از: مولانا سعید احمد جلال پوری، مدیر ماہنامہ بینات کراچی، پاکستان
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ !
گزشتہ دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے کارکن اور سیالکوٹ کے مبلغ مولانا فقیراللہ اختر صاحب کا ایک مکتوب موصول ہوا، جس کے ساتھ بے نام کا ایک سوال نامہ بھی منسلک تھا،اس سوال نامہ میں پوری امت مسلمہ، دنیا بھر کے مسلمانوں، اسلام کے نام لیواؤں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو مخاطب کرکے اس کے جواب کا مطالبہ تھا۔
یہ بھی مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کے ہی خط سے معلوم ہوا کہ یہ سوال نامہ دراصل کینیڈا کے قادیانیوں نے کینیڈا میں رہائش پذیر ایک مسلمان نوجوان کو دیا اور کہا کہ اس کا جواب دو۔ چنانچہ وہ سوال نامہ پھرتا پھراتا مولانا فقیراللہ اختر صاحب کے پاس پہنچا، تو انھوں نے راقم الحروف سے اس کے جواب کی فرمائش کی۔
بلاشبہ اس کا تو مجھے پہلے بھی علم، بلکہ یقین تھا کہ قادیانیت، اسلام کی ضد و نقیض ہے اورجس طرح آگ و پانی، اور دن و رات کا اجتماع محال ہے، ٹھیک اسی طرح قادیانیت اوراسلام کا اکٹھا ہونا بھی محال ہے۔
ہاں ! یہ ضرور ہے کہ قادیانی سیدھے سادے مسلمانوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے دھوکا دیتے ہیں، ورنہ انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام ․․․․ صلی اللہ علیہ وسلم ․․․․ سے جتنا بغض، عداوت اور نفرت ہے، شاید دنیاکے کسی بدترین کافر ومشرک کو بھی ان سے اتنا بغض و عداوت نہ ہوگی۔
بلاشبہ اس خط کوپڑھنے کے بعد قادیانی امت کی اسلام دشمنی اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی دلی نفرت و عداوت علم الیقین سے نکل کر عین الیقین کے درجہ میں آ گئی۔
یقین جانئے! کہ اگراس سوال نامہ کے ساتھ مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کا تعارف نامہ اور قادیانیوں کے روایتی سوالات نہ ہوتے تو شاید دوسرے سیدھے سادے مسلمانوں کی طرح، میں بھی اس کو کسی متعصب عیسائی، یہودی، پرلے درجے کے کسی ملحد، اسلام دشمن کافر اور مشرک کی دریدہ دہنی قرار دیتا۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال نامہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو قادیانی دجل، فریب، الحاد، زندقہ اور ان کے گھناؤنے کردار سے ناآشنا تھا، یا وہ ان کے منافقانہ ظاہری ”حسن اخلاق“ سے متاثر تھا، اس سے کم از کم اس پر قادیانیت کی اسلام دشمنی اور پیغمبر اسلام سے ان کا بغض اور دلی عداوت کھل کر سامنے آجائے گی، اور قادیانیوں کے مکروہ چہرہ کی اس نقاب کشائی کے بعد کم از کم قادیانی، کسی مسلمان کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا نہیں دے سکیں گے۔ لیجئے! پہلے مولانا فقیر اللہ اختر صاحب کا خط اور مسیلمہ کذاب کے جانشین، مسیلمہ پنجاب کے نام لیواؤں کا غلاظت بھرا سوال نامہ پڑھئے:
”مخدومی ومکرمی جناب حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب
السلام علیکم!
امید ہے کہ آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ گزارش یہ ہے کہ ایک تحریر حاضر خدمت ہے، کینیڈا میں ہمارے ایک مسلمان بچے کو یہ تحریر مرزائیوں/ قادیانیوں نے دی ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر اس کے ترتیب وار جامع، موزوں اور پراثر جوابات تحریر فرمادیں اوراس کی ایک کاپی مجھے بھیج دیں تاکہ اسے کنیڈا بھیج کر اپنے مسلمان بھائیوں کو قادیانی فتنہ سے بچایا جاسکے اور ان کے ذہنوں کو اس گندگی سے بچایا جاسکے۔ امید ہے کہ آپ شفقت فرمائیں گے۔ مزید یہ کہ اگر کینیڈا میں ہماری جماعت کا کوئی اہم کارکن یا عہدیدار ہو تواس کا نام، پتا اور فون نمبرارسال کردیں تاکہ ہمارے مسلمان بھائی ان سے راہ نمائی حاصل کرسکیں۔
والسلام ․․․․ دعا گو، فقیر اللہ اختر
خادم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ“
قادیانیوں کا سوال نامہ:
”۱:- لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کی ضرورت صدیوں رہی اور اس مقصد کیلئے اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں پیغمبر بھیجے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار پیغمبر بھیجنے کے بعد حضرت محمد پر ہی نبوت ختم کردی گئی؟ کیا بعد میںآ نے والی صدیوں میں لوگوں کو ہدایت وراہنمائی کی ضرورت نہیں تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟
۲:- جب حضرت محمد اوران کے پیروکار اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوسکتے ہیں تو ایک مسلمان کیوں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا؟ دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اسے مرتد قرار دے کر اس کے قتل کا حکم کیوں دیاگیا ہے؟ کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ مذہبی تبدیلی کی اجازت دینے سے حضرت کومسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشتہ تھا؟ کیا یہ حکم اس امر کا غماز نہیں ہے کہ حضرت نے مذہب کے فروغ کیلئے ”اسلام بذریعہ تبلیغ“ کے بجائے ”خاندانی یا موروثی اسلام“ کو ترجیح دی؟ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا، جیسے جیسے آبادی بڑھے گی، مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے،جو تبدیلی چاہے، اسے قتل کردیا جائے، کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں؟
۳:- حضرت محمد نے اپنے خاندان یعنی آلِ رسول کو زکوٰة کی رقم دینے سے کیوں منع کیا ہے؟ کیا اس سے خاندانی بڑائی اور تکبر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیا رسول کا خاندان افضل اور باقی سب کمتر ہیں؟ بحیثیت انسان میں خاندانی افضلیت یا بڑائی تسلیم نہیں کرتا۔ خود حضرت محمد کا قول ہے کہ تم میں افضل وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں، تو پھر یہ قول ان کے اپنے خاندان پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟
۴:- حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کا پانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟
۵:- مالِ غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کیلئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں، بھیڑ بکریاں ہیں، جنہیں مالِ غنیمت کے طورپر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟
۶:- مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کو جہاد قرار دے کر اسے اسلام کا پانچواں بنیادی رکن بنانے کی سزا ماضی کے لاکھوں، کروڑوں معصوم انسان بے شمار جنگوں کے نتیجے میں اپنی جان مال سے محروم ہوکر بھگت چکے ہیں اور عراق، افغانستان جنگ کی شکل میں آج بھی بھگت رہے ہیں، آخر اس ”جہاد“ کو بذریعہ اجتہاد ”جارحیت“ کے بجائے ”دفاع“ کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟
۷:- حضرت محمد نے مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی کیوں قرار دی؟
۸:- والدین کی جائیداد سے عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے کا کیوں حکم دیا؟ کیا عورت، مرد کے مقابلے میں کمتر ہے؟
۹:- حضرت محمد نے خود نوشادیاں کیں اور باقی مسلمانوں کو چار پر قناعت کرنے کا حکم دیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟
۱۰:- شریعت محمدی میں مرد اگر تین بار طلاق کا لفظ ادا کرکے ازدواجی بندھن سے فوری آزادی حاصل کرسکتا ہے تو اسی طرح عورت کیوں نہیں کرسکتی؟
۱۱:- حضرت محمد نے حلالہ کے قانون میں عورت کو کسی بے جان چیز یا بھیڑ یا بکری کی طرح استعمال کئے جانے کا طریقہ کار کیوں وضع کیا ہے؟ طلاق مرد دے اور دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو عورت پہلے کسی دوسرے آدمی کے نکاح میں دی جائے، وہ دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ جنسی عمل سے گزرے، پھر اس دوسرے شخص کی مرضی ہو، وہ طلاق دے تو عورت دوبارہ پہلے آدمی سے نکاح کرسکتی ہے؟ یعنی اس پورے معاملے میں استعمال عورت کا ہی ہوا،مرد کا کچھ بھی نہیں بگڑا، اس میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟
۱۲:- حضرت محمد نے قصاص ودیت کا قانون کیوں وضع کیا؟ مثال کے طور پر اگرمیں قتل کردیا جاتا ہوں، اورمیرے اپنی بیوی یا بہن بھائیوں سے اختلافات ہیں تو لازماً ان کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ میرے بدلے میں زیادہ سے زیادہ خون بہا لے کر میرے قاتل سے صلح کرلیں اور باقی عمر عیش کریں، میں تو اپنی جان سے گیا، میرے قاتل کو پیسوں کے عوض یا اس کے بغیر معاف کرنے کا حق کسی اور کو کیوں تفویض کیاگیا؟ کیا اس طرح سزا سے بچ جانے پر قاتل کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کیا پیسے کے بل بوتے پر وہ مزید قتل و قتال کے لئے اس معاشرے میں آزاد نہیں ہوگا؟ پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک شخص، ایک پاکستانی کو قتل کرکے سزا سے بچ گیا، کیونکہ مقتول کے اہل خانہ نے کافی دینار لے کر قاتل کو معاف کردیا تھا۔ اس قانون کے نتیجے میں صرف وہ قاتل سزا پاتا ہے، جس کے پاس قصاص کے نام پر دینے کو کچھ نہ ہو۔ پاکستان ہی کی مثال لے لیں، قیام سے لے کر اب تک، باحیثیت افراد میں سے صرف گنتی کے چنداشخاص کو قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا ملی، وہ بھی اس وجہ سے کہ مقتول کے ورثا قاتل کی نسبت کہیں زیادہ دولت مند تھے۔ لہٰذا انھوں نے خون بہا کی پیشکش ٹھکرادی۔ اس قانون کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کوئی باحیثیت شخص کسی کا قتل کردیتا ہے تو قاتل کے اہل وعیال ورشتہ دار، مقتول کے ورثا پر طرح طرح سے دباؤ ڈالتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں، جس پر ورثا قاتل کو معاف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا حضرت محمد نے اس قانون کو وضع کرکے ایک امیر شخص کو براہ راست ”قتل کا لائسنس“ جاری نہیں کیا؟
۱۳:- اوراسی طرح کے بے شمار سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان کے بارے میں پوچھنا توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے؟
۱۴:- جو حضرات ”ہاں“ کہیں گے، ان سے صرف یہی عرض کرسکتا ہوں کہ حضرت محمد جب ایک رات میں ساتوں آسمانوں کی سیر کرسکتے ہیں، چاند کو دو ٹکڑے کرسکتے ہیں، اتنے بڑے مذہب کے بانی اور خدا کے سب سے قریبی نبی ہیں، تو کیا وہ خود مجھے ان سوالات کی پاداش میں مناسب سزا نہیں دے سکتے؟ اگر ہاں! تو اے میرے مسلمان بھائیو! مجھ پر اور میری طرح کے دیگر انسان مسلمانوں پر رحم کرو اور حضرت محمد کو موقع دو، کہ وہ خود ہی ہمارے لئے کچھ نہ کچھ مناسب سزا تجویز فرمادیں گے۔
۱۵:- یاد رکھو! ایک مسلمان کا خون دوسرے پر حرام ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو صرف اس کی سوچ اور عقائد کی بناپر کافر قرار دیدے۔ یہ تو تھا اسلامی فرمان، اب ایک انسانی فرمان بھی سن لیں کہ ”دنیا کے کسی بھی مذہب سے کہیں زیادہ انسانی جان قیمتی ہے۔“ وماعلینا الاالبلاغ۔“
اس غلاظت نامہ کی خواندگی کے بعد ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول کے دل کی کیا کیفیت ہوگی؟ ہر مسلمان اس کا بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے!!! تاہم مسلمانوں کو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ سانپ کاکام ڈسنا اور بچھو کی سرشت ڈنک مارنا ہی ہے۔ اسلئے جو لوگ قادیانی کفر سے آشنا ہیں، ان کو یقینا اس پر کچھ زیادہ تعجب نہیں ہوا ہوگا۔ ہاں! البتہ جو لوگ قادیانیت کے بارہ میں کسی غلط فہمی کا شکار تھے یا وہ قادیانیت کو اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نتھی کرنے کی غلطی کے مرتکب تھے، بلاشبہ ان کو اس تحریر سے اپنی غلط فہمی کا شدید احساس ہوا ہوگا، بلکہ بدترین دھچکا لگا ہوگا!!!۔
اگرچہ قادیانی سوالات شروع میں یک جا آگئے ہیں، تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر جواب سے پہلے متعلقہ سوال نقل کرکے اس کا جواب درج کیاجائے تاکہ سوال و جواب دونوں قاری کے ذہن میں مستحضر رہیں۔ چنانچہ اس سوال نامہ کا پہلا سوال تھا:
سوال(۱) ”لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کی ضرورت صدیوں رہی اوراس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں پیغمبر بھیجے، توآخر کیا وجہ ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار پیغمبر بھیجنے کے بعد حضرت محمد ہی پر نبوت ختم کردی گئی؟ کیابعد میں آ نے والی صدیوں میں لوگوں کو ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“
جواب: یہ قادیانیوں کا پرانا اور گھسا پٹا سوال ہے اوراس کا متعدد اکابر نے مختلف انداز میں جواب دیا ہے،مگر جس کو نہ ماننا ہو،اس کا اشکال کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:
بلا شبہ ہر دور میں امت کو ہدایت و رہنمائی کی ضرورت رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے امت کی راہنمائی کے لئے نبی بھی بھیجے، اورجب تک امت کو نبی کی راہنمائی کی ضرورت رہی، اللہ تعالیٰ یکے بعد دیگرے نبی بھیجتے رہے، لیکن جوں ہی نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نبوت کے اعزاز سے سرفراز فرمایاگیا اور کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہ رہی،تو اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا کہ اب مزید کسی دوسرے شخص کو نبی نہیں بنایا جائے گا، اورارشاد فرمایا کہ:
”ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین وکان اللّٰہ بکل شیء علیماً“(الاحزاب:۴۰)
ترجمہ: ”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں،اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔“
اس ارشاد الٰہی سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود نہیں فرمایا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہ نفس نفیس اس کا اعلان فرمایا ہے، اس لئے قادیانیوں کا یہ کہنا کہ: ”کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمد نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“ سراسر ہرزہ سرائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی پر بہتان وافتراء ہے۔
صرف یہی ایک آیت نہیں، بلکہ قریب قریب ایک سو سے زائد آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے، ملاحظہ ہو ”ختم نبوت کامل“مولفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ۔
رہی یہ بات کہ اب کسی دوسرے نبی کی ضرورت کیوں نہیں رہی؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کیوں قرار دیاگیا؟ اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں خود ارشاد فرمادیا کہ: اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کی ضرورت و عدم ضرورت کی حکمت کو خوب جانتے ہیں، اس پر کسی کو لب کشائی کی اجازت نہیں، لہٰذا اب قادیانیوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست پوچھیں، اس کی قوت قاہرہ کی آہنی دیوار سے سرپھوڑیں اور احتجاج کریں کہ آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی کیوں قرار دیا؟
الغرض قادیانیوں کا یہ اعتراض مسلمانوں یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نہیں، بلکہ براہ راست قرآن کریم اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے۔
چلئے! اگر ایک لمحہ کے لئے قادیانیوں کا یہ سوال صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے ، تو کیا کل کسی کو اس کا حق بھی ہوگا کہ وہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے پہلے اور نوح، شیث، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلوٰة والسلام کو بعد میں کیوں مبعوث فرمایا؟ اسی طرح کیا نعوذ باللہ! کسی کو یہ کہنے کا حق بھی ہوگا؟ کہ:
”کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے خود ہی اللہ کے خلیفہ اور انسانیت کے باپ ہونے کا دعویٰ کردیا ہو؟“
اگر کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی․․․ اوریقینا نہیں دی جاسکتی․․․ تو کسی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے خلاف لب کشائی کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے؟ قادیانیو! اگر ہمت ہے تواس کا جواب دو، ورنہ اس ہرزہ سرائی کے بعد کھلا اعلان کروکہ ہمارا قرآن، حدیث، اللہ اوراس کے رول پر ایمان نہیں ہے۔
(۲) نئے نبی،نئی شریعت اور نئی کتاب کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب پہلے نبی کی نبوت، دین، شریعت اورکتاب منسوخ ہوجائے، جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین، کتاب، نبوت اور شریعت قیامت تک کے لئے ہے۔چنانچہ ملاحظہ ہو:
۱- ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا․“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا اور پوراکیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
۲- ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ (الحجر:۹)
ترجمہ: ”ہم نے ہی اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔“
۳- ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین“ (الانبیاء: ۱۰۷)
ترجمہ: ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکرجہان کے لوگوں پر۔“
۴- ”یا ایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا․“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ: ”اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“
۵- ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیرًا ونذیرًا․“ (سبا:۲۸)
ترجمہ: ”اور جو تجھ کو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈرسنانے کو۔“
۶- ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ: ”اورجو کوئی چاہے سوادین اسلام کے اورکوئی دین، سواس سے ہرگز قبول نہ ہوگا۔“
ان تمام آیات میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کو مدار نجات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی کتاب کی قیامت تک حفاظت وصیانت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انسانوں کے لئے نبی، رسول، بشیر اور نذیر بناکر بھیجے جانے کا اعلان فرمایاگیا، تو معلوم ہوا کہ جس طرح امت کو صدیوں سے نبی و رسول کی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت تھی، آج بھی برقرار رہے اور اس کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، رسالت، دین، شریعت اور کلامِ الٰہی یعنی قرآن پاک کی شکل میں فرمارکھا ہے۔
(۳) اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء اوران کی شریعتوں کی مثال چراغ کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و شریعت کی مثال سورج کی ہے اورجب سورج نکل آتا ہے تو نہ صرف یہ کہ سارے چراغ بے نورہوجاتے ہیں، بلکہ ان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، لہٰذا اگر سورج نکلنے کے بعد کوئی ”عقل مند“ یہ کہے کہ اب چراغ کیوں نہیں جلائے جاتے؟ اورانسانیت کی راہنمائی کیلئے چراغوں سے روشنی کیوں نہیں حاصل کی جاتی؟ اور سورج کی موجودگی میں چراغوں سے روشنی حاصل نہ کرنا انسانیت کو روشنی سے محروم رکھنے کی سازش کے مترادف ہے، بتلایا جائے کہ ایسے ”عقل مند“ کو کیا نام دیا جائے گا؟ اوراس شخص کے اس ”حکیمانہ مشورہ“ کو مانا جائے گا؟ یا اسے کسی دماغی ہسپتال میں داخل کیا جائے گا؟
(۴) ایک لمحہ کے لئے اگر قادیانی بزرچ مہروں کی اس برخود غلط ”دل سوزی“ کو مان بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ اگر واقعی اس کی ضرورت تھی؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی تیرہ صدیاں اس سے خالی کیوں گزریں؟ اوراس طویل ترین دور میں امت کو نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوئی؟ اسی طرح پھر مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قادیانی امت کو اس ”خیر“ سے کیوں محروم رکھا گیا؟ اور قادیانیوں کو غلام احمد قادیانی کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی؟
(۵) اگر انسانیت کی راہنمائی کیلئے نبوت کی ضرورت تھی، تو نئی نبوت کے ساتھ ساتھ نئی شریعت کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی؟ اس لئے اگر نبوت و شریعت کی ضرورت تھی، تو پھر چشم بددور مرزا غلام احمد قادیانی نے ظلّی اور بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیوں کیا؟ کھل کر صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کیا؟ ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین․
سوال(۲) ”جب حضرت محمد اور ان کے پیروکار اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوسکتے ہیں تو ایک مسلمان کیوں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا؟ دوسرا مذہب اختیار کرنے پر اسے مرتد قرار دے کراس کے قتل کا حکم کیوں دیاگیاہے؟ کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ مذہبی تبدیلی کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشتہ تھا، کیا یہ حکم اس امر کا غماز نہیں ہے کہ حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے ”اسلام بذریعہ تبلیغ“ کے بجائے ”خاندانی یا موروثی اسلام“ کو ترجیح دی، کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا، جیسے جیسے آبادی بڑھے گی،مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے،جو تبدیلی چاہے،اسے قتل کردیا جائے، کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی نہیں؟“
جواب: دین ومذہب کی تبدیلی پر سزائے ارتداد کے اسلامی قانون پر اگر کسی کو بالفرض اعتراض کا حق ہوتا تو اس کے حق دار وہ لوگ تھے جوکسی آسمانی دین و مذہب کے پیروکار ہوتے؟ یا ان کے دین و مذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہوتی، جیسے یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ رہے وہ لوگ جن کے دین ومذہب کی کوئی اساس و بنیاد ہی نہیں؛ بلکہ ان کا وجود ہی برخود غلط ہے، ان کو اس بحث میں حصہ لینے یا اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
۲- کیاکسی ملک کی قانون ساز اسمبلی اور عوام کے نمائندہ ایوان کی جانب سے جارح اقوام، افراد، چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف قانون سازی پر، چوروں اور ڈاکوؤں یا جارح اقوام کو یہ حق دیا جائے گا کہ وہ یہ اعتراض کریں کہ ہمارے خلاف قانون کیوں بنایاگیا ہے؟ اور ہماری آزادی پر قدغن کیوں لگائی گئی ہے؟ یا اسی طرح ملک کے اُچکوں، بدمعاشوں اور سماج دشمنوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہماری چوری،بدمعاشی اور ڈاکازنی پر سزا کا قانون پاس ہوا ہے تو چوری، ڈکیتی اور بدمعاشی سے توبہ کرنے والوں کے خلاف بھی سزا کا قانون بنایا جائے؟ لہٰذا جس طرح جارح اقوام، چوروں، ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کو، ان کی بدمعاشی اور بدامنی کے خلاف قانون سازی پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، ٹھیک اسی طرح سارقین نبوت، مرتدوں اور زندیقوں کے خلاف قانون ارتداد کی ترتیب و نفاذ پر، ان مرتدین کو بھی دین و دیانت اور عقل و شریعت کی رو سے کسی قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے، بلکہ انکا تحفظ، چوروں،بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کے تحفظ کے مترادف، اور ان کی سرکوبی بدمعاشوں کی سرکوبی کی مانند ہے۔
۳-جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہوں تو ان پر سزائے ارتداد کا اجرا نہیں ہوتا، تو ․․․ نعوذ باللہ! مسلمانوں کے مرتد ہوکر یہودی، عیسائی یا کسی دوسرے دین کو اپنانے پر یہ سزا کیونکرجاری ہوتی ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:
(الف) بائبل میں بھی مرتد ہونے والے کی سزا قتل ہی ہے، چنانچہ خروج: باب ۲۲، آیت: ۲۰ میں ہے: ”جو کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کرکسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نابود کردیا جائے۔“
(ب) جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہودی، عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں تو ان پر سزائے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصول طور پر ہم اس سوال کا جواب دینے کے مکلف نہیں ہیں، بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں، بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔
تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِ عمل صحیح ہے یا غلط؟ ․․․ اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت․․․ یہودیت بھی اپنے باطل و منسوخ شدہ دین کے بارہ میں شدید تعصب کا شکار ہے، اس لئے کہ اگروہ اپنے دین و مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر اورمتعصب نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ، ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتی؟
اس سے ذرا اور آگے بڑھئے! تو یہودیت کے تعصب کا اس سے بھی اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتل ناحق، ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشدد پسندی کا منھ بولتا ثبوت ہے، ورنہ بتلایا جائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ صرف یہی ناں کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلا دین و شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے ذریعہ نیا دین اور نئی شریعت آچکی ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات اور فوز و فلاح ہے۔
اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے ذمہ قرض ہے، وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں قتل کیاگیا؟ آخر ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کا پاک و پاکیزہ اور مقدس لہو بہایا گیا؟
اس کے علاوہ یہ بھی بتلایا جائے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟
مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اورپھر مسلمانوں سے بات کریں۔
(ج) یہ تو طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کے لئے حضراتِ انبیائے کرام اور رسل بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا، جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تو اس کی انتہا، تکمیل اور اختتام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے دین و شریعت اور کتب کی کیفیت یکساں تھی یا مختلف؟
اگر بالفرض تمام انبیائے کرام کی شریعتیں ابدی و سرمدی تھیں، تو ایک نبی کے بعد دوسرے نبی اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
مثلاً: اگر حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابدی و سرمدی تھی اور اس پر عمل نجاتِ آخرت کا ذریعہ تھا تو اس وقت سے لے کر آج تک تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا تابع ہونا چاہئے تھا،اگرایسا ہے تو پھر یہودیت و عیسائیت کہاں سے آگئی؟
لیکن اگر بعد میں آنے والے دین، شریعت، کتاب اورنبی کی تشریف آوری سے، پہلے نبی کی شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی تھی․․․ جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے․․․ تو دوسرے نبی کی شریعت اور کتاب کے آجانے کے بعد سابقہ شریعت اور نبی کی اتباع پر اصرار و تکرار کیوں؟
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرا نبی، شریعت اور کتاب آجائے اورپہلا دین، شریعت اور کتاب منسوخ ہوجائے، تو اس منسوخ شدہ دین، شریعت، کتاب اورنبی کے احکام پر عمل کرنا یا اس پر اصرار کرنا خود بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی ملک کے قانون میں ترمیم کردی جائے یا اس کو سرے سے منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا جدید آئین و قانون نافذ کردیا جائے، اب اگرکوئی عقلمند اس نئے آئین و قانون کے بجائے منسوخ شدہ دستور و قانون پر عمل کرتے ہوئے نئے قانون کی مخالفت کرے، تو اسے قانون شکن کہا جائے گا یا قانون کا محافظ و پاسبان؟
لہٰذا اگر کسی ملک کا سربراہ ایسے عقل مند کو رائج و نافذ جدید آئین و قانون کی مخالفت اور اس سے بغاوت کی پاداش میں باغی قرار دے کر بغاوت کی سزا دے، تو اس کا یہ فعل ظلم و تعدی ہوگا؟ یا عدل و انصاف؟ کیا ایسے موقع پر کسی عقل مند کو یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ اگر جدید آئین و قانون کو چھوڑنا بغاوت ہے تو منسوخ شدہ آئین و قانون کو چھوڑنا کیونکر بغاوت نہیں؟ اگر جدید آئین سے بغاوت کی سزا موت ہے تو قدیم و منسوخ شدہ آئین کی مخالفت پر سزائے موت کیونکر نہیں؟
(د) جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادیان اور ان کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں، اس سلسلہ میں گزشہ سطور میں عقلی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں پر عمل باعث نجات نہیں، ورنہ نئے دین، نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ تاہم سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے بعد آنے والے دین و شریعت اور نبی کی آمد سے متعلق اپنی امت کو بشارت دی ہے اور ان کی اتباع کی تلقین بھی فرمائی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”واذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمة ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ ولتنصرنہ․“ (آل عمران: ۸۱)
ترجمہ: ”اورجب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم، پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اوراس کی مدد کروگے۔“
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت انجیل کے علاوہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ:
”ومبشرًا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد․“ (الصف:۶)
ترجمہ: ”اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد، اس کا نام ہے احمد“
اسی طرح بائبل میں استثنا، باب: ۱۸، میں ہے:
”حداوندتیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی سننا۔“
اسی طرح اسی باب میں مزید ہے:
”’اور خداوندنے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں، میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منھ میں ڈالوں گا۔“ (استثنا، باب: ۱۸، آیت:۱۷،۱۸)
چنانچہ سابقہ انبیائے کرام میں سے کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ میری نبوت اور دین و شریعت قیامت تک کے لئے ہے اور میں قیامت تک کا نبی ہوں، دنیائے یہودیت و عیسائیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی نبی نے ایسا فرمایا ہے، تو اس کا ثبوت لاؤ: ”قل ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین“ ہمارا دعویٰ ہے کہ صبح قیامت تک کوئی یہودی اور عیسائی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے گا۔
جب کہ اس کے مقابلہ میں آقائے دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسانوں کیلئے نبی بناکر بھیجا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی اور خاتم النّبیین فرمایاگیا، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
۱- ”قل یا ایہا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعًا“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ: ”تو کہہ: ایے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“
۲- ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین“ (الانبیاء:۱۰۷)
ترجمہ: ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکرجہان کے لوگوں پر۔“
۳- ”ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین“ (الاحزاب:۴۰)
ترجمہ: ”محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے، لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم النّبیین“
۴- ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیرًا ونذیرًا․“ (سبا: ۲۸)
ترجمہ: ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا، سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈرسنانے کو۔“
اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا:
۱- ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی․“ (ترمذی، ج:۲، ص:۴۵)
ترجمہ: ”میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“
۲- ”انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم․“ (ابن ماجہ، ص:۲۹۷)
ترجمہ: ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔“
۳- ”لو کان موسیٰ حیًا ما وسعہ الا اتباعی․“ (مشکوٰة، ص:۳۰)
ترجمہ: ”اگر موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“
اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، تو ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا، اس لئے جو شخص اس جدید و رائج قانون اور آئین الٰہی کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین وشریعت یا کسی خود ساختہ مذہب، جیسے موجودہ دور کے متعدد باطل و بے بنیاد ادیان و مذاہب ․․․ مثلاً: ہندو، پارسی، سکھ، ذکری، زرتشتی اور قادیانی وغیرہ․․․ میں سے کسی کا اتباع کرے گا، وہ باغی کہلائے گا۔ دین وشریعت، قرآن وسنت اور عقل و دیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہیے، اور وہ قتل ہے۔
اسی لئے قانونِ ارتداد پر قادیانیوں کی طرف سے یہ اعتراض خالص دجل و فریب اور دھوکا ہے کہ:
”کیا اس حکم سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ تبدیلی مذہب کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا، حضرت نے مذہب کے فروغ کے لئے اور اسلام بذریعہ تبلیغ کے بجائے خاندانی یا موروثی اسلام کو ترجیح دی، کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور موثر فارمولا تھا، جیسے جیسے آبادی بڑھے گی، مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے، جو تبدیلی چاہے اسے قتل کردیا جائے۔“
کیونکہ یہ قانون مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں، بلکہ اسلام دشمنوں کی راہ روکنے کیلئے ہے، اسلئے کہ کسی ملک میں انسداد بغاوت اورجرائم کی روک تھام کا قانون کسی ملک کے شریف شہریوں کے خلاف نہیں، بلکہ بدمعاشی کی روک تھام کے لئے وضع کیاجاتا ہے۔
اگر قادیانی فلسفہ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ کسی جرم کی روک تھام پر قدغن لگانا یا اس پر کڑی سزاؤں کا نفاذ، اس کی علامت ہے کہ اس ملک کے شریف شہریوں کے بدمعاش اور جرائم پیشہ ہونے کے خوف سے وہ قوانین نافذ کئے گئے ہیں؟ حالانکہ مہذب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ ہر نیک دل حکمراں اور شفیق باپ اپنی رعایا اور اولاد کو برائی کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے، بعض اوقات ازراہ خیرخواہی ان کو سزا بھی دیتا ہے اورمعاشرہ کے بدکرداروں کے خلاف قانون سازی کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت تدبیرکرتا ہے۔
اس سے ذرا مزید آگے بڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی کفروشرک پر عذاب و عقاب اور جہنم کی شدید سزا کا قانون مرتب فرمارکھا ہے، کیا نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے ماننے والوں کی تعداد میں کمی کا اندیشہ تھا؟ اوراس نے بھی ان کی تعداد بڑھانے کیلئے اس فارمولا کو ترجیح دی ہے؟ اور بذریعہ آبادی اپنے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کے آسان اورموثر فارمولا پر عمل کیا ہے؟ کہ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی، اللہ تعالیٰ کے ماننے والے خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے؟ بتلایا جائے کہ کیاایسا کہنا عقل و دیانت کے مطابق ہے؟ قانون ارتداد پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا یہ اعتراض کہاں تک جاتا ہے؟
دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سرے سے جرم و سزا کاکوئی قانون ہی نافذ نہیں ہونا چاہئے، اگر ایساہوتو کیا اس سے معاشرہ انارکی، طوائف الملوکی، انتشار، تشدد اور بدامنی کی لپیٹ میں نہیں آجائے گا؟ جو لوگ ایسا مطالبہ کریں، کیا سمجھا جائے کہ وہ انسانیت کے دوست ہیں یا دشمن؟
سوال(۳) ”حضرت محمد نے اپنے خاندان یعنی آلِ رسول کو زکوٰة کی رقم دینے سے کیوں منع کیا ہے؟ کیا اس سے خاندانی بڑائی اور تکبر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟ کیا رسول کا خاندان افضل اور باقی سب کمتر ہیں؟ بحیثیت انسان میں خاندانی افضلیت یا بڑائی تسلیم نہیں کرتا۔ خود حضرت محمد کا قول ہے کہ تم میں افضل وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہیں، تو پھر یہ قول ان کے اپنے خاندان پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟“
جواب: عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کٹر سے کٹر مخالف میں بھی کوئی خوبی اور کمال نظر آئے، تو اس کا اعتراف کرنا چاہئے، مگر باطل پرستوں کے ہاں اس کے برعکس یہ اصول ہے کہ جب کسی سے برخاش، بغض، عداوت یا دلی نفرت ہو، تو انہیں اس کی خوبیوں میں بھی سو، سو نقائص نظر آتے ہیں اورنہ صرف اس کے محاسن و خوبیوں کو نقائص و معائب بناکر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ ان پر حرف گیری کی جاتی ہے۔ قادیانیوں کے مذکورہ اعتراض میں بھی ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کا یہی فلسفہ کار فرما ہے۔
ورنہ اگر دیکھا جائے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر جہاں امت کے غرباء اور فقراء پر احسان فرمایا ہے، وہاں اپنی ذات اوراپنے خاندان کے لئے تنگی اور مشکلات پیدافرمائی ہیں، اس لئے کہ:
۱- زکوٰة توہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی اس کے ذمہ فرض ہے، اگر زکوٰة و صدقاتِ واجبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے لئے حلال ہوتے تو ہر مسلمان کی خواہش ہوتی کہ میری زکوٰة سیّد دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خاندان اور آل واطہار کے مصرف میں آئے، اس سے ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کا خاندان تو آسودہ حال ہوسکتا تھا، مگر اس کے ساتھ، ساتھ مسلمان غرباء اور فقراء مالی تنگی اور تنگ دستی کا شکار ہوجاتے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات، آل، اولاد اور خاندان کے مفادات کی قربانی دی اوراپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو مشقت میں ڈال کرامتِ مسلمہ کے غرباء اور فقراء کے منافع کو پیش نظر رکھا۔
۲- اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اوراپنی آل و اطہار کے لئے ہدیہ و عطیہ قبول کرنے میں بھی اپنی ذات اوراپنے خاندان کے مالی منافع کو مزید محدود فرمادیا ہے، کیونکہ ہدایہ و عطیہ دینے کی نہ تو ہر مسلمان میں استعداد و استطاعت ہوتی ہے اور نہ ہی ہر کسی کو اسکا ذوق ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان مالی تنگی اور عسر کے ساتھ ساتھ زہد و تکشف کا خوگر رہے گا، اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور دلی دعا تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی دعا فرمائی کہ:
”اللّٰہم اجعل رزق آل محمد قوتاً، متفق علیہ“ (مشکوٰة، ص:۴۴۰)
ترجمہ: ”اے اللہ! میرے خاندان کا رزق بقدر کفایت ہو۔“
۳- دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دینے کا راز یہ تھا کہ اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لئے صدقات و زکوٰة لینا حلال قرار دیتے، تو احتمال تھاکہ اسلام دشمن اور قادیانیوں جیسے ملاحدہ وغیرہ یہ اعتراض کرتے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ․․․ نعوذ باللہ!․․․ زکوٰة و صدقات کا حکم اپنی ذات اور اپنے خاندان کی مالی آسودگی کے لئے دیا ہے، جب ہی تو ․․․ نعوذ باللہ!․․․ وہ زکوٰة پر پل رہے ہیں۔
اسی حکمت کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰة کے مصرف کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”توخذ من اغنیائہم وترد فی فقراء ہم“ (ابوداؤد،ص:۲۳، ج:۱)
ترجمہ: ”(مالِ زکوٰة) ان کے اغنیاء سے لے کر ان کے فقراء پر خرچ کیاجائے۔“
چنانچہ اس حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض و بدگمانی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا اور واضح کردیا کہ زکوٰة و صدقات کے اجراء سے مقصود اپنی ذات یا خاندان کی معاشی آسودگی نہیں؛ بلکہ ان کے فوائد و منافع، زکوٰة و صدقات دینے والے مسلمانوں کے غریب و فقیر متعلقین ہی کی طرف لوٹائے جائیں۔
۴- چونکہ جو لوگ بلاضرورت مانگ کر یا زکوٰة و صدقات پر زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں، عموماً ان میں تقویٰ، طہارت، حمیت، غیرت، شجاعت اور دوسرے اخلاق فاضلہ برقرار نہیں رہتے یا کم از کم کمزور پڑجاتے ہیں، اورعام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں، وہ محنت، مشقت اورکسبِ مال سے جی چراتے ہیں، عیش کوشی، راحت پسندی اور آرام طلبی ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے، سستی وکاہلی ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرہ میں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ اس لئے اندیشہ تھا کہ کہیں خاندانِ نبوت کے دشمن اس کو آڑ بناکر ذاتِ نبوی کے خلاف زبان طعن کھول کر اپنی دنیا و آخرت نہ برباد کربیٹھیں۔
انسانوں کے دین وایمان کی بربادی کے اسی خطرہ کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل واطہار اور خاندان کے لئے زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر اپنی آل، اولاد اور خاندان پر معاشی وسعت کے دروازے بند کرکے ایک طرف ان کیلئے معاشی تنگی پیدا کی تو دوسری طرف بہت سوں کے ایمان و اسلام کو بربادی سے بچالیا۔
۵- پھر اس کا بھی امکان تھا کہ کہیں میرا خاندان محض قرابت نبوی کی وجہ سے لوگوں کی زکوٰة و صدقات کو اپنا حق نہ سمجھ بیٹھے، یا کہیں اس کی نگاہ لوگوں کے مال زکوٰة و صدقات پر ہی نہ ٹک جائے، اس لئے زکوٰة و صدقات کو سرے سے ان پر حرام قرار دے دیاگیا۔
۶- اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ خاندانِ نبوت پر زکوٰة وصدقات حرام قرار دینے کی یہ حکمت ہو کہ میرا خاندان ذلیل دنیا اور معمولی رزق کی خاطر مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل و خوار نہ ہوجائے، یا لوگوں کی زکوٰة و صدقات پر تکیہ کرکے حصولِ رزق میں کاہل و سست نہ پڑجائے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زکوٰة و صدقات کو حرام قرار دے کر انہیں محنت ومجاہدہ سے بقدر کفایت رزق حاصل کرنے اورامور آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔
حیرت ہے کہ قادیانیوں کو ایک طرف آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زہد و تکشف اور اپنی ذات سے لے کراپنی آل، اولاد اور خاندان کے لئے کفاف و قناعت کے طرز عمل پر تو اعتراض ہے، مگر دوسری طرف اُنہیں مسیلمہ پنجاب مرزا غلام احمد قادیانی کے اس بدترین کردار اورمال بٹورنے کے سو، سو غلیظ حیلوں، بہانوں اور بیسیوں قسم کے چندوں پر کوئی اعتراض نہیں۔
اگر قادیانی امت تعصب اور عناد کی عینک اتار کر ایک لمحہ کے لئے اپنے انگریزی نبی مرزا غلام احمد قادیانی کی مالی حالت پر غور کرتی، تو اس پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی کہ سیالکوٹ کی عدالت میں کلرکی کرنے والے ایک معمولی شخص کی فیملی، رائل فیملی کیسے بن گئی؟ اور اس کا خاندان دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں کیسے شامل ہوگیا؟ اوراس کے پاس اس قدر وافر مقدار میں مال و دولت کہاں سے آگئی؟ اور ان کی زمینوں اور جائیدادوں کی اسٹیٹس کہاں سے نازل ہوگئیں؟
بلاشبہ قادیانی امت خود ہی مرزائی نبوت کی شریعت کی روشنی میں بتلاسکتی ہے کہ یہ سب قادیانی چندہ مہم کی برکت ہے، کیونکہ قادیانی شریعت میں تو قبر بھی چندہ کے عوض فروخت ہوتی ہے، اس لئے کہ جو قادیانی وقف زندگی، وقف جدید، وقف فلاں، وقف فلاں کا چندہ نہ دے سکیں، انہیں قادیانی ”بہشتی مقبرہ“ میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ جو قادیانی، بہشتی مقبرہ کا چندہ نہ دے پائے دوسرے لفظوں میں وہ جہنمی مقبرہ میں دفن ہوگا، گویا مرزا جی کو چندہ نہ دینے والے قادیانی اس دنیا میں ہی جہنمی ہیں۔
قادیانیو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے زکوٰة و صدقات استعمال نہ کرنے پر تو تمہیں اعتراض ہے، لیکن افسوس! کہ تمہیں اپنے نبی کے کنجریوں کی کمائی ہضم کرنے اوراُسے شیرمادر سمجھ کر ہڑپ کرجانے پرکوئی اشکال نہیں، آخر کیوں؟ قادیانیو! تمہارا نبی زندگی بھر دونوں ہاتھوں سے چندہ سمیٹتا رہا اور ساری زندگی مالی تنگی کا رونا بھی روتا رہا، سوال یہ ہے کہ آج اس کی فیملی اور خاندان رائل فیملی کیسے بن گیا؟
قادیانیو! تمہارے نبی کی ساری زندگی دوسروں کے مال پر نظر رہی، جبکہ ہمارے نبی آقائے دوعالم… کی زندگی دنیائے دنی سے دامن چھڑانے میں گزری، چنانچہ آپ نے فرمایا: ہمیں تمہارے مال کی نہیں ایمان واعمال کی ضرورت ہے۔
قادیانیو! تمہارے ہاں غریب کی کوئی حیثیت نہیں، چندہ دینے والے تمہارے ہاں بہشتی ہیں اور غریب جہنمی ہیں، اور تم قبروں کو بیچتے ہو، جبکہ ہمارے نبی اوران کے امتیوں نے قبرفروشی کا کاروبار نہیں کیا، بلکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”فمن مات وعلیہ دین ولم یترک وفاءً فعلیَّ قضاء ہ ومن ترک مالاً فلورثتہ، متفق علیہ․“ (مشکوٰة، ص:۳۶۳)
ترجمہ: ”اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اوراس پر کوئی قرضہ ہوتو اس کا میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ذمہ دار ہوں اوراگر مال چھوڑ جائے تو اس کا مال اس کے وارثوں کا ہے۔“
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا نورث ماترکناہ صدقة، متفقہ علیہ․“ (مشکوٰةص:۵۵)
ترجمہ: ”ہم جماعت انبیاء جوکچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ ہمارے خاندان میں بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا، بلکہ وہ صدقہ ہے۔“
قادیانیو! بتاؤ!!! مرزا غلام احمد کی جائیداد اس کے خاندان کے علاوہ کہاں خرچ کی گئی؟ اگر قادیانیوں میں ذرہ برابر بھی شرم و حیا، یاعقل و دانش کی کوئی رمق ہوتی تو وہ نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات پر اعتراض کرنے کی بجائے دنیا کے پجاری اور انگریز کے حواری بنی مرزا غلام احمد قادیانی پردو حرف بھیج کر اس سے اظہار برأت کرتے۔ (جاری)
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 91 ، ربیع الاول1428 ہجری مطابق اپریل2007ء