا وغیرہ، جب کہ مقتضائے عقد کے خلاف شرط لگانے سے معاملہ بیع فاسد ہوجاتا ہے، نیز اس میں قمار کی بھی مشابہت ہے،اس لیے اس کمپنی میں شرکت ناجائز ہے، ذاتی خریداری کے لیے بھی اس کا ممبر بننا درست نہیں ہے، فقط واللہ اعلم حررہ العبد محمد طاہر عفا اللہ عنہ، مظاہرعلوم سہارنپور ۲۰/۵/ ۱۴۲۶ھ، الجواب صحیح (دستخط) ”مقصود احمد ۲۲/۵/۱۴۲۶ھ“ مع مہر دارالافتاء۔

دارالعلوم ندوة العلماء کافتویٰ: (۲۳۱۳۶-۱۷۴۵۴) … شرعی اعتبار سے ”ایموے کمپنی“ میں شرکت داری درست نہیں ہے،مسلمانوں کو اس میں شرکت سے احتراز کرنا ہوگا، فقط۔ محمد ظہور ندوی عفا اللہ عنہ، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ ۱۸/۵/۱۴۲۶ھ، مع مہردارالافتاء و الاحکام۔

نوٹ: مذکورہ بالا فتاویٰ میں ”ایموے کمپنی“ کی صراحت سے یہ خیال نہ ہو کہ فتاویٰ صرف ایک کمپنی کے ساتھ خاص ہیں بلکہ یہ حکم ”نیٹ ورک“ طریقہٴ تجارت کے مطابق چلنے والی ساری کمپنیوں کے لیے ہے؛ چونکہ ”استفتاء“ میں ”ایموے“ کی صراحت تھی،اس لیے فتاویٰ میں اسی لفظ کو دہرایاگیا ہے۔

امارتِ شرعیہ پٹنہ کا فتویٰ: حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب رحمة الله عليه نے کسی قسم کے ایک استفتاء کے جواب میں لکھا ہے کہ ”بفحوائے حدیث: نہی رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم عن بَیْعِ الْغَرَرِ (مسلم، ابوداؤد: ۶۷۳۳) اور بحکم لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضَرَارَ فِیْ الاسلامِ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۷۳) یہ معاملہ غیرشرعی اور یقینی طور پر سراسر باطل ہے، اگر کوئی اخیر کا ممبر اپنے ذریعہ سے کوئی ممبر نہ بناسکا، تو اسے کوئی کمیشن یا فائدہ نہیں ملے گا، اور اس کی اصل فیس بھی نہیں ملے گی، تو یہ ایک طرح کا دھوکہ اور غرر ہے۔ (بحوالہ تلخیص مقالات سولہواں سمینار اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)

اشکال وجواب:

(۱)              بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ممبر بنانے پر کمپنی کا کمیشن دینا انعام ہے، راست ممبر بنانے پر تو دیا ہی جاتا ہے، نیچے کے ممبران کے بنائے ہوئے ممبران؛ چونکہ پہلے ممبر کے واسطے سے ہیں؛ اس لیے کمپنی اگر بعد میں بھی انعام کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟

جواب: نیچے کے افراد سے لے کر اوپر کے لوگوں کو فی صدی کمیشن (Commission) دیناارتکازِ دولت اور مال ہتھیانے کا حیلہ ہے، یہ میسر کے مشابہ تو ہوسکتا ہے، انعام سے اس کاکوئی واسطہ نہیں؛ اس لیے کہ انعام صلبِ بیع میں کبھی داخل اور مشروط نہیں ہوتا۔

(۲)             جس طرح ایک کارِ خیر کے ثواب کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، ایک آدمی نے کسی کو کسی نیک کام کی تلقین کی، دوسرے نے عمل کرنے کے ساتھ تیسرے کو تلقین کی، تو ظاہر ہے کہ بعد والے کا ثواب پہلے والے کو ضرور ملے گا، اسی طرح ”نیٹ ورک مارکیٹنگ“ میں بھی کمپنی کمیشن کا سلسلہ جاری رکھتی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے؟

جواب: ثواب دینا اللہ تعالیٰ کا فضل اوراحسان ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، اللہ کا فضل کسی ضابطہ کامحتاج نہیں، مذکورہ کمپنی کو ثوابِ آخرت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے؛ اس لیے کہ یہ دنیا کا معاملہ ہے اور بندوں کے ذریعہ تکمیل کو پہنچتا ہے، بندوں کو اللہ تعالیٰ نے قانون کا پابند بنایا ہے، اسی کے لیے شریعت نازل فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کسی قانون کے پابند نہیں، وہاں عدل کے ساتھ فضل کا ظہور ہوگا، بندوں کے معاملے اللہ تعالیٰ کے قانون سے سرِمو تجاوز نہیں کرسکتے، ثواب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

ہمیں ہمارے اساتذہ نے پڑھایا، ہم طلبہ کو پڑھاتے ہیں، وہ طلبہ دوسرے طلبہ کو پڑھاتے ہیں، ثواب تو نیچے والوں کا اوپر والوں کو ضرور ملتا ہے؛ لیکن نیچے والوں کی تنخواہ کا کوئی حصہ اُوپر والوں کو نہیں ملتا؛ آخر کیوں؟

(۳) ممبرسازی کی اُجرت دلالی کی طرح ہے، جس طرح دلال کو سامان خریدوانے اور بیچوانے کی اجرت ملتی ہے، اسی طرح یہاں بھی نئے ممبر بنانے پر اُجرت ملتی ہے، تواس میں کیا خرابی رہ گئی؟

جواب: مذکورہ طرزِ تجارت اور دلالی میں کافی فرق ہے اس لیے کہ:

(الف) دلال کو سامان کی فروختگی پر اُجرت ملتی ہے، یہاں تو ایجنٹ بننے کے لیے خود ایجنٹ ہی اجرت ادا کرتا ہے، معلوم ہوا کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے، مذکورہ تجارت میں سامان فروخت کرنا، اصل مقصد نہیں ہوتا؛ بلکہ نئے ایجنٹ تیار کرنا ہی اہمیت رکھتا ہے۔

(ب) دلال کو کوئی گھاٹا نہیں ہوتا، وہ مال فروخت کراتا اور اجرت و کمیشن پاتا رہتا ہے؛ لیکن یہاں ہر آخری مرحلہ کا ایجنٹ یقینی طورپر گھاٹے میں رہتا ہے، ظاہر ہے کہ کمپنی کبھی نہ کبھی رُکے گی، جب بھی رکے گی، آخری مرحلہ کے ایجنٹ کو کچھ نہیں ملے گا، پھر ظلم یہ کہ ممبری فیس بھی سوخت ہوجائے گی، ”یک نہ شد دو شد“؛ اس لیے ان کمپنیوں کی ممبرسازی کی مہم کو دلالی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔

خلاصہٴ بحث:

نیٹ ورٹ مارکیٹنگ دولت اِکٹھا کرنے کی ایک اَہرامی اور مخروطی اسکیم ہے، اس میں مصنوعات بطورِ حیلہ فروخت کی جاتی ہیں، اصل مقصد ممبر سازی کے ذریعہ نفع کمانا ہوتا ہے، اس میں سود سے بھی زیادہ ارتکازِ دولت کی تدبیر موجود ہے، لاٹری (Lottery) اور جوے سے مشابہت ہے، دھوکہ اور غرار اتنا زیادہ ہے کہ دولت مندی کے لالچ میں پوری کی پوری آبادی کو مالی بحران کا شکار بناسکتی ہے، اس میں چند لوگوں کو منافع پہنچانے کے لیے ایک کثیر تعداد زنجیر میں بندھی رہتی ہے، اخیر کے لواحقین وممبران ہمیشہ دھوکے اور گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں نیچے کے کئی مراحل بلاکمیشن منھ تکتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ”سودی نظام“ کے ماہرین نے بھی اس طرزِ تجارت کو مسترد کردیا ہے،متعدد ممالک میں اس پر پابندی عائد کی گئی ہے، ساتھ ہی عوام کو اس میں پھنسنے سے متنبہ بھی کیاگیا ہے، یہ اخلاقی اور اقتصادی لحاظ سے بھی قابلِ قبول نہیں ہے، شرعی اور فقہی نقطئہ نظر سے اس میں سود و قمار سے مشابہت؛ بیع مع شرط کا وجود؛ دو معاملوں کو ایک میں جمع کرنا؛ خرید و فروخت کے بہانے دوسری چیز یعنی کمیشن کا ارادہ؛ باطل طریقے سے مال جمع کرنا؛ ملکی مصلحت کا فقدان اور بعض صورتوں میں ”غبن فاحش“ وغیرہ خرابیاں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس میں شرکت جائز نہیں ہے، ہندوعرب کے مشاہیر علماء اور مفتیانِ کرام نے عدمِ جواز کے فتوے صادر فرمائے ہیں، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے سولہویں اجلاس میں اہل علم وفقہ کی ایک عظیم جماعت نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا ہے۔

جس شخص کو راست ممبربنایا جائے اس کی خریداری پر ملنے والا کمیشن اگرچہ فی نفسہ جائز ہوسکتا ہے، مگر وہ بھی چونکہ الگ کرکے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ چند ممبران اور چند مرحلے گذرنے ضروری ہوتے ہیں، اور سب کا کمیشن ملاکر دیا جاتاہے؛ اس لیے حرام وحلال کے ملنے کی وجہ سے پہلے مرحلہ کے ممبران کی وجہ سے آنے والا کمیشن بھی حرام ہوگا، محض مصنوعات خریدنے کے لیے ایسی کمپنیوں کا ممبر بننا بیع مع شرط کی وجہ سے ناجائز ہے، بلا ممبر بنے سامان خریدنا جائز تو ہے، مگر ایسی کمپنیوں کا تعاون ہونے کی وجہ سے کراہت سے خالی نہیں، ایسی کمپنیاں نہ تو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے فائدہ مند ہیں؛ نہ ہی اخلاقی اعتبار سے قابل شرکت اور نہ ہی اسلامی اصول کے تحت جائز ہیں، اس لیے ان کا ممبر بننا اور کمیشن حاصل کرنا، ناجائز اورحرام ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیرِ خلقہ محمدٍ وَّآلہ أجمعین، وَالحمد للّٰہ رب العالمین.

_________________________

دارالعلوم ، شماره : 7 ، جلد : 92  رجب 1429 ھ مطابق جولائی 2008ء

Related Posts