منعقدہ : ۱۲/ ذی قعدہ ۱۴۲۷ھ مطابق ۴/ دسمبر ۲۰۰۶/بروز پیر
بمقام مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند
————————————-
از: حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم
مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد :
اللہ تبارک و تعالیٰ کا بڑا فضل وکرم ہے کہ اس نے ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق ارزانی فرمائی اوراسلام کی حفاظت و اشاعت، علوم اسلامیہ کی تعلیم و ترویج کے مراکز اور دین مبین کے روشن میناروں یعنی مدارس اسلامیہ کی خدمت کی سعادت بخشی اوران ہی دینی مدارس اور تعلیم گاہوں کے مسائل پر باہمی تبادلہٴ خیالات، غور و خوض اور فیصلے کیلئے ہم سب کو یہاں جمع ہونے کا موقع میسر فرمایا،اس پر مسرت موقع پر بندہ اپنی اور خدام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے آپ حضرات کا صمیم قلب سے خیر مقدم کرتاہے اور دل کی گہرائیوں سے جذباتِ تشکر پیش کرتا ہے کہ آپ حضرات نے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم کی مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے اپنا قیمتی وقت فارغ فرمایااور زحمت سفر برداشت کرکے دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔ بندہ اس موقع پر معذرت خواہ بھی ہے کہ ہم خدام دارالعلوم کوشش کے باوجود آپ کا حق خدمت ادا نہ کرسکے۔
حضرات گرامی قدر! آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس اسلامیہ کے قیام کی تحریک بڑے صبرآزما اور پرآشوب حالات میں برپا کی تھی۔ ان مدارس کے قیام کے مقاصد میں اسلام کی حفاظت وصیانت، علوم کتاب و سنت کی تعلیم و اشاعت، سرمایہ ملت کی نگہبانی، اسلام کا تحفظ و دفاع، باطل تحریکات اور فتنوں کی سرکوبی، ملت اسلامیہ کی دینی قیادت، ملک و ملت کی تعمیر وترقی اور دینی و ملّی ضروریات کی تکمیل کے لیے رجال کار اورمخلص افراد کی تیاری شامل تھی۔ ان مدارس اسلامیہ کی کوکھ سے قابل قدر اورلائق فخر فرزندوں اور سپوتوں نے جنم لیا اور ایسے نفوس قدسیہ تیار ہوئے جنھوں نے بے سروسامانی اور حالات کی تمام تر نامساعدت اور سنگینی کے باوجود ایسی زریں خدمات انجام دیں جو تاریخ کا روشن باب ہے۔ یہ حضرات علوم اسلامیہ میں رسوخ ومہارت، مسلک حق کے بارے میں تصلب اور وسعت نظر کے ساتھ مومنانہ فراست، الہامی بصیرت، خلوص و للہیت،تواضع و فروتنی اوراتباع سنت کا پیکر تھے اورملک و ملت کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار تھے فضلاء مدارس کی انہی مختلف النوع، ہمہ جہت اورگونا گوں خدمات کا فیض ہے کہ ملک کے چپے چپے میں مدارس و مکاتب سرگرم ہیں۔ مسلمانوں میں اسلام اور تعلیمات اسلام سے وابستگی اور شیفتگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسلامی بیداری فروغ پارہی ہے۔ قال اللہ و قال الرسول کی دل نواز صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ دعوت و تبلیغ کی مساعی جمیلہ بار آور ہورہی ہیں، نوجوانوں میں دینی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ اورمدارس اسلامیہ اپنی بے سروسامانی اور بعض کمزوریوں کے باوجود نئی نسل کی آب یاری میں مصروف ہیں۔ دینی اقدار و شعائر کا احترام عوام میں بڑھ رہا ہے اور فرزندان توحید کے نام پرمرمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار نظرآتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی اسی اہمیت اور ملک میں حقیقی اسلامی روح اور اسپرٹ کی بقاء و تحفظ کے سلسلہ میں مدارس اسلامیہ کے اسی روشن اور موثر ترین کردار اور اسلامیان ہند میں ان کی بے حد اثرانگیزی کی وجہ سے ہی اسلام اورمسلم دشمن طاقتیں دینی مدارس کو برداشت نہیں کرپارہی ہیں۔ سابقہ فرقہ پرست مرکزی حکومت کے دور میں مدارس اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ کچھ زیادہ ہی کیاگیا لیکن اس کے بعد بھی حالات یکسر تبدیل نہیں ہوئے، بلکہ عالمی حالات سے حوصلہ پاکر ملک کی فرقہ پرست طاقتوں اور فسطائی عناصر نے مدارس کے خلاف اپنی منصوبہ بند مہم پھر تیز کردی ہے۔ تعلیم و تربیت کے ان مراکز اورمحب وطن، جمہوریت پسند اور امن اوریک جہتی کو فروغ دینے والے ان دینی مدارس کے قومی و دینی کردار و وقار کو مجروح کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ مفتیانِ کرام اورمدارس دینیہ سے وابستہ علماء کرام کے وقار و معتبریت کو داغ دار کرنے کے لیے ٹی وی چینل کا منصوبہ بند فتویٰ آپریشن اور سرکاری رپورٹ میں امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کو دہشت گردوں کا محفوظ مسکن و مرکز قرار دینا اس کی تازہ مثال ہے۔
پاسبانان ملت! موجودہ حالات پوری ملت اسلامیہ کے لیے عموماً اور مدارس اسلامیہ عربیہ کے لیے خصوصاً بڑے اندوہ ناک اورہمت شکن ہیں۔ مدارس کی جدید کاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیلی اور عصری علوم کی شمولیت کا آوازہ پھر بلند کیاجانے لگا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت مرکزی مدرسہ بورڈ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ حقیقت میں مدارس اسلامیہ کی امداد اور علماء مدارس کی معاشی حالت کو سدھارنے کے خوبصورت عنوان کے بہانے قومی و دینی مدارس کو حکومت کے زیر کنٹرول لانے اوران کے نظام اورنصاب میں اہم تبدیلیاں کرنے کی سمت ایک اہم قدم ہے، جس کے نہایت دور رس اثرات ہوسکتے ہیں،آج کی اس نشست میں مرکزی حکومت کی اس تجویز کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ بھی لینا ہے۔
علماء عالی وقار! رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے مقاصد میں مدارس اسلامیہ عربیہ کے معیار تعلیم و تربیت کو بہتر بنانا، باہمی ربط واتحاد کو فروغ دینا، مدارس اسلامیہ کی بقاء و ترقی کے لیے موٴثر تدابیر اختیار کرنا اورمدارس اسلامیہ کو درپیش داخلی وخارجی مسائل و مشکلات کے ازالہ کی کوشش کرنا شامل تھا۔ بحمد اللہ رابطہ کے زیر اہتمام منعقد مدارس اسلامیہ کے متعدد اجتماعات میں مذکورہ موضوعات زیر بحث آئے، اجتماعی تبادلہٴ خیال ہوا، اور مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کی سمت پیش رفت بھی ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے اندرونی نظام میں اصلاح کی جائے اورمقررہ نصب العین کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتظامی، تعلیمی، تربیتی امور پر خصوصی توجہ دی جائے۔ خامیوں کو دورکیاجائے، نظام چست اور باضابطہ بنانے کے لیے ضابطہٴ اخلاق کی پابندی بھی ضروری ہے۔ رابطہ کے دستور العمل میں اس کا ذکر موجود ہے آج کی مجلس میں ضابطہ اخلاق بھی طے کیا جانا ہے اوراس کے نفاذ کے بارے میں بھی غور وخوض ہونا ہے۔
اسی طرح مدارس اسلامیہ کے زیرانتظام دینی مکاتب کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بہت سے علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں بنیادی دینی تعلیم کا بندوبست نہیں کیاجاسکا ہے اور عیسائی مشنریاں، قادیانی مبلغین اور دیگر باطل جماعتیں ان علاقوں میں سرگرم ہیں اور عوام کی جہالت اور تنگ دستی سے فائدہ اٹھاکر ان کو اپنے دام فریب میں الجھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال کے مقابلہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
دانش مندانِ ملت ! رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے کام میں وسعت پیداکرنے اوراس کے اغراض و مقاصدکو بروئے کار لانے کے لیے رابطہ کی مجلس عاملہ نے صوبائی شاخوں کے قیام اور ان کو فعال بنانے پر اپنے سابقہ اجلاسوں میں زور دیا ہے۔ چنانچہ بعض صوبوں میں رابطہ کا کام بڑے منظم انداز میں ہورہا ہے، لیکن کئی صوبوں میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ صوبائی ذمہ داران حضرات سے میری گزارش ہے کہ براہ کرم اس جانب خصوصی توجہ فرمائیں، صوبائی رابطہ کی تشکیل کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے تاکہ رابطہ کے فوائد کو عام کیا جاسکے، صوبائی رابطہ کو فعال بنانے کے طریقہٴ کار پر غور بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
مدارس اسلامیہ کے خلاف اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہورہا ہے، دینی تعلیم کے یہ ادارے ان کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ مدارس اسلامیہ کو ان کے نصب العین سے پھیردیاجائے اوران کے نصاب اورنظام میں ایسی بنیادی تبدیلی کردی جائے کہ ان کا بنیادی مقصد فوت ہوجائے، ورنہ ان مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی اور بنیادپرستی کا مرکز قرار دے کر ان پرپابندی عائد کردی جائے۔ ان کرب ناک حالات میں ہم خدام مدارس کو پوری بیدار مغزی اور تیقظ کے ساتھ حالات کا جائزہ لے کر مدارس اسلامیہ کے تحفظ اور ترقی کے لیے جامع لائحہٴ عمل تیار کرنا ہے۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران حضرات اپنے اپنے مدارس میں طلبہ عزیز کو فرق باطلہ کے تعاقب اور تردید کے لیے تربیت کاانتظام فرمائیں تاکہ طلبہ عزیز مسلک حق (دیوبندیت) کے خدوخال سے واقف ہوسکیں اور قرآن و سنت سے ماخوذ اس مسلک کے افکار و عقائد اور ان کے دلائل پر ان کی وسیع نظر ہو اور وہ باطل فرقوں کا بھرپور تعاقب کرسکیں۔
مجلس عاملہ کے آج کے اجلاس میں ہم حضرت فدائے ملت امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی صاحب صدر جمعیة علماء ہند و رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی کمی شدت سے محسوس کررہے ہیں مدارس اسلامیہ کے تحفظ و ترقی اوران کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل سے حضرة المرحوم کو خاص دلچسپی تھی، مدارس کی تعمیر و ترقی سے ان کو بے حد لگاؤ تھا۔ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے قیام و استحکام میں ان کے نمایاں کردارکو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جمعیة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے انھوں نے ملک وملت کی تعمیر و ترقی، مسلمانان ہند کے حقوق کی بازیابی، امن و سلامتی کے استحکام، فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام، بابری مسجد کی بازیابی، مسلم پرسنل لاء کے تحفظ، مکاتب اسلامیہ کے قیام وانتظام، مدارس اسلامیہ اوراوقاف کی حفاظت و صیانت وغیرہ کے سلسلہ میں ان کی زریں خدمات کے لازوال نقوش تاریخ ہند کی پیشانی پرہمیشہ ثبت رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات اور کارناموں کو قبول فرمائے، اوران کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو مدارس اسلامیہ کے تحفظ اور تعمیر و ترقی کے لیے باہمی مشورے اور غور و خوض کے ذریعہ مفید اور نتیجہ خیز فیصلوں تک پہنچنے اور درپیش مسائل و مشکلات کے ازالے کے لیے جامع لائحہٴ عمل تیار کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد: 91 ، جمادی الاولی 1428 ہجری مطابق جون2007ء