لطائف علماء دیوبند قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (۴)

از: سعید الظفر ٹانڈوی‏، متعلّم دورہٴ حدیث شریف، دارالعلوم دیوبند

بچہ سے مزاح

حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے یہاں بچوں سے مزاح اور بڑوں سے تفریح طبع کے طریقے الگ الگ تھے۔ دیکھئے ایک بچہ سے مزاح:

ایک مرتبہ پوتے سعید احمد سلّمہ جامن کھارہے تھے حضرت نے فرمایا بھائی گٹھلی مت نگلیو۔ باتقاضائے طفولیت وناز انھوں نے جواب دیا کیوں؟ ہم تو گٹھلی بھی کھاجائیں گے۔ حضرت نے فرمایا گٹھلی سے درخت ابیاوے ہے۔ سعید احمد ڈرگئے اور لگے گٹھلی تھوکنے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج:۲، ص:۷۴)

گونگا پیر

آپ حضرات نے گذشتہ چند واقعات میں حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے طنز و مزاح کو دیکھا، خوش طبعی کیلئے حضرت کے یہاں چھوٹوں بڑوں کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ہنسی خوشی رہنا، پیار و محبت کی باتیں کرنا سب کے ساتھ خاص تھا۔ البتہ حضرت کے یہاں طنز و مزاح میں فرق مراتب کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت کا رویہ احباب کے ساتھ حددرجہ بدلا ہوا تھا۔ الحاصل ان کے طرز زندگی سے ہم کو انوکھے سبق ملتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

مولوی نظر محمد خان نے اپنی خواہش پرچہ پر مفصل لکھی اور مولانا قاسم صاحب کے حضور پیش کی۔ مولانا نے پرچہ کو پڑھا اور جیب میں رکھ لیا اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ یہ سمجھے کہ حضرت مولانا نے توجہ نہ فرمائی۔ اتفاق سے تھوڑے عرصہ کے بعد حضرت امام ربانی قدس سرہ نانوتہ تشریف لائے، تو مولوی نظر محمد خاں صاحب بھی خبرپاکر حاضر ہوئے اب انھوں نے دوسری بار درخواست کا اعادہ کیا اور پرچہ پر وہی مضمون لکھ کر حضرت امام ربانی کے حضور میں پیش کیا۔ اس تحریر میں اتنا اور لکھ دیا کہ میں نے یہ درخواست ایک پرچہ پر لکھ کر حضرت مولانا قاسم صاحب کی خدمت میں بھی پیش کی مگر مولوی صاحب نے جواب نہیں دیا۔ جس وقت یہ تحریر حضرت کے سامنے کی گئی حضرت مولانا ظہر کے لئے وضور کرنے بیٹھے تھے آپ نے پرچہ لے لیا اور پڑھ کر جیب میں رکھاہی تھا کہ مولانا قاسم صاحب بھی پانی کا بھرا لوٹا لیکر وضو کرنے کو حضرت کے پاس آبیٹھے۔ مولوی نظر محمد خان سامنے کھڑے تھے کہ حضرت نے مولانا قاسم کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور مولوی نظر محمد خان سے اس طرح فرمایا ایسے گونگے پیر کو خط کیوں دیا تھا؟ جنھوں نے جواب بھی نہ دیا۔ مولانا قاسم صاحب بھی ہنسے اور فرمایا لو اب بولتے پیر کے پاس آگیا آپ جواب دیں۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج۲ص:۱۰۶)

طبی حذاقت

عصر حاضر میں جہاں تہذیب وتمدن، اخلاق و شرافت، تعلیم وافکار غرض ہر چیز تنزل اور انحطاط کی نذرہوگئی ہے۔ وہیں فن طب نے بھی گراوٹ اور پستی کو قبول کیا ہے۔ آج ماہر طبیبوں کا فقدان ہے۔ ورنہ ہم نے تو اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ متقدمین صرف مریض کی آواز سن کر مرض کی تشخیص اور دوا تجویز کردیا کرتے تھے۔ ماضی قریب میں بھی حکیم اجمل خاں، حکیم نابینا اور حکیم مرتعش وغیرہ کی نباضی مشہور عالم تھی۔

حکیم اجمل صاحب کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ وہ خواتین کا ہاتھ پکڑ کر نبض نہیں دیکھتے تھے بلکہ خواتین کو دوسرے کمرے میں بٹھاکر ایک دھاگہ عورت کی کلائی میں باندھ دیا جاتا تھا اور حکیم صاحب صرف اسی دھاگہ کو چھوکر مرض کی تشخیص اور دوا تجویز فرمایاکرتے تھے اس مبارت کی وجہ سے آپ کو حاسدین کے حسد کا نشانہ بننا پڑا۔ چنانچہ کچھ حاسدین نے آپ کے استہزا کیلئے ایک دن دوسرے کمرے میں عورت کی جگہ بھینس لے آئے اور بھینس کے پیر میں دھاگہ باندھ کر حکیم صاحب کو پکڑا دیا۔ حکیم صاحب نے حسب عادت نسخہ لکھ دیا۔ اب یہ لوگ بہت خوش ہوئے کہ آج اس حکیم کی ہم قلعی کھول دیں گے لیکن جب ان لوگوں نے نسخہ کی دواؤں پرغور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دوائیں انسانوں کی نہیں بلکہ جانوروں کی ہیں۔ حکیم صاحب نے دھاگہ چھوکر انسان اورجانور کا امتیاز بھی کیا اور دوا بھی اس کے مطابق تجویز فرمائی۔

حضرت گنگوہی نے گو فن طب باقاعدہ نہیں سیکھا تھا لیکن حذاقت کا عالم یہ تھا کہ قارورہ دور سے ہی دیکھ کر مرض کی تشخیص فرمالیا کرتے تھے۔ ذیل کے واقعہ سے آپ کو اس حذاقت کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

مولوی نظر محمد خاں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت رام پور تشریف لائے اور حسب عادت حکیم ضیاء الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے حجرے میں قیام فرمایا میں بھی خبر سن کر حاضر ہوا۔ صبح کو جب ایک بڑی چارپائی پر حکیم صاحب اپنا صندوقچہ کھول کر جس میں ادویات و عطریات وغیرہ اور دوات قلم تھاسامنے رکھ بیٹھے۔ تو حضرت نے مسکراکر فرمایا حکیم جی دنیا کی طرف بہت ہاتھ پھیلانے لگے ہو۔حکیم صاحب نے فرمایا ”نہیں حضرت“ اتنے میں ایک شخص قارورہ لے کر آیا اورحکیم صاحب کے سامنے پیش کیا۔ حضرت ذرا فاصلے پر بیٹھے تھے آپ نے دور ہی سے قارورہ پر ایک نظر ڈالی اور خاموش ہوگئے۔ جب وہ شخص قارورہ پھینکنے گیا توآپ نے فرمایا حکیم جی اس مریض کا علاج ذرا سنبھل کر کیجیو۔ حکیم صاحب حیران ہوئے اور فرمایا حضرت کیوں؟ آپ نے فرمایا اس کا حال ابتر ہے۔ غرض جب وہ شخص قارورہ پھینک کر واپس آیاتو حکیم صاحب نے مریض کاحال پوچھا اس نے ہچکی وغیرہ کی وہ حالت بیان کی جو جانکنی کے وقت ہوتی ہے تب تو حکیم صاحب گھبرائے اور اس کو حیلہ بہانے سے ٹالا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ج:۲، ص:۱۰۸)

مرازا صاحب کی نازک مزاجی

حد سے بڑھی ہوئی نزاک اورحد سے بڑھی ہوئی نفاست جو کاموں میں خلل انداز ہو اسلامی آداب زندگی اس کو برداشت نہیں کرتی۔ سادگی اور تحمل اسلام کا مزاج ہے۔ لیکن بعض بزرگوں میں نزاکت طبع اس قدر غالب تھی کہ معمولی سے معمولی بے سلیقی گرانی پیدا کردیتی تھی اور ادب و سلیقہ اس کجی کو وہ برداست نہیں کرتے تھے۔ انہی بزرگوں میں جن میں طبعی نزاکت ناقابل تصور حد تک بڑھی ہوئی تھی حضرت مرزا جاں جانا بھی ہیں۔ ان کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمة اللہ علیہ اورآخر میں مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی معاصرت حاصل ہے۔ حضرت شاہ غلام علی رحمة اللہ علیہ حضرت مرزا کے خادم خاص تھے۔ اسلئے حضرت مرزا کے واقعات حضرت شاہ غلام کی زبانی ہی زیادہ منقول ہیں۔ ذیل میں ہم حضرت مرزا صاحب کی نازکیٴ طبع کے چند واقعات نقل کررہے ہیں، لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو اس نزاکت کے پس پردہ اصلاح جھانکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بایں ہمہ اس نازکیٴ طبع کا قدرت کی طرف سے ایسا علاج ہوا کہ حضرت مرزا صاحب رحمة اللہ علیہ کی نزاکت طبع بھی رخصت ہوگئی اور غصہ بھی کافورہوگیا۔ ملاحظہ فرمائیے حضرت مرزا رحمة اللہ علیہ کے چند واقعات۔ ان کے راوی ہیں قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔

(۱) مرزا صاحب رحمة اللہ علیہ کی ایک شخص نے دعوت کی اور چونکہ وہ آپ کی نازک مزاجی سے واقف تھا اس لیے گھر کو خوب صاف کیا، جھاڑو دی، قلعی کرائی جب سب طرح اس کو ستھرا اور خوبصورت بنالیا تو مرزا صاحب کو بلایا۔ مرزا صاحب تشریف لائے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب کھانا سامنے آیا اور مرزا صاحب نے نظر اٹھائی تو سرہاتھ سے پکڑ لیا اور فرمایا میاں! وہ روڑا زمین سے کیسا اٹھا ہوا ہے۔ جب تک یہ صاف نہ ہوگا مجھ سے کھانا نہ کھایا جائیگا۔ چنانچہ اسی وقت روڑا نکال کر زمین کو ہموار کیا جب مرزا صاحب نے نوالہ توڑا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور،ج:۲، ص:۲۵۹)

بادشاہ فقیر کے دربار میں

بے قاعدہ رکھی ہوئی چیزیں دیکھ کر مرزا صاحب کے سرمیں درد ہونے لگتا تھا۔ ایک دن بہادر شاہ بہت الحا و التجا کے بعداجازت ملنے پر زیارت کیلئے حاضر ہوا۔ موسم تھاگرمی کا۔ بادشاہ کو پیاس لگی اور پانی طلب کیا۔ حضرت نے فرمایا وہ گھڑا رکھا ہوا ہے پیالہ میں لے کر پانی پیو۔ بادشاہ نے پانی پیا اور پیالہ گھڑے پر رکھ دیا۔ مرزا صاحب کی نظر جو گھڑے پر پڑی تو پیالہ ذرا ترچھا دھرا ہوا تھا، دیر تک ترچھی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ آخر ضبط نہ ہوسکا۔ فرمایا جناب آپ بادشاہت کیا کرتے ہوں گے ابھی تک خدمت گاری تو آئی ہی نہیں۔ دیکھو تو گھڑے پر پیالہ رکھنے کا یہی طور ہے؟۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے فرمایا آئندہ ہمیں ایسی تکلیف نہ دیجیو۔ (بحوالہ بالا)

طبعی نزاکت

ایک رات مرزا صاحب کو سردی کی وجہ سے نیند کم آئی۔ ایک بڑھیا خادمہ کو یہ حال معلوم ہوا توحاضر ہوکر عرض کرنے لگی۔اجازت ہوتو رزائی بناؤں حضرت نے فرمایا بہت اچھا۔ بعد نماز عشاء بڑھیا رزائی لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا حضرت رزائی حاضر ہے آپ اس وقت چارپائی پر لیٹ چکے تھے، فرمایا مائی میں تو اب لیٹ رہا اٹھنا مشکل ہے تو ہی آکر میرے اوپر ڈال دے بڑھیا نے رزائی حضرت کو اڑھادی اور چلی گئی۔ صبح ہوئی تو مرزا صاحب نے اپنے خادم سے فرمایا غلام علی مجھے تورات نیند نہیں آئی۔ دیکھ تو سہی رزائی میں کوئی جوں تو نہیں ہے؟ شاہ علی صاحب نے خوب غور سے دیکھا نئی رزائی تھی جوں کا کہاں پتہ۔ ہاں جلدی میں نگنڈے تیڑھے پڑے تھے۔ جب پرکار سے خط کھینچ کر درست کئے گئے تب مرزا صاحب کو آرام ملا۔ (بحوالہ بالا)

(۳) ایک روز ارشاد فرمایا کہ شاہ غلام علی صاحب مرزا صاحب کے خاص خادم تھے۔ جب پنکھاکرنے کھڑے ہوتے تو بہت احتیاط رکھتے تھے۔ مگر پھر یہ حال تھا ذرا سہج سہج کر پنکھا ہلتا تو حضرت فرماتے میاں! تمہارے ہاتھوں میں جان نہیں ہے اورجب ذرا تیز جھلتے تو فرماتے تو مجھے اڑا دے گا۔ آخر ایک روز شاہ غلام علی صاحب نے دبی زبان سے عرض کیا کہ حضرت یوں بن پڑے نہ ووں بن پڑے۔ حضرت مرزا صاحب کو غصہ آگیا اور جھڑک کر فرمایا: ”ہمارا پنکھا چھوڑ دو“ پھر شاہ غلام علی صاحب روئے اور خطا معاف کراکر پنکھا جھلنے کی اجازت دی۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپوری، ج:۲، ص:۳۶۰)

شیخ زادہ کا پاجامہ

(۴) ایک بار قاضی صاحب بہ لباس فاخرہ بغرض زیارت حاضرہوئے۔ ایک شیخ زادہ ہمراہ تھے۔ شیخ صاحب کو پیاس معلوم ہوئی۔ مرزا صاحب نے گھڑے سے پانی پینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ شیخ جی نے پانی پی کر گلاس ڈھک دیا۔ مرزا صاحب نے سر پکڑ لیا اور خود کھڑے ہوکر گلاس کو گھڑے پر درست کرکے رکھا۔

اتفاق سے شیخ صاحب کا پاجامہ ایک طرف ڈھلا ہوا نیفہ کی چڑیا اپنی جگہ سے سرکی ہوئی تھی۔ حضرت مرزا صاحب کی جونظر پڑی تو پریشان ہوگئے اور قاضی صاحب سے فرمایا آپ کی ان شیخ صاحب کے ساتھ کیوں کر نبھتی ہوگی جنہیں پاجامہ پہننے کا بھی سلیقہ نہیں۔ دونوں سرین ایک ہی پائینچہ میں ڈال لئے۔ (بحوالہ بالا)

تمیز نہیں آئیں

(۵) حضرت مرزا صاحب کے حجرے سے باہر تشریف لانے کا جب وقت ہوتا تو پہلے شاہ غلام علی صاحب فرش کو صاف کردیا کرتے تھے۔ ایک دن مرزا صاحب جوحجرے سے تشریف لائے تو سرپکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا غلام علی تجھ کو اب تک تمیز نہیں آئی۔ دیکھ تو سہی وہ فرش پر تنکا پڑا ہوا ہے جلدی اٹھا۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ مکتبہ الشیخ سہارنپور، ج:۲، ص:۲۶۱)

آدمی ہو یا ڈنگڑ

(۶) ایک مرتبہ ایک شخص نے بہت اہتمام سے موزیات تیار کرکے نذر گزارے۔ آپ نے رکھ لئے کچھ جواب نہ دیا۔ دوسرے دن اس شخص نے دریافت کیا حضرت موز پسندبھی آئے؟ آپ خاموش ہوگئے۔ پھر پوچھا پھر کچھ نہ فرمایا تیسری مرتبہ اس شخص نے پھر یہی سوال کیا۔ اس وقت مرزا صاحب سے ضبط نہ ہوسکا فرمایا موز تھے یا جوتے کا تلہ ہاتھ کی تین چار انگلیاں اٹھاکر فرمایا اتنے اتنے بڑے موز بھی کہیں ہوتے ہوں گے؟ ایسے انوکھے موز آپ تیار کرکے لائے اس پر طرہ یہ کہ داد بھی چاہتے ہیں۔ میاں! موز بادام کو کہتے ہیں، بادام ہی کی برابر ہونے چاہئے کہ آدمی کھانے کے بعد منھ میں ڈال لے۔

پھر ایک مرتبہ کوئی شخص موز تیار کرکے لائے توآپ کو پسند آئے۔ اگلے دن شاہ غلام علی صاحب کو بلاکر چند موز عطا کئے۔ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلادئیے۔ مرزا صاحب نے غایت کلفت کے ساتھ ہائے کی اور فرمایا میاں! کاغذ لاؤ اوراس میں لو۔ شاہ صاحب جلدی سے کاغذ لائے۔ مرزا صاحب نے اس میں موز رکھ دئیے۔ انھوں نے کاغذ کی پڑیا باندھ لی پھر دوبارہ مرزا صاحب منقبض ہوئے اور سرہاتھ سے تھام کر فرمایا ”غلام علی تو مجھے مار کر چھوڑے گا“ بندش کا بھی سلیقہ نہیں یہ موزاس طرح بندھتے ہوں گے۔ اس کے بعد خود لیکر سلیقہ کے ساتھ ان کو لپیٹا اور ہر چہار گوشہ صاف ستھرے، سیدھے سچے موڑ کر ان کے حوالے کئے۔ اگلے دن دریافت فرمایا کہو غلام علی موز کھائے؟ انھوں نے کہا جی حضرت کھائے بڑے مزے کے تھے۔ آپ نے فرمایا کتنے کھائے؟ شاہ صاحب بولے حضرت سب کھالئے۔ اتنا سن کر مرزا صاحب بے کیف ہوگئے اور بہ تعجب فرمایا ایں سب کھالئے آدمی ہو ڈنگر؟ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۱، ص:۳۲۸)

پیٹو آدمی

(۷) مرزا صاحب کی نزاکت طبع کا یہ حال تھا کہ ایک شخص زیادہ کھانے والا تھا۔ اس کو لوگ ”اکول“ کہتے تھے۔ مرزا صاحب کی خدمت میں جب حاضر ہوتا تواس کی صورت دیکھ کر زیادہ کھانے کے تصور سے سرمیں درد ہوجاتا اور کتنی کتنی دیر تک سرتھامے بیٹھ رہتے تھے۔ فرش کے نیچے کوئی سنگ ریزہ ہوتا اور بچھونا ابھرا رہتا، اس پر نظر پڑجاتی تو بے چین اور متاذی ہوجاتے تھے۔ (تذکرة الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲، ص: ۳۳۰)

بدمزاج عورت

(۸) حضرت مرزا صاحب کا امتحان اور مجاہدہ سب اسی نفاست و نزاکت طبع میں تھا۔ ایک عورت تھی نہایت بدمزاج، کج اخلاق، منھ پھٹ حضرت مرزا صاحب کو الہام ہوا کہ اگراس عورت سے نکاح کرو اور اس کی بدزبانی اور ایزادہی پر صبر کرو گے تو تم کو نوازدیا جائے گا۔ حضرت نے فوراً پیغام بھیج دیا اوراس سے نکاح کرلیا۔ وہ عورت اس درجہ تندخو، بدخصلت، سخت دل اور فحش گو تھی کہ الامان۔ حضرت مرزا صاحب خوشی خوشی دولت خانہ تشریف لے جاتے اور وہ سڑی سڑی سنانی شروع کردیتی۔ چپکے بیٹھے سنتے رہتے، زبان سے اف نہ نکالتے، اندر گھلتے آخر واپس تشریف لے آتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح ہوتے ہی خادم کو حکم فرماتے کہ جاؤ دروازے پرحاضر ہوکر میرا سلام عرض کرو اور پوچھو کوئی کار خدمت ہوتو انجام دیا جائے۔ بموجب ارشاد خادم آستانہ پر حاضر ہوتا اور شیخ کا سلام پہنچاکر مزاج پرسی کرتا۔ وہ نیک بخت بجائے جواب سلام گالیاں سناتی اور وہ مغلظات بکتی تھی کہ سننے والے شرما جاتے تھے۔ مگر مرزا صاحب کے خادم کو تاکید تھی کہ دیکھو اہلیہ کی شان میں گستاخی نہ ہونے پائے۔ کسی بات کا جواب مت دینا جو کچھ فرمادیں سن لینا۔ ایک روز کوئی ولایتی خادم اس خدمت پرمامور ہوا ہر چند کہ اس کو تاکید تھی کہ جواب نہ دیا جائے مگر بیچارہ ضبط نہ کرسکا۔ جب دروازے پر پہنچ کر حضرت کا سلام پہنچایا، مزاج پرسی کی، تو عورت نے بکنا شروع کیا۔ ”پیر بنا بیٹھا ہے اسے یوں کروں اور ووں کروں“ ہر چند ولایتی نے ضبط کی کوشش کی مگر آخر کہاں تک۔ پیر کو گالیاں نہ سن سکا اور غصہ میں آکر کہا بس چپ رہ ورنہ گردن اڑادوں گا۔ اس پر وہ نیک بخت اورآگ بگولا ہوگئی۔ اب لگی ہونے توتو، میں میں۔ غل کی آواز جو مرزا صاحب کے کان میں پہنچی تو گھبرا اٹھے اور جلدی سے ولایتی کو واپس بلوایا، اس کو بٹھایا اور فرمایا تم ناواقف ہو۔ دوسرے خادم کو بھیجا وہ سن کر واپس آگیا۔

حضرت مرزا صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں اس عورت کا نہایت مشکور و احسان مند ہوں، اس کے باعث مجھے بہت نفع پہنچا ہے اور حقیقت میں اس کی شدائد اور سختیوں کی برداشت کرتے کرتے حضرت مرزا صاحب کے اخلاق غایت درجے مہذب ہوگئے اورآپ کا سب غیظ و غضب فرو ہوگیا تھا۔ (تذکرہ الرشید مطبوعہ دارالکتاب دیوبند، ج:۲، ص:۳۲۹)

بے مثال حافظہ

اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام قوت حافظہ ہے، اس نعمت عظمیٰ کو پانے والے اپنی مثال آپ تھے۔ چنانچہ بخاری، مسلم، ترمذی وغیرہ حضرات ائمہ حدیث اپنے زمانے میں یکتا اور نمایاں تھے، ماضی قریب میں بھی حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کا نام ملتا ہے جن کو لوگ چلتا پھرتا کتب خانہ کہنے پر مجبور تھے، اسی ماضی قریب میں حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی بھی ایسی شخصیت تھی جو علوم کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر بھی تھے اور بے مثال حافظہ کے مالک بھی۔ شہادت میں دیکھئے ایک مختصر واقعہ:

حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے مولوی یحییٰ صاحب کاندھلوی سے فرمایا کہ فلاں مسئلہ شامی میں دیکھو، مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت وہ مسئلہ شامی میں تو ہے نہیں۔ فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ لاؤ شامی اٹھالاؤ۔ شامی لائی گئی، حضرت اس وقت آنکھوں سے معذور ہوچکے تھے۔ شامی کے دو ثلث اوراق دائیں جانب کرکے اورایک ثلث بائیں جانب کرکے اس انداز سے کتاب ایک دم کھولی اور فرمایا کہ بائیں طرف کے صفحہ پر نیچے کی طرف دیکھو۔ دیکھا تو وہ مسئلہ اسی حصہ میں موجود تھا، سب کو حیرت ہوئی۔ حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری زبان سے غلط نہیں نکلوائے گا۔ (ارواح ثلثہ،ص:۳۰۹ مطبوعہ نعیمیہ دیوبند)

نہ دین کا نہ دنیا کا

زندگی میں مشاہدات کو بڑا دخل ہے۔ انسان کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرتا ہے، پھر وہی مشاہدہ تجربہ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اور انسان پھر اسی تجربہ کے تناظر میں اسباب کا تعین کرتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیے مشاہدات کے تجربات بننے کی ایک مثال:

حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ اپنے سلسلہ کے ایک استاذ سے نقل فرماتے تھے ۔ کہ جس شخص کو دنیا کا بنانا ہو اور دین سے کھونا ہو اس کو طبیبوں کے سپرد کردے، اور جس کو دین کا بناناہو اور دنیا سے کھونا ہو اس کو صوفیہ کے سپرد کردے اور جس کو دونوں سے کھونا ہو اس کو شاعروں کے سپرد کردے۔ اس پر میں نے (یعنی حضرت مرشدی حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی مدظلہ العالی) عرض کیا کہ حضرت جس کو دونوں کا بنانا ہو؟ ۔ تو فرمایا کہ یہ ناممکن ہے۔ (ارواح ثلاثہ مطبوعہ کتب خانہ نعیمیہ دیوبند ،ص:۳۱۴)

گرو بننا مشکل

ریاضت و مجاہدات کے بغیر گرو بننا اس اسباب کی دنیا میں بہت مشکل ہے، ریاضت ہی پہلا زینہ ہے۔ جس کو طے کئے بغیر ارتقائی منزلیں طے نہیں ہوسکتیں، اس چیلا جس کو ٹھیٹھ ہندی میں ”ششو“ بھی کہتے ہیں بننا اور بھی مشکل ہے۔ چیلا بننے کے تصور کے ساتھ گرو بننے کا عہد کرلیا جائے تو مجاہدات آسان ہوجاتے ہیں۔ کچھ بننے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اسی تعلیم کو ذیل کے واقعہ میں پڑھیے۔

مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک شخص کسی گرو کے پاس گیا۔ گرو نے پوچھا کیسے آئے ہو؟ کہا چیلا بننے آیا ہوں۔ گرو نے کہا کہ چیلہ بننا بہت مشکل ہے۔ اس نے کہا تو گرو ہی بنادیجئے۔ (ارواح ثلاثہ مطبوعہ نعیمیہ کتب خانہ دیوبند،ص:۳۱۴)

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد: 90 ‏،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء

Related Posts