از: پروفیسر خلیق نظامی
۱۸۵۷/ ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم وجدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیں اورمستقبل کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جور نگ و نسل اور مذہب وملت کے سارے امتیازات سے بالا تر ہوکر ایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی، یہاں پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے۔اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہوجاتاہے۔ پُرانا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں اور نئی سماجی قوتیں صرف فکر و نظر کے سانچے ہی توڑنے پراکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محور بدل دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷/ میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرون وسطیٰ کا سارا تہذیبی سرمایہ بھی نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ و برباد ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں۔
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک! اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
اس سیاسی اور تمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقطئہ ہائے نظر سے ترتیب دی ہے۔ بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیاہے، بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اور کچھ مصنّفین نے اس کو ایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اوراس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلو کو سامنے لاتی ہیں اس لیے جزوی طور پر صحیح لیکن کلی طور پر غلط ہیں۔
دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضع ہوجائے گی کہ اُس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصد اور مطمح ہائے نظر ایک نہیں ہوتے۔ ”فرانس“ میں جب Cahiers ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایات اور مطالبات کا پتہ لگانے کی جستجو کی گئی تو معلوم ہوا کہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو صرف یہ شکایت تھی کہ اُن کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا
ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا
تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کو توڑنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی پُرپیچ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وقتی جذبات اور عارضی مصالح، بنیادی مقاصد اورحقیقی نصب العین کو شکست دیتے ہوئے نظر آئے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک اُن ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اپنے افکار کی پستی اور کردار کی درماندگی کی بنا پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصد و منہاج کا جو نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہوجاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو متعین کرتاہے اور اُسی سے اُس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اورایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حُریت، احوت اورمساوات کی محکم بنیادوں پر قائم ہو، لیکن کیا انقلاب ”فرانس“ کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطئہ نظر ہمیشہ اورہر طبقہ کا رہا ہے؟- مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بارہا ایسے عناصر برسراقتدار آئے جو تحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک کا دھارا Scum white scum red, کو اپنی سطح پر لیے اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔
۱۸۵۷/ میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد بھی کی، لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اور اس کا احساس ”انگلستان“ کے بعض معاصر صحافیوں اور مدبروں کو بھی تھا۔ لارڈ ”سالسبری“ نے ایوان عام میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کارتوسوں کی وجہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”لندن“ کے ایک اخبار نے اسی زمانہ میں لکھا تھا:
”اگر بے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدود ہے اور عام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ہند کیوں بار بار انگریزی فوجیں طلب کرتی ہے اور تار پر تار کیوں کھڑکاتی ہے؟ اگر لوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیر اور کمپنی کے ڈائرکٹر بیان کرتے ہیں تو اُنھیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کرلیں“
انگریز نے اپنا تسلط قائم کرلینے کے بعد جس بہیمیت اور بربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اورہزاروں بے گناہ انسانوں کو محض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیدا ہوگئی۔ ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ رہی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زبان پرلاسکیں۔ انگریز نے تحریک کو ”غدر“ کہا تو وہ خود بھی اُسے ”غدر“ کہنے لگے۔
جوں جوں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے، تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگا اور اُسی کے ساتھ ساتھ زاویہ نگاہ میں تبدیلی بھی پیدا ہونے لگی۔ ”غدر“ سے ”رستخیز بے جا“ ہوا، اور ”رستخیز بے جا“ سے ”ہنگامہ ۱۸۵۷/“ اورآزادی کے بعد ”آزادی کی پہلی جنگ“ یا ”قومی تحریک“۔ گو یہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کے آئینہ دار ہیں،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ معاصرین ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو ”قومی تحریک“ یا ”آزادی کی جدوجہد“ سے تعبیر نہیں کرتے تھے صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصور اس دور میں نہ تھا، لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ”ہندوستان“ کے ایک ہونے کا تصور ”غدر“ سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا۔ ”سیداحمد شہید“ نے ”ہندو راؤ“ کو جو خط لکھا تھا اُس میں ”بیگانوں“ کے ”ہندوستان“ پر قابض ہوجانے کی شکایت تھی! گویا وہ ایک ہی گھر کے آدمی کو مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراک عمل کی دعوت دے رہے تھے۔ رسالہ ”اسباب بغاوت ہند“ میں گو مصلحت وقت نے بعض مقامات پر ”سرسید“ کا قلم پکڑلیاہے لیکن پھر بھی اُنھوں نے تحریک کی نوعیت کو واضح کرنے میں سرمو کوتاہی نہیں کی۔ اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ:
”بہت سی باتیں ایک مدّت دراز سے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہوگیا تھا صرف اس کے شتابے میںآ گ لگانی باقی تھی۔ کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگادی۔“(۱)
اور دوسری طرف یہ کہنا کہ:
”سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اورپائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے․․․ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومتِ ملک میں نہ ہو ․․․ پس یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ”ہندوستان“ کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں۔“(۲)
صاف ظاہرکرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طور پر معترف تھے۔ خود انگریزوں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے جو طریقہٴ کار اختیار کیاتھا اور جس طرح ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اُس سے بھی یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ اس تحریک کو ”قومی تحریک“ سمجھتے تھے۔(۳) اوراسی طرح اُنھوں نے اس کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ ہندوستانیوں نے اس ہنگامے کو جس نگاہ سے دیکھا تھا اوراس میں شرکت کرنے والوں کو قومی تاریخ میں جو درجہ دیا تھا اس کا اندازہ منیر شکوہ آبادی کے اُن اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو اُنھوں نے نوابانِ ”فرخ آباد“ اورمولوی ”محمد باقر“ کی پھانسی کے سلسلے میں کہے ہیں۔ لکھتے ہیں۔
تاریخ اُن کے قتل کی کافی ہے یہ منیر
دونوں شہیدِ راہِ خدا آہ آہ ہائے
——————
خدا کی راہمیں مقتول ہوکے آخر کار
گئے جہان سے وہ سوئے روضہٴ رضواں
کہی منیر نے یہ اُن کی مرگ کی تاریخ
شہید ومتقی و عالمِ علومِ نہاں
محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہٴ داروگیر سے گزرنے والوں کو(۱۲۷۴ھ) ”مجاہدین فی سبیل اللہ“ اور ”شہداءِ راہ خدا“ کا درجہ دیاگیا تھا۔ ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کو سمجھنے کے لیے بس کرتی ہے!
۱۸۵۷/ کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں کے علاوہ ہر مذہب وملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”ہندوستان“ کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ لیکن اس سے تحریک کی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کسی بھی قومی تحریک یا جنگِ آزادی میں تمام علاقوں اور تمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے۔ انقلاب ”فرانس“ کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتاتھا اور اس کی موافقت میں کام کررہا تھا۔ اسی طرح ”امریکہ“ کی جنگِ آزادی میں بہت سے لوگ تاجِ برطانیہ کے مددگار رہے تھے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی۔ اس سلسلہ میں تاریخِ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہو وہاں اس کی کامیابی کے لیے ازبس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷/ میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور برطانوی طریق کار سے سخت بیزاری ضرور نظر آتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدید کا نقشہ نہیں ملتا! یہی نہیں؛ بلکہ اُس وقت جتنی طاقتیں بھی میدان میں سرگرم عمل تھیں اُن میں سے کوئی بھی ایک کُل ہند نظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کو مضمحل کردیا تھا۔ اور ہر فوجی مہم کسی مقصد تک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگامہ آرائی میں ختم ہوجاتی تھی۔ جمہوریت اور خود اختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لیے سیاسی زندگی کی تعمیرِ نو کا سوال بے معنی تھا۔ شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ وریشہ میں پیوست ہوچکا تھا کہ ہر مقام پر لوگ ایک ”بہادر شاہ“، ایک ”نانا صاحب“، ایک ”رانی لکشمی بائی“، ایک ”برجیس قدر“ کی تلاش کرتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پاجائے جو اُن کے مصائب کا علاج اور اُن کے درد کا مداوابن سکے۔ مغل بادشاہ، ”ہندوستان“ کا تو سوال کیا، ”لال قلعہ“ کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔(۴) ”مرہٹوں“ کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہوا خاتمہ ہوچکاتھا۔ ”روہیلوں“ کے چند سردار جو اس وقت مختلف مقامات پر اپنی طاقت کا استحکام کررہے تھے، مقامی طور پرمدافعت اور کاربرآری کی صلاحیت تو رکھتے تھے، لیکن ایک وسیع علاقہ پر حکومت کرنے کے لیے جس دوراندیشی، تدبر اور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دُور دُور کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقیدت کے نازک رشتوں کو بھی توڑنے کے لیے کتنے ہی عناصر کام کررہے تھے۔ ”دہلی“ میں ”بخت خاں“ کو نہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیاگیا کہ ”شیرشاہ“ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ ”لکھنوٴ“ میں ”حضرت محل“ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر ”احمداللہ شاہ“ کی مدد سے اقتدار قائم ہوا تو سنیوں کا غلبہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ”روہیلوں“ کے علاقوں میں ہندو زمینداروں کو ”روہیلہ“ سرداروں سے برگشتہ کیاگیا۔ ”لارنس“ نے سکھوں کو ”بہادر شاہ“ سے بدظن کرکے ”دہلی“ کے ساتھ سکھوں کے اشتراکِ عمل کے امکانات کو ختم کردیا۔ ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اگر ۱۸۵۷/کا ہندوستان اپنی بہترین صلاحیتوں کو یکجا کردیتا تو یقینا غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنائی جاسکتیں!
(۲)
۱۸۵۷/ کی تحریک غیرملکی اقتدارکے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی یہ سمجھ لیناصحیح نہ ہوگا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔(۵) ہندوستانیوں کا ذہن غیرملکی تسلط کے خلاف پورے طور پر تیار ہوچکا تھا۔ یہ سیاسی شعور اور بیداری ”شاہ ولی اللہ“ دہلوی (م ۱۷۶۲/=۱۱۷۶ھ) اور ان کے گھرانے کی پیدا کی ہوئی تھی۔ شاہ صاحب نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اور شہنشاہیت کے خلاف جگہ جگہ آواز اُٹھائی تھی اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں اور امراء و حکام ہی کو متوجہ نہیں کیاتھا، بلکہ عوام کو بھی مخاطب کیا تھا۔ اُن کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلو یہ تھا کہ وہ سیاسی نظام کا انحصار ”عوام“ پر سمجھتے تھے اوران میں یہ احساس پیداکرنا چاہتے تھے کہ اگر وہ تیارہوجائیں تو سارے مصائب کا ا علاج ممکن ہے۔ ان کے جانشینوں نے اُن کی تحریک کو آگے بڑھایا اور ان کے پیدا کیے ہوئے سیاسی شعور کی روشنی میں ملک کی رہبری کی۔ شاہ ”عبدالعزیز“ صاحب (م ۱۸۲۴/= ۱۲۳۹ھ) نے ایک فتویٰ میں کہا تھا:
”دریں شہر حکم امام المسلمین اصلاً جاری نیست و حکمِ روساء نصاریٰ بے دغدغہ جاری ست و مراد از اجراء احکام کفر اینست کہ در مقدمہ ملک داری و بندوبست رعایا و اخذ خراج و باج وعشور اموال تجارت و سیاست قطاع الطریق و سراق و فیصل خصومات و سزائے جنایات کفار بطور حاکم باشند آرے اگر بعضے احکام اسلام را مثل جمعہ، عیدین و اذان وذبح بقر تعرض نہ کنند نہ کردہ باشند، لیکن اصل اصول ایں چیزہا نزد ایشاں ہباء وہدرست زیرا کہ مساجد را بے تکلف ہدم می نمائند وہیچ مسلمان یا ذمی بغیر استیمان ایشاں دریں شہر و نواح نمی تواند آمد وبرائے منفعت خود از واردین مسافرین و تجار مخالفت نمی نمایند اعیان دیگر مثلاً ”شجاح الملک“ و ”ولایتی بیگم“ بغیر حکم ایشاں دریں بلاد داخل نمی توانند شد و ازیں شہر تا ”کلکتہ“ عمل نصاریٰ ممتداست۔ آرے درچیپ وراست مثل ”حیدرآباد“، ”لکھنوٴ“ و ”رامپور“ احکام خود جاری نہ کردہ اند بسبب مصالحت واطاعت مالکان آں“(۶)
”یہاں روساء نصاریٰ کاحکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اور بندوبست رعایا، خراج و باج، مالِ تجارت پر ٹیکس، ڈاکوؤں اور چوروں کو سزائیں، مقدمات کے تصفیے، جرائم کی سزائیں وغیرہ (ان تمام معاملات میں) یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختار مطلق ہیں۔ ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ، عیدین، اذان، ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور بنیاد ہے وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے۔ چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کردیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہوچکی ہے۔ انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اُس کے اطراف وجوانب میں نہیں آسکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص اور ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً ”شجاع الملک“ اور ”ولایتی بیگم“ ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ”دہلی“ سے ”کلکتہ“ تک انہی کی عملداری ہے۔ بیشک کچھ دائیں بائیں مثلاً ”حیدرآباد“ ،”لکھنوٴ“، ”رامپور“ میں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کرلی ہے (براہ راست) نصاریٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے۔
شاہ ”عبدالعزیز“ صاحب نے ”ہندوستان“ کو ”دارالحرب“ قرار دے کر، غیرملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ موثر قدم اُٹھایا تھا(۷)۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ”دارالحرب“ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندان ولی اللّٰہی کے اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہید مولانا اسمٰعیل شہید وغیرہ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا اُس کی بنیاد یہی فتویٰ تھا۔ سیداحمد شہید کی تحریک جس کو مصلحتاً بعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا، حقیقتاً انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی۔ اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پر طاقت کا استحکام ضروری تھا جہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مدد ملے۔ اگر سرحد اورپنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہوجاتے تو ہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے۔ ان کی تحریک کی نوعیت اور اُن کے مقاصدکا اندازہ اس خط سے لگایاجاسکتا ہے جو انھوں نے راجہ ”ہندوراؤ“ کو لکھا تھا:
”بر رائے عالی روشن ومبرہن است کہ بیگانگاں بعید الوطن، ملوک زمین وزمن گردیدہ اند و تاجران متاع فروش بپایہٴ سلطنت رسیدہ، امراے کبار و ریاست رؤسائے عالی مقدار برباد نمودہ اند و عزت و اعتبار شاں بالکل ربودہ چوں اہل ریاست و سیاست در زاویہ خمول نشستہ اند ناچار چندے اہل فقر و مسکنت کمرہمت بستہ ایں جماعتِ ضعفاء محض بنا بر خدمت دین رب العالمین برجستند، ہرگز ہرگز از دنیا داران جاہ نیستند، محض بنا برخدمت درین رب ذوالجلال برخاستہ اند، نہ بنا برطمع مال ومنال رفتے کہ میدان ہندوستاں از بیگانگاں و دشمنان خالی گردیدہ و تیرسعی ایشاں برہدف مراد رسیدہ آئندہ مناصب ریاست و سیاست بطالبین آں مسلم باد۔“(۸)
”جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندرپار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انھوں نے خاک میں ملادیا ہے جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبوراً چند غریب و بے سروسامان کمرہمت باندھ کر کھڑے ہوگئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ یہ اللہ کے بندے ہرگز دنیا دار اور جاہ طلب نہیں ہیں۔ محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھے ہیں، مال و دولت کی اُن کو ذرہ برابر طمع نہیں۔ جس وقت ہندوستان ان غیرملکیوں سے خالی ہوجائے گا اور ہماری کوششیں بارآور ہوگئیں حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو اُن کی طلب ہوگی۔“
سید صاحب کے عزیز ترین مرید اور دست راست مولانا شاہ محمد اسمٰعیل شہید نے اُن کی سیاسی فکر کو ”منصب امامت“ میں اور زیادہ واضح طور پر پیش کیاہے اور بتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے۔ سلاطین و ملوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”استیصال اوعین انتظام ست واہلاک اوعین اسلام و اطاعتِ ہر متسلط از احکام شرعیہ نیست۔“(۹)
”اُن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا، عین انتظام ہے اور اُن کو فنا کردینا عین اسلام ہے۔ ہر صاحب اقتدار کی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے۔“
مسلمانوں کی تنظیمی صلاحیت، عسکری قابلیت، معاملہ فہمی اور تدبر کاجو کچھ بچا کھچا سرمایہ رہ گیا تھا اس کو سید احمد شہید نے بہترین طریقہ پر استعمال کیا۔ وقتی طور پر اُن کو ناکامی ضرور ہوئی لیکن ان کی تحریک نے سرفروشی کاجو جذبہ پیداکردیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب وجگر میں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا۔
جلے، جل کر بجھے بھی چشمِ صورت بیں میں پروانے
فروزاں کرگئے وہ نام لیکن شمعِ سوزاں کا
حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور اُنے رفقاءِ کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا۔ انگریزوں نے اُن کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعت مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے ایک طرف تو ”وہابی“ کا لقب دے کر اس مکتبِ خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کرکے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسامحسوس ہونے لگا گویا اس کا رُخ محض سکھوں کی طرف تھا۔ حد یہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی ”محمدجعفر“ تھانیسری نے تواریخ عجیبہ میں اُن کے مکتوبات کو مسخ کیا اور ”نصاریٰ نکوہیدہ خصال“ کی جگہ ”سکھان نکوہیدہ خصال“ کردیا اور ”کفار فرنگ برہندوستان تسلط یافتہ“ کو ”کفار دراز مویاں کہ برملک پنجاب تسلط یافتہ“ میں تبدیل کردیا۔ مولانا ”غلام رسول مہر“ نے جس کاوش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کو بے نقاب کیا ہے اس کو اس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر علمی تحقیقات میں شمار کرنا چاہیے۔(۱۰)
سید احمد شہید نے بالاکوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلادیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہوگیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا۔ ہزاروں انسانوں کے دل میںآ زادی کی لگن پیدا ہوگئی۔ حد یہ ہے کہ وہ شاعر جن کی ساری عمر عشقیہ شعر و شاعری میں گزری تھی بے اختیار پکار اُٹھے:۔
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار پہ تیرے کرم کا ہوں اُمیدوار
تو اپنی عنایت سے توفیق دے عروجِ شہید اور صدیق دے
مومن(۱۱) کو شہادت کی یہ تمنا اس لیے تھی کہ۔
ایں عیسویاں بہ لب رساندند جان من و جان آفرینش
مگزار کہ پائمال گردیم زاں سیم سراں آفرینش
تا چند بہ خواب ناز باشی فارغ زفغاں آفرینش
مومن شدہ ہم زبان عرفی از بہر امان آفرینش
برخیز کہ شور کفر برخاست
اے فتنہ نشان آفرینش
سید صاحب کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اُس کے مظاہرے اُن کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سرسیداحمد خاں نے لکھا تھا:
”اس واقعہ (یعنی شہادت) کو چودہ پندرہ برس گزرتے ہیں اور یہ طریقہ آخرالزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت کا ہے اب تک اس سنت کی پیروی عباداللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اورہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اوراس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو پہنچتا رہتا ہے۔“(۱۲)
سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیداہوگیا تھا کہ ”اللہ تعالیٰ“ نے ان کو موجودہ کمزور نسلوں سے اُٹھالیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہوکر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہوکر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے۔“(۱۳) چنانچہ ۱۸۵۷/ کی تحریک میں عملاً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار ونظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔(۱۴) بخت خاں کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں اُن کو ”وہابی العقیدہ“ بتایاگیا تھا۔(۱۵) کوئی شخص بھی جس نے ”ہنٹر“ کی کتاب ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں ”سید صاحب“ اور اُن کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتاتھا۔ اور بقول ہنٹر ”وہابی“ اور ”غدار“ ہم معنی الفاظ تھے۔(۱۶) ”بخت خان“ نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے، اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے۔ جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو (۱۰۰) علماء ان کے ہمراہ تھے۔(۱۷) دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے اُن کے پاس آئی تھی۔ اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور ”آگرہ“(۱۸) سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر اُن کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ ان علماء پر بخت خاں کو اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے اُن کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو شریک کرلیا جاتا تھا۔(۱۹) مولوی ”ذکاء اللہ دہلوی“ کا بیان ہے کہ ”دہلی“ میں جہاد کے فتوے کو جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا وہ ”بخت خاں“ کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔(۳)
مولانا لیاقت علی الہ آبادی(۲۰) بھی اسی مکتب خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں۔ اُن کے شائع کیے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے۔ ایک ایک حرف سید صاحب کے انداز فکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہادیہ نظم میں سے نقل کیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدان جنگ میں پڑھا کرتے تھے(۲۱)۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے ”مردان“ میں رجمنٹ(۵۵) نے بغاوت کی تھی۔ سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سرگرم کارکن تھے۔(۲۲)
مولانا عبدالجلیل شہید علی گڈھی جنھوں نے ”علی گڑھ“ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا، ”سید صاحب“ کے خلفاء میں سے تھے۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا اُن کے مکتب خیال سے تعلق رکھتے تھے۔ اور غالباً اسی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا۔ ہرچند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بڑی سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ اس کے دو سبب تھے۔ اوّل تو یہ کہ ”بالاکوٹ“ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کردیا تھا۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ اُن کی قیادت پر غالباً متفق نہیں ہوسکتے تھے۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتب خیال کے لوگوں نے بہت نمایاں حصہ لیا اور غیرملکی تسلط کے خلاف جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے۔
(۳)
دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے۔ عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کرسکتا تھا، ساری فضا میں طوفان برپا کردیا ہے۔ فرانس اورامریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی، لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آگئے اور ساری فضا پر چھاگئے۔ یہی صورت ۱۸۵۷/ میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کردیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔
بعض مصنّفین نے ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ”کریک روفٹ ولسن“ (Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاونیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی، لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا، اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہرجگہ موجود تھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔
بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیرضروری اہمیت دی ہے اوراس کو اسباب بغاوت میں شمار کیا ہے۔ تھورن ہل (Thornhill) کے اس بیان نے کہ ”ویلور“ کی بغاوت سے قبل بھی ”مدراس“ میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں۔(۲۳) اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے، لیکن ۱۸۵۷/ کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہوسکا۔ حکیم ”احسن اللہ“ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑگئے تھے اور کوئی اُن کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۔(۲۴)
پھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرلیا تھا۔ یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پرچسپاں کیاگیا تھا۔ اس کے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے۔ مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے لیکن یہ ثابت نہ ہوسکا۔ ”مکندلال“ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا ”سلیمان شکوہ“ کے پوتے ”مرزا حیدر“ وغیرہ ”لکھنوٴ“ سے آئے تھے اوراُنھوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔ بعض مورخوں نے ”ایران“ میں برطانوی سفیر ”مرے“ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس نے ایک ایرانی عہدہ دار کا بیان نقل کیاہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ”ایران“ سے خطوط بھیجے گئے تھے۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔
۱۸۵۷/ کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی، نہ اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی۔ یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہورہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریزوں کے غیرمنصفانہ برتاؤ سے عاجز ہوچکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ۱۸۰۶/ سے جب ”سرجارج بارلو“ (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پر اعتراض کیے تھے، متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہورہا تھا۔ جس سے اُن کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا۔ ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ اُن کے جذبات کو سمجھا نہ اُن کا احترام کیا۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندوسپاہی نہ اشنان کرسکتے تھے نہ اُنھیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ملتا تھا۔(۲۵) علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے، اُن کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیاگیابلکہ اُن کے خلاف عمل کیاگیا۔ اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی۔(۲۶) پھر ہندوستانی اورانگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اوراس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کردیاتھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے۔
ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰۔ اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۵۶۶۸۱۱۰ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ اس صورت میں جبکہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی۔(۲۷) ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ اور سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ میں سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے۔(۲۸) ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔
علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جو حربے اور طریقے اختیار کیے تھے اُن سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔(۲۹) بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا، وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں، بازاروں میں، شفاخانوں میں، جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا، تبلیغ کرنے لگتے تھے۔ ان کے طریقہٴ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت اُن کو حاصل تھی۔ بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے۔ اور یہ پادری ”غیرمذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی سے اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سُننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی۔“(۳۰) گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی۔ جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ سرسید احمد خاں نے لکھا ہے:
”۱۸۳۷/ کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی و شمالی میں ارادئہ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ”ہندوستان“ کو اس طرح پرمفلس اور محتاج کرکراپنے مذہب میں لے آئیں گے، میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ”ہندوستان“ کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا۔“(۳۱)
بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کرلینے والوں کی مدد کی جائے۔ مثلاً ۱۸۵۰ھ کے Act XXI کے مطابق مذہب تبدیل کردینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا۔ ان حالات میں جب پادری ”ای ایڈ منڈ“ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ”اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی، تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہوگئی، مذہب بھی ایک چاہیے، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ۔“ تو ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔
پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں، اوراُن کو ختم کرکے انگریزوں نے حقیقتاً ایک ایسے نظام پر ضربِ کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہوچکی تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محلات شاہی کے ساتھ ہزاروں خانداں پرورش پاتے تھے۔ اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی تھی۔ جب ان ریاستوں کا الحاق ہوا تو ہزاروں متعلقین بے سہارا رہ گئے۔ اودھ کے الحاق کے بعدانگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ”ٹریولیان“ کا بیان ہے کہ ”سقّوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا، آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہوگئیں، باورچی اور ہرکارے ’آقاؤں‘ سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے۔“
اقتصادی بدحالی اور ابتری نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا۔ مصحفی (م۱۲۴۰ھ = ۱۸۲۴/) نے مدتوں پہلے کہا تھا۔
ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر(۳۲) کھینچ لی
اس دور کے ”شہر آشوب“ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر اقتصادی زبوں حالی کا ذمہ دار انگریز کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ شاہ کمال الدین کمال انگریز کی پیدا کی ہوئی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہی یہ شہر ہے اور ہے وہی یہ ہندستاں کہ جسکو رشکِ جناں جانتے ہیں سب انساں
فرنگیوں کی سو کثرت سے ہوکے سب ویراں نظر پڑے ہے بس اب صورت فرنگستاں
نہیں سوار رہے یاں سوائے ترک سوار
جہاں کہ نوبت و شہنائی جھانجھ کی تھی صدا فرنگیوں کا ہے اس جاپہ ٹم ٹم اب بجتا
اسی سے سمجھو رہا سلطنت میں کیا رتبہ ہو جبکہ محل سراؤں میں گوروں کا پہرا
نہ شاہ ہے نہ وزیر، اب فرنگی ہیں مختار
سرسید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار اور محتاج ہوچکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہوجاتے تھے۔ ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزارہا ہندوستانی بے روزگار ہوگئے، دوسری طرف ہندوستان کی صنعتوں کو تباہ و برباد کرکے صنعتی طبقہ کو پریشان اور بدحال کردیا گیا۔ انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوستان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیاگیا۔ سرسید نے لکھا ہے:
”اہل حرفہ کا روزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا۔ ”جولاہوں“ کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔(۳۳)
(۴)
۱۸۵۷/ کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری، محتلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اورمختلف عناصر مختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند۔ روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب، ناہرسنگھ، حضرت محل، نواب علی بہادر، نواب تفضل حسین، خان بہادر خاں، نواب محمود خاں وغیرہم وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم، مقصد کی سچائی اور مسلسل جدوجہد سے تحریک میں جان پیداہوئی۔ بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقینا بدرجہا بہتر تھے۔ صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے، لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تاتیاٹوپی، عظیم اللہ خاں، بخت خاں، وزیر خاں وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ اُن میں جوشِ عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں۔ حالات نے جہاں تک مساعدت کی اُنھوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیرملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ مسلمان علماء ومشایخ جن میں مولانا احمداللہ شاہ، حاجی امداد اللہ، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمدگنگوہی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا لیاقت علی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالقادر لدھیانوی وغیرہم شامل تھے۔ اپنے خلوص اور سرفروشانہ جذبات میں یقینا بے مثال تھے۔ ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اُن میں حب الوطنی کا جذبہ، غیرملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید ردّعمل کام کررہاتھا۔ اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا، اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق ہا جاتا ہے کہ:
”ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندواورمسلمان جمع ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔ ان کی ہر دل عزیزی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) اُنھیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔“(۳۴)
ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ تحریک میں اُن کی شرکت کی نوعیت واضح ہوجائے۔
سب سے پہلے بہادر شاہ، شاہی خاندان اور قلعہ معلی کے حالات پر نظر ڈالیے۔ یوں تو مدت سے ”سلطنت شاہ عالم، از دہلی تا پالم“ کا نقشہ تھا اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ”لعب صبیان“ بن چکی تھی، لیکن ۱۸۰۴/ میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوگئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیونکہ اس کے نام کے سہارے اپنا اقتدار قائم کرنے میں مدد ملتی تھی۔(۳۵) لیکن بہرنوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیارات کا دائرہ اتنا محدود کردیا جائے کہ وہ لاشے محض ہوجائے۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷/ میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۸۵۷/ میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی۔ نامساعد حالات، پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنادیا تھا۔ ممکن ہے کہ سرسید نے اس کی نااہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہو کہ
”دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اگراس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا، دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اُڑجاتا ہوں اور لوگوں کی اورملکوں کی خبر لے آتا ہوں اوراس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے، ایسے مالی خولیا والے آدمی․․․“
لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بابر اوراکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی، تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی، وہ اس میں نام کو نہ تھا۔ جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشرووں سے بہتر تھا۔ لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں۔ مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا۔ حالانکہ سرسید نے لکھاہے کہ ”دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اوراُن کے تابعین کا ایساتھا کہ وہ مذہب کی رو سے معزول بادشاہ دلی کو بہت بُرا اور بدعتی سمجھتے تھے۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض و دخل اوراہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں۔“(۳۶)
بہادر شاہ کی زندگی جن حالات میں گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیرہ سے لگایا جاسکتا ہے۔(۳۷) بادشاہ کو ایک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانیاں رہتی تھیں اور ساہوکاروں اورامرا سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا۔ میر حامد علی خاں، حافظ محمد داؤد خاں، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔(۳۸) اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں کا بھی ذکر ہے اس طرح بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ نواب حامد علی خاں نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تا اور بہادر شاہ کو اُنہیں بلاکر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑاتھا۔(۳۹) ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثر قلعہ معلی کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں۔ نواب حامد علی خاں کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیاگیا تھا کہ وہ دس ہزار روپیہ نذرانہ کے طورپر پیش کریں۔(۴۰) ۲۶/جون ۱۸۴۶/ کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے:
”سالگ رام ․․․․ کی عرضی نظرِ فیض انور سے گزری․․․ اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدئہ نظارت پر مقرر کردیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے ادا کردیں گے تواس کے بعد دیکھا جائے گا۔(۴۱)
۳۱/جولائی کو آغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے:
”تمہیں عہدئہ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جاسکتا ہے جب کہ سات ہزارو روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو“(۴۲)
جب قلعہ معلی میں ”نذرانوں“ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہونگے وہاں بدنظمی، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہوگا!
بہادر شاہ کی کثیراولاد تھی۔ اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے۔(۴۳) سلاطین کی کثیر تعداد(۴۴) قلعہ میں بھوکی مرتی تھی۔(۴۵) ان کی زبوں حالی کی دردناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں اُن کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں۔(۴۶) جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھا کہ ”اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو اوقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت کرلینی چاہیے“(۴۷) مجبور ہوکر وہ قرض لیتے تھے اوربعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے۔(۴۸) بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کرسکتے تھے۔ اُن کو آسانی سے خریدا جاسکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہوجاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسے ننگِ ملک و ننگِ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کواُمید ہوسکتی ہے! بخت خاں کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اورمسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبداللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہٴ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہوگیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ کو لوٹے گا تو میں اس کی ناک کٹوادوں گا۔
۱۸۵۷/ کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انھوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے ہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس نے ۱۸۵۷/ کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا، کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے ساز باز کا شبہ تھا۔ شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلارہے تھے۔ اوران کے سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی۔ مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے، وہ ان کے حسرتناک انجام اور ہڈسن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے، ورنہ تحریک کے دوران میں اُن کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا۔ مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے تو وہ فیروز شاہ ہے۔ جس کی سرگرمی، جوش عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جاسکتی تھیں۔
جہاں تک امراء کا تعلق ہے، ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کرسکتے تھے۔ اُن و نہ ملک سے محبت تھی، نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ سرسید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ ”اُس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے“(۴۹) حکیم احسن اللہ خاں، نواب احمد قلی خاں وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا اُن پر شبہ تھا۔ جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرمناک سازشوں میں مبتلا تھے۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہی کے ذریعہ پہنچتی تھیں۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی؛ لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے۔(۵۰) لیکن جب بھی بہادرشاہ یا بخت حاں وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے اُن سے روپیہ قرض طلب کیا تو اُنھوں نے نہ صرف اپنی بے زری کا اظہار کیابلکہ لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ نواب فخرالدولہ امین الدین خاں بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا اُس کی تفصیل عبداللطیف نے دی ہے۔ اس وقت امراء میں گواٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہرشخص حصولِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بناہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل و تشہیر کو اپنا فرض سمجھتا تھا۔
اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عناصر جنھوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنھوں نے دہلی کی مسموم فضا میں پرورش نہیں پائی تھی اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے۔ بخت خاں روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ اگرمغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کرجاتے، یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کرلیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔
والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں کی قیادت کی۔ اس کی حیریت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگادیے اور وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے۔ اودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگادی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رُخ کیا۔
روہیلہ سرداروں میں خان بہادر خاں اور نواب محمود خاں نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا۔ ۱۸۵۷/ میں خان بہادر خاں کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے بریلی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا۔ محمود خاں نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا، اور بجنور، دھام پور، نگینہ اورآدم پور پر قبضہ کرلیا۔ بہادر شاہ نے اُن کو امیرالدولہ، ضیاء الملک مظفرجنگ کے خطابات دیے تھے۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا، اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی اور موخرالذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی، لیکن ابھی انڈیمان کو روانہ نہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہوگئے۔
دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں: جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاٹودی اور لوہارو۔ ان ریاستوں نے اپنے حالات اورمصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کرلیے۔ نواب عبدالرحمن خاں والیِ جھجر اور اسکے خُسر عبد الصمد خاں نے کافی سرگرمی دکھائی۔ عبدالصمد خاں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا۔ راجہ ناہرسنگھ والیِ بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی۔ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کرلیں اوران کے والیوں کو پھانسی کی سزا دی ۔ غالب ایک خط میں علاؤ الدین احمدخاں علائی کو لکھتے ہیں:
”قصّہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم و بیش تیس لاکھ روپئے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنرمند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔“
(۵)
۱۸۵۷/ کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو اورمسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندومسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا۔ محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہادر شاہ کی طرف اُٹھ گئی تھیں۔ تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہادر شاہ کی ذاتی نااہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اورایک نشانی کی تھی۔ وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مدمقابل آگئی تھیں، بہادر شاہ کے گرد جمع ہوگئیں۔مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے برسرپیکار تھے، لیکن ۱۸۵۷/ میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقاً کوئی عذر نہیں کیا۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خاں رہا۔ رانی جھانسی نے مسلمان توپچی ملازم رکھے۔ احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی، پولیس کا کام ہندوؤں کے سپرد کیا اورانھوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔
ہندوؤں اورمسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پیداہوگئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اوراتحاد میں۔ غیرمتحد ہندوستان تو ریتے کی دیوار کی طرح گرایاجاسکتا تھا، لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا۔ چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمت عملی کی ساری عمارت اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ”لڑاؤ اورحکومت کرو“ ہنگامہ کے دوران میں بقرعید آئی(۵۱) اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اورمسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلائے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددی جو بڑے نیک دل، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے، اس سازش سے غیرمحسوس طریقہ پر متاثر ہوگئے بہادر شاہ نے جب اُن کو مفتی صدرالدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تو فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہوگئے۔ بریلی میں خان بہادر خاں اور وہاں کے ہندو زمینداروں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدابیر اختیار کی گئی لین کامیاب نہ ہوسکی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے:
”من جانب جارج کوپر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ بخدمت جی ایف
ایڈمنسٹن صاحب سیکرٹری حکومت ہند
لکھنوٴ، یکم دسمبر ۱۸۵۷/
جناب عالی!
بہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر بنام گورنرجنرل بہادر مورخہ ۱۴/ستمبر جس میں انھوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم بریلی کی ہندو آبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادئہ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے۔ مجھے کپتان گوں کے خط مورخہ ۱۴/ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کو یہ علم ہوگا کہ یہ کوشش ناکام رہی اوراس کو ترک کردیاگیا اوراس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی۔
آپ کا خادم
جارج کوپر
سیکرٹری چیف کمشنر۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷/
پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بدظن کرنے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کرایاگیا ہے کہ جو شخص بھی ایک سکھ کا سرکاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ عبداللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آکر ملا اور اس بات کی شکایت کی۔ بہادر شاہ نے جواب دیا۔
”از ما جز مہربانی نیاید ونظر عاطفت براہل ہر کیش باید“
۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اورمسلمانوں کے تعلقات خراب کرانے کے لیے منظم کوششیں شروع کردیں۔ اور سیاست، سماج، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلایاگیاہو۔ سرہنری ایلیٹ نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتّر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماخذ رہی ہیں) حکومت کو لکھا کہ اگراس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کردی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑجائیں گی۔ چنانچہ ہندومسلم اختلافات کو تاحد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کردی گئی۔
$ $ $
حواشی:
(۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۳۔
(۲) ایضاً،ص:۱۱-۱۲۔
(۳) ملاحظہ ہو: Topics for Indian statesemn Bruce Norton جس میں اس پہلو پر کافی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
(۴) احسن الاخبار،ص:۹۵-۹۶۔
(۵) تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو Civel Disturbances during the british Rule in India (1765-1857) S.B. Chaudiri
(۶) فتاویٰ عزیزیہ، ج:۱، ص:۱۷۔
(۷) شاہ صاحب کے تدبر اور بصیرت کی اس سے زیادہ روشن اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر ایک طرف انھوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا تو دوسری طرف انگریزی تعلیم کی موافقت میں رائے ظاہر کی۔ ملاحظہ ہو رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۲۰۔
(۸) ”مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیانقصان پہنچا“ مولانا ابوالحسن علی ندوی،ص:۲۷۳-۲۷۴۔ جماعت مجاہدین، مولانا مہر (جلد۳،ص:۱۳-۱۴)
(۹) منصب امامت ص:۹۸۔
(۱۰) سید احمد شہید جلد اول ص:۲۵۰-۲۶۱۔
(۱۱) حکیم مومن خاں مومن سید صاحب کے مرید تھے اور ان کے دامن تربیت سے وابستہ تھے۔ لوگوں کو تحریک میں شرکت کی دعوت اس طرح دیتے ہیں۔#
جو داخل سپاہِ خدا میں ہوا
فدا جی سے راہ خدا میں ہوا
حبیب حبیب خداوند ہے
خداوند اس سے رضامند ہے
امام زمانہ کی یاری کرو
خدا کے لیے جاں نثاری کرو
(۱۲) آثار الصنادید،ص:۱۰۳ (پہلا ایڈیشن)
(۱۳) ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص:۷۱۔
(۱۴) پروفیسر موجم دار کی یہ رائے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک میں ”وہابیوں“ نے حصہ نہیں لیا تھا قطعاً غلط ہے۔ (The Sepay Mutiny p.37) تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ”وہابی“ اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ محض یہ بات کہ انگریزوں نے اپنا تسلط قائم ہوجانے کے بعد ”وہابیوں“ کو سخت سزائیں دی تھیں اور اس مکتب خیال کے لوگوں کو پسپا کیا تھا، تحریک میں ان کا حصہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
(۱۵) The Trial of Bahadur Shah II p.282.
(۱۶) ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۱۰۸۔
(۱۷) ۱۸۵۷/ کے ہیرو ص:۷۳۔
(۱۸) The Trial of Bahadur Shah II P. 282
(۱۹) ۱۸۵۷/ کے ہیرو، ص:۸۱۔
(۲۰) یہی رائے حکیم احسن اللہ خاں کی تھی۔ ملاحظہ ہو The Trial of Bahadur Shah II P. 282
(۲۱) مختصرحالات کے لیے ملاحظہ ہو، غدر کے چند علماء ص:۱۲۸-۱۳۱؛ ۱۸۵۷/ کے مجاہد ص:۱۳۸-۱۴۴۔
(۲۲) سید احمد شہید جلددوم،ص:۲۵۸-۲۶۰۔
(۲۳) سیداحمد شہید جلد چہارم ص:۲۹۱-۲۹۵۔
(۲۴) The Personal Adventures and Experiences of a Magistrate during the Rise, progress and suppression of the Indian Mutiny P.P. 2-3
(۲۵) سرسیداحمد خاں بھی اس کا اصلی سبب متعین نہ کرسکے تھے، لیکن اُنھوں نے لکھا تھا۔ کہ ”اس زمانہ میں تمام ہندوستان میں وبا کی بیماری تھی اور خیال میں آتا ہے کہ اُس کے دفع کرنے کو بطور ٹوٹکہ یہ کام ہوا ہو کیونکہ جاہل ہندوستانی اس قسم کے ٹوٹکے بہت کیا کرتے ہیں۔ (رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۳)
(۲۶) ۱۸۵۷/ ڈاکٹرسین ص:۶۔
(۲۷) The Mutiny in the Bengal Army P.4
(۲۸) The Mutiny in the Bengal Army P.4
(۲۹) Eighteen fifty seven p 25
(۳۰) سرہنری لارنس کے سوانح نگار نے اس کا ایک حظ نقل کیا ہے جس میں کینگ کو لکھا ہے کہ ایک معمولی فوجی نے گفتگو میں اس سے کہا کہ دس سال سے حکومت برطانیہ جبریہ طریقہ پر اور دھوکہ بازی کے ساتھ تمام ہندوستانیوں کا مذہب تبدیل کرانے کی جدوجہد کررہی ہے۔Edwardes and Merivale II P.322-323
(۳۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند، ص:۱۸۔
(۳۲) ایضاً، ص:۱۶-۱۷۔
(۳۳) سرسید کی اس عبارت کو ”بہ تدبیر“ کی تشریح سمجھنا چاہیے: ”رعایائے ہندوستان ہماری گورنمنٹ کو میٹھے زہر اور شہد کی چھری اور ٹھنڈی آنچ کی مثال دیا کرتی تھی اور پھر اس کو اپنے دل میں سچ سمجھتی تھی اور یہ جانتی تھی کہ اگر ہم آج گورنمنٹ کے ہاتھ سے بچے ہوئے ہیں توکل نہیں اورکل ہیں تو پرسوں نہیں۔“ رسالہ اسباب بغاوت ہند ص۱۴۔
(۳۴) رسالہ اسباب بغاوت ہند۔ص:۳۶۔
(۳۵) مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۸۰۔
(۳۶) سرسید کا خیال تھا کہ : ”بلاشبہ جو ہیئت بادشاہ دلی کی سرکار نے بنارکھی تھی وہ ہمیشہ نامناسب اور قابل اعتراض کے تھی اور جناب لارڈ الن برا صاحب بہادر نے جو تجویز کی تھی وہ بیشک لائق منظوری کے تھی بلکہ اس سے زیادہ عمل درآمد کرنا واجب تھا، بیشک دلی کا بادشاہ بھوبل میں کی ایک چنگاری تھا جس نے ہوا کے زور سے اُڑکر تمام ہندوستان کو جلادیا۔“ رسالہ اسباب بغاوت ہند ص:۱۱
(۳۷) رسالہ اسباب بغاوت ہند ص:۹۔
(۳۸) Twilight of the Mughals P. 73
(۳۹) احسن الاخبار ص:۱۲۲۔ ستر سال سے زیادہ کی عمر میں شادیوں کا سلسلہ جاری تھا۔
(۴۰) احسن الاخبار، ص:۷۸ و ۷۹، ۱۰۷، ۱۲۳، ۱۳۹، ۱۶۰۔
(۴۱) ایضاً ،ص:۹۴-۹۵۔
(۴۲) ایضاً، ص:۱۱۱۔
(۴۳) ایضاً، ص:۷۸۔
(۴۴) ایضاً،ص:۸۷۔
(۴۵) احسن الاخبار میں اُن کی ہنگامہ آرائی کے متعدد واقعات درج ہیں۔ ایک مرتبہ بہادر شاہ نے تنبیہ کا ایک فرمان بھی اُن کے نام جاری کیا تھا۔ لیکن اُن کی حالت قطعاً ناقابل اصلاح تھی۔ ان کی ہمتیں یہاں تک بڑھ گئی تھیں کہ ”حضور کو اطلاع دی گئی کہ بعض سلاطین کا ارادہ ہے کہ جس وقت روپیہ خزانہٴ انگریزی سے خزانہ شاہی میںآ ئے تو جبراً روپیہ پر قبضہ کرلیں۔ حضور انور نے یہ خبر سنی تو صاحب کلاں بہادر کے نام شقہ جاری فرمایا کہ روپیہ قلعہ میں نہ بھیجا جائے بلکہ ہاتھی سواروں کا ایک دستہ خزانہ کے ساتھ متعین کرکے قطب صاحب کے متصل جو حویلی ہے وہاں روانہ کردیا جائے (ص:۹۵-۹۶)
(۴۶) خود بہادر شاہ نے ۱۸۴۸/ میں ان کی تعداد ۲۱۰۴ بتائی تھی۔ ملاحظہ ہو۔
Punjab Governament Records, vol I (Delhi Residency and Agency) P. 431.
(۴۷) سرسید احمد خاں نے اکبر شاہ ثانی کے عہد کا حال لکھا ہے: ”شاہزادوں کو جو قلعے کے نومحلے میں رہتے تھے ماہواری روپیہ نہیں ملتا تھا اور چھتوں پر چڑھ کر چلاتے تھے کہ بھوکے مرتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں۔“ سیرت فریدیہ۔ ص:۲۳-۲۴۔
(۴۸) Twilight of the Mugals PP. 62-66.
(۴۹) اردو ترجمہ احسن الاخبار ص:۱۰۔
(۵۰) ۸/مئی ۱۸۴۸/ کے احسن الاخبار کی خبر ہے: ”آغا حیدر ناظر کے نام ایک شقہ جاری کیاگیا کہ سلاطین کو سمجھادیا جائے کہ قرض لینے سے ہاتھ روکیں۔ کیونکہ جب قرض خواہ عدالت انگریزی میں دعویٰ کرتے ہیں اور تمہیں کچہری میں گھسٹنا پڑتا ہے تو خاندان تیموریہ کی بدنامی ہوتی ہے“ (ص:۶۶) لیکن جب بادشاہ خود اس مرض میں مبتلا تھے تو شہزادوں پر ان نصیحتوں کا کیا اثر ہوسکتا تھا!
(۵۱) رسالہ اسباب بغاوت ہند،ص:۱۰۔
(۵۲) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ iege of Delhi, C.G. Griffths S
(۵۳) انگریز عید کے موقع پر کس طرح ہندومسلم فساد کے متمنی تھے ۔ دیکھئے:
Delhi 1857, its Siege Assault and Capturs, Col. K. Yoang PP. 152,158,160.
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 91 ، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء