از: مولاناعبدالمتین

مدیر مدرسہ دارارقم لیاری،کراچی

            اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرما کر اس میں خیر و شر کے جذبات بھی پیدا فرمائے؛ تاکہ اس بات کی آزمائش کی جائے کہ انسان اپنے کون سے جذبے کو استعمال میں لاتا ہے اور ان پر کتنا قابو پاتا ہے۔

            ان جذبات میں ایک اہم جذبہ ”غصہ“ ہے۔فرماتے ہیں انسان میں دو عادتیں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں: (۱) پیٹ کی خواہشات، (۲) غصے کے جذبات۔قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

            اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِیْ السَّرَّاءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ․

            وہ لوگ جو تنگی اور خوشی میں خرچ کرتے ہیں اور وہ جو غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

            مذکورہ آیت میں غصے کے گھونٹ کو پی کر معاف کرنے کا رویّہ اختیار کرنے والے لوگوں کو اللہ رب العزت اپنا پسندیدہ بندہ قرار دے رہے ہیں۔امام غزالیفرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کو ہر طرح کے گھونٹ میں غصے کا گھونٹ پی جانا بہت پسند ہے۔(احیاء ُ العلوم)

            نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک صحابی مختصر نصیحت کی درخواست کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں لَاتَغْضَبْ غصہ مت کر! آپ چاہتے تو نماز، روزہ ،زکوٰة اورذکر کے حوالے سے کوئی نصیحت کرتے؛ لیکن ان تمام کے بجائے غصے سے بچنے کی جو نصیحت کی اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ غصہ فقط ایک معاملہ نہیں؛بلکہ غصہ اپنے اندر بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے؛ اسی لیے علمائے صوفیہ اسے ام الامراض کا نام بھی دیتے ہیں۔ سیدنا محمد بن جعفرؒفرماتے ہیں غصہ ہر برائی کی چابی ہے۔ (احیائُالعلوم) کیوں کہ ایک ایسا مرض ہے جو بہت سی برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے بھی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں،مثلاً :غصہ اس شخص کو زیادہ آتا ہے جو تکبّر خود بڑائی کے مغالطے میں مبتلا ہو۔ کوئی شخص کسی کو اپنے برابر یا اپنے سے بہتر سمجھ کر کبھی بھی اس پر غصہ نہیں کرتا۔

             غصہ کی وجہ سے جنم لینے والی برائیاں تو بہت زیادہ ہیں جن میں گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا اور مجبور ہونے کی صورت میں غیبت جیسی بیماریاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔

            ہمارے ہاں غصے کو ایک ہوشیاری اور مہارت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً :یہ کہنا کہ مجھ سے ہر بات برداشت نہیں ہوتی، میں تو صاف منہ پر سنادیتا ہوں، میں لحاظ وغیرہ نہیں کرتا، میٹر گھوم جاتا ہے میرا، میری کھوپڑی گرم ہے، وغیرہ۔ یہ سب جملے استعمال کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بہت بڑی بات کررہے ہیں؛ حالاں کہ یہ سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں اور وہ ایسے بہانہ باز جملوں کے ذریعے ہمیں غصے میں لاکر اپنے آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا اور ہمارے متعلقین کا نقصان ہوجاتا ہے۔

            غصہ صرف ایک عارضی حالت کا نام نہیں؛ بلکہ یہ بیماری شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ امام غزالیؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں غصے کے وقت صورت بگڑ کر بھیانک بن جاتی ہے، ایسی صورت بنتی ہے جیسے کاٹنے والا کتا اور انسان اپنے مقام سے گر کر خونخوار درندہ بن جاتا ہے؛ جب کہ جو لوگ اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں ان کی صورت علماء، اولیاء اور صالحین سے ملتی ہے۔(احیاء ُالعلوم)

            غصے میں انسان عقل مندی سے کم عقلی کا سفر پل بھر میں طے کرلیتا ہے۔اسے پتابھی نہیں چلتا جب کہ اس کی عقل کام نہیں کررہی ہوتی ہے۔انصار کا قول ہے کہ گرم مزاجی بے وقوفی اور کم عقلی کی بنیادی اکائی ہے اور غصہ اس بنیاد کی رہنمائی کرتا ہے گویا غصہ بے وقوفی کے سفر کو ایک رہنما کی طرح طے کرانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

            حسن بصریفرماتے ہیں کہ ”جب تو غصہ کرتا ہے تو اچھلتا ہے، قریب ہے کہ تو کہیں چھلانگ نہ لگادے اور یہ چھلانگ تجھے سیدھا جہنم میں پہنچا دے۔“

            حضرت سلیمان بن داؤد علیہ الصلوٰة والسلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بیٹا! زیادہ غصہ بردبار آدمی کو ہلکا کردیتا ہے۔“ (احیاء ُ العلوم)

            معلوم ہوا کہ غصہ انسان کی شخصیت میں فقط ضد، جہالت، انا پرستی کا ذریعہ بنتا ہے۔

            ذیل میں غصے کے علاج کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہیں:

            وہ غصہ جو ہمارے مزاج کا مستقل حصہ بن جائے، اس کے پیچھے کچھ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق غصہ ایک ردِ عمل ہے جس کے اسباب میں ایک اہم سبب خوف کی کیفیت ہے اور خوف ہمیشہ نااہلی کی بنا پر پیدا ہوتا ہے،مثلاً :ایک شخص اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ گھر میں کیسے جاؤں؟قرضے کیسے ادا کروں؟ گھر میں جاؤں گا تو بے سکون ہوجاؤں گا؛ کیوں کہ بیوی ذمہ داریاں پورا نہ ہونے کے سبب سوال پر سوال کرے گی، بچوں کی فیس، علاج کا خرچ، گھر کا راشن تو وہ اپنی نااہلی کے سبب ایک خوف میں مبتلا رہے گا اور جب بھی اس کی بیوی مذکورہ کوئی بھی سوال اٹھائے گی تو وہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے اور اپنے گھیرے جانے کے خوف سے غصہ کرے گا، جھگڑے گا وغیرہ۔ایسی صورت میں غصہ کا علاج اپنی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

            غصہ کا ایک سبب خود ساختہ تصورات میں مثلاً خاندان، قبیلہ، رنگ، نسل کی وجہ سے ایک بلاوجہ کی بڑائی کا شکار ہوجانے سے غلط فہمی میں خود کو افضل سمجھنا، کسی کی معمولی بدسلوکی پر اپنی پہچان جتا کر غصہ کرنا۔ غصے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ غصہ انسانی خواہشات اور جذبات کا لازمی جز ہے؛لہٰذا غصے کے علاج کے حوالے سے جو بھی علاج ذکر کیا جائے گا،وہ غصے کو قابو کرنے کے طریقے ہوں گے نہ کہ ختم کرنے کے۔

            رسول اکرمﷺکا مبارک ارشاد ہے:

                                                لَیْسَ الشَّدِیْدِ بِالصُّرْعَةِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَالْغَضَب․

            ترجمہ:پہلوان وہ نہیں ہے جو ایک ہی وار میں مقابل کو گرادے؛ بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو عین غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔

            دل اس بات کا شدّت سے تقاضا کررہا ہو کہ اس کو کھری کھری سناؤں، تھپڑ رسید کروں، گالیاں دوں، اپنی بھڑاس نکال دوں،گھر والوں پر چیخ چیخ کر اپنی بڑائی جتاؤں، غرض اپنے ہاتھ پیر یا زبان کے استعمال سے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور مجھے بظاہر کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں۔ٹھیک ایسی حالت کے دوران اپنے آپ پر قابو کرنا اور نظرانداز اور درگزر سے کام لینا یہ واقعی بہت بڑے پہلوان سے بھی بڑھ کر طاقت ور بننے والی بات ہے۔

            غصے کے علاج کے طور پر کچھ طریقے ہیں جو مستقل علاج کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں حضرت تھانویایک طریقہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غصہ میں مبتلا شخص اپنے عیوب پر ہر حال میں نظر رکھے، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنے والا شخص ہمیشہ عاجزی اور اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہے گا اور اسے یہ فکر کبھی بھی اپنے مخاطب پر چڑھائی کرنے سے روکتی رہے گی ان شاء اللہ!!

            مزید حضرت ایک تجربے کی بات ارشاد فرماتے ہیں کہ ”غصہ قابو کرنا ہمیشہ مفید رہا ہے اور غصے کے تقاضے پر عمل کرنا ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔“

            یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے غصہ نہ کرکے شرمندگی اٹھائی ہو؛ بلکہ ایسا شخص ہمیشہ اپنے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرے گا اور ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے غصہ کرکے افسوس اور شرمندگی نہ اٹھائی ہو، اس کا اندازہ معاشرے میں پھیلے بہت سے معاملات سے لگایا جاسکتا ہے۔مثلاً کاش میں اس موقع پر اپنا ہاتھ روک لیتا، کاش میری زبان گونگی ہوجاتی، میں اپنی زبان سے فلاں جملہ نہ کہتا، الغرض بہت سے تعلقات لین دین، رشتے، برادریاں، خاندان اس غصے کی عارضی کیفیت کی نذر ہوجاتے ہیں۔

            طلاق کی شرح تیزی سے بڑھنے میں ”غصہ“ کا بہت بڑا حصہ ہے۔تقریباً مرد حضرات غصے کی عین حالت میں معمولی تُو تُو مَیں مَیں کو طلاق کی نوبت تک پہنچا دیتے ہیں اور اکثریت بعد میں یہ کہتی پھرتی ہے کہ ہم نے غصے میں ایسا کیا ہے،اب ہم شرمندہ ہیں اور ہمیں کوئی طریقہ بتایا جائے؛تاکہ ہم اپنی شریکِ حیات کو دوبارہ لاسکیں؛ لیکن :

اب پچھتاوے کیا ہوت ہے،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

            غصے کو قابو کرنے کا ایک مفید علاج یہ بھی ہے کہ غصے کے دوران عذابِ الٰہی اور اللہ کی قدرت کو ذہن میں دہرائے جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت صدیق اکبرؓاپنے ایک غلام کو ڈانٹ رہے تھے تو آپ نے صدیق اکبرؓسے کہا: لَلّٰہُ أقْدَرُعَلَیْکَ مِنْکَ علیہ اللہ تم پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے جتنا تم اپنے اس غلام پر رکھتے ہو۔ یعنی ہم جس پر غصہ کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں۔وہ درحقیقت ہمارا اختیار ہوتا ہے،جسے ہم استعمال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر اختیار رب کوا پنے اس بندے پر ہے؛لہٰذا ہم اگر اللہ سے معافی، درگزر، لحاظ، جھوٹ اور رعایت کو پسند رکھتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ بھی اپنے رویّے میں اس چیز کو پسند رکھیں۔

            ایک اہم علاج یہ ہے کہ غصہ جس جگہ آرہا ہے،وہاں سے فوری اتنا دور ہٹ جائیں کہ وہ شخص ہمیں نظر نہ آئے۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ غصے کا اصل سبب انسان کے جسم میں موجود حرارت کے مادّے ہیں اورحرارت کا سبب حرکت ہے،جتنی حرکت ہوگی یعنی جتنا زیادہ بولے گا، جواب دے گا، جتنا ہاتھ اٹھائے گا، جتنا سوچے گا، انتقام کے جذبے کے سبب حرکت بڑھتی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنی جگہ بدل کر سکون میں آئے گا اور ایسی حرکات سے پرہیز کرے گا تو حرارت کم ہوگی،جس کے نتیجے میں غصے کے جذبات بھی کم ہوں گے، جس کے لیے علما مختلف مختصر علاج تجویز کرتے ہیں۔

            مثلاً تکرار سے بچنا، جواب الجواب سے پرہیز کرنا، اس موقع پر کمرہ، گھر، دفتر یا اس مخصوص جگہ سے اتنی دور جانا کہ وہ شخص نظر نہ آئے اورگفتگو کا موضوع بدل جائے۔وضوکرلینا، پانی پی لینا، تعوّذ پڑھ لینا وغیرہ۔

            یہ سب تجاویز جسم میں موجود اس حرارت کو مزید حرکت دینے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔الغرض !غصہ آجائے تو اسے نظر انداز کرے اور اس موقع پر کوئی بھی چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور غصے کو خود پر حاوی ہونے نہ دے، جس کی مثال ماہرین یوں بتاتے ہیں کہ جیسے خواب میں مجھے کوئی شخص گولی ماردے اور میں بے بس ہو کر تکلیف میں مبتلا ہوجاؤں تو اس موقع پر اس تکلیف سے بچنے کا سبب آسان طریقہ یہی ہے کہ بے دارہوجائے،جس کے بعد اس کی سب تکالیف ختم ہوجائیں گی۔

            ایسے ہی غصہ ایک کیفیت ہے جس سے باہر نکل جانے کی صورت میں وہ کیفیت یکسر ختم ہوجاتی ہے۔

            ایک اہم بات یہ ہے کہ غصہ کا دورانیہ ماہرین کے مطابق دسمنٹ سے زیادہ نہیں ہوتا؛ لہٰذا کسی بھی طرح ان دس منٹ کو بہلا پھسلا کر کسی غلط فیصلے سے بچالے تو اگلے طویل دورانیہ تک اس کا فائدہ محسوس ہوگا۔

روزے کی حالت میں غصہ کے نقصانات:

            روزے کی حالت میں غصہ کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں کیوں کہ پورا دن بھوک پیاس اور خواہشات سے دور رہتا ہے؛ اس لیے طبیعت میں ایک طرح کی تیزی کا آجانا لازمی ہے؛ اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیاگیا ہے۔

            یہ بھی دھیان رہے کہ ہم روزے میں جس صبر کی کیفیت سے دوچار ہیں،ہمارا ہر مسلمان مخاطب بھی روزے دار ہونے کی وجہ سے اس کیفیت میں ہوتا ہے۔

            رمضان تو صبر، برداشت، غصے کو قابو کرنے اور اپنی تربیت کی مشق کا مہینہ ہے؛ اس لیے صوم کے لغوی معنی ہی احساس کرنا ہے یعنی اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے روکنا۔

            ایک روایت میں اس تربیتی طریقہٴ کار کو آپ نے رمضان کے پہلے خطبے میں ہی یوں بیان فرمایا:

            اَلصِّیَامُ جُنَّةً وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِ کُمْ فَلَا یَرْفَثْ وَلَا یَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّہ أَحَدٌ اَوْقَا تَلہ فَلْیَقُلْ إِنِّی إمْرَؤٌ صَائِمٌ․

            ترجمہ: حدیث مبارک میں روزے کو ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے، ڈھال ایک آلہ ہے جو جنگ میں حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔ فرمایا ایسے ہی روزہ بھی روزہ دار کی حفاظت کرتا ہے بدعملی، نافرمانی، گناہ اور عذاب کے کاموں سے۔

            مزید تلقین کی کہ روزے کی حالت میں ہر طرح کی بے ہودگی سے بچاجائے؛لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ خود ٹھیک ہوتا ہے؛لیکن واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو جنگ و جدال، گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں فرمایا کہ اگر ایسے شخص کا کسی سے پالا پڑ جائے تو کہہ دو کہ ”میں روزے سے ہوں“ میں معذرت چاہتا ہوں۔

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts