از: سہیل اختر اڑیسہ، متعلّم دارالعلوم دیوبند
حرف آغاز
نظم وضبط بالفاظ دیگر کسی ادارے سے حسن انتظام اور ذمہ داری کے ساتھ منسلک رہنا اور کامیاب قرار دیا جانا ایک عمیق مبحث ہے۔ منتظم اور ادارہ، ان دونوں میں جتنی ہم آہنگی، تال میل اور موافقت ہوگی اتنا ہی وہ ادارہ نکھرتا ہے اور منتظم کو ایک کامیاب اور منجھا ہوا انتظام کار سمجھا جاتا ہے، حسن نظام کا حامل ادارہ اور حسن انتظام کی حامل شخصیت اس دنیا میں نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہے اورجو لوگ کمیاب کی فہرست میں داخل ہیں وہ اب تاریخی اعتبار سے ہمارا ماضی اور کردار کے اعتبار سے ہمارا مستقبل بن چکے ہیں، جن کی مشغولیت، علمی و انتظامی مصروفیت اور ادارہ یا تنظیم میں ان کی دلچسپیاں ہر مسلمان منتظم کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، انہیں کمیاب لوگوں میں ایک نادر نمونہ ”حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم سادس دارالعلوم دیوبند“ ہیں جن کے بارے میں یہی کہا جاسکتاہے کہ دارالعلوم جیسے مقدس ادارے نے ان کی علمی، فکری اور نظریاتی اصلاح کی اور حضرت موصوف نے سنور کر دارالعلوم دیوبند کو نکھارا، ان کی کوششیں اس میدان میں بہت ہی نمایاں ہیں، سوانح نگاروں کے تحقیقی تجزیات کے مطابق حضرت ممدوح کی شہرت، اہمیت اور عظمت کا راز دارالعلوم سے ان کی نسبت، حسن نظم و ضبط اور ذمہ داری و مسئولیت کا حقیقی شعور ہے، یہ تو ایک مخصوص پہلو ہے جو ان کے انتظامی کارکردگیوں کو چار چاند لگاتا ہے لیکن ہمیں اس مقالے میں اس اعلی منتظم، فکرمند مہتمم اور قابل و ماہر ذمہ دار کے انتظامی کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے ان اہم اہم پہلوؤں کو اُجاگر کرنا ہے جو ان کی شخصی انفرادیت و عظمت کو مزید دوبالا کرتی ہے ہم نے اس مقالے میں ایسا تجزیاتی طریقہٴ کار اختیار کیاہے جس سے ان کی زندگی کے سارے نشیب و فراز واضح ہوسکیں، خانگی مسائل، انتظامی عرق ریزیاں، علمی و ادبی کارکردگیاں اور تدریسی و تدریبی مشاغل سب واضح طور پر نمایاں ہوسکیں۔ ان کے اسلوب زندگی، طرز معاشرت اور فکری و نظریاتی منہج کی تشریح ہوسکے، ان کی زندگی کے اہم وقوعوں، حادثات اور زندگی سے متعلق کوائف کااحاطہ کیا جاسکے، مدرسہ عربیہ اسلامیہ دیوبند سے منسلک ہونے کا پس منظر اور کارکردگیوں کا پیش منظر ظاہر ہوسکے۔ ان لافانی نقوش کو جو دارالعلوم کی تاریخ کے روشن باب سمجھے جاتے ہیں اسے مشعل راہ بنایا جاسکے اور انہیں ان کی خدمات کے عوض خراج عقیدت پیش کیا جاسکے؛ لیکن ایک تلخ اور زمینی سچائی یہ بھی ہے کہ ان کے تصنیفی و تالیفی کارناموں، ان کی اعلیٰ شخصیت، بلند حیثیت اور علمی وقعت، ان کی انتظامی قوت ومتانت اورانقلابی صلاحیت اور ان کے جذبات و عزائم، علمی کمالات، تدریسی حالات انتظامی کوائف اور خانگی واقعات پر بسیط و مفصل قلم کاری، مواد کی عدم دستیابی اور واقعاتی دستاویزوں کی کم حصولیابی کی بناء پر انتہائی کٹھن اور دشوار گذار کام ہے۔
مقدمہ
حضرت مرحوم کی انفرادی، خانگی، عائلی، تنظیمی، روحانی اور اجتماعی زندگی کی تفصیلات اور ان کے کارناموں کے حوصلہ افزا نتائج کے خدوخال کسی بھی سوانح میں پورے شرح وبسط کے ساتھ نہیں لکھے گئے جو ایک المیہ ہے اور اس تاریخ ساز انسان کے ساتھ نا انصافی بھی عین ممکن ہے کہ ان کی سوانح نگاری سے بے اعتنائی کی کلیدی وجہ ان کے عہد اہتمام میں ہوئے شورش اور ہنگامہ ہو جن کی تباہ کاریوں میں ان کے کارنامے مستور ہوکر رہ گئے ہوں اور وہ سارے تعارض شذرات جس کے ذریعے ان کے ایام طفولیت کے حالات، عہد نوخیزی کے واقعات اور بہت سارے وہ خانگی لوازمات جوکسی شخصیت کی سوانح نگاری کے لئے لابدی ہوتے ہیں، کی طرف کسی کا تصور نہیں گذرا ہو۔ ان تمام باتوں کے باوجود اکابرین کی سوانح میں حضرت مرحوم کی چندے تاریخی یادگاریں ہی ان کی اہمیت کو جتلانے کے لئے کافی ہیں ان کا انتظام و تدبر اور ان کی تدبیر انہیں انفرادیت بخشتی ہے اوران کا حوصلہ، ان کی ہمت اور قوت ان کے تعارف کے لئے کافی ہے۔
موٴرخین اور وقائع نگار یہ لکھتے ہیں کہ اگر یہ درست ہے کہ نظام سازی، صحیح ذمہ داری نبھانے ، دارالعلوم کو بلند و بالا مقام دینے اوراسے منفرد نوعیت کا ادارہ بنانے میں ان کے پیش رو اساطین اوراکابرین کا کارنامہ عظیم تھا، دین الہامی کی اشاعت، شریعت اسلامی کے فروغ اور دینیات و اسلامیات کے تحفظ کا اہتمام ان کا اساسی ہدف تھا تو حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی کا انتظام و تدبیر ان افکار کا تکملہ اور بہترین ترجمان تھا جس نے دارالعلوم کی مرکزیت، اہمیت اور عظمت کو فروغ دیا، جس نے دارالعلوم کے ارتقائی ادوار کو نیا رخ دیا اور اپنی محنت، ہمت اور صلاحیت سے اسے ایک ناقابل تسخیر تحریک بنادیا۔
ابتدائی احوال وکوائف اور خاندانی پس منظر
حضرت مہتمم صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے (جن کا شمار دارالعلوم دیوبند کے موسسین میں ہوتاہے اور جو دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے ۴۲ سال تک رکن رہے) کے نور نظر اور کہنہ مشق اور معروف و مشہور اسلامی محقق حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کے برادر محترم تھے، ان کا خاندانی پس منظر علمی تھا بایں بنا یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس دور کی روایت کے مطابق انھوں نے خود والدین سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی ہوگی اور پھر بعد میں اس وقت کے مشہور و معتمد اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہوگا۔ وہ شیخ الہند کے خاص شاگرد رشید تھے، حضرت گنگوہی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے دارالعلوم دیوبند میں اول سے آخر تک تعلیم حاصل کی اور اس وقت کے پائے کے اساتذہ سے حصول علم کا شرف حاصل کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں ایک ماہر منتظم تھے وہیں درس و تدریس کے حوالے سے سارے درآبدار اور سیمابی پارے ان کی علمی طبیعت میں سموئے ہوئے تھے۔ ایک شریف زادی سے نکاح کیا پر لاولد رہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں خانگی جھمیلوں سے محفوظ رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے انتظامات کو یکسوئی کے ساتھ انجام دینے لگے اور واقعہ یہ ہے کہ اسی یکسوئی نے ان کے حوالے سے ایک عظیم تاریخ رقم کی ہے۔
شخصیت سازی میں اہم بزرگوں کا کردار
حضرت مہتمم صاحب کی فطرت طبعی طور پر بزرگوں کے اثرات کو بآسانی قبول کرتی تھی، بایں وجہ ان کی زندگی میں ہمیشہ بزرگ علماء کے گہرے نقوش دیکھنے کو ملتے تھے، قابل قدر اور مبارک ہستیوں نے ان کی تربیت کی تھی ظاہر سی بات ہے کہ اپنی متاثر طبیعت کی بناء پر ان کے تاثرات کا سایہ ان پر کافی گہرا نقوش چھوڑتا تھا، شیخ الہند کی سرپرستی اور مناسبت نے انہیں کندن بنادیا تھا، علمی خاندان ہونے کی بناء پر بلا کا وقار اور حیرت انگیز سنجیدگی ان کی ذات میں درآئی تھی، ان کا دارالعلوم سے غایت الفت اور لگاؤ انہیں بہی خواہان و فداکاران دارالعلوم کے نقوش و تاثرات کا نتیجہ تھا، دارالعلوم کے معاملے میں حد درجہ حساسیت انہی بزرگوں کے وساطت سے آپ تک پہنچی تھی زمانہٴ طالب علمی میں صالح ترین اساتذہ نے ان کی تربیت کی تھی اور فراغت کے بعد حضرت مولانا حافظ احمد صاحب، حضرت مولانا علامہ کشمیری اور ان کے ہم عصر جتنے جلیل القدر اساتذہ تھے کی صحبت نے ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بیک وقت جہاں ان سے حضرت شیخ الہند کی سادگی، بزرگی اور للہیت ٹپکتی تھی وہیں انتظام میں وہ حافظ احمد صاحب کے خوبصورت پیکر تھے۔
علمی پرواز اور اخلاقی بلندی
حضرت کی شخصیت کی ہمہ جہتی و ہمہ گیری ملک کے دینی تعلیم یافتہ طبقوں میں مسلم ہے، بیک وقت خدا تعالیٰ نے انہیں مختلف نوعیتوں کی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں، ہر محاذ پر انہیں قابل بنایا تھا خواہ وہ علمی ہو یا اخلاقی ہر پہلو سے وہ ایک مکمل انسان تھے ۔ علمی پرواز کا اندازہ ان کی گرانقدر تصانیف سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، حیدرآباد کی عدالت شرعی کا مفتی اعظم کہلانا ان کی علمی قابلیت اور خداداد صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ جو جلیل القدر اور معزز علمی ہستیوں پر مشتمل تھی ان کی جانب سے حضرت ممدوح کا اہتمام کے لئے ترجیحی انتخاب علمی پیمانے پر موازنہ کے بعد ہی ہوا تھا اتنے بڑے علمی ادارے کے لئے معزز منصب پر فائز ہونے کے لئے اعلیٰ درجہ کی علمی امتیازات کی نسبت اور حیثیت ضروری ہوتی ہے اس پس منظر سے ان کی علمی قابلیت، درستی صلاحیت اور کتابی نسبت کی عکاسی ہوتی ہے یونہی حضرت علامہ انور شاہ کشمیری جیسے متبحر اور بے لوث عالم دین (جسے انیسویں صدی کا ابن حجر کہا گیا) نے نہیں فرمادیا کہ ”اگر مجھ پر کسی کے علم کا اثر پڑتا ہے تو وہ مولانا حبیب الرحمن ہیں“ ان کی وسعت علمی، ہمہ جہت صلاحیت اور علمی قابلیت کا عالم اسلام کے ثقہ حضرات علماء نے اعتراف کیا ہے اور بہت سارے وہ حضرات جن کی جبین پر موصوف کی نسبت دیوبندیت سے شکنیں پڑتی تھیں انھوں نے بھی حضرت مہتمم صاحب کی علمی وقعت و جلالت کا برملا اظہار کیاہے۔
یہ اصول مسلم ہے کہ کسی بھی عالم کے لئے اصولی طور پر یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اخلاقیات کے تمام تقاضوں پر پورا اترے مزید اس کی علمی فطرت اسے غیر اخلاقی خرافات انجام دینے سے روکے تب جاکر وہ کہیں عالم کہلانے کا حقدار ہوتا ہے اس نظریے کے مطابق ان کا اخلاقی معیار تو کافی بلند ہے اور قابل قبول بھی؛ مزید ان کی حیات گذاری اور روابط و تعلقات کا تفصیلی خاکہ ان کے وسیع الظرف اور اخلاقی معیار پر رفعت کے حامل ہونے کی واضح ترین غماز ہے، برداشت اور تحمل مزاجی ان کی فطرت ثانیہ تھی، کسی حادثہ یا شورش کے وقت ان کا ضبط قابل دید اور قابل رشک ہوا کرتاتھا۔ آج بھی اسے ہم مشعل راہ اور رہنمائے حیات بناسکتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک حادثے میں انتظامیہ اور طلباء کے درمیان شبہات کی بناء پر پیدا ہوئی کشیدگی اور تناؤ کے تلخ ترین تکدرات کے موقع پر ان کا ہر قدم احتیاط پر مبنی اور منصفانہ تھا، انتظامیہ کی آئینی برتری کے باوجود کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جسے منصب کا غلط استعمال کہا جاسکے۔ الغرض حضرت ممدوح علم وفضل، حسن خلق ومعاشرت اور سحر انگیز طبیعت کے مالک تھے، اخلاقی بلندی کے ساتھ ساتھ وہ بڑے پائے کے عالم بھی تھے۔
عدالت و تفقہ اور فقہی امتیاز
فقہ وفتاویٰ اور شرعی مسائل میں انہیں خصوصی ملکہ حاصل تھا، قضاء و افتاء کے معاملے میں ان کو خاصا عبور حاصل تھا، فقہی مسائل میں کافی دسترس رکھتے تھے،معاملہ فہمی، نکتہ رسی اور فقہی دقیقہ سنجی ان کے خصوصی اوصاف تھے البتہ انتظام و انصرام کی پیچیدگیوں اور اہتمام کے الجھنوں کی بنیاد پر ان کا جوہر کھل کر سامنے نہیں آتا تھا انتظامی مسائل میں اس طرح الجھے کہ پوری زندگی انہیں معموں میں کھپادی۔ حضرت مہتمم حافظ احمد صاحب کی پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کی بناء پر مفتی اعظم کے منصب پر ان کا انتخاب ان کی انہیں خصوصیات اور فقہی امتیازات کی بناء پر ہوا تھا ، گرچہ ظاہری عنصر یہ کہتا ہے کہ بوجہ نیابت انہیں منصب افتاء سپرد کیاگیا تھا لیکن سچ بات یہ ہے کہ وہ اس کے حقدار بھی تھے اس انتخاب میں ان کے حددرجہ علمی و فقہی شغف کا بھی دخل رہا ہے ۱۹۲۵/= ۱۳۴۴ھ میں حیدر آباد کے مفتی اعظم کے منصب پر آپ کا تقرر عمل میں آیا لیکن افسوس دارالعلوم دیوبند کے داخلی شورشوں کی بنیادپر وہ اس منصب سے جلد ہی دستبردار ہوگئے اور ایک تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔
فہم و فراست، تدبر و تدبیر کا بہترین شاہکار
فہم وفراست اور تدبر کے لحاظ سے وہ ایک آئیڈیل انسان تھے، نہ جانے ایک انسان میں اتنے سارے بلند محاسن کہاں سے یکجا ہوگئے تھے تاریخ میں بہت کم لوگوں کی ایسی ایسی نظیر ملتی ہے حضرت مہتمم صاحب فہم و فراست تدبر و درایت کے ایک شاندار پیکر تھے، دارالعلوم دیوبند میں ان کے عہد اہتمام میں ایک غیر پسندیدہ اور نازیبا وقوعہ پیش آیا تھا جسے انھوں نے لائق وفائق فہم و فراست اور شاندار تدبیر سے بآسانی سلجھالیا، اور اس کی چنگاریاں فروکردیں، یہ تو ایک نمایاں معروضہ تھا جو روداد دارالعلوم میں مرقوم ہے اس کے علاوہ وہ بہت سارے امور جو اندرون مدرسہ پیش آتے رہتے تھے اسے بھی بسہولت نمٹالیا، ظاہر سی بات ہے دارالعلوم دیوبند ایک بڑا ادارہ ہے اس کا انتظام بھی خاصا طویل اور مختلف شعبہ جات پر مشتمل ہے کچھ اونچ نیچ ہوتی ہوگی اور اس کے پھوڑا بننے کے امکان سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے تو عین ممکن تھا کہ کسی نہ کسی نوعیت کی شورش برپا ہوتی اوراسے دارالعلوم کی تاریخی دستاویزوں میں لکھنا پڑتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر کی خداداد مدبرانہ صلاحیت اور فہم و فراست اور کچھ فطری رعب نے ان غیر پسنددیدہ عوارض کی جڑ پکڑنے ہی نہیں دیا اوراس کے نشوونما سے پہلے ہی اپنے حساس شعور کی بناء پر اس کی بیخ کنی کردی، تو یہ امر واقعی ان کے باتدبیر منتظم اور فہم و فراست کے حامل شخصیت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
حضرت مولانا مرحوم کی سیاسی زندگی
سیاست حضرت مولانا کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی واقعتا حضرت ممدوح کافی منجھے ہوئے سیاسی شخصیت کہلاتے تھے، ان کے زمانے کے ہندوستان میں سیاسی تحریکیں بڑی منھ زور ہورہی تھیں اقلیت کی سیاست حق تلفیاں ہورہی تھی، جمعیة العلماء اور چند مخصوص تنظیموں کے علاوہ کسی میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اقلیت کی موافقت میں آواز اٹھاسکتی۔ حضرت ممدوح سیاسی نظریات و افکار میں اسلامی طریقہٴ حکومت کے موافق اوراس بات پر مصر تھے کہ حکومت با اہل کارندوں پر مشتمل ہو اور آپسی مشاورت کا خاص اہتمام ہو، موجودہ اسلوب سیاست سے وہ ذرہ برابر بھی مطمئن نہیں جس کا اظہار ان کی گرانقدر تصنیف ”تعلیمات اسلام“ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ حضرت قاری طیب صاحب ”دارالعلوم دیوبند کے پچاس مثالی شخصیات“ میں رقم طراز ہیں کہ ”حضرت مولانا کی سیاسی سوجھ اتنی تھی کہ وہ وزیر بن سکتے تھے مگر دارالعلوم دیوبند کی انتظامی مصروفیتیں اس کے آڑے آئیں“ الغرض مزاج شروع ہی سے سیاست آشنا واقع ہوا تھا، جمعیة العلماء سے وابستہ مختلف تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ان کی پوری زندگی تو نہیں البتہ بیشتر اوقات سیاسی مشاغل میں ضرور گذرے ہیں۔
خطابت اور کثرت مطالعہ
حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی کو قدرت کی طرف سے وہ تمام صلاحیتیں اور صفات وافر مقدار میں ودیعت کی گئی تھی جو ایک کامیاب خطیب کے لئے درکار ہوتی ہیں، طاقت زبان اور قوت بیان کے ساتھ انہیں بے مثال حافظے کی نعمت بھی حاصل تھی اور یہی چیزیں کامیاب اورموثر خطیب کے اجزائے ترکیبی ہیں، مضامین کی سنجیدگی و بلندپائیگی، مطالعے کی گیرائی، نظر وفکر کی وسعت، اپنے مفہوم کو موزوں ترین الفاظ میں بیان کرنے کی قدرت، مفکرانہ طریقہٴ استدلال اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کا بہترین اسلوب انکا طرئہ امتیاز تھا، یونہی ایک متشدد قسم کے بریلوی نے ان کی تقریری صلاحیت کا لوہا نہیں مان لیا تھا بلکہ اس میں ان کی پر اثر خطابت، سحر انگیز طریقہٴ گفتار اور شاندار اسلوب کادخل تھا جس سے متاثرہوکر اس نے دیوبندی نظریات کی حقیقت و صداقت کو تسلیم کرلیا تھا۔
حضرت عثمانی صاحب مرحوم جہاں وہ بلند پائے کے خطیب تھے وہیں ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا کتب بینی کا شوق انہیں دیر رات جگایا کرتا تھا حضرت ممدوح مرحوم کے مطالعے کی گیرائی وگہرائی کااعتراف کبار علماء نے کیا ہے دہلی کے ہردلعزیز عالم حضرت مولانا سید محمدمیاں تحریر فرماتے ہیں ”آپ نحیف الجثہ اور کمزور تھے، غذا بہت تھوڑی تھی لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس ضعف اور نقاہت کے باوجود بے پناہ ہمت آپ کو عطا کی گئی تھی امور اہتمام میں شب وروز انہماک کے باوجود کتب بینی کے شوق نے آپ کے مطالعے کو بہت ہی گیرائی بخش دی تھی۔“ (علماء حق)
جناب سید محبوب رضی تاریخ دارالعلوم میں رقم طراز ہیں ”مطالعے کے شوق نے آپ کو نہایت وسیع المعلومات کردیاتھا“ ان کے علاوہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری، انکے فرزند ارجمند حضرت مولانا انظرشاہ کشمیری، حضرت مولانا نعمانی کے ساتھ ساتھ مناظر احسن گیلانی اور بہت سے موٴرخین نے ان کے تبحرعلمی، وسعت مطالعہ، دقت نظر، مثالی حافظے، سخن فہمی اور زبان و بیان کی نزاکتوں کو سراہا ہے۔
زمانہٴ انتظام و انصرام اور منفرد کارکردگیاں
آپ کا اہتمام سے منسلک ہونا انتظام و انصرام کی نئی داستان دہراتا ہے، اس سے قبل بھی دارالعلوم دیوبند بزرگ مہتمموں اور ذمہ داروں کے حساس سایوں تلے، معیار، شان اور افتخار سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن حضرت مہتمم سادس کے تعلق نے اسے ایک نیا رخ دیدیا، اسے حیات نو بخش دی، ایک زبردست تبدیلی کے خوشگوار احساس نے دارالعلوم دیوبند کے انتظام کی کایا پلٹ دی اور سب کچھ ترتیب، صلاح و درستگی اور پختگی کے ساتھ انجام پانے لگا، ہر شعبہ میں نظم و نسق کا اہتمام ہونے لگا، دارالعلوم کے حساس شعبوں میں توجہ دی جانے لگی، انتظامیہ سے لے کر مطعم تک کا نظام صاف ستھرا اور اچھا ہوگیا۔ حضرت مہتمم صاحب کی تگ ودو، توجہ و لگن اور سخت کوششوں نے دارالعلوم دیوبند کو اس مقام پر پہنچادیا جہاں پر سترہ کرروڑ اسلامیان ہند وپاک ناز کرسکیں۔
حضرت مولانا حافظ احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی دارالعلوم دیوبند کے اصولی مہتمم قرار دئیے گئے دستوری اہتمام تو تقریباً آدھا برس ہی رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ جب ۱۳۲۵ھ میں حضرت حافظ احمد صاحب کے معاون اور دست راست منتخب ہوئے تبھی سے ان کی مہتممانہ خدمات، احسانات اور عنایات کاسلسلہ جاری ہوگیا تھا اسی حقیقت کااعتراف کرتے ہوئے دنیا کی معروف ہستی حضرت قاری طیب صاحب فرماتے ہیں:
”موصوف کا مستقل اہتمام گو آدھا برس رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا حافظ احمد صاحب کے دست راست اور ان کے چالیس سالہ خدمات کے روح رواں نیابت کی صورت میں آپ ہی رہے۔“
”تحدیث نعمت“ میں حضرت مولانا منظور نعمانی تحریر فرماتے ہیں کہ ”حضرت ممدوح دفاتر اور دستاویزوں میں نائب مہتمم سے موسوم کئے جاتے تھے لیکن عملاً وہی مہتمم تھے“ خود مولانا حبیب الرحمن نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ”حضرت شیخ گنگوہی نے مجھے یہاں مہتمم ثانی بناکر بھیجا ہے ”الغرض ان کے سارے کارنامے جو تقریباً دو دہائیوں میں محیط ہیں ان کی نسبت ان کی طرف کرنا کوئی غیر منصفانہ عمل نہیں بلکہ یہ ان کا حق تھا جسے تاریخ نے ذہنوں کے دیواروں میں چن دیا تھا۔ بہرکیف آپ نے اپنی خداداد صلاحیت، قابل رشک تدبر اور مخصوص تدبیر اور انتظام سے دارالعلوم کے انتظامی قوائم کو نہایت اعلیٰ پیمانے پر منظم کیا۔ تعلیمی، تربیتی اور اصلاحی شعبوں میں خصوصی توجہ دی دارالعلوم سے وابستہ تمام مخلوط شعبوں کو جن کی تقسیم ناگذیر تھی، تقسیم کیا، اور اسے استحکام بخشنے کے لئے جی جان لگادی، اہتمام کے تمام امور کی حفاظت و صیانت کا خصوصی لحاظ رکھا، تحفظات کی کمیٹی قائم کی اور راست صادر ہونے والے تمام نجی امور کے تحفظ کے خیال سے اسے محافظ خانے میں ترتیب اورطریقے سے مرتب کیا۔ گذشتہ ریکارڈوں کو ازسر نو ترتیب دیا، حضرت عثمانی مرحوم تمام شعبہ جات پر نظر رکھتے تھے، انتظامی معاملات میں کافی سخت تھے ۱۳۴۷ھ کے روداد دارالعلوم میں انھوں نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ ”میں انتظامی معاملات میں کافی سخت ہوں“ ان کا طریقہٴ کار کافی محنتانہ اور تھکادینے والا ہوتا تھا وہ خود بھی تھکتے تھے اور دوسروں سے بھی خوب کام لیتے تھے۔
سید محبوب رضی تاریخ دارالعلوم میں یوں رقم طراز ہیں ”اہتمام کے امور میں اس قدر شغف تھا کہ شب و روز کا بیشتر حصہ اسی میں صرف ہوتا تھا انھوں نے دارالعلوم کے شعبہ انتظام و انصرام کو اتنا منظم ومستحکم کردیاتھا کہ جب حکومت آصفیہ کی جانب سے نواب صدریار جنگ دارالعلوم کے حسابات کی تنقیح کے لئے دیوبند آئے تو ان کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک ایک اور دو دو آنے تک کے حسابات کے کاغذات اور رسیدیں باضابطہ طور پر فائل میں موجود تھیں نواب صدر یار جنگ بہادر کا بیان ہے کہ کوئی کاغذ ایسا نہ تھا جو مانگا گیا ہو اور فوراً پیش نہ کردیاگیا ہو۔“ الغرض انتظامی کارکردگیاں انتہائی صاف ستھری تھیں، دارالعلوم جیسا معتمد ادارہ تھا ویسے ہی معتمد مہتمم صاحب تھے ادارہ اور منتظم کے اس تال میل نے ادارہ کو نکھرنے پر مجبور کردیا اور انتظامی تانا بانا دن بدن مستحکم ہوتاگیا آج ہم جو دارالعلوم دیوبند کو ترقی یافتہ ادارہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں کُل نہیں تو اکثر انہیں کی مرہون منت ہے ان کی ان کارکردگیوں پر اسلامیان ہند و پاک انہیں سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
تصنیفی و تالیفی خدمات
حضرت عثمانی مرحوم کی مجموعی تصنیفی و تالیفی تخلیقات گرچہ شمار میں کم ہیں لیکن اپنی اہمیت، ضرورت اور ماہیت کے اعتبار سے کافی مہتم بالشان اور گرانقدر ہے، حضرت کا تصنیفی ذوق اور تالیفی شوق پر تموج تھا لیکن بے شمار مصروفیات اور گوناگوں مشاغل کی بناء پر ان کے ذوق و شوق کی تسکین کا سامان فراہم نہیں ہوپاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف ہاتھوں میں گنے جاسکتے ہیں البتہ جو کتابیں اور تالیفات ہیں وہ مختلف فنون پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس سے تفنن علوم میں ان کی مہارت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے حضرت ممدوح کو اپنے پیش رو اساطین کی جانب سے عشق محمدی کے حسین جذبات اور کومل احساسات وراثت میں ملے تھے، ”قصائد لامیة المعجزات“ اسی داستان عشق کا سرنامہ اور عنوان تھا اس قصیدے میں تشبیہات و استعارات کے انتخاب کے حوالے سے جو مستانہ شعور نظر آتا ہے، اس نے ان اشعار کو نئی تاب و توانائی بخش دی ہے، ”قصائد لامیة المعجزات“ تین سو اشعار نعت پرمشتمل ہے ایک سو معجزے نہایت فصیح و بلیغ انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ دوسری تصنیف ”تعلیمات اسلام“ اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے قابل ستائش ہے، اسلامی طرز حکومت اور مشورہ کی اہمیت پر کافی مدلل کتاب ہے اس کتاب کے مضامین میں جس بصیرت کا پتہ چلتا ہے اسے عام آدمی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے ”اشاعت اسلام“ ان کی وہ تالیف ہے جو ان کی تخلیقی زندگی کا اہم کارنامہ سمجھا جاتاہے اس کتاب کی اہمیت کا احساس اس کے مطالعے کے بعد ہی ہوگا اس کے چیختے عنوان ”اسلام کیونکر پھیلا؟“ سے دور حاضر کے تنقیدی ماحول میں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اشاعت اسلام ان سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے جو کافی عرق ریزی اور احتیاط و سنجیدگی سے ماہنامہ ․․․ میں تحریر کئے گئے تھے اسی طرح درسیات میں حاشیہٴ مقامات حریری اور حاشیہ تفسیر جلالین اہم علمی و درسی کارناموں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سیرت نگاری میں رحمة للعالمین جو پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے ایک گرانقدر سرمایہ ہے مگر افسوس وہ اب تک طبع ہوکر نہیں آئی ہے۔ مرثیہ نگاری میں خصوصی دسترس رکھتے تھے، نظم ونثر دونوں میں تخصصات کے حامل تھے، عجیب و غریب اور پرکشش انداز تھا، منظوم اشعار سردھننے پر مجبور کرتے تھے تو نثری کلام عش عش کرنے پر آمادہ کرتے تھے، تحریری صلاحیت خداداد تھی ان کے مضامین جو مختلف جرائد میں شائع ہوتے تھے ملک بھر کے پڑھے لکھے طبقے میں بڑی دلچسپی اور بڑے جوش و ولولے سے پڑھے جاتے تھے۔ ان کا طریقہٴ کار اور انداز بیان انتہائی شستہ، شگفتہ اور منجھا ہوا تھاالغرض یہ تصانیف جہاں ان کے افکار و نظریات کے دستاویز ہیں وہیں وہ ان کے فنی محاسن اور تخلیقی کمالات کا پتہ بھی دیتے ہیں۔
سانحہٴ وفات
اہتمام کی گراں بار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دارالعلوم میں ہوئے شورش اور ہنگامے کے قلق نے حضرت ممدوح پر بڑا گہرا اثر ڈالا اور ان کی صحت خراب ہوگئی غیرمعمولی مصروفیتوں کے ساتھ ساتھ ان کا مرض بڑھتا گیا بالآخر ۱۳/رجب ۱۳۴۸ھ کو ملت اسلامیہ کا عظیم مجاہد اور مادر علمی کا محافظ و سائبان ابدی نیند سوگیا، مادر علمی کا جو نقصان ہوا اس کی تلافی ممکن نہیں ٹھہری، حضرت مولانا قاری طیب صاحب نے اس حادثہ پر روداد دارالعلوم ۴۹-۱۳۴۸ھ میں جن الفاظ کے سہارے تعزیتی اور ماتمی مضمون تحریر کیا ہے اس سے اسی بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ ان کی موت سے مادر علمی میں ایک ”زلزلہ“ آگیا تھا۔
حرف آخر
الغرض وہ ایک مکمل انقلابی، باعزم منتظم، حوصلے سے لبریز مربی ومبلغ اورامت و انسانیت کے درد سے آشنا اور غمخوار انسان تھے، نفسیاتی، تاریخی اور روحانی طور پر زیادہ بامعنی بنانے والی طبعی قوت، انسانی امکانات اور کائناتی مظاہر پر حکیمانہ نگاہ ان کا طرئہ امتیاز تھا، ان کی انتظامی کارکردگی، انصرامی تگ و دو اور ذمہ دارانہ جدوجہد تاریخ دارالعلوم کے لئے موقع افتخار ہے اور ہمارے لئے قابل اتباع بھی۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی مہتمم سادس دارالعلوم دیوبند اسلاف کی وہ کڑی تھے جس کے نقش پا کی تقلید آج بھی مدارس اور ذمہ داران مدارس کے حسن مستقبل کی ضامن ہے۔
حوالہ جات و ماخذ ومراجع:
(۱) تاریخ دارالعلوم (جلد اول) (۲) تاریخ دارالعلوم (جلد دوم) (۳) مشاہیر دیوبند
(۴) مشاہیر علماء دیوبند (۵) لالہٴ وگل (۶) حیات انور
(۷) اشاعت اسلام (۸) دارالعلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات (۹) روداد دارالعلوم ۴۹-۱۳۴۸ھ
(۱۰) تحدیث نعمت (۱۱) ذکر رفتگاں (۱۲) علماء حق
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ10-11، جلد: 91 ، رمضان-ذی قعد 1428 ہجری مطابق اکتوبر -نومبر2007ء