از: مولانا انصاراللہ قاسمی، مبلغ مجلس تحفظ ختم نبوت، اے پی
اللہ تعالیٰ نے اس دین اسلام کوکامل ومکمل فرمادیا (المائدہ) تمام انسانوں کی نجات وکامیابی اسی دین اسلام کی اتباع و پیروی میں ہے، اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب سے وابستگی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں (آل عمران) دینِ اسلام کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا (الحجر) اسلام کے عقائد ونظریات اور تعلیمات میں بھی ردوبدل اور الٹ پھیر کرنے کی کوششیں وسازشیں کی گئیں،اس کے بعض خاص بنیادی تصورات، توحید، رسالت، ختم نبوت، آخرت، جنت وجہنم، ملائکہ، معجزہ وغیرہ میں مختلف گمراہ تعبیرات وتشریحات کے ذریعہ ان کی حقیقت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور اس کا ذمہ لیا ہے، اوراس کے پیچھے پورا خدائی نظام کارفرماہے اس لیے یہ کوششیں اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوگئیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
خدائی نظام کے تحت دین حق کی حفاظت کے سلسلہ میں ایک اہم مورچہ اور مضبوط ومستحکم دستہ علماء حق کا گروہ ہے، اختلاف وفرقہ بندی کی شکل میں، خوبصورت و خوشنما تعبیرات وتشریحات کی صورت میں، عقل وفلسفہ کی راہ سے غرض یہ کہ جن جن پہلوؤں سے اسلام کی حقیقت اور حقانیت پر حملہ کرنے اور اس کے حفاظتی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوششیں کی گئیں، ان کوششوں کا رخ پھیرنے اور ان کی کایا پلٹنے میں بنیادی اور مرکزی کردار علماء حق کے اسی مورچہ و دستہ نے ادا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بحمل ہٰذا العلم من کل خلفٍ عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاہلین․ (مشکوٰة:۳۶، کتاب العلم)
عادل اور ثقہ لوگ اس علم کو حاصل کریں گے جو غلوپسندوں کی تحریف، باطل پرست لوگوں کے غلط استدلال اور جاہلوں کی تاویلات کو اس دینی علم سے دور کریں گے۔
علماء انبیاء کے وارث اس معنی پر ہیں کہ وہ انبیاء کے مشن وپیغام کے علمبردار ہیں اور ان کے دینی ودعوتی سرمایہ کے نگہبان ونگراں ہیں، علماء کو چراغ اس لیے کہا گیا کہ چراغ کا کام خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچانا ہے، پھر یہ کہ دنیا کا دستور وقانون ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اعلیٰ عہدہ ومنصب کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل نہیں کرتا تو وہ شخص اپنے عہدہ ومنصب سے معطل وبرطرف کردیا جاتا ہے۔
اس وقت فتنہٴ قادیانیت اپنے ناپاک عزائم اور خطرناک منصوبوں کے ساتھ پوری طرح سرگرم ہے، شہری ودیہی علاقوں میں اس فتنہ کے ہم نوا اور ہم خیال اپنی گمراہ وباطل سرگرمیوں ․․․ عوامی اجتماعات، رفاہی خدمات، لٹریچر کی نشرواشاعت وغیرہ ․․․ کے ذریعہ کفر وارتداد کے سوداگر اور مسلمانوں کے عقیدے و ایمان کے غارت گر بنے بیٹھے ہیں۔
قادیانیت دراصل جھوٹی نبوت کا فتنہ ہے، نبوت محمدی کے مدمقابل جھوٹی نبوت کی دعوت اور اس کا پرچار ایک باحمیت مسلمان کے لیے ہرگز ناقابل برداشت ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل ہمارے سامنے ہے، جس وقت جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے قاصد اس کا خط لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تم دونوں اس کے دعویٴ نبوت کو تسلیم کرتے ہو ان قاصدوں نے ”ہاں“ میں جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا قانون نہ ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کروادیتا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت و رسالت کے تعلق سے کتنی غیرت وحمیت تھی، اسی لیے مسیلمہ کے خط کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ”کذاب“ (بہت بڑا جھوٹا) کا سخت ترین جملہ اور لقب لکھا وہ اسی غیرت وحمیت کا اظہار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی میں کبھی اتنا سخت ترین جملہ نہیں فرمایا جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گذرتی یا ناراضگی کا سبب بنتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا فرماتے کہ مابال الناس لوگوں کو کیا ہوگیا، یا ما بال فلان، فلاں شخص کو کیا ہوگیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور مسیلمہ کذاب کا کام تمام کیاگیا، اس جنگ میں ۷۰/حفاظ و قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، صحابہ کرام صرف قرآن کے حافظ وقاری ہی نہیں بلکہ عالم بھی ہوا کرتے تھے، اس جنگ میں ایک بڑی تعداد میں علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت گویا بعد کے آنے والے علماء امت کے لیے پیغام تھی کہ جب کبھی اور جہاں کہیں جھوٹی نبوت کا فتنہ پیدا ہوگا اس کے مقابلہ کے لیے سب سے آگے علماء کو رہنا ہوگا اور انھیں قربانی دینی ہوگی، اس جنگ میں ۱۲/سو صحابہ کرام شہید ہوئے، موٴرخین نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں اور کفار کے مظالم سے شہید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کل تعداد ۲۵۹ ہے اور صرف مسئلہ ختم نبوت کے لیے بارہ سو صحابہ کرام شہید ہوئے، اندازہ لگائیے کہ جھوٹی نبوت کا فتنہ اتنا سنگین اور خطرناک ہے کہ اس کی سرکوبی اور بیخ کنی کے لیے اسلام کو اپنے مایہ ناز سپوتوں اور برگزیدہ ہستیوں کی ایک بڑی تعداد کو قربان کرنا پڑا۔
موجودہ دور میں جھوٹی نبوت کے فتنہ کی ایک معروف اور واضح شکل قادیانی فرقہ ہے، ماضی قریب میں ہمارے اکابر اور بزرگ علماء کرام جن کے ہم نام لیوا ہیں، جن کے ہم خوشہ چین ہیں، بالواسطہ وبلاواسطہ جن سے تلمذ پر ہمیں فخر ہے، اس فتنہ کے سدباب اور تدارک کے لیے تاریخ ساز خدمات انجام دئیے اوراس سلسلہ میں بالواسطہ وبلاواسطہ اپنے شاگردوں و خوشہ چینوں کے لیے نمونہ عمل چھوڑا، محدث عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی اخیر زندگی میں اس فتنہ کے خلاف جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، قادیانیت کی سرکوبی آپ رحمہ اللہ کی زندگی کا مقصد ومشن بن گئی تھی، نہ صرف آپ اس فتنہ کے خاتمہ کے لیے کمربستہ ہوگئے تھے بلکہ اس کے پیچھے اپنے مایہ ناز شاگردوں کی پوری ایک ٹیم لگادی تھی، قادیانیت کے خلاف آپ کا وہ محققانہ اور فاضلانہ معرکة الآرا عدالتی بیان جو چار دن تک بھاولپور کی عدالت میں جاری رہا، آج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے، اس بیان نے ایک انگریز عدالت کے ذریعہ قادیانیت کے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے پر مہرثبت کردی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اپنے مرض الوفات کے دوران دیوبند کی جامع مسجد میں طلبہ وعلماء کے بھرے مجمع میں کہا کہ:
”میں سمجھتا ہوں کہ میرے تدریسی دور میں کم ازکم دو ہزار طلبہ مجھ سے حدیث کے چند حروف پڑھے ہیں، ان تلامذہ حدیث سے صرف اتنی گذارش کروں گا کہ خدا کے واسطے تحفظ ختم نبوت کیلئے اپنی علمی و عملی توانائیاں صرف کردیں، اگر اس محاذ پر انھوں نے کوتاہی کی تو میں حشر کے میدان میں ان کا دامن گیرہوں گا۔“ (آخری پیغام:۲۶)
بھاولپور کے مقدمہ کے موقع پر ایک مسجد میں خطاب کے دوران آپ رحمہ اللہ نے کہا کہ ”ہم پر یہ بات کھل گئی کہ گلی کاکتا ہم سے بہتر ہے اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت نہ کرسکیں۔“
دارالعلوم ندوة العلماء کے بانی حضرت مولانا محمد علی مونگیری، خانقاہ مونگیر بہار کے سجادہ نشین گذرے ہیں، ریاستِ بہار میں قادیانیت کی بڑھتی ہوئی یورش اور یلغار نے انھیں بے چین و بے قرار کردیا، اس کے سدباب اور خاتمہ کے لیے آپ ہمہ تن مشغول ہوگئے، حتی کہ تہجد جیسے خاص عبادت کے موقع پر بھی آپ کا وقت قادیانیت کی تردید میں کتب ورسائل کی تصنیف وتالیف میں گذرتا تھا، آپ فرمایا کرتے تھے کہ ”قادیانیت کے خلاف اتنا لکھواور اتنا طبع کراؤ اور اس طرح تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح سوکر اٹھے تو اپنے سرہانے ردقادیانیت کی کتب پائے“ آپ رحمہ اللہ کے یہاں مولوی نظیر احسن بہاری مسودات کی تبیض پر مامور تھے، دونوں پیر مفلوج تھے، جب کبھی ان سے کام میں تاخیرہوتی تو فرماتے کہ مولوی صاحب محنت سے کام کرو، تمھیں جہاد کا ثواب ملے گا، ایک مرتبہ انھوں نے پوچھ لیا کہ کیا مجھ کو جہاد بالسیف کا ثواب ملے گا؟ مولانا مونگیری رحمہ اللہ نے برجستہ جواب دیا کہ ”بے شک اس فتنہٴ قادیانیت کا استیصال جہاد بالسیف سے کم نہیں“
دیہی علاقوں میں محرم کے موقع سے علموں کی رسم اور ماہ ربیع الاوّل کی مناسبت سے مولود شریف کے جلسے اور دیگر رسوم وروایات مسلمانوں کی ملّی شناخت اور مذہبی تشخص کا ذریعہ ہیں، اس سلسلہ میں اکابر علماء کرام کا مزاج یہ تھا کہ ان رسوم و روایات کو صحیح رخ دے کر ان مواقع کو مسلمانوں کی اصلاح کاذریعہ بنایا جائے اور کم از کم ان رسوم و روایات کے حوالہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی مذہبی شناخت و پہچان کا جو احساس ہے اس کو مضبوط کیا جائے اوراس کی حفاظت کا شعور ان کے اندر پیدا کیا جائے، اس خصوص میں حضرت مولانا محمد علی مونگریری رحمہ اللہ اپنے ایک مسترشد اور مجاز بیعت مولانا عبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ کو قادیانیت کے سدباب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں:
”مولود شریف کے جلسے کراؤ اوران کے (مرزا صاحب اور ان کے ساتھی) حالات بیان کرو، جس مقام کے لوگ غریب ہیں ان سے کہو کہ تم (صرف) سنو، شیرنی وغیرہ کی کچھ ضرورت نہیں، میں تمام محبین سے کہتا ہوں کہ وہ تمہاری مدد کریں۔“
غرض یہ کہ حضرت مولانا مونگیری رحمہ اللہ نے چین کی نیند نہیں سوئے اور سکون واطمینان کا سانس نہیں لیا تاآنکہ پوری ریاست بہار سے قادیانیت کا صفایا نہ فرمادیا، صرف بہار ہی میں نہیں بلکہ حیدرآباد دکن بھی حضرت مولانا انور اللہ فاروقی صاحب رحمہ اللہ (بانی جامعہ نظامیہ) کو باضابطہ خطوط لکھ کر قادیانیت کی سرکوبی کی طرف توجہ دلائی۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے شیخ حضرت عبدالقادر رائپوری رحمہ اللہ سے ایک دفعہ مولانا لال حسین اختر رحمہ اللہ (سابق قادیانی) پوچھا کہ حضرت کوئی وظیفہ بتادیجئے! حضرت رائپوری رحمہ اللہ نے فرمایا: ”ختم نبوت کا کام کرتے رہو تمہارے لیے یہی وظیفہ ہے۔“
فتنہٴ قادیانیت کے سدباب کے سلسلہ میں حسب ذیل تدابیر اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
جو علماومدارس کے ذمہ دار اور نظماء ہیں:
۱- مدرسہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ختم نبوت کے موضوع پر خصوصی خطاب رکھا جائے۔
۲- اپنے ادارہ/ مدرسہ کی حیثیت و گنجائش کے لحاظ سے مدرسہ کے اطراف دیہاتوں میں مکاتب کے قیام کی ذمہ داری لیں۔
۳- چہارم عربی کے بعد عالمیت کے نصاب میں ختم نبوت اور فتنہٴ قادیانیت کو مستقل مضمون کی حیثیت سے شامل کریں۔
۴- مدرسہ میں طلبہ کی انجمنوں کے تحت ختم نبوت اور قادیانیت کے موضوع پر تحریری وتقریری مسابقے منعقد کیے جائیں اور ان میں شرکاء کی ہمت وحوصلہ افزائی کے لیے پرکشش انعامات رکھے جائیں۔
۵- مدرسہ میں نئے فارغین اور فضلاء کو ”سند فضیلت“ کے حصول کے سلسلہ میں ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں ایک سال تک دینی خدمات کی انجام دہی کو لازم اور ضروری قرار دیا جائے۔
۶- موقع بہ موقع اپنے ادارہ / مدرسہ میں ختم نبوت کے موضوع پر بیانات رکھے جائیں اور بڑی جماعتوں کے طلبہ کے لیے سال میں ۳/تربیتی کیمپ رکھے جائیں۔
۷- مدرسہ کے بڑے طلبہ یا دارالاقامہ میں مقیم اساتذہ کو جمعہ کے خطبہ کے لیے مدرسہ کے اطراف دیہاتوں میں روانہ کیا جائے یہ گاؤں دیہات کے لوگوں سے رابطہ کا انقلابی قدم ہوگا اور فتنوں کے سدباب کے لیے دفاعی کے بجائے اقدامی عمل ہوگا۔
۸- مدرسہ کی جانب سے شائع ہونے والے ماہنامہ میں چند صفحات ختم نبوت اور قادیانیت سے متعلق مضامین کے لیے مختص کیئے جائیں، اس کے علاوہ طلبہ کی جانب سے نکالے جانے والے ”دیواری پرچوں“ میں بھی اس کو خاص اہمیت دی جائے۔
۹- اپنے مدرسہ / ادارہ کے اطراف علاقوں سے متعلق ضروری اور اہم بنیادی معلومات کا سروے ریکارڈ اپنے یہاں رکھیں کہ اس کی روشنی میں وہ قادیانیت اور دیگر باطل و گمراہ فتنوں کی دراندازی کا بآسانی علم ہوسکے اور وہ سہولت و منصوبہ بندی کے ساتھ ان کا سدباب کرسکیں۔
جو علماء درس و تدریس سے وابستہ ہیں:
۱- تدریس کے دوران ختم نبوت کے موضوع پر طلبہ کی خصوصی ذہن سازی کی جائے۔
۲- جو طلبہ مضمون نگاری کا ذوق رکھتے ہیں ان سے ختم نبوت کے موضوع پر مضامین لکھوائیں۔
۳- ہفتہ میں کسی ایک دن اس موضوع پر طلبہ کے درمیان سوال وجواب کا سیشن رکھا جائے۔
جو علماء امامت وخطابت سے وابستہ ہیں:
۱- جمعہ کے خطبوں میں موقع بہ موقع اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔
۲- اپنی مسجد میں ختم نبوت کے موضوع پر مہینہ دو مہینہ میں ایک مرتبہ عوامی اجتماع رکھیں۔
۳- ماہ ربیع الاول میں اس موضوع پر سلسلہ وار خطاب کریں۔
۴- عوامی درس قرآن، درسِ حدیث میں اس موضوع پر گفتگو کی جائے۔
۵- کسی کسی موقع سے اس موضوع پر عام فہم انداز اور آسان زبان میں لکھی گئی کتابیں بھی اجتماعی طور پر سنائی جاسکتی ہیں۔
جو علماء مضمون نگاری اور افتاء کی ذمہ داری سے وابستہ ہیں:
۱- موقع بہ موقع اس موضوع پر قلم اٹھائیں۔
۲- قادیانیت سے متعلق فرضی سوالات قائم کئے جائیں اور ان کے جوابات لکھے جائیں۔
۳- آسان زبان اور عام فہم انداز میں دعوتی نقطئہ نظر سے اس موضوع پر ”مختصر مفید“ رسائل تیار کیئے جائیں۔
قادیانیت کی بڑھتی ہوئی ناپاک سرگرمیاں، اس کی ریشہ دوانیاں اس میدان میں اسلاف کی قربانیاں اور اس کے متعلق علماء امت کی ذمہ داریاں سب مل کر ہم سے سرگوشی کررہے ہیں کہ ہے کوئی جو اپنے دل میں سوز صدیق لے کر ”اینقص الدین واناحی“ (دین میں کمی ہوجائے اور میں زندہ رہوں) کا نعرئہ مستانہ لگاکر جھوٹی نبوت کے خاتمہ کے لیے میدانِ عمل میں بلاخوف وخطرکود پڑے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 91 ، رجب -شعبان 1428 ہجری مطابق اگست2007ء