از قلم: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی
استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا ہوچکی ہے کہ ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والا، دنیا کا ایک نمبر دہشت گرد،انسانیت کا قاتل، موت کا سوداگر، جارج بش ہے،جس نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ بش نے اپنے تشدد پسند،جارحانہ اور توسیعی عزائم کو بروئے کار لانے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے گھناؤنے صلیبی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح وضع کی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں اور صہیونیوں کا متحدہ محاذ قائم کرکے، نام نہاد دہشت گردی کے مقابلے کے لیے حقیقتاً دہشت گردی کا رویہ اختیار کیا گیا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، افغانستان جیسے پر امن ملک کو تاخت وتاراج کردیاگیا، ایران اور شام نشانے پر ہیں،ہندوستان جیسے گنگا جمنی تہذیب کے حامل ملک کے امن ویک جہتی اور فرقہ وارانہ یگانگت کو ختم کرنے کے لیے یہاں بھی دہشت گردی کا شوشہ چھوڑا گیا۔ ڈور امریکہ سے ہلائی گئی اور دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بعض فرقہ پرستوں نے یہاں کے مدارس اور اسلامی مراکز تبلیغی جماعت کے افراد اور دین دار طبقہ پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش شروع کردی۔
دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ، جنھوں نے ملک میں امن وامان کے قیام، فرقہ وارانہ یکانگت اور قومی یک جہتی ورواداری کے فروغ واستحکام میں تابناک کردار ادا کیاتھا اور ملک وبیرون ملک میں ہندوستان کا نام روشن رکھنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی، جب اسلامی تعلیم کے ان میناروں کو دہشت گردی کا اڈہ کہا جانے لگا، ملک کی امن وسلامتی کے لیے انھیں خطرہ بتایا جانے لگا، ان پر قد غن لگانے ، مدارس کو حکومت کے زیر کنٹرول لانے کی تدابیر کی جانے لگیں، مدارس اسلامیہ کے تاریخی وقومی کردار کو مجروح کیا جانے لگا،ان سے وابستہ افراد کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کرنے کی مہم چھیڑ دی گئی، دہشت گردی کے مقابلے اور عدل وانصاف کے لیے الگ الگ پیمانے بنادیئے گئے اور اس سلسلہ میں حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور اس کرب ناک صورت حال کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، بلکہ فرقہ پرستوں کی ہمت افزائی کی جاتی رہی، تو اکابر دارالعلوم خصوصا ً کاروان دیوبند کے قافلہ سالار، امیر ملت اسلامیہ ہند حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم، مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ نے ذمہ داران واساتذئہ دارالعلوم کے مشورے سے ۲۵/ فروری کو دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا، جس میں تمام اسلامی مکاتب ِ فکر کے ذمہ داران اور ملی تنظیموں کے سربراہ اور مدارس اسلامیہ کے نمائندگان شریک ہوئے، مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی کے خلاف متحدہ طورپر صدائے احتجاج بلند کی گئی اوریہ اعلان کیا گیاکہ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے، وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔اسلام ہر طرح کی دہشت گردی کا شدید مخالف ہے، خواہ انفرادی دہشت گردی ہویا جماعتی دہشت گردی ہو یا حکومتی دہشت گردی۔ کانفرنس کے تاریخی اعلامیہ میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ مدارس اسلامیہ اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے والوں کو لگام دی جائے اور انتظامی مشینری اور حکومتی ایجنسیوں کو پابند کیا جائے کہ ہر قسم کے تعصب اور امتیاز سے بالاتر ہوکر اپنا فرضِ منصبی ادا کریں۔
یہ کانفرنس اس لحاظ سے بے حد اہم،کامیاب ترین اور تاریخ ساز رہی کہ اس میں دارالعلوم دیوبند سے وابستہ مدارس کے علاوہ ندوة العلماء لکھنوٴ ، مظاہر العلوم سہارنپور، جماعت ِ اسلامی، اہل حدیث، اہل تشیع اور بریلی مکاتب فکر کے ذمہ دار ان اور مدارس کے نمائندگان بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے، نیز ان کے علاوہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ،جمعیة علماء ہند،مسلم مجلس مشاورت، ملی کونسل، تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن نئی دہلی،فرنگی محل لکھنوٴ کے نمائندگان نے بھی شرکت کی، اظہار ِ خیال فرمایا اور اس حساس مسئلہ پر ایک آواز ہوکر ملک میں مسلمانوں کے ساتھ حکومتی ایجنسیوں کے امتیازی سلوک اور ظلم وزیادتی کی مذمت کی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے یکساں طریقہٴ کار اختیار کرنے پر زور دیا اس عظیم الشان کانفرنس میں محتاط انداز ے کے مطابق یوپی،بہار، جھارکھنڈ، اے پی، مہاراشٹر، جموں وکشمیر، مدھیہ پردیش، تمل ناڈ و، کرناٹک، راجستھان، اتراکھنڈ، بنگال، آسام، تری پورہ، منی پور، ہریانہ، دہلی، پنجاب، ہماچل ،گجرات، اڑیسہ،گوا، دمن، چھتیس گڑھ، کیرالہ وغیرہ کے ۳۰/ہزار مندوبین ،نمائندگان ِ مدارس اور برادران ِ اسلام نے شرکت کی۔
کانفرنس کا آغاز:
۱۷/صفر ۱۴۲۹ھ کو صبح ساڑھے آٹھ بجے(۸ ۲-۱) جناب قاری آفتاب احمد صاحب امرہوی استاذ تجوید دارالعلوم دیوبند کی تلاوتِ کلام پاک سے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد مولوی شکیل احمد دیناجپوری اور مولوی محمدفرقان بہرائچی طلبہ دارالعلوم نے ترانہ دارالعلوم پڑھا۔ بعد ازاں کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ناچیز راقم السطور نے مہمانانِ کرام کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ: رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام منعقد اس دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس میں مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندہ حضرات، ملک کے کونے کونے سے تشریف لائے ہوئے مندوبین ونمائندگان مدارس اسلامیہ کا پرُتپاک خیر مقدم ہے کہ آپ حضرات نے زحمت سفر برداشت کی اور بڑی تعداد میں تشریف لاکر کانفرنس کی رونق دوبالا فرمائی۔
کانفرنس کی صدارت کا اعلان کرتے ہوئے ناظمِ کانفرنس ناچیز شوکت علی قاسمی بستوی استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ نے کہا کہ: ”دہشت گردی مخالف تمام مکاتبِ فکر کے نمائندوں کی اس تاریخ ساز کانفرنس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے گرامی قدر مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب زیدمجدہم صدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ فرمارہے ہیں جو دارالعلوم دیوبند کی حالیہ تمام تعلیمی وتعمیری ترقیات کے روحِ رواں، دارالعلوم کی نشأة ثانیہ کے عظیم معمار، کاروانِ دیوبند کے قافلہ سالار اور امیر ملت اسلامیہ ہندہیں۔ جب بھی مدارس اسلامیہ پر پرُآشوب حالات آئے، ان کے نہج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، ان پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بے بنیاد الزام لگایاگیا، ان کے نصاب تعلیم ونظام تعلیم کو فرسودہ قرار دیاگیا،مدارس کو حکومت کے زیر ِ کنٹرول لانے کی اسکیمیں بنائی گئیں توحضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے اس کا سخت نوٹس لیا،مدارس کے کل ہند اجلاس طلب کیے اور مدارس کی تحفظ وبقاء کے لیے متحدہ لائحہ عمل طے کیاگیا۔ رابطہ مدارس اسلامیہ کے زیر اہتمام اب تک دارالعلوم دیوبند میں ۱۴/بڑے کل ہنداجتماعات منعقد ہوئے ہیں جن میں مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم وتربیت ،باہمی ربط واتحاد کے فروغ اور داخلی وخارجی مسائل ومشکلات کے ازالے کے حوالہ سے نہایت دور رَس نتیجہ خیز اور انقلاب انگیز فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ اس تاریخ ساز کانفرنس کے انعقاد سے حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم کو خصوصی دلچسپی رہی، تمام مکاتب فکر کے نمائندگان حضرات کو دارالعلوم کے اسٹیج پر ایک ساتھ جمع کرنے کے لیے حضرات اساتذئہ دارالعلوم کے وفود مختلف اطراف میں روانہ فرمائے، ملت اسلامیہ کے مختلف نمائندگان حضرات کی خدمت میں خصوصی دعوت نامہ پیش کیاگیا، ان حضرات نے وفود کا گرم جوشی سے استقبال کیا،اس کانفرنس کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور جمعیة علماء ہند ، جماعتِ اسلامی ہند، جمعیة اہل حدیث، اور بریلوی مکتب فکر کے مختلف ذمہ داران نے شرکت کا وعدہ فرمایا اور بہت سے حضرات اس وقت اسٹیج پر تشریف فرما ہیں اور کچھ حضرات تشریف لانے والے ہیں“۔
ناچیز راقم السطورنے تاریخ ساز کانفرنس کے اغراض ومقاصد پرروشنی ڈالی اور کہا یہ عظیم الشان کانفرنس نہایت حساس مسئلہ پرہورہی ہے۔اسلام ، مسلمانوں اور مدارسِ اسلامیہ کو بدنام کیا جارہاہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام دینِ رحمت اور محسنِ انسانیت ہے۔اسلام دہشت گردی کو ختم کرنے آیا ہے، امن وسلامتی اسلام کی حقیقت میں داخل ہے۔اسلام دہشت گردی کی تمام صورتوں کو مسترد کرتا ہے۔ مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر وترقی میں تابناک کردار ادا کیا ہے۔ملک کے خلاف کسی دہشت گردانہ کارروائی سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کانفرنس اس لیے بلائی گئی ہے کہ تاکہ ملت ِ اسلامیہ کا متحدہ موقف دہشت گردی کے خلاف پوری قوت کے ساتھ پیش کیا جائے اور مسلمانوں پر ہونے والی ظلم وزیادتی کے خلاف ملی اتحاد کے ساتھ پرزور احتجاج کیاجائے اور اس تاریخی حقیقت کا ببانگ دہل اعلان کیا جائے کہ: مدارسِ اسلامیہ امن وامان کے داعی، صلح وآشتی کے نقیب اور جمہوری اقدار وروایات کے پاسبان رہے ہیں۔
خطبہٴ صدارت:
بعد ازاں صدر کانفرنس حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کا خطبہٴ صدارت پیش کیاگیا۔حضرت کی علالت طبع اورضعف ونقاہت کے باعث ان کی طرف سے یہ خطبہٴ صدارت حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی زیدمجدہم ،نائب مہتمم واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے پیش فرمایا۔
حضرت صدرِ کانفرنس زیدمجدہم نے خطبہٴ صدارت میں فرمایا:سب سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں مدارس اسلامیہ کے اس طے شدہ ،متفقہ موقف کا واضح اعلان کردیاجائے کہ ہمارا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں، ہم ہر قسم کی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی تفریق کو قطعاً روا نہیں رکھتے۔دہشت گردی کلی طورپر ایک غلط اور عاقبت نااندیشانہ عمل ہے خواہ اس کا مرتکب کسی بھی مذہب وملت سے وابستہ ہو اور معاشرہ کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو،دہشت گردی ،اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے،اسلام دینِ رحمت ہے،دینِ امن ہے، اس لیے دہشت گردی کی ہر ایسی کارروائی جس کا نشانہ بے قصور افراد بنتے ہوں اسلام کے تصورِ امن سے متصادم ہے۔
اس بارے میں اسلامی تعلیمات اس قدر واضح اور قطعی ہیں کہ ان کی روشنی میں بلاخوف تردید ، یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ آج اگردنیا کے پاس امن وسلامتی اور صلح وآشتی کا کوئی جامع، بامقصد اور ہمہ گیر تصور موجود ہے تو وہ فقط اسلام کا عطیہ ہے۔
حضرت صدر کانفرنس دامت برکاتہم نے صدارتی خطبہ میں نظریاتی اور مسلکی اختلافات فراموش کرنے کی تلقین کی اور دردمندانہ لہجے میں فرمایاکہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو اپنے گھر تک محدود رکھیں اور دشمنوں کے مقابلے میں متحد ملت کا کردار پیش کریں، حضرت نے حکومت وانتظامیہ اور پولیس وخفیہ ایجنسیوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ قابل غور بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے خاص طور پر ہمارے ملک میں ایسی صورت حال پیدا کردی گئی ہے جس سے پوری قوم پریشان ہے انھوں نے کہا کہ حکومت وانتظامیہ کا نشانہ عمومی طور سے مسلمان اور خاص طور سے دیندار مسلمان یا مدارسِ اسلامیہ کے علماء وفضلاء ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دہشت گردانہ کارروائی کے سلسلہ میں نہ تو کسی غور وفکر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ احتیاط برتی جاتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے علماء نے ملک کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں جس کی گواہی اس زمین کا ذرہ ذرہ دے سکتا ہے۔ مدارس، ملک وملت اور انسانیت کے لیے خیر وفلاح کے سرچشمے ہیں یہ ملک کو امن پسند ایماندار اور فرض شناس شہری فراہم کرتے ہیں۔ حکومت اور اس کے انتظامی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ: اگر آپ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو نہایت مضبوطی کے ساتھ انصاف کا دامن تھام کر کام کیجئے اور عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق سے اجتناب کیجئے۔ حضرت صدر کانفرنس نے کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی بنیادی طورپر ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ ان عالمی طاقتوں کا پیداکردہ ہے، جن کے نظریات کی بنیاد صہیونیت ہے۔انھوں نے کہا کہ چند افراد کے طرزِعمل سے پوری قوم کو ذمہ دار قرار نہیں دیاجاسکتا“۔
وقیع ترین خطبہٴ صدارت سامعین کرام نے بڑی توجہ اور انہماک سے سنا،اس کے بعد حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم، ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیة علماء ہند سے افتتاحی خطاب کی درخواست کی گئی۔
حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم کا افتتاحی خطاب:
حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیة علماء ہند نے اپنے گراں قدر افتتاحی خطاب میں حمد وصلاة کے بعد فرمایا: ”یہ اجلاس اس ادارے کی طرف سے بلایا گیا ہے جو ڈیڑھ سو سال سے اس دینِ اسلام کی حفاظت کرنے والا ہے جو قرآن وحدیث سے صحیح طور پر ثابت ہے، یعنی دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بلایا ہوا اجتماع ہے اور ایک ایسے موضوع پر ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فرقہ پرستی کی بنیاد پر، عدل وانصاف کا خون کرنے سے سے متعلق ہے جس کی ٹیس اور تکلیف ہر مسلمان اور ہر عدل وانصاف پسند اپنے اندر محسوس کررہاہے۔ ہندوستان کے اندر بڑے بڑے فسادات ہوئے۔ ایک ایک فساد میں پانچ پانچ ہزار مسلمان مارے گئے، اربوں کھربوں کی جائداد لوٹی گئی اور اس ہنگامے کو ملت ِ اسلامیہ نے ساٹھ سال سے برداشت کیا، لیکن دارالعلوم نے کسی اجلاس بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی“۔حضرت مولانا نے فرمایا کہ:”موجودہ صورت حال میں اس طبقے کو نشانہ بنایا جارہاہے جو مدارس سے نکل کر انسانیت کی بنیاد پر پوری دنیا میں انسانوں کی خدمت کر رہا ہے۔ غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرتا ہے آج اسی طبقے کو دہشت گرد اور امن دشمن قرار دیا جاتا ہے، جس نے ۱۸۰۳/ سے لے کر ۱۹۴۷ء تک ملک کی آزادی کے لیے ہزاروں نہیں اپنے لاکھوں جیالوں کو تختہٴ دار پر لٹکایا اور ہندوستان کی گلی گلی میں اپنا خون بہاکر ملک کو آزاد کرایا۔آج انھیں شہیدوں کی امن پسند اولاد کو ملک کا دشمن بتاکر، شہر شہر، ضلع ضلع، صوبہ صوبہ میں گرفتار کیا جارہاہے، بدنام کیا جارہا ہے طرح طرح کی اذایتیں دی جاتی ہیں۔ صورت ِ حال یہ ہے کہ فرقہ پرستی کا گھن ملک کے عوام کو کھائے جارہاہے، فرقہ پرستی مضبوط ہورہی ہے اورجمہوریت کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی چلی جارہی ہے، لیکن جمہوریت پسند طاقتیں اس فتنہ کو سمجھ نہیں پارہی ہیں۔ آج فرقہ پرستی کو مسلمانوں سے منسوب کیا جارہاہے، یہ ظلم ناقابل ِ برداشت ہے ، دہشت گردی کی ذمہ دار ملک کی فرقہ پرست طاقتیں ہیں، مدارس اسلامیہ امن وآشتی اور صلح وسلامتی کا درس دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کسی ہنگامہ اور تخریب کاری میں مبتلا نہیں ہوتے“۔ حضرت مولانا مدظلہ نے فرمایا: کہ یہ بات میں نے حکومت کے بڑے سے بڑے ذمہ داران کے سامنے کہی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے کہی کہ جو طبقہ ۶۰/سال سے فرقہ پرستی کا ننگاناچ ناچتا تھا قتل کرتا تھا، آج کہاں چلا گیا؟ آپ کہتے ہیں کہ: مسلمان بم ڈالتا ہے میں کہتاہوں کہ: فرقہ پرست طاقتیں جو پہلے برسر عام قتل عام کرتی تھیں وہی بم بناتی اور پھوڑتی ہیں۔ ہمارے مدارس کے طلبہ بسوں کو آگ نہیں لگاتے وہ لڑکیوں کو نہیں اٹھاتے؛بلکہ ان کی عزت وناموس کی حفاظت کرتے ہیں۔ مدارس سے وابستہ طبقہ سراپا امن ہے، خیر پسند ہے“۔
حضرت مولانا نے فرمایا: ”یہ کانفرنس وقت کی ضرورت ہے آج ملک کے تمام طبقے ایک اسٹیج پر جمع ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں، یہ آواز دارالعلوم دیوبند سے اٹھی ہے، یہ صوبے صوبے ،ضلع ضلع اور شہر شہر پہنچے گی۔یہ ہمارے عزائم میں ، ہم دنیا کو بتائیں گے کہ دہشت گرد کو ن ہے؟ دارالعلوم دیوبند اورجمعیة علماء ہند اس کا م کو شانہ بشانہ کریں گے“۔
حضرت مولانا محمدسالم قاسمی صاحب زیدمجدہم کا خطاب:
حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب زیدمجدہم مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند ونائب صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے اہم ترین خطاب میں حمد وصلاة کے بعد فرمایا :
”آج کا یہ اجتماع، تاریخ ساز اجتماع ہے اور جس موضوع پر ہورہاہے وہ بھی وقت کا اہم موضوع ہے،مسلمان یہاں ایک ہزار سال سے ہیں، اور تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مسلمان، امن کے پیامبر اور اس ملک کے خیر خواہ رہے ہیں۔ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ کو بدلنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن ثابت کر نہیں پارہی ہیں کیوں کہ پروپیگنڈے سے تاریخ کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ آج باطل پرست طاقتیں، ہتھیاروں سے لیس ہیں لیکن وہ ہمیں شکست نہیں دے سکیں گی۔ مسلمانوں کے پاس ایمانی قوت اور انابت الی اللہ کی طاقت ہے۔ ہمیں اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ قرآن زندہ ہے، سنت زندہ ہے تو آپ بھی زندہ رہیں گے۔ دہشت گردی کی بنیاد دونظریوں کا تصادم ہے“۔
(۱) حق کا نظریہ جو دلائل سے ثابت ہے،جس کی تعلیمات روشن اور واضح ہیں۔(۲) کفر کا نظریہ جو بے دلیل اور بے بنیاد ہے۔چوں کہ باطل دلائل سے شکست خوردہ ہے،اس لیے وہ تلوار اور طاقت کے ذریعہ حق کا مقابلہ کررہا ہے۔ لیکن ہم شکست خوردہ نہیں ہوں گے۔اس لیے کہ اسلام کے پاس واضح دلائل اوربینات ہیں جو باطل کے پاس نہیں ہیں۔اسلام کا نظام تعلیم، نظام تہذیب وثقافت سب براہین سے ثابت ہیں۔اسلام دہشت گردی کا شدید مخالف ہے اسلام ایک شخص کے ناحق قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم آئینی بنیاد پر اپنے مطالبات کوحکومت کے سامنے رکھیں، حکومت کافرض ہے کہ وہ عدل قائم کرے، انصاف قائم کرے اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو یہ واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کا قانون سب سے برتر ہے۔ خدا کی قدرت سب سے بڑی ہے، کسی زمانے میں برطانوی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا؛ لیکن وہ آج محدود ہوکر رہ گئی ہے،ظلم وزیادتی کے ساتھ کوئی حکومت چلنے والی نہیں“۔
حضرت مولانا جلال الدین عمری زیدمجدہم امیر جماعت اسلامی ہند کا خطاب:
محترم المقام حضرت مولانا جلال الدین عمری امیرمرکزی جماعت اسلامی ہند ، محترم جناب مولانا رفیق قاسمی صاحب اور جناب مجتبیٰ فاروق صاحب پرمشتمل وفد کے قائد کی حیثیت سے تشریف لائے اور کانفرنس میں اپنے اہم خطاب میں فرمایا :
”دارالعلوم دیوبند نے اس کانفرنس کے انعقاد کا بروقت فیصلہ کیا ہے آج ایک شوربرپاہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور مدارسِ اسلامیہ دہشت گردی کے مراکز ہیں اورقرآن وحدیث میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآنِ کریم چودہ سو سال سے موجود ہے میں دانشوران سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بتائیں کہ قرآن کی کس آیت سے اور کس حدیث سے دہشت گردی کی تعلیم کا ثبوت ملتا ہے۔ مدارسِ اسلامیہ سے کتنے دہشت گردملے ؟ مدارس میں آئیں یہاں کی تعلیم دیکھیں، جس کے جی میںآ تا ہے مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ دیتا ہے ۔ دہشت گردی کے اصول و ضوابط ہیں اگر دلائل کی روشنی میں کسی کو دہشت گرد کہا جائے تو ہم مانتے ہیں۔ لیکن یہ کیا ؟کہ کوئی حادثہ ہوا تو شک کی سوئی سیدھے مسلمانوں کی طرف پھیردی جاتی ہے۔ آج یہ سوال ہوتا ہے کہ مدارس کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں، مدارس کا حساب آئینہ کی طرح صاف ہے میں حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ یہ سوال ہندوفرقہ پرست تنظیموں کے بارے میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ ان کے پاس مدارس سے کئی گنا زیادہ پیسہ ہے،یہ مجمع اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ مدارس ِ اسلامیہ ،دہشت گردی میں نہ پہلے ملوث تھے ،نہ اب ملوث ہیں، نہ آئندہ ملوث ہوں گے۔ ہم اس ملک کو بتاناچاہتے ہیں کہ نہ ہم دہشت گرد ہیں اور نہ دہشت گردی کو کبھی برداشت کریں گے۔ یہ دہشت گردی کسی فرد،کسی قوم، کسی طبقہ کی طرف سے ہو ہم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں،ہم اس کا مقابلہ کرتے رہیں گے“۔
حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب زیدمجدہم کا خطاب:
حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ممبرراجیہ سبھا وناظم عمومی جمعیة علماء ہند نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا:
”مسئلہ بڑا نازک ہے ملک میں کسی مقام پر بم بلاسٹ ہوتا ہے، لوگ مارے جاتے ہیں، تشدد کا نشانہ بنتے ہیں،ملک بے چین ہوتا ہے، اور میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتاہوں کہ مسلمانوں کو دوگنی تکلیف ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ان واقعات میں بے قصور ہندوستانی شہری خصوصا ً مسلمان مارے جاتے ہیں دوسری تکلیف یہ کہ مسلمانوں کی پوری قوم کو مجرم بناکر پیش کیاجاتاہے، دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنا بدترین دہشت گردی ہے،ہم نے بار بار اس کی مذمت کی ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ملک میں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب اور تہذیب کے لوگ متحد ہوکر ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، اسی سرزمین دیوبند کے عظیم سپوت دارالعلوم دیوبند کے مایہٴ ناز فرزند حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی -رحمه الله- نے اس ملک کے سامنے قومی اتحاد کا پیغام دیا تھا۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں قائدانہ کردار اداکیا تھا اور برادرانِ وطن کو ساتھ لے کر کاندھے سے کاندھا ملاکر جنگ آزادی لڑی، مجھے کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آج دہشت گردی کا ذمہ دار اور سب سے بڑا دہشت گرد، جس نے دنیا کو دہشت گردی کی اس لعنت میں مبتلا کردیا ہے وہ جارج بش ہے، میں میڈیا کے ذریعہ اور اس عظیم مجمع کے واسطے سے پورے ملک سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور یورپ نے دہشت گردی کی جو تعریف کی ہے وہ ہمارے ملک کو نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہے، مسلمان اس ملک کا مالک ہے کرایہ دار نہیں ہے، مسلمانوں کے ساتھ کرایہ داروں جیسا معاملہ برداشت نہیں کیاجائے گا، ہم اس ملک کے معمار ہیں، ملک بنانے والے ہیں،ہم یہاں رہتے چلے آئے ہیں ،رہ رہے ہیں، رہیں گے،یہیں جئے ہیں یہیں مریں گے۔ دہشت گردی کا بہانہ بناکر ایک خاص طبقہ کو جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستان کا قیمتی ورثہ ہوسکتا ہے، نشانہ نہیں بنانا چاہیے، دہشت گردی چاہے کسی خاص فرقے کی طرف سے ہو ،چاہے ملکوں کی طرف سے ہو چاہے سرکاری اداروں کی طرف سے ہو، چاہے تنظیموں کی طرف سے ہو ہر حال میں قابل ِ مذمت ہے۔ ہمیں متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف لڑنا چاہیے اور دہشت گردی کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا مقابلہ کرنا چاہیے“۔
پیغام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی زیدمجدہم:
حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی زیدمجدہم صدرمسلم پرسنل لاء بورڈ وناظم ندوة العلماء لکھنوٴ اچانک خرابی صحت کے باعث تشریف نہ لاسکے، ان کا گراں قدر پیغام کانفرنس میں ان کے محترم نمائندے جناب مولانا عبدالقادر صاحب ندوی مدظلہ نے پڑھا جو درج ذیل ہے:
”دہشت گردی مخالف اس کل ہند کانفرنس میں شرکت کرکے مجھے خوشی ہوتی، لیکن صحت کی خرابی کے باعث میں شریک ہونے سے معذور ہوں اس لیے صرف اس پیغام کے ذریعہ شرکت پر اکتفاء کررہاہوں، دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ اس کو مسلمانوں کے ساتھ وابستہ کرنے کو قابل مذمت فعل قرار دینے کے لیے کانفرنس کا انعقاد موجودہ حالات کے اس پس منظر میں ایک ضروری اقدام ہے اس کے لیے ہر مسلک وجماعت کے نمائندے ، ملک کے وفادار شہری اپنا صاف اور صحت مندانہ موقف پیش کریں گے اور توجہ دلائیں گے کہ ملک میں آج کل دہشت گردی کا تذکرہ بار بار کیا جاتا ہے اور اس کو مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کی طرف منسوب کیا جاتاہے، اس کو اسلام اور ملت اسلامیہ سے وابستہ کرنا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بڑی زیادتی کی بات ہے، اسلام میں ہر طرح کے ظلم وزیادتی کو سخت الفاظ میں منع کیاگیا ہے اور مسلمان قوم کے افراد اسلامی تعلیمات کے تحت زیادتی اور ظلم سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور کسی سے اگر ظلم وزیادتی کا فعل ہوجائے تواسے بہت برا سمجھتے ہیں، اور اس کوغیراسلامی عمل قرار دیتے ہیں۔
یہ ملک مختلف مذہبوں اور مختلف طبقات کا ملک ہے اور ان میں ہرایک میں بعض بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جو اپنے کسی ذہنی تعصب یا کسی فائدے کی غرض سے ظلم وزیادتی کا ارتکاب کریں، جو اس کا ذاتی فعل ہوگا، اس کا تعلق اس کے طبقے یا مذہب سے جوڑنا صحیح نہیں۔ یہ اسلام جو کہ عربی میں امن کے بھی معنی رکھتا ہے،اس کو ظلم سے بالکل جوڑا نہیں جاسکتا، اس پر ظلم اور دہشت گردی کا الزام لگانا ایک طرح سے اس کے ساتھ ظلم ہے، جس کو مسلمان سخت طریقے سے مسترد کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ یہ بڑی شکایت ہے کہ دہشت گردی جس حرکت کو کہا جاتا ہے اس کے واقعات دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور مسلک کے دوسرے طبقات میں بھی ہوتے ہیں لیکن ان کو ان کے مذہب کے ساتھ جوڑا نہیں جاتا ہے،جو سراسر ناانصافی ہے ۔اس عظیم کانفرنس کے انعقاد پر دارالعلوم دیوبند کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں“۔ (محمد رابع حسنی ندوی)
پیغام حضرت مولانا سید سرور چشتی صاحب زیدمجدہم:
آستانہٴ عالیہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید سرور چشتی کا، خصوصی پیغام کانفرنس کے لیے بذریعہ فیکس موصول ہوا، جس میں مصروفیات کے باعث کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے پر افسوس کا اظہار کیاگیا تھا اور فرمایاگیا تھا :
”مجھے یہ جان کر انتہائی مسرت کا احساس ہوا کہ آپ حضرات مسلمانوں اور بالخصوص مدارسِ اسلامیہ پر دہشت گردی کے مفروضہ وموہومہ الزام کو دفع کرنے کے لیے ایک عظیم الشان اجلاس کا انعقاد کررہے ہیں، اسلام کی روز افزوں مقبولیت سے اسلام دشمن اور انسانیت کُش عناصر حواس باختہ ہورہے ہیں اور اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار قرار دے رہے ہیں،جب کہ اس بدترین دہشت گردی کے وہ خود علم بردار ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں جو لوگ مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا الزام دے رہے ہیں وہ مغربی ممالک کے شر پسندوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔
اس اجلاس میں آپ نے مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دارانِ مدارس اسلامیہ کو مدعو کیا ہے یہ ایک خوش آیند قدم ہے، اتحاد ملت کے لیے فال نیک کے ساتھ ساتھ وقت کی اہم آواز بھی ہے اس وقت مسلک ومشر َب سے بلند ہوکر تمام مسلم جماعتوں کو ایک مرکز پر متحد ہونے کی ضرورت ہے؛ تاکہ اجلاس کے واسطے سے جو آوازئہ حق آپ بلند کررہے ہیں وہ صدا بصحرا ثابت نہ ہو، ہندوستان کی تاریخ آزادی گواہ ہے کہ حکومت برطانیہ کا منحوس سایہ دور کرنے کے لیے سب سے پہلی آواز انہی مدارس اسلامیہ ہی سے اٹھی تھی، خصوصا ہمارے سلسلہ چشتیہ کے ”شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی علیہ الرحمہ نے اسی تناظر میں ہجرت فرمائی تھی، پھر ان کے خلفاء نے جو جلیل القدر علماءِ عصر تھے، برطانیہ مخالف تحریک کو جاری رکھا، انہی مدارس اسلامیہ کے فارغین نے حکومت برطانیہ کے ہاتھوں قید وبند ،طوق وسلاسل اور دار ورسن کی جان کاہ صعوبتیں برداشت کیں، اوران علمائے مجاہدین نے یہ جاں گداز مصائب، آزادی وطن کے جذبات سے سرشار ہوکر برداشت کیے ان کے پیش نظر کوئی ذاتی غرض نہ تھی اگر غرض تھی تو صرف وطن کی آزادی تھی۔ ایسے بے غرض اور بے لوث افراد کے جنم دینے والے اداروں یعنی مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کے مراکز قرار دینا اور سمجھانا اپنے عقل وفہم کے دیوالیہ پن کا ثبوت دینا ہے، خدا کرے آپ کی آواز اربابِ اقتدار تک پہنچے اور وہ بے قصور مسلمانوں کو جان ومال کی زَک دینے سے باز آئیں اور دہشت گردی کے حقیقی مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچائیں “۔ فقط والسلام:
مخلص: سید سرور چشتی
خاک نشیں آستانہ عالیہ اجمیر القدس
یہ پیغام کانفرنس میں جناب مولانا مفتی راشد صاحب اعظمی استاذ دارالعلوم دیوبند نے پڑھ کر سنایا۔
عظیم الشان کانفرنس کا تاریخی اعلامیہ، جسےحضرت مولانا مفتی محمدابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم نے پڑھا:
بعد ازاں حضرت مولانا مفتی محمدابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند وشیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ بنارس نے کانفرنس کا تاریخی اعلامیہ پڑھ کر سنایا، اعلامیہ میں اس حقیقت کا اعلان کیاگیا ہے کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے دین ِ رحمت ہے وہ دائمی امن وسلامتی اور لازوال سکون واطمینان کا سرچشمہ ہے، اسلام نے پوری انسانی برادری کو بلاتفریق قوم ومذہب اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اسلام ہر قسم کے تشدد اور دہشت گردی کا شدید مخالف ہے۔
رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ملت اسلامیہ کے تمام مکاتبِ فکر کے نمائندوں کی یہ دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس ہرقسم کے تشدد اور دہشت پسندی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
اعلامیہ میں اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ ”ہندوستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی بھی سامراجی طاقتوں کے زیر اثر آتی جارہی ہے، نیز سرکاری ایجنسیاں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور جانب داری برت رہی ہیں، عام مسلمان اور دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے جو نہایت صاف وشفاف ریکارڈ رکھتے ہیں ہر وقت اس دہشت میں مبتلا رہتے ہیں کہ انتظامیہ کے ہاتھ اس کے گریبان تک کب پہنچ جائیں،اور نہ جانے کتنے لوگ آج جیلوں میں بند، ناحق طرح طرح کی کربناک اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی پھیلانے والے، تھانوں کو لوٹنے والے، برسرعام پولیس افسران کو قتل کرنے والے، آتشیں اسلحوں کی نمائش کرنے والے عناصر آزاد گھوم رہے ہیں“۔
کانفرنس کے اعلامیہ میں پرُزور مطالبہ کیاگیاہے کہ ”حکومت ہند مدارس اسلامیہ اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے والے عناصر کو لگام دے،اور سرکاری ایجنسیوں کو پابند کیا جائے کہ تعصب وامتیاز سے بالاتر ہوکر اپنا فرض منصبی ادا کریں، تاکہ ملک میں حقیقی امن وسلامتی برقرار رہے“۔(اعلامیہ کا مکمل متن آخر میں ملاحظہ فرمائیں)
حضرت مولانا مفتی محمد ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے اعلامیہ پیش فرمایا اور کانفرنس میں شریک تقریباً ۳۰/ ہزار علماء کرام، مندوبین عظام اور مختلف مکاتبِ فکر کے ذمہ داران اور نمائندگان مدارس اسلامیہ نے پرزور الفاظ میں تائید کی اور ہاتھ اٹھا کر اپنی توثیق کا اظہار کیا۔اعلامیہ کے بعد تائیدی خطابات کا سلسلہ شروع ہوا۔
خطاب حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی زیدمجدہم:
حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند ومہتمم دارالمبلغین لکھنوٴ نے اپنے موثر ترین خطاب میں فرمایا: ”یہ تقریباً سبھی حضرات ِ مقررین نے فرمایا کہ :اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ ہمارے نزدیک دہشت گردی جتنا بڑا جرم ہے شاید دنیا کے کسی انسان کے نزدیک اتنا بڑا جرم نہ ہو، اسلام کا معنی ہے سرڈالنا، اطاعت کرنا، فرماں برداری کرنا، سرڈالنے والا دہشت گرد کیسے ہوسکتا ہے؟ دارالعلوم دیوبند ہماری اساس ہے، دارالعلوم دیوبند ہماری متاع عزیز ہے، دارالعلوم دیوبند ہماری مادرِ علمی ہے، اس دارالعلوم میں قرآن وحدیث کی تعلیم ہوتی ہے۔ مظاہر علوم سہارنپور میں، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴمیں مدرسہ شاہی مرادآباد اور دیگر بڑے مدرسو ں میں قرآن وحدیث ہی کی تعلیم ہوتی ہے، تاکہ قرآن وحدیث پر عمل کرکے ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے نام سے وابستہ ہوجائیں، اس لیے کہ اللہ اللہ جب تک ہوتا رہے گا اس وقت تک عالم سلامت رہے گا۔ ساری دنیا کو بتادیا جائے کہ مسلمان، عالم کے قرار کا ذریعہ ہیں، جب تک اللہ اللہ باقی رہے گا یہ دنیا باقی رہے گی، آج شور ہے پکڑو مسلمانوں کو، مارو مسلمانوں کو لیکن سن لو
جلیں گے ، ہم تو جل جائیگا سارا گلستاں مالی
سمجھ مت صحنِ گلشن میں مرا ہی آشیانہ ہے
میں نے لکھنوٴ میں کہاتھا آج پھر کہہ رہا ہوں کہ ملک کی سلامتی اور حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ ہندو مسجدوں کی حفاظت کریں اور مسلمان مندروں کی حفاظت کریں، مندربھی ہماری اور مسجد بھی ہماری کیو ں کہ ملک کے تمام باشندوں کا مسئلہ ہے جیسا کہ ہمارے برادرعزیز جناب مولانا محمود مدنی صاحب نے بتایا کہ مسلمانوں نے برادران وطن کو ساتھ لے کر ملک آزاد کرایاہے ۔ ہمارے حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب -رحمه الله- فرماتے تھے کہ ملک کے مسلمانوں کا صرف مسئلہ نہیں ہے۔ ملک کے تمام باشندوں کا مسئلہ ہے یہ ملک ہم نے بڑھایا ، ہم نے بسایا،ہم نے سجایا، ہم اس کے حصہ دار ہیں اور آپ بھی اس کے حصہ دار ہیں، ہم نے سمجھا تھا کہ ہم یہاں باقی رہیں گے، ہم دوسرا ملک نہیں بننے دیں گے، ہم ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، جمعیة علماء ہند نے تقسیم ہند کی مخالفت کی تھی لیکن ہم کیا کریں:
یہ سمجھے تھے کہ بوئے گل امینِ رازِ گلشن ہے
مگر یہ خانماں برباد، خود پھولوں کی دشمن ہے
حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے جو اعلامیہ پڑھا گیا ہے وہ ہم سب کے دلوں کی ترجمانی کرتا ہے اور ہم سب اس کو قبول کرتے ہیں اور اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں“۔
خطاب حضرت مولانا غلام محمدصاحب وستانوی زیدمجدہم:
حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب زیدمجدہم رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند ومہتمم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر نے اپنے پرجوش خطاب میں فرمایا:
”ہم اس ربِّ کریم کا شکرادا کرتے ہیں جس خالق ومالک نے مجھے اور آپ کو اور ہم ہندوستان کے مسلمانوں کو، دارالعلوم دیوبند جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی، دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے مسلمانوں کی آبرو ہے، دارالعلوم دیوبند ہندوستانی مسلمانوں کا تڑپتا ہوا دل ہے، دارالعلوم نے ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی، ثقافتی، سماجی،ہر لحاظ سے صحیح رہبری کی ہے۔دہشت گردی کو مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ سے جوڑا جارہاہے۔ دارالعلوم یہ عظیم الشان اجلاس بلاکر ان خیالات کی مذمت کرتا ہے، مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا فیض ملک کے کونے کونے میں جاری ہے اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا تقدس دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ کی دین ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا کوئی فاضل آج تک دہشت گردی کے کسی کام میں پکڑا نہیں گیا کسی اور مدرسے کا بھی کوئی استاذ یا طالب علم کسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث نہیں پایاگیا۔ یہ مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اور محض الزام ہے،ایسے حالات میں اہلِ مدارس کی ذمہ داری ہے کہ ہم چوکنے رہیں، دشمن تاک میں ہے، آپ کی معمولی معمولی بات کو ہائی لائٹ کیاجاتا ہے، ہم کو اپنا نظام بہتر بنانا ہوگا، ہم اپنے تعلیمی نظام کو مستحکم کریں اپنے مالی شعبہ کو صاف ستھرا رکھیں، الحمدلله مدارس والے جس انداز سے مدارس کا نظام چلاتے ہیں، حکومت والے بھی نہیں چلا سکتے، ہم حکومت کا کام کررہے ہیں، لیکن ہمیں حکومت کی کسی مدد کی ضرورت نہیں، آپ یہاں سے حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کا پیغام لے کر جائیں، حضرت کا خطبہٴ صدارت لے کر جائیں، اور اپنے صوبے کے مدارس کو اس سے آگاہ کریں، ہمیں دارالعلوم دیوبند کے مزاج کو، دارالعلوم دیوبند کے مسلک کو اور دارالعلوم دیوبند کے پروگرام کو عام وتام کرنا چاہیے“۔
خطاب حضرت مولانا خالد رشید فرنگی محلی زیدمجدہم:
حضرت مولانا خالد رشید صاحب فرنگی محلی نے اپنے خصوصی خطاب میں اہل فرنگی محل اور باشندگان لکھنوٴ کی جانب سے اس اہم کانفرنس کے انعقاد پر ذمہ داران دارالعلوم کو دلی مبارک باد پیش کرنے کے بعد فرمایا:
”اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، اس ملک میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے صرف اس لئے جوڑا جارہا ہے تاکہ اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی، ترقی کے راستوں کو روکا جاسکے۔ ہمارے علماء کرام نے اس وطن عزیز کو اپنے خون پسینے سے سینچا ہے، فرقہ پرستوں نے اس ملک کا بٹوارہ صرف اس لیے کرایا تاکہ اس ملک میں مسلمانوں کو حکومت سے دور رکھا جاسکے۔ لیکن فرقہ پرستوں کو اس میں کامیابی نہ ملی تو انھوں نے آزادی کے بعد ملک میں جگہ جگہ کمیونل رائٹس (فرقہ وارانہ فسادات) کرائے۔ مسلمانوں کا بے پناہ جانی ومالی نقصان کیا اور ان کو ہر میدان میں پیچھے کردینے کی کوشش کی۔ جب وہ اس طرح بھی مسلمانوں کو پسپا نہ کرسکے تواب ان پر اور مدارس اسلامیہ پر دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگایا جارہاہے۔
ان مدارس اسلامیہ نے ملک کی آزادی اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے حکومت کو ان کے ذمہ داران کا ممنون ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انھیں کو بدنام کیا جارہاہے۔اس ملک میں بابری مسجد شہید کرنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہا گیا،الفاوالوں کو دہشت گرد نہیں کہا گیا، ایل ٹی ٹی والوں کو دہشت گرد نہیں کیا گیا، یہودیوں کو دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا جو معصوم بچوں بوڑھوں عورتوں اور بے قصور لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں۔
میں حکومت کے ذمہ داران سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بے قصور مسلمانوں کو پریشان نہ کیاجائے، خواہ مخواہ ان پر دہشت گردی کا الزام نہ لگایا جائے اگر کہیں کسی فرقہ کا کوئی فرد دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث پایاجائے تو اس کی قوم اور مذہب کو بدنام نہ کیا جائے۔
خطاب حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب زیدمجدہم:
حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب زیدمجدہ سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر وسکریٹری مسلم پرنسل لاء بورڈ نے اپنے اہم خطاب میں فرمایا : بڑی مفصل تقریر آپ سن چکے ہیں۔ اس کانفرنس سے جو بلاغ پہنچایا گیا ، میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ مدارس اسلامیہ کو شک وشبہ کے گھیرے میں لایاگیا ہے ۱۹۸۹ء سے ایک منظم سازش چل رہی ہے کہ مدارس پر دہشت گردی کا الزام لگایا جائے بیس سال سے الزام کو سنتے سنتے ایک نسل جوان ہوگئی جو اس بات کا یقین رکھتی ہے کہ مدرسوں میں کچھ ہوتا ہے۔ آج یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اکابر کا یہ اتحاد نتیجہ خیز رہے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی خفیہ سیکورٹی کی رپورٹ میں مدارس اسلامیہ کودہشت گردی کے مراکز کہا گیا ہے، یہ رپورٹ چار رکنی ایک کمیٹی نے تیار کی ہے، جس کے صدر لال کرشن اڈوانی تھے۔ نیز عجب اتفاق یہ کہ مسٹر اڈوانی نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مدارس میں دہشت گردی نہیں پائی جاتی ہے۔ ہم اس دوغلی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں اور مذکورہ رپورٹ کا جو حصہ مدارس اسلامیہ میں دہشت گردی سے متعلق ہے اس کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔مدارس پر دہشت گردی کا الزام اس لیے لگایا جارہاہے تاکہ مدارس اپنے اصلی منہاج سے ہٹ جائیں، مدارس جو اہم خدمت انجام دے رہے ہیں ، معاشرے کی اصلاح کی، لوگوں کو دینی تعلیم، قرآن وحدیث کی تعلیم دینے کی وہ خدمت نہ انجام دے سکیں۔ میں یہ بھی کہوں گاہمیں الجھنا نہیں چاہیے ہمیں اپنے اپنے مدرسوں کو آباد رکھنا ہے۔ان کے نظام تعلیم وتربیت کو مستحکم کرنا ہے سرکارِ دوعالم -صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا ہے: العلماء مصابیح فی الارض۔ چراغ کا کام ہے اپنے کو جلانا اورماحول کو روشن کرنا، ہمیں اپنی جدوجہد سے اپنے ماحول کو روشن رکھنا چاہیے تاکہ دشمن ہمارے اثاثے پر ،ہمارے ایمان پر، ڈاکہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ دین کے لیے جئیں گے اور دین کے لیے مریں گے“۔
خطاب حضرت مولانا عبدالوہاب حجازی سلفی زیدمجدہم:
حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی خصوصی دعوت پر جامعہ سلفیہ بنارس کے استاذ محترم حضرت مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب تشریف لائے اور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
” آج کا یہ بابرکت اور عظیم الشان اجتماع حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب حفظہ اللہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی دعوت پر منعقد ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شان دار اجتماع کو اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب فرمائے۔ جو اعلامیہ پیش کیاگیا ہے وہ ہماری دلی آواز ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کی جہت سے جو مشکلات درپیش ہیں ان کو دور کیا جائے۔مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے اور اس کا اعتراف غیروں کو بھی ہے کہ اسلام امن ورحمت کا مذہب ہے، مسلمان جس معبود کی پرستش کرتے ہیں وہ رحمن ورحیم ہے اور جس نبی کی اتباع کرتے ہیں وہ رحمة للعالمین ہے۔ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے جہاں کے لیے رحمت ہے، رحمن ورحیم کے پرستاروں اور رحمة اللعالمین کے پیروکاروں کے دل سے رحمت کیوں کر ختم ہوسکتی ہے۔ یہ امت تمام انسانیت کے لیے رحمت اور امن کی پیامبر ہے، اس امت کو ظالم اور امن کا دشمن قرار دینا وقت کا سب سے بڑا ظلم ہے۔ یہ کانفرنس وقت کی آواز ہے، آج مسلمانوں کوطرح طرح سے پریشان کیا جاتاہے مختلف الزامات لگاکر ان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جرم ثابت ہونے سے پہلے مجرموں جیسا سلوک کیاجاتاہے یہ قانون اور انصاف کے رو سے بھی صحیح نہیں ہے مسلمان بڑی تعداد میں یہاں رہ رہے ہیں،اس ملک میں طرح طرح کی قومیں۔ مختلف مذاہب ، الگ الگ بولیاں اور رنگ وروپ ہیں یہ سب چیزیں زینت چمن ہیں
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
خطاب حضرت مولانا مفتی محمدمنظور صاحب مظاہری زیدمجدہم:
حضرت مولانا مفتی محمدمنظور صاحب زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند وقاضی شہر کانپور نے اپنے خاص خطاب میں فرمایا :
”انسداد دہشت گردی کی تحریک چلنی چاہیے، او رخوب زوروں پر چلنی چاہیے۔ اس ملک کو آزاد کرانے میں لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں، اگر مسلمان الگ تھلک ہوتا تو ملک آزاد نہ ہوتا۔ آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر بنا۔اس دستور اور آئین کی روشنی میں جو مجرم ہو اس کو پکڑا جائے۔ لیکن جب پولیس کی حکمرانی ہوگی اور اس کوکھلی چھوٹ دیدی جائے گی تو وہ اسی طر ح ظلم کریں گے۔اگر ملک میں پورے طور پر جمہوریت اور سیکرلزم کی حکمرانی ہوتو ہر باشندے کے ساتھ انصاف ہوگا۔ ابھی پچھلے ہفتے نکسلیوں نے پندرہ پولیس والوں کو اڑادیا۔ اوردو ٹرک اسلحہ لوٹ کر محافظ خانہ سے لے گئے ۔اگر خدانخواستہ نکسلیوں کی جگہ کسی مسلمان کا کام ہوتا، تو کسی مسلمان کی جان ومال محفوظ نہ رہتی،اس ملک کو جمہوریت اور سیکولرزم کے اصولوں کے مطابق چلانا چاہیے۔ موساد جو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ہے وہ ہمارے حکم رانوں کی مشیر کار ہے، ہمارا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام ظلم وزیادتی ہے۔ سراسر جھوٹ ہے فریب ہے، اگر اس طرح ظلم وزیادتی ہوتی رہی تو ملک محفوظ نہیں رہے گا“۔
حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحب سجاد نعمانی مدظلہم کا خطاب:
حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب زیدمجدہم نے اپنے خصوصی انداز میں فرمایا: اس عظیم الشان اجلاس کی طرف سے ایک پیغام توجانا طے ہواتھا حکومت وقت کے نام، سرکاری ایجنسیوں کے نام، ایک پیغام طے ہوا تھا میڈیا کے نام اور ایک طے ہوا تھا ہندوستان کے مسلمانوں کے نام، بہت طاقتور انداز میں دردمنددلوں سے آپ نے پیغامات سنے۔ ہمارے اکابر ین نے ایک کے بعد ایک آکر اپنا دل نکال کر رکھ دیا اور آئینِ جواں مرداں حق گوئی وبے باکی کا مصداق بن کر بہت قوت کے ساتھ، جرأت وبے باکی کے ساتھ پوری بات صاف صاف رکھ دی ہے، مجھے اس تعلق سے کچھ نہیں کہنا ہے میں ایک پیغام بھیجنا چاہتاہوں مسلم عوام کے نام۔ آج حق کی آواز لگانے والوں کو گھیرا جارہا ہے اور زمین ان پر تنگ کی جارہی ہے ظلم سے زمین بھررہی ہے لیکن ہمیں ان حالات میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ رات کی تاریکی صبح روشن کی علامت ہے۔ آج ظلم سے جس طرح زمین بھرتی جارہی ہے یہ باطل کے ہلاک ہونے کی علامت ہے۔ یقین کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ آسمانوں میں ان کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں۔ اللہ ضرور ظالموں کو ہلاک کرے گا جس طرح کل کیا تھا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم گناہوں کو چھوڑدیں اور امانت دار بنیں۔ اگر بے گناہ ستائے جائیں گے اور قید کیے جائیں گے اورہم اپنے تعلق کو اللہ سے مضبوط بنائے رکھیں گے تو اللہ حالات ہمارے حق میں پھیردے گا اور ہمیں زمین کا مالک بنادے گا جس طرح حضرت یوسف کو بنادیا۔ ہمیں جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہمیں محبت کے جذبات کو عام کرنا چاہیے اور عفوو درگذر سے کام لینا چاہیے جس طرح حضوراکرم -صلى الله عليه وسلم- نے کیا تھا۔ لیکن عفو سے میری مراد بزدلی نہیں یہ اجلاس جرأت کا پیغام بھی دیتا ہے۔
جو اعلامیہ آپ کے سامنے پڑھا گیا ہے اس کو گلی گلی ،گھر گھر پہنچائیے، اور برادران وطن تک بھی لے جائیے“۔
خطاب حضرت مولانا عمید الزماں صاحب قاسمی کیرانوی زیدمجدہم:
حضرت مولانا عمید الزماں صاحب کیرانوی زیدمجدہم کارگزرا صدر تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند نے فرمایا:” اسلام ہمارا عقیدہ،ہمارا مذہب، ہماری روح، اور ہمارا منہج حیات ہے اور شرعی حب الوطنی کے دائرے میں ہندوستان ہماری محبت، شیدائیت کا مرکز اور محور ہے۔ اسلام عدم تشدد کی ایک فلاسفی پیش کرتا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام نے انسانیت کو جو مرتبہ ومقام عطا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے عطا نہیں کیا ہے۔ اسلام میں ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ایسے مذہب کے ماننے والوں کو دہشت گرد قرار دینا سراسر بہتان عظیم نہیں تو اور کیا ہے؟۔ لیکن اسی بہتان کو ایک سازش کے تحت بڑی قوت کے ساتھ پھیلایا جارہاہے اس سازش کے تانے بانے عالمی سطح پر بنُے گئے ہیں۔عمل اور رد عمل کے نتیجے میں کچھ سالوں میں دنیا کے بعض علاقوں میں جو حالات پیدا ہوئے، جو واقعات رونما ہوئے، انھوں نے ہمارے ملک میں فرقہ پرستوں کو ایک ہتھیار دیدیا ہے اور ایک ایسا موقع فراہم کردیا ہے جس کو وہ پورے طورپر استعمال کرکے مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں؛ لیکن تشدد کہاں ہے؟۔ دہشت گردی کہاں ہے؟۔ مزاحمت کہاں ہے؟ اس میں فرق کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے لوگ اگر اسرائیل کے ظلم و جارحیت کے خلاف کچھ کررہے ہیں تو کیا یہ دہشت گردی ہے؟۔ عراق کے عوام اگر بش کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں تو کیا اسے دہشت گردی کہا جائے گا؟۔ ہرگز نہیں۔ مدارس کے حوالہ سے میں عرض کروں گا کہ ایک واقعہ آپ ثابت کریں جس میں مدرسے کا کوئی آدمی دہشت گردی میں ملوث ہوا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک فنڈ بنایا جائے اور جو مدارس کے لوگ بے قصور گرفتار کئے جارہے ہیں ان کے بارے میں عدالتی چارہ جوئی کی جائے، پیروی کی جائے“۔
حضرت مولانا محمداسرارالحق صاحب قاسمی زیدمجدہم کا خطاب:
حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی زیدمجدہم صدر ملی وتعلیمی فاؤنڈیشن نئی دہلی نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہماری ملت کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں بہت سے موڑ اور نازک مرحلے ایسے آئے کہ ان کی شدت کے سامنے کبھی محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا وجود متزلزل ہوجائے گا، لیکن ہماری تاریخ کی بڑی عظمت ہے کہ جب بھی کوئی بڑی مصیبت آئی، بڑے سے بڑا نازک مرحلہ آیاتو ہماری ایمانی قوت میں اسی درجہ اضافہ ہوا ہے، جس انداز سے آج ہم کو گھیرا گیا ہے، اسلام کی جس طرح غلط تصویر پیش کی جارہی ہے ہم کو اس سے متاثر نہیں ہونا ہے، بلکہ اپنی ایمانی فراست اپنے تدبر اور حکمت عملی سے ان چیزوں کا مضبوطی سے مقابلہ کرنا ہے، پوری دنیا جانتی ہے کہ اسلام میں صرف امن کا تصور ہی نہیں؛ بلکہ اسلام میں امن کی قوت بھی ہے، یہ پاور آف پیس ہے، یہی اسلام ہے جو دنیا میں امن قائم کرسکتا ہے،مسلمان اٹھ کھڑے ہوں گے تو پوری دنیا میں امن ہوگا مسلمان بیٹھ جائیں گے تو پوری دنیا میں بڑے بڑے جھگڑے ہوں گے، آج وہ لوگ جن کے ہاتھ رنگین ہیں ہیروشیما کے خونی بموں سے، جن کی زبان سے آج عراق کا لہو ٹپک رہا ہے، اگر وہ آج اسلام کو دہشت گردی سے جوڑرہے ہیں تو اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہوگی۔ ہندوستان کے اسلامی مدرسوں کو دہشت گردی سے جوڑرہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے اندر دہشت گردی کی بنیاد جنھوں نے قائم کی وہ وہی لوگ ہیں جو ”اسلامی مدرسے بے نقاب“ نامی کتاب کے ذریعہ مدارس اسلامیہ کو بدنام کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گاندھی کے قاتل تھے، آج جن مدرسوں کو بدنام کیا جارہا ہے اگر یہ مدرسے نہ ہوتے تو ملک آزاد نہ ہوتا۔ ملک کی آزادی کی تاریخ پر روشنی ڈالنے کے بعد مولانا نے فرمایا: ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں ہم اس ملک کے شہری ہیں۔ ہم اس ملک کے مالک ہیں ہم اس ملک کے کرایہ دار نہیں ہیں، ہمارے پاس ملک کا کانسٹی ٹیوشن ہے۔ ہمارے پاس ملک کا عدلیہ ہے۔ اس ملک میں لڑائی ہندومسلمانوں کی نہیں ہے۔ طبقہ واری اورمذہبی لڑائی نہیں ہے۔ اس ملک میں لڑائی سیکولرزم اور فاشزم کی ہے۔ ہم فاشزم کو اس ملک میں چلنے نہیں دیں گے۔ ہم سیکولرزم کی بنیاد مستحکم کریں گے۔ ہم ظلم وزیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔اس عظیم الشان کانفرنس کے اعلامیہ کی ہم تائید کرتے ہیں ہندوستان میں امن پسند انصاف پسند لوگوں کو ساتھ لے کر ہم پورے عزم وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں گے“۔
خطاب حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب زیدمجدہم:
حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب زیدمجدہم استاذ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”میرے بزرگو اور بھائیو! دیوبند کی اس سرزمین پرمولانا محمدقاسم صاحب نانوتوی-رحمه الله- کے اس دارالعلوم میں جس نے ظالم اور غاصب انگریزوں کی طاقت سے مورچہ لیا، جب عسکری میدان میں یہ محسوس ہوا کہ امت مسلمہ شکست کھاچکی ہے، اس نے ایک مرکز، نظریات، اور فکر اسلامی کی نشرواشاعت کا قائم کیا جس کو صرف اس لیے قائم کیاگیاتھا تاکہ اٹھارہ سو ستاون کی ناکامی کی تلافی اس کے ذریعہ کی جائے۔ مولانا محمود حسن دیوبندی-رحمه الله- کے اس دیوبند میں جس نے ظالم اور غاصب انگریزوں کی بین الاقوامی طاقت کو اکھاڑپھینکنے کے لیے ایک عالمی اور بین الاقوامی تحریک چلائی تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی -رحمه الله- کے اس دارالعلوم میں جس نے قربانیوں کی ایسی نظیر قائم کی ہے جس کی نظیر اب تک پھر دوبارہ پیش نہیں کی جاسکی۔اس دارالعلوم میں جو اجتماع بلایاگیا ہے وہ اس مقصد کی خاطر بلایاگیا ہے کہ دہشت گردی مخالفت کا ایک محاذ قائم کیا جائے یہ پلیٹ فارم دفاعی نہیں ہے یہ معذرت کا پلیٹ فارم نہیں ہے۔
یہ پلیٹ فارم اس لیے قائم کیاگیا ہے تاکہ ملت اسلامیہ بیدار ہوجائے، ملت اسلامیہ اپنے مخالفین اور دشمنوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور ملت اسلامیہ کی صفوں میں ایسا اتحاد پیدا کردیا جائے کہ کوئی جماعت کوئی تحریک کوئی مرکز کوئی ادارہ اپنی الگ آئڈینٹٹی (شناخت) نہ بنائے آج دیوبند کے، جماعت اسلامی کے، جمعیت اہل حدیث کے اور مختلف اداروں اور تنظیموں کے ذمہ دار یہاں تشریف فرماہیں۔ جو اتحاد یہاں نظر آرہاہے وہ جلسہ کے بعد بھی قائم رہنا چاہیے۔ یہ اسٹیج آج کے لیے نہیں سجایا گیا ہے یہ اسٹیج ہندوستان کی قسمت ہے، انشاء اللہ یہ اسٹیج بین الاقوامی حالات کے تبدیل کرنے کے لیے متحدہ اسٹیج ثابت ہوگا۔
آج ہندوستان کوپولیس اسٹیٹ بنادیاگیا ہے، ملتِ اسلامیہ ۱۹۲۴ء سے ظلم وستم کی شکار ہے، دہشت گرد امریکہ ہے جس نے ڈھائی لاکھ عراقیوں کا خون بہایا، دہشت گرد وہ امریکہ ہے جس نے افغانستان کے نہتے بچوں،عورتوں، بوڑھوں، نمازیوں اور پریشان حالوں پر بم گراکر لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا، دہشت گردہ ہے جس نے غلط الزامات لگائے۔ ۱۱/ستمبر کا واقعہ ایک گھڑا ہوا واقعہ ہے۔ ایک فراڈ ہے۔ یہ صورت حال ہے، اس کو بدلنے کے لیے آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ میں اس اسٹیج پر کہتا ہوں کہ مولانا ارشد مدنی صاحب ہماری قیادت کیجئے۔ آپ آگے بڑھئے پوری ملت آپ کے ساتھ ہے، یہاں ایک فیصلہ کرکے اٹھئے اگر دلت ہزاروں سال ظلم سہنے کے بعد متحد ہوسکتے ہیں حکومت بناسکتے ہیں۔ تو آپ کیوں نہیں کرسکتے۔ آپ سے ملک چھینا گیا ہے، آپ کو ملک اپنے ہاتھ میں لینا ہے اور ملک کے حالات کو سیاسی، سماجی، اور اخلاقی اعتبار سے تبدیل کرنا ہے“۔
حضرت مولانا محمد شاہد صاحب مظاہری زیدمجدہم کا خطاب:
حضرت مولانا محمد شاہد صاحب مظاہری زیدمجدہم امین عام جامعہ مظاہر علوم سہارنپور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”اس اہم اجلاس کے انعقاد پر میں حضرت مہتمم صاحب زادمجدہم اور دارالعلوم دیوبند کو بصدق دل تہنیت وتبریک پیش کرتا ہوں جامعہ مظاہر علوم کی طرف سے اس اعلامیہ کی بھرپور تائید کرتا ہوں، جو دارالعلوم دیوبند کی طرف سے پوری ملت اسلامیہ کی آواز بن کر پورے عالم میں گونج رہاہے اور گونجے گا۔ دہشت گردی کی حقیقت اور بنیاد پر غور کرنا چاہیے، دہشت گردی ظلم اور ناانصافی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے اس کی بنیاد کو ختم کرنا ضروری ہے آج دہشت گردی کے نام پر کس قدر ظلم وستم ہورہا ہے۔ ظلم پنپنے والی چیز نہیں۔ ظالم اپنی طاقت کے نشے میں جس کی چاہے پگڑی اچھال دیتا ہے، جس کی چاہے عزت خاک میں ملادیتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ ظالم کی جڑیں کاٹ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کفر وشرک کی حکومت کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن ظلم کی حکومت برداشت نہیں کرتے۔
اگر دہشت گردی کو خواہ مخواہ اسلام کے ساتھ، مسلمانوں کے ساتھ، مدارس اسلامیہ کے ساتھ جوڑدیں گے تو دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتے، یہ ظلم یہ ناانصافی ملک کے ہر فرد کے لیے خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت بڑی وسیع ہے، اس نے ظلم کرنے کی وجہ سے بڑی بڑی قوموں کا صفایا کردیا ہے“۔
حضرت مولانا فضیل احمد صاحب قاسمی زیدمجدہم کا خطاب:
مرکزی جمعیة علماء ہند نئی دہلی کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا فضیل احمد صاحب قاسمی زیدمجدہم نے کانفرنس کو درج ذیل کلمات سے خطاب کیا:”ہم کانفرنس کے اعلامیہ کی مکمل تائید کرتے ہیں، دارالعلوم دیوبند میں اس اجلاس کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان کے سب مظلوموں اور مسلمانوں پر رحم ہوگا۔ آزادی کے ساٹھ سالوں میں مسلمانوں پر اتنا ظلم ہوا ہے، ان کا اتنا زبردست قتل عام ہوا ہے، کہ میں قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ دوسری قوم ہوتی تو ختم ہوجاتی۔یہ تو اسلام ہے کہ اس کو جتنا کاٹو اتنا ہی ہرا ہوگا۔جس وقت مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا مسئلہ پیدا کیاگیا تھا تو حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحب -رحمه الله- نے لوہا لیا تھا، پورے ملک کا دورہ کیا تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ تمام مکاتب ِ فکر کے لوگوں کو ایک اسٹیج پر جمع کیا اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیاتھا پھر ایمرجنسی کا دور آیا، جبراً نس بندی کا سلسلہ شروع ہوا تو دارالعلوم دیوبند کے جیالے شیر، فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی -رحمه الله- نے آواز اٹھائی اور ملک کے ہر ہر صوبے میں اجلاس کیااور اعلان کیا کہ یہ ظلم ہے۔ آج مادرِ علمی نے اپنی آغوش میں سب کو لیا ہے دارالعلوم کا یہ اقدام تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے. ع
’’یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے“
آج مسلمانوں کو جہادی گروپ بتایا جارہاہے۔ یہ امریکہ کررہا ہے ہماری صفوں میں اتحاد ہونا چاہیے، دارالعلوم دیوبند ہمارا قائد بنے ہم کو یہا ں سے کچھ کر کے اٹھنا چاہیے، ورنہ آپ دیکھئے کہ کتنے مظالم ہورہے ہیں، علماء کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ یہ طے کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کو ختم کرنا ہے۔ ہمیں پوری ہمت اور حوصلہ کے ساتھ ان حالات کامقابلہ کرنا ہے اسی کے ساتھ میں اعلامیہ کی تائید کرتا ہوں ۔ اکابر دارالعلوم اور حضرت مہتمم صاحب جہاں آواز دیں گے انشاء اللہ بندہ کو اپنے قریب پائیں گے“۔
رابطہ مدارس اسلامیہ کے صوبائی ذمہ داران اور دیگر حضرات کی تائیدات:
مذکورہ بالا حضرات علماء کرام کے تائیدی بیانات کے علاوہ کچھ اور اہم شخصیات او رصوبائی رابطہ کے ذمہ داران کے اسماء گرامی اعلامیہ کی تائید کرنے والوں میں شامل تھے جو درج ذیل ہیں۔
حضرت مولانا محمدازہر صاحب رانچی/رکن شوریٰ دارلعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ جھارکھنڈ، حضرت مولانا مفتی محمداسماعیل صاحب رکن شوریٰ دارالعلوم، حضرت مولانا محمدقمر الزماں صاحب الہ آباد، حضرت مولانا محمداشہد رشیدی، مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی و رکن عاملہ رابطہ مدارس، حضرت مولانا محمداسحاق صاحب امیر شریعت ہریانہ وپنجاب، حضرت مولانا صدیق اللہ صاحب چودھری صدر رابطہ مدارس مغربی بنگال، حضرت مولانا مفتی ظفر الدین صاحب صدر رابطہ مدارس دہلی، حضرت مولانا محمداقبال قاسمی صاحب صدر رابطہ مدارس تامل ناڈو، حضرت مولانا قاری محمدامین صاحب صدر رابطہ مدارس راجستھان، حضرت مولانامحمد قاسم صاحب صدر رابطہ مدارس بہار، حضرت مولانا مفتی احمد دیولوی صاحب ، صدر رابطہ مدارس اسلامیہ گجرات، حضرت مولانا رحیم الدین انصاری صاحب ناظم دارالعلوم حیدر آباد، حضرت مولانا محمدغیاث الدین صاحب مہتمم مدرسہ دارالعلوم الرحمانیہ حیدر آباد، حضرت مولانا محمد رحمت اللہ صاحب صدر رابطہ مدارس جموں کشمیر، حضرت مولانا محمدجابر صاحب صدر رابطہ مدار س اڑیسہ، حضرت مولانا مفتی زین العابدین صاحب صدر رابطہ مدارس کرناٹک، جناب مولانا گلزار صاحب قاسمی نمائندہ حضرت مولانا حکیم عبداللہ صاحب اجراڑوی، جناب مولانا محمد پرویز صاحب قاسمی نمائندہ حضرت مولانا بدالدین اجمل صاحب قاسمی /رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند وصدر مرکز المعارف ۔جناب مولانا مفتی محمدسراج الدین صاحب قاسمی، صدر رابطہ مدارس منی پور، جناب مولانا محمدرفیق صاحب گجرات، حضرت مولانا محمدحسیب صدیقی صاحب منیجر مسلم فنڈ ٹرسٹ وچیئرمین دیوبند، حضرت مولانا عبدالواحد مدنی سلفی سدھارت نگر، حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب اثری سلفی، مئو، حضرت مولانا محمداحمد صاحب شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم بوڈیہار (گونڈہ)
خصوصی پیغامات:
چند پیغامات کا ذکر اوپر آچکاہے،حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب مسعودی کشمیری زیدمجدہم ،شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند علالت طبع کے باعث تشریف نہیں لاسکے حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے نام اپنے مکتوب گرامی میں تحریر فرمایا”دہشت گردی مخالف کانفرنس میں آں مکرم کی جانب سے دعوت نامہ برائے شرکت وتقریر ملا، جس کے لیے مشکور ہوں۔ اپنی ناسازی طبع کی وجہ سے شرکت سے معذور ہوں، تاہم یہ یقین رکھتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کی سربراہی اور آں محترم کی سرپرستی میں یہ اجلاس اپنے مقاصد واہداف کے حصول میں ضرور کامیاب ہوگا“۔ یہ پیغام، حضرت کے صاحبزادئہ محترم جناب مولانا احمدخضر شاہ مسعودی کشمیری مدظلہ استاذ حدیث دارالعلوم وقف دیوبند ومہتمم جامعة الامام انور شاہ الکشمیری-رحمه الله- دیوبند نے کانفرنس میں پیش کیا اور مختصر تقریر بھی فرمائی۔
حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی محمدمکرم احمد صاحب زیدمجدہم شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی کا مکتوب بذریعہ ای میل موصول ہوا جس میں حضرت مہتمم صاحب زیدمجدہم کے نام انھوں نے تحریرفرمایا کہ آپ کا دعوت نامہ موصول ہوا، کل ہند اجلاس عام رابطہ مدارس اسلامیہ کانفرنس کا انعقاد، فتنہ انگیز حالات کے تناظر میں ایک اچھا قدم ہے اس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں ، بعض مصروفیات کے باعث کانفرنس میں شرکت نہیں ہوسکے گی، کانفرنس کو بامقصد بنانے اور حکومت وقت پر اس کے اثرات مرتب کرنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اختتام کے بعد حکومت کے رویہ میں مثبت تبدیلی نظر آئے، اور مسلمانوں پر سے دہشت گردی کا الزام واپس لیا جائے“۔ یہ پیغام جناب مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم نے کانفرنس میں پڑھا۔
حضرت مولانا عثمان غنی رضوی صاحب مدظلہ مہتمم دارالعلوم انوارمصطفی رضا، جام نگر،گجرات کا مکتوب گرامی موصول ہوا جس میں آں محترم نے تحریر فرمایا ہے : کہ مدارس اسلامیہ کے تعلق سے جن چیزوں کی نشان دہی آپ نے کی ہے وہ مبنی برحقیقت ہیں، ایسے پرُآشوب اور خون آشام حالات میں آپ کا یہ قدم انتہائی قابل ستائش ہے۔اس کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، حالات کے مد نظر سارے مکاتبِ فکر کو ساتھ لے کر چلنا، یہ وقت کا تقاضا اوراس کی ضرورت ہے اور آپ اپنے وسعت قلبی اور بڑکپن کا مظاہر کرتے ہوئے مختلف مکاتبِ فکر کو دعوت دے کر اس موقع پر ہمیں بھی دعوت شرکت دی اس کے لیے ہم تہہ دل سے آپ کے شکر گزار ہیں،دعوت نامہ ہمیں اس وقت موصول ہوا جب کہ اجلاس کی تاریخ قریب ہوچکی تھی، اس لیے شرکت نہ ہوسکی، ہم معذرت خواہ ہیں مگر ہم آپ کے ہم قدم ہیں، اخیر میں التماس ہے کہ اجلاس میں اہل حل وعقد جو منصوبے تیار فرمائیں اس سے ہمیں ضرور آگاہ فرمایا جائے۔
حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی :رکن شوری دارالعلوم دیوبند اچانک علالت کے باعث تشریف نہیں لاسکے، ان کا پیغام لے کر ان کا ایک نمائندہ وفد کانفرنس میں شریک ہوا، ارکان وفد میں حضرت مولانا شمس الدین صاحب ،شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ جلالیہ ہوجائی، جناب مولانا عبدالقادر صاحب، ناظم تنظیم المدارس آسام،جناب مولانا پرویز صاحب ناظم مرکز المعارف آسام شامل ہیں۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب بھی مصروفیات کے باعث تشریف نہ لاسکے ان کا بھی ایک اہم پیغام موصول ہوا۔
حضرت مولانا علی کوٹی المسلیار نائب چیئرمین آل انڈیا حج کمیٹی حکومت ہند وپرنسپل جامعہ نوریہ فیض آباد کیرالا کاخصوصی پیغام موصول ہوا جس میں کانفرنس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیاگیا ہے اوراسے بروقت اٹھایا گیا ایک مستحسن قدم بتایاگیا ہے۔
حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم کا خطاب:
حضرت مولانا قاری محمدعثمان صاحب زیدمجدہم نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایاکہ: جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اس عظیم الشان کانفرنس میں تمام مکاتب ِ فکر کے نمائندہ حضرات کو شرکت کی خصوصی دعوت دینے کے لیے اساتذہ دارالعلوم کے وفود مختلف مقامات پر روانہ کیے،ان اساتذئہ کرام نے دہلی، اجمیر شریف، کچھوچھہ شریف ، بریلی ، بدایوں، لکھنوٴ ، بنارس، بستی، سدھارتھ نگر، اعظم گڑھ ،مئو وغیرہ مقامات پر جاکر،جماعت اسلامی، اہل حدیث، اہل تشیع، بریلوی مکتبِ فکر کے نمائندگان اور مدارس کے ذمہ داران حضرات سے ملاقات کی۔انھوں نے شرکت کا وعدہ فرمایا اور باضابطہ طور پر لکھ کر دیا کہ ہم شریک ہوں گے، بہت سے حضرات یہاں تشریف لائے ہیں، ان کے بیانات بھی ہوچکے ہیں، میں ان سب حضرات مندوبین ومدعوین خصوصی کا بطورِخاص شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے زحمت ِسفر برداشت کی اور اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مجمع الحمدلله ہماری توقع سے گئی گنا زیادہ ہے، میں تمام مدارس چاہے رابطہ مدارس کے رکن ہوں یا نہ ہوں، اور تمام مکاتب فکر کے ذمہ داران کا دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کی طرف سے ، تمام ارکان مجلس شوریٰ کی طرف سے، حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے آپ سبھی حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، شہری انتظامیہ کے ذمہ داروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہر ہر قدم پر ہمارا بھرپور تعاون کیا، میں ضلعی سطح کے سرکاری ذمہ داروں کا بھی شکرگذار ہوں ، میڈیا کے افراد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہمیں بھرپور تعاون دیا، مختصر خطاب کے بعد حضرت قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم نے کانفرنس کی وہ تجویز پڑھی جو دہشت گردی اور حکومتی رویہ کے خلاف صوبائی اجتماعات کی ضرورت سے متعلق تھی شرکاء کانفرنس نے اس کی تائید کی تجویز آخر میں شامل ہے۔
آخر میں جناب مولانا حسیب صدیقی صاحب منیجر مسلم فنڈ ٹرسٹ وچیئرمین دیوبند نے بھی اظہار خیال فرمایا، اعلامیہ کی تائید کی اور اس عظیم کانفرنس کے انعقاد کو بروقت اور مستحسن قدم قرار دیا اور تمام مندوبین ومہمانان ِ کرام کا شکریہ ادا کیا۔
حضرت صدر کانفرنس امیر الہند مولانا مرغوب الرحمن صاحب زیدمجدہم ، مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی رقت آمیز دعا پر سوادوبجے کانفرنس اختتام پذیر ہوئی، کانفرنس کی نظامت کے فرائض اولاًناچیز راقم السطور نے انجام دیے، تکمیل میں جناب مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری کا تعاون شامل رہا ۔
حضرت مولانا اصغر امام سلفی زیدمجدہم :
حضرت مولانا اصغر امام سلفی صاحب زیدمجدہم، ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث اور حضرت مولانا محمداقبال صاحب سلفی، دہلی سے کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے چوں کہ جمعیت اہل حدیث کی مجلس شوریٰ کا ایک روز قبل ہی اجلاس تھا، مصروفیات کے باعث دیر سے روانگی ہوئی اور راستہ میں شدید بھیڑ کے باعث دیوبند پہنچنے میں تاخیرہوئی، اس لیے موصوف محترم کا کانفرنس میں خطاب نہ ہوسکا۔ حضرت صدر کانفرنس دامت برکاتہم اور دوسرے ذمہ داران دارالعلوم اور ناچیز راقم السطور سے انھوں نے اپنی ملاقات میں اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد پر تہنیت اور تبریک پیش کی،اس کو نہایت مستحسن اور بروقت اقدام قرار دیا اور تمام مکاتب ِ فکر کے نمائندہ حضرات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے پر بطورِ خاص مبارک بادپیش کی، مولانا موصوف کا خصوصی خطاب پروگرام میں شامل تھا اوراس کا اعلان بھی کیا جاچکا تھا لیکن افسوس کہ تاخیر کے باعث ان کے خیالات سے استفادہ نہ کیا جاسکا۔
کانفرنس بے حد کامیاب اور تاریخ ساز رہی:
کانفرنس بے حد کامیاب اور تاریخ ساز ثابت ہوئی پرنٹ اور الیکٹرانک قومی میڈیا نے اسے بڑی اہمیت کے ساتھ پیش کیا، حالا ں کہ ذمہ داران دارالعلوم نے میڈیا کو دعوت نہ دی تھی، لیکن مسلسل اخبارات میں خبریں آتے رہنے سے میڈیا اپنے طورپر شریک رہا، بعض مخلص حضرات نے اس میں خصوصی کردار ادا کیا اور ذرائع ابلاغ سے متعلقہ افراد کی بہتر رہ نمائی کی جس سے نہایت مثبت اور موٴثر انداز میں کانفرنس کے پروگرام کو براہ ِ راست بھی نشر کیاگیا اور بعد میں بھی کیاجاتارہا، قومی اخبارات نے اردو ہندی اور انگریزی میں خصوصی اداریے اور کالم شائع کیے اور دیوبند کے پیغام کے طور پر کانفرنس کے اعلامیہ کو بے حد سراہا گیا۔ بیرون ملک بھی کانفرنس کو بڑی پذیرائی ملی جس کا اندازہ انٹرنیٹ سے موصول شدہ مبارک باد ی کے خطوط اور انگریزی اخبارات کے تبصروں سے ہورہا ہے جو بڑی تعداد میں موصول ہورہے ہیں۔
کانفرنس کے انتظامات:
گرامی قدر محترم حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر دفتر اہتمام میں حضرات اساتذئہ کرام دارالعلوم کی ایک اہم مجلس منعقد ہوئی، ملک کی موجودہ ناگفتہ بہ صورت حال پرغور ہوا کہ حکومتی ایجنسیاں مسلمانوں، مدارس اسلامیہ سے وابستہ افراد اور تبلیغی جماعت وغیرہ کے ساتھ امتیاز اور تعصب کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہے تو شک کے گھیرے میں مسلمانوں کو ہی لے آیاجاتا ہے اور غیر جانب دارانہ تحقیقات نہیں کرائی جاتی، حالاں کہ مسلمانوں کا ایسی کارروائیوں سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اور جو حقیقتاً مجرم ہوتے ہیں ان کے بارے میں چشم پوشی کی جاتی ہے، غور وخوض کے بعدطے پایا کہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے زیر اہتمام دارالعلوم دیوبند میں مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کا کل ہند اجلاس عام منعقد کیا جائے،حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے حکم کے مطابق دعوت نامہ کی تیاری اور طباعت کے بعد مرکزی دفتر رابطہ مدارس سے پورے ملک کے مدارس اسلامیہ عربیہ کے ذمہ داران حضرات کو تقریباً ۶/ہزار دعوت نامے جاری کیے گئے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے دفتر رابطہ میں شب وروز کام جاری رہا، دیگر مکاتبِ فکر کے مدارس کے پتے بھی حاصل کیے گئے اور ساڑھے چارسو ایسے مدارس کو دعوت نامے ارسال کیے گئے جو اہل حدیث، جماعت اسلامی، اہل تشیع اور بریلوی مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ دیگر مکاتب فکر کے اہم ذمہ داران اور بڑے مدارس کو دعوت نامہ پیش کرنے کے لیے اساتذئہ دارالعلوم کے چند وفود تشکیل دیے گئے،حضرت مولانا قمر الدین صاحب زیدمجدہم، استاذ حدیث دارالعلوم اور ناچیز پر مشتمل وفد نے دہلی کا سفر کیا اور جماعت اسلامی کے امیر حضرت مولانا جلال الدین صاحب عمری اور حضرت مولانا اصغر امام علی سلفی ناظم عمومی جمعیت اہل حدیث کو کانفرنس میں شرکت کی خصوصی دعوت پیش کی یہ دونوں حضرات موقر وفد کی قیادت کرتے ہوئے کانفرنس میں تشریف لائے، اجمیر کے سجادہ نشیں اور ذمہ داران انجمن حضرات کو خصوصی دعوت نامہ پیش کرنے کے لیے جناب مولانا عبداللہ صاحب معروفی اور جناب قاری شفیق الرحمن صاحب تشریف لے گئے، جناب مولانا سید سرور چشتی زیدمجدہم مصروفیت کے باعث تشریف نہ لاسکے ان کا نہایت اہم پیغام موصول ہوا جو کانفرنس میں پڑھا گیا ،لکھنوٴ، بارہ بنکی، گونڈہ، بستی، کچھوچھہ، سدھارت نگر، مئو، اعظم گڑہ اور بنارس وجون پور کے جماعت اسلامی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے ذمہ داران سے ملاقات کے لیے جناب مولانا مفتی محمد راشد صاحب اور جناب مولانا مفتی عبداللہ صاحب معروفی تشریف لے گئے۔ ان علاقوں سے متعدد اہم مدارس کے ذمہ داران کانفرنس میں شریک ہوئے۔
جناب مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی اور جناب مولانا محمدایوب صاحب مظفر نگری پر مشتمل وفد نے مرادآباد ،سنبھل، رام پور، بریلی، بدایوں وغیرہ کے علاقوں میں ذمہ داران مدارس سے ملاقات کی،ان علاقوں سے بھی متعدد حضرات، دیگر مکاتب فکر کے تشریف لائے، دہلی میں جناب ڈاکٹر مفتی مکرم صاحب اور بعض شیعہ حضرات کو بھی دعوت نامہ پیش کیاگیا۔
محترم ڈاکٹر مکرم صاحب موصوف، مصروفیات کے باعث تشریف نہ لاسکے،تاہم ان کا اہم پیغام موصول ہوا جو کانفرنس میں پڑھاگیا جن شیعہ قائدین حضرات کو دعوت دی گئی تھی ان میں بعض حضرات ان تاریخوں میں لندن کے سفر پر روانہ ہونے کے باعث تشریف نہ لاسکے۔
جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے ذمہ دار حضرات نے کانفرنس میں شرکت کی دعوت منظور فرمائی تھی، تشریف لانے کا وعدہ فرمایاتھا لیکن ایک روز قبل فیکس موصول ہوا کہ انہی ایام میں جامعہ میں سیمینار کا انعقاد ہے جس کی تیاریوں میں مصروفیت کے باعث کانفرنس میں شرکت نہ ہوسکے گی۔
حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے کانفرنس کے انتظامات پر گہری نظررکھی۔ مندوبین کے استقبال اور ان کے قیام وطعام، پنڈال وغیرہ کی تیاری لٹریچر کی طباعت اور کانفرنس کو کامیابی سے ہم کنار رکھنے والے تمام امور کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے اور بہتر سے بہتر انتظامات کے سلسلہ میں برابر تاکید فرماتے رہے،حضرت کے مشورے اور ہدایات کے مطابق امور کی انجام دہی کو یقینی بنانے کے لیے حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش زیدمجدہم کارگزار مہتمم دارالعلوم، حضرت مولانا قاری محمدعثمان صاحب زیدمجدہم نائب مہتمم دارالعلوم ، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی زیدمجدہم نائب مہتمم دارالعلوم نے بھی بطورِخاص توجہ فرمائی، نیز حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم ناظم تعلیمات دارالعلوم وصدر جمعیة علماء ہند اس اجلاس کے کنوینر قرار پائے تھے انھوں نے بھی خصوصی دلچسپی لی۔
مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں،پروگرام اور تجاویز کمیٹی کے کنوینر حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم، تیاری طعام کمیٹی کے کنوینر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم ، لاؤڈ اسپیکر ولائٹ کمیٹی کے کنوینر حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی زیدمجدہم۔ اجناس کمیٹی کے کنوینر حضرت مولانا قمر الدین صاحب زیدمجدہم، کھانا کھلانے والی کمیٹی کے کنوینر جناب مولانا مفتی محمد یوسف صاحب،فراہمی سامان قیام گاہ وپنڈال کمیٹی کے کنوینر جناب مولانا محمدحسیب صدیقی چیئرمین دیوبند، قیام کمیٹی کے کنوینر جناب قاری فخرالدین صاحب، اسٹیج کمیٹی کے کنوینر جناب مولانا خضر محمد کشمیری تھے اور استقبالیہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری اس حقیر راقم السطور کے دوش ناتواں پر رہی۔ تمام کمیٹیوں کے کنوینر حضرات اور ارکان وکارکنان صاحبان نے حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی حسب ِ منشاء بڑی جدوجہد اور لگن کے ساتھ انتظامی امور انجام دیئے اور نظم ونسق کو بہتر بنانے اور کانفرنس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دفتر اہتمام میں منعقد مجلس اساتذہ میں یہ بھی طے پایا تھا کہ کانفرنس کے موضوع کی مناسبت سے درج ذیل رسالے ترتیب دیے جائیں اور انھیں طبع کراکے فائلوں میں مندوبین کو پیش کیا جائے۔
(۱) حضرت مولانا نور عالم صاحب خلیل امینی زیدمجدہم استاذ ادب عربی ورئیس تحریر الداعی نے ”دہشت گردی کا عالمی منظر نامہ“ رسالہ مرتب فرمایا۔
(۲) جناب مولانا مفتی عبداللہ صاحب معروفی زیدمجدہم، استاذ شعبہ تخصص فی الحدیث کے مرتب کردہ رسالہ کا نام تھا ”اسلام میں عہد کی پاس داری اور ہندوستانی مسلمان“۔
(۳) جناب مولانا مفتی زین الاسلام صاحب زیدمجدہم ،نائب مفتی دارالعلوم دیوبند نے ”اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق“ نامی رسالہ مرتب فرمایا ۔
(۴) جناب مولانا محمدسلمان صاحب بجنوری زیدمجدہم استاذ دارالعلوم دیوبند نے رسالہ ”مدارس اسلامیہ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کی حقیقت “ مرتب فرمایا۔
(۵) ناچیز راقم السطور شوکت علی قاسمی بستوی خادم تدریس دارالعلوم دیوبند نے ”اسلام میں حقوق انسانی کی حفاظت “ کے موضوع پر رسالہ تحریر کیا، نیز ”اسلام میں دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے حقوق“ کے عنوان پر ایک ۸/صفحے کا پمفلٹ بھی ناچیز نے مرتب کیا تھا جو اردو میں بھی چھپا اور اس کا بروقت انگریزی ترجمہ جناب مولانا مفتی عبید اللہ صاحب قاسمی مدظلہ استاذ شعبہ انگریزی دارالعلوم اور جناب مولانا محمد اللہ صاحب خلیلی زیدفضلہ شعبہ انٹرنیٹ دارالعلوم نے فرمادیا تھا اس لیے وہ بھی طبع کراکے تقسیم کیاگیا۔
مذکورہ بالا سارے رسالے مرکزی دفتر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند سے بڑی عجلت میں طبع کرائے گئے تاہم بحمدالله معیار طباعت بہتر رہا، خطبہ ٴ صدارت بھی طبع کرالیاگیا تھا، یہ سب رسالے حضرات مندوبین اور شرکاء کانفرنس کو پیش کیے گیے اور بحمدلله بے حد پسند کئے گئے۔ کانفرنس کا اعلامیہ بھی بروقت طبع کراکے تقسیم کیاگیا۔
مجلس استقبالیہ سے متعلقہ امور کی انجام دہی میں تمام ہی حضرات ارکان مجلس استقبالیہ خصوصا جناب مولانا محمدسلمان صاحب بجنوری ، جناب مولانا مفتی عبداللہ صاحب معروفی، جناب مولانا منیرالدین احمد صاحب گڈاوی اساتذئہ دارالعلوم کاگراں قدر تعاون شامل رہا جس کے لیے بندہ سبھی حضرات کا بے حد ممنون ہے۔
کانفرنس کا تاریخی اعلامیہ:
کل ہند کانفرنس کے دعوت نامے میں یہ صراحت کردی گئی تھی کہ موضوع سے متعلق کوئی تجویز ہو تو ضرور پیشگی ارسال فرمائیں، کچھ اہم تجاویز موصول ہوئیں جن کی روشنی میں کانفرنس کے اعلامیہ کا مسودہ تیار کرلیا گیا جس پر تجاویز کمیٹی کے ارکان گرامی حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی،حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری، حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی، حضرت مولانا قاری محمدعثمان صاحب (کنوینر) حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، اور ناچیز شوکت علی قاسمی بستوی پر مشتمل مجلس میں غور و خوض کیاگیا، جزوی ترمیمات کے بعد مسودہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے مجلس عاملہ کے اجلاس منعقدہ ۱۶/صفر ۱۴۲۹ھ -۲۴/فروری ۲۰۰۸ء میں پڑھا گیا۔ کچھ مزید ترمیمات کی گئیں پھر یہ اعلامیہ کانفرنس میں حضرت مولانا محمدابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے پڑھ کر سنایا اور تمام شرکاء کانفرنس نے بلند آواز سے اور ہاتھ اٹھاکر بھی اس کی پرُزور تائید کی۔ اعلامیہ کا مکمل متن پیش ہے۔ اعلامیہ کے علاوہ کانفرنس میں صوبائی اجتماعات سے متعلق بھی تجویز منظور ہوئی وہ بھی پیش ہے۔
$ $ $
اعلامیہ
دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس
اسلام ساری انسانیت کے لیے دین ِ رحمت ہے، وہ دائمی امن وسلامتی اور لازوال سکون واطمینان کا سرچشمہ ہے، اس نے پوری انسانی برادری کو بلاتفریق قوم ومذہب اتنی اہمیت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے،اس کا دامن ِ رحمت سارے عالم انسانیت کو محیط ہے، اسلام نے تمام بنی نوع انسان کے ساتھ اخوت ومساوات، رحم وکرم ، ہمدردی ورواداری، خدمت وخیر خواہی، عدل وانصاف اور پر امن بقائے باہم کی تعلیم دی ہے۔ اسلام ہر قسم کے تشدد اور دہشت گردی کا شدید مخالف ہے، اس نے ظلم وتعدی، زور زبردستی، فتنہ وفساد ، قتل وخوں ریزی،بدامنی وشر انگیزی کو سخت گناہ اور بھیانک جرم قرار دیا ہے۔
رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبندکے زیر اہتمام منعقد ہونے والی، ملت کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں کی یہ دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس ہر قسم کے تشدد اور دہشت پسندی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اس المناک عالمی اور ملکی صورت حال پر گہری فکر وتشویش اورغم وغصے کا اظہار کرتی ہے کہ دنیا کی اکثر حکومتیں مغرب کی ظالم وجابر اور سامراجی حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور ان کو راضی رکھنے کے واحد مقصد سے اپنے شہریوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتی جارہی ہیں جسے کسی بھی دلیل سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا، ہمارے لیے یہ بات اور بھی زیادہ باعث تشویش ہے کہ ہمارے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی بھی ان طاقتوں کے زیر اثر آتی جارہی ہے جن کے ظلم وبربریت اور سرکاری دہشت گردی نے نہ صرف فلسطین،اور عراق وافغانستان بلکہ بوسنیا اور جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک میں بھی معلوم انسانی تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑدیئے۔ جب کہ ہمارا یہ عظیم ملک غیر جانبداری بلکہ اخلاقی وروحانی قدروں کے حوالے سے دنیا میں جانا جاتا رہاہے۔ اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہندوستانی مسلمان، خاص کر دینی مدارس سے تعلق رکھنے والا ہر شخص جو جرائم سے دور اور پاک صاف زندگی کے سلسلے میں عدیم المثال ریکارڈ رکھتا ہے ہر وقت اس دہشت میں مبتلا رہتا ہے کہ انتظامیہ کے ہاتھ اس کے گریبان تک کب پہنچ جائیں اور نہ جانے کتنے لوگ آج جیلوں میں بند، ناحق طرح طرح کی کربناک اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ واقعتا دہشت گردی پھیلانے والے، تھانوں کو لوٹنے والے، برسرعام پولیس افسران کو قتل کرنے والے،آتشیں اسلحوں کی نمائش کرنے والے عناصر آزاد گھوم رہے ہیں ا ور ان کے اس دہشت گردانہ عمل پر بندش لگانے کی کوئی معقول وموٴثر تدبیر اختیار نہیں کی جارہی ہے جس نے حکومت کے سیکولر کردار پر سوالیہ نشان لگادیا ہے،جو بلاشبہ ملک وقوم کے لیے انتہائی خطرناک امر ہے اس لیے یہ کل مسلکی متحدہ دہشت گردی مخالف کانفرنس اس رویہ کی پرُزور مذمت کرتی ہے اور سرکاری اہل کاروں کی اس جانب داری پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتی ہے اور یہ اعلان کرتی ہے کہ ملک میں قانون وانصاف اور سیکولر نظام کی بالادستی باقی رکھنے کے لیے اپنی متحدہ جدوجہد جاری رکھے گی۔
یہ کانفرنس حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ مدارس اسلامیہ اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے والوں کولگام دی جائے، نیز انتظامی مشینری کو پابند کیاجائے کہ ملک کے امن عام کو تباہ کرنے والے کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے پر غیر جانبداری کے ساتھ تحقیقات کی جائیں اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے، نیز کسی خاص فرقے کے لوگوں پر بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے شک وشبہ کا اظہار نہ کیا جائے الغرض سرکاری ایجنسیاں ہر قسم کے تعصب وامتیاز سے بالاتر ہوکر اپنا فرض منصبی ادا کریں تاکہ ملک میں حقیقی امن وسلامتی برقرار رہے۔
دہشت گردی مخالف یہ کل ہند کانفرنس اپنے وطن عزیز کے تمام ارباب دانش، اہل قلم اور میڈیا کے ذمے داران سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ملکی وبین الاقوامی مسائل کا آزادانہ ودیانت دارانہ تجزیہ کریں اور کسی خاص تعصب کا شکار ہوکر مسائل کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش سے گریز کریں۔
اسی کے ساتھ تمام اسلامی مکاتب فکر کے نمائندوں کی یہ دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنی اب تک کی روِش کے مطابق آئندہ بھی اپنا وطن دوستانہ اور انسانیت کے احترام پر مبنی اپنا کردار نمایاں رکھیں، حالات کی سنگینی کا بھرپور ادراک کریں، مکمل بیدار مغزی کا ثبوت دیں تاکہ ان میں سے کسی کو بھی اسلام مخالف یا ملک دشمن طاقتیں اپنا آلہ کار نہ بناسکیں، اپنے ملک سے وفاداری برقرار رکھتے ہوئے عزت وسربلندی کے ساتھ رہیں، اپنی قیادت پر بھرپور اعتماد رکھیں، مدارس اسلامیہ کو اپنی متاعِ عزیز سمجھتے ہوئے ہر حال میں ان کا ساتھ دیں، اورپوری ہمت اور عزم وحوصلے کے ساتھ شریعت وقانون کی مخالفت سے بچتے ہوئے وطن عزیز میں زندگی گذاریں اور یادرکھیں کہ اہل مسئلہ ہمارے ایمان اور اعمال کا ہے ۔
لہٰذا اعمال صالحہ سے آباد زندگی گذارنے کی جانب سب سے زیادہ توجہ مرکوز کریں کیوں کہ حالات کے بننے بگڑنے کا اصل تعلق اعمال کے بننے بگڑنے سے ہے۔
$ $ $
تجویز منظور شدہ: دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس
منعقدہ: ۱۷/صفر۱۴۲۹ھ مطابق ۲۵/فروری ۲۰۰۸/ بروز دوشنبہ
دہشت گردی کے خلاف صوبائی اجتماعات کی ضرورت
دہشت گردی مخالف کل ہند کانفرنس اس جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتی ہے کہ جس طرح دارالعلوم دیوبند نے حالات کے تقاضے کا احساس کرتے ہوئے اس عظیم الشان کانفرنس کا اہتمام کیا ہے اسی طرح اس موضوع پر صوبائی اجتماعات کا انعقاد بھی کیاجائے۔ اس وقت دہشت گردی کے تعلق سے جو صورت ِ حال پورے ملک میں جاری ہے اس کا تقاضہ ہے کہ دہشت گردی کی مخالفت اور مسلمانوں کے ساتھ انتظامی مشینری کے امتیازی رویہ کی مذمت کے لیے مسلسل اور مربوط کوششیں کی جائیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر صوبے کے مرکزی مقام پر اسی نوعیت کی کانفرنسوں کا اہتمام کیا جائے ۔ کانفرنس دارالعلوم دیوبند سے گذارش کرتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔
———————————
دارالعلوم ، شماره : 4 ، جلد : 92 ربیع الثانی 1429ھ مطابق اپریل ۲۰۰۸ء