از: مفتی احمد عبیداللہ یاسر قاسمی

خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

            ہجری تقویم (کیلنڈر) وہ واحد تقویم ہے جو اسلامی روش پر قائم اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور اسلامی ادوار میں اس کا تعامل رہا ہے، عرصہ دراز تک امت مسلمہ ہجری(اسلامی)تقویم کو اپنے مراسلات، دستاویزات اور روزہ مرہ کی زندگی میں جاری رکھے ہوئے تھی اور اس کی برکات سے بہرہ ور ہورہی تھی؛مگر افسوس صد افسوس آج یہ تقویم خال خال نظر آتی ہے یا یوں کہیے کہ اس کو گنے چنے افراد نے قابل استعمال سمجھا ہوا ہے؛کیاخواص کیا عوام،کیا اساتذہ کیا طلبہ،کیا دانشمند کیا جاہل،ہر کوئی اس سے بے نیاز نظر آتا ہے!

            اسے اپنوں کی بے حسی کہیے یا اغیار کی منصوبہ بندی،اپنوں کے ترک استعمال کی خامی کہیے یا اسلام دشمن عناصر کی طویل سازش کی کارستانی،غرض جو بھی ہو نقصان اس قدر ہوا ہے کہ اس کی تلافی جلد ممکن نہیں۔

            چنانچہ عصر حاضر میں امت مسلمہ اس تقویم سے نابلد و نا آشنا نظر آتی ہے؛اگرکچھ واقفیت اور آشنائی ہو بھی؛ تو اس کے استعمال سے گریزاں ہیں حتی کہ بعض لوگ واقفیت کے باوجود بھی اس تقویم کو لکھنا اور اس کا استعمال کرنا عار سمجھتے ہیں۔

            افسوس صد افسوس! مرور ایام نے قوم مسلم کو کہاں سے کہاں لا کر کھڑا کردیا!مسلمانوں کی ذہنی غلامی پر کس قدر افسوس کیا جائے؟کیا کہا جائے؟کیا قلم وقرطاس کے سپرد کیا جائے؟ایک وہ لڑکا جو مسلم گھرانے میں آنکھیں کھولتا ہے،پیدائش پر جس کے کانوں میں اذان و اقامت کے کلمات کی صدائیں دی گئی ہوں؛مگر جب وہی بچہ پھلتا اور پھولتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اسلامی اقدار و افکار، شعائرو امتیازات، اسلامی تہذیب و تمدن سے اس قدر غافل ہے کہ اسے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے دوسرے شعائر کے ساتھ اسلامی مہینوں کے نام اور دن تک یادنہیں ہوتے؛ جب کہ اس کے برعکس عیسوی کیلنڈر کے اصول اور اس کے تواریخ ازبر ہوتے ہیں؛ ہاں!یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے موجودہ دور میں عیسوی کیلنڈر کو پذیرائی حاصل ہے مختلف ممالک؛بلکہ ہر ہر علاقے میں اس کا ہی چال چلن ہے حکومتی سطح پراس کو عروج حاصل ہے،بحث اس سے نہیں کہ شریعت میں عیسوی تقویم کا استعمال جائزہے یا نا جائز؛بات یہ ہے کہ شریعت نے جب ہماری تقویم کی ضرورت کوپورا کردیا اور دیگر اقوام کی تقاویم سے عمدہ اور بہترین کیلنڈر ہمیں عطا کیاتو کیوں ہم اس کے استعمال سے کوسوں دور ہیں؟ کیوں ہجری تقویم کے ہوتے ہوئے بھی اس کا استعمال ترک کیے ہوئے ہیں؟

            بات صرف اسلامی تقویم تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ مغربیت کے طوفان بلا خیز کے سامنے امت مسلمہ پوری طرح غرقاب ہے،قوم مسلم مغربی استعمار اور مغربی ذہنیت کی حامل ہوچکی ہے؛کیا تہذیب و تمدن؟کیا تعلیم و تعلّم؟کیا ذاتی زندگی کے مراحل اورکیا سیاسی مصالح؟قوم مسلم مغرب کی طرف سے ہر میدان میں دینی فکری تہذیبی ثقافتی عسکری یلغار کی زد میں ہے؛ ہاں جو لوگ اس سے علیحدہ ہیں شاید وہ عنقاء (گنے چنے)ہیں۔

            علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا:

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتہٴ تسبیح شیخ

بتکدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ

ہجری تقویم پر عمل کی آسان صورتیں

            آج شعار اسلام کے تحفظ کے تحت ہجری تقویم کے سلسلے میں ہم پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس کی حفاظت کریں اور اس کی ترویج و اشاعت کو لازمی سمجھیں جس کے لیے یہ ممکنہ صورتوں پر عمل ضروری ہے:

            (۱)       اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسلامی کیلنڈر کا بکثرت استعمال کریں۔

            (۲)       اسلامی کیلنڈر کے حساب سے اپنی ضروریات مرتب کریں۔

            (۳)       اسلامی کیلنڈر کے مہینے اور اس کے ایام کے نام کو زبان زد کریں۔

            (۴)       جہاں جہاں ہجری تاریخ کا استعمال ممکن ہو وہاں ضرور اس کا استعمال کریں۔ جیسے تنخواہ کا حساب اور گھریلو مسائل وغیرہ۔

            (۵)       علماء و خطباء کی ذمہ داری ہے کہ نسل نو کے سامنے اسلامی تقویم کا پس منظر اور خصائص و امتیازات اس طرح بیان کریں کہ نسل کو احساس ذمہ داری ہو۔

            (۶)        علماء اور طلبہ بالخصوص اس ہجری تقویم کو لازمی سمجھ کر استعمال کریں تاریخ کی حفاظت امت پر فرض علی الکفایہ ہے۔

            تقویم (اسلامی تاریخ)کی حفاظت امت مسلمہ پر فرض علی الکفایہ ہے؛ چنانچہ حضرت حکیم الأمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر”بیان القرآن“ میں رقمطراز ہیں: ”․․․ البتہ چوں کہ احکام شرعیہ کامدار حساب ِقمری پرہے؛اس لیے اس کی حفاظت ”فرض علی الکفایہ“ہے، پس اگرساری امت دوسری اصطلاح کواپنا معمول بنالیوے، جس سے حساب ِقمری ضائع ہوجاوے ؛ (تو)سب گنہگار ہوں گے اوراگر وہ محفوظ رہے تودوسرے حساب کااستعمال بھی مباح ہے؛ لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اورحساب ِقمری کابرتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابُدَّ افضل واحسن ہے۔“(بیان القرآن)

            اور مفتی اعظم مولانا محمدشفیع دیوبندیؒ لکھتے ہیں:

            ” اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے؛ بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ ، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں توقمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے؛ مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے۔ شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے؛ تاکہ رمضان او رحج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینہ معلوم نہ ہو، فقہا نے قمری حساب باقی رکھنے کومسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ ہاں! اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء او رسنت رسول ﷺ اور خلفائے راشدین میں قمری حساب استعمال کیاگیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت وثواب ہے اورشمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا“۔

            حاصل یہ کہ مسلمان اگر دنیا میں بحیثیت قوم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اس صورت حال کی سنگینی کو محسوس کر نا ہوگا اور موجودہ حالات کی تبدیلی کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا، ایمان و یقین کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے جذبہٴ قربانی کو پروان چڑھانا ہوگا،ہجری تقویم کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا،ملت اسلامیہ میں اس کو رائج کرنا ہوگا،شکوک و شبہات کا ازالہ کرکے اس کے امتیازات اور خصائص پر بحث کرنی ہوگی اور مکمل شرح صدر کے ساتھ اس تقویم کو اپنانا ہوگا تب جاکر اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور اچھے اثرات و برکات امت مسلمہ سے وابستہ رہیں گے۔

            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی تشخصات اور امتیازات کی حفاظت کے ساتھ دین مستقیم کے ساتھ تادم حیات وابستہ رکھے اور امت مسلمہ کو صحیح دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts