از: مولوی فاروق اعظم متعلّم دارالعلوم دیوبند
حرف ِ آغاز
”فقہ“ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے، وہ قرآن کریم کا خلاصہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح ہے، شریعت کے عمومی مزاج ومذاق کا ترجمان ہے اور اسلامی زندگی کے لیے چراغ راہ بھی، اس لیے علوم اسلامیہ میں اس کی جو اہمیت وضرورت ہے وہ آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہے اور یہی نہیں کہ اس کی ضرورت صرف اور صرف ماضی ہی سے وابستہ تھی؛ بلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت و اہمیت ماضی ہی کی طرح محسوس کی جاتی رہے گی اور مجتہدین کرام قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کرکے فقہی اصول کے ذریعے امت کے پیش آمدہ مسائل حل کرتے رہیں گے۔
ذیل میں اسی پر روشنی ڈالی جائے گی اوراس پہلو کو بھی اجاگر کیا جائے گا کہ علوم اسلامیہ میں ”فقہ“ ہی ایسافن ہے جس کے اندر ایسی عالمگیریت وہمہ جہتی پائی جاتی ہے کہ ہرہر مسلمان کی زندگی بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس سے پوری طرح مربوط ہے، اور اس کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ونامکمل سمجھی جائے گی، رہ گئے وہ کورچشم جو اپنی مینڈکی فطرت کی بنا پر سرے سے فقہ کے منکر ہیں اور اسے کتاب وسنت سے علیحدہ شئی گمان کرتے ہیں تو اس سلسلے میں اتنا کافی ہے کہ چاند پر دھول ڈالنے والے کا چہرہ تو گرد آلود ہوسکتا ہے؛ لیکن قمر کی چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔
غرض یہ کہ ”فقہ“ قرآن وحدیث سے تیار شدہ وہ گاڑی ہے جس کے ذریعے حیاتِ انسانی مکمل زاد راہ کے ساتھ اپنی منزل مقصود (آخرت) تک بآسانی پہنچ سکتی ہے۔
فقہ کس کا نام ہے
لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا تھا، بعد میں اس کا استعمال خاص علم دین کے فہم میں ہونے لگا(۱) قرآن پاک میں یہی مراد ہے(۲) اور حدیث میں بھی یہی معنی: من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہ فی الدین(۳)۔ عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے منقول فقہ کی تعریف ان الفقہ ہو معرفة النفس مالہا وماعلیہا: ”جس سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے“(۴) اپنے اندر مذکورہ تمام چیزوں کو سموئے ہوئے ہے، مگر بعد میں جب علیحدہ طور پر ہر فن کی تدوین وتقسیم ہوئی تو ”فقہ“ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہوگیا، چنانچہ فقہ کی تعریف علامہ ابن خلدون کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ ”افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکامِ الٰہی کے جاننے کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا محظور (ممنوع وحرام)، مستحب اور مباح ہیں یا مکروہ“(۵) اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ”فقہ ملکہٴ استنباط اور دینی بصیرت کا نام ہے جس کے ذریعے احکامِ شریعت، اسرار معرفت اور مسائل حکمت سے واقفیت ہوتی ہے نیز نئے فروعی مسائل کے استنباط اور ان کی باریکیوں کا علم ہوتا ہے“(۶)
فقہ کی بنیاد قرآن و حدیث ہی ہیں نہ کہ محض عقل و قیاس چنانچہ علامہ مناظر احسن گیلانی فرماتے ہیں کہ: ”فقہ کے یہ معنی نہیں کہ شریعت میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ عقل کرتی ہے؛ بلکہ وہی بات یعنی نتائج و احکام کا جو روغن وحی و نبوت کے ان معلومات میں چھپا ہوا تھا، عقل کی مشین ان ہی کو اپنی طاقت کی حد تک ان سے نچوڑنے کی کوشش کرتی ہے اسی کوشش کا نام اجتہاد ہے“(۷)
فقہ کا اصل سرچشمہ
یہ بات تو پوری طرح واضح ہے کہ احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ رہا، اس کے بعد سنت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پھر قیاس و اجماع، جس کی حقیقی تصویر اس واقعہ میں دیکھی جاسکتی ہے جب کہ حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر رخصت کرتے وقت رسول الثقلین ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ: کوئی مسئلہ درپیش ہوتو اپنے فیصلہ کی بنیاد کس کو قرار دوگے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا کتاب اللہ کو – آپ نے پوچھا اگر اس میں کسی کا حل نہ مل سکے تو؟ فرمایا: احادیث سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا: کہ اگر وہاں بھی نہ ملے تو؟ اخیر میں کہا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا اورحق کی جستجو میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا(۸)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کے مزاجِ دین اور مزاجِ شریعت سے ہم آہنگی اور آگہی پر خوشی کا اظہار کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جس سے اس کا رسول راضی ہے۔
اسی طرح اسی کی ہم شکل تصویر آپ کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت سے جھلکتی ہے جوکہ صحابہ کے اجماع سے حل ہوا، اسی کے ساتھ اس حقیقت کی حیثیت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ درس نبوی کے سب سے پہلے مدرسہ کا پہلا معلم، جن کے اخلاق واعمال نبی کے بالکل مشابہ حضرت ابن مسعود جن کو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ ہی میں درس و تعلیم کی اجازت دے دی تھی اور صحابہ کو حکم فرمایا کہ قرآن وحدیث اورمسائل ابن مسعود سے حاصل کرو(۹) یہی وجہ ہے کہ آپ کا فقہی طریقہٴ کار بے حد مقبول ہوا بعد میں یہی ”فقہ حنفی“ کی شکل میں ابھر کر پورے عالم میں پھیل گیا۔ مذکورہ سطور سے پوری حقیقت سامنے آگئی کہ عمارتِ فقہ کی خشت اول کتاب اللہ ہے پھر حدیث، قیاس اور اجماع۔ اور فقہ کی بنیاد بھی عہد نبوی ہی میں رکھی جاچکی تھی۔
فقہ اسلام کا ارتقاء
فقہ وفتاویٰ کی بنیاد تو عہد رسالت ہی میں پڑ چکی تھی اوراسی زمانے میں خود ایوانِ رسالت سے حضرت ابوبکرصدیق کا مدینہ منورہ میں منصب افتا پر فائز ہونا بھی تاریخ بتاتی ہے۔(۱۰)
قرنِ اوّل میں جہاں امور دینیہ ودنیویہ کو حل کرنے کے لئے انفرادی و اجتماعی غور و فکر ہوتا تھا وہیں اجتماعی اور شورائی اجتہاد کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں اس مقصد کے لیے اکابر صحابہ اور فقہائے صحابہ کی ایک مستقل مجلس قائم رکھی تھی۔ تابعین کے دور میں بھی مدینہ کے فقہائے سبعہ کی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں، یہ اس زمانہ کا سب سے بڑا اور لائق اعتبار دارالافتاء تھا،(۱۱) بعد میں کوفہ کی درس گاہِ فقہ میں اسی منہاج و طریق کو امام ابوحنیفہ نے مزید وسعت کے ساتھ اختیار کیا اور ایسی عظیم الشان اور وسیع و جامع فقہ کی بنیاد رکھی جو دیگر تمام مکاتب فقہ سے فائق و ممتاز ہے اسی کو آج فقہ حنفی سے جانا جاتا ہے۔
فقہ اسلامی یا قانونِ اسلامی کی تدوین اور طریقہٴ کار
تدوین و ترتیب کا باضابطہ سلسلہ اموی دور سے شروع ہوا، اور عہد عباسی کی ابتدا سے مختلف علوم و فنون کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ چنانچہ اسی زمانے میں فقہ کو فن کی حیثیت حاصل ہوئی۔ علماء تاریخ فقہ کو چار دور میں تقسیم کرتے ہیں، پہلا دور اس کی نشوونما اور ابتداء کا ہے جس کا سلسلہ ۱۰ھء تک جاری رہا، دوسرا دور اس کی وسعت کا ہے جس کی مدت عہد صحابہ سے ۴۱ھء تک رہی ہے، تیسرا دور اس کی پختگی و کمال اور تدوین کا ہے جو صغارِ صحابہ کے دورسے دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک رہا ہے اور چوتھا دور چوتھی صدی ہجری کے تقریباً نصف تک رہا۔ یہ وہ دور ہے جس کے بعد فقہ اسلامی کا دورِ تقلید شروع ہوجاتا ہے،اور عہد نبوی سے بُعد کی بنا پر لوگوں میں اسلاف جیسی فقاہت اور فقہ اسلامی میں درک و کمال باقی نہیں رہتا ہے، اس لیے عام طور پر لوگ ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب کے پیرو ہوجاتے ہیں۔(۱۲)
یوں تو طلوع اسلام کے ساتھ ہی فقہ اسلامی کا آغاز ہوگیاتھا؛ لیکن چوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں لوگ انتہائی سادہ، اور ضروریات محدود تھیں، اسی وجہ سے فقہائے صحابہ کی توجہات اس کی تدوین کی طرف مبذول نہ ہوسکیں، پھر حالات کے تقاضے کے پیش نظر فقہائے مدینہ نے تدوین فتاویٰ کی داغ بیل ڈالی اور فقہائے کوفہ نے فتاویٰ و قضایا کے جمع و ترتیب پر زور دیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نخعی نے ایسے فتاویٰ اور ان کے مبادیات کو ایک مجموعہ کی شکل میں جمع کیا تھا، اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس اور حماد کے پاس بھی ایک مجموعہ تھا(۱۳)؛ لیکن فقہ اسلامی کی باضابطہ فقہی ابواب کے مطابق تدوین کا سہرا حضرت امام حنیفہ کے سر ہے جس کی تائید امام موفق مکی کی تحریر سے یوں ہوتی ہے کہ ”امام ابوحنیفہ ہی نے سب سے پہلے علم شریعت (فقہ) کی تدوین کی ان سے پہلے یہ کام کسی اور نے نہیں کیا“۔(۱۴)
عہد رسالت کے بعد جب اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیر نگیں ہوگئیں، یورپ میں اندلس تک افریقہ میں مصر اور شمال افریقہ تک اور ایشیا میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا تو اسلام کو نئے تمدن، نئی تہذیب اور نئی معاشرتوں سے سابقہ پڑا ”وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخرعہد میں علمائے حق کی ایک جماعت نے (امام ابوحنیفہ کی قیادت میں) کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرنا چاہاجو ہرحال میں مفید، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ قابل عمل ہو۔“(۱۵)
چنانچہ امام صاحب نے اپنے ایک ہزار شاگردوں میں سے چالیس کو منتخب کرکے دنیا کی بے نظیر شورائی طرز کی ایک مجلس تدوین فقہ قائم کی۔(۱۶) جس کے اندر یوسف و زفر جیسا قیاس اور صاحب بصیرت، یحییٰ بن زائدہ، حفص بن غیاث، حبان جیسا ماہر حدیث، قاسم بن معن جیسا ماہرلغت، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زہدوورع کا پیکر موجود تھا گویا یہ مجلس ہر علم وفن کے ماہروں سے مزین تھی اور اس پر مزید یہ کہ ابوحنیفہ جیسا جامع کمالات اس قافلے کا میر ․․․․ اللہ اکبر!
طریقہٴ تدوین پر روشنی ڈالتے ہوئے امام شعرانی کے حوالے سے مفتی ظفیرالدین صاحب لکھتے ہیں کہ ”جب کوئی واقعہ (مسئلہ) آپڑتا تو امام ابوحنیفہ اپنے تمام اصحابِ علم وفن سے مشورہ، بحث و مباحثہ اور تبادلہٴ خیال کرتے، پہلے ان سے فرماتے کہ جو کچھ ان کے پاس حدیث اوراقوالِ صحابہ کاذخیرہ ہے وہ پیش کریں پھر خود اپنا حدیثی ذخیرہ سامنے رکھتے اور اس کے بعد ایک ماہ یا اس سے زیادہ اس مسئلہ پر بحث کرتے تاآنکہ آخری بات طے پاتی اورامام ابویوسف قلم بند کرتے اس طرح شورائی طریقے پر سارے اصول منضبط ہوئے ایسا نہیں ہوا کہ تنہا کبھی کوئی بات کہی ہو“۔(۱۷)
یہ اسی قانونِ اسلامی کی جامعیت و وسعت ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کا یہ عہد جدید اور مستقبل کا کوئی بھی ترقی یافتہ اور عصری تمدن اپنے مسائل و معاملات کے لیے اس کا دامن تنگ نہیں پاسکتا۔(۱۸) ڈاکٹر حمید اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ”ان مباحث میں تقریباً پانچ لاکھ مسئلے مرتب ہوئے جن میں اڑتیس ہزار کا تعلق عبادات سے اور باقی کا معاملات سے تھا“(۱۹) اوریہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین ہونی چاہئے کہ اس مجلس میں محض انھیں مسائل پر بحث و مباحثہ ہوا کرتے تھے جن سے قرآن و حدیث ساکت تھے نہ کہ ان مسائل پر جن کی قرآن و حدیث میں پوری وضاحت ہے۔
فقہ اسلامی کی اہمیت اوراس کا مقام
علوم اسلامیہ میں فقہ کو جو حیثیت اور مقام حاصل ہے وہ سورج سے بھی زیادہ روشن اور واضح ہے اس لیے کہ یہ علم زندگی سے مربوط اور انسانی شب و روز سے متعلق و ہم رشتہ ہے۔ بالفاظ دیگراسلام کا نظامِ قانون بنیادی طورپر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو اسلامی شریعت کے مرکزی مصادر و مآخذ ہیں، فقہ و قانون کی دنیا میں اسلامی نظامِ قانون، عدل و انصاف، توازن و اعتدال، غلو وتشدد سے اجتناب اورجامعیت و افادیت جیسی امتیازی صفات کے لیے شہرت و مقام رکھتا ہے، اس کی وسعت و گہرائی، سہولت پسندی، حیرت انگیز بے ساختگی، لچک اورانسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے، جس کا دائرئہ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد سے لے کر معاملات و سیاست وغیرہ امور تک محیط ہے؛ بلکہ علوم نبویہ کے امین اور کاتب رسول سیدنا حضرت علی کے بقول: ”فقہ – طریقہٴ زندگی کا رہنماہے“۔(۲۰) اسی لیے تاریخ کے ہر دور میں اس فن پر زمانہ کی بہترین ذہانتیں صرف ہوتی رہیں۔ اسی کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی ظفیرالدین صاحب اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ ”فقہ وفتاویٰ ایسا فن ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں اس لیے کہ انسانی زندگی میں جس قدر واسطہ اس فن اوراس کے اصول و جزئیات سے پڑتا ہے اور جس قدر آئے دن کے مسائل کا جواب یہاں ملتا ہے کہیں اور سے ممکن نہیں“۔(۲۱) اس کے غیرمعمولی حیثیت کا اندازہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہے کہ ”مختصر لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا اصل سبب ہے اس لچک کی عملی اور قانونی تشکیل جو اسلام میں ایک عالمگیر مذہب ہونے کی حیثیت سے موجود ہے“(۲۲) یہ معلوم ہوچکا کہ فقہ دراصل قرآن ہی کی عملی تفسیر ہے۔ جیسا کہ جناب سرور صاحب مولانا عبداللہ سندھی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”مولانا کے نزدیک اسلامی فتوحات کے بعد قرآن کے قانون کو چلانے کے لیے فقہا کے مختلف مذاہب اسی مقصد کو پوراکرنے کے لیے معرضِ وجود میںآ ئے“۔(۲۳)
فقہ کی آفاقیت اور فقہاء کی عبقریت نیز خلوص و للہیت کے سوا اسے کیا کہا جاسکتا ہے کہ امت محمدی کے اساطین،متبحرین اور علم کے پہاڑوں نے نہ صرف یہ کہ اس فن کی تائید کی بلکہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، اوراسے اپنی پلکوں پہ سجانے میں سعادت مندی سمجھی۔ چنانچہ فقہ کی عظمت کو چار چاند لگاتے ہوئے علامہ انور شاہ کشمیری اس طرح گویا ہیں کہ ”ہر علم و فن میں اپنی مخصوص رائے رکھتا ہوں، کسی کا مقلد نہیں باستثنائے فقہ کہ اس میں میری کوئی رائے نہیں،ابو حنیفہ کی تقلید کرتاہوں“(۲۴) اس پتھر کی لکیر سے جہاں علم فقہ کی کاملیت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں فقہ حنفی کے ذریعے کتاب و سنت کی حفاظت و پاسداری میں منشائے خداوندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
یوں تو فقہ کی اہمیت و افادیت انسانی زندگی کے ایک ایک لمحہ سے عیاں ہے، اور اس کا تفوق نہ صرف یہ کہ دیگر علوم اسلامیہ ہی پر ہے؛ بلکہ اس کا مقام و مرتبہ عبادت سے بھی بڑھ کر ہے جس کی حسین منظر کشی یوں ہوتی ہے کہ ”حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک فقیہہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے“ (مشکوٰة) مذکورہ بالاسطور سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوگئی کہ فقہ کی وہی اہمیت ہے جو کتاب وسنت کی، اس لیے کہ شربت بھی چینی اورپانی ہی کا نام ہے، اگر کتاب و سنت گلشن وگل ہیں تو فقہ انھیں کی عمدہ اور من موہک خوشبو۔
ایک ضروری وضاحت
یوں تو بہت سے فقہی مکاتب وجود میں آئے؛ لیکن مستقل حیثیت چار ہی کو حاصل رہی اور آج بھی دنیا کے تمام مقلدین انھیں چار میں منحصر ہیں، ان میں بھی ہرطرح سے اولیت کا درجہ فقہ حنفی کو ہی حاصل رہا کیوں کہ دیگر ائمہ مجتہدین اور ان کے اجتہادات کو بھی امام ابوحنیفہ کے اجتہاد ہی کا ایک حصہ کہا جاسکتا ہے،اسی کے ساتھ ساتھ آپ کے اندر کئی ایسی خصوصیات ہیں جو آپ کو دوسرے ائمہ سے ممتاز کرتی ہیں ان میں سے اہم شرفِ تابعیت اور آپ کی حیرت انگیز ذہانت ہے، یہی وہ اسباب ہیں کہ جہاں دنیا کے ایک بڑے طبقے نے آپ کی پیروی کی وہیں چند لوگوں کی تعداد ایسی بھی رہی جس نے آپ کو ہدف ملامت بنایا اورطرح طرح سے آپ کے خلاف زہرافشانی کی گئی،اور آج بھی ایسے سیاہ بخت اور جاہل لوگ موجود ہیں جن کے نزدیک سرے سے فقہ ہی باطل اور بے بنیاد ہے اور خاص طور پر فقہ حنفی تو ان کی آنکھ کا کانٹاہے۔ اس لیے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی کہ تحریر میں بار بار فقہ حنفی کا ذکر بھی اسی کا شاخسانہ ہے، اور آگے فقہ حنفی کے منکرین وحاسدین پر بھی اختصاراً روشنی ڈالی جائے گی۔
فقہ اوراس کے منکرین
عالم اسلام کی اکثرت فقہ کی پیروکار ہے، اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی کی تقلید کرنے والی ہے؛ لیکن چندکورچشم ایسے بھی ہیں کہ جن کے یہاں نہ صرف یہ کہ فقہ قابل اعتبار ہی نہیں بلکہ سرے سے اس کے منکر ہیں اور اس بات کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے کہ ”فقہ“ محض پراگندہ خیالات اور بیجا قیاس کا مجموعہ ہے، جس کا کتاب و سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اسی فرقے کو ”غیرمقلد“ سے جانا جاتاہے، یہ فرقہ حنفیوں کو کبھی مشرک بتاتا ہے تو کبھی احبار و رہبان کا پجاری گردانتا ہے۔ اور ان کی عقل نارسا کی کرشمہ سازی یہیں تک نہیں رہ گئی؛ بلکہ ان کے جنون کی ہانڈی میں اس قدر جوش آیا کہ اس سے ایسے ایمان سوزکلمات بھی ابلے کہ ”فقہ اسلامی پر پیشاب کرنا پیشاب کی ناپاکی کو بڑھا دیتا ہے“ (العیاذ باللہ) بالکل بجا ہے کہ دیوانگی میں خوشبو و بدبو کی تمیز بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اس گروہ کا احناف پر الزام یہ ہے کہ حنفی لوگ قرآن وحدیث پر رائے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ محض اہل رائے ہیں، اور ہم اہل حدیث اور عامل بالحدیث ہیں نیز فقیہہ و محدث کے بارے میں یہ فرقہ عدم وجود کا نظریہ رکھتا ہے حالانکہ ان دونوں کی مثال ”ایک جان دو قالب“ کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حدیث اگر عمارت کی بنیاد ہے تو فقہ اس کا اوپری ڈھانچہ، جس طرح سے ظاہری عمارت کے لیے بنیاد ناگزیر ہے اسی طرح اس بنیاد سے فائدہ بھی اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے جبکہ اس کے اوپر عمارت ہو۔
حدیث کا علم اوراس سے شغف جتنا ایک محدث کو ہوتاہے اتنا ہی ایک فقیہہ کو بھی،اگر محدثین کا الفاظِ احادیث پر زیادہ زور رہتا ہے تو فقہاء کے یہاں ان کے معانی پیش نظر رہتے ہیں۔ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ”فقہ سہل الحصول کے ساتھ ساتھ حدیث کا ہی ثمرہ ہے اور آخرت میں فقیہ کا ثواب محدث کے ثواب سے کم نہیں ہے“(۲۵) اوریہی نہیں کہ حدیث و فقہ میں انتہائی گہرا ربط ہے بلکہ امام اعمش تو یہاں تک کہہ گئے کہ ”اے فقیہو! آپ لوگ طبیب ہیں، اور ہم دوافروش ہیں“(۲۶)
فقہاء مشکل احادیث کو اپنی قیاسات و اجتہادات سے حل کرنے کی بنا پر اہل الرائے سے جانے گئے نہ کہ اس بنا پر جو غیرمقلدین کا نظریہ ہے۔ چنانچہ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ ”محدثین اصحاب قیاس کو اصحاب الرائے کہتے ہیں اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مشکل احادیث کو اپنی رائے اور سمجھ سے حل کرتے ہیں“۔(۲۷)
اس فرقے کی فقہ حنفی سے بغض و عداوت اور کجروی کی تصویر اسی کے آئینے میں اس طرح دیکھی جاسکتی ہے کہ ”کتب فقہ مروجہ شریعت اسلام کے بالکل منافی ہیں، کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے ان پر عمل کرنا محض گمراہی اور حرام ہے بھلا اکلِ حلال ہوتے ہوئے خنزیر کھانا کب رواہے“(۲۸)
یہ گروہ جب حنفیوں کے داؤ میں پھنس جاتا ہے تو احادیث کے ضعف و غرابت کا مالا جپنے لگتا ہے حالاں کہ خوب اچھی طرح جاننا چاہیے کہ حدیث کا یہ معیار انقلابِ زمانہ کے پیش نظر امام صاحب کے زمانے کے بعد ہوا۔ ان تمام باتوں سے بخوبی اندازہ لگ جاتا ہے کہ ان کے تمام دعاوی بے دلیل اور سراسر باطل ہیں،ان کی پالیسی دورخی ہے، زبانی طور پر تو یہ گروہ اس کا دعویدار ہے کہ فقہ سے اسے کوئی سروکار نہیں، اس لیے کہ یہ قرآن وحدیث کے علاوہ ایک تیسری چیز ہے؛ لیکن عملی طورپر اس میں کتنی صداقت ہے وہ پوری طرح واضح ہے کیوں کہ نہ تو وہ تقلید سے جدا ہے اور نہ ہی فقہ سے اس کا کوئی سانس خالی اس فرقے کی گرگٹی چال کا کچھ اندازہ اس کے نام سے بھی ہوتا ہے کہ کبھی وہ محمدی بنتا ہے تو کبھی سلفی اورکبھی اہل حدیث، یہ لوگ جزوی مسائل کو بھی ظاہراً قرآن سے ثابت کرنے کے دعویدار ہیں؛ لیکن جب ان سے یہ کہا جائے کہ ہوائی جہاز و ٹرین میں نماز کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی فون اورانٹرنیٹ پر نکاح ہوجائے گا کہ نہیں؟ وغیرہ وغیرہ ․․․ اور ان کا جواب یاتو قرآن سے یا صحیح وصریح احادیث سے دیں تو بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ انکا بھانڈا تو یہاں آکر پوری طرح پھوٹ جاتا ہے جب کہ ایک طرف تو وہ احناف سے ہر مسئلہ میں بخاری کا حوالہ چاہتے ہیں گویا بخاری کو معتبر مانتے ہیں،اور امام بخاری خود مقلد ہیں۔ اور آئینہ کا دوسرا رخ اس طرح ہے بقول انھیں کے ایک دانشور کہ: ”ہر مشرک پہلے مقلد ہوتا ہے پھر مشرک“(۲۹) اب خود ادنیٰ عقل و خرد کا حامل شخص بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ آیا غیرمقلد کا دامن شرک سے محفوظ رہا یا آلودہ؟!
حاصل یہ ہے کہ وہ فقہ کی حقانیت کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں؛ لیکن کچھ تو بغض و عناد اور کچھ اپنے آقا انگریز کی ناراضگی کا خوف۔ دونوں کی آمیزش سے پیدا شدہ تعفن نے ان کی عقل کو ماؤف، سماعت پر دبیز پردہ اور زبان کو اعترافِ حق سے گونگ کردیا ہے۔ اللہ انھیں ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں بھی حق پر جمائے رکھے آمین۔
فقہ: ضرورت اور تقاضے
یہاں آکر ذہن میں ایک خلش پیدا ہوسکتی ہے کہ آخر قرآن وحدیث کے رہتے ہوئے فقہ کی کیاضرورت تھی؟ تو اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب و سنت کے نصوص میں احکام کا دائرہ محدود و متناہی ہے، اس کے برخلاف حوادثِ زمانہ غیر محدود اور لامتناہی ہیں، آئے دن نئے نئے مسائل اورمشکلات جنم لیتے رہتے ہیں، اب اگر قرآن و حدیث کے نصوص میں غور و فکر کرکے ان مسائل کا حل تلاش نہ کیاجائے تو یہ شریعت محمدی بالکل جامد و معطل ہوکر رہ جائے گی، اس میں زمانے کے بدلتے ہوئے حالات و تغیرات کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش نہیں رہے گی؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی یہ شریعت کامل و مکمل ہے اور قیامت تک کی انسانیت کے لیے آخری شریعت ہے۔ انھیں باتوں کے پیش نظر خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے ایک چراغِ راہ کی ضرورت پڑی کہ جس کی روشنی میں انسان بآسانی منزل مقصود تک پہنچ سکے، اسی مشعل راہ کو ”فقہ“ کہا جاتا ہے۔ اللہ ان ائمہ مجتہدین کا بھلا کرے جنھوں نے ہمیں اپنی منزل کا نشان بتایا، اب ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ان کی دی ہوئی روشنیوں کے ذریعے ساحل مراد تک رسائی حاصل کریں، خاص طورپر دور حاضر میں جب کہ ہر طرف جدیدٹکنالوجی کی صدائیں گونج رہی ہیں اور لوگوں کیلئے راہ راست سے پھسلنے کے بے شمار اسباب مہیا ہیں، اس فن کے تئیں دوہری ذمہ داری آجاتی ہے۔
چنانچہ مفتی شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ ”فقہ اسلامی میں ہمارے اس زمانے کی بیشتر ضروریات کا حل موجود ہے؛ لیکن جدید تمدن اور صنعتی انقلاب نے اس زمانے میں نت نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں: معاملات،معاشیات اوراقتصادیات کے سلسلے میں سینکڑوں ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جو حل طلب ہیں اور علمائے امت کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں کہ وہ فقہ اسلامی کی روشنی میں ان کا حل پیش کردیں۔(۳۰)
خلاصہٴ تحریر
مذکورہ بالا تمام حقائق سے علوم اسلامیہ میں فقہ کا کتاب و سنت سے ربط و تعلق، فقہاء کا کمالِ علم وعمل اور ان کی بے پناہ ذہانت و ذکاوت، نیز اس فن کی تدوین میں غایت درجہ کا احتیاط، اور فقہ کے منکرین و حاسدین کا اس پر ہزار کیچڑ اچھالنے کے باوجود سورج کی طرح اس کی روشنی کا دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچنا؛ بلکہ انسانی زندگی میں موجوں کی روانی سے بھی بڑھ کر اس کا تسلسل۔ وہ اسباب و علل ہیں جن سے اس علم کی قدر و منزلت ہمارے سامنے پوری طرح واشگاف ہوجاتی ہے، اور تاریخ فقہ اسلامی کے ہر ہر سطر سے اس کی غیرمعمولی ضرورت واہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ اللہ قرآن و حدیث پر ہمیں پوری طرح کاربند بنائے،اور ائمہ مجتہدین کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
$ $ $
حواشی
(۱) لسان العرب ۵/۲۴۰، بحوالہ فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے والقاموس ۴/۴۱۴ بحوالہ ماہنامہ ”دارالعلوم“ مارچ ۲۰۰۳/۔
(۲) توبہ: ۱۲۲۔
(۳) بخاری ۱/۱۶، ومسلم ۲/۴۴، ودارمی ۱/۷۳۔
(۴) البحرالرائق ۱/۶ (مکتبہ ماجدیہ پاکستان)
(۵) مقدمہ ابن خلدون ص: ۴۴۵ (دارالقلم بیروت)
(۶) مسلم الثبوت، ص: ۷۔
(۷) ماہنامہ ”برہان“ دہلی جنوری ۱۹۴۵/، ص: ۴۲۔
(۸) ابوداؤد: ۲/۵۰۵۔
(۹) تذکرة الفنون، ص: ۴۶۔
(۱۰) نظام الحکومة النبویہ ۱/۵۷ بحوالہ تدوین قانونِ اسلامی، ص: ۱۳۔
(۱۱) فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے، ص: ۵-۶۔
(۱۲) فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے، ص: ۱۸۔
(۱۳) امام ابوحنیفہ عہد وحیات، فقہ و آراء ص: ۳۸-۳۳۷، بحوالہ فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے، ص: ۱۹۔
(۱۴) مناقب امام ابوحنیفہ: ۱/۳۹۳ بحوالہ فقہ اسلامی ․․․ ص:۲۰۔
(۱۵) تاریخ علم فقہ،ص: ۸، از ڈاکٹر حمید اللہ۔
(۱۶) تذکرة الفنون، ص: ۴۸۔
(۱۷) مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم،ص: ۶۸،مناقب امام ابوحنیفہ ص:۵۷ بحوالہ فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے۔
(۱۸) فقہ اسلامی، ص: ۳۲۰۔
(۱۹) تدوین قانونِ اسلامی، ص: ۳۸۔
(۲۰) فقہ اسلامی، ص: ۳۲۰۔
(۲۱) مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم، ص: ۷۸۔
(۲۲) ماہنامہ ”برہان“ دہلی، فروری ۱۹۴۵/، ص: ۸۲۔
(۲۳) ایضاً فروری ۱۹۴۴/۔
(۲۴) نقش دوام، ص: ۴۴۱۔
(۲۵) تہذیب الکمال ۲۴/۴۶۴ بحوالہ غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں، ص: ۹۹۔
(۲۶)اخبارابی حنیفہ و اصحابہ،ص:۳، الفقہ والمتفقہ بغدادی ۲/۷۴، مناقب ابی حنیفہ ذہبی،ص:۲۱ بحوالہ ائمہ اربعہ، ص:۴۵۔
(۲۷) مقام ابوحنیفہ از سرفراز خان صفدر،ص: ۱۶۰ بحوالہ مقدمہ تحفة الاحوذی، ص:۲۶۰ ونہایہ ۲/۱۷۹۔
(۲۸) خطبہ امارت ،ص: ۱۳ مشمولہ مسائل اہل حدیث جلد دوم بحوالہ حدیث اور اہل حدیث،ص: ۳۶ ، از انوار خورشید پاکستان۔
(۲۹) عبداللہ بھاولپوری: اصلی اہل سنت،ص: ۳۲ بحوالہ حدیث اور اہل حدیث، ص:۸۵۔
(۳۰) سرورق : فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 90 ،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء