حرف آغاز

(ایک حکومت سے، ایک مسلمانوں سے)

محمد سلمان بجنوری

            ہمارا ملک اس وقت جس صورت حال سے گزررہا ہے، اس نے بجا طورپر ملک کے خیرخواہوں اور تمام سنجیدہ لوگوں کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے، ایک طرف تو بڑے زور وشور سے آزادی کی پچھتّرویں سال گرہ منائی گئی جس کی تقریبات مہینوں پہلے سے جاری تھیں اور مہینوں بعد تک جاری رہیں گی۔ دوسری طرف آزادی کی تحریک میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ قربانیاں دینے والی؛ بلکہ بہت سے محاذوں پر قیادت کرنے والی، ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے کارناموں پر سیاہ قلم پھیرنے کی کوششیں جاری ہیں اور مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن سے مسلمانوں کے لیے اس ملک کی زمین تنگ ہو، اُن کا حوصلہ پست ہو اورآہستہ آہستہ وہ دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہ جائیں۔

            گزشتہ چند ماہ کے واقعات پر سرسری نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ بڑی چابک دستی سے کسی خفیہ ایجنڈے پر عمل کیا جارہا ہے اور پروپیگنڈے کی اس دنیا میں میڈیا کا سہارا لے کر اپنی شبیہ بگڑنے سے بچانے کے لیے بھی مسلسل کام ہورہا ہے، جس میں بڑی حد تک کامیابی بھی مل رہی ہے؛ حالانکہ اندرونی طورپر جو حالات ہیں وہ کسی حکومت اور انتظامیہ کی شبیہ بگاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ خاص طور سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے واقعات پر حکومت کا رویہ اور مسلمانوں سے متعلق معاملات میں قانون وانصاف کے الگ پیمانے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو اس ملک میں اپنے ایمانی وجود برقرار رکھنے میں کھڑی کی جانے والی مشکلات، یہ وہ چند اجمالی اشارات ہیں جن کی تفصیلات بے شمار واقعات کی شکل میں پورے ملک میں سامنے آچکی ہیں اور آتی جارہی ہیں۔

            ان حالات میں نہایت اختصار کے ساتھ دوباتیں کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے: پہلی بات کا تعلق حکومت ہند سے اور اس کو چلانے والے ذہن سے ہے اور وہ یہ کہ جو طرز حکمرانی آپ نے سوچ رکھا ہے اور جس پر آپ ملک کو لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے جو وسائل آپ استعمال کررہے ہیں، وہ سب ہوسکتا ہے آپ کی تسکین خاطر کا ذریعہ بن جائیں اور ایک خاص طبقہ کا اقتدار مستحکم ہونے میں مددگار ہوں؛ لیکن ملک کا اُن سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ اس ملک کا؛ بلکہ کسی بھی ملک کا مفاد اس میں ہوتا ہے کہ وہاں پوری ایمان داری سے عدل و انصاف کا نظام نافذ ہو اور وہاں کے تمام باشندے مطمئن ہوں، ملک کے کسی خاص طبقہ کو غیرمطمئن کرنا اور اس کے لیے جان بوجھ کر مشکلات پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

            دوسری بات کا تعلق اہل ایمان سے ہے اور وہ یہ کہ موجودہ حالات ہمیں اپنے اندر تبدیلی کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی بگاڑ کو دور کرنا چاہیے، غفلت دور کرکے اپنی اور اپنی نسلوں کی اصلاح کے لیے فکرمند ہونا چاہیے، جائز ذرائع آمدنی پر محنت کرکے معاشی مضبوطی حاصل کرنی چاہیے، سودی قرض سے پوری طرح پیچھا چھڑانا چاہیے، غیرضروری اخراجات پر روک لگاکر بچت کا مزاج بنانا چاہیے، شادی بیاہ کو آسان بنانا چاہیے، بچوں کی نگرانی اور ان کو بری صحبت سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے، نشہ اور جوا سٹا، مسلم معاشرے سے پوری طرح ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، آپس کے اختلاف کو کم سے کم سطح پر لانا یا بالکل ختم کردینا چاہیے۔ اپنے معاملات کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی عادت بنانی چاہیے، حتی الامکان پولیس کیس اور عدالتوں کے چکر سے دور رہنا چاہیے، اپنے تعلیمی نظام کو مضبوط بنانا چاہیے، مدارس کے علاوہ اسکول، کالج اور لڑکیوں کے لیے باپردہ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ اپنی خامیاں خود دور کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔

            ان تمام باتوں کے ساتھ یہ بات ہر وقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارا اصل وجود ایمانی وجود ہے، ہمیں اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کی اور اس کے تمام تقاضوں اور تفصیلات کی حفاظت کے ساتھ ہی اس ملک میں رہنا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور یہ حق ہمارے تمام حقوق سے بڑھ کر ہے اور یہ حق ہمیں قدرت نے بھی دیا ہے اور ہمارے ملک کے آئین نے بھی اس کو تسلیم کیاہے، اس لیے اس باب میں کسی خوف ومایوسی یا سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts