از: ڈاکٹر ایم․ اجمل فاروقی، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
۱۳،۱۴،۱۵/ فروی ۲۰۰۷/ کو انڈونیشیا میں خاندانی منصوبہ بندی پر سہ روزہ کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، چین، ایران، ترکی، تھائی لینڈ، اردن، شام، تنزانیہ سمیت ۱۴ ملکوں کے ۱۲۵ مسلم شرکاء نے شرکت کی تھی۔ بعض ذمہ داروں کے خیالات اس طرح سامنے آئے:
یہ کانفرنس اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مسلمان صرف جذباتی امور کی طرف ہی توجہ نہیں کرتے بلکہ ترقی اور خوش آئند تغیرات کے تعلق سے بھی ان کا گہرا تعلق ہے۔ (پروفیسر اختر الواسع جامعہ ملیہ اسلامیہ ہندوستان) انڈونیشیا کے وزارت برائے مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل نصیرالدین عمر نے کہا کہ: ”مذہبی سرپرستی کے بغیر خاندانی منصوبہ بندی کو کامیاب بنانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ خاندانی منصوبہ بندی کو مذہبی حوالہ سے ہی مسترد کیا جاتاہے۔ اقوام متحدہ آبادی فنڈ کے ایشیا کے ڈائریکٹر سلطان اے․ عزیز نے مشورہ دیا کہ ”مسلم ملکوں کو چاہیے کہ وہ مذہبی تعلیمات کو غلط طریقہ سے عام نہ کریں اور جانبدارانہ تہذیبی اصولوں کو چھوڑ دیں۔ یہ چیزیں معاشرتی بہبود اور خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں حائل ہیں۔ انھوں نے مذہبی رہنماؤں کو خاندانی منصوبہ بندی سے بہرہ ور کرنے پر زور دیا اور کہا کہ مذہبی انتہا پسندی کے موجودہ ماحول میں اب وقت آگیا ہے کہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں مسلم قیادت سامنے لائی جائے۔“ (۱۹/۲/۲۰۰۷/ یو․ این․ آئی بحوالہ ہندوستان ایکسپریس)
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جو پروگرام، فلسفہ، رجحان مغرب میں ناکام ہوجاتاہے وہ مشرق اور وہ بھی مسلم مشرق میں پھیلانے کی کوشش اتنے بڑے اداروں کی طرف سے کیوں ہوتی ہیں؟ آج جب مغرب شراب نوشی، سگریٹ نوشی، فری سیکس اور خاندانی منصوبہ بندی، ڈبہ بند اشیاء خورد و نوش، کیمیاوی کھاد سے پیداکی گئی غذائی اجناس سے توبہ کررہا ہے تو عین یہی چیزیں مشرقی ممالک کو درآمد کی جارہی ہیں۔ اگر ہم صرف خاندانی منصوبہ بندی کی بات کریں تو تجربہ اور تاریخ یہ بتارہا ہے کہ مغرب کو اس کے سخت تباہ کن طویل المدت سنگین نتائج درپیش ہیں۔ آج وہاں کی آبادی میں ادھیڑ اور بوڑھے لوگوں کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے۔ وہاں کام کرنے والی عمر کے افراد جو ۱۶-۳۵ سال کے درمیان ہوں انکا تناسب لگاتار کم ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں شرح پیدائش اور شرح اموات برابر آنے کا ڈر ہے۔ نتیجتاً ان ممالک میں باہری لوگوں کو مجبوراً بلانا پڑ رہا ہے۔ جرمنی، فرانس، ہالینڈ، اسپین، برطانیہ ہر جگہ ہی مسئلہ درپیش ہے۔ سماج کو رواں دواں رکھنے کے لئے ان کے پاس آدمی نہیں ہیں۔ جو لوگ ایشیا، لاطینی امریکہ، افریقہ، مشرقی یوروپ سے وہاں اس کمی کو پورا کرنا جارہے ہیں اس سے وہاں دوسری طرح کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ وہ لوگ اِن سے کام بھی لینا چاہتے ہیں اور انہیں برداشت بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایشیا میں جن ممالک چین، جاپان، سنگاپور نے خاندانی منصوبہ بندی پر کامیابی سے عمل کیا وہاں آج یہ حالت ہے کہ حکومتیں مستقبل کے رجحانات سے ڈررہی ہیں۔ جاپان اور سنگاپور بچہ پیدا کرنے کے لئے ہر طرح ترغیبات اور سہولیات دے رہے ہیں مگر جن نوجوانوں کو موج مستی اور "Figure” خراب ہونے کا ڈر ہوگیا ہے وہ واپس گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چین نے سب سے زیادہ جبریہ خاندانی منصوبہ بندی کا "Single child” ”واحد اولاد“ پروگرام کامیابی سے چلایا وہ بھی مغرب کی ایماء پر اورآج وہاں خطرہ کی گھنٹی بجنی شروع ہوگئی ہے یعنی بچیوں کی تعداد بچوں سے کم ہورہی ہے اور یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے۔ جب ہمارے یہاں آبادی میں کمی کے ساتھ لڑکیوں کی تعداد بھی غیر متناسب انداز میں کم ہورہی ہے خوشحالی والی، زیادہ تعلیم یافتہ اور پیسہ والی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، گجرات، ہماچل پردیش، دہلی، چنڈی گڑھ سب میں تشویشناک انداز میں لڑکیوں کا تناسب کم ہورہا ہے بعض مقامات پر یہ ایک ہزار مردوں پر ۷۵۰ خواتین تک پہنچتا ہے اور انہیں بیویاں بہار اور بنگال سے درآمد کرنی پڑرہی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی دراصل ایک ناکام اورانسانیت دشمن نظریہ ہے جسے منظم انداز میں مخصوص طبقہ کے ذریعہ آگے بڑھایا جارہا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے لئے جو بھی دلائل ہیں وہ دراصل رشوت خور، کمیشن خور، مغرب زدہ حکمرانوں کا ایک ہتھکنڈہ ہے جو وہ اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپناتے ہیں۔ مغرب کے پاس سرمایہ اور ٹکنالوجی ہے مگر انسانی دولت کی محرومی ہے۔ اس لئے وہ اپنی برتری بنائے رکھنے کے لئے مشرق کی دولت ، قدرتی وسائل اور انسانی وسائل کو بھی کم یا ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے طرح طرح کے خوش کن، گمراہ کن تھیوریاں اور فلسفہ ایجاد کرتا رہتا ہے۔ جبکہ یہ انسانیت دشمن طاقتیں غریب ممالک کو مشورہ دیتی ہیں کہ اپنے ملکوں میں تعلیم پر، حفظان صحت میں، اشیاء خورد و نوش پر، کھانا پکانے کی گیس پر سرکاری مدد کم کرو مگر یہی ممالک غریب ملکوں کو اپنی مہنگی غیرضروری اشیاء تعیش خریدنے پر آمادہ کرنے میں ۔ کار ، A.C. ، کو کا کولا، میک اپ کا سامان خریدو ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ہتھیار خریدو۔ اپنی عوام کو سڑک، بجلی، پانی، تعلیم، علاج پر خرچ کرنے کے لئے بڑھتی آبادی کا رونا روتے ہیں مگر ہتھیار خریدنے کے لئے اکساتے ہیں۔ آج ایسا کیوں ہے کہ دنیا میں ہتھیار خریدنے والے تمام بڑے ملک ایشیا سے ہیں۔ (سعودی عرب، ہندوستان اور چین، دوبئی) جب کہ ماہرین زراعت، ماہرین اقتصادیات ثابت کرچکے ہیں کہ اصل مسئلہ آبادی Population نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تقسیم ناقص اور غیر ضروری خرچ (Distribution & Consumerisms) کا ہے۔ دنیا میں انسانی ضروریات کی تمام چیزیں قدرتاً مہیا ہیں۔ مگر جہاں سے حضرت انسان کا عمل دخل شروع ہوتا ہے وہیں سے انسانیت کی مشکلیں ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازی ، اسمگلنگ، بلیک مارکٹنگ وغیرہ کی شکل میں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دام بڑھانے کے لئے غذائی اجناس کو ضائع بھی کردیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر آبادی کا نہیں بلکہ اسراف Consumption کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک امریکی ۱۲۷، بنگلہ دیشیوں کے برابر قدرتی وسائل کا استعمال کرتا ہے تو آبادی کم ہونے کے باوجود امریکی ہوا، پانی، بجلی، پٹرول، گیس ہر دولت کا زیادہ استعمال کرکے دھرتی پر زیادہ گندگی اور کثافت Pollution پھیلاتے ہیں۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ ہمارا ملک جب آزاد ہوا تو غذائی اجناس کی قلت تھی ۱۹۷۰/ تک یہ ہی رہی ہے۔ اس کے بعد کے سبز انقلاب نے جب کہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی تھی غذائی قلت کو ختم کردیا۔ مگر یہ قلت گذشتہ دو چار سالوں سے حکومتوں کی ترجیحات زراعت سے ہٹاکر سروس اور انڈسٹری کی طرف ہوجانے سے پھر نظر آرہی ہے۔ یہی حال پوری دنیا کا ہے۔ غریب ملکوں کو مغربی ممالک اور اس کے غلام ادارہ اقوام متحدہ ورلڈ بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، W.H.O. نے بہکارکھا ہے۔ یہ مالی ادارہ غریب ممالک سے یہ تو کہتے ہیں کہ غریب عوام کو سرکاری رعایت Ssubsidy پر تعلیم، دواء، گیس، پٹرول نہ دو مگر یہ نہیں کہتے کہ ہتھیار نہ خریدو، کار نہ خریدو، A.C. نہ خریدو بلکہ ان غیرضروری اشیائی خرید پر تو قرضہ دے کر اکساتے ہیں۔ ہندوستان کی جب آبادی کم تھی تو شرح ترقی کم تھی مگر آج ایک ارب سے زیادہ آبادی کے باوجود شرح ترقی ٪۹ ہے۔ اور عموماً ملک غذائی اجناس میں خود کفیل ہے۔ چین اور ہندوستان کی ترقی کے لئے امریکی ماہر اقتصادیات جیفری سچ Geoffry Sach اور نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات پروفیسر امریتہ سین کا کہنا ہے کہ یہ سب ہندوستان اور چین کی انسانی دولت Skilled Human resource کی بدولت ہوا ہے اور اگر ان کی آبادی اور اس کی پرورش پر اسی طرح دھیان دیاگیا تو ۲۰۵۰/ تک یہ ممالک امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ ان ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ ترقی پذیر کثیر آبادی والے ممالک کو دراصل اپنی انسانی دولت پر پیسہ خرچ کرنا چاہئے تاکہ اس کی قیمت مزید بڑھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اِن ممالک کو اپنے یہاں تعلیم، خوراک، صحت پر زیادہ خرچ کرنا چاہئے اور اسلحہ اور دفاع وغیرہ پر خرچ کم کرنا چاہئے۔ آج یہ حال ہے کہ امریکہ جیسا ترقی یافتہ دولت مند ملک غریبوں کی تعلیم، صحت کے عوامی بجٹ کی رقم کاٹ کر دفاعی خرچ پورا کررہا ہے۔ عراق کی جنگ پر وہاں ہونے والے بالواسطہ اور بلا واسطہ خرچ کا اندازہ نوبل پرائز یافتہ معیشت داں جوزر سگلٹز نے ۲۰ کھرب ڈالر اور ٹیمپل یونیورسٹی امریکہ حساب کے پروفیسر جان ایلن پاؤلس نے ۱۰ کھرب ڈالر لگایاہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ اتنی رقم اگر پوری دنیا کے لوگوں میں تقسیم کی جائے تو ہر ایک کو ۱۵۰ ڈالر مل جائیں گے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے صحت اور خوراک کی امداد اور ہنگامی امداد کے اداروں کے بجٹ محض ۵-۸ ارب ڈالر سالانہ ہوتے ہیں جن سے غریب ممالک کے کروڑوں بچوں، بیماروں، ان پڑھوں، معذوروں اور مصیبت زدگان کی مدد ہوسکتی ہے مگر یہ ۵-۸ ارب ڈالر اقوام متحدہ کو نہیں مل پاتے۔ جبکہ انہیں ممالک کے حکمراں ۴-۵ ارب ڈالر کے ہتھیار آرام سے خرید لیتے ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے درکار ۸- ارب ڈالر کا ایک تہائی بھی اکٹھا نہیں ہوا۔ وہاں بمبار طیاروں، میزائیلوں، بموں، نیوکلیائی پن ڈبیاں خریدنے کے لئے پیسہ کی کمی نہیں ہے۔ اگر آبادی بڑھتی ہے اور اس پر سرمایہ لگایا جاتا ہے تو وہ پیدا وار بڑھاتی ہے وہ کھیت بھی بڑھاتی ہے تو پیداوار کی ضرورت ہوتی ہے کھیت، کھلیان، فیکٹری، کارخانہ زیادہ مال اور پیداور بڑھاتے ہیں اس سے روزگار بڑھتا ہے۔ اس طرح ایک طرف پیداوار بڑھتی ہے دوسری طرف روزگار بڑھتا ہے۔ اب اس مشینی زمانہ میں آپ تیز رفتاری سے کارخانوں میں پیداوار بڑھاتے ہیں سائنسی طریقوں سے جانوروں، مچھلیوں، مرغیوں وغیرہ کی افزائش بڑھاتے ہیں کھیتوں میں پیداوار بڑھاتے ہیں اور دوسری طرف آبادی کم کرتے ہیں تو انہیں کون استعمال کرے گا؟ جب یہ استعمال نہیں ہوں گے تو کارخانہ کیسے چلیں گے؟ جب کارخانہ نہیں چلیں گے تو روزگار کیسے پیداہوگا؟ آج کل بازار کی تلاش ہر ترقی یافتہ ملک کو ہے پہلے بھی تھی جب منڈی کی تلاش میں انگریزوں اور دیگر یوروپی اقوام نے دنیاکو غلام بنایا تھا۔ ایک انتہائی خود غرضانہ اور مکارانہ سوچ ہے کہ ہم مشینوں سے مال پیداکرتے رہیں نسل پیدا کوئی اور کرے اور اُن کے اس مال کو جو اکثر غیر ضروری ہے اسے استعمال کرکے اُن کی معیشت کو طاقت پہنچاتا رہے۔ تو ایسے دنیاکیسے چلے گی؟ اگر ساری دنیا ”واحداولاد“ فارمولہ کو اپنا لے گی تو کام کرنے کے لئے پیداوار کے لئے لوگ کہاں سے آئیں گے؟
خاندانی منصوبہ بندی کے حوالہ سے خواتین کی صحت کا بہت بڑا مسئلہ اٹھایاجاتا ہے جسے تجربہ خود رد کردیتا ہے اور سائنس اس کی نفی کرتی ہے کہ کم بچہ ہونے سے یا بالکل نہ ہونے سے خواتین زیادہ صحت مند ہوتی ہیں۔ اس کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے آج جو نسل ۴۰-۵۵ سال کی عمر کے مرحلہ میں ہے وہ دیکھ لے کہ اس کے والدین جن کے اوسطاً ۸-۱۰ بچہ ہوتے تھے وہ زیادہ صحت مند ہیں یا آج ”ہم دو ہمارے دو“ یا ”ہم دو ہمارا ایک“ والے زیادہ صحت مند ہیں؟ اس مسئلہ میں بھی جتنی سائنسی تحقیقات آئی ہیں وہ خاندانی منصوبہ بندی کے عمومی نظریہ کی حمایت نہیں کرتی ہیں۔ آج خواتین کی اموات اگر زچگی، حمل یا وضع حمل کے دوران ہورہی ہیں تو کیا کروڑوں خواتین سالانہ پستان، رحم اور خصیہ الرم کے کینسر سے نہیں فوت ہورہی ہیں؟ دراصل زندگی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے محدود اور تغیراتی علم کے بل بوتے ہانکنے کی یہ سب خرابیاں ہیں۔ جنہیں ہم ایک خرابی کو دس ناقص خرابیوں سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ہے۔ امت مسلمہ کو جس کے پاس فاطر کائنات اور رب کائنات کی دی ہوئی رہنمائی ہے اسے اہل مغرب کے ایجنڈہ پر چلنے کی بجائے وہاں پر ہتھیاروں کی تجارت، عالمی مسئلہ ماحولیاتی آلودگی، پانی کی کم ہوتی مقدار، ایڈس اور دوسرے امراض خبیثہ کی کثرت، رشتوں میں کمزوری، خاندان کے بکھراؤ، ذہنی عدم اطمینان وسکون، غیر فطری ہم جنس شادیاں وغیرہ جیسے مغربی تہذیب کے ”تحفوں“ پر بحث شروع کرائیں اور ان کے سامنے نسخہٴ کیمیا سے رہنمائی پیش کریں۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 91 ، ربیع الاول1428 ہجری مطابق اپریل2007ء