از: مولانا سعید احمد جلال پوری
۴- ”عن انس ان علیا اتی بناس من الزط یعبدون وثناً فاحرقہم، فقال ابن عباسؓ انما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من بدل دینہ فاقتلوہ“․ (سنن نسائی ص:۱۶۹، ج:۲، مسند احمد ص:۳۲۳، ج:۱)
ترجمہ: ”حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس زط (سوڈان) کے کچھ لوگ لائے گئے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے، آپ نے ان کو آگ میں جلادیا، اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”جو شخص اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“
۵- ”عن ابی موسیٰؓ قال اقبلت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ․․․ فقال : ․․․ ولکن اذہب انت یا ابا موسٰی او یا عبد اللہ بن قیس الی الیمن، ثم اتبعہ معاذ بن جبل، فلما قدم علیہ القی لہ وسادة قال: انزل و اذا رجل عندہ موثق قال: ماہذا؟ قال: کان یہودیاً فاسلم ثم تہود، قال: اجلس! قال: لا اجلس حتی یقتل، قضاء اللہ ورسولہ ثلٰث مرات فامر بہ فقتل ․․․ الخ“ (بخاری ص:۱۰۲۳، ج:۲، مسلم ص:۱۲۱، ج:۲، ابوداؤد ص:۲۴۲، ج:۲، نسائی ص:۱۶۹، ج:۲، سنن کبریٰ بیہقی ص: ۱۹۵، ج:۸)
ترجمہ: ”حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ میںآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا: ابوموسیٰ یا عبداللہ بن قیس! یمن جاؤ، اس کے بعد آپ نے معاذ بن جبل کو بھی میرے پیچھے یمن بھیج دیا، حضرت معاذ یمن پہنچے اور ان کے بیٹھنے کیلئے مسند لگائی گئی تو انھوں نے دیکھا کہ (حضرت ابوموسیٰ کے پاس) ایک آدمی بندھا ہوا ہے، حضرت معاذ نے پوچھا: اس کا کیا قصہ ہے؟ فرمایا: یہ شخص پہلے یہودی تھا، پھر اسلام لایا اور اب مرتد ہوگیا ہے، آپ نے فرمایا: جب تک اس کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مطابق قتل نہیں کردیاجاتا، میں نہیں بیٹھوں گا، انھوں نے تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا، چنانچہ حضرت ابوموسیٰ نے اس کے قتل کا حکم دیا، جب وہ قتل ہوگیا تو حضرت معاذ تشریف فرماہوئے۔“
۶- ”عن عبداللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ․․․ لا یحل دم رجل مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللہ وانی رسول اللہ الا باحدی ثلاث: الثیب الزانی، والنفس بالنفس، والتارک لدینہ المفارق للجماعة“۔ (ابوداؤد ص:۲۴۲، ج:۲، نسائی ص:۱۶۵، ج:۲، ابن ماجہ ص:۱۸۲، سنن کبریٰ بیہقی ص:۱۹۴، ج:۸، ترمذی ص:۲۵۹، ج:۱، مسلم ص:۵۹، ج:۲)
ترجمہ: ”حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دے، اس کا خون بہانا جائز نہیں، سوائے ان تین آدمیوں کے: ایک وہ جو شادی شدہ ہوکر زناکرے، دوسرا وہ جو کسی کو ناحق قتل کردے اور تیسرا وہ جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔“
۷- ”عن حارثة بن مضرب انہ اتی عبداللہ فقال: ما بینی و بین احد من العرب حنة، وانی مررت بمسجد لبنی حنیفة، فاذا ہم یومنون بمسیلمة، فارسل الیہم عبداللہ فجیٴ بہم فاستتابہم، غیر ابن النواحة، قال لہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: لو لا انک رسول لضربت عنقک، فانت الیوم لست برسول، فامر قرظة بن کعب․ فضرب عنقہ فی السوق، ثم قال: من اراد ان ینظر الی ابن النواحة قتیلا بالسوق“۔ (ابوداؤد ص:۲۴، ج:۲)
ترجمہ: ”حارثہ بن مضرب سے مروی ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا، (اورآپ نے فرمایا کہ) میرے اور عرب کے درمیان کوئی عداوت نہیں ہے، پھر فرمایا: میں مسجد بنوحنیفہ کے پاس سے گزرا، وہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ماننے والے تھے، حضرت عبداللہ نے ان کی طرف قاصد بھیجا، تاکہ ان سے توبہ کا مطالبہ کرے، پس سب سے توبہ کا مطالبہ کیاگیا، سوائے ابن نواحہ کے، آپ نے اس سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کردیتا، (اس لئے کہ وہ مرتد ہونے کے علاوہ مرتد مسیلمہ کا قاصد تھا، ناقل) پس آج تم قاصد نہیں ہو، اس کے بعد آپ نے (حاکم کوفہ) قرظہ بن کعب کو حکم دیا کہ اس کو قتل کردیا جائے، چنانچہ بازار ہی میں اس کو قتل کردیاگیا، اور فرمایا: جو ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے، وہ بازار میں قتل شدہ موجود ہے۔“
۸- ”عن بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ معاویة بن حیدہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ، ان اللہ لایقبل توبة عبد کفر بعد اسلامہ“ (مجمع الزوائد، ص:۲۶۱، ج:۶)
ترجمہ: ”حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، اس کو قتل کردو، بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے کی توبہ قبول نہیں کرتے، جو اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے۔“
۹- ”عن معاذ بن جبل ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ حین بعثہ الی الیمن: ایما رجل ارتد عن الاسلام فادعہ، فان تاب، فاقبل منہ، وان لم یتب، فاضرب عنقہ، وایما امرأة ارتدت عن الاسلام فادعہا، فان تابت، فاقبل منہا، وان ابت فاستتبہا“۔ (مجمع الزوائد: ۲۶۳، ج:۶)
ترجمہ: ”حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے، اسے اسلام کی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اوراگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑادو، اور جونسی عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اسے بھی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کامطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)“۔
۱۰- ”عن جریر قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اذا ابق العبد الی الشرک فقد حل دمہ“۔ (ابوداؤد، ص:۲۴۳، ج:۲، مشکوٰة، ص:۳۰۷)
ترجمہ: ”حضرت جریر سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ اسلام سے کفر کی طرف واپس لوٹ جائے، اس کا قتل کرنا حلال ہوجاتا ہے۔“
۱۱- ”عن الحسن رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من بدل دینہ فاقتلوہ“۔(نسائی ص:۱۶۹، ج:۲)
ترجمہ: ”حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے، اس کو قتل کردو۔“
۱۲ – ”عن زید بن اسلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من غیَّر دینہ فاضربوا عنقہ“۔(موطا امام مالک ص:۶۴۰، جامع الاصول ص:۴۷۹،ج:۳)
ترجمہ: ”حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام چھوڑ کر دوسرا دین اپنائے، اس کی گردن کاٹ دو“۔
امام مالک اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
”قال مالک و معنی قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما نری واللہ اعلم من غیّر دینہ فاضربوا عنقہ، وانہ من خرج من الاسلام الی غیرہ، مثل الزنادقة واشباہہم، فان اولئک اذا ظہر علیہم قتلوا، ولم یستتابوا، لانہ لایعرف توبتہم، وانہ کانوا یسرون الکفر ویعلنون الاسلام فلا اری یستتاب ہوٴلاء ولایقبل منہم قولہم، واما من خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فانہ یستتاب، فان تاب، والاقتل، ذلک لو ان قوما کانوا علی ذلک رایت ان یدعوا الی الاسلام ویستتابوا، فان تابوا قبل ذلک منہم، وان لم یتوبوا قتلوا، ولم یعن بذلک فیما نری، واللہ اعلم، من خرج من الیہودیة الی النصرانیة ولا من النصرانیة الی الیہودیة، ولا من یغیّر دینہ من اہل الادیان کلہا الا الاسلام فمن خرج من الاسلام الی غیرہ واظہر ذلک فذلک الذی عنی بہ“۔(موطا امام مالک ص:۶۴۰)
یعنی امام مالک سے ارتداد کی تعریف میں منقول ہے کہ کوئی شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوجائے تو اس کی گردن کاٹ دی جائے، جیسے کوئی زندیق ہوجائے، ایسے لوگوں کے بارہ میں اصول یہ ہے کہ جب زندیق پر غلبہ وتسلط حاصل ہوجائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے، کیونکہ ان لوگوں کی سچی توبہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یہ لوگ کفر کو چھپاتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں، پس میرا (امام مالک) خیال یہ ہے کہ ان کے کفر کی بنا پر ان کو قتل کردیا جائے، ہاں اگر کوئی اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے تو اس سے توبہ کرائی جائے، توبہ کرلے تو فبہا ورنہ اسے قتل کردیاجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلے وہ مرتد ہے، لہٰذا وہ شخص مرتد نہیں کہلائے گاجو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین پر تھا، اوراس نے اپنا وہ مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلیا، لہٰذا نہ تواس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا، مثلاً: اگر کوئی یہودی، نصرانی بنجائے یاکوئی نصرانی، مجوسی بن جائے، خواہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو، نہ تو اس سے توبہ کرائی جائے گی اور نہ ہی اس کو قتل کیا جائے گا۔
۱۳- ”عن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری رحمہ اللہ، عن ابیہ انہ قال: قدم علی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، رجل من قبل ابی موسی الاشعری، فسالہ عن الناس فاخبرہ؟ ثم قال لہ عمر بن الخطاب: ہل کان فیکم من مُغربة خبر؟ فقال نعم، رجل کفر بعد اسلامہ، قال: فما فعلتم بہ؟ قال: قربناہ فضربنا عنقہ، فقال عمر: افلا حبستموہ ثلاثا، واطعمتموہ کل یوم رغیفا، واستتبتہوہ لعلہ یتوب ویراجع امر اللہ؟ ثم قال عمر اللہم انی لم احضر، ولم آمر، ولم ارض اذ بلغنی“۔(موطا امام مالک ص:۶۴۰، جامع الاصول ص:۴۷۹، ج:۳)
ترجمہ: ”حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے مروی ہے کہ حضرت عمر کی خلافت کے دور میں حضرت ابوموسیٰ کی جانب سے یمن کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا، آپ نے پہلے تو وہاں کے لوگوں کے حالات معلوم کئے، پھر اس سے پوچھا کہ وہاں کی کوئی نئی یا انوکھی خبر؟ اس نے کہا: جی ہاں! ایک آدمی اسلام لایاتھا، مگر بعد میں وہ مرتد ہوگیا، آپ نے فرمایا: پھر تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیاکیا؟ انھوں نے عرض کیا: ہم نے اس کو پکڑ کر اس کی گردن اڑادی، آپ نے فرمایا: تم نے پہلے اسے تین دن تک قید کرکے اس سے توبہ کا مطالبہ کیوں نہ کیا؟ ممکن ہے وہ توبہ کرلیتا؟ پھر فرمایا: اے اللہ! نہ میں وہاں حاضر تھا، نہ میں نے اس کے قتل کا حکم دیا اور جب مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں ان کے اس فعل پر راضی بھی نہیں ہوں۔“
گویا مرتد کے قتل سے پہلے استحباباً اس کو توبہ کا ایک موقع ملنا چاہئے تھا، چونکہ مرتد کو وہ موقع نہیں دیاگیا، تو حضرت عمر نے ترک مستحب کی اس بے احتیاطی کو بھی برداشت نہیں کیا اور اس سے برأت کا اظہار فرمایا۔
امام ترمذی مرتد کی سزا کے بارے فقہائے امت کا مذہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”والعمل علی ہذا عند اہل العلم فی المرتد، واختلفوا فی المرأة اذا ارتدت عن الاسلام، فقالت طائفة من اہل العلم تقتل، وہو قول الاوزاعی واحمد واسحق، وقالت طائفة منہم تحبس ولا تقتل، وہو قول سفیان الثوری وغیرہ من اہل الکوفة“ (ترمذی ابواب الحدود باب ما جاء فی المرتد، ص:۱۷۰، ج:۱)
ترجمہ: ”مرتد مرد کے بارے میں اہل علم کا یہی موقف ہے کہ اسے قتل کردیا جائے، ہاں اگر کوئی خاتون مرتد ہوجائے تو امام اوزاعی، احمد اوراسحق کا موقف یہ ہے کہ اسے بھی قتل کیا جائے، لیکن ایک جماعت کا خیال ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے، بلکہ قید کردیا جائے، اگر توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ زندگی بھر اسے جیل میں رکھاجائے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔“
چنانچہ ائمہ اربعہ: امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل بالاتفاق اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کو تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کئے جائیں، اس کو توبہ کی تلقین کی جائے اور دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے، اگر اسلام لے آئے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیاجائے، ملاحظہ ہو ائمہ اربعہ کی تصریحات:
فقہ حنفی: چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں ہے:
”واذا ارتد المسلم عن الاسلام والعیاذ باللہ․ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہة کشفت عنہ ویحبس ثلاثة ایام فان اسلم والاقتل“․ (ہدایہ اولین ص:۵۸۰، ج:۱)
ترجمہ: ”اور جب کوئی مسلمان نعوذ باللہ! اسلام سے پھرجائے تو اس پر اسلام پیش کیاجائے، اس کو کوئی شبہ ہو تو دور کیا جائے، اس کو تین دن تک قید رکھاجائے، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔“
فقہ شافعی : فقہ شافعی کی شہرئہ آفاق کتاب المجموع شرح المہذب میں ہے:
”اذا ارتد الرجل وجب قتلہ، سواء کان حرا او عبدا ․․․ وقد انعقد الاجماع علی قتل المرتد“ (المجموع شرح المہذب، ص:۲۲۸، ج:۱۹)
ترجمہ: ”اور جب آدمی مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب ہے، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، اور قتل مرتد پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔“
فقہ حنبلی: فقہ حنبلی کی معرکة الآراء کتاب المغنی اور الشرح الکبیر میں ہے:
”واجمع اہل العلم علی وجوب قتل المرتد، وروی ذلک عن ابی بکر و عمر وعثمان وعلی و معاذ و ابی موسیٰ وابن عباس وخالد (رضی اللہ عنہم) وغیرہم، ولم ینکر ذلک فکان اجماعا“۔(المغنی مع الشرح الکبیر،ص:۷۴، ج:۱۰)
ترجمہ: ”قتل مرتد کے واجب ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے، یہ حکم حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاذ، ابوموسیٰ،ابن عباس، خالد اور دیگرحضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور اس کا کسی صحابی نے انکار نہیں کیا، اس لئے یہ اجماع ہے۔“
فقہ مالکی: فقہ مالکی کے عظیم محقق ابن رشد مالکی کی مشہور زمانہ کتاب ”بدایة المجتہد“ میں ہے:
”والمرتد اذا ظفر بہ قبل ان یحارب فاتفقوا علی انہ یقتل الرجل لقولہ علیہ الصلوٰة والسلام: ”من بدل دینہ فاقتلوہ“ (بدایة المجتہد ص:۳۴۳، ج:۲)
ترجمہ: ”اور مرتد جب لڑائی سے قبل پکڑا جائے تو تمام علمائے امت اس پر متفق ہیں کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا مذہب بدل کر مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“
عام طور پر اسلام دشمن عناصر، ملاحدہ اور زنادقہ سیدھے سادے مسلمانوں اور سادہ لوح انسانوں کو ذہنی تشویش اور شکوک و شبہات میں مبتلاکرنے اور انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک انسان اپنا آبائی مذہب تبدیل کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ یقینا اس کو اپنے دین ومذہب میں کوئی کمی کوتاہی یا نقص نظر آیا ہوگا، جب ہی تو وہ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوا ہے؟ لہٰذا جب کوئی شخص غور و فکر کے بعد اسلام کو اپنا سکتا ہے تو دلائل و براہین کی روشنی میں وہ اس کو چھوڑنے کا حق بھی رکھتا ہے، پس اس کی تبدیلیٴ مذہب پر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے؟
بظاہر یہ سوال معقول نظر آتا ہے، جبکہ حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں، چنانچہ اگراس پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ارتداد کی وجہ اسلام میں کسی قسم کا نقص یا کمی کوتاہی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے پیچھے اسلام دشمنوں کی ایک منظم سازش ہے، اور وہ یہ کہ اسلام دشمنوں کی روزِ اوّل سے یہ سعی و کوشش رہی ہے کہ کسی طرح حق کے متلاشیوں کو جادئہ مستقیم سے بچلاکر ضلال و گمراہی کے گہرے غاروں میں دھکیل دیا جائے، چنانچہ شروع میں تو انھوں نے کھل کر اپنے اس مشن کو نبھانے کی کوشش کی، مگر جب ماہتابِ نبوت، آفتاب نصف النہار بن کر چمکنے لگا اور اس کی چکاچوند روشنی کے سامنے باطل نہ ٹھہرسکا تو ائمہ کفر و ضلال نے ردائے نفاق اوڑھ کر اس کے خلاف زیرِ زمین سازشوں کا جال بننا شروع کردیا۔
چنانچہ صبح کو وہ اپنے آپ کو مسلمان باور کراتے تو شام کو اسلام سے بیزاری کا سوانگ رچاکر مسلمانوں کو اسلام سے بدظن کرنے کی سازش کرتے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
”وقالت طائفة من اہل الکتاب آمنوا بالذی انزل علی الذین آمنوا وجہ النہار واکفروا آخرہ لعلہم یرجعون“ (آل عمران: ۷۲)
ترجمہ: ”اوراہل کتاب کے ایک گروہ نے (حق سے پھیرنے کی یہ سازش تیار کی اور آپس میں) کہا کہ تم (ظاہری طور پر) ایمان لے آؤ اس (دین و کتاب) پر جواتارا گیا ایمان والوں پر دن کے شروع میں اوراس کا انکار کردو اس کے آخری حصہ میں، تاکہ اس طرح یہ لوگ پھر جائیں (دین وایمان سے)۔“
گویا وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اگراسلام میں کوئی کشش یا صداقت ہوتی تو سوچ سمجھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس سے باہر کیوں آتے؟ یقینا جو لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے خیر باد کہہ رہے ہیں، انھوں نے ضرور اس میں کوئی کمی، کجی یا کمزوری دیکھی ہوگی؟
حالانکہ جن لوگوں نے اسلامی احکام وآداب کا مطالعہ اور غور و فکر کرکے اسے قبول کیا اور نبی امی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا، تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے کبھی کسی نے اس سے بیزاری تو کیا اس پر سوچا بھی نہیں، جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث ”ہرقل“ میں حضرت ابوسفیان اور ہرقل کے مکالمہ میں اس کی وضاحت و صراحت موجود ہے، چنانچہ جب ہرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا والانامہ ملنے پر ابوسفیان سے، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے حریف تھے، یہ پوچھا کہ:
”ہل یرتد احد منہم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطةً لہ؟ قال: لا․․․“
ترجمہ: ”ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی اس کو ناپسند کرکے یا اس سے ناراض ہوکر مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان نے کہا: نہیں۔“
پھر اسی حدیث کے آخر میں ہرقل نے اپنے ایک ایک سوال اور ابوسفیان کے جوابات کی روشنی میں اس کی وضاحت کی کہ میں اپنے سوالوں اور تیرے جوابات کی روشنی میں، جن نتائج پر پہنچا ہوں، وہ یہ ہیں کہ:
”وسائلتک ہل یرتد احد منہم عن دینہ بعد ان یدخل فیہ سخطة، فزعمت ان لا، وکذلک الایمان اذا خالط بشاشة القلوب“ (بخاری، ص:۶۵۳، ج:۲)
ترجمہ: ”اور میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ کیا اسلام قبول کرنے والوں میں سے کوئی شخص اسلام سے ناراض ہوکر یا اس سے متنفر ہوکر کبھی مرتد ہوا ہے؟ تو آپ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہوا، تو سنو! یوں ہی ہے کہ شرح صدر کے ساتھ جب ایمان کسی کے دل میں اترجاتا ہے تو نکلا نہیں کرتا۔“
چونکہ اسلام جبر و تشدد کا مذہب نہیں اور نہ ہی کسی کو جبراً و قہراً اسلام میں داخل کیا جاتا ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ بات مذکور ہے کہ جو شخص دل وجان سے اسلام قبول نہ کرے، نہ صرف یہ کہ اس کا اسلام معتبر نہیں، بلکہ ایسا شخص قرآنی اصطلاح میں منافق ہے اور منافق جہنم کے نچلے درجے کی بدترین سزا کا مستحق ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار“ (النساء:۱۴۵)
ترجمہ: ”بے شک منافق ہیں سب سے نیچے درجہ میں دوزخ کے۔“
اسی لئے جبراً وقہراً اسلام میں داخل کرنے کی ممانعت کرتے ہوئے فرمایاگیا:
”لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی“ (البقرہ: ۲۵۶)
ترجمہ: ”دین اسلام میں داخل کرنے کیلئے کسی جبر واکراہ سے کام نہیں لیا جاتا، اس لئے کہ ہدایت، گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔“
لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ جو شخص برضا و رغبت اسلام میں داخل ہوجائے اور اسلام قبول کرلے، اسے مرتد ہونے کی بھی اجازت دے دی جائے، یہ بالکل ایسے ہے جیسے ابتداءً فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کوئی جبر اور زبردستی نہیں کی جاتی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی رضا و رغبت سے فوج میں بھرتی ہوجائے تو اب اسے اپنی مرضی سے فوج سے نکلنے یا فوجی نوکری چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر فوج کا یہ قانون جائز ہے تو اسلام کا یہ دستور کیونکر جائز نہیں؟
اس کے علاوہ عقل و شعور کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور رضا ورغبت سے اسلام میں داخل ہوجائے اسے اسلام سے برگشتگی اور مرتد ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، کیونکہ بالفرض اگر نعوذ باللہ! کسی کو اسلام یا اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ تھا تو اس نے اسلام قبول ہی کیوں کیا تھا؟ لہٰذا ایسا شخص جو اپنی مرضی اور رضا و رغبت سے اسلام میں داخل ہوچکا ہے، اب اسے مرتد ہونے کی اس لئے اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اسلام چھوڑ کر نہ صرف اپنے دین و مذہب کو بدلتا ہے، بلکہ اس قبیح اور بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین و شریعت، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے، اسلامی تعلیمات کومطعون و بدنام کرنے اور نئے مسلمان ہونے والوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کا مرتکب ہوا ہے، اس لئے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس کی مثال کھلے کافر کی تھی، لیکن اب اس کی حیثیت اسلام کے باغی کی ہے، اور دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی ملک کا شہری نہ ہو اور وہ اس ملک کے قوانین کو تسلیم نہ کرے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اپنالے تو اسے اس ملک کے شہری قوانین کا پابند کیا جائے گا، چنانچہ اگرکوئی خودسر کسی ملک کی شہریت کا دعویدار بھی ہو اور اس کے احکام و قوانین اور اصول و ضوابط کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی کرے تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص کسی ملک، اس کے قوانین و ضوابط یا کسی ملک کے سربراہ سے بغاوت کی پاداش میں سزائے موت کا مستحق ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اسلام، اسلامی قوانین اور پیغمبر اسلام سے بغاوت کا مرتکب سزائے موت کا مستحق نہ ہو؟
اگر دیکھاجائے اور اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو سزائے ارتداد کا یہ اسلامی قانون عین فطرت ہے، جس میں نہ صرف مسلمانوں کا، بلکہ اسلامی مملکت کے تمام شہریوں کا بھی فائدہ ہے۔ اس لئے کہ دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اس دین و مذہب میں دنیا کی فوز و فلاح اور نجاتِ آخرت کا مدار ہے، جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:
۱- ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (المائدہ: ۳)
ترجمہ: ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“
۲- ”ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ، وہو فی الآخرة من الخاسرین“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ: ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا، اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“
لہٰذا جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد ارتداد کا مرتکب ہوا ہے، اس کی مثال اس باؤلے کتے یا ہلکے انسان کی ہے جسے اپنا ہوش ہے اور نہ دوسروں کا، اگرکوئی ”عقل مند“ اس کی جان پر ترس کھاکر اسے چھوڑ دے تو بتلایاجائے کہ وہ انسانیت کا دوست ہے یا دشمن؟ ٹھیک اسی طرح مرتد کی جان بخشی کرنا بھی معاشرہ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اوراس کی ہلاکت اسلامی معاشرہ کیلئے امن و عافیت اور سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے۔
مناسب ہوگا کہ یہاں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کا سزائے ارتداد کی معقولیت کے سلسلہ کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے، چنانچہ حضرت لکھتے ہیں:
”تمام مہذب ملکوں، حکومتوں اور مہذب قوانین میں باغی کی سزا موت ہے، اور اسلام کا باغی وہ ہے جو اسلام سے مرتد ہوجائے، اسلئے اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے، لیکن اس میں بھی اسلام نے رعایت دی ہے، دوسرے لوگ باغیوں کو کوئی رعایت نہیں دیتے، گرفتار ہونے کے بعد اگراس پر بغاوت کا جرم ثابت ہوجائے تو سزائے موت نافذ کردیتے ہیں، وہ ہزار معافی مانگے، توبہ کرے اور قسمیں کھائے کہ آئندہ بغاوت کا جرم نہیں کروں گا، اس کی ایک نہیں سنی جاتی اور اس کی معافی ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے، اسلام میں بھی باغی یعنی مرتد کی سزا قتل ہے، مگر پھر بھی اسے اتنی رعایت ہے کہ تین دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کو تلقین کی جاتی ہے کہ توبہ کرلے، معافی مانگ لے، تو سزا سے بچ جائے گا، افسوس ہے کہ پھر بھی اسلام میں مرتد کی سزا پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
اگر امریکا کے صدر کا باغی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے اوراس کی سازش پکڑی جائے تواس کی سزا موت ہے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں، روس کی حکومت کا تختہ الٹنے والا پکڑاجائے یا جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا پکڑا جائے تو اس کی سزا موت ہے اور اس پر دنیا کے کسی مہذب قانون اور کسی مہذب عدالت کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن تعجب ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی پر اگر سزائے موت جاری کی جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سزا نہیں ہونی چاہئے، اسلام تو باغی مرتد کو پھر بھی رعایت دیتا ہے کہ اسے تین دن کی مہلت دی جائے، اس کے شبہات دور کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے، معافی مانگ لے تو کوئی بات نہیں، اس کو معاف کردیا جائے گا، لیکن اگر تین دن کی مہلت اور کوشش کے بعد بھی وہ اپنے ارتداد پر اڑا رہے، توبہ نہ کرے تو اللہ کی زمین کواس کے وجود سے پاک کردیا جائے، کیونکہ یہ ناسور ہے، خدانخواستہ کسی کے ہاتھ میں ناسور ہوجائے تو ڈاکٹر اس کاہاتھ کاٹ دیتے ہیں، اگر انگلی میں ناسور ہوجائے تو انگلی کاٹ دیتے ہیں اور سب دنیاجانتی ہے کہ یہ ظلم نہیں، بلکہ شفقت ہے، کیونکہ اگر ناسور کو نہ کاٹا گیا تو اس کا زہر پورے بدن میں سرایت کرجائے گا، جس سے موت یقینی ہے، پس جس طرح پورے بدن کو ناسور کے زہر سے بچانے کیلئے ناسور کو کاٹ دینا ضروری ہے اور یہی دانائی اور عقلمندی ہے، اسی طرح ارتداد بھی ملت اسلامیہ کیلئے ایک ناسور ہے، اگر مرتد کو توبہ کی تلقین کی گئی، اس کے باوجود اس نے اسلام میں دوبارہ آنے کو پسند نہیں کیا تو اس کا وجود ختم کردینا ضروری ہے، ورنہ اس کا زہر رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ کے پورے بدن میں سرایت کرجائے گا۔ الغرض مرتد کا حکم ائمہ اربعہ کے نزدیک اور پوری امت کے علماء اور فقہاء کے نزدیک یہی ہے جو میں عرض کرچکا ہوں اور یہی عقل و دانش کا تقاضا ہے اور اسی میں امت کی سلامتی ہے۔“ (تحفہ قادیانیت، ج:۱، ص:۶۶۵،۶۶۶)
ان مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا ہوگا کہ اسلام اور اسلامی آئین، ہر غیرمسلم وکافر کے درپے نہیں، بلکہ اسلامی آئین و دستور صرف اور صرف ان فتنہ پردازوں کا راستہ روکتا ہے اور انہیں کڑی سزا کا مستحق گردانتا ہے جو معاشرہ کے امن وامان کے دشمن اور اسلام سے بغاوت کے مرتکب ہوں، بایں ہمہ اسلام اور اسلامی آئین ایسے لوگوں کو بھی فوراً کیفر کردار تک نہیں پہنچاتا، بلکہ انہیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے، اگر وہ سدھر جائیں تو فبہا، ورنہ اس بدترین سزا کیلئے تیارہوجائیں، اس کے باوجود بھی اگر کوئی بدنصیب اس سے فائدہ نہ اٹھائے اور اپنی جان کا دشمن بنارہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟
جیساکہ ارتداد ومرتد کی تعریف کے ذیل میں پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد اسلام کو چھوڑ کرکوئی بھی دوسرا دین و مذہب اختیار کرلے، وہ مرتد ہے، اور مرتد کی سزا قتل ہے۔
اس پر یہود ونصاریٰ اور قادیانیوں کے علاوہ دوسرے ملاحدہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوسکتے ہیں، تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر کسی یہودی اور عیسائی کے مسلمانہونے پر قتل کی سزا لاگو نہیں ہوتی تو ایک مسلمانکے یہودیت یا عیسائیت قبول کرنے پر اسے کیوں واجب القتل قرار دیا جاتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی ہندو یا قادیانی، مسلمان ہوسکتا ہے تو ایک مسلمان نعوذ باللہ! قادیانی یاہندو کیوں نہیں بن سکتا؟
عام طور پر اربابِ کفر و شرک اس سوال کو اس رنگ آمیزی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک سیدھا سادا مسلمان نہ صرف اس سے متاثرہوتا ہے؛ بلکہ سزائے ارتداد کو نعوذ باللہ! غیرمعقول وغیرمنطقی اور آزادی اظہار رائے اور آزادی مذہب کے خلاف سمجھنے لگتا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ اس مغالطہ کے جواب میں بھی چند معروضات پیش کردی جائیں:
﴿الف﴾ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ یہودی، عیسائی یا دوسرے مذاہب کے لوگ اپنا مذہب بدلیں تو ان پر سزائے ارتداد کیوں جاری نہیں کی جاتی؟ اصولی طور پر ہم اس سوال کاجواب دینے کے مکلف نہیں ہیں؛ بلکہ ان مذاہب کے ذمہ داروں، بلکہ ٹھیکے داروں کا فرض ہے کہ وہ اس کا جواب دیں۔
تاہم قطع نظر اس کے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ طرزِ عمل صحیح ہے یا غلط؟ اتنی بات تو سب کو معلوم ہے کہ دنیائے عیسائیت و یہودیت اگر اپنے مذہب کے معاملہ میں تنگ نظر نہ ہوتی تو آج دنیا بھر کے مسلمان اور امت مسلمہ ان کے ظلم و تشدد کا نشانہ کیوں ہوتے؟
اس سے ذرا اور آگے بڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ انبیائے بنی اسرائیل کا قتل ناحق ان کی اسی تنگ نظری کا شاخسانہ اور تشددپسندی کا منھ بولتا ثبوت ہے، ورنہ بتلایاجائے کہ حضراتِ انبیائے کرام کا اس کے علاوہ کون سا جرم تھا؟ صرف یہی ناں کہ وہ فرماتے تھے کہ پہلا دین و شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے ذریعے نیا دین اور نئی شریعت آئی ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات اور فوز و فلاح ہے۔
اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں پر فرض ہے کہ وہ بتلائیں کہ حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علیہما السلام کو کیوں قتل کیاگیا؟ ان معصوموں کا کیا جرم تھا؟ اور کس جرم کی پاداش میں ان کاپاک و پاکیزہ اور مقدس لہو بہایاگیا؟
اس کے علاوہ یہ بھی بتلایاجائے کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ کے قتل اور ان کے سولی پر چڑھائے جانے کے منصوبے کیوں بنائے گئے؟
مسلمانوں کو تنگ نظر اور سزائے ارتداد کو ظلم کہنے والے پہلے ذرا اپنے دامن سے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور لاکھوں مسلمانوں کے خونِ ناحق کے دھبے صاف کریں اور پھر مسلمانوں سے بات کریں۔
﴿ب﴾ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کیلئے حضراتِ انبیائے کرام اورر سل بھیجنے کا سلسلہ شروع فرمایا،جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی تواس کی انتہا یا تکمیل و اختتام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے دین و شریعت اور کتب کی کیفیت یکساں تھی یا مختلف؟
اگر بالفرض تمام انبیائے کرام کی شریعتیں ابدی و سرمدی تھیں تو ایک نبی کے بعد دوسرے نبی اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
مثلاً اگر حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت ابدی و سرمدی تھی اوراس پر عمل نجاتِ آخرت کا ذریعہ تھا تو اس وقت سے لے کر آج تک تمام انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کا تابع ہونا چاہئے تھا، اگرایسا ہے تو پھر یہودیت و عیسائیت کہاں سے آگئی؟
لیکن اگر بعدمیںآ نے والے دین، شریعت، کتاب اورنبی کی تشریف آوری سے، پہلے نبی کی شریعت اور کتاب منسوخ ہوگئی تھی․․․ جیساکہ حقیقت بھی یہی ہے․․․ تو دوسرے نبی کی شریعت اور کتاب کے آجانے کے بعد سابقہ شریعت اور نبی کی اتباع پر اصرار و تکرار کیوں کیا جاتاہے؟
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرا نبی، شریعت اور کتاب آگئی اور پہلا دین، شریعت اورکتاب منسوخ ہوگئی، تو اس منسوخ شدہ دین، شریعت، کتاب اور نبی کے احکام پر عمل کرنا یااس پر اصرار کرنا خود بہت بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی ملک کے قانون میں ترمیم کردی جائے یا اس کو سرے سے منسوخ کردیا جائے اوراس کی جگہ دوسرا جدید آئین و قانون نافذ کردیاجائے، اب اگر کوئی عقلمند اس نئے آئین و قانون کی بجائے منسوخ شدہ دستور و قانون پر عمل کرتے ہوئے نئے قانون کی مخالفت کرے، تو اسے قانون شکن کہا جائے گا یا قانون کا محافظ و پاسبان ؟
لہٰذا اگر کسی ملک کا سربراہ ایسے عقل مند کو رائج و نافذ جدید آئین و قانون کی مخالفت اوراس سے بغاوت کی پاداش میں باغی قرار دے کر اُسے بغاوت کی سزا دے، تو اس کا یہ فعل ظلم و تعدی ہوگا یا عدل و انصاف؟ کیا ایسے موقع پر کسی عقل مند کو یہ کہنے کا جواز ہوگا کہ اگر جدید آئین و قانون کو چھوڑنا بغاوت ہے تو منسوخ شدہ آئین و قانون کو چھوڑنا کیونکر بغاوت نہیں؟ اگر جدید آئین سے بغاوت کی سزا موت ہے تو قدیم و منسوخ شدہ آئین کی مخالفت پر سزائے موت کیونکرنہیں؟
﴿ج﴾ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادیان اوران کی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں، اس سلسلہ میں گزشتہ سطور میں عقلی طورپر ثابت کیاجاچکا ہے کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں پر عمل باعث نجات نہیں، ورنہ نئے دین، نئی شریعت اور نئے نبی کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟ تاہم سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک نے اپنے بعد آنے والے دین و شریعت اور نبی کی آمد سے متعلق اپنی امت کو بشارت دی ہے اور ان کی اتباع کی تلقین بھی فرمائی ہے، جیساکہ قرآن مجید میں ہے:
”واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب و حکمة ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتوٴمنن بہ ولتنصرنہ“(آل عمران:۸۱)
ترجمہ: ”اور جب لیا اللہ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تواس رسول پر ایمان لاؤگے اوراس کی مدد کروگے۔“
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے بعدآنے والے نبی کی بشارت انجیل کے علاوہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے کہ :
”ومبشرًا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد“ (الصف:۶)
ترجمہ: ”اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد، اس کا نام ہے احمد“۔
چنانچہ سابقہ انبیائے کرام میں سے کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ میری نبوت اور دین و شریعت قیامت تک ہے اورمیں قیامت تک کا نبی ہوں، دنیائے یہودیت و عیسائیت کو ہمارا چیلنج ہے کہ اگر کسی نبی نے ایسا فرمایا ہے، تو اس کا ثبوت لاؤ: ”قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صادقین“ ہمارا دعویٰ ہے کہ صبح قیامت تک کوئی یہودی اور عیسائی اس کا ثبوت پیش نہیں کرسکے گا، جب کہ اس کے مقابلہ میں آقائے دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کاآخری نبی اور خاتم النّبیین فرمایا گیا، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
۱- ”قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا“ (الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ: ”تو کہہ: اے لوگو! میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف۔“
۲- ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین“ (الانبیاء: ۱۰۷)
ترجمہ: ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہربانی کرکرجہان کے لوگوں پر۔“
۳- ”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین“(الاحزاب:۴۰)
ترجمہ: ”محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے، لیکن رسول ہے اللہ کا اور خاتم النّبیین۔“
۴- ”وما ارسلناک الا کافة للناس بشیرًا ونذیرًا“ (سبا:۲۸)
ترجمہ: ”اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈرسنانے کو۔“
اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فرمایا:
۱- ”انا خاتم النبیین لا نبی بعدی“ (ترمذی، ج:۲، ص:۴۵)
ترجمہ: ”میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعدکوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“
۲- ”انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم“ (ابن ماجہ، ص:۲۹۷)
ترجمہ: ”میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔“
۳- ”لوکان موسیٰ حیًا ما وسعہ الا اتباعی“ (مشکوٰة، ص:۳۰)
ترجمہ: ”اگر موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“
اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری نبی ہیں اور قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا، اس لئے جو شخص اس جدید و رائج قانون اورآئین کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین و شریعت یا کسی خود ساختہ مذہب، جیسے موجودہ دور کے متعدد باطل و بے بنیاد ادیان و مذاہب․․․ مثلاً: ہندو، پارسی، سکھ، ذکری، زرتشتی اور قادیانی وغیرہ ․․․ کا اتباع کرے گا، وہ باغی کہلائے گا۔ دین و شریعت، قرآن و سنت اور عقل و دیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہئے، اور وہ قتل ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 90 ،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء