از: بلال احمد قاسمی شیر کوٹی
قال اللّٰہ تبارک وتعالٰی: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ o صدق اللّٰہ العظیم․
نظامِ قدرت ہے اِس دنیا میں لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ کسی بھی شخص کی موت باعث تعجب اور حیرت نہیں ہے۔ اور کسی کو بھی موت آنے کا واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب باعث تخلیق کائنات سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حسب ضابطہ مذکورہ اِس دار فانی سے تشریف لے گئے تو پھر کون ہے جو موت کی منزل سے نہ گزرے۔
جو زندہ ہے وہ موت کے آلام سہے گا
جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا
مگر اُن ہی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے عجیب و غریب صلاحیتوں سے سرفراز فرماتا ہے اور جب ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اہل خانہ اورمتعلقین کو ہی نہیں امت کو یاامت کے بیشتر طبقہ کو ان کے جانے کاغم ہوتا ہے۔ اور یہ تکلیف و پریشانی کسی طرح بھلائے نہیں بھلائی جاتی۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک شخصیت قصبہ شیرکوٹ ضلع بجنور کے محدثانہ شان کے حامل مشہور عالم حضرت مولانا محمد شریف الحسن صاحب رحمة اللہ علیہ بھی تھے۔ جن کی رحلت ابھی کل بتاریخ ۱۳/ جمادی الاوّل ۱۴۲۷ھ بروز ہفتہ بعد نمازِ فجر متصلاً تقریباً ۲، ۳ ماہ کی علالت کے بعد ہوئی۔ بارگاہِ رب ذوالجلال میں حاضری کا پیغام پہنچا اور مولانا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ رحمة اللہ علیہ رحمةً واسعةً ۔
حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۱۳/شعبان المعظم ۱۳۶۰ھ بروز منگل ۹/بجے شب کو ہوئی تھی آپ نے ۶۷ سال کی عمر پائی۔ آپ کے پانچ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بھائی پانچ کے پانچ عالم دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ یہ سب مولانا کے والد بزرگوار حضرت مولانا حکیم محمد ابراہیم صاحب نوراللہ مرقدہ کے نیک عالم اور عارف باللہ ہونے کی بات ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد ذکور میں ہر ایک کو عالم بنانا ضروری سمجھا جو ان کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوا۔ اور یہ جذبہ کہ میری اولاد میرے بعد بھی دیندار رہے جذبہٴ نبوت ہے جو ورثہٴ نبوت کے طورپر مبداء فیاض سے آپ کو عطاہوا۔
آپ کے دو بھائی (حضرت مولانا ظریف الحسن صاحب اور حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب رحمة اللہ علیہما) آپ سے بڑے تھے۔ اور آپ کے دوبھائی (حضرت مولانا محمد محفوظ الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مدظلہ) آپ سے چھوٹے تھے۔ بین القوسین میں اوّل الذکر حضرت مولانا محمد محفوظ الرحمن صاحب راقم کے مشفق استاذ اور مخلص مربی تھے اور حضرت مولانا کی نگرانی میں ہی احقر نے تکمیل تعلیم کی ہے۔ آج سے تقریباً ۱۴/ سال قبل حج بیت اللہ شریف سے واپسی پر حضرت مولانا کا وصال ہوگیاتھا۔ حضرت نیک خصلت عالی مرتبت شب بیدار کامیاب استاذ لائق منتظم تھے۔ اب یہ چاروں بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ صرف مولانا عبدالرحمن صاحب مدظلہ ناظم مدرسہ رحمانیہ شیرکوٹ بقید حیات باقی رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی عمر میں برکت فرمائے۔ چونکہ بظاہر اسباب میں گلشن رحمانیہ کی آبیاری کے لئے اُن کے علاوہ کوئی اور موزوں معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت مولانا محمد محفوظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کے بعد جفاکشی نہایت محنت اورمخلصانہ طریقہ پر جس قدر انھو ں نے مدرسہ کا انتظام سنبھالا یہ انہیں کا حصہ ہے۔ جزاہ اللہ خیراً۔
حضرت مولانا محمد شریف الحسن صاحب رحمة اللہ علیہ کی تعلیم کا آغاز آپ کے والد صاحب کی نگرانی میں ہوا اور ابتدائی درجات میں ریاضی کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ جامع شیر کوٹ میں ہوئی اور حفظ کی تکمیل بھی اسی مدرسہ سے کی آپ کے حفظ کے استاذ محترم الحاج قاری محمد حسین صاحب دامت برکاتہم ہیں جو الحمدللہ ابھی بھی باحیات ہیں۔ اس کے بعد فارسی بھی اسی مدرسہ میں پڑھی جس کے استاذ شیرکوٹ کے مشہور عالم حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب ارشق رحمة اللہ علیہ رہے۔ حضرت ارشق کی زندگی کے ایسے نقوش مولانا کے قلب پر مرتسم ہوئے کہ اخیر زندگی تک نوک زبان پراُن کا تذکرہ رہا۔ یہاں فارسی اور عربی کا سالِ اوّل پڑھ کر آپ باغوں والی ضلع مظفرنگرکے مشہورمدرسہ میں داخل ہوئے اور حضرت مولانا محمد حنیف صاحب مہتمم مدرسہ اور حضرت مولانا جمیل احمد صاحبؒ سے پڑھا۔ عربی سالِ دوم و سوم پڑھ کر غالباً عربی سالِ چہارم میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ اور تقریباً ۱۳۸۰ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی دورانِ تعلیم نمایاں و ممتاز طلباء میں شمار ہوئے۔ اور ہمیشہ ممتاز نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ مولاناؒ کے بتانے کے مطابق حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم بھی آپ کے ہمدرس و ساتھی رہے۔ دارالعلوم دیوبند میں فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادی شیخ الحدیث دارالعلوم، امام معقولات حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی، شیخ التفسیر حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب مرادآبادی، حضرت مولانا معراج الحق صاحب اور حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری رحمہم اللہ جیسے اکابر اور بافیض علماء سے اکتساب فیض کیا۔ جن کے علمی نقوش مولانا کی زندگی میں بدرجہ اتم محسوس ہوتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد سے حضرت مولانا نے سیال نگلا جئی میرٹھ، نانپور ضلع غازی آباد مدرسہ حیات العلوم مرادآباد کمال پور ضلع بلند شہر اور وڈالی گجرات کے مدارس میں کامیاب تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ جب نانپور غازی آباد میں پڑھاتے تھے اُس وقت استاذ الاساتذہ سید المحدثین حضرت مولانا علامہ محمد حیات صاحب سنبھلی نوراللہ مرقدہ نے اپنے ضعف و پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنے دروس حدیث میں ایک کامیاب معاون کی حیثیت سے حضرت مولانا مرحوم کو منتخب فرمایا اور مدرسہ حیات العلوم میں بحیثیت ایک استاذ حدیث تقرر عمل میں آیا۔ مولانا نے علامہ کی حیات میں مشکوٰة المصابیح اور بخاری شریف جلد ثانی پڑھائی۔ اور پھر اُن کے بعد باقاعدہ شیخ الحدیث رہے۔ قضاءِ قدر کہ چند ناخوشگوار حالات اور حاسدین کے حسد کے پیش نظر حیات العلوم سے سبکدوشی ہوئی اس کے بعد بھی حضرت مولانا نے متعدد مدارس میں بحیثیت شیخ الحدیث خدمت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلمانجام دی۔ آج سے تقریباً ۱۴/ برس پہلے ایک حادثہ جانکاہ اِس طرح پیش آیا کہ میرے استاذ حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ حج بیت اللہ شریف سے واپس ہورہے تھے کہ بمبئی ریلوے اسٹیشن پر رب العالمین کی جانب سے پیغام اجل آپہنچا اور آپ نے وہیں جان جاں آفریں کے حوالے کردی۔ اس حادثہٴ وفات کے بعد مدرسہ رحمانیہ کے ارباب حل وعقد نے حضرت مولانا کو مہتمم کی حیثیت سے مدرسہ میں رہنے پر اصرار کیا تو مولانا نے قبول فرمالیا۔ اور زندگی کے آخری لمحات تک اِس خدمت و ذمہ داری سے وابستہ رہے۔
حضرت مولانا ایک ذی فہم عالم حافظ قاری اور بہترین مدرس نہایت عمدہ مقرر تھے آپ کااندازِ تخاطب نہایت سادہ اور طرز افہام بہت عمدہ ہوتا زبان صاف ستھری اور عام فہم اختیار فرماتے تھے نہایت پیچیدہ سے پیچیدہ علمی بات بھی ایسے سادہ انداز میں بیان فرمادیتے تھے جس کو کم پڑھا لکھا آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔ لباس اور انداز سے بالکل نہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ ایک بڑے عالم ہیں کبھی کبھی فرماتے تصنع بناوٹ سے تو میری طبیعت میں بڑا تنفر ساہوتا ہے۔ الحمدللہ علی ذلک۔ آپ بڑے مقبول خطیب تھے مگر آپ کی خطابت جذباتیت اور لفاظی کا نمونہ نہیں ہوتی تھی آپ کی تقریروں میں علمی مواد، استدلال، تجزیہ اور افادیت غالب رہتی تھی۔ مختلف موقعوں اور مختلف موضوعات پر مولانا کی تقریروں کے سننے کا موقع ملا مجھے مولانا کی تقریروں میں یہی امتیازی پہلو نظر آیا کہ ان کی تقریر وسعت مطالعہ، تدبر اور حکمت (ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلہم بالتی ہی احسن) کا نمونہ ہوتی تھی یہ خصوصیت مولانا کے ہم عمروں بلکہ بعض معروف خطیبوں کے مقابلہ میں ترجیح کا باعث تھی۔
حضرت مولانا رحمہ اللہ اکابرین دارالعلوم دیوبند اور اسلافِ جمعیة علماء ہند سے والہانہ تعلق رکھتے تھے۔میرٹھ، غازی آباد میں رہے تو بھی جمعیة علماء ہند کے رکن رکین رہے اور ضلعی شاخوں میں کلیدی عہدوں پر رہ کر خدمات انجام دیں۔ جمعیة علماء ہند کی جانب سے جاری ہوئے ہر ایک پروگرام کو نہایت وقیع نظر سے دیکھتے اور اپنی ہر مصروفیت پر ترجیح دیتے ہوئے جمعیة کے ہر ایک پروگرام میں شریک ہوتے۔ جب سے مدرسہ رحمانیہ میں تشریف لائے اس وقت سے تادم آخر ضلع کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور اب چند ماہ سے حضرت مولانا سراج الدین صاحب نہٹوری رحمہ اللہ علیہ صدر جمعیة علماء ضلع بجنور کے انتقال کے بعد سے آپ ہی ضلع بجنور کی جمعیة علماء کے صدر تھے افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی۔ اور ہم حضرت مولاناؒ کے ساتھ بحیثیت اُن کے صدر ہونے کے کچھ دیر اور کچھ دور نہ چل سکے۔
نیز حضرت مولانا کو خانوادئہ مدنیؒ سے بھی عاشقانہ تعلق تھا میں نے دیکھا کہ جب جب حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ اور فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعدمدنی رحمہ اللہ علیہ کا تذکرہ فرماتے تو چشم نم ہوجایا کرتی۔ اور فرماتے اِس خاندان کا ہندوستان کے مسلمانوں پر ایسا احسان ہے جس کا بدلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ایک واقعہ عرض کروں، ابھی گذشتہ ماہ ۲۳/مئی کو جگر گوشہ شیخ الاسلامؒ حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کاپروگرام دھام پور کے لیے مل گیا۔ وقت کم تھا اس ضلع کے چند ذمہ داروں نے ضلع کا دورہ کرکے پروگرام سے پورے ضلع کو مطلع کیا اِس غرض سے حضرت مولانا مفتی محمد قمر صاحب اور محترم الحاج وکیل احمد صاحب ولد حضرت مولانا جلیل احمد صاحب رحمة اللہ علیہ اور راقم الحروف۔ حضرت مولاناؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ملاقات ہوئی۔ اور ہم نے حضرت مولانا کو پروگرام کی اطلاع دی اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کی تشریف آوری کی خبر دی بس کیا تھا ایسا لگا جیساکہ کسی مردے میں روح پھونک دی اٹھ کر بیٹھ گئے اور آنکھوں سے پانی نکل آیا، اور بڑے عزم و حوصلے سے فرمایا ضرور ضرور حاضر ہوں گا بھائی ارشد میاں تشریف لائیں اور میں حاضر نہ ہوں۔ بزرگوں کی زیارت سے روح کو تازگی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ بڑی کمزوری کے باوجود اجلاس میں شرکت فرمائی اور یہ مہتم بالشان اجلاس حضرت مولانا کی صدارت میں ہوا۔ ضعف ونقاہت بے پناہ تھی اس لئے اختتامِ اجلاس سے قبل ہی شیرکوٹ تشریف لے آئے۔
آپ کے کوئی صلبی اور نسبی اولاد نہیں تھی مگر سیکڑوں ہزاروں علماء کرام آپ کی روحانی اولاد کی شکل میں موجود ہیں جو آپ کے واسطے صدقہ جاریہ ہیں۔ آپ کی زوجہ محترمہ مدظلہا ہیں ایک بھائی اور دیگر بھائیوں کی اولاد آپ کے باقیات الصالحات ہیں۔
کل مورخہ ۱۳/ جمادی الاوّل ۱۴۲۷ھ کو بعد نماز عصر تدفین کااعلان تھا۔ مدرسہ رحمانیہ کے وسیع میدان میں جہاں انسانوں کا جم غفیر جمع تھا جس میں بیشتر تعداد پورے ضلع اور اطراف سے تشریف لائے علماء کرام کی تھی۔ طرح طرح کی سواریوں کی ایسی قطاریں جمع ہوگئی تھیں کہ ”بیننا وبینکم الجنائز“ ہمارے تمہارے درمیان جنازے فیصلہ کردیں گے۔ کا فیصلہ حق بھی صادر ہورہا تھا۔ عصر کی نماز کے بعد ہی نماز جنازہ ادا ہوئی نماز جنازہ حضرت مولانا امام الدین صاحب دامت برکاتہم مہتمم مدرسہ دارالعلوم مالکیہ رام نگر نے پڑھائی اور سیکڑوں علماء کے ساتھ دیگر مخلصین نے اس گنجینہٴ علوم شرعیہ کو سپرد خاک کردیا۔
ذہن روشن کرنے والی روشنی غائب ہوئی
ہر نظر سے علم کا مہتاب اوجھل ہوگیا۔ تقی
ہمیشہ خالق کائنات باقی رہنے والا ہے۔ دنیا اوراس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے ہمیں بھی اپنی آخرت کی فکر ہونی چاہئے جانے والا ہمیں بھی جانے کا پیغام دے گیا۔
زردار نہ بے زر نہ خوش انجام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
احقر راقم الحروف دعاء کرتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے، مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 90 ،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء