از: شائستہ پروین سنبھلی‏، ریسرچ اسکالر شعبہٴ سنی دینیات، علی گڑھ

اللہ کا شکر ہے کہ آج پوری دنیامیں خواہ مسلم مملکت ہو یا غیرمسلم، بے شمار دینی مدارس و مکاتب قائم ہیں اورمسلسل ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے یہ وقت کے دانشور حضرات کے علم و فہم اور دور اندیشی کی طرف کامیاب قدم ہے اور یقینا بہت ہی خوش کن ہے لیکن دوسری طرف معاشرے کے نصف حصہ کونظرانداز کرکے انسانیت کی مکمل فلاح کاتصور کرنا ایک طرح کی نادانی ہے انسانیت کی بہترین تعمیر وترقی کی معمار اوّل ”عورت“ ہے جو بہن، بیٹی، بیوی کے مدارج طے کرتی ہوئی اپنے نقطئہ عروج ”ماں“ کے مقدس مقام اور عظیم مرتبہ تک پہنچتی ہے اورجس کے آغوش سے اسلام کے بنیادی افکار اور صالح کردار کے حامل افراد وجود میں آتے ہیں عورت کے اس مقام کے مدنظر اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لئے تحصیل علم کو ضروری قرار دیا ہے اس لئے اگر افراد امت کے مابین تعلیم و تربیت کا صحیح بندوبست نہیں کیا جاتا ہے تو گویا ان کی بنیادی و معاشرتی ضرورت سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔

اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً بیس کروڑ بتائی جاتی ہے ان کی نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہے ان میں صرف ایک فیصد عورتیں تعلیم یافتہ ہیں یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ ہندوستان کی ایک فیصد مسلم تعلیم یافتہ خواتین میں سے بھی اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو صرف عصری علوم و فنون سے واقفیت رکھتی ہیں اور وہ خواتین جو دینی تعلیم کے حصول میں کوشاں ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر شمارکیے جانے لائق ہے۔

یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ عورتوں کی اعلیٰ دینی تعلیم اہم اور فائدہ مند ہے، دینی نقطئہ نظر سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایاجائے یا سماجی نقطئہ نظر سے اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

اسلامی عقائد توحید، رسالت، آخرت میں استحکام، عبادات، نماز، روزہ ، زکوٰة، حج وغیرہ کی تفصیل، دینی مبادیات اور ان احکام و مسائل سے بھرپور واقفیت جن کا تعلق خواتین سے ہے مثلاً حیض و نفاس وغیرہ وغیرہ، اسلامی نظام ازدواج نکاح، طلاق، خلع، ایلاء، لعان، مہر وغیرہ کا گہرا شعور، نظام وراثت کا صحیح فہم، اصول معاشیات اور کسب معاش میں حلال و حرام کافرق ان سب باتوں کا صحیح علم و فہم مدارس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کی ولادت، رضاعت، اور ان کی تعلیم و تربیت کے مختلف مسائل کا مناسب حل دینی مراکز میں ہی ممکن ہے یہ حقیقت ہے کہ نسل انسانی کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے ماں کے ایک قطرئہ شیر کے ساتھ بچہ جذبات و حسیات اور اخلاق بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا سے عمل کے طریقے سیکھتا ہے۔ ماں تعلیم یافتہ اور دینی مزاج کی حامل ہوتی ہے تو غیرمحسوس طریقہ سے دین حق بچہ کے اندر اترتاجاتا ہے اس کے برعکس اگرماں محض دنیاوی تعلیم اور غیر اسلامی رنگ ڈھنگ کی مالک ہے تو بچوں کی ذہنی واخلاقی حالت مسموم ہوجاتی ہے کوئی بھی ماں اپنے بچہ کے منھ میں صرف دودھ ہی نہیں ڈالتی بلکہ اس کے ساتھ اپنے اخلاق کی روح بھی اس کی رگ رگ کے اندراتارتی ہے اگراس کے اندر روحِ دین کمزور ہے اخلاق فاسد ہے توان کے زہریلے جراثیم ضرور بچے میں سرایت کرجائیں گے۔ مردوں کی خرابی کے اثرات بھی مہلک ہیں،مگر ان کی خرابی سے ممکن ہے کہ بچنے کی شکلیں پیدا ہوجائیں لیکن عورتوں کے بگاڑ کے خراب نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ ان کی پیدا کی ہوئی خرابی جڑ کی خرابی ہے شاخوں اور تنے کی خرابی نہیں اس کا علاج ناممکن ہے اس وجہ سے کہ ان کی ذمہ داریاں بہت سخت ہیں یہ جو بیماریاں بچوں کو پلادیں گی کوئی ماہر سے ماہر طبیب بھی ان کا علاج نہیں کرسکتا جو درخت اپنی نشوونما کے ابتدائی دورمیں ہی آفت رسیدہ ہوجائے پھراس کا تناور درخت ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔

مدارس کی ایک اہم خصوصیت اسلامی تاریخ اور شہرت کے اہم پہلوؤں کواجاگر کرنا اور طلباء کو بہترین سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے کیونکہ منصوصات قرآنی اوراحادیث سے دین کی ایک تصویر توبچوں کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے لیکن اس ڈھانچے میں نقش و نگار بنانے اور رنگ و بو بھرنے کا کام تاریخ سے کیا جاتا ہے۔ حضرت امام حسن کی قناعت اور حضرت امام حسین کا صبر واستقلال قیامت تک کے لئے بے نظیر ہے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے یہ اوصاف اپنی والدہ حضرت فاطمہ بنت رسول … سے ورثہ میں پائے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کا عزم نہایت سبق آموز ہے، مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت عائشہ کے بھانجے اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے فرزند تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی صدق مقالی کی حکایت سے انگریزی مدارس کے بچے تک واقف کرائے جاتے ہیں اوراس تمہید کے ساتھ کہ اسکا سب سے پہلا سبق انھیں اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل ہوا تھا۔مسلمانوں کی علمی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ بڑے جلیل القدر علماء بلکہ ائمہ فن نے عالمہ خواتین کے تلمذ سے بھی استفادہ کیا تھا۔

قرآن وحدیث کے صحیح معانی و مفاہیم سمجھنے اور اس کو صحیح اعراب سے پڑھنے کے لئے عربی زبان کا سمجھنا اشد ضروری ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ خواتین میں انھیں مدارس کی بنیاد پر عربی زبان کے سمجھنے، پڑھنے، لکھنے، بولنے کی استعداد پیداہوجاتی ہے۔

سماجی نقطئہ نظر سے مدارس نسواں بہت اہم خصوصیات کے حامل ہیں:

(۱)    تحریک خواندگی پر سرکار لاکھوں کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہے، لیکن مدارس نسواں گورنمنٹ کی بغیر کسی اعانت کے اپنے بل بوتے پر دینی نظام تعلیم اور اعلیٰ اخلاق و کردار کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

(۲)   ہر انسان کے اندر سماجی شعور پیدا کرتے ہیں، انسانی حقوق و فرائض کی تعلیم اورانہیں اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان میں اعلیٰ تہذیب و تمدن اور اقدار عالیہ کا امین بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔سیرت محمدی، سیرت صحابہ و اسلامی تاریخ کے حوالے سے عالم دین کو بتایاجاتاہے کہ ملک میں باعزت زندگی گزارنے کے لئے انسان کے عادات واطوار، مسلم وغیرمسلم کے تئیں اس کا رویہ،اس کا سلوک، اس کا اخلاق و کردار کن خوبیوں کا مالک ہونا چاہئے، دن کے چوبیس گھنٹوں میں سچے پکے مسلمان کے ساتھ کیسے وہ ایک اچھا انسان اور باعزت شہری بن سکتا ہے۔

(۳)   ابتداء سے آج تک عموماً خواندگی کی تحریک مدارس کے حوالے سے چلتی رہی ہے۔

(۴)   مدارس میں طالبات کو یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک عورت کا بحیثیت ماں، بیوی، کے کیا کردار ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگرمدارس نسواں نہ ہوتے تو ملت کی رہنمائی، اصلاح معاشرہ کے تئیں ان خواتین کاکردار کیا ہوتا؟ اورجن خواتین کا تعلق مدارس سے نہیں ہے ان کا اصلاح معاشرہ میں کیا رول ہے؟ اور وہ غیراسلامی تعلیم کی بنیاد پر کس طرح معاشرہ کو اخلاقی زوال کی طرف لے جارہی ہیں؟

(۵)   اخلاق و معاملات کے اثرات معاشرے پر بہت جلد مرتب ہوتے ہیں جھوٹ، چوری، لالچ، حرص و ہوس، ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی، قتل وغارت گری،الزام تراشی ناجائز طور طریقوں سے کسب معاش وغیرہ امورایک صحت مند معاشرے کیلئے ناسور ہیں ایک مومنہ اور مسلمہ عورت ہی مردکو دینی تعلیم کی روشنی میں حکمت ومصلحت کے ساتھ ان فاسد امور سے باز رکھ سکتی ہے بصورت دیگر غیر اسلامی اخلاق و کردار کے نتائج ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔

(۶)   کردار سازی میں مدارس اور دینی تعلیم کاایک اہم حصہ ہے۔ مشہو واقعہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی پیدائش پر ان کی والدہ ماجدہ نے ایک بکری منگواکر رکھ لی ، شوہر نے پوچھا یہ کیا ، تو بولیں تمہاری آمدنی مشکوک ہے اس لئے میں اپنے دودھ سے اپنے بچہ کی پرورش نہیں کرسکتی، لہٰذا اسے بکری کاحلال دودھ پلایا کروں گی اس پر نیک دل شوہر نے اپنا مشکوک پیشہ ترک کردیا۔

سرسید احمد خاں کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ بچپن میں اپنے ملازم بچہ کو مارا تو ماں نے گھر سے نکال دیا پھر جب تک اس ملازم کے بچہ سے سرسید احمد خاں نے معافی نہ مانگ لی اورآئندہ تنگ نہ کرنے کا وعدہ نہ لے لیا ان کو گھرمیں نہ آنے دیا۔ یہ عہد حاضر کی مثالیں تھیں تاریخ اسلام میں جس مومن نے بھی کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں اگر ہم ان کو جاننے کی کوشش کریں تو اس کے پیچھے ضرور اس کی والدہ ماجدہ کی دینی تربیت کا رنگ چھلکتا نظرآئے گا۔ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی وغیرہ ایسی عظیم شخصیات ہیں جن پر تاریخ کو ناز ہے۔

مقالے کے حوالے سے میں نے کئی ایسی طالبات سے گفتگو کی جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ علم الحیوانات، علم کیمیا اورانگریزی ادب میں ریسرچ اسکالر ہیں کہ ان کے نزدیک مدارس نسواں کی کیا اہمیت ہے؟ تینوں کی مجموعی آراء یہ تھیں کہ اسلام کی بنیادی چیزوں کی تعلیم،مسلمان ہونے کا مطلب، روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا حل مدارس اسلامیہ کی تعلیم میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پرسکون معاشرے کی مطلوبہ تعلیمات، سچائی، صبر وقناعت، غیرت وخودداری، رشتوں ناطوں کا پاس ولحاظ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی یہ سب مدارس کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہیں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ باشعور اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند خواتین گھر، خاندان اور معاشرہ میں بہت عمدگی سے اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں، شوہروں کے لئے جسمانی و روحانی سکون و تسکین، اپنے قول و عمل سے اولاد کو دین داری کا درس اولین، گھروں میں توکل قناعت اور سکون و آرام کی فضا کی فراہمی اور دیگر فرائض سے وہ کما حقہ نمٹ سکتی ہیں ۔ اپنے تعاون، رفاقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی و دنیاوی ترقی کے دروازے تک پہنچاسکتی ہیں، ہمسایوں و دیگر عزیز و اقارب کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے اپنے نیک سلوک سے آس پاس ایک ہمدرد، مہذب دین دار اور معاون ماحول پیدا کرسکتی ہیں۔ اس طرح عورت کے گوناگوں اوصاف وکردار سے جب مرد کو ایک پرسکون گھر اور مخالف حالات کی تپتی دھوپ میں عورت کے ذریعہ ٹھنڈی چھاؤں ملے گی تو اس کی راہیں خود بخود سازگار ہوتی چلی جائیں گی۔ بصورت دیگرایسا شخص جس کے گھر میں الجھنیں،مسائل، بے چینی، بے دینی ہوتونہ تو وہ معاشرے میں امن قائم کرسکتا ہے اورنہ عالمی سطح پر امن کا علمبردار بن سکتا ہے۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء

Related Posts