از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی، استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ
یہ تو ہشت سالہ عربی نصاب تعلیم پر ایک نظر تھی، دارالعلوم دیوبند میں دورہٴ حدیث سے فراغت کے بعد فضیلت کی سند دی جاتی ہے اس کے بعد کچھ خصوصی درجے بھی قائم ہیں مثلاً تکمیل افتاء، تدریب علی الافتاء، تکمیل تفسیر، تکمیل علوم، تکمیل ادب، تخصص فی الادب العربی، تخصص فی الحدیث الشریف، شعبہٴ خوشخطی نیز چار سالہ تحفیظ القرآن اورپانچ سالہ اردو دینیات وفارسی کا نصاب علاحدہ ہے اسی طرح فراغت کے بعد یک سالہ کمپیوٹر ٹریننگ کورس اور دوسالہ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم کا نصاب بھی جاری ہے، فضلاء کو فرق باطلہ کے تعاقب و تردید کی تربیت بھی دی جاتی ہے اردو صحافت و انشاء کا ایک سالہ کورس بھی کئی سالوں سے چل رہا ہے۔
نصاب میں شامل علوم کی حیثیت: ہمارے اکابر علماء دیوبند نے جو نصاب جاری رکھا ہے اس میں شامل علوم دو طرح کے ہیں: (۱) علوم عالیہ (۲) علوم آلیہ۔ یعنی ایک، وہ علوم ہیں جو ضروری اور مقصود ہیں جن کی تعلیم و اشاعت کے لئے دارالعلوم اور دیگر مدارس قائم کئے گئے ہیں یہ صرف چھ علوم اور ان کے متعلقات ہیں، قرآن وحدیث، فقہ، اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ، باقی جو علوم پڑھائے جاتے ہیں وہ علوم آلیہ ہیں جو پہلے علوم کے لئے ذرائع ہیں مقصود نہیں، کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے ”العلم ثلاثة: آیة محکمة، سنة قائمة أو فریضة عادلة وما سوا ذلک فہو فضل“ (۱۹)، (۲) علم یعنی علم ضروری تین ہیں: (۱) قرآن کریم کی آیات کا علم (۲) احادیث شریفہ کا علم اوراحکام (فریضہ عادلہ) کا علم ہے، اور ان کے علاوہ جو علوم ہیں وہ غیر ضروری (زائد) ہیں۔ اسی لئے دارالعلوم کے نصاب میں انہیں تینوں علوم پر زور دیاگیا ہے نیز قرآن کریم میں علم دین کو تفقہ سے تعبیر کیاگیا، اسی بناء پر ان علوم کو اہمیت دی جاتی ہے، جن سے تفقہ فی الدین پیداہوتا ہے۔
عصری علوم کیوں شامل نصاب نہیں؟: دارالعلوم کے عربی درجات سے پہلے ۶ سالہ اردو دینیات فارسی کے نصاب میں ناظرہٴ قرآن کریم، اردو، ہندی، انگریزی زبان، حساب، جغرافیہ، تاریخ اسلام، ادب فارسی، ادب اردو، سائنس، معلومات عامہ، تاریخ اکابر دارالعلوم وغیرہ مضامین داخل ہیں لیکن عربی درجات خالص دینی مضامین پرمشتمل ہیں یا ان کے معاون مضامین پر لیکن ماضی میں بھی بعض حلقوں کی جانب سے اس پر تنقیدکی جاتی رہی ہے اوراب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور اسے نصاب کا بڑا نقص قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم مدارس اسلامیہ کا نصب العین اسلامی علوم وفنون کی تعلیم واشاعت اور مسلم معاشرہ کی دینی وملی ضروریات کی تکمیل ہے، ان کا مقصد سائنس داں، ڈاکٹر اورانجینئر فراہم کرنا نہیں ہے۔
مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں جدید عصری علوم کی پیوندکاری کا مشورہ یا مطالبہ نیا نہیں ہے قیام دارالعلوم دیوبند کے ۶/سال بعد ۱۸۷۲/ میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی تقریر میں اس سلسلہ میں تین باتیں ارشاد فرمائیں: پہلی بات یہ کہ عصری تعلیم اور علوم جدیدہ کے لئے سرکاری مدارس پہلے سے موجود ہیں، ضرورت دینی تعلیم کے اداروں کی تھی، اس ضرورت کے پیش نظر، دینی تعلیم کے لئے دارالعلوم قائم کیاگیا ہے، دوسری بات یہ فرمائی کہ عصری علوم کی آمیزش دونوں کے لئے یکساں طور پر نقصان دہ ہے؛ نہ دینی علوم میں مہارت پیدا ہوگی نہ عصری علوم میں۔ کہ زمانہٴ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب کے حق میں باعث نقصان ثابت ہوگئی، تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ علوم نقلیہ میں پختہ استعداد پیدا کرنے کے بعد اگر طلبہ مدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں، تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موید ہوگی۔(۲۰)
عصری علوم شامل کرنے کا ایک فائدہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے فضلائے مدارس کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی؛ چنانچہ بہت سے صوبوں میں سرکاری مدرسہ بورڈ قائم کئے گئے۔ ان سے دینی مدارس کو ملحق کیاگیا، ان کا نصاب مخلوط رکھا گیا، ان کے فضلاء کو سرکاری تنخواہ بھی دی گئی۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان اداروں نے اپنی افادیت، خودمختاری، علمی وفکری و انتظامی آزادی کھودی، وہ نرے سرکاری اسکول ہی بن کر رہ گئے۔ الا ماشاء اللہ۔ اب بڑے پیمانہ پر مرکزی حکومت نے مرکزی مدرسہ بورڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے؛ دینی مدارس میں حقیقی روح باقی رکھنے کے سلسلہ میں کوشاں اور فکرمند حضرات علماء کرام قائدین عظام متفکرین، بڑے اداروں نے کھل کر اس کے نقصانات بیان کئے ہیں اور اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے، جن میں مسلم پرسنل لا بورڈ، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ، جمعیت علماء ہند، دارالعلوم وقف دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپور، تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، پیش پیش ہیں اور اسے مدارس اسلامیہ کو ان کے نصب العین سے پھیردینے، مدارس کی روح ختم کردینے اور آزادی سلب کرنے کی سمت خطرناک قدم قرار دے رہے ہیں، اسی لئے اکابر دیوبند نے ہمیشہ سرکاری امداد سے اجتناب کی تاکید ہی کی ہے۔
اکابر دارالعلوم دیوبند کی، عصری علوم کے سلسلہ میں، رائے یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے عربی نصاب (فضیلت) کو نہ چھیڑا جائے اور اس میں عصری علوم کی پیوندکاری نہ کی جائے، ہاں عربی نصاب سے پہلے دینیات وغیرہ کے نصاب میں ضروری عصری علوم کو دارالعلوم دیوبند کے نہج پر دیگر مدارس میں شامل کیاجائے، نیز فراغت کے بعد فضلاء کے لئے انگریزی زبان وادب کی تعلیم کا نظم بھی قائم کیا جاسکتا ہے، یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ حضرات علماء کرام نے کبھی انگریزی زبان کی مخالفت نہیں کی ہے، ہاں انگریزی تہذیب و کلچر کی مخالفت پہلے بھی کی ہے اور اب بھی کررہے ہیں۔
دینی مدارس سے فراغت کے بعد مزید عصری تعلیم کے لئے دیگر عصری جامعات کی طرف بھی رخ کرنے کی اجازت حضرت نانوتوی نے بھی دی ہے۔ (روداد دارالعلوم ۱۲۹۰ھ،ص:۱۱۲ وخطبہٴ صدارت اجلاس مدارس منعقدہ ۱۴۱۵ھ) کیوں کہ پہلے تجربہ کیاجاچکا ہے، نصاب سے بے جا چھیڑ چھاڑ کی گئی اور جوہری اور بنیادی تبدیلیاں کردی گئیں تو تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم کے حامل رجال کار وافراد، علوم وفنون کے ماہرین ومحققین، محدثین، مفسرین، فقہاء،اور اصحاب بصیرت علماء پیدا نہیں ہوں گے، یوں بھی انحطاط کا دور ہے مردم گردی اور افراد سازی متاثر ہوچکی ہے، اگر اکابر کے منہاج اور ان کے مزاج ومذاق کو خیرباد کہہ دیاگیا تو شخصیت و کردار کے حامل ”دل روشن“ اور ”زبان ہوش مند“ رکھنے والے، علماء حق پیدا نہیں ہوں گے اورحالت اس حد تک پہنچ جائے گی جو حضرت اکبر الہ آبادی نے برطانوی سامراج میں تعلیم کی بیان کی ہے کہ۔
تعلیم جو دی جاتی ہے یہاں وہ کیا فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
نظام تعلیم: دارالعلوم قائم کرکے ہمارے اکابر نے ایسا نظام تعلیم پیش کیا جس سے باصلاحیت علماء، قوم وملت کے مخلص خادم اور فخرِ روزگار، افراد تیار ہوں، اس نظام کے حسب ذیل خدوخال ملحوظ رکھے گئے ہیں اورآئندہ ان پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کی تاکید کی گئی۔
(۱) مدارس دینیہ کا نظام عوامی چندہ کی بنیاد پر قائم کیاگیا ہے۔ سرکاری امداد سے مکمل اجتناب برتا، تاکہ پوری آزادی اور مکمل سکون و اطمینان کے ساتھ، مدارس کے نظام کو استوار رکھا جاسکے، اوراس سے سرمو انحراف نہ کیاجائے، اس سلسلہ میں بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنے اصول ہشت گانہ میں تاکید فرمائی ہے، چنانچہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب عثمانی فرماتے ہیں:
اسکے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کیلئے کوئی سرمایہ بھروسے کا ذرا ہوجائے گا
پھر یہ قندیل معلق اور تعلق کا چراغ یوں سمجھ لینا کہ بے نور وضیاء ہوجائے گا
اس اصول پر عمل پیرا رہتے ہوئے ذمہ داران دارالعلوم نے حکومتی امداد سے اجتناب برتا ہے اور دوسرے مدارس کے ذمہ داران کو بھی یہی نہج اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔
(۲) نصاب تعلیم خالص دینی رکھا گیا ہے تاکہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کی جاسکے، اور ایسے افراد تیار ہوں جو علوم اسلامیہ کی حفاظت و اشاعت اوراسلام کی حقیقی روح کے تحفظ اور معاشرے کی دینی ضرورت کی تکمیل کا فریضہ انجام دے سکیں۔
(۳) نظم ونسق کی بنیاد شوریٰ کو قرار دیا حضرت نانوتوی کے اصول ہشت گانہ میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے تاکہ مقاصد تاسیس سے ہم آہنگ نظام جاری کیا جاسکے، اورکوئی ناگوار بات پیش نہ آئے۔
(۴) طے کیاگیا کہ تعلیمی عملہ باہمی متفق المشرب ہو، اساتذہ صلاحیت اور صالحیت کے حامل رکھے جائیں جو طلبہ کی استعداد سازی اور کردار سازی کو اپنا نصب العین بنائیں۔
(۵) طلبہ عزیز کی خیرخواہی پیش نظر رہے، طلبہ کی تعلیمی و تربیتی ضروریات کی تکمیل کی جائے ان کے قیام و طعام کا بہتر نظم کیاجائے۔
(۶) تعلیم کے ساتھ طلبہ کی شبانہ روز تربیت پر خصوصی توجہ رکھی جائے ، علماء دیوبند کے مسلک حق کے مطابق ان کی ذہن سازی کی جائے، فرق باطلہ کے تعاقب کی تربیت دی جائے، عقائد عبادات، اخلاق اور معاملات ومعاشرت میں اسلامی تعلیمات کو مشعل راہ بنانے پر زور دیا جائے اور خدمت خلق کا جذبہ بیدار کیا جائے، ان کی شبانہ روز مصروفیات، اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے، اورمخرب اخلاق امور سے بچنے کی تاکید کی جائے، ان سب امور کے انجام دینے کے لئے دارالاقامہ کے نظام کو چست بنایا جائے۔
(۷) مدارس کا نظم استوار رکھنے کے لئے دستور العمل تجویز کیا جائے اوراس کی پابندی ضروری سمجھی جائے۔
(۸) داخلہ، امتحانات، اسباق کی پابندی، مذاکرہ وتکرار کے نظام کو چست رکھا جائے۔
(۹) اساتذہ کرام دوران تدریس حل کتاب، استعداد سازی پر توجہ مرکوز رکھیں۔
(۱۰) دوران تدریس اختصار کے ساتھ کتاب حل کرنے کی کوشش کی جائے، کتاب کے مشکل مقامات حل کرنے میں پوری توجہ سے کام لیاجائے، طلبہ کو مآخذ سے روشناس کرانے کا اہتمام کیا جائے اور غیرضروری بحثوں سے احتراز کیا جائے۔
(۱۱) نصاب کی تکمیل کرائی جائے، تدریس میں یکسانیت ہو، ماہانہ سہ ماہی اور ششماہی مقدار خواندگی مقرر کی جائے۔
(۱۲) جس استاذ کو جس فن سے زیادہ مناسبت ہو تدریس کے لئے اسی فن کی کتاب اس کے حوالہ کی جائے۔
(۱۳)امتحانات پوری احتیاط سے لئے جائیں درجہٴ چہارم عربی کے امتحانات میں بالخصوص پوری احتیاط برتی جائے اوران جماعتوں میں طلبہ کا اوسط حاضری دوسرے درجات سے بڑھا دیا جائے۔
(۱۴)ابتدائی تعلیم اچھے اور تجربہ کار اساتذہ کے سپرد کی جائے۔
(۱۵)اوّل، دوم اور سوم عربی کے طلبہ کا ماہانہ امتحان لیا جائے۔
(۱۶) سال چہارم عربی تک تمرین و انشاء پر زیادہ زور دیا جائے۔
(۱۷)مدرسین کو اسباق اتنے دئیے جائیں کہ وہ تدریس کی ذمہ داریوں سے صحیح طریقہ سے عہدہ برآ ہوسکیں۔
(۱۸)مدرسین کے انتخاب میں صلاح وتقویٰ، علمی استعداد، بلند اخلاقی معیار، سلامتی طبع، تدریس اور طلبہ کی تربیت سے دل چسپی کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۱۹) اساتذہ، اعلیٰ کتابوں کی طرف مراجعت کرکے طلبہ میں اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی جدوجہد کریں۔
(۲۰)سال ششم عربی سے دورہٴ حدیث شریف تک امتحانات کے پرچے عربی میں حل کرنے کی ترغیب دی جائے۔
(۲۱) طلبہ میں عربی ذوق پیدا کرنے کے لئے عربی مجلات وصحف منگائے جائیں اور دارالمطالعہ قائم کیا جائے۔
(۲۲)طلبہ میں تقریر و خطابت کا ذوق پیدا کرنے کے لئے جمعہ کی رات میں خطابت کی مجلسیں منعقد کرنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے۔ ان میں سے بہت سے امور وہ ہیں جو گذشتہ چند سالوں میں مدارس اسلامیہ کے دارالعلوم میں منعقد اجلاسوں میں غور وخوض کے بعد نظام تعلیم کو چست و فعال بنانے کے لیے طے کئے گئے ہیں۔
نظام تربیت: دارالعلوم دیوبند کے اکابر اور ذمہ داران حضرات نے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی ہے، نظری تعلیم اور عملی تربیت کا حسین امتزاج ہی دارالعلوم دیوبند کا خصوصی امتیاز رہا ہے، شاعر حکیم، اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں * آدمی، آدمی بناتے ہیں
دارالعلوم نے اسلام کے اس پیغام کو دنیا میں عام کیا ہے کہ تعلیم برائے تعلیم نہیں بلکہ تعلیم برائے عمل ہونی چاہئے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے علماء درکفے جام شریعت، درکف سندان عشق کا مصداق رہے ہیں اور دارالعلوم کا یہی وہ مزاج و مذاق تھا جس نے شخصیت سازی ومردم گری میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے والد ماجد، حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے دارالعلوم دیوبند کا وہ دور دیکھا ہے جب اس کے ایک چپراسی سے لے کر صدر مدرس اور مہتمم تک ہر ہر شخص ولی کامل تھا، دن کے وقت یہاں مختلف علوم وفنون کے چرچے ہوتے تھے، اور رات کے وقت ذکر وشغل سے چپہ چپہ بقعہٴ نور بنارہتا تھا۔ (۲۱) شاعر مشرق فرماتے ہیں:
عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ، بے آہ سحرگاہی
حضرت مولانا مفتی محمد عثمان مدظلہ فرماتے ہیں دارالعلوم دیوبند کی نیوعلم و عمل کے سنگم پر اٹھائی گئی تھی اوراس میں جس قدر توجہ، طلبہ کی علمی صلاحیت بڑھانے کی طرف دی جاتی تھی اس سے زیادہ ان کی عملی تربیت اوران پر ادا، ادا میں، اسلاف کا رنگ چڑھانے کا اہتمام کیاجاتا تھا، وہاں دلوں میں خوف و خشیت کی آب یاری ہوتی تھی، وہاں عبادت کا ذوق پروان چڑھایا جاتا تھا، وہاں حلال وحرام بلکہ مکروہ ومستحب اور خلاف اولیٰ کا صرف علم نہیں بلکہ ان کی عملی فکر اور ان کی اہمیت، دلوں میں جاگزیں کی جاتی تھیں، وہاں عبادات و طاعات کے علاوہ معاشرت، معاملات اور اخلاق کو سنت کے مطابق ڈھالا جاتا تھا، وہاں ایثار و تواضع، تحمل، بردباری، سادگی، اخلاص و للہیت کے ملکات پیدا کئے جاتے تھے، وہاں ایک ایک فرد کے دل میں یہ بات بٹھادی جاتی تھی کہ علم برائے علم اس کا مطمح نظر نہیں اور نہ تحصیل علم کا مقصد، مال وجاہ کا حصول ہے بلکہ اصل مقصد اپنے آپ کو اعلیٰ اسلامی اوصاف سے آراستہ کرنا اور اس کے بعد انہی اوصاف کو دوسروں تک منتقل کرنا ہے،اس کے لئے وہاں ہرہر طالب علم کے لئے ضروری تھا کہ کسی نہ کسی مصلح سے اصلاح و تربیت کا خصوصی تعلق قائم کرے، آپ کو علماء دیوبند میں جتنی شخصیات نظر آئیں گی، وہ سب کسی نہ کسی شیخ کی تربیت یافتہ اور ان کی صحبت و خدمت سے فیض یاب تھیں۔(۲۲)
علماء دیوبند کی ہمہ جہت خدمات: علماء دیوبند نے جو ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا روشن باب ہے، انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت، علوم اسلامیہ، کی تعلیم واشاعت، ولی اللّٰہی منہاج پر دین و ملت کی خدمت، اسلام دشمن طاقتوں اور باطل تحریکات کی سرکوبی، دینی تعلیم کی اشاعت کے لئے، مدارس ومکاتب کے قیام، ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے دارگزار کرانے کے سلسلہ میں، کاروان حریت کی قیادت، مختلف علوم وفنون کی تالیف و تربیت سے اسلامی کتب خانہ کو مالا مال کرنے، عظمت صحابہ اور عزت اسلاف کی صیانت، منکرین ختم نبوت، ومنکرین حدیث وغیرہ کے تعاقب، بدعات و خرافات کی بیخ کنی، معاشرہ کی اصلاح و تجدید کی مساعی جمیلہ، دینی دعوت و تبلیغ کے فروغ، سرمایہٴ ملت کی نگہبانی، اسلامی ثقافت کی پاسبانی، ملت اسلامیہ کی دینی، سیاسی اور ملی قیادت کے حوالہ سے اپنی زریں خدمات اور تابناک کارناموں کے جولازوال نقوش تاریخ کی پیشانی پر ثبت کئے ہیں وہ رہتی دنیا تک چمکتے رہیں گے اور پوری انسانیت کے لئے مینارہٴ نور بنے رہیں گے۔
ثبت است بر جریدہٴ عالم دوام ما
دارالعلوم دیوبند کی یہ ہمہ جہت خدمات اس کی جن عظیم شخصیتوں اور مایہ ناز سپوتوں کے ذریعہ انجام پائیں، وہ پوری ملت اسلامیہ کے لئے سرمایہ افتخار تھیں، اتنی مدت میں اتنی عظیم، جلیل القدر اور نادرہٴ روزگار ہستیاں کسی اور ادارے میں پیدا نہیں ہوئیں، ذیل میں ہم چنداکابر کے اسماء گرامی پیش کررہے ہیں جن میں سے ہر شخصیت بذات خود آفتاب وماہ تاب کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری، محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، جانشین امام نانوتوی مولانا محمد احمد صاحب قاسمی نانوتوی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، متکلم اسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی، امام دعوت وتبلیغ مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی، جامع المعقول علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا فخرالحسن گنگوہی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی، محدث کبیر مولانا ظفراحمد عثمانی، فقیہ العصر مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی، مدبر اسلام حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی، شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادی، مولانا مرتضیٰ حسن صاحب چاند پوری، مولانا بدرعالم صاحب میرٹھی، محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا مناظر حسن صاحب گیلانی، مولانا احمد علی صاحب لاہوری، مولانا احمد سعید صاحب دہلوی، مولانا خیرمحمد جالندھری، مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی، مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی، مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی، مولانا جمیل احمد صاحب تھانوی، مولانا عبدالحق صاحب اکوڑوی، مولانا محمد منظور صاحب نعمانی، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب دیوبندی، بقیة السلف مولانا محمد زکریا صاحب، مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب جلال آبادی، مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی، فدائے ملت مولانا سید اسعد صاحب مدنی، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب، مولانا معراج الحق صاحب دیوبندی، مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی، مولانا قاضی زین العابدین صاحب میرٹھی وغیرہ۔
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلہم * اذا جمعتنا یا جریر المجامع
نصاب کے متعلق چند گذارشات: دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم و تربیت کی جامعیت، اثر انگیزی اور شخصیت سازی میں اس کی بے حد کامیابی کی دلیل مذکورہ بالا شخصیات کے اسماء گرامی ہیں، جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح کسی ادارے کے تربیت یافتہ افراد، اور کسی نصاب کی فیض یافتہ حضرات سے ادارہ کی کارکردگی اور نصاب و نظام کی کامیابی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اس لئے نصاب میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو نصاب کے دینی واسلامی مضامین ہیں وہی نصاب کی روح ہیں ان کو کم کرنا یا ثانوی درجہ دینا، نصاب کی روح کو ختم کرنے اور مدارس کو ان کے نصب العین سے پھیرنے کے مرادف ہوگا، لیکن نصاب سے مطلوبہ مقاصد پورے ہورہے ہیں یا نہیں، اس کا جائزہ لینے اور نصاب کو مقاصد تاسیس اور نصب العین کے حصول کے لئے فعال اور مزید موثر بنانے کے لئے غور وخوض اور تبادلہ خیالات ہوتے رہنا چاہئے اور اس کو مفید سے مفید تر بنانے اور بعض جزوی ترمیمات جو مقاصد سے ہم آہنگ ہوں، ان پر غور جاری رہنا چاہئے، اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے زیراہتمام مدارس اسلامیہ عربیہ کی کل ہند تنظیم رابطہ مدارس اسلامیہ کے قیام ۱۴۱۵ھ سے لے کر اب تک متعدد اجلاس میں نصاب تعلیم اور مدارس کے متعلق موضوعات پر غور ہوا ہے، بہت سی مفید تبدیلیاں کی گئی ہیں، بعض حضرات نے اپنے مضامین وغیرہ میں بھی بعض اہم مشورے دئیے ہیں، بالخصوص جناب مولانا سیدسلمان صاحب ندوی نے بھی اپنی قیمتی کتاب ”ہمارا نصاب تعلیم کیا ہو“ میں بعض نہایت قیمتی اور مفید تجاویز پیش کی ہیں، اگرچہ ان کے ذکر کردہ خیالات و تجاویز میں بعض سے ممکن ہے اتفاق نہ کیاجاسکے۔ اس اہم کتاب میں دارالعلوم دیوبند کا تفصیلی نصاب درج کرنے کے بعد مولانا محترم فرماتے ہیں:
”ہر نئی چیز پر سرہلادینا اور کچھ رٹے ہوئے نام عبقری شخصیات کے، دہرانے لگنا، جن کی شخصیت سازی میں بہت سے عوامل کارفرما رہے، نہ عاقلانہ جواب ہے نہ کسی سنجیدہ غور وفکر کا پتہ دیتا “۔
مولانا موصوف کا یہ تبصرہ، خود مولانائے محترم کے سنجیدہ ذہن و فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جن عبقری شخصیات کے رٹے ہوئے نام پیش کئے جاتے ہیں ان کی شخصیت سازی میں جو بہت سے عوامل کار فرمارہے ہیں وہ ان کے سوا اور کیاہیں جن پر سطور بالا میں روشنی ڈالی گئی ہے اور جو دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم و نظام تعلیم و تربیت کے خصوصی امتیازات ہیں، یہی وہ امتیازات تھے جن کی بناء پر خود حضرت مولانا عبدالحئی صاحب حسنی نے صاحجزادہ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو دارالعلوم دیوبند، تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجا، انھوں نے یہاں کے اکابر حضرات اساتذہ کے فیوض و برکات سے اپنے دامن کو مالا مال کیا پھر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی کے بخاری وترمذی کے درس میں شرکت فرمائی اور ان کے علمی اور روحانی فیضان سے مستفیض ہوئے، کون نہیں جانتا کہ حضرت مولانا ندوی میں جو عبقریت و جامعیت، ژرف نگاہی، دینی حمیت وغیرت، علمی رسوخ، زہدودنیا بیزاری وغیرہ کمالات وامتیازات تھے ان میں جہاں خاندانی روایات، جلیل القدر والد محترم اور برادر اکبر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کی خصوصی تربیت، ندوة العلماء کا علمی ماحول وغیرہ امور کارفرمارہے ہیں، وہیں دارالعلوم دیوبند کی علمی، دینی اور روحانی فضا، حضرت شیخ الاسلام اور حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری وغیرہ اکابر کی توجہات وعنایات کا بھی بے حد دخل رہا ہے۔
چند گذارشات:
(۱)عربی نصاب شروع کرنے سے پہلے ہر مدرسے میں، اردو دینیات اور پرائمری کی تعلیم ضروری قرار دی جائے اور دینیات کے ساتھ کم از کم درجہ پانچ تک پرائمری کا وہی نصاب پڑھایا جائے جو سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے، امتحان بھی سرکاری بورڈ کے ذریعہ کرایا جائے اس کی تاکید دارالعلوم دیوبند میں منعقد اجتماع مدارس اسلامیہ کی ایک تجویز میں بھی کی گئی ہے اور حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ نے بھی اس کا مشورہ دیا ہے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہرطالب علم دینی مضامین کے ساتھ بنیادی عصری مضامین پڑھ سکے گا۔
(۲) ہر مدرسے کے زیر انتظام زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کئے جائیں اور مذکورہ طریقے پر تعلیم کا انتظام کیا جائے۔
(۳) مدارس اسلامیہ جو دارالعلوم دیوبند کے نہج پر ہیں وہ دارالعلوم کا مکمل نصاب نافذ کریں اور مذکورہ بالا نظام تعلیم و تربیت کی روشنی میں نظام قائم کریں۔
(۴) بہت سے مدارس میں عربی تمرین پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، ابتدائی درجات میں خاص طور پر عربی تعلیم اور بولنے لکھنے پر توجہ دی جائے، تاکہ عربیت کا ذوق فروغ پائے۔
(۵) فرق باطلہ کے تقابلی مطالعہ اور ان کے تعاقب کی طلبہ کو تربیت دی جائے۔
(۶) نصاب میں شامل کتابوں کو جدید انداز میں طبع کرایا جائے، ذیلی عنوانات لگائے جائیں، رموز املاء کا استعمال کیا جائے، تمرینی سوالات کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
(۷) نحو و صرف وبلاغت وغیرہ کی تعلیم آسان انداز میں دی جائے، قواعد کے اجراء اور تطبیق پر زیادہ توجہ دی جائے، فلسفہٴ نحو و صرف و بلاغت نہ پڑھایا جائے۔
(۸) تحریر و خطابت کے سلسلہ میں طلبہ کی رہ نمائی کی جائے، ان میں علمی، ادبی، اور دعوتی ذوق پیدا کیا جائے، مختلف موضوعات پر ان سے مقالے لکھوائے جائیں، تقریری مقابلے کرائے جائیں اوراسلام، مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کو درپیش چیلنجوں سے انہیں آگاہ رکھا جائے۔
نوٹ: اس مقالہ کا خلاصہ ناچیز نے جناب مولانا محمد سلمان ندوی زیدفضلہ کے زیراہتمام جامعة الشیخ احمد بن عرفان الشہید کٹولی، ملیح آباد میں ”برصغیر کے مدارس اسلامیہ کانصاب تعلیم ونظام تربیت“ کے موضوع پر مورخہ ۱۴،۱۵،۱۶/محرم ۱۴۲۸ھ کو منعقد سیمینار میں پیش کیا، ہرمقالہ کے بعد مختصر وقفہ سوال وجواب وعلمی مناقشہ کا رکھاگیا تھا۔ اس مقالہ کے بعد بھی چند حضرات شرکاء سیمینار نے کچھ سوالات کیے ناچیز نے ان کے جوابات دئیے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مختصراً ان سوالات و جوابات کو بھی پیش کردیا جائے:
(۱) پہلا سوال یہ کیاگیا کہ مقالہ میں یہ ذکر کیاگیا ہے کہ دارالعلوم میں درس نظامی کا نصاب من و عن نافذ نہیں کیاگیا بلکہ اس میں ترمیم کرنے کے بعد نافذ کیاگیا، سوال یہ ہے کہ وہ ترمیم کیا تھی؟ ناچیز نے عرض کیاکہ ایک بنیادی تبدیلی تو یہی تھی کہ پہلے درس نظامی میں حدیث شریف کی صرف ایک کتاب مشکوٰة المصابیح تھی وہ بھی نامکمل، لیکن دارالعلوم میں دورہٴ حدیث سے پہلے مشکوٰة شریف مکمل داخل کی گئی اور دورہٴ حدیث شریف میں حدیث شریف کی دس کتابیں شامل درس کی گئیں، اور اب تو مشکوٰة سے پہلے دو مزید کتابیں، مشکوٰة الآثار اور الفیة الحدیث بھی داخل ہیں۔
(۲) دوسرا سوال یہ کیاگیا کہ درس نظامی میں بعض کتابیں ایسی ہیں جو نصاب کے لیے نہیں لکھی گئی ہیں اور نہ وہ داخل نصاب کیے جانے کے لائق ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ کسی کتاب کی نشان دہی کی جائے تو سائل محترم نے کہا کہ مثلاً ہدایہ! ناچیز نے عرض کیا کہ ہدایہ اسلامی قانون کی مقبول ترین کتاب ہے، جس کی اہمیت اپنوں اور غیروں نے تسلیم کی ہے۔ اسلامک لا پڑھانے کے لیے کتاب کا ترجمہ وکلاء کو بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسلامک فقہ، اور مسائل شریعت پر اتنی معتبر اور مستند کتاب کوئی اور نہیں لکھی گئی جس میں احکام شرعیہ کے نقلی اور عقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ نے آخر کیوں اسے نصاب کے لیے غیر موزوں سمجھا۔
(۳) ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ نے کہا کہ دارالعلوم کے نصاب کا مقصد پڑھنے والوں میں تفقہ فی الدین پیداکرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر عصری علوم نصاب میں کیوں شامل نہیں؟ احقر نے عرض کیا کہ اکابر دارالعلوم نے بعض ضروری عصری علوم کو عربی نصاب سے پہلے پڑھائے جانے والے دینیات وفارسی کے نصاب میں شامل رکھا ہے۔ البتہ عربی درجات کے نصاب (عالمیت) میں عصری علوم شامل نہیں تاکہ طلبہ علوم قرآن وسنت میں رسوخ پیدا کریں اور تمام تر توجہ انہی علوم کی تحصیل پر مرکوز رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نصاب کو پڑھ کر ایسے باکمال، محقق اور تبحرکے حامل علماء تیار ہوئے جن کی عظمت کااعتراف عالمی شخصیات نے کیا ہے۔ علامہ رشید رضا مصری ، صاحب تفسیر المنار دارالعلوم ندوة العلماء تشریف لائے۔ یہاں سے وہ دیوبند بھی تشریف لے گئے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمہ اللہ نے ایک جگہ نقل فرمایا ہے کہ علامہ رشید رضا، علامہ انور شاہ کشمیری کے درس میں شریک ہوئے اور فرمایا: ما رأیت مثل ہذا الشیخ الجلیل قط“ اور واپس مصر تشریف لے جانے کے بعد انھوں نے اپنے مجلہ میں تحریر فرمایا: ما مرّت عینی فی الہند بمثل ما قرت بروٴیة جامعة دیوبند، ولو لم أرہا لرجعت من الہند حزینا“
میں نے عرض کیا کہ فضیلت کے بعد عصری علوم کیلئے عصری جامعات کا رخ کیاجاسکتا ہے۔
(۴) ایک صاحب نے سوال کیا کہ دارالعلوم دیوبند میں جوادب پڑھایاجاتا ہے اس سے طلبہ کو کیسے الفاظ کا ذخیرہ دیا جاتا ہے: قدیم یا جدید؟۔ ناچیز نے عرض کیا کہ ادب ہمارے نزدیک قرآن وحدیث کا خادم ہے اس لیے بنیادی طور پر ہم وہ الفاظ طالب علم کو دیتے ہیں جن سے وہ قرآن و حدیث کے الفاظ کو آسانی سے سمجھ لے لیکن ساتھ میں ہمارے یہاں طلبہ کو ایسے الفاظ کا ذخیرہ بھی دیا جاتا ہے جن سے وہ اپنے مافی الضمیر کو جدید اسلوب بیان میں پیش کرسکیں اور دوسروں کی جدید تعبیرات کو سمجھ بھی سکیں۔ میں دونوں کی ایک ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب بلیاوی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فرزند تھے، انھوں نے قدیم ذخیرہٴ الفاظ و تعبیرات پر نہایت مستند لغت مصباح اللغات مرتب فرمائی جسے بڑا قبول عام حاصل ہوا، استاذ گرامی حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی نے جدید الفاظ و تعبیرات پر کئی لغات: القاموس الجدید عربی اردو، اردو عربی، اور القاموس الوحید مرتب فرمائی۔ عربی زبان و ادب سے اشتغال رکھنے والے حضرات ان کی ضرورت، اہمیت اور افادیت و مقبولیت سے بخوبی واقف ہیں۔ بحمداللہ اس علمی مناقشہ کو سامعین کرام نے پسند کیا، مقالہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ناچیز نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ میں بعض عرب ممالک میں دینیات کے نصاب میں تخفیف کی گئی ہے۔ پاکستان پر بھی دباؤ ہے کہ وہ مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی کرے۔ اگر ہم نے مدارس اسلامیہ کے نصاب میں کوئی بنیادی تبدیلی کی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ امریکہ وغیرہ کے دباؤ میں کیا جارہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ دارالعلوم اور ملحقہ مدارس کا نصاب اپنے مقاصد میں سوفیصد کامیاب ہے اس لیے اس میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت نہیں، جہاں تک جزوی تبدیلی کی بات ہے تواسپر ماضی بعید میں بھی غور ہوتا رہا ہے اور پچھلے چند سالوں میں رابطہ مدارس اسلامیہ کے اجلاسوں میں غور و خوض کیا جاتا رہا ہے۔
$ $ $
حواشی:
(۱) (العلق:۱تا۵)۔ (۲)سنن ابن ماجہ/ باب فضل العلماء۔
(۳) (تقدمة الجرح والتعدیل،ص:۸)۔ (۴)تاریخ دارالعلوم،ص:۷۲ ،ج:۱۔
(۵) نصاب تعلیم دارالعلوم دیوبند،ص:۱۔ (۶)رحمة اللہ الواسعة ۱/۳۷۔
(۷) الفرقان، شاہ ولی اللہ نمبر ،ص:۳۶۰۔ (۸)رود کوثر،ص:۵۵۱۔
(۹) ہندوستان میں اسلامی علوم و فنون،ص:۳۲۔ (۱۰)نظام تعلیم و تربیت۔
(۱۱) مسلمانوں کا روشن مستقبل،ص:۱۷۱۔ (۱۲)ہماراتعلیمی نظام،ص:۱۳۴۔
(۱۳)ہندوستان میں اسلامی علوم وفنون،ص:۳۱-۳۲۔ (۱۴)نظام تعلیم وتربیت،ص:۳۵۷،ج:۱۔
(۱۵)دیباچہ غالب نامہ ۱۴، نظام تعلیم و تربیت،ج:۱،ص:۳۶۰۔ (۱۶)الرشید، دارالعلوم نمبر،ص:۱۴۵۔
(۱۷)ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت،ص:۲۴۲،ج:۱۔ (۱۸)درس نظامی،ص:۶۲۔
(۱۹) مشکوٰة شریف،ص:۳۵۔ (۲۰)روداد دارالعلوم دیوبند ۱۲۹۰ھ،ص:۱۱۲۔
(۲۱) مجالس مفتی اعظم ،ص:۵۶۰۔ (۲۲)ہمارا تعلیمی نظام،ص:۹۳۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7، جلد: 91 ، جمادی الثانی 1428 ہجری مطابق جولائی2007ء