دفاع سیرت طیبہ

ام المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح اور مستشرقین کی افتراپردازی

(۲/۲)

از: مولانا اشرف عباس قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

امام بغویؒ اور قرطبیؒ کی رائے

            امام بغویؒ نے اس تفسیر کو تحریر کرنے کے بعد لکھا ہے: وہذا ہو الأولیٰ والألیق بحال الأنبیاء وہو مطاق التلاوة․ ”انبیاء علیہم السلام کے حال کے زیادہ لائق اور مناسب ہے اور یہی آیت قرآنی کے مطابق ہے۔“ (معالم التنزیل ۳/۵۳۲)

            امام قرطبیؒ نے اس قول کو اختیار کرتے ہوئے اسی کو محقق مفسرین اور علماء راسخین کا قول قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: قال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی جہة الأدب والوصیة اتق اللّٰہ فی قولک وأمسک علیک زوجک وہو یعلم أنہ سیفارقہا ویتزوجہا، وہذا ہو الذي أخفی فی نفسہ، ولم یرد أن یأمرہ بالطلاق لما علم أنہ سیتزوجہا، وخشي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یلحقہ قول من الناس في أن یتزوج زینب بعد زید، وہو مولاہ، وقد أمرہ بطلاقہا، فعاتبہ اللّٰہ تعالیٰ علی ہٰذا القدر من أن خشی الناس في شيء قد أباحہ اللّٰہ لہ، بأن قال: أمسک مع علمہ بأنہ یطلق، وأعلمہ أن اللّٰہ احق بالخشیة، أي في کل حال، قال علماوٴنا رحمة اللّٰہ علیہم: وہذا القول أحسن ما قیل في تأویل ہٰذہ الآیة، وہو الذي علیہ أہل التحقیق من المفسرین والعلماء الراسخین کالزہری والقاضي بکر بن العلاء القشیري، والقاضي ابي بکر ابن العربي وغیرہم․ (تفسیر القرطبی ۱۴/۱۲۳)

            ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ سے (جب انھوں نے زینبؓ کی شکایت کرکے طلاق کا ارادہ کیا) تربیت اور نصیحت کے طورپر فرمایا اپنی اس بات میں اللہ سے ڈرو اوراپنی بیوی کو طلاق مت دو؛ حالاں کہ آپ کو معلوم تھا کہ زید انھیں چھوڑدیں گے اور وہ آپ کی زوجیت میں آئیں گی، یہی وہ امر ہے جس کو آپ نے اپنے دل میں مخفی رکھا اورآپ نے انھیں طلاق کا حکم نہیں دیا جب آپ کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان سے آپ کا نکاح ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرتھا کہ لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوجائیں گی کہ آپ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا ہے جو آپ کے متبنّیٰ زید کی زوجیت میں تھیں اور آپ ہی نے انھیں طلاق کا حکم دیا تھا، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی مقدارپر عتاب ہوگیا کہ ایک ایسے امر کے سلسلے میں آپ کو لوگوں کا ڈر ہوا جس کو اللہ پاک نے آپ کے لیے مباح قرار دیا ہے کہ آپ نے امسک ”طلاق مت دو“ فرمادیا حالاں کہ آپ کو معلوم تھا کہ زید ان سے علاحدگی اختیار کرہی لیں گے اور اللہ پاک نے آپ کو بتلایا کہ ہر حال میں اللہ ہی اس کا سزاوار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ ہمارے علماء رحمہم اللہ نے فرمایا: اس آیت کی تفسیر میں یہ سب سے بہتر قول ہے اور محقق مفسرین وعلماء راسخین مثلاً زہری، قاضی بکر بن علاء قشیری، قاضی ابوبکر بن العربی وغیرہم کا بھی یہی قول ہے۔“

            حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ تعالیٰ (آخر میں) ظاہر کرنے والا تھا۔ (مراد اس سے نکاح ہے حضرت زینبؓ سے درصورت تطلیق زید کے، جس کو حق تعالیٰ نے زوجناکہا میں قولاً اور خود نکاح واقع کردینے سے فعلاً ظاہر فرمایا) (بیان القرآن ۸۲۷ تاج پبلشرز)

دلائل عقلیہ سے الزامات کی تردید

            (۱) اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں حضرت زینبؓ کی محبت اسی طرح اثرانداز ہوگئی ہوتی جیساکہ مستشرقین اور مفترین کہتے ہیں، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید کو اللہ سے ڈرنے اور طلاق سے باز رہنے کی تلقین نہ کرتے اورنہ اس کا انتظار کرتے کہ حضرت زید اپنا معاملہ آپ کے پاس لائیں؛ بلکہ اسی وقت جو آپ پر یہ کیفیت طاری ہوئی، حضرت زیدؓ کو خود ہی طلاق کا حکم دیتے۔

             (۲) بعض مستشرقین کا الزام ہے کہ صرف حضرت زینبؓ سے نکاح کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ آیت نعوذ باللہ آپ نے خود گڑھ لی تھی، تو سوال یہ ہے کہ آپ ایسا حکم یا ایسی آیت کیوں وضع کرتے جس میں خود آپ پر عتاب ہے اور آپ کو تنبیہ کی گئی ہے؛ حالاں کہ آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے متبعین ہمیشہ اس آیت کی بھی تلاوت کریں گے، اگر آیت آپ کی طرف سے ہوتی تو کم از کم وہ حصہ تو ضرور شامل نہ ہوتا جس میں خود آپ کو فہمائش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ لوگوں کے ڈر سے کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے؛ اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتی تھیں:

            لو کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کامناً شیئًا من الوحی لکتم ہذہ الآیة (واذ تقول للذي أنعم اللّٰہ علیہ وأنعمت علیہ) (سنن الترمذی، حدیث نمبر:۳۲۰۸)

            ”اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی کسی چیز کو چھپانا ہوتا تو اس آیت واذ تقول الخ کو چھپاتے۔“

            گویا ایک ایسی آیت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور بہ احسن وجوہ اداء امانت کی دلیل ہے، اسی کو مستشرقین نے آپ کی شخصیت پر طعن کا ذریعہ بنالیا ہے۔

            (۳) مخالفین نے جن روایات کو بنیاد بناکر افسانہ سازی کی ہے، ان سب روایات کی تفصیل ایک دوسرے سے کئی صورتوں میں مختلف ہے، کچھ روایات میں مذکور ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیمار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تیمارداری کے لیے ان کے گھر تشریف لائے؛ جب کہ دیگر روایات یہ بتاتی ہیں کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا گھر پر اکیلی تھیں اور ان کا سر ننگا تھا جب کہ دوسری روایات کے مطابق انھوں نے جلدی میں کپڑا لیا؛ جب کہ دوسری میں وہ نعوذ باللہ بالکل کپڑوں کے بغیر تھیں جب کہ دوسری طرف یہ روایات حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بھی بالکل مختلف تفصیل بیان کرتی ہیں جن میں سے کچھ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سلوک کی شکایت کرتے ہیں اور کسی میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کی بنیاد پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور انھیں اس صورت میں اپنی بیوی سے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ ان روایات کا باہمی تضاد ان کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔“ (وقار اکبر چیمہ، اقرأ، ڈاٹ کام)

             (۴) مستشرقین کے افتراء کی پوری عمارت اس بیانیے پر ہے کہ اچانک حضرت زینبؓ پر آپ کی نظر پڑی اور آپ نعوذ باللہ مفتون ہوگئے، تو کیا حضرت زینبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غیرمعروف تھیں اور کیا آپ نے اس سے پہلے انھیں نہیں دیکھا تھا کہ اس موقع پر آپ اچانک دیکھ کر بے قابوہوگئے؟ سب جانتے ہیں اور مستشرقین کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ حضرت زینبؓ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قریب کی رشتہ داری تھی ، وہ آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی اور آپ کے گھر کی نواسی ہیں۔ وہ آپ کے سامنے پلی بڑھی اور جوان ہوئی ہیں اور قرابت اور ماحول کے اعتبار سے اس سے پہلے بھی نظر پڑتی رہی ہوگی۔ اس لحاظ سے وہ نہ تو آپ کے لیے کوئی نادر خاتون ہیں اورنہ غیرمعروف؛ لہٰذا عمر کے اس مرحلے میں نظر پڑتے ہی بے قابو ہوجانے کا الزام بھی محض اتہام اور حقیقت سے بعید تر ہے۔

            (۵) اگر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حسن وجمال فریفتہ کیے ہوئے تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے نکاح کا پیغام کیوں نہیں دیا جو بہ آسانی مکمل اعزاز کے ساتھ منظور ہوسکتا تھا۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ آپ زینبؓ کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے کررہے ہیں؛ حالاں کہ خود حضرت زینبؓ ابتداء ً اس پر راضی نہیں تھیں اور حضرت زیدؓ کو بھی ہم آہنگی نہیں ہوسکی۔

            (۶) اگر اس نکاح کا وہی پس منظر ہوتا جو مستشرقین بہ زعم خود باور کرانا چاہ رہے ہیں، تو کیا منافقین ومخالفین جو ہر وقت ٹوہ میں رہتے تھے، اس کو موضوع بحث نہ بناتے اس لیے کہ اس طرح کی صورت حال معاشرتی اقدار وروایات کے خلاف تو ضرور تھی؛ لیکن ان کی مخالفت کا پورا زور صرف منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح پر ہے کسی اور پہلو پر نہیں۔ اس سے صاف واضح ہے کہ یہ بعد کے لوگوں کی ایجاد اور من گھڑت بات ہے۔

            (۷) چند سوالات: ہم علی سبیل التنزل مان لیتے ہیں کہ مستشرقین نے مقاتل اور ابن اسحاق کی جس روایت کو لے کر بات کا بتنگڑ بنارکھا ہے وہ کسی درجے میں صحیح ہے تو بھی اس روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا عمل مستشرقین کے اعتبار سے قابل گرفت ہے اِسے بھی واضح کیا جانا چاہیے؟

            کیا آپ کا یہ عمل قابل گرفت ہے کہ اچانک آپ کی نظر حضرت زینبؓ پر پڑگئی اور آپ نے دل میں میلان محسوس کیا؟ کیا آپ بشر بلکہ افضل البشرنہیں ہیں۔

            یا آپ کا یہ عمل قابل اعتراض ہے کہ آپ حضرت زینبؓ کے پاس ٹھہرنے اور اندر جانے کے بجائے سبحان اللہ مقلب القلوب کہتے ہوئے واپس لوٹ آئے؟

            یا آپ کایہ عمل لائق مواخذہ ہے کہ آپ نے حضرت زیدؓ کو ادئیگی حقوق اور طلاق سے باز رہنے کی تاکید کی۔

            یا آپ کا یہ عمل غلط ہے کہ تنگ آکر جب حضرت زیدؓ نے طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے شریعت کے مطابق باضابطہ نکاح ہوا؟

            یا آپ کا یہ عمل ناروا ہے کہ آیت پاک کو جس میں آپ پر عتاب کا ذکر ہے، آپ نے من وعن امت کے سامنے پیش کردیا؟

            اگر ان میں سے کوئی عمل غلط نہیں اور واقعی نہیں ہے تو اس سے یقینا مستشرقین کا سفسطہ اور خبث باطن خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے۔

بعض مستشرقین کا اعتراف حقیقت

            ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کے مسئلے میں اکثر مستشرقین نے طعن والزام کی ہی راہ اختیار کی ہے۔ جیساکہ عرض کیاگیا اور اس کو کارل بروکلمان، جرجی زیدان اور بعض دوسرے معاصر عرب قلم کاروں نے خوب ہوا دینے کی کوشش کی ہے؛ لیکن حیرت انگیز طور پر مشہور مستشرق منٹگمری واٹ نے حقیقت پسندی سے کام لیا ہے اور تمام مستشرقین ومخالفین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے؛ چنانچہ اس نے اپنی کتاب ”محمد فی المدینہ“ میں لکھا ہے: آخذوا ینمّقون القصص حول علاقاتہ بالنساء أو حبہ من النظرة الأولی لزینب“ (محمد فی المدینہ،ص۵۰۲) ”یہ لوگ عورتوں کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تعلقات یا پہلی ہی نگاہ میں زینبؓ کی محبت میں گرفتار ہونے کے تعلق سے کہانیاں بنانے لگے ہیں۔“

            اس کے بعد منٹگمری واٹ نے اپنی دانست اور تجزیے کے اعتبار سے اس نکاح کے چار اسباب بیان کیے ہیں:

            پہلا سبب یہ تھا کہ اس کے ذریعے عرب کی ایک قدیم روایت اور غلط رواج کا خاتمہ کردیا جائے اور واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے۔ اس کی مطلقہ سے نکاح درست ہے اور قرآن سے اشارہ ملتا ہے کہ ابتدا میں محمد رائے عامہ کی ناپسندیدگی کے اندیشے سے زینب سے نکاح نہیں کرنا چاہتے تھے پھر انھیں معلوم ہوا کہ یہ نکاح ضروری ہے۔ اللہ پاک نے طے کردیا ہے۔ (محمد فی المدینہ، ص۵۰۲)

            دوسرا سبب یہ تھا کہ زینبؓ بنت جحش کا تعلق مکہ کے قبیلہٴ عبدشمس سے تھا، جس کی اپنی ایک حیثیت تھی، اس نکاح کا مقصد اس قبیلے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا بھی تھا (محمد فی المدینہ، ص۴۳۰)

            تیسرا سبب یہ ذکر کیا ہے کہ اس نکاح کا سیاسی مقصد بھی تھا کہ زینبؓ کا قبیلہ ابوسفیان کے والد کا حلیف تھا اور ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح سے قبل ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ سے نکاح کیا تھا۔ اور ابوسفیان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک بڑی فوجی مہم کی قیادت کررہے تھے۔ (تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ زینب سے نکاح کرکے کسی حد تک ابوسفیان کی عداوت کم کی جائے) (محمد فی المدینہ، ص۵۰۴)

            چوتھا سبب یہ بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا احساس تھا کہ زینبؓ حضرت زیدؓ سے ملول خاطر ہوگئی ہیں اور اب آپ ہی اس لائق ہیں کہ ان سے نکاح کرکے ان کی اشک شوئی کریں۔ (محمدفی المدینہ، ص۵۰۵)

            منٹگمری واٹ نے اپنی بحث کو اس مدلل تجزیے پر ختم کیا ہے:

            وبالرغم من القصص العاطفیة، من البعید أن یکون محمد قرأُسر بمفاتن زینب السجدیة․․ ولکن زینب حسین تزوجت محمدًا کانت في الخامسة والثلاثین من عمرہا وہي سن متقدمة بالنسبة للعربیة․ (محمد فی المدینة، منتجري واط، ترجمہ: شعبان برکات، ص۵۰۵-۵۰۶)

            ”جذباتی کہانیوں کے باوجود یہ دور کی کوڑی ہے کہ محمد، زینبؓ کی جسمانی کشش پر مفتون ہوگئے تھے۔ زینب کا جس وقت محمد سے نکاح ہوا ہے وہ ۳۵ سال کی تھیں اور یہ عربی خاتون کے اعتبار سے بڑھی ہوئی عمر ہے۔“

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts