از: مفتی محمد طارق محمو د

مدرس ومعین مفتی جامعہ عبد اللہ بن عمر،لاہور

                حدیث شریف سے متعلق مباحث اور تفصیلات کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے:(۱) علم الحدیث روایۃ،(۲) علم الحدیث درایۃ۔پہلی قسم میں حدیث شریف کو نقل کرنا اور ضبط کرنا بھی داخل ہے، اور راوی اور مروی  ہر ایک میں سے مقبول اور مردود کی پہچان کرنا بھی۔راوی اورمروی میں سے مقبول اور مردود کی پہچان کو علم مصطلح الحدیث،علم اصول الحدیث اور علم مصطلح اہل الاثر بھی کہتے ہیں اور علم الحدیث درایۃ سے مراد حدیث کے معانی معلوم کرنا ہے۔(ماخذہ:تعلیق الشیخ عبد الفتاح ابی غدۃ علی مبادیٗ علم الحدیث واصولہ:ص۵۸ – ۶۱ملخصا)

                علم الحدیث روایۃ اور علم الحدیث درایۃ،یہ دونوں بنیادی قسمیں ،بہت سے فنون پر مشتمل ہیں ؛چنانچہ مثلا مقدمہ ابن صلاح میں ۶۵ ؍ انواع مذکور ہیں ۔تدریب الراوی میں ۹۳ ؍ انواع کا ذکر کیا گیا ہے۔اور منہج النقد میں ۸۵ ؍ انواع بیان کی گئی ہیں ؛چونکہ راویوں اور ر وایتوں کی صفات محصور نہیں ہوسکتیں ،لہٰذا اس بارے میں کوئی خاص تعداد آخری نہیں ۔(مقدمہ ابن صلاح:ص۱۱)۔علوم الحدیث دراصل تین طرح کے علماء کے کلام کا مجموعہ ہیں ۔محدثین،فقہاء اور اصولیین۔انھیں صرف محدثین کے اقوال میں منحصر کردینا درست نہیں ۔اصول فقہ کی کتب کا باب السنۃ بھی علوم الحدیث کا جز ہے۔( تعلیق الشیخ محمد عوامۃ علی تدریب الراوی مع حاشیۃ ابن العجمی:۱/۱۵ – ۱۷) کتب اصول فقہ کی بحث السنۃ کا مطالعہ ضروری ہے؛کیونکہ مجتہدین خصوصاً ائمہ حنفیہ کے اصول حدیث کا قدیم اور اہم مصدر یہی ہے۔(المدخل الی علوم الحدیث الشریف:ص۱۳۲ ملخصا،مولانا شیخ محمد عبد المالک،قواعد فی علوم الحدیث:ص۲۰)

                یہاں ان انواع کا مختصر تعارف کرایا جارہا ہے؛تاکہ علوم الحدیث کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آجائے،اور مبتدی کو اجمال قبل التفصیل کا فائدہ دے۔اس مضمون کا بنیادی مأخذ شیخ نور الدین عتر کی کتاب منہج النقد فی علوم الحدیث،اور مولانا عبیداللہ اسعدی کی کتاب علوم الحدیث ہے۔ جہاں دیگر کتب سے استفادہ کیا گیا ہے،وہاں ان کا حوالہ ذکر کردیا ہے الا یہ کہ کہیں کوئی جملہ تشریح کے لیے بڑھایا ہو۔

                علوم الحدیث کی کل انواع چار ذیلی عنوانات  پر تقسیم کی جاسکتی ہیں :(۱)حدیث کے طالب علم اور استاذ کے آداب۔(۲)سند سے متعلق انواع۔ (۳)متن سے متعلق انواع۔ (۴) سند اور متن دونوں سے متعلق انواع۔

                محدثین نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب سب چیزیں زیر بحث لاتے ہیں اور فقہاء واصولیین  صرف ان امور سے بحث کرتے ہیں جن سے احکام مستنبط ہوں ؛لہٰذا اِن کے نزدیک غیر اختیاری احوال اور نبوت سے پہلے کے احوال زیر بحث نہیں آتے اور یہ اختلاف غرض اور مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے۔(دیکھیے:نوادر الحدیث:ص۶۳ –  ۶۸)

۱-  حدیث کے طالب علم اور استاذ کے ا ٓداب:  ۱  –  ۵

                (۱) آداب طالب الحدیث: اخلاص،محنت،علم پر عمل،اساتذہ کا احترام،ساتھیوں کو علمی فائدہ پہنچانا،علم حدیث حاصل کرنے میں مناسب تدریجی نصاب اور طریقہ اختیار کرناوغیرہ۔

                (۲)  آداب المحدث: اخلاص،اچھے اخلاق،اپنے اندر علمی قابلیت کا لحاظ کرنا،جب ذہنی قوت ساتھ نہ دے تو درس دینا چھوڑدینا،بڑوں کا ادب،حدیث کا ادب کرنااور درس حدیث کی تیاری،تصنیف وتحقیق میں مشغول ہوناوغیرہ۔

                (۳) کیفیۃ سماع الحدیث:اتنی عمر میں حدیث سنے جس میں سن کر صحیح طرح ضبط کرسکے۔ استاذ سے حدیث لینے کے آٹھطریقے ہیں ۔انھیں طرق تحمل الحدیث بھی کہتے ہیں ۔ ۱-السماع:استاذ سے حدیث سننا۔۲-العرض:استاذ کو حدیث سنانا۔۳-الاجازۃ:محدث کا طالب کو اپنے سے حدیث روایت کرنے کی اجاز ت دینا۔ابن صلاح رحمہ اللہ نے اجازت کی سات قسمیں ذکر کی ہیں ۔۴-المناولۃ:استاذ کا شاگر د کو لکھی ہوئی حدیثیں دینا تاکہ استاذ کی طرف سے نقل کرے۔ اس کی تین قسمیں ہیں ۔۵-المکاتبۃ:محدث کا کسی کو لکھی ہوئی حدیثیں بھیج دینا۔اس کی دو قسمیں ہیں ۔ ۶-الاعلام: طالب کو بتانا کہ یہ حدیث یا کتاب میں نے فلاں سے سنی ہے۔۷- الوصیۃ: محدث کا کسی کو اپنی تحریرات حدیث دینے کو وصیت کرنا موت کے وقت یا سفرکے وقت۔ ۸-الوجادۃ: کسی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی حدیث یا کتاب  سند کے ساتھ پانا۔ان صورتوں کے احکام میں تفصیل ہے۔

                (۴) صفۃ روایۃ الحدیث:۱-حدیث کوایسے لفظ سے آگے نقل کرنا جس سے کیفیت تحمل معلوم ہوتی ہو۔ہر طریق تحمل کے لیے خاص لفظ ہے۔طریق تحمل کے درست ہونے اور اسے صحیح طرح نقل کرنے پر سند کے اتصال اور انقطاع کا مدار ہوتا ہے۔۲-روایت بالمعنی: مخصوص شرائط کے ساتھ جائز ہے۔جمہور کا یہی قول ہے اور یہی راجح ہے؛لیکن کتب حدیث کی تدوین کے بعد روایت بالمعنی کی ضرورت نہیں رہی؛لہٰذا روایت باللفظ ہی کرنی چاہیے؛البتہ مجالس وعظ میں کسی حدتک روایت بالمعنی کی گنجائش ہے۔روایت بالمعنی کرنے کے بعد احتیاطا اوکما قال وغیرہ الفاظ کہنے چاہئیں ۔ ۳-اختصار فی الحدیث:جمہور کے نزدیک یہ جائز ہے،بشرطیکہ اختصار اس طرح کیا جائے کہ حدیث کے معنی نہ بدلیں ۔۴-عربی قواعد کی رعایت کرنا بھی لازم ہے،ورنہ من کذب علی متعمدا کی وعید میں داخل ہونے کا اندیشہ ہے۔۵- محذوف الفاظ پڑھنا:قال،ان وغیرہ جیسے الفاظ بسا اوقات سند میں لکھے نہیں ہوتے؛لیکن پڑھتے وقت زبان سے یہ الفاظ ادا کرنے چاہئیں ۔مثلا حدثنا عبد اللہ بن یوسف اخبرنا مالک کو یوں پڑھیں گے:قال اخبرنا مالک۔سند کے آخر میں عن ابی ہریرۃ قال لکھا ہوتو اسے عن ابی ہریرۃ انہ قال پڑھا جائے گا ورنہ عربیت کی رو سے کلام ناقص ہوگا۔چوتھی صدی ہجری کے اختتام کے بعد حدیث کے تحمل اور روایت کی شرائط میں تخفیف ہوگئی، اور روایان حدیث کے حالات محفوظ کرنے کا پہلے جیسا اہتمام نہیں کیا گیا؛کیونکہ کتب حدیث کی تدوین کے بعد اب کتاب سے حدیث نقل کرنا کافی ہے۔سلسلۂ اسناد جو امت کی خصوصیات میں سے ہے، اسے باقی رکھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ استاذ مسلمان،عاقل،بالغ نیک ہو اور اساتذئہ وقت سے معتبر طریقے سے حدیث پڑھی ہواور صحیح طریقے سے حدیث روایت کرے۔

                (۵) آداب کتابۃ الحدیث:۱-الفاظ کو صحیح طرح ضبط کرنے کا خاص اہتمام کرنا، خصوصا سند کے ناموں کا درست ضبط بہت اہم ہے؛کیونکہ یہ صرف سماع پر موقوف ہے۔اس سلسلے کی  ایک اہم کتاب شیخ محمد طاہر پٹنی کی المغنی فی ضبط اسماء الرجال ہے۔یہ کتاب حضرت مولانا زین الدین اعظمی حفظہ اللہ کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ مطبوع ہے۔۲-مشکل الفاظ کو متن میں ضبط کرنے کے بعد حاشیے میں بھی ضبط کرنا بیان کا عنوان دے کر؛تاکہ الحاق کا شبہ نہ ہو۔۳-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دُرودوسلام لکھنے کی پابندی کرنا۔۴-اپنے  مجموعۂ حدیث کی استاذ کی اصل کے ساتھ مقابلہ کرکے تصحیح کرنا۔حدیث لکھنے کے بارے میں خاص اصطلاحات ورموز بھی ہیں ۔

۲-   سند سے متعلق انواع:  ۶  –  ۵۲

 ۶  –  ۳۰:   معرفۃ  ذات الراوی:  راوی کی ذات کی پہچان سے متعلق انواع

                (۶) معرفۃ المبہمات:سند یا متن میں مذکور کسی شخص کے نام کی تصریح نہ ہوتو اس کا نام جاننا۔ اس نوع کی سب سے جامع کتاب ولی الدین عراقی ( ۸۱۶ھ )کی  المستفاد من مبہمات المتن والاسناد  ـ ہے۔اس نوع کا تعلق دراصل چوتھی قسم (سند اور متن دونوں سے متعلق انواع) سے ہے؛مگر تمہیدا یہاں ذکر کی گئی ہے۔

                (۷) معرفۃ من ذکر باسماء مختلفۃ او نعوت متعددۃ: ایک شخص کو مختلف ناموں یا القاب یا کنیتوں سے ذکر کیا جائے تو اس سے واقفیت۔مثلا محمد بن سائب کلبی کو کسی نے حماد کے نام سے ذکر کیا ہے اور کسی نے ابو نصر اور ابو سعید کی کنیتوں سے۔خطیب بغدادی نے اپنے شیوخ کے حق میں بکثرت ایسا کیاہے اور بعض متأخرین محدثین نے بھی،حتی کہ ابن حجر عسقلانی نے بھی۔اس نوع کی مشہو ر کتاب خطیب بغدادی کی  موضح  أوہام الجمع والتفریق  ہے۔

                (۸) معرفۃ الأسماء والکُنٰی:کنیت سے مشہور راوی کا نام جاننا اور نام سے مشہور راوی کی کنیت جاننا۔اس نوع کی مشہور کتاب ابوبشر دولابی (۳۱۰ھ) کی الکنی والاسماء  ہے۔

                (۹) معرفۃ الالقاب:  لقب سے مراد ایسا نام ہے جس میں تعریف یا تنقیص کا پہلو ہو۔صحابہ میں بھی بہت سے حضرات کے القاب تھے۔جیسے ذو الیدین،ذوالشمالین وغیرہ۔بعد میں بھی القاب جاری رہے۔جیسے معاویہ بن عبد الکریم کا لقب ضال ہے؛کیونکہ یہ مکہ کے راستے میں بھٹک گئے تھے۔محمد بن ابراہیم کالقب صاعقہ ہے،قوت حافظہ کی عمدگی کی وجہ سے۔اس نوع کی سب سے عمدہ کتاب ابن حجر(۸۵۲ھ) کی  نزہۃ الالباب  ہے

                (۱۰)  معرفۃ المنسوبین الی غیر آبائہم: نسبت عموماً والد کی طرف ہوتی ہے؛لیکن کبھی کسی وجہ سے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف بھی نسبت کی جاتی ہے۔جیسے حضرت معاذ بن عفرا ء رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی طرف منسوب ہیں ۔ان کے والد کا نام حارث تھا۔ اور حضر ت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اپنے دادا کی طرف منسوب ہیں ،ان کے والد کا نام عامر تھا۔اس نوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں ۔

                (۱۱) النسب التی علی خلاف ظاہرہا: کسی عارض کی بنا پر کبھی راوی کے اپنے علاقے، قبیلے اور پیشے کے علاوہ کسی اور کی طرف بھی نسبت کی جاتی ہے۔جیسے حضرت ابو مسعود بدری غزوہ بدر میں شریک نہیں تھے؛بلکہ اس جگہ قیام کی وجہ سے بدری کہلاتے ہیں ۔خالد حَذّاء خود موچی نہیں تھے؛بلکہ ان لوگوں کی ہم نشینی کی وجہ سے حَذّاء کہلاتے ہیں ۔اس نوع کی مشہور کتاب عبد الکریم سمعانی (۵۶۲ھ) کی الانساب اور سیوطی (۹۱۱ھ)کی لب الالباب ہے۔

                (۱۲) معرفۃ الموالی من الرواۃ والعلماء: قبیلے کی طرف نسبت میں اصل یہ ہے کہ نسبی تعلق اس قبیلے سے ہو؛چنانچہ قرشی کا مطلب ہے قریش کی اولاد؛لیکن بسا اوقات عقد ولاء کی وجہ سے بھی کسی قبیلے کی طرف نسبت کی جاتی ہے۔اس کے لیے مثلا مولی قریش یا القرشی مولاہم کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے۔

                (۱۳) اوطان الرواۃ وبلدانہم:اہل عرب ابتدائی دور میں قبیلے کی طر ف نسبت کیا کرتے تھے۔اسلام کے بعد جب ایک جگہ ٹھہرنے لگے تو علاقے کی طرف نسبت کرنے لگے۔اہل عجم ہمیشہ سے شہروں اور بستیوں کی طرف نسبت کرتے رہے ہیں ۔

                (۱۴) معرفۃ الاسماء المفردۃ:ایسا نام یا لقب یا کنیت جو صرف ایک راوی کا ہو اور کسی کا نہ ہو۔جیسے مثلا صحابۂ کرام میں سندر نام،سفینہ لقب  اور ابو الحمراء کنیت،صرف ایک  صحابی کی ہے۔رضی اللہ عنہم اجمعین۔

                (۱۵) المتفق والمفترق:متفق بمعنی یکساں اور مفترق بمعنی جدا۔تحریر اور تلفظ میں ناموں کے اتحاد کے ساتھ شخصیات کا جدا جدا ہونا۔اس کی بہت سی صورتیں ہیں ۔جیسے متعدد راویوں اور ان کے والد کے نام ایک ہوں جیسے عمر بن خطاب کے نام سے ۶ ؍اشخاص ہوئے ہیں ۔متعدد راویوں اور ان کے والد کے نام اور نسبتیں ایک ہوں جیسے محمد بن عبد اللہ انصاری ۲؍اشخاص ہوئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ۔

                (۱۶) المئوتلف والمختلف: مئو تلف بمعنی ملنے والا اور مختلف بمعنی الگ ہونے والا۔نام یا القاب یاکنیتیں یا نسبتیں کتابت میں یکساں ہوں ؛ مگر تلفظ ان کا مختلف ہو۔جیسے سلام لام کی  تشدید کے ساتھ بھی ہے اور تخفیف کے ساتھ بھی ہے۔ابن حجر (۸۵۲ھ) کی  تبصیر المنتبہ بتحریر المشتبہ  اس نوع کی عمدہ ترین کتاب ہے۔

                (۱۷) المتشابہ:پچھلی دونوں نوعوں سے مل کر یہ نوع بنتی ہے۔رواۃ کے ناموں کاتلفظ میں یکساں ہونا اور ان کے آباء کے ناموں کا کتابت میں یکساں اور تلفظ میں مختلف ہونا۔جیسے محمد بن عقیل میں والد کا نام عین کے ضمے اور قاف کے فتحے کے ساتھ بھی ہے اور عین کے فتحے اور قاف کے کسرے کے ساتھ بھی ہے۔یا رواۃ کے ناموں کا تلفظ میں مختلف ہونا اور ان کے آباء کے ناموں کا تلفظ میں یکساں ہونا جیسے شریح بن نعمان اور سریح بن نعمان۔اس نوع پر خطیب بغدادی کی کتاب  تلخیص المتشابہ فی الرسم ہے۔

                (۱۸) المشتبۃ المقلوب: ایک راوی کانام دوسرے راوی کے والد کے نام کی طرح ہو کتابت اور تلفظ میں اور دوسرے راوی کا نام کتابت اور تلفظ میں پہلے کے والد کے نام کی طرح ہو۔جیسے الولید بن مسلم او رمسلم بن الولید؛چنانچہ امام بخاری نے دوسرے راوی کانام پہلے راوی کاذکر کردیا ہے اور اس وہم پر ابن ابی حاتم رازی نے تنبیہ کی ہے۔اس نوع پر خطیب بغدادی کی کتاب رافع الارتیاب فی المقلوب من الاسماء والالقاب ہے۔

                (۱۹) تواریخ الرواۃ: تاریخ سے مراد محدثین کے ہاں ولادت،وفات،اسفاراور تحصیل علم  وغیرہ کے اوقات ہوتے ہیں ۔

                (۲۰) طبقات الرواۃ: ایسے لوگ جو عمر اور اسناد میں یا صر ف اسناد میں ایک دوسرے سے قریب ہوں طبقہ کہلاتے ہیں ۔اسناد میں قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چند لوگوں کے اساتذہ ایک ہی ہوں یا ہم مر تبہ ہوں ۔ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک اعتبار سے ایک طبقے سے ہواور دوسرے اعتبارسے دوسرے طبقے سے ہو۔خلیفہ بن خیاط (۲۴۰ھ) کی طبقات الرواۃ اور محمد بن سعد (۳۲۰ھ)کی الطبقات الکبری  او ر شمس الدین ذہبی (۷۴۸ھ) کی تذکرۃ الحفاظ  اس نوع کی اہم کتابوں میں سے ہیں ۔

                (۲۱)  معرفۃ التابعین:جو کسی صحابی سے ملے یا ان سے روایت بھی کرے،اور ایمان پر ہی اسے موت آئے۔( تابعی کے لیے ملاقات کے وقت مومن ہونے کی شرط نہیں ۔اگر ملاقات کے بعد اسلام لائے تو پھر بھی تابعی ہے۔فتح المغیث:۴/۱۴۷)

                تابعین کو بنیادی طورپر تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔کبار تابعین کا طبقہ۔متوسط تابعین کا طبقہ۔صغار تابعین کا طبقہ۔راجح قول کی بنا پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تعلق بھی اسی آخری طبقے سے ہے۔دیکھیے:منہج النقد:ص۱۴۸،اور۔امام ابوحنیفہ کی تابعیت اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان کی روایت: مولاناعبدالشہید نعمانی۔آخری تابعی خلیفہ بن ایوب (۱۸۰  یا  ۱۸۱ھ)ہیں ۔ جو حضرات نبی اکرم ﷺ کی حیات میں اسلام لائے؛ لیکن آپ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل نہ کرپائے،انھیں مخضرمین کہتے ہیں ۔مثلا حضرت اویس قرنی وغیرہ رحمہم اللہ تعالی۔یہ حضرات اصلا تابعی ہیں ۔امام مسلم اور عراقی نے مجموعی طورپر ایسے ۴۰؍ اشخاص کا ذکر کیا ہے۔سبط ابن عجمی (۸۴۱ھ)نے ان کے بارے میں مستقل کتاب لکھی ہے۔تذکرۃ الطالب المعلم بمن یقال انہ مخضرم۔

                (۲۲) معرفۃ  اتباع التابعین: جو تابعی سے ملاقات کرے یا روایت لے اور ایمان پر ہی اسے موت آئے اسے تبع تابعی کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں بھی ملاقات کے وقت مومن ہونے کی شرط نہیں ۔ (صحابہ کا قرن ۱۲۰ہجری تک ہے تقریبا،تابعین کا قرن تقریباً ۱۷۰یا ۱۸۰ ہجری تک ہے اورتبع تابعین کا قرن تقریباً ۲۲۰ہجری تک ہے۔ماخذہ:فتح الباری:۷/۶) ان تینوں قرون کے خیر ہونے کی رسول اللہﷺنے بشارت دی ہے۔(صحیح بخاری:۳۶۵۰،صحیح مسلم:۲۵۳۵/ فواد)

                (۲۳) معرفۃ الاخوۃ والاخوات: ہر طبقے کے رواۃ میں سے جو لو گ آپس میں بھائی بھائی یا بھائی بہن ہیں ان سے واقفیت حاصل کرنا۔دو سے لے کر بڑی تعداد تک افراد آپس میں بھائی بھائی یابھائی بہن ہوسکتے ہیں ۔سیوطی نے اس بارے میں آخری تعداد ۱۴ ذکر کی  ہے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی۔

                (۲۴) روایۃ الاقران والمدبج:اقران قرین کی جمع ہے بمعنی مصاحب۔اس کے معنی یہ ہیں کہ راوی اور اس کا شیخ دونوں ہم عمر یا ہم طبقہ ہوں ۔جیسے مثلا سلیمان تیمی کی مسعر بن کدام سے روایت۔روایۃ الاقرا ن کی ایک صورت مدبج بھی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دواقران میں سے ہر ایک دوسرے سے روایت کرے۔جیسے مثلا صحابہ میں حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک کی دوسرے سے روایت۔

                (۲۵) روایۃ الاکابر عن الاصاغر:عمر اور طبقہ یا علم اور حفظ میں اپنے سے کمتر راوی سے حدیث روایت کرنا۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ راوی اپنے شیخ سے عمر اور طبقہ دونوں میں بڑا ہو۔دوسری صورت یہ ہے کہ راوی مرتبے میں بڑا ہو اور عمر میں چھوٹا ہو۔تیسری صورت یہ ہے کہ راوی عمر اور مرتبہ دونوں میں شیخ سے بڑا ہو۔طبقے کا تعلق عمر اور زمانے سے ہوتا ہے اور مرتبے کا تعلق ذاتی اوصاف سے۔

                (۲۶) روایۃ الآباء عن الابناء: والد کااپنے بیٹے سے روایت کرنا۔یہ روایۃ الاکابر عن الاصاغر کے قریب ہے۔والد بیٹے سے عمر میں تو بڑا ہوتا ہے؛لیکن طبقے یا مرتبے میں بیٹے سے بڑا ہونا ضروری نہیں ۔

                (۲۷) روایۃ الابناء عن الآباء:راوی کا اپنے والد یا والد کے واسطے سے دادا یا اوپر کے کسی فرد سے روایت کرنا۔

                (۲۸) معرفۃ  السابق واللاحق: ایک شیخ سے حدیث لینے والے دو ایسے شاگر د جن کی وفات کے درمیان زیادہ مدت ہو۔جیسے امام بخاری اور خفاف نیشاپوری دونوں محمد بن اسحاق سراج کے شاگر دہیں ۔امام بخاری ۲۵۶؍ اور خفاف نیشاپوری ۳۹۳ھ میں فوت ہوئے ہیں ۔ راوی کی ذات سے متعلق ان سب پہلوئوں پرمستقل بحث کی غرض یہ ہے کہ راوی کی ذات پوری طرح معین او رمشخص ہوجائے اور اس میں کسی طرح کا اشتباہ اور ابہام نہ رہے۔

                رُواۃِ حدیث کے درمیان پائی جانے والی خصوصی مناسبتیں لطائف اسناد کہلاتی ہیں ۔ اس کی سات صورتیں ہیں ۔نوع ۲۴ تا ۳۰۔(علوم الحدیث اسعدی:ص۲۷۷،۲۷۸بتغییر)

                (۲۹) معرفۃ السند العالی والنازل:حدیث کی دوسندوں میں سے ایک میں راویوں کی تعداد کم ہو،اور دوسری میں زیادہ ہوتو پہلی کو اسناد عالی اور دوسری کو اسناد نازل کہتے ہیں ۔علو کی دو قسمیں ہیں ۔۱:علو مطلق:جس میں نبی اکرمﷺ تک واسطے کم ہوں ۔۲:علو نسبی:جس میں کسی خاص شخص تک واسطے کم ہوں ۔علو نسبی کی چار صورتیں ہیں ۔علو کی ہر قسم کے مقابلے میں نزول کی بھی قسم ہے۔سند عالی اور سند نازل کے بعض خاص پہلووں پر مستقل کتب لکھی گئی ہیں ۔ جیسے مثلاثلاثیات پر ابن حجر کی۔ ثلاثیات بخاری۔یعنی جن میں امام بخاری اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں ۔ثنائیات پر حاکم اور ابن عساکر کی عوالی مالک۔وحدانیات پر عبدالکریم شافعی کی وحدانیات الامام ابی حنیفہ۔رباعیات پر دار قطنی کی  رباعیات الامام الشافعی۔

                (۳۰) معرفۃ المسلسل:جس حدیث کے راوی خود اپنی یا روایت کی کسی خاص کیفیت پر متفق ہوں ،یہ ضروری نہیں کہ سارے رواۃ متفق ہوں ؛بلکہ مسلسل کہلانے کے لیے اکثر کا اتفاق ضروری ہے۔جب تسلسل درمیان یا آخر میں ختم ہوجائے تو تصریح کردی جاتی ہے کہ فلاں تک مسلسل ہے۔ہندوستان کے مرکزی اداروں میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی مسلسلات کی سماعت واجازت کا سلسلہ جاری ہے۔اس میں تقریبا ۱۰۰  احادیث ہیں جن میں مختلف انداز کا تسلسل ہے۔ لطائف اسناد کی ساتوں صورتیں اکٹھی کرنے کے لیے نوع ۲۹اور۳۰ کو یہاں ذکر کیا گیا ہے۔

 ۳۱  –  ۳۷:  معرفۃ حال الراوی:  جن انواع کا تعلق راوی کے حال

 یعنی ثقہ یا ضعیف ہونے کی پہچان سے ہے 

                (۳۱) صفۃ من تُقْبَلُ روایتہ ومن تُرَدُّ (جس راوی کی روایت مقبول ہوگی اس کی صفت اور جس کی مردود ہوگی ):

                ۱-جو راوی عادل اور ضابط ہو اس کی روایت مقبول ہوتی ہے،اسے ثقہ کہتے ہیں ۔

                ۲- عادل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان،عاقل،بالغ،متقی اور مروت والا ہو۔اور ضابط کے معنی یہ ہیں کہ حدیث صحیح طرح سنے اور  ویسے ہی روایت کرے،خواہ زبانی یاد رکھ کر،خواہ کتاب سے دیکھ کر۔

                ۳- ثقاہت معلوم ہونے کے طریقے پانچہیں ۔۱:شہرت واستفاضہ:جیسے امت کے مشہور ومعتمد علماء وائمہ، مثلا ائمہ اربعہ،اصحابِ کتب ستہ وغیرہ۔۲:شہادت کا مقبول ہونا۔۳: قول سے ثقہ قرار دینا۔۴:اس کی روایت پر عمل کرنا۔۵:اس سے روایت کرنا۔محدثین اپنی کتب میں تیسراطریقہ اختیار کرتے ہیں ۔دیگر طریقے اصولیین،محدثین اور فقہاء کی ایک جماعت نے ذکر کیے ہیں ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:تعلیق الشیخ عبد الفتاح علی الرفع والتکمیل:ص۱۶۴ – ۱۶۷

                ۴-  نووی کہتے ہیں حدیث اور فقہ کے جمہور ائمہ کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت مقبول ہوگی جوثقہ یعنی عدل اور ضابط ہو۔(تدریب الراوی:۴/۵،  ۲/۱۳۵) اتنی بات پر تواتفاق ہے؛البتہ اس کی تفصیل میں کسی قدر اختلا ف ہے۔دیکھیے:تعلیق الشیخ محمد عوامہ علی تدریب الراوی:۴/۵ – ۱۱۔

                ۵- حنفیہ کے نزدیک بنیادی طور پر راویوں کی دو قسمیں ہیں :معروف،مجہول۔مجہول کا مطلب ہے جس سے ایک دو روایتیں مروی ہوں ۔یعنی بہت کم روایتیں مروی ہوں ،خاص یہ عدد مراد نہیں اور محدثین کے نزدیک مجہول وہ ہے جس سے روایت کرنے والے کم ہوں ۔جس سے روایت کرنے والا صرف ایک ہووہ مجہول العین ہے۔جس سے روایت کرنیوالے دو ہوں وہ مجہول الحال ہوگیا۔جب اس کی عدالت ظاہرہ معلوم ہوگئی تو مستور بن گیا،اب یہ مجہول العدالۃ الباطنۃہے۔

                ۶- لوگ مجاہیل کے احکام علوم الحدیث کی کتب سے لیتے ہیں اور انھیں حنفیہ کے دلائل پر جاری کرتے ہیں ؛حالانکہ ان کتب میں ،(مواضع خلاف میں)ساداتِ شافعیہ کے مذہب کے مطابق کلا م ہے،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تداخل اور اشتباہ میں پڑ جاتے ہیں ۔دیکھیے:تعلیق الشیخ محمد عوامہ علی تدریب الراوی:۴/۸۴،۸۵،۸۹۔یہ فرق ہمیشہ ملحوظ رکھنا لازم  ہے اور ہر فقہی مذہب کے دلائل حدیث کو اس کے اپنے اصول ومصطلحات حدیث کی روشنی میں دیکھنا لازم ہے۔جیسے مثلا امام ابویوسف اور امام محمد کا اپنی کتب الرد علی سیر الاوزاعی اور الحجۃ علی اہل المدینہ  وغیرہ میں طریقہ ہے اور جیسے طحاوی شرح معانی الآثار   اور شرح مشکل الآثا ر میں کرتے ہیں اور جصاص شرح مختصر الطحاوی  اور قدوری التجرید میں کرتے ہیں ۔

                (۳۲)  الجرح والتعدیل: ۱: تعدیل کے معنی ہیں راوی میں عدالت اور ضبط کا وجود بیان کرنا اور جر ح اس کی ضد ہے۔جارحین اور معدلین کے راوی کے بارے میں الفاظ، مصطلحا ت حدیثیہ کے ارتقاء اور شیوع سے پہلے کے ہیں ۔اس ارتقاء اور شیوع کا زمانہ تقریباً قرنِ رابع اور اس کے بعد کا دور ہے۔ ۲: ابن ابی حاتم (م۳۲۷ھ)نے اپنی کتاب۔ الجرح والتعدیل۔  میں ان الفاظ کو کسی قدر مرتب کیا۔پھر متأ خرین نے الفاظ جرح وتعدیل کومختلف مراتب میں تقسیم کیا۔۳: یہ ترتیب اور اصطلاحات جو متأخرین نے قائم کی ہیں ، انھیں متأخرین کے کلام میں پوری طرح معتبر سمجھا جائے گا اور متقدمین کی عبارات میں تباین اور تغایر کی نفی نہیں کی جاسکتی،پھر یہ بھی ضروری ہے کہ استقرائے تام کے ذریعے اس امام کی بہت سی عبارات سے اس کی اصطلاح اور مقصد معلوم کیا جائے۔(تعلیق الشیخ عبد الفتاح علی الرفع والتکمیل:ص۱۲۹،۱۳۰ملخصا) 

                ۴: راوی کی عدالت پر طعن،ضبط کے طعن سے سخت ہوتا ہے۔عدالت سے متعلق پانچ طعن ہیں : ۱:جہالت، ۲:فسق،۳:بدعت،۴:تہمت کذب،۵: کذب۔ضبط سے متعلق پانچ طعن ہیں ۔ ۱:سوئے حفظ، ۲:مخالفتِ ثقہ،۳:وہم،۴:کثرتِ غلط،۵:فحش غلط۔(نزہۃ النظر:ص۸۷ح۳)

                ۵: الفاظ جرح وتعدیل کو چھے چھے مراتب میں تقسیم کیا گیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے:علو م الحدیث اسعدی:ص۲۲۰  –  ۲۲۲،الرفع والتکمیل مع التعلیقات:ص ۱۵۵ – ۱۶۴،۱۶۷ – ۱۸۳)  ۶: متقدمین ومتأ خرین میں سے جن ائمہ کی خاص اصطلاحات ہیں انھیں پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے اور صحابہ،تابعین،تبع تابعین اور دیگر مشہور ائمہ کے طبقے میں ، بکثرت روایت کرنے والے راویوں کے حالات اگر زبانی یاد کرلیے جائیں ، تو بہت سی احادیث کی سند کاکل یا اکثر حصہ بسہولت پہچانا جاسکتا ہے۔شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ نے ذہبی کی کاشف کو جرح وتعدیل کے موضوع پر معلم مدرب قرار دیا ہے اور مبتدی کے لیے کاشف اور ابن حجر کی تقریب التھذیب کی مراجعت کو بہترین طریقہ قرار دیا ہے۔(دیکھیے: دراسات الکاشف للشیخ محمد عوامۃ:۱/۱۳)۔اصول جرح وتعدیل پر مولانا عبد الحئی لکھنوی کی الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل بہت مفید ہے۔شیخ عبدالفتاح ابو غدۃ کی تعلیقات کے ساتھ مطبوع ہے۔

                ۷:جارح اور مُعدِّل دونوں کے لیے علم،تقوی،ورع،تعصب سے بچنا،اسباب جرح وتعدیل کو جاننا شرط ہے اور جس میں یہ اوصاف نہ ہوں اس کی جرح اور تعدیل مقبول نہیں ۔(الرفع والتکمیل:ص۶۷)۔جرح او ر تعدیل کاسبب اگر مذکو ر ہوتو انھیں مفسر کہتے ہیں ،ورنہ مبہم۔جرح مفسر اورتعدیل مفسر بالاتفاق مقبول ہیں ؛جب کہ ان کے قبول کی شرائط پائی جائیں ۔جرح مبہم اور تعدیل مبہم کے قبول کے بارے میں کل چار اقوال ہیں :۱:تعدیل مبہم مقبول ہے،جرح مبہم مردود۔۲:پہلے قول کا عکس یعنی تعدیل مبہم مردود اور جرح مبہم مقبول ہے۔۳:دونوں مردود ہیں ۔۴:دونوں مقبول ہیں ۔ (الرفع والتکمیل:ص۷۹ – ۹۲) ان میں سے دو قولوں کو ترجیح دی گئی ہے۔پہلا اور چوتھا قول۔(الرفع والتکمیل:ص ۱۰۴ – ۱۰۸ مع حواشی ملخصا) یعنی جرح مبہم کے قبول ہونے نہ ہونے کے بارے میں قول راجح دو ہوگئے۔ان دونوں میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ اگر جارح مواقعِ خلاف کی رعایت کرنے والا ہوتو اس کی جرح مبہم مقبول ہوگی،ورنہ نہیں ۔(دیکھیے:التلویح:۲/۲۸،تدریب الراوی: ۴/۳۳،۴۶)۔  مواقعِ خلاف کی رعایت کا مطلب یہ ہے کہ جس امرکا جرح ہونا مختلف فیہ ہو اس کی بنا پر جرح نہ کرے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:الملخص فی اصول الحدیث: ص۶۵،۶۶، قواعد فی علوم الحدیث: ص۱۶۷ – ۱۶۹،۱۷۴ مع التعلیقات) حافظ ابن حجر کا میلان اس طر ف ہے کہ جس راوی کی توثیق منقول نہ ہو،اس پر جرح مبہم مقبول ہے؛لیکن جو علماء قرون ثلاثہ کے مستور کو ثقہ قرار دیتے ہیں ان کے اصول کی رو سے یہ جرح بھی مقبول نہیں ۔(قواعد فی علوم الحدیث:ص۱۷۴)

                ۸: جرح اور تعدیل میں تعارض:ایک راوی کے بارے میں دو ناقدین میں سے ایک سے جرح منقول ہو،اور دوسرے سے تعدیل منقول ہو،اور دونوں میں قبول کی شرائط پائی جائیں تو ترجیح کسے ہوگی؟اس بارے میں کل تین قول ہیں ۔ اس مسئلے میں راجح کیتفصیل یہ ہے:جرح اور تعدیل دونوں مبہم ہوں ،یا جرح مبہم ہو اور تعدیل مفسر ہو، تو ان دونوں صورتوں میں تعدیل کو ترجیح ہوگی اور اگر جرح مفسر ہوتو وہ مقدم ہوگی،چاہے تعدیل مبہم ہویا مفسر۔(حاشیہ قواعد فی علوم الحدیث:ص۳۴۹،الرفع والتکمیل:ص ۱۱۴،ح۱،۲،تدریب الراوی:۴/۴۹،۵۰ح۳) اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوا کہ الجرح مقدم علی التعدیل کا قاعدہ اپنے عموم اور اطلاق پر نہیں ۔اگر اسے عام مان لیا جائے تو انبیا ء کے علاوہ کوئی بھی نہیں بچے گا؛کیونکہ کسی قدر جرح سے کوئی بھی نہیں بچا۔(حاشیۃ الرفع والتکمیل:ص۱۱۶)

                ۹: محدثین کو فقہاء وغیرہ سے کشیدگی بھی رہی ہے  اور اس کا اثربھی جرح وتعدیل میں آیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے:تعلیق الشیخ عبد الفتاح علی الرفع والتکمیل:ص۸۷ – ۸۹،الجرح والتعدیل للجمال القاسمی:ص۳۱،۳۲،فیض الباری:۲/۴۷۶،  قواعد فی علوم الحدیث: ص ۱۹۲،۱۹۳،حاشیہ ص ۳۶۱  –  ۳۸۰،امام محمد بن الحسن الشیبانی: مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی،ماہنامہ معارف،نومبر دسمبر ۲۰۰۰م، المدخل الی علوم الحدیث الشریف:ص۱۵۸، تدریب الراوی:۴/۴۹،۵۰ح۳،التجرید للقدوری: ۳/۱۳۰۵،  ۱۳۰۶،حاشیۃ الرفع والتکمیل:ص۳۹۸،۳۹۹)

                ۱۰:ابن صلاح نے اسے اختیار کیا ہے کہ جس امام (مجتہد) کے فقہی مذہب میں پیروکار ہوں ،جب کسی ایسے راوی کی حدیث سے دلیل لے جسے دوسروں نے ضعیف کہا ہو،تو وہ راوی اس امام کے پیروکاروں کے حق میں ثقہ ہی ہوگا۔یہ بات حافظ سخاوی نے امام شافعی کے ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ سے روایت کرنے کے بیان میں نقل کی ہے۔اس راوی کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔اسے صرف امام شافعی نے ثقہ قرار دیا ہے۔(فتح الملہم:۱/۱۷۹) شیخ نور الدین عتر کہتے ہیں کہ ائمہ متبوعین کی پیروی کرنے والوں کے حق میں یہی معتمد ہے کہ وہ ان ائمہ کی تصحیح وتضعیف پر اعتماد کرتے ہیں ؛ کیونکہ وہ (ائمہ متبوعین) اس علم (حدیث) میں بھی مجتہد ہیں ۔(نزہۃ النظر: ص۹۷، ح۲) نیزدیکھیے:اوجز المسالک:۲/۹۵،المدخل الی علوم الحدیث الشریف:ص۱۴۸ – ۱۵۱)

(۳۳) الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم: صحابی کی تعریف میں اختلاف ہے۔ محدثین کے ہاں تعریف یہ ہے کہ جو مسلمان ہونے کے حال میں نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کرے اور ایمان پر ہی اسے موت آئے۔اصولیین کے ہاں اس میں طول صحبت کی بھی قید ہے۔تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ صحبت کا ادنی شرف پہلے معنی سے حاصل ہوتا ہے، اور خاص درجہ دوسرے معنی سے۔دیکھیے:تعلیق الشیخ محمد عوامہ علی تدریب الراوی:۵/۱۶۱،۱۶۲۔حنفیہ کی اصول فقہ کی کتب میں جو بعض صحابہ کو مجہول لکھا ہے،اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ طولِ صحبت میں مشہور نہیں ۔دیکھیے:مصدر سابق:۵/۱۷۵۔پس یہ دوسرے درجے کے لحاظ سے ہے،نہ کہ پہلے درجے کے لحاظ سے اور اس معنی کے لحاظ سے بعض صحابہ پر مجہول کا اطلاق صرف حنفیہ ہی نے نہیں کیا؛بلکہ بعض محدثین نے بھی کیا ہے،جیسے علی بن مدینی،ابو حاتم رازی، عقیلی اور ابن حبان نے۔(دیکھیے:مصدر سابق:۴/۸۸)

                الصحابۃ کلہم عُدول من لابس الفتن وغیرہم باجماع من یعتد بہ۔صحابہ سب کے سب عادل ہیں ،باہمی لڑائیوں میں شرکت کرنے والے بھی اور دوسرے بھی،اہلِ اجماع کا اجماع ہے۔ (تدریب الراوی :۵/۱۷۱،۱۷۸)۔ان کی عدالت کا تعلق صرف روایت حدیث کی حد تک نہیں ؛بلکہ ساری زندگی کے ساتھ ہے۔ان حضرات کے معصوم نہ ہونے اور شاذ ونادر گناہ کے صدور کے باوجو د ان کے متعلق امت کا یہ عقید ہ قرار پایا ہے کہ ان کی طرف کسی عیب وگناہ کی نسبت نہ کریں اور ان کی تنقیص وتوہین کے شائبہ سے بھی گریز کریں ۔دیکھیے:مقا م صحابہ رضی اللہ عنہم: ص۹۵،۶۰،حضرت مفتی محمد شفیع۔صحابہ کے حالات پر مشہور اور جامع کتاب ابن حجر کی  الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ  ہے۔سیوطی نے اس کی تلخیص  عین الاصابۃ کے  نام سے کی ہے۔

                (۳۴) الثقات والضعفاء: ثقہ سے مراد وہ راوی ہے جو عادل وضابط ہو اور ضعیف سے مراد وہ راوی ہے جس کی عدالت یا ضبط مجروح ہو۔اس نوع کی تصانیف بعض وہ ہیں جن میں صرف ثقات کا ذکر ہے۔جیسے ابن حبان اور عجلی کی الثقات۔بعض وہ ہیں جن میں صرف ضعفاء کا ذکر ہے۔ جیسے ابن عدی کی الکامل فی الضعفاء۔ اس میں جس راوی پر بھی جرح ہوئی اس کا ذکر کیا ہے،اگرچہ وہ جرح مقبول نہ ہو اور بعض میں دونوں طرح کے رواۃ ہیں ۔جیسے عبد الغنی مقدسی (۶۰۰ھ) کی۔ الکمال فی اسماء الرجال۔متقدمین اور متأخرین کے ہاں ثقہ کے معنی میں فرق:دیکھیے:تدریب الراوای: ۴؍۱۷۵،۱۷۶ مع تعلیق) نیز دیکھیے:المصطلحات الحدیثیہ بین الاتفاق والافتراق: روایۃ بنت عبداللہ۔

                (۳۵) من اختلط فی آخر عمرہ: اختلاط کے معنی فساد عقل کے ہیں ۔اس نوع کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی اختلاط سے پہلے کی مقبول اور اختلاط کے بعد کی غیر مقبول روایات کو الگ الگ کیا جاسکے۔اس نوع پر سبط ابن عجمی کی الاغتباط بمن رمی بالاختلاط ہے۔مختلط کے کبار تلامذہ کی راویات حالت صحت کی ہی سمجھی جاتی ہیں ۔

                (۳۶) الوحدان:جن سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔اس نوع پر امام مسلم کی المنفردات والوحدان ہے۔

                (۳۷) المد لسون:تدلیس کی تعریف آگے حدیث مدلس کے عنوان کے تحت آئے گی ان شاء اللہ تعالی۔ اس نو ع پر سب سے جامع کتاب ابن حجر کی۔تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس ہے۔اس میں مدلسین کی پانچ قسمیں کی ہیں ۔پہلی دونوں قسموں کی تدلیس مقبول۔تیسری میں اختلاف اور چوتھی اور پانچویں قسم کی تدلیس مردود ہے۔(دیکھیے:تعریف اھل التقد یس:ص۳،۴)

                حدیث نبوی کے راویوں کے حالات زندگی پر مکمل روشنی ڈالنے والی انواع کا مجموعہ علم اسماء الرجال کہلاتا ہے۔راویوں کے حالا ت محفوظ کرنے کا زیادہ تر سلسلہ متون حدیث کی تالیف کے آخری عہد تک، یعنی امام بیہقی (م ۴۵۸ھ) کے زمانے تک رہا ہے۔اس کے بعد رواۃ کے حالات جمع کرنے کا نہ ویسا اہتمام رہا اور نہ ضرورت رہی؛کیونکہ اب نقلِ حدیث کے سلسلے میں کتابوں پر ہی اعتماد کیا جانے لگا۔(علوم الحدیث اسعدی: ص۲۵،۲۲۶ملخصا)اسماء الرجال کی کتب کے قدرے تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیے مولانا محمد حسین صدیقی کا رسالہ۔راویان حدیث کا تذکرہ اور ان پر محدثین کا تبصرہ ۔

۳۸ – ۴۸:  معرفۃ اتصال السند وانقطاعہ:

جن انواع کا تعلق سند کا اتصال اور انقطاع پہچاننے سے ہے

                (۳۸) المتصل:جس کی سند میں سب راوی مذکور ہوں ،کوئی رہ نہ گیا ہو،خواہ مرفوع ہو یا موقوف۔تابعین کے اقوال اگر سند متصل سے منقول ہوں تویوں کہا جاتا ہے، مثلا:ہذا متصل الی سعید بن المسیب اور بعض ان کو بھی علی الاطلاق متصل کہتے ہیں ۔

                (۳۹) المسند:حدیث مرفوع متصل کو مسند کہتے ہیں ۔کبھی یہ حدیث مرفوع کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔

                (۴۰ – ۴۵) المعلق والمرسل (الجلی والخفی) والمعضل والمنقطع والمدلس: راو ی اگر شروع سند سے گرا ہو مصنف کی جانب سے تو اسے معلق کہتے ہیں اوراگر سند کے آخر سے تابعی کے بعد گر ا ہوتو اسے مرسل کہتے ہیں ۔اور اگر سند میں کسی جگہ سے دو یا زائد راوی اکٹھے گرے ہوں تو اسے معضل کہتے ہیں ۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ میں معضل اور منقطع کی تعریف میں راوی کے درمیان سند سے محذوف ہونے کی قید لگائی ہے۔مولانا عبد العظیم بلیاوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی تعریف میں یہ قید شیخ سے پہلے کسی کے کلام مجھے نہیں ملی۔

                منقطع کی تعریف میں متعدد اقوال ہیں ۔ابن عبد البر کے نزدیک جس کی سند متصل نہ ہو وہ منقطع ہے۔اس تعریف میں معلق،مرسل اور معضل سب آگئے اور منقطع ان تینوں سے اعم ہوگیا۔ حاکم کے ہاں جس کی سند میں تابعی سے پہلے ایک یا زیادہ راوی محذوف ہوں وہ منقطع ہے۔ عراقی، ابن حجر اور سیوطی کے ہاں جس کی سند میں تابعی سے پہلے ایک یازیادہ راوی  محذوف ہوں ؛لیکن اکٹھے محذوف نہ ہوں ۔او ریہ ساری تفصیل حاکم (م۴۰۵ھ)کے زمانے سے متأخرین محدثین کے ہاں ہے۔ حاکم سے پہلے کے متقدمین محدثین اور فقہاء واصولیین کے ہاں مرسل اور منقطع ایک ہی ہے۔ پس مرسل اس عام معنی (یعنی جس کی سند میں ایک یا زیادہ راوی محذو ف ہوں ،کسی بھی جگہ سے) کے لحاظ سے منقطع کی سب قسموں پر مشتمل ہے اور اس معنی کے لحاظ سے مرسل کو امام شافعی سے پہلے کسی نے بھی رد نہیں کیا،اگرچہ بعض نے اس پر کلام کیا۔ (الملخص فی علوم الحدیث:ص۳۶،۳۷ملخصا)

                سند سے راوی کا محذوف ہونا اگر قصد ایہام سماع کے ساتھ ہو،(یعنی سننے والا کو یہ خیال دلانا ہو کہ راوی نے یہ حدیث شیخ سے سنی ہے ) تو اسے مدلس کہتے ہیں ،ورنہ مرسل۔مرسل میں سقوط کبھی خفی ہوتا ہے،تو اسے مرسل خفی کہتے ہیں اورکبھی واضح ہوتا ہے تو اسے مرسل جلی کہتے ہیں ۔خفی اور جلی ہونا امور اضافیہ میں سے ہے،ناقدین کے مراتب کے لحاظ سے۔(الملخص فی علوم الحدیث:ص۳۹  نیز دیکھیے:فتح الملہم:۱/۱۰۷) مذکورہ تعریف تدلیس کی ایک قسم تدلیس الاسناد کی ہے۔اس کی دوسری قسم کو تدلیس الشیوخ کہتے ہیں ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ راوی اپنے شیخ کا ذکر کسی غیر معروف نام،لقب یا کنیت ونسب سے کرے۔

                (۴۶،۴۷) المعنعن والمئونن:معنعن وہ ہے جس کی سند میں عن فلان عن فلان ہو، اخبار، تحدیث،سماع وغیرہ کی تصریح کے بغیر۔اور مئونن وہ ہے جس کی سند میں فلان ان فلانا ہو۔یہ دونوں متصل سمجھی جائیں گی بشرطیکہ عن سے روایت کرنے والا مدلس نہ ہو،اورراوی ومروی عنہ میں امکان لقاء ہو۔دیگر جو الفاظ سماع میں صریح نہیں جیسے قال،رویٰ،حدّث وغیرہ ان کا بھی یہی حکم ہے۔

                (۴۸)   المزید فی متصل الاسانید: متصل سند میں کوئی راوی ایک ایسے راوی کا اضافہ کردے جو دوسروں نے ذکر نہ کیا ہو۔بعض دفعہ یہ زیادت مقبول ہوتی ہے اوربعض دفعہ مردود۔

                (۴۹- ۵۲) الحدیث القدسی والمرفوع والموقوف والمقطوع: قرآن مجید کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ۔حدیث قدسی کے معنی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ،اورالفاظ کے بار ے میں دونوں قول ہیں ۔جو اہل علم حدیث قدسی کے الفاظ بھی من جانب اللہ وحی ہونے کے قائل ہیں ، وہ قرآن مجید اور حدیث قدسی میں متعدد فرق بیان کرتے ہیں ۔جیسے معجزہ ہونا،تلاوت کیا جانا،روایت بالمعنی جائز نہ ہونا،تواتر سے منقول ہونا وغیرہ۔حدیث قدسی کوا ٓپ  ﷺ نے اللہ تعالی کی طرف نسبت کرکے بیان فرمایا ہے۔ حدیث قدسی کے موضوع پر مستقل تصانیف بھی ہیں جن میں سے ایک اہم مناوی کی۔ الاتحافات السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ۔ ہے۔ (مأخذہ:منہج النقد:ص۳۲۴،۳۲۵،قواعد التحدیث:ص۶۵،۶۶،مباحث فی علوم القرآن:ص۲۲، مناہل العرفان:۱/۵۰،۵۱) جس کی نسبت آپ  ﷺ  کی طرف ہواسے مرفوع،جس کی نسبت صحابی کی  طرف ہواسے موقوف، اور جس کی نسبت تابعی کی طرف ہواسے مقطوع کہتے ہیں ۔ موقوف اور مقطوع کی حیثیت مرفوع کی شرح کی ہے۔صحابہ اور تابعین کے عمل اور فتاوی کے بغیر مرفوع احادیث کی مراد پوری طرح واضح نہیں ہوتی۔مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :امت کی تلقی بالقبول حنفیہ اور مالکیہ کے ہاں بڑی بنیاد ہے اور اخبار (آحاد) کے قبول ورد کا ایک بڑا معیار ہے۔(فتح الملہم:۱/۳۴)

                ہمارے ائمہ متقدمین امام  ابویوسف،محمد،طحاوی،خصاف،کرخی وغیرہ اپنی کتب میں سند کے ساتھ حدیثیں لکھواتے تھے۔متأخرین سرخسی،مرغینانی،کاسانی وغیرہ نے متقدمین  ائمہ حنفیہ کی کتب پر اعتماد کرتے ہوئے اختصارا سندیں حذف کردیں اور متون نقل کردیے۔جیسے مصابیح اور مشکاۃ کے مصنفین نے کیا ہے۔بعد میں آنیوالے مخرجین کے سامنے متقدمین کی سب کتابیں نہیں تھیں ،  تو انھوں نے متأخرین کی کتب سے ان احادیث کی تخریج کی اور جو حدیثیں متأخرین کی کتب میں نہیں ملیں ان کے بارے میں لم یوجد،غریب وغیرہ کے الفاظ کہے۔اس کی وجہ متقدمین ائمہ کی کتب کی عدم دستیابی ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حدیث کی بہت سے کتابیں ؛بلکہ اکثر کتابیں مشرقی ممالک میں فتنوں اور ہنگاموں کی نذر ہو کر نابود ہوچکی ہیں ۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:  المدخل الی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ: ص۲۳۱  –  ۲۳۴ ،  مولانا عبد المجید ترکمانی ،  فتاوی بینات:  ۲/۶۴ – ۷۸)

۳-   سند اور متن دونوں سے متعلق انواع :  ۵۳  –  ۷۸

                راوی کے ضبط  یا عدالت میں کمی کے مختلف صورتوں میں ظہور سے مختلف انواع بنتی ہیں ۔جیسے:

                (۵۳) المدرج:جس کی سند یا متن میں راوی اپنی طرف سے کچھ بڑھا دے، بغیر بتائے ہوئے۔(الملخص فی اصول الحدیث:ص۵۴)۔اس موضوع پر ابن حجر کی  تقریب المنہج بترتبیب المدرج  ہے۔

                (۵۴) المقلوب:جس کی سند یا متن میں تقدیم وتاخیر کے ذریعے تبدیلی ہوجائے۔اس نوع پر خطیب کی رافع الارتیاب فی المقلوب من الاسماء والالقاب ہے۔

                (۵۵) المضطرب:جس کی سند یامتن میں ایسا اختلاف ہوکہ تطبیق اور ترجیح نہ ہوسکے۔ اضطراب زیادہ تر سند میں ہوتا ہے،کبھی متن میں ہوتا ہے۔(الملخص فی اصول الحدیث:ص۵۲،۵۳)

                (۵۶) المصحف: جس کی سند یا متن کے کسی کلمے کی صحیح ہیئت بدل دی گئی ہو۔اس نوع پر خطابی کی  اصلاح خطأ المحدثینہے۔اور عسکر ی کیتصحیفات المحدثین  ہے۔

                (۵۷ –  ۶۰)  الشاذ والمحفوظ و المنکر والمعروف:  اگر ثقہ راوی اوثق کے خلاف روایت کرے تو ثقہ کی روایت شاذ اور اوثق کی محفوظ کہلاتی ہے۔اور اگر ضعیف راوی ثقہ کے خلاف روایت کرے تو ضعیف کی روایت منکر اور ثقہ کی معروف کہلاتی ہے۔یہ تعریفیں ابن حجررحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں ۔ مولانا عبد العظیم بلیاوی  حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابن حجر سے پہلے کسی کے کلام میں شاذ اور منکر میں یہ فرق نہیں ملاکہ شاذ ثقہ کی روایت کے ساتھ خاص ہو،اورمنکر ضعیف کی روایت کے ساتھ خاص ہو۔ ممکن ہے عموماً ایسا ہی ہوتا ہو؛لیکن اسے ضابطۂ کلیہ بنانا مشکل ہے۔ شاذ اور منکر دونوں مترادف ہیں اور دونوں کا اطلاق ثقہ اور ضعیف دونوں قسم کے راویوں کی روایتوں پر ہوتا ہے۔شاذ اسے کہتے ہیں جسے روایت کرنے والا اکیلا ہو اور اس سے ناقد کو خلجان ہو۔اور یہی منکر کی تعریف ہے۔اور خلجان کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ۔جیسے:راوی کا ضعیف ہونا،یا اوثق کی روایت کے مخالف ہونا،یا متن کا شہرت کا تقاضا کرنا وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ کے نزدیک شاذ اسے کہتے ہیں جو کتاب اللہ،یا سنت ثابتہ یا اجماع امت کے خلاف ہو یا خبر واحد ہوا ور عموم بلوی کے بارے میں ہو۔  (دیکھیے: الملخص فی اصول الحدیث:ص ۴۲  –  ۴۷،فتح الملہم:۱/۱۳۲)  فاحش الغلط،کثیر الغفلۃ اور ظاہر الفسق راوی کی روایت بھی منکر کہلاتی ہے۔(نزہۃ النظر:ص۹۲،ت:عتر)

                (۶۱)  المعلل: جس کی سندیا متن میں پوشیدہ خرابی ہو جس سے حدیث صحیح نہ رہے۔اس خرابی کو علت کہتے ہیں ۔علت عموماً سند میں ہوتی ہے، اور کبھی متن میں بھی ہوتی ہے۔یہ خرابی اصل میں راوی کے وہم سے پیدا ہوتی ہے۔اس نوع کو اغمض انواع علوم الحدیث کہا جاتا ہے۔کبھی علت کا اطلاق ہر خرابی پر ہوتا ہے،خواہ پوشید ہ بھی نہ ہو،اور حدیث کے صحیح ہونے پر اثر انداز بھی نہ ہو۔ (محدثین کی علل کا تعلق عموما سند سے ہوتا ہے،او ر فقہاء کی علل کا تعلق عموماً متن سے ہوتا ہے(دیکھیے: تدریب الراوی:۳؍۳۴۵ – ۳۴۷ تعلیق) محدثین کے ہاں علل کی کل دس انواع بنتی ہیں ۔علل پر سب سے جامع کتاب دارقطنی کی ہے۔(تدریب الراوی:۳؍۳۷۲ – ۳۸۲)

                (۶۲) زیادۃ الثقۃ: ثقہ راوی کی جانب سے حدیث کی سند یا متن میں ہونے والا اضافہ۔سند میں اضافے کی متعدد صورتیں ہیں ۔ایک المزید فی متصل الاسانید کے تحت گزر چکی۔ وصل وارسال کا تعارض اور وقف ورفع کا تعارض خاص طور پر ا س نوع میں زیر بحث آتا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: تدریب الراوی:۳؍۲۳۰ -۲۳۸،۳۱۹ – ۳۳۱مع تعلیق۔فتح الملہم:۱؍۲۹،۳۰)

                (۶۳،۶۴)   الموضوع والمتروک :جس حدیث کاراوی کذاب ہو،اوراس کا متن قواعد معلومہ فی الدین کے خلاف ہواسے موضوع کہتے ہیں ۔(الموقظۃ:ص۳۶)  درحقیقت یہ کسی اور کا کلام ہوتا ہے جس کی جھوٹی نسبت آپ  ﷺ  کی طرف کر دی جاتی ہے۔اورجس حدیث کا راوی متہم بالکذب ہو اور وہ حدیث صرف اسی ایک راوی سے منقول ہو،اور قواعد معلومہ فی الدین کے خلا ف ہو، اسے متروک کہتے ہیں ۔(متہم بالکذب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی روایت جو قواعد معلومہ فی الدین کے خلاف ہو،  اسے روایت کرنے میں اکیلا ہویا حدیث نبوی میں اس کا جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو؛لیکن اپنی گفتگو میں اس کا جھوٹ بولنا ثابت ہو۔تدریب الراوی:۳/۵۱۰،۵۱۱،تعلیق)۔ موضوع احادیث کی پہچان کے ضوابط اور علامات:  لمحات میں تاریخ السنۃ وعلوم الحدیث:ص ۱۱۷ – ۱۲۸،شیخ عبدالفتاح ابو غدۃ۔موضوعات پر ایک جامع کتاب ابن عراق کنانی(م۹۶۳ھ) کی تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ ہے۔

                (۶۵-۷۰) الصحیح لذاتہ والحسن لذاتہ والصحیح لغیرہ والحسن لغیرہ والضعیف والمضعف : 

                ۱: حدیث صحیح اپنے معنی اخص میں ،متأخرین کے ہاں بخاری اور مسلم کے زمانے سے،وہ ہے جسے عدل حافظ اپنے جیسے سے روایت کرے بغیرشذوذ وعلت کے۔اور اپنے معنی اعم میں ، متقدمین محدثین اور سب فقہاء واصولیین کے ہاں ،وہ ہے جو معمول بہ ہو۔لہٰذا متأخرین محدثین میں سے اگر کوئی کسی حدیث کو ضعیف کہے تو اس سے حدیث کا غیر معمول بہ ہونا لازم نہیں آتا۔(التحفۃ المرضیۃ فی حل بعض مشکلات الحدیثیۃ:ص۲۶)  متأخرین کے ہاں حدیث صحیح کے معنی کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت ہے۔

                 ۲: جس خبر واحد کی سند متصل ہو،اور اس کے سب راوی عدل ضابط ہوں ، اور معلل اور شاذ نہ ہو، اسے صحیح لذاتہ کہتے ہیں ۔(نزہتہ النظر:ص ۵۸)  یہ تعریف حافظ ابن صلاح شافعی  (م۶۴۳ھ) رحمہ اللہ کی ذکر کردہ تعریف سے معمولی ترمیم کے ساتھ ماخوذ ہے۔ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن صلاح نے یہ تعریف امام مسلم(م۲۶۱ھ) کے کلام سے لی ہے۔(تدریب الراوی:۲/۱۶۳)۔ابن صلاح فرماتے ہیں کہ یہ ُاس حدیث صحیح کی تعریف ہے جس کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے(یعنی امام بخاری اور مسلم کے زمانے سے محدثین کا اتفاق ہے،جیسا کہ اوپر التحفۃ المرضیۃ کے حوالے سے گزرا)۔اور کبھی ان( محدثین )میں کسی حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہوجاتا ہے،ان اوصاف میں سے کسی وصف کے پائے جانے یا کسی وصف کے شرط ہونے میں اختلاف کی وجہ سے۔اور حدیث کو صحیح کہنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی سندان شرائط پر پوری اترتی ہے،اس سے یہ لازم نہیں کہ اس حدیث کا ثبوت نفس الامر میں بھی مقطوع ہے۔(کیونکہ صحیح خبر واحد ظنی الثبوت ہوتی ہے،نہ کہ قطعی الثبوت )۔ اسی طرح جب یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں تو اس کے معنی یہ نہیں کہ اس کا نفس الامر میں غلط ہونا مقطوع ہے؛کیونکہ کبھی نفس الامر میں ثابت ہوتی ہے؛بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شرائط پر اس کی سند ثابت نہیں ۔(مقدمہ ابن صلاح:ص ۱۳،۱۴،ت:عتر) سند یا متن میں سے ایک کے صحیح ہونے سے دوسرے کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔(تدریب الراوی:۲/۵۵۴،تعلیق)۔لہٰذا کل چار صورتیں بنتی ہیں :سند اور متن دونوں صحیح،دونوں ضعیف،سند صحیح متن ضعیف اور سند ضعیف متن صحیح۔

                ۳:کسی امر خارج کی وجہ سے قوت حاصل ہونے سے حدیث کو اگر صحیح قرار دیا جائے تو اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں ۔ امر خارج جیسے تلقی بالقبول،تعدد طرق وغیرہ۔(قواعد التحدیث:ص۸۰)  حسن صحیح اور ضعیف کا درمیانی درجہ ہے۔اس کی جامع تعریف دشوار ہے۔حافظ ابن حجر نے حسن لذاتہ کی یہ تعریف کی ہے کہ جس کے راوی کا ضبط کچھ کم ہو اور باقی ساری شرائط صحیح لذاتہ کی پائی جائیں ۔ (تدریب الراوی:۳؍۲۰،۲۱مع تعلیق) اکثر محدثین حسن کو صحیح سے الگ نہیں کرتے۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح:۱؍۴۸۰) لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ متقدمین کے ہاں حدیث کی صرف دو ہی قسمیں تھیں :صحیح اور ضعیف۔اور حدیث حسن، امام ترمذی سے شروع ہونے والی اصطلاح ہے۔ (الفوائد المستمدۃ:ص۱۴۰ –  ۱۵۱)جو حدیث(خبر واحد) صحیح اور حسن نہ ہو ُاسے ضعیف کہتے ہیں ۔یعنی اس میں صحیح اور حسن کی کل یا بعض شرائط نہیں پائی جاتیں ۔(ظفر الامانی:ص۱۷۸)حدیث ضعیف کا ضعف جب دور ہوجائے تو وہ حسن لغیرہ بنتی ہے۔جس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق نہ ہو؛بلکہ بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہو،بعض نے قوی کہا ہو اسے مضعف کہتے ہیں ۔یہ ضعیف سے اوپر کا درجہ ہے۔ (ارشاد الساری:۱؍۸،الغایۃ فی شرح الھدایۃ:۱؍۱۵۵) صحیح،حسن اور ضعیف تینوں میں سے ہرایک کے مختلف درجے ہیں ۔ حدیث (خبر واحد) کی بنیادی قسمیں تین ہیں :صحیح،حسن اور ضعیف۔باقی سب قسمیں ان تینوں میں داخل ہیں (مقدمہ شیخ عبد الحق:ص۱۸)

                شیخ ابن ہمام کہتے ہیں :ضعیف کے یہ معنی نہیں کہ یہ (متن)، نفس الامر میں باطل ہے؛بلکہ مطلب یہ ہے کہ محدثین کے ہاں معتبر شروط پر اس کا ثبوت نہیں ،اس کے ساتھ نفس الامر میں (اس متن کے ) صحیح ہونے کا احتمال رہتا ہے۔تو ہوسکتا ہے کوئی قرینہ ایسا مل جائے جو اس (مرجوح احتمال) کو ثابت (راجح ) کردے،اور یہ کہ ضعیف راوی نے اس معین متن کو صحیح طرح ادا کیا ہے،تو یہ حکم کردیا جائے گا۔(فتح القدیر:۱/۳۰۶،نیز دیکھیے:۲/۱۲۴)۔حدیث ضعیف کو اعتقادی اور عملی طور پر اس کے درجے پر رکھنا چاہیے۔نہ اس سے بڑھایا جائے اور نہ اس سے گھٹایا جائے۔ضعیف حدیث کے موضوع پر سب سے مفصل تحقیق شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ کے رسالے  حکم العمل بالحدیث الضعیف بین النظریۃ والتطبیق والدعوی میں ہے۔

                ۴: فقہاء واصولیین کے نقطئہ نظر سے حدیث صحیح کی تعریف کا جائز ہ: امام جصاص حنفی (م۳۷۰ھ) کہتے ہیں :فقہاء کا طریقہ (اصول )، احادیث کے قبول کرنے میں محدثین کا طریقہ نہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ فقہاء میں سے کسی نے احادیث کے قبول ورد کے سلسلے میں ان(محدثین)  کی طرف رجوع کیا ہو یا ان کے اصول کا اعتبار کیا ہو۔(شرح مختصر الطحاوی:۴/۲۴۴)  ابن دقیق عیدمالکی شافعی(م ۷۰۲ھ) کہتے ہیں حدیث صحیح کا دارومدار فقہاء اور اصولیین کے اصول کی رو سے راوی کی اس عدالت پرہے جو قبول شہادت کے لیے شرط ہے،جیسا کہ فقہ میں ثابت ہے۔اور ان میں سے جو مرسل کو قبول نہیں کرتے انھوں نے اتصال سند کی قیدبھی لگادی۔اور محدثین نے شاذ اور معلل نہ ہونے کی قیدیں بھی بڑھادیں ۔اور یہ دونوں شرطیں (عدم شذوذ وعلت)  فقہاء کے اصول کی رو سے محل تأمل ہیں ؛کیونکہ محدثین کی ذکر کی ہوئی بہت سے علتیں فقہاء کے اصول کی رو سے معتبر نہیں ہوتیں ۔(الاقتراح:ص ۲۱۵ – ۲۱۸،ت:قحطان عبدا لرحمن) قاضی ابو یعلی حنبلی (م۴۵۸ھ)کہتے ہیں : وہ (محدثین حدیث کو ) ایسی علتوں کی وجہ سے ضعیف قرار دیتے ہیں جن سے فقہاء کے نزدیک حدیث ضعیف نہیں ہوتی۔ جیسے ارسال،تدلیس،تفرد بالزیادۃ۔(العدۃ فی اصول الفقہ:۳/۹۴۱)

                 فقہاء اور اصولیین کے نزدیک صحیح کے لیے عدم شذوذ کی شرط نہیں ۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر:۱/۱۰۶)  حدیث صحیح کی تعریف میں اتصال سند کی قید اکثر محدثین کے مذہب کی بنا پر ہے۔ورنہ قرون ثلاثہ کی مرسل ہمارے فقہائے حنفیہ کے ہاں حجت ہے۔اسی طرح مرسل مالک اور کوفیین کے ہاں حجت ہے۔(امعان النظر:ص۴۷) جمہور فقہاء کے ہاں صحیح کے لیے اتصال سندکی شرط نہیں ۔برخلاف امام شافعی کے،اور جمہور محدثین نے اس بارے میں ان کی پیروی کی ہے۔ (الملخص فی اصول  الحدیث:ص۳۷) 

                سند کے اتصال و انقطاع کے بارے میں حنفیہ کے مذہب کی مزید تفصیل یہ ہے کہ سند میں سے جتنے بھی راوی محذوف ہوں ،اور جہاں سے بھی محذوف ہوں سب کو مرسل کہتے ہیں ۔(المدخل الی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ:ص۲۱۶،۲۱۷) یعنی متقدمین محدثین اور فقہاء واصولیین کی اصطلاح ہے۔جیسے نوع  ۴۰  –  ۴۵ میں گزرا۔نیز قرون ثلاثہ کے( ثقہ)راوی کا ارسال مقبول ہے،حدیث کے  صحیح ہونے کے خلاف نہیں ،اس سے حدیث ضعیف نہیں ہوتی الا یہ کہ اس کا  غیرثقہ سے ارسال کرنا ثابت ہوجائے۔اور قرون ثلاثہ کے بعد کے راوی کا ارسال مقبول نہیں الا یہ کہ وہ راوی ثقہ سے ہی روایت کرنے میں مشہور ہو۔(الفصول فی الاصول للجصاص الرازی :۳/۱۴۵ – ۱۴۷ مع التعلیق،ت:  عجیل جاسم،  نیز دیکھیے:فتح الملہم:۱/۹۱،۹۲،جامع التحصیل لاحکام المراسیل:ص۳۳)۔نیز تدلیس بھی ارسال کے حکم میں ہے اور اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو ارسال میں ہے ۔(المدخل الی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ:ص۲۲۹،نیز دیکھیے:الکفایۃ فی علوم الروایۃ:۱/۳۶۱)  بعض محدثین کا بھی تدلیس کے بارے میں وہی مذہب ہے جو حنفیہ اور مالکیہ کا ہے کہ جو ثقہ سے تدلیس کرے اس کی تدلیس مقبول ہے۔(المدخل الی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ:ص۲۳۰،۲۲۹ملخصا)۔حنفیہ کے ہاں قرون ثلاثہ کے راوی کے عادل ہونے کے لیے عدالت باطنی کا ثبوت ضروری نہیں ، عدالت ظاہری بھی کافی ہے،اور مجہول العدالۃ الباطنۃ بھی عادل سمجھا جائے گا، اور اسکی روایت مقبول ہوگی کسی قدر تفصیل کے ساتھ۔اور محدثین کی ایک جماعت  کے ہاں بھی مستور کی روایت مقبول ہے،حتی کہ صحیحین کے بہت سے روای بھی مستور ہیں ۔ اور قرون ثلاثہ کے بعد عدالت باطنی کا ثبوت ضروری ہے۔(المدخل الی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ:ص۶۴،۶۵،۷۱،۷۳،دراسات فی اصول الحدیث علی منہج الحنفیۃ:ص۱۸۱،۱۸۲،دراسات الکاشف:۱/۱۱۱)

                محدثین عدالت کی تعریف میں ملکہ کا ذکر کرتے ہیں ۔یعنی گناہوں اور خلاف مروت کاموں سے بچنے کی پختہ عادت۔فقہاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ان چیزوں سے بچنا کافی ہے،اگر چہ ملکہ نہ ہو،بلکہ مجاہدہ نفس سے بچے۔(تدریب الراوی:۲/۱۴۰،تعلیق،فواتح الرحموت:۲/۱۷۶،۱۷۷)

                ۵: قدماء محدثین کے نقطئہ نظر سے حدیث صحیح کی تعریف کا جائز ہ: مولانا شیخ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بہت سے قدماء محدثین کے عمل سے ظاہر یہ ہے کہ ان کے ہاں صحیح کے لیے عدم شذوذ وعلت کی شرط نہیں تھی۔اور نہ ہی ان کے ہاں  شاذ،منکر اور معلل کے (متأخرین کے) اصطلاحی فروق تھے۔(فتح الملہم:۱/۱۳۲)

                ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :سند جب متصل ہواور اس کے سب راوی عادل ضابط ہوں تو علل ظاہرہ کی نفی ہوگئی۔پھر جب اس کے معلول ہونے کی بھی نفی ہوگئی توا سے صحیح قرار دینے سے کیا مانع ہے ؟پس صرف اتنی بات کہ ایک راوی نے اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کی ہے،یا اپنے سے زیادہ تعداد کے رواۃ کی مخالفت کی ہے،اس (مخالفت کرنے والے کی حدیث کا) ضعیف ہونا لازم نہیں آتا؛بلکہ یہ صحیح اور اصح کی قبیل سے ہوگا۔ابن حجر کہتے ہیں کہ اس کے باوجود مجھے ائمہ حدیث میں سے کسی سے(صحیح کے لیے )، شذوذ کی نفی کی شرط نہیں ملی۔محدثین نے اس صورت میں بعض کو بعض پر صحت میں مقدم کیا ہے۔اور اس کی مثالیں صحیحین وغیرہ میں موجود ہیں ۔اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں اور ہر (حدیث) صحیح پر عمل ہونا ضروری نہیں ۔اور اگر یہ مان لیا جائے کہ مخالف مرجوح کی حدیث صحیح نہیں کہلاتی،تو پھر بھی اس (شذوذ)کی نفی کو حدیث کی صحت کی شرط ٹھہرانا محل تأمل ہے؛بلکہ جب شروط مذکورہ (رواۃ کی عدالت وضبط وعدم علل )پائی جائیں تو حدیث کو صحیح قرار دیا جائے گا جب تک شذوذ ثابت نہ ہو؛کیونکہ اصل عدم شذوذ ہے؛کیونکہ راوی عادل وضابط ہے، تو اصل یہی ہے کہ اس نے اپنی روایت کو یاد رکھا ہے،یہاں تک کہ اس کے خلاف ثابت ہوجائے۔(تدریب الراوی: ۲/۱۴۹ – ۱۵۳ ملخصا) امام ابودائود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (حدیث)مرسل سے،پہلے علماء دلیل لیتے تھے،جیسے سفیان ثوری،مالک بن انس اوراوزاعی،حتی کہ امام شافعی نے آکر اس پر کلام کیا۔(رسالۃ ابی دائود:ص۵،ت:کوثری،  مرسل کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:فقہ اھل العراق وحدیثھم:ص۳۲ – ۳۴،تدریب الراوی:۲/۱۴۱ – ۱۴۸،تعلیق)

                ۶: اسناد صحیح نہ ہو،تو تلقی بالقبول کی وجہ سے بھی حدیث صحیح قرار دی جاتی ہے۔(تدریب الراوی:۲/۱۵۴،الباعث الحثیث:۱/۳۶)

                ۷:حافظ ابن حجر کہتے ہیں :(حدیث) صحیح کی تعریف میں (ایک قید کا) اضافہ ہونا چاہیے۔ یوں کہنا چاہیے: وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو،عدل تام الضبط کے، یا قاصر الضبط کے اپنے جیسے سے نقل کرنے کے ساتھ آخر تک،اوروہ شاذ ومعلل نہ ہو۔یہ میں نے اس لیے کہاہے کہ میں نے صحیحین کی بہت سی احادیث کا جائزہ لیا تو اس قید کے بغیر ان پر صحیح ہونے کا حکم نہیں لگتا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح:۱/۴۱۷)

                ۸:صحیح حدیث کی تقسیم سبعی: کتب فن میں حدیث صحیح کی ایک تقسیم سبعی مشہور ہے۔یعنی یہ کہ۱: سب سے اعلی مرتبے کی صحیح حدیث وہ ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے ذکر کیا ہو(اپنی اپنی صحیح میں)،۲:پھر جسے صرف امام بخاری نے ذکر کیا ہو،۳:پھر جسے صرف امام مسلم نے ذکر کیا ہو،۴:پھر جو امام بخاری ومسلم دونوں کی شرط پر ہو،(اور اپنی کتاب میں انھوں نے ذکر نہ کی ہو)،۵:پھر جو امام بخاری کی شرط پر ہو،۶:پھر جو امام مسلم کی شرط پر ہو،۷:پھر جو ان دونوں کے علاوہ کسی کے نزدیک صحیح ہو،او ر ان دونوں کی شرط پر نہ ہو۔

                یہ تقسیم ابوحفص میانجی (م۵۸۳ھ) کے رسالے  مالایسع المحدث جھلہ سے مأخوذ معلوم ہوتی ہے۔اور ان سے پہلے کسی کے کلام میں نہیں دیکھی۔ابن جوزی نے موضوعات کے مقدمے میں اس طرح کی ایک تقسیم سُداسی ذکر کی ہے مطلق حدیث کی۔شاید انھوں نے میانجی کی تقسیم کو بنیاد بنایا ہو۔پھر ابن صلاح نے آکر حدیث صحیح کی یہ سات قسمیں کردیں اور یہ تقسیم پھیل گئی اور مقبول سمجھی جانے لگی؛لیکن درحقیقت یہ سب تقسیمات کمزوریوں اور خرابیوں سے خالی نہیں (دیکھیے: الفوائد المستمدۃ من تحقیقات العلامۃ الشیخ عبد الفتاح أ بی غدۃ فی علوم مصطلح الحدیث:ص۱۲۱ – ۱۳۶ )

                ۹:جرح وتعدیل اور تصحیح وتضعیف کا آخری فیصلہ فقیہ مجتہد یا محدث کے ذوق اور بصیرت سے ہوتا ہے،اور اس بارے میں نری قواعد بازی کافی نہیں ۔اسی ذوق اور وجدان کی شہادت کی وجہ سے کتب میں لکھے ہوئے قواعدبسا اوقات اکثری یا اس سے کم درجے کے رہ جاتے ہیں ۔ (دیکھیے: تدریب الراوی:۴/۴۹،۵۰ح۳،بذل المجہود:۲۰/۲۴۲،المدخل الی علوم الحدیث الشریف:ص ۱۶۱ – ۱۶۴)  اور اس میں بھی فقہاء کا معیار محدثین کے معیار سے مختلف ہے۔چنانچہ امام ابن دقیق عید (م۷۰۲ھ)  اپنی کتاب  الالمام باحادیث الاحکام  کے خطبے میں فرماتے ہیں :اس کتاب میں میری شرط یہ ہے کہ میں وہی حدیث لائو ں گا جو محدثین یا فقہاء کے طریقے (اصول )پر صحیح ہو؛کیونکہ ان دونوں کا طریقہ ایک دوسرے سے جدا ہے،اور ہر ایک میں خیر ہے۔(الالمام باحادیث الاحکام:۱/۴۷ملخصا)  لہٰذا ہمارے لیے سلامتی اس میں ہے کہ راوی اور مروی کے بارے میں محقق اہل علم کے اقوال نقل کرنے کی حد تک رہیں ،فقہاء کے طریقے پر یا محدثین کے طریقے پر،جیسا کہ فروع فقہیہ کے فتاوی میں فقہاء کے کلام سے صریح جزئیات ذکر کی جاتی ہیں ۔

                ۱۰:راوی کی ثقاہت یا ضعف یا روایت کا صحیح یا ضعیف ہونا اگر کسی اصل مختلف فیہ پر مبنی ہوتو اس کا ذکر کرنا چاہیے کہ فلاں کے اصول کی رو سے یہ حکم ہے۔اور دوسروں کے نزدیک یہ حکم ہے۔ اس کا ایک نمونہ ابن جریر طبری ( ۲۲۴  –  ۳۱۰ھ) کی تہذیب الآثار میں جابجا اس طرح کا عنوان نظر آتا ہے:   ذکر ماصح عندنا سندہ  من حدیث کذا (فلاں حدیث جس کی سند ہماری رائے میں صحیح ہے اس کا ذکر) القول فی علل ہذا الخبر: وہذا الخبر عندنا صحیح سندہ لاعلۃ فیہ توہنہ ولاسبب یضعفہ، وقد یجب ان یکون علی مذہب الآخرین سقیما غیر صحیح  لعلل احداھا۔۔۔،  (اس حدیث کی علل کی وضاحت: اور اس حدیث کی سند ہمارے نزدیک صحیح ہے،اس میں کوئی کمزوری اور خرابی نہیں ہے، اوردوسروں کی رائے کی بنا پر اسے ضعیف غیرصحیح ہونا چاہیے،ان خرابیوں کی وجہ سے۔پہلی یہ کہ۔۔۔) (مثلا دیکھیے قسم اول: ص۱۰،۱۱،۸۵، ۱۲۰،۱۵۵،۱۶۳،۲۲۵،۲۲۶،۲۳۹۔مطابع الصفا،مکۃ المکرمۃ،ت:ناصر بن سعد،ط:۱۴۰۴ھ)  اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل اجتہاد کے لیے اس باب میں اختلاف رائے کی کتنی گنجائش ہے۔اور یہ کہ اجتہادیات کے دلائل میں وسعت نظر اور تحمل سے کام لیا جاتا ہے۔اور یہ کہ مختلف فیہا اصول کو سب پر لاگو نہیں کیا جاسکتا۔اس بارے میں مزید تفصیل بندہ نے اپنے دوسرے مضمون۔محدثین اور فقہاء کے اصول حدیث کا تقابلی جائز ہ۔میں ذکر کی ہے۔یہ مضمون مجلہ صفدر نمبر ۱۱۱،۱۱۲میں شائع ہوا تھا۔اور پھر معمولی ترمیم کے ساتھ المصباح سے مطبوع خیرالاصول کے آخر میں بھی شامل ہے

                (۷۱-۷۵) المتواتر والمشہور والعزیزوالغریب والفرد: محدثین متواتر سے بحث نہیں کرتے،بلکہ فقہاء اور اصولیین کے حوالے کرتے ہیں ۔(مأخذہ: تدریب الراوی: ۵؍۲۷، ۲۸، نزہۃ النظر:ص۴۵) حنفیہ کے ہاں (سنت کی ثبوت کے لحاظ سے ) بنیادی طور پر تین قسمیں بنتی ہیں :متواتر،مشہور اور خبر واحد۔پہلی قسم تینوں زمانوں (صحابہ،تابعین،تبع تابعین) میں حد تواتر کو پہنچتی ہے۔دوسری قسم آخری دونوں زمانوں میں حد تواتر کو پہنچتی ہے۔اور تیسری قسم پہلے دونوں زمانوں میں حدتواتر کو نہیں پہنچتی۔اور جمہور کے ہاں دو قسمیں بنتی ہیں :متواتر،خبر واحد۔ (مأخذہ: الوجیز فی اصول الفقہ للزحیلی:ص۳۶،۳۷) تواتر کی چار قسمیں ہیں :۱:تواتر طبقہ:جیسے قرآن مجید کا تواتر۔۲:تواتر عمل:جیسے وضو میں مسواک۔۳:تواتر قدر مشترک:مختلف الفاظ میں مروی متون کا قدر مشترک حد تواتر کو پہنچے۔اسے تواتر معنوی بھی کہتے ہیں ۔۴:تواتر اسناد۔مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں ان چاروں قسم کے تواتر کی جزئیات اہل علم کے کلام میں منتشر تھیں اور تواتر کی قسموں میں ان کا ذکر نہیں ملتا تھا۔ہمارے علم کے مطابق سب سے پہلے ان قسموں کو اکٹھا کرکے الگ الگ نام حضرت انور شاہ قدس سرہ نے دیے ہیں ۔او ریہ بڑی عمدہ تقسیم ہے۔(دیکھیے:فتح الملہم:۱؍۱۷ –  ۱۹،احسن الخبر لمولانا حسن جان:ص۲۰،۲۱،نیز تعامل کی اہمیت کے لیے دیکھیے:الامام ابن ماجۃ وکتابہ السنن:ص۸۱  –  ۹۰ مع حواشی الشیخ أبی غدۃ)

                محدثین خبر واحد کو عددِ رُواۃ کے لحاظ سے تین قسموں میں تقسیم کرتے ہیں :غریب،عزیز اور مشہور۔مشہور ائمہ سے نقل کرنے والا اگر صرف ایک راوی ہوتو اسے غریب کہتے ہیں ،اور اگر دو یا تین ہوں تو عزیز، اور اگر کم از کم چار ہوں تو مشہور کہتے ہیں ۔(مأخذہ: الملخص فی اصول الحدیث: ص۲۹، ۳۰  مع حواشی ) غریب کی دوقسمیں ہیں : اگر کوئی حدیث صرف ایک ہی سند سے مروی ہوتو اسے فرد مطلق کہتے ہیں ۔اور اگر کئی سندوں سے مروی ہو لیکن کسی خاص سند کے اعتبار سے اس میں غرابت ہوتو اسے فرد نسبی کہتے ہیں ۔(مصدر سابق:ص۳۱)  فر د اور غریب دونوں لغتاً اور اصطلاحاً مترادف ہیں ؛البتہ کسی قدر فرق ان میں کیا جاتا ہے۔(دیکھیے:الغایۃ فی شرح الہدایۃ:ص۱۸۷)

                (۷۶،۷۷)  المتابع والشاہد:  جوحدیث دوسری کے موافق ہو لفظاً اور معنیً دونوں طرح یا صر ف معنی میں ،اور دونوں ایک ہی صحابی سے مروی ہوں اسے متابع کہتے ہیں ۔اور اگر کسی اور صحابی سے مروی ہوتو اسے شاہد کہتے ہیں ۔ایک جماعت نے متابع میں لفظی موافقت کا اعتبار کیا ہے،چاہے صحابی راوی ایک ہو یا نہ۔اور شاہد میں معنوی موافقت کا اعتبار کیا ہے،چاہے صحابی راوی ایک ہو یانہ۔متابع اور شاہد ایک دوسرے کی جگہ بھی بولے جاتے ہیں ۔متابع کی تلاش کے لیے سندیں تلاش کرنے کا عمل اعتبار کہلاتا ہے۔(نزہۃ النظر:ص۷۳ –  ۷۵ملخصا)

۴:  صرف متن سے متعلق انواع :  ۷۸  –  ۸۴

                (۷۸)  غریب الحدیث:متن حدیث کے جس لفظ کے معنی واضح نہ ہوں اسے غریب الحدیث کہتے ہیں ۔اس نوع کی بہترین کتب میں ابن اثیر(م۶۰۶ھ) کی النہایہ فی غریب الحدیث والاثر اور محمد طاہر پٹنی (م۹۸۶ھ) کی مجمع بحار الانوار ہے۔ یہ کتاب غریب القرآن والحدیث کی جامع ہے۔(مأخذہ: تدریب الراوی:۵؍۶۵،۶۸مع تعلیق)

                (۷۹)  اسباب ورود الحدیث:اس نوع پر سب سے جامع کتاب ابن حمزہ (۱۱۲۰ھ) کی البیان والتعریف فی اسباب ورود الحدیث ہے۔

                (۸۰ – ۸۴) محکم الحدیث ومختلف الحدیث ومشکل الحدیث وناسخ الحدیث ومنسو خہ: جس حدیث کے کوئی دوسری حدیث معارض نہ ہو اسے محکم الحدیث کہتے ہیں ۔(مأخذہ: نزہۃ النظر:ص۷۶) اگر دو یا زائد حدیثوں کے معنی میں تعارض ہوتو اسے مختلف الحدیث کہتے ہیں ۔اوراگر حدیث کا کسی دوسری دلیل شرعی (حدیث یا غیر حدیث )سے تعارض ہو تو اسے مشکل الحدیث کہتے ہیں ۔یہ مختلف الحدیث سے اعم ہے۔امام طحاوی کی شرح معانی الآثار  مختلف الحدیث کے موضوع پر ہے، اور یہ ان کی پہلی تصنیف ہے۔ اور شرح مشکل الآثا ر مشکل الحدیث کے موضوع پر ہے،یہ ان کی آخری تصنیف ہے۔ رفع تعارض ان ائمہ کا کام ہے جو حدیث اور فقہ کے جامع ہیں اور ان اصولیین کا کام ہے جو معانی کی گہرائی تک پہنچتے ہیں ۔(تدریب الراوی: ۵؍۱۱۴ – ۱۱۷مع تعلیق)

                رہی یہ بات کہ ا س حدیث کا کوئی معارض ہے یا نہیں ؟سو یہ بات دلائل شرعیہ کے استقراء سے معلوم ہوتی ہے،اور یہ کام مجتہد کا ہے،غیر مجتہد کا استقراء معتبر اور کافی نہیں ۔ (دیکھیے:اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاء للشیخ محمد عوامۃ:ص۳۹ –  ۵۲) حاکم کہتے ہیں شاید کسی کو یہ وہم ہو کہ ایک صحیح حدیث کے معارض دوسری صحیح حدیث نہیں ہوتی ! اسے چاہیے کہ صحیح مسلم میں غور کرے،اس طرح کی مثالیں اتنی کثرت سے ملیں گی کہ جی بھر جائے گا۔(المستدرک علی الصحیحین:۱؍۳۴۹)  اور بہت سی صحیح احادیث کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوتے۔(ظفر الامانی:ص۴۵۸) اور عامی کے لیے(براہ راست ) ظاہر حدیث پر عمل کرنا درست نہیں ہوتا،مصروف عن الظاہر یا منسوخ ہونے کے احتمال کی وجہ سے؛بلکہ عامی کا کام مفتی کے فتوی پر عمل ہے۔(المبسوط للسرخسی:۳؍۸۰)

                حازمی نے ۵۰؍ وجوہ ترجیح ذکر کی ہیں ۔عراقی نے انھیں ۱۱۰ ؍تک پہنچایا ہے اور ۱۱۰ ویں نمبر پر یہ وجہ ترجیح ذکر کی ہے کہ کسی حدیث کے اخراج پر شیخین(امام بخاری ومسلم ) کا اتفاق ہو۔ اور شوکانی نے ۱۶۰ ؍تک پہنچایا؛لیکن ان میں بھی انحصار نہیں ۔مدار مجتہد کے ظن پر ہے۔(تدریب الراوی:۵؍۱۲۳ – ۱۳۲مع تعلیق) بسا اوقات دونوں جانب کے دلائل کو بعض بعض وجوہ سے ترجیح ہوتی ہے،ایسی صورت میں دیکھا جاتا ہے کہ کس جانب زیادہ قوی  وجوہ ترجیح ہیں ؟ مثلا حنفیہ کے ہاں کسی حدیث کے معنی کا اوفق بالقرآن ہونا اقوی وجوہ ترجیح میں سے ہے۔اگرچہ دوسری جانب زیادہ قوی یا عالی سند ہو؛کیونکہ قرآن مجید کے الفاظ بعینہا محفوظ ہیں ،برخلاف حدیث شریف کے،کہ روایت بالمعنی کے شیوع کی وجہ سے یقینا نہیں کہہ سکتے کہ آپ  ﷺ نے یہی الفاظ ارشاد فرمائے ہوں ،لہٰذا جو معانی الفاظ قرآن کے زیادہ قریب ہوں ان کا راجح ہونا بدیہی قطعی ہے۔ (دیکھیے:اوجز المسالک:۲؍۹۵،۹۶،اختلاف ائمہ:ص۴۵،۸۳،۸۴،تقریر بخاری:۱؍۱۲۷،۱۲۸،حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ،انعام الباری: ۱؍۱۱۷ –  ۱۲۰) ایسے ہی شریعت کے قواعد کلیہ کے موافق ہونا بھی خبر واحد کے لیے بہت قوی وجہ ترجیح ہے۔(دیکھیے:درس ترمذی:۱؍۸۶)

                علوم الحدیث کی سب انواع کا ثمرہ دو چیزیں ہیں :۱:یہ معلوم ہوجائے کہ حدیث ثابت ہے یانہیں ؟اور ثبوت وعدم ثبوت کا کیا درجہ ہے ؟۔۲:حدیث کے معنی کیا ہیں ؟۔حدیث کے ثبوت اور دلالت کی بحث میں محدثین کے ساتھ ساتھ فقہاء اور اصولیین کا کلام بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے،اس کے بغیر سب پہلو واضح نہیں ہوتے۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12، جلد:106‏، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء

Related Posts