از: محمد شمیم اختر قاسمی،
ریسرچ اسکالر شعبہ سنی دینیات،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
ذمیوں کے لیے لباس کا مسئلہ:
اسلامی حکومت میں مقیم ذمیوں کے لباس کا مسئلہ ہمیشہ موضوع بحث بنا رہا ہے۔ غیرمسلم حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے ذمیوں کو الگ قسم کالباس پہناکر ان کی تذلیل و تحقیر کی ہے۔ یہ غلط فہمی دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے اسلامی احکامات کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ یہاں چندجزئیات ذمیوں کے لباس کے سلسلے میں پیش کیے جاتے ہیں، اس کے بعد اس لباس کو زیب تن کرانے کی اصل غرض و غایات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ غالباً اس قسم کا پہلا واقعہ حیرہ کے معاہدہ میں پیش آیا کہ ذمیوں کا لباس مسلمانوں کے مشابہ نہ ہو، کتاب الخراج میں ہے: ولہم کل ما لبسوا من الذی اِلاّ ذمّی الحرب من غیر ان یتشبہوا بالمسلمین(۱۰۲) (ان کو حق حاصل ہے کہ جیسا لباس چاہیں زیب تن کریں، مگر فوجی لباس پہننے سے احتراز کریں اور مسلمانوں سے لباس میں مشابہت اختیار نہ کریں) دمشق میں جب معاہدہ ہوا تو خود عیسائیوں نے اپنی شرائط میں اس تجویز کو شامل کرکے پیش کیا کہ ”ہم مسلمانوں سے ان کے لباس میں کسی قسم کی مشابہت اختیار نہ کریں گے، نہ ٹوپی میں ، نہ عمامہ میں، نہ جونبوں میں اور نہ مانگ نکالنے میں“(۱۰۳)
اس طرح کے احکامات جو مختلف کتب فقہیّہ میں ملتے ہیں، اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ اس سے ذمیوں کی تحقیر ہوتی ہے؛ بلکہ دونوں قوموں یا مختلف ملکوں میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے یہ احکام جاری کیے گئے تھے۔ نیز مسلمانوں کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ غیرمسلموں کے سے تشبہ اختیار نہ کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں مولانا مودودی(۱۰۴) نے جو بحث کی ہے اس سے ان اعتراض کی عقدہ کشائی ہوتی ہے جو غیرمسلم بغیر سوچے سمجھے اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”لباس کے تشابہ میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں ان سے اسلام غافل نہیں ہے، خصوصیت کے ساتھ محکوم قوموں میں اکثر یہ عیب پیدا ہوجایا کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی معاشرت کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں اور حاکم قوم کالباس اور طرز معاشرت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ غلامانہ دہنیت آج بھی دنیا کی محکوم قوموں میں موجود ہے۔ خود ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار ہندی نژاد حضرات انگریزی لباس بڑے شوق کے ساتھ پہنتے ہیں اور اسے پہن کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گویاترقی کے کسی بہت ہی اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ گئے ہیں، حالانکہ کسی انگریز نے کبھی ہندوستانی لباس نہیں پہنا اور آمر خالص انگریزی سوسائٹیوں میں کبھی پہنا بھی ہے تو تفاخر کے لیے نہیں بلکہ تفنن اور مسخرہ پن کے لیے نفسیات محکومیت کے اس نکتہ کو ائمہ اسلام خوب سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اہل الذمہ کو تشبہ بالمسلمین سے منع کرکے ان کی تذلیل و تحقیر نہیں کی بلکہ ان کی قومی عزت و شرافت کو برقرار رکھا۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے قوانین بعض لوگوں کی نگاہ میں موجب حقارت ہوں، مگر ہمارے نزدیک اس میں کوئی تحقیر نہیں ہے؛ بلکہ ہم بہت خوش ہوتے کہ اگر ہمارے انگریز حکمراں بھی ہم کو یورپین لباس اور طرز معاشرت اختیار کرنے سے حکماً منع کردیتے۔“(۱۰۵)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر ذمیوں کے لباس کے سلسلے میں احکام نافذ کیے تھے کہ وہ عرب کے لباس استعمال نہ کریں۔ اس کے برعکس انھوں نے اہل عرب کو بھی عجم کی وضع سے پرہیز کرنے کی تاکید کی تھی۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ عتبہ بن فرقد کو ایک فرمان کے ذریعہ تاکید کی کہ:
”تم کو اپنے باپ اسمٰعیل کا لباس پہننا چاہیے، خبردار عیش طلبی اور اہل عجم کی وضع نہ اختیار کرو، موزہ اور جامہ پہننا چھوڑ دو۔“(۱۰۶)
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات بھی واضح طور پر نظر آتی ہے کہ مسلمان جہاں جہاں پہنچے اور انکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ انھوں نے مفتوح قوم کا لباس استعمال کرنا شروع کردیا۔ مثلاً جب سندھ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو سلاطین اور فرمارواؤں نے اور عام مسلمانوں نے ہندوؤں کی وضع اختیار کی۔ ابن جوقل نے سندھ اور منصورہ کے مسلمانوں کے لباس کے سلسلے میں لکھا ہے کہ:
”یہاں کے مسلمانوں کا لباس عراق جیسا ہے، لیکن یہاں کے بادشاہوں کی وضع ہندو راجاؤں کے قریب قریب ہے۔ یہی جغرافیہ داں کھیسایت کے متعلق لکھتا ہے کہ یہاں کے مسلمان اور کافروں کی ایک وضع ہے، دونوں ایک سا لباس پہنتے ہیں اور بال بڑے رکھتے ہیں۔“(۱۰۷)
اس کے علاوہ سلاطین ہند نے بھی ہندوستان میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد ہمیشہ ہندوستانی لباس استعمال کرتے رہے اور عام مسلمانوں کا بھی یہی طرز عمل رہا۔ دھوتی جو خاص ہندوؤں کا لباس ہے مسلمانوں نے اسے بھی استعمال کیااور بعض سلاطین نے تومختلف قسم کے زیورات بھی استعمال کیے، ہندو راجاؤں مہاراجاؤں کی طرز پر۔ چنانچہ لباس کے تشابہ کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ کم عقلی اور ناخواندگی کی ایک بڑی دلیل ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ:
”اگر ان کا لباس ذلت اور تحقیر کی علامت ہوتا تو مسلمان ذلت اور تحقیر کو کیوں گوارا کرتے، عباسیوں کی سلطنت کا آغاز درحقیقت منصور کے عہد سے سمجھا جاتا ہے، اس نے دربار کے لیے جو ٹوپی اختیار کی وہ وہی مجوسیوں کی ٹوپی تھی جو خاص ان کی قومی علامت تھی۔ معتصم باللہ جسکے زمانے میں دولت عباسیہ پورے شباب پر پہنچ چکی تھی، اس نے بالکل شاہان عجم کی وضع اختیار کرلی تھی۔ مورخ مسعودی نے لکھا ہے کہ:
”وہ ٹوپی اوڑھنے، پگڑی باندھنے اور سازوسامان رکھنے میں رئیسانِ عجم کی تقلید کا بہت شائع تھا، چنانچہ اس کو دیکھ کر سب نے اس کی وضع اختیار کرلی اور اس وضع کا نام معتصمی پڑگیا۔“(۱۰۸)
مذہبی آزادی
شروع میں عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ علاقے جس کو ذمیوں نے آباد کیا اوراس میں لوگوں کو بسایا وہاں وہ اپنی مرضی سے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ مسلم علاقے جہاں مسلمانوں کی کثیرآبادی ہے اور جس کو مسلمانوں نے بنایاہے اور بسایا ہے وہاں اپنی مرضی سے کوئی عبادت خانہ نہیں بناسکتے۔ اور نہ وہاں وہ ایسے کوئی امور انجام دیں گے جس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہو اور مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر ہوتی ہے۔(۱۰۹) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں سوال کیاگیا تو انھوں نے کہا کہ جو شہر مسلمانوں کے خاص آباد کردہ ہیں وہاں غیرمذہب والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ گرجا اور بت خانہ بنائیں، یا سنکھ بجائیں۔ باقی جو قدیم شہر ہیں وہاں ذمیوں سے جومعاہدہ ہے مسلمانوں کو اس کا پورا کرنا ضروری ہوگا۔(۱۱۰)
باوجود اس حکم کے مسلمانوں کے عہد میں بالخصوص ان شہروں میں جس کو مسلمانوں نے بسایا اور آباد کیا کثرت سے گرجا تعمیر ہوئے۔ اس کی واضح مثال عراق ہے جس کو مسلمانوں نے بسایا تھا۔ قاہرہ میں جو گرجے ہیں وہ مسلمانوں ہی کے عہد میں بنے۔ اس کے علاوہ بہت سے پرانے معبد کی مرمت اور جدیدکاری ہوئی۔ یہاں پھر اس بات کو دہرایا جاتاہے کہ جزیہ کی وصولی کے ساتھ ہی انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کافی شہادتیں ملتی ہیں کہ جب دونوں قوموں میں صلح اورمعاہدہ، یا مسلمانوں نے کسی ملک پر فتح حاصل کی تو معاہدہ اور جزیہ کے تعین کے وقت یہ باتیں منظور کیں کہ:
”مسلمانوں اور ذمیوں سے جزیہ کی بنا پر جو صلح ہوئی ، اس شرط پر ہوئی تھی کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے شہر کے اندر ہوں یا باہر برباد نہ کیے جائیں گے اور یہ کہ ان کا کوئی دشمن ان پر چڑھ آئے تو ان کی طرف سے مقابلہ کیا جائے گا اور یہ کہ وہ تیوہاروں میں صلیب نکالنے کے مجاز ہیں، چنانچہ تمام شام اورحیرہ (باستثنا بعض مواضع کے) ان ہی شرائط پر فتح ہوا اور یہی وجہ ہے کہ خانقاہیں اور گرجے اسی طرح چھوڑ دئیے گئے اور برباد نہیں کیے گئے۔“
حضرت خالد نے ایک صلح اس شرط پر کیا کہ:
لایہدم لہم بیعة ولا کنسیة وعلٰی ان یضربوا نواقیسہم فی اي ساعة شاوٴا من لیل او نہار الا فی اوقات الصلوٰة وعلی ان یخرجوا الصلبان فی ایام عیدہم“․
(ان کے گرجے برباد نہ کیے جائیں، وہ نماز کے وقتوں کے سوا، رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائیں اور تمام تیوہاروں میں صلیب نکالیں۔)
امصار مسلمین کن علاقوں کو کہاجائے گا
بدائع صنائع میں ذمیوں کے شخصی و مذہبی معاملات میں جو توسیع ملتی ہے اس سے بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اسلام نے ذمیوں کو کس فراوانی سے حقوق عطا کیے ہیں۔
”جو بستیاں اور مقامات امصار مسلمین میں سے نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمان کتنی ہی کثیر تعداد میں آباد ہوں۔ البتہ یہ افعال امصار مسلمین میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ وعیدین اور حدود قائم کی جاتی ہوں․․․ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلاً زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں تواس کے اظہار سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا خواہ امصار مسلمین میں ہوں یا خود ان کے اپنے امصار ہوں۔“
مسلم ممالک میں مقیم غیرمسلموں کے متعلق جو چند شرعی ممانعت کے احکام ملتے ہیں وہ کسی عصبیت یا اور کسی اور وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس ممانعت کا منشا یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات اور ان کی دینی حمیت کا تھوڑا سا خیال رکھیں، ان کے مذہب کی حرمت کو پامال نہ کریں، وہ کسی مسلم آبادی میں اس طرح کا مظاہر نہ کریں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھے۔
یہاں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ امصار مسلمین کن علاقوں کو کہا جائیگا۔ ہندوستانی تناظر میں ایساکوئی علاقہ شروع میں نہیں تھا جس پر اس قسم کی تعریف منطبق ہوتی ہو۔ اس سلسلے میں اس بات کا خیال بہرحال ضروری ہے کہ اس میں وہ علاقے آجاتے ہیں جہاں کے باشندے اسلام قبول کرلیں، مثلاً مدینہ منورہ، طائف، یمن، نیز اس میں وہ شہر بھی آجاتے ہیں جن کا پہلے وجود نہ تھا بلکہ مسلمانوں نے ہی وہاں کی زمینوں کو تقسیم کرکے وہاں اقامت اختیار کی مثلاً کوفہ، بصرہ اور اسی ضمن میں سرحدی علاقے بھی آتے ہیں۔ اس تعریف میں وہ علاقے بھی آجاتے ہیں جو مسلمانوں کی فوجی قوت کے ذریعے فتح کرے اور امام فتح کے بعد ان علاقوں کو وہاں کے اصل باشندوں کے حوالے کردینا مناسب نہ خیال کرے بلکہ فاتحین میں اس علاقہ کو تقسیم کردے جیسے رسول اللہ … نے اہل حیرہ کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔
محمد بن قاسم کا برتاؤ ذمی اور معاہد کے ساتھ
مسلمان جہاں جہاں پہنچے اور اپنی حکومت قائم کی بزور طاقت یا صلح و معاہدہ کے ذریعہ وہاں انھوں نے ذمیوں اور معاہدین کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا اور انہیں ہر قسم کی آزادی، بلکہ ان کے اصل حقوق سے بھی تجاوز کرکے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی نہ صرف یہ کہ انھوں نے ان کے پرانے معبدوں کو قائم رکھے بلکہ نئے معبدوں کی تعمیر کی بھی اجازت دی۔ اس کے علاوہ ان کے اخراجات کے لیے کافی مقدار میں جائیدادیں وقف کردیں تاکہ یہاں نظام بہتر طریقے سے انجام پاسکے۔ نیز مجاوروں اور پادریوں کے لیے روزینے بھی مقرر کیے۔ اورجب محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا تو برہمنوں کو مندر میں پوجا پاٹ کرنے اور نذر و نیاز چڑھانے کی فراخ دلی سے جو اجازت دی اس کی تفصیل حچ نامہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں سید طفیل احمد منگلوری لکھتے ہیں کہ:
”اب رہا مسئلہ محمد بن قاسم کا برہمنوں اور مندروں کے ساتھ برتاؤکا۔ اس کی نسبت اس زمانہ کے ہندو مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے ہندوؤں کے مندر وغیرہ نہیں توڑے۔ زمانہ قدیم میں عام خیال یہ تھا کہ ہرقوم کے دیوتا جنگ کے وقت اپنی اپنی قوم کو مدد دیتے ہیں، پس جب کوئی قوم فتح پاتی تواس قوم کے معبود کی طاقت دیکھ کر مفتوح قوم کے لوگ فاتح قوم کا مذہب اختیار کرلیتے۔ اسی کلیہ کے مطابق راجہ داہر کے مارے جانے پر جب ہندوستان کے لوگ مسلمان ہونے لگے تو محمد بن قاسم نے دوسرے روز اعلان کردیا کہ جو شخص چاہے اسلام قبول کرے اور جو چاہے اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے، ہماری طرف سے کوئی تعرض نہ ہوگا۔ برہمن آباد فتح ہونے پر مندروں کے پجاری محمد بن قاسم کے پاس گئے اور کہا کہ ہندوؤں نے مسلمان سپاہیوں کے ڈرسے بتوں کی پوجا کے لیے مندروں میں آنا کم کردیا ہے جس سے ہماری آمدنی میں فرق آگیا ہے۔ مندروں کی مرمت بھی نہیں ہوتی ہے، تم انہیں درست کرادو اور ہندوؤں کو مجبور کرو کہ وہ مندروں میں آکر پوجا پاٹ کریں۔“
یہ سن کر خلیفہ سے بذریعہ خط کے استصواب کیاگیا جو اب آنے پر محمد بن قاسم نے اعلان کردیا کہ دان، پن، دکشنا، بھینٹ جس طرح پہلے دیتے تھے اب بھی دیں۔ اپنے مندروں میں آزادانہ پوجا پاٹ کریں، سرکاری مال گزاری میں سے تین روپیہ فی صدی برہمنوں کے لیے الگ خزانے میں جمع کیا، اس روپیہ کو برہمن جس وقت چاہیں اپنے مندروں کی مرمت اور ضروری سامان کے لیے خزانہ سے لے سکتے ہیں۔ پھر سب سے بڑے پنڈت کو رانا کا خطاب دے کر ان کو امورمذہبی کا مہتمم اور افسر مقرر کردیا۔“
محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے فوراً بعد ہی اس کے عفو و درگذر اور صلح و امان کے خاور کھل گئے۔ جو انکے مقرر حدود سے بھی زیادہ تھے جس سے حجاج بن یوسف کو خطرہ لاحق ہونے لگا کہ اگر محمد بن قاسم اسی طرح رواداری سے کام لیتا تو کوئی بعید نہیں کہ دشمن اسے کمزوری پر محمول کرنے لگے اور پھر یہاں مسلمانوں کو ناکامی سے ہم کنار ہونا پڑے، چنانچہ حجاج نے قاسم کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امان دینے میں زیادہ فراخ دلی سے کام نہ لیا جائے، بلکہ انہیں اتنی ہی رعایت دی جائے جسکے وہ مستحق ہیں۔
”چچازاد بھائی! آپ کا پرمسرت خط ملا، پڑھ کر بے انتہا محظوظ ہوا۔ یہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم جن اصولوں پر عمل درآمد کررہے ہو وہ بالکل شروع کے مطابق ہیں، لیکن سنتا ہوں کہ تم نے چھوٹے بڑے سب کو یکساں امان دے دی ہے، دوست دشمن میں کوئی تمیز نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافر جہاں ہیں قتل کرڈالو، خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم واجب العمل ہے۔ امان دینے کے لیے اس قدر دریادلی نہ کرو، اس طرح امان دینے سے آئندہ کارروائی رک جائے گی، حالاں کہ تم اس کے ذمہ دار بناکر بھیجے گئے ہو۔ آئندہ سوائے ذی عزت لوگوں کے کسی دشمن کو پناہ نہ دینا ورنہ تمہارے بے انتہا رحم کو لوگ کمزوری تصور کریں گے اور تمہاری شوکت جاتی رہے گی۔“
محمد بن قاسم کے فیاضانہ سلوک کا سندھ کے برہمنوں پر خاصا مثبت اثر پڑا، اور بہت سے لوگ مسلمان ہونے لگے۔ اور برہمنوں نے ملکی انتظامات و انصرام میں داخلہ حاصل کرکے بڑے خوش گوار ماحول پیداکیے۔ مال گزاری وغیرہ کے اصول کرنے کا حق بھی انہی لوگوں کے ذمہ رہنے دیا۔ اس رعایت سے وہ لوگ نہ صرف خوش تھے؛ بلکہ ان لوگوں نے جگہ جگہ پہنچ کر اس عفو و درگزر اور حسن سلوک کا تذکرہ اور پرچار کیا، جس سے اور بھی ماحول خوش گوار ہوتا گیا اور بہت سے لوگ اطاعت گزاری پر مجبور ہوئے۔ وہ جہاں پہنچتے اپنے ہم قوموں کویہ کہہ کر اطاعت گزاری کا درس دیتے کہ:
”ہماری سلطنت تباہ ہوگئی اور فوجی طاقت جاتی رہی، اب ہم میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے یقینا ہم گھر سے نکال دئیے جاتے اور تمام جائدادوں سے محروم ہوتے، فقط حاکم قوم کی مروت اور عدل وانصاف سے ہم اس وقت بھی معزز عہدوں پر ہیں اور ہر چیز ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ یا تو ہم لوگ اہل وعیال کو لے کر ہندوستان ہجرت کرجائیں، ایسی صورت میں ہم لوگ بالکل مفلس ہوجائیں گے، کیوں کہ تمام جائدادیں اسی جگہ چھوڑنی پڑیں گی اور یا پھر مطیع رہ کر جزیہ ادا کریں اور آرام و عزت سے زندگی بسر کریں۔“
ایفائے عہد کی بے نظیر مثال
مسلمانوں نے جب کسی سے کوئی عہد کرلیاتو پھر ہرممکن کوشش کی کہ اس کو برقرار رکھا جائے۔ ہندوستان کی فتح کے تناظر میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ جس کے پاس و لحاظ کرنے میں محمد بن قاسم کو متذبذب ہوناپڑا۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ مفسد لوگ عفو و درگزر کے باوجود بھی ماحول کو ناخوشگوار بنانے کی کوشش کررہے تھے، جن کو کسی طرح گرفتار کرکے محمد بن قاسم کے سامنے پیش کیاگیا، ان کی نازیبا حرکت کے پیش نظر محمد بن قاسم نے ان لوگوں کے قتل کا حکم جاری کردیا۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر میری اور میرے بال بچوں کی جاں بخشی کی ضمانت دی جائے تو میں ایک عجیب بات ظاہر کروں گا، جس سے اب تک مسلمانوں کا واسطہ نہیں پڑا ہوگا، مگر اس عجیب بات کا انکشاف صرف سپہ سالار کے سامنے کروں گا۔ اس بات سے اسلامی عساکر نے سمجھا کہ کسی اہم واقعہ کا یہ انکشاف کرنے والا ہے۔ یا پھر کسی خزانے کا پتہ دینے والا ہے۔ اس لیے اس کی درخواست قبول کرلی گئی۔ اور اسے تحریری امان دے دیاگیا۔ امان حاصل کرتے ہی اس نے اپنے بال کھولے، داڑھی اور مونچھ کے بال کھینچ کر لمبے کیے، پھر لپیٹ کر اپنے پاؤں کے انگوٹھے کو گدی تک لے گیا اور ناچنے لگا۔ وہ ناچتا جاتا اورکہتا جاتا کہ دیکھو کیسی عجیب بات ہے آج تک کسی نے ایسا نہ دیکھا ہوگا۔ اس کی اس حرکت پر مسلمان حیرت زدہ ہوئے اور یہ اس کا فریب شمار کرکے اس کا قتل کرنا چاہاکہ اس قسم کا تماشا کوئی ایسی چیز نہیں، مگر محمد بن قاسم نے ایفائے عہد کی فی الحال تکمیل کرتے ہوئے اس کا قتل کرنے کے بجائے اس کے تمام متعلقین کے ساتھ اسے نظر بند کردیا اور قتل کوملتوی کردیا۔ پھر اس معاملہ کی اطلاع حجاج کو کی۔ حجاج اپنے درباری علماء سے استفسار کیا، جواب ملاکہ اس کو آزاد کردیا جائے تاکہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اور مثال میں صحابہ کے عہد کا ایک ایسا ہی واقعہ پیش کیا۔ پھر حجاج نے محمد قاسم کو اطلاع کی کہ اسے رہا کردیاجائے۔ چنانچہ اس فریبی اورمکار کو رہا کردیاگیا۔
اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس فریب کے باوجود محمد بن قاسم نے اس کے تمام حواری کے رہا کردیا۔ اس سے زیادہ عفو و درگذر اور رواداری کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔ یہی وہ بے مثال رواداری ہے کہ سندھیوں کی نظر میں محمد بن قاسم محبوب بن گئے، جن کی آواز پر وہ جان دینے کو ہروقت تیار رہتے تھے۔ اور جب انہیں قید کرکے واسط کی جیل میں بھیجا جارہاتھا تو یہاں کے لوگ غم میں آنسو بہائے اور جب ان کا انتقال ہوگیا تو یادگار کے طور پر ان کا مجسمہ بنایا۔ اس محبت اور رواداری سے ہندومسلمانوں میں اس قدر قریبی تعلقات قائم ہوگئے کہ خاص عرب میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگیوں میں ہندوشریک ہوتے تھے چنانچہ برہمنوں کا ایک خاندان اپنے آپ کو اسی بناپر حسینی برہمن کہتا ہے کہ بقول ان کے ان کے بزرگوں نے کربلا میں سادات کا ساتھ دیا تھا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 91 ، ربیع الاول1428 ہجری مطابق اپریل2007ء