بقلم: شیرمحمد امینی

نوٹ: زیر نظر مضمون حضرت اقدس مولانا سید اسعد مدنی (قدس سرہ) کے زمانہٴ علالت میں لکھا گیا تھا، اور رسالہ مرتب ہوکر طباعت کے مرحلہ میں تھا کہ حضرت اقدس ۶/فروری دوشنبہ کو قبل مغرب اس دار فانی سے دار جاودانی کو منتقل ہوگئے۔ اناللّٰہ و انا الیہ راجعون․

تفصیلات انشاء اللہ آئندہ شمارہ میں پیش کی جائیں گی۔                 (ادارہ)

جمعیة علماء ہند کے صدر، محترم مولانا سید اسعد مدنی صاحب – مد ظلہ العالی – اِن دنوں مسلسل کئی ہفتوں سے شدید علالت، بلکہ موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں، اور اُن کے متعلقین و محبین کو سخت تشویش کا سامنا ہے، پورے ملک سے صحت یابی کی دعاؤں کی خبریں آرہی ہیں، اوریقینا تمام مسلمانوں کو دعا کرنی چاہیے کہ اِس عظیم ملی قائداور خادمِ ملت کو خدائے قادر و قیوم جلد شفایابی عطا فرمائے۔ اِس میں شک نہیں کہ حضرت مولانا مدنی صاحب اب عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں، اور قوم و ملت کی گراں بار ذمہ داریوں کو ایک طویل و عریض مدت تک اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئے ہیں، لیکن حضرت مولانا کا وجود جب تک خدا کی مشیت سے منظور ہے، وہ ملت کے حوصلوں میں توانائی بھرنے کا کام کرتا رہے گا۔

یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہم کسی کو اُس کی زندگی میں وہ مقام نہیں دیتے، جس کا وہ مستحق ہوتا ہے، اگرچہ موت کے بعد اس کے اعتراف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے جائیں۔ اسی احساس کے تحت راقم نے خیال کیاکہ اس غلط روش کے برخلاف حضرت مولانا کی حیات ہی میں کچھ نہ کچھ لکھ کر شائع کرادیا جائے۔

حضرت مولانا اسعد مدنی کی ولادت ۱۹۲۹/ میں دیوبند میں ہوئی تھی، دارالعلوم دیوبند ہی میں آپ نے تعلیم حاصل کی، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے فرزند ارجمندہونے کے ناطے انھیں اکابر دیوبند کی جملہ روایات ورثے میں ملی ہیں، آنکھ کھولی، تو اپنے عظیم باپ کو اپنی صداقت بیانی کے ذریعہ قوم کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک جھنجھوڑکر طوقِ غلامی گردن سے نکالنے کے لئے آمادہ کرنے میں سرگرداں پایا، ہر وقت ان کا ایک قدم جیل میں دیکھا، اس لئے حب الوطنی، حریت خواہی، حریت پروری، خدمت ملک و قوم انھیں ورثہ میں ملی ہے۔ ۱۹۴۲/ سے جمعیة علماء ہند سے باقاعدہ وابستہ ہیں، ایک سال مدینہ منورہ میں بھی قیام کرچکے ہیں، ۱۹۶۳/ میں جمعیة علماء ہند کے جنرل سیکریٹری و ناظم عمومی بنے اور ۱۹۶۸/ میں راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے اور پھرکئی سیشنوں میں ممبر چنے گئے۔ ۱۹۷۰/ میں یوپی پردیش کانگریس کمیٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے، ۱۹۶۸/ سے سینٹرل حج کمیٹی کے بھی رُکن ہیں، ۷۰-۱۹۷۱/ میں اُس کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، ۱۹۷۱/ میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رُکن منتخب ہوئے تھے، ناردرن ریلوے کی زونل کمیٹی کے رُکن اور وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ اور وزارت اطلاعات ونشریات کی پارلیمانی مشاورتی کمیٹیوں کے ممبر بنتے رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے عالم کی ایک بین الاقوامی تنظیم جامعة الازہر (قاہرہ) کی مجمع البحوث الاسلامیہ کے رُکن ہیں اور گزشتہ کچھ سالوں تک پابندی سے اس میں شرکت کرتے رہے۔ برما، ملیشیا، جنوبی افریقہ، مصر، عراق، لیبیا، لبنان، کویت، شام، کینیا، زامبیا، ماریشش، جزائر ری یونین، برطانیہ، بحرین، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک کا سفر کرچکے ہیں، اور وہاں آپ کے ہی ذریعہ جمعیة علماء ہند کا تعارف ہوا ہے۔

الغرض مولانا کی پوری زندگی قوم و ملت کی خدمت میں ہی گزری ہے، وہ سیاست کے گلیارے میں بھی اِسی لئے گئے، تاکہ ملت کا فائدہ ہو، ملت کی آواز موٴثر آواز میں پہنچائی جائے، ملی مسائل حل کرنے میں مدد ملے، چنانچہ اُن کے پارلیمانی بیانات اور کئی ایک حصولیابیاں اس کی گواہ ہیں۔ جمعیة علماء ہند کی تعمیر و ترقی، اُس کو فعال و متحرک بنانا، ملی مسائل کو جمعیة کے پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوشش کرنا، دوسری ملی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا، مسلمانوں میں دینی، عصری تعلیم عام کرنا، مسلم اقتصادیات کا استحکام، مسلمانانِ ہند میں حوصلہ و اعتماد پیداکرنا، ناگہانی حادثات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اُن کی مدد کرنا اور اِن جیسے کئی ملی ورفاہی کام تو اُن کی زندگی کا مشن تھے، اِسی میں انھوں نے اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ صرف کیا ہے۔

اِن زرّیں خدمات کے پیش نظر ہماری تمنا ہے کہ خدائے تعالیٰ اُن کا سایہ تا دیر قائم رکھے۔ بقول غالب (ترمیم کی معذرت کے ساتھ)

وہ سلامت رہیں ہزار برس

ہر برس کے دن ہوں پچاس ہزار

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد: 90 ‏،محرم1427 ہجری مطابق فروری2006ء

Related Posts