از: مفتی محمد راشد ڈَسکوی

دارالافتاء جامع مسجد اشتیاق، ڈسکہ، سیالکوٹ

            جس چیز کا حقیقت میں کوئی وجود نہ ہو، اس کا وجود؛ یاجس چیز میں خاص تاثیر نہ ہو، اس میں خاص تاثیر کا اعتقاد رکھنا توہم پرستی کہلاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ”توہم پرستی“ کا مطلب خوف یا جہالت کی وجہ سے غیر عقلی عقائد پر یقین رکھنا ہے۔جیسے: عوام الناس میں پتھروں اور ستاروں کے موٴثر ہونے کااعتقاد مشہور ہے، اسی کو توہم پرستی کہتے ہیں۔

 توہم پرستی کے نقصانات

            # توہم پرستی حق کے قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے،وہ اس طرح کہ حق وباطل میں فرق کرنے والی چیز قرآن وحدیث کی تعلیمات ہیں،جب کہ توہم پرست آدمی مادی نفع کی چیزوں کو حق وباطل کے پرکھنے کا معیار بناتا ہے۔لہٰذا جس چیز میں اسے نفع نظر آتا ہے،وہ اس کے نزدیک حق اور درست ،اور جس چیز میں اُسے نقصان محسوس ہوتا ہے،وہ اس کے نزدیک باطل اورغلط ہوتی ہے۔

            # توہم پرستی اور بدشگونی جیسے عقائد کے حامل افراد کچھ چیزوں، واقعات یا علامات کو اپنے لیے مبارک گرداننے لگ جاتے ہیں اور کچھ کو نقصان دہ یا منحوس۔

            # توہم پرست لوگ منفی خیالات کا شکار ہو کر اپنی خوشیاں اور سکون برباد کرلیتے ہیں اور بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں۔

 توہم پرستی کی وجوہات

            اگرچہ اسلام میں توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعا گنجائش نہیں؛ مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد اِس مرض کا شکار نظر آتی ہے۔ مسلمانوں میں توہم پرستی کی ایک ( 1) وجہ تو کم علمی اور دینی اَحکام سے ناواقفیت ہے اور دوسری (2)بڑی وجہ ایک لمبا زمانہ برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں اور ہندووٴں کا ایک ساتھ رہنا تھا ، ہندووٴں میں توہم پرستی حد درجہ عام ہے ، مثلاً:

            # نومولود کو نظربد سے بچانے کے لیے پیشانی پر کاجل (سرمہ)کا نشان لگانا۔

            # شام کے وقت جھاڑو لگانے سے گریز کرنا کہ اس سے دولت کم ہوگی۔

            # مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھی خبر کی آمد سے مشروط کرنا۔

            # چارپائی پر بیٹھے ہوئے ٹانگیں لٹکی ہونے کی حالت میں ہلانے سے دولت کا ہاتھ سے نکل جانا۔

            # پیاز یا چھری سرہانے رکھنے سے برے خوابوں سے نجات ملنا۔

            # کالی بلّی کا راستہ کاٹنا۔

            # ٹوٹے ہوئے آئینے میں چہرہ دیکھنا۔

            # دودھ کا اُبل کر برتن سے باہر گر جانا ۔

            # مغرب کے بعد گھر کی ساری بتیاں جلا دینا ، ورنہ بد روحیں آجانے کا ذہن رکھنا۔

            # خالی قینچی چلانے سے قطع تعلقی ہو جانا۔

            # کانچ کا ٹوٹنا۔

            # بلی یا کتے کا رونا نحوست اور بے برکتی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔

            # منڈیر پر کوا بیٹھا تو مہمان آنے کا خیال رکھنا۔

            # چھینک آئی تو کوئی یاد کررہا ہے۔

            # دائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت آئے گی، بائیں میں ہے تو جائے گی۔

            # جھاڑو سیدھاکھڑا کرنا یا عصربعد جھاڑو دینے کو نحوست خیال کرنا ۔وغیرہ ہندو معاشرے کے عام توہمات ہیں۔

            موجودہ سائنسی دور میں بھی،جہاں ہر واقعہ اور نظریے کے دلائل اور حقائق تلاش کیے جاتے ہیں، دنیا کی مادی اعتبار سے ترقی یافتہ اَقوام میں بھی توہم پرستی عام ہے۔مثلاً:

            # ”اسپین “میں منگل کے دن مہینے کی ۱۳/تاریخ ہو تو اسے قومی طور پر بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

            # ”چائنا“ میں ۸ کا ہندسہ مبارک اور ۴کا ہندسہ منحوس خیال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ عمارت کی چوتھی منزل تعمیر نہیں کرتے۔

            # ”آئرلینڈ “ میں دلہنیں اپنے لباس یا زیورات میں چھوٹی گھنٹی ضرور استعمال کرتی ہیں جسے خوش قِسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

            # ”روس“ میں خالی بالٹی کہیں لے جانے کو بُرا شگون سمجھا جاتا ہے۔

            # ”فن لینڈ“ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر مکڑی کو مارا جائے تو اگلے دن بارش ہوگی۔

            # ”پرتگال“ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ الٹا چلنے سے برائی ہمارا راستہ دیکھ لیتی ہے۔

            # ”مصر “ میں خالی قینچی چلانے کو بُرا سمجھا جاتا ہے؛ کیوں کہ اس سے ہوا میں موجود بد روحیں کٹ جاتی ہیں جس کے باعث ان کو غصہ آجاتا ہے۔

            # ”سوئٹزرلینڈ“ اور ”نیدرلینڈ“ کے لوگ شادی کے بعد گھر کے باہر صنوبر کا درخت لگاتے ہیں کہ یہ ان کے ازدواجی تعلقات میں مضبوطی ڈالے گا۔

            # ”برطانیہ“ میں چیونٹیوں کی آمد بُرے موسم اور اُن کا قطار میں چلنا بارش ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

            # ”مغرب“ میں سفید مرغی نظر آنا رحمت جب کہ سیاہ مرغی کو شیطان کی روح گمان کیا جاتاہے۔

توہم پرستی کے عام ہونے میں میڈیا کا کردار

            معاشرے میں جتنی زیادہ توہم پرستی عام ہے اس میں بہت بڑا کردار ہمارے میڈیا یعنی: ذرائع ابلاغ کاہے، ذرائع ابلاغ (یعنی: میڈیا) میں اخبار، کتاب، رسائل وجرائد اور ٹیلی فون، موبائل، ٹیلیوژن، اور انٹرنیٹ وغیرہ سب کچھ شامل ہیں، میڈیا کے نشر کردہ بہت سے پروگرامز ، بچوں کے لیے ڈراوٴنے ڈرامے، فلمیں وکارٹونز، اور اسی طرح ڈراوٴنی جن بھوتوں کی کہانیاں وغیرہ توہمات کو سچ ہوتا دکھا کر لوگوں کے ذہنوں میں بے معنی خیالات، یعنی: توہمات کو پختہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات، میگزین اور دیگر رسائل میں آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں ، یا آج کا دن کیسا گزرے گا ، وغیرہ جیسی خرافات ایک تسلسل کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ہیں، جسے تعلیم یافتہ طبقہ بھی بڑے تیقن اور دِل چسپی سے پڑھتا ہے؛ جب کہ اسلام ہمیں ایسا کچھ پوچھنے کے لیے نجومی کے پاس جانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ آپ کبھی کچھ وقت نکال کر سرچ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان آسٹرولوجیکل فن کی بنیاد یونانی عقائد ہیں جو سیکڑوں خیالی فلسفوں پر مبنی ہیں، جن کا اِسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔

توہمات سے متعلق شرعی اَحکام

            دین ِ اسلام میں توہمات کو سختی سے رد کیا گیا ہے، قبل اَز اِسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار ہوتے تھے۔

            # عرب معاشرے کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے،

            # گھروں میں دروازے کے بجائے پچھلی دیوار توڑ کر داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے تھے۔

            # آپ ﷺ کے لختِ جگرحضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج کو گرہن ہواتھا، کچھ لوگوں نے وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرمادیا۔

            غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ توہمات پر یقین رکھنا درحقیقت ”تقدیر پر یقین “کا رد ہے۔ کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خَالِق نہیں ہوسکتے سوائے اللہ کے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ (النساء:۷۹) ترجمہ: ”تجھے جو بھلائی (یا فائدہ) پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور تجھے جو برائی(یا نقصان) پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے (یعنی: تیرے ہی شامت اعمال کے سبب)ہے“۔

            # حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ”مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَةُ مِنْ حَاجَةٍ فَقَدْ أَشْرَکَ“، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا کَفَّارَةُ ذٰلِکَ؟، قَال: ”أَنْ یَقُولَ أَحَدُہُمْ: اَللّٰہُمَّ لاَ خَیْرَ إِلاَّ خَیْرُکَ وَلاَ طَیْرَ إِلاَّ طَیْرُکَ، وَلاَ إِلٰہَ غَیْرُکَ“․ (المسند لأحمد بن حنبل ، الرقم: ۵۰۴۵) مفہومی ترجمہ: بدفالی لینا جس شخص کو اُس کے کسی کام سے روک دے تو اُس نے شرک کیا، لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! (اگر کوئی ایسا کر بیٹھا ہے) تو اس کا کفارہ کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ شخص اس طرح دعا کرے کہ اے اللہ! آپ کی طرف سے پہنچنے والا خیر ہی اصل خیر ہے، اور آپ کی طرف سے پہنچنے والی بُرائی ہی بُراشگون ہے، اور اے اللہ! آپ کے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں ہے۔

            ”طیرہ“ بدشگونی اور بدفالی کو کہتے ہیں کہ انسان کسی چیز کے بارے میں بد گمانی اختیار کرے اور اس بدفالی کاتصور لے لے،زمانہٴ جاہلیت میں اِس کا بڑا رواج تھا،لوگ معمولی باتوں سے بد شگونی لیاکرتے تھے، اگر انھیں کہیں جانا ہوتا تو پرندہ کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب کو اڑتا ہواجاتا تو اچھا سمجھتے اور اگر وہ بائیں رخ پر اڑتا تو اپنے سفر کرنے کونامناسب تصور کرکے اُس سفر سے گریز کرتے ،اسی طرح تیروں سے فال نکالتے اور خیر و شر کے فیصلے کرتے ۔

            حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگردل میں کوئی براشگون پیداہوتومذکورہ دعاپڑھ لینی چاہیے۔علاوہ ازیں ایسی صورت میں درج ذیل دعابھی پڑھی جاسکتی ہے۔”اللَّہُمَّ لاَ یَأْتِيْ بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ یَدْفَعُ السَّیِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِکَ“․ (سنن أبيداؤد، الرقم: ۳۹۱۹)

            # سرکار دوعالم ﷺ نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علی الاعلان ارشاد فرما دیا: ”لاَ عَدْوَی، وَلاَ طِیَرَةَ ، وَلاَ ہَامَةَ ، وَلاَ صَفَرَ“․ (صحیح البخاري، الرقم: ۵۷۰۷)کہ (اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ،بدشگونی لینا، ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) ، اور ماہِ صفر (میں نحوست کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔

            # حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا: ”الطِّیَرَةُ شِرْکٌ، الطِّیَرَةُ شرکٌ، الطِّیَرَةُ شِرْکٌ، ومَا مِنَّا إِلَّا، وَلٰکِنّ اللّٰہ یُذْہِبُہ بِالتَّوکُّلِ“․ (السنن لأبي داوٴد، الرقم:۳۹۱۵ )مفہوم: ”بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نہ کوئی وہم) ہوجاتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے“۔

             بد شگونی کے معنی ہیں: بد فالی اور نحوست، اللہ کے علاوہ کسی چیز کو نفع اور نقصان میں موثر بالذات سمجھنا شرک ہے؛ چونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں اور اعمال سے بد فالی لیتے تھے اور اس کو نحوست میں موثر سمجھتے تھے؛ اس لیے احادیث میں بد شگونی کو شرک قرار دیا گیا ہے ۔

            # توہم پستی جیسے برے خیالات سے بچنے والے کے لیے حضرت ابن عباسؓ کی حدیث میں ہے کہ میری امت کے ستّرہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ (عن ابن عباس أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: یَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِيْ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَیْرِ حِسَابٍ، ہُمُ الَّذِینَ لاَ یَسْتَرْقُونَ، وَلاَ یَتَطَیَّرُونَ، وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ“․ صحیح البخاري، الرقم: ۶۴۷۲)

توہمات کی اَقسام

            ہمارے معاشرے میں مختلف اَفراد میں مختلف چیزوں کے بارے میں مختلف توہمات ونظریات قائم ہیں، اور اُنھیں حیات ِ انسانی میں بہت ہی زیادہ موٴثر سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ شریعت کی تعلیمات کے سراسرمتصادم ہیں، ہماری زندگیوں میں موٴثر ہونے والی چند چیزوں کی کچھ تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

اَسباب کو ہی موٴثر حقیقی سمجھنا

            انسانی طبقات اَسباب کے میدان میں دو انتہاوٴں پر ہیں: ایک طبقہ اَسباب کا انکار ہی کر دیتا ہے اور اَسباب اختیار کرنے کو توکل کے منافی سمجھتا ہے، اور دوسرا طبقہ اَسباب کو ہی موٴثر حقیقی سمجھتے ہوئے یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اور ہورہا ہے وہ اَسباب سے ہی ہو رہا ہے، اور اَسباب کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔

            پہلا طبقہ؛ (جس میں زیادہ تر دین سے وابستہ لوگ ہی نظر آتے ہیں) کم عقلی اور بے علمی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں؛ لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اَعمال کے ذریعے ہی اللہ سے لیں گے، اَسباب کے ذریعے نہیں۔

            دوسری طرف ؛ دوسرا طبقہ جواَسباب کو ہی موٴثر حقیقی سمجھے ہوئے ہے، اور دین، ایمان ویقین اور اعمال کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتا، اور مادی محنت یعنی ظاہری اَسباب کو ہی اپنے ضروریات کے پورا ہونے اور اپنے مسائل کے حل کرنے میں موٴثر سمجھتا ہے، وہ بھی صرطِ مستقیم پر نہیں ہے، یہ بھی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے؛ کیونکہ ظاہری اَسباب تو کسی بھی چیز کے حاصل ہونے کا فقط ایک ظاہری ذریعہ ہوتے ہیں، جیسے: گھروں میں پانی جن نلوں کے ذریعہ پہنچتا ہے،وہ نل پانی پہنچانے کے صرف راستے ہیں،پانی کے حصول میں اُن کا ذاتی کوئی دخل نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح چیزوں کے حصول میں اصل موٴثر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔جو کسی ظاہری سبب کی محتاج نہیں ہے؛ چنانچہ وہ ذات بعض اَوقات بغیر اَسباب کے بھی کسی چیز کے وجودکا مشاہدہ کروا دیتی ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ عامةالناس کو توکل کے حصول کے لیے ظاہری اَسباب اور تدابیرکو چھوڑنا درست نہیں؛ بلکہ َاسباب کے نتائج کو اسباب پر موقوف نہ سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھنا ،یہ توکل ہے۔ توکل کے دو درجے ہیں، اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اسباب کو چھوڑکر اللہ پر مکمل اعتماد کیا جائے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب کو اختیار کرے؛ لیکن نفع ونقصان کا یقین اللہ کی ذات پر رہے۔ پہلا درجہ خواص کے لیے اور دوسرا عوام کے لیے ہے۔

            اس بحث کے خلاصے کے طور پر اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اَسباب کا اختیار کرنا اور اُنھیں استعمال کرنا اور ایک ہے اُن اَسباب کو دل میں اتارنا اور اُن پر ہی یقین رکھنا، پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے۔ ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم اِن اَسباب کی محبت اور یقین کو دل سے نکالیں اور اِس کے برعکس ”یقین“ اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے، وہ چاہے تو اَسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو اِن اَسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے، وہ اِس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے؛ البتہ ! ہم اِس ”دارالاسباب“ میں اَسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں؛ تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اُٹھ جائے۔ اِس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں ہیں؛ لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں! بالخصوص جب کہ اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہوں اور یہ غیروں کے اَموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہے، تو یاد رکھیں ! اِس طرح کے لوگوں کو شریعت اِس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی؛ بلکہ سیرتِ نبوی ﷺ اور سیرتِ صحابہؓ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے۔

اَسباب کی اَقسام

            اَسباب کی تین قسمیں ہیں، (۱)۔قطعی ویقینی اَسباب، (۲)۔ ظنی اَسباب، (۳)۔ وہمی اَسباب۔

            ۱- قطعی ویقینی اَسباب، وہ ہیں جن پر مسبَّب کا مرتب ہونا یقینی ہے، جیسے بھوک کے وقت کھانا کھانا، پیاس کے وقت پانی پینا، سردی سے تحفظ کے لیے گرم لباس پہننا، اِن اَسباب کا اختیار کرنا فرض ہے اور موت کا خوف ہو تواِن کا ترک کرنا حرام ہے۔اِن اَسباب کا اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے؛ البتہ یہاں بھی یہ واضح ہے کہ اِن اَسباب کو اختیار تو لازمی کریں گے؛ لیکن اِن کے موٴثرِ حقیقی ہونے کا یقین رکھنا جائز نہیں ہو گا۔

            ۲- ظنی اَسباب،جیسے بیماریوں کی دوا، جائز دم اور تعویذکہ حصول شفاء کے لیے اِنھیں ظنِ غالب کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اِن کا حکم یہ ہے کہ ہم جیسے کمزوروں کو اِن اَسباب کا ترک کرنا بھی درست نہیں؛ البتہ جو حضرات قوتِ ایمانی اور قوتِ توکل میں مضبوط ہوں اُن کے لیے اِن اَسباب کا ترک جائز ہے۔

            ۳- وہمی اَسباب۔(یعنی جن کے اختیار کرنے میں شک ہو کہ مفید ہوں گے یا نہیں) حصولِ توکل کے لیے اِن کا ترک کرنالازمی ہے ، گو بعض صورتوں میں اِن اَسباب کا اختیار کرناجائز ہے، جیسے: مختلف قسم کے کڑے، منکے اور پتھر وغیرہ باندھنا۔

جھاڑ پھونک ، دم درود اور تعویذ کا حکم

            واضح رہے کہ جس طرح بیماری کی صورت میں دوائی کا استعمال جائز ہے ،اسی طرح تعویذ اور دم بھی جائز ہے اور یہ محض ایک طریقہٴ علاج ہے اور اس کے جواز پر اجماع ہے؛البتہ تعویز اور دم کے لیے تین شرطوں کا پایا جانا لازمی ہے، اگر وہ تین شرطیں نہ ہوں تو پھر اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں،وہ شرطیں یہ ہیں:

            ۱- تعویذات کے الفاظ قرآن کریم ، یا احادیث سے لیے گئے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات میں سے ہوں۔

            ۲- عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی عجمی زبان میں ہوں تو اس کے الفاظ کے معانی معلوم ہوں۔

            ۳- دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں خود کوئی تاثیر نہیں، بلکہ موٴثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔تعویذ کے جواز پر کئی احادیث شاہد ہیں۔

            حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ مسلم شریف کی شرح ”تکملة فتح الملہم“ (۴/۳۱۷، ۳۱۸) میں لکھتے ہیں: ”دم کے بارے میں اصل یہ ہے کہ قرآن کریم، یا اللہ تعالی کے اسماء مبارکہ، یاصفات مبارکہ پڑھ کر مریض پردم کیاجائے اور یہ جناب رسول اللہ ﷺسے کئی احادیث سے ثابت ہے اور تعویذ ات لکھنا اور اس کو بچوں یا بیماروں کے گلے میں ڈالنا یا لکھ کر پانی میں گھول کرمریض کو پلانا، کئی صحابہٴ کرام اور تابعین کرام سے ثابت ہے․․․․․ اور احادیث مبارکہ میں جن دموں اور تعویذات سے منع کیا گیا ہے ، وہ مشرکین کے دم تھے، جن میں شیطان سے مدد لیا کرتے تھے اور وہ دم جن میں شرکیہ کلمات نہ ہوں، وہ جائز ہیں اور کئی احادیث سے ثابت ہیں اور یہی حال حرام”تمائم “(وہ ڈوری، جسے مشرکین موٴثر بالذات سمجھ کر بچوں کے گلے میں نظربد سے بچانے کے لیے ڈالتے تھے)کا ہے اور ان حرام تمائم کا آیات قرآنیہ اور اسماء باری تعالی پر مشتمل تعویذات سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ تعویذات جمہور علمائے کرام کے نزدیک جائز ہیں۔

            اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی مرض کے لیے تعویذات کا استعمال اَسباب کے درجے میں جائز ہے، بشرطیکہ شرکیہ کلمات پر مشتمل نہ ہوں اور اس کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے ۔

مختلف پتھروں کو موٴثر حقیقی سمجھنا

            بعض لوگ مختلف قسم کے پتھروں،جیسے: فیروزہ،زمرد اور یاقوت وغیرہ کو اپنی زندگی پراثر انداز سمجھتے ہیں،اور ان پتھروں کی انگوٹھی بنا کر پہنتے بھی ہیں،تو شرعاًاس کی کوئی حقیقت نہیں۔

ستاروں اور سیاروں کو موٴثر حقیقی سمجھنا

            بعض لوگ چاند،سورج،ستاروں اور مختلف سیاروں کو اپنی قسمت پر اثر انداز سمجھتے ہیں،اور ان کی گردش کے ذریعے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کے لیے نجومیوں کے پاس جاتے ہیں۔ یہ بھی درست نہیں؛کیونکہ علم نجوم قیاسات،اندازے اور تخمینے پر مشتمل ہے،اس میں کوئی یقینی بات نہیں ہوتی،نیزاحادیث میں نجومیوں کے پاس جانے سے بھی منع فرمایا گیا ہے؛چنانچہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے: ”مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَیْء ٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاةٌ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً“ (صحیح مسلم، الرقم: ۲۲۳۰)جوشخص عراف(نجومی)کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو اُس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔مذکورہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ بعض اخبارات میں آج کا دن کیسا گزرے گا،یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟ اس طرح کے عنوان سے جو باتیں لکھی جاتی ہیں، شریعت میں اُن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کے فتنوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts