حرف آغاز

محمد سلمان بجنوری

            الحمدللہ مدارس اسلامیہ رمضان المبارک کی تعطیل کے بعد، اپنے قدیم معمول کے مطابق سرگرم عمل ہوگئے ہیں اس سے پہلے ایک سال مکمل تعطل رہا اور دوسرے سال سرگرمیاں محدود رہیں، اب اللہ کی توفیق سے بغیر کسی پابندی کے، معمول کے حالات میں کام شروع کرنے کا موقع ملا ہے، اللہ تعالیٰ اس سلسلے کو مزید برکات کے ساتھ جاری وساری رکھے، آمین!

            اس موقع پر چند باتیں عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ کورونا اور اس کے بعد کے حالات نے مدارس کو بہت متاثر کیا ہے، جب کہ مدارس اسلامیہ کا اپنے اصلی کردار کے ساتھ سرگرم رہنا، ملت کی ایمانی بقاء کے لیے حددرجہ ضروری ہے۔

            سب سے زیادہ جس بات کی طرف توجہ ضروری ہے، وہ مدارس کو اپنے سابقہ معمول پر واپس لانا ہے، لاک ڈاؤن کے دوران جس طرح طلباء کی ایک قابل ذکر تعداد دینی تعلیم سے دور ہوگئی، اس کے اثرات ابھی باقی ہیں، ساتھ ہی دینی تعلیم کی طرف نئے لوگوں کی رغبت میں بھی کمی آئی ہے، جب کہ یہ بات معلوم ہے کہ دینی تعلیم میں مسلمانوں کے بچوں کا تناسب پہلے ہی بہت کم ہے، اب اگر اس میں مزید کمی واقع ہوگئی تو یہ مدارس کا نہیں، مسلمانوں کا اور ان کی نئی نسل کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی دشمنان اسلام کے نشانے پر ہے، اس وقت سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر جتنی خطرناک ایمان سوز سرگرمیاں، منصوبہ بند طریقہ سے چل رہی ہیں، ان سے مسلمان بچوں کا دین وایمان پہلے ہی سخت خطرات کا شکار ہے، اب اگر مدارس میں طلبہ کی تعداد کم ہونے کا رجحان باقی رہا تو یہ نہایت خطرناک بات ہوگی۔

            اس مقصد کے لیے طلبہ اور اُن کے سرپرستوں کی ذہن سازی کے علاوہ مدارس کے تعلیمی و تربیتی اور اقامتی نظام کو بہتر بنانا نہایت ضروری ہے۔ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جن مدارس کا نظام اچھا ہے وہاں طلبہ کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے، ظاہر ہے ہر آدمی یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو ایسے لوگوں کے حوالے کرے جو اُس کی تعلیم وتربیت کے لیے سنجیدہ ہوں اور یہ کہ اس کے بچہ کے رہنے سہنے کا انتظام صحیح ہو اس کو مناسب کھانا ملے اور اس کی صحیح نگرانی کی جائے، جس میں اس کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ کارفرما ہو اور اس کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی یا غیرضروری سختی کا معاملہ نہ ہو۔ یہ چند ضروری باتیں جو ذکر کی گئی ہیں، اگر غور کیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ انہی کی رُوسے، مدارس میں اصلاح اور بہتری لانے کی بہت کچھ ضرورت ہے جب کہ ان کے علاوہ بھی بہت سے پہلو اصلاح طلب ہیں۔

            تعلیمی نظام کا ایک اہم حصہ اساتذہ ہیں جن کا باصلاحیت وباکردار ہونا اور ذاتی زندگی میں مطمئن ہونا، نظام تعلیم وتربیت کی عمدگی کے لیے شرط ہے؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ اس پہلو سے اور زیادہ کمزوری کا شکار ہیں، مدارس میں علمی صلاحیت کی صحیح قدردانی میں کمی اور تنخواہوں کی قلت، پہلے ہی ناقابل بیان حد تک پہنچی ہوئی تھی، لاک ڈاؤن نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔ بہت سے مدارس نے اپنے اساتذہ وملازمین کو تنخواہ نہ دے پانے کی وجہ سے الگ کردیا اور کچھ مدارس نے نصف تنخواہ دینے کا سلسلہ شروع کیا، مزید یہ کہ بہت سے مدارس میں یہ صورت حال اب تک جاری ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایسے حالات میں کتنے لوگ ثابت قدم رہ سکیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سبھی مدارس اپنے نظام کو درست کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کریں۔

            ان چند داخلی امور کے علاوہ دو پہلو اور ہیں جن پر توجہ انتہائی ضروری ہے:

            (۱) مدارس میں شورائی نظام نافذ کرنا اور اس کے لیے صرف ضابطہ کی مجلس شوریٰ یا کمیٹی بنانا کافی نہیں ہے؛ بلکہ نظام کو ذاتی وشخصی رائے کے بجائے مشورے سے چلانے کا مزاج بنانا ضروری ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اکثر وبیشتر مدارس نے رجسٹریشن کے لیے درکار ایک کمیٹی بنانے پر اکتفاء کررکھا ہے، جس کے ممبران کا مدرسے عام طور پر کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور نہ وہ اکثر جگہ اس کے اہل ہوتے ہیں؛ بلکہ بہت سے مدارس میں ان ممبران کی مداخلت ہی نظام کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ ضرورت ہے کہ علماء اور سنجیدہ اصحاب رائے پر مشتمل مجلس شوریٰ بنائی جائے اور داخلی امور میں بھی مشورہ کا مزاج اپنایا جائے۔

            (۲) دوسری چیز قانونی اعتبار سے مدارس کی جائیداد اور مالیات کے نظام کو درست کرنا، اس پہلو سے جو کمزوریاں ہیں اُن کے نقصانات بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال سب کے سامنے ہے، جب ہمارے قانونی طورپر درست کام بھی نشانے پر ہوں تو قانونی سقم کے ساتھ کسی چیز کا محفوظ رہنا کتنا مشکل ہوگا۔

            یہ دوچار قابل توجہ، اصلاح طلب پہلو اس مختصر تحریر میں پیش کیے گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدار س اسلامیہ قائم کرنے میں بھی اور اُن کا نظام چلانے میں بھی شریعت اور قانون کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں اور پورے اخلاص اور دانش مندی و دوراندیشی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے سامنے حضرات اکابر دیوبند رحمہم اللہ کے روشن نمونے موجود ہیں جن کے بلند کردار کی برکت سے یہ نظام ڈیڑھ سو برس سے زائد عرصہ خیروخوبی سے گذارچکا ہے۔ آگے اس کے سفر کو محفوظ رکھنے کے لیے اسی کردار کو زندہ کرنے اور اسی قلب و جگر کو ڈھونڈ کر لانے کی ضرورت ہے۔

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts