از: مولانامحمد اجمل قاسمی

استاذ تفسیر وادب مدرسہ شاہی مراد آباد

            اسلام میں جوعبادتیں رکھی گئی ہیں ان کا اصل مقصد ان عبادتوں کے ذریعہ رب العالمین کی عظمت وکبرائی کا اقرار واعتراف اوراس کے حضور اپنی بندگی ،سرافگندی اورتواضع وعاجزی کا اظہار ہے،نماز وزکاة ہو یاروزہ وحج یہ ساری عبادتیں ان مقاصد میں مشترک ہیں،ان عمومی اورمشترکہ مقاصد کے ساتھ ان عبادتوں کے کچھ اوربھی ضمنی مقاصد ہیں جوقرآن وحدیث کے مطالعہ سے ہمارے سامنے آتے ہیں؛ چنانچہ ان عبادتوں کا ایک اہم مقصد بندوں کی دینی اورروحانی تہذیب وتربیت بھی ہے،جس طرح ہرعبادت کا انداز ،طرز عبادت اور اس کے ارکان وشرائط جداجدا ہیں ، اسی طرح ان کی تاثیریں بھی الگ الگ ہیں،جن سے الگ الگ پہلووٴں سے بندوں کی تکمیل اورتربیت ہوتی ہے۔

            چنانچہ نماز انسان کوبے حیائی اوربرے کاموں سے روکتی ہے، زکاة سے حب دنیا کا علاج ہوتاہے جوہربرائی کی جڑہے،حج اللہ کی محبت میں سرشاری اورکامل بندگی پیدا کرنے کاموثرذریعہ ہے،اورروزہ سے تقوی حاصل ہوتاہے، نفس کے وہ حیوانی شیطانی ا ورشہوانی تقاضے کمزورہوتے ہیں جوانسان کو دنیا اوردنیاکی لذتوں کی طرف کھینچتے اورفکرآخرت سے غافل کرتے ہیں، روزہ قلب وروح کی بہترین غذا اوران کی طہارت و پاکیزگی کابہترین ذریعہ ہے، روزہ سے انسان میں ذوق طاعت پیداہوتاہے،اس کامزاج فرشتوں کے مزاج سے کافی ہم آہنگ اورقریب ہوجاتاہے،فرشتے اللہ کے محبوب اورمحترم بندے ہیں، لہٰذا ان کی مشابہت اختیارکرنے والا بھی اللہ کا محبوب بن جاتاہے، روزہ انسان کوخواہشات پرکنٹرول کرنا سکھاتاہے،صبرکاعادی بناتاہے، بھوک وپیاس کا احساس دلاکر بھوکوں اورپیاسوں کے لیے ہمدردی اورخیرخواہی کے جذبات پیدا کرتاہے،غیبت وبدگوئی اورفحش وبیہودہ باتوں سے روک کراس میں بہترین اخلاق پیدا کرتاہے،روزہ اعلی درجہ کا اخلاص سکھاتاہے،روزے میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں جب تنہائی بھی ہوتی ہے، بھوک وپیاس کا شدید تقاضہ بھی ہوتاہے، اورکھانے پینے کی چیزیں بھی مہیاہوتیں،کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، صرف اللہ کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے، جس کے لحاظ اور ڈر سے بندہ بھوک پیاس پرصبرکرجاتاہے،روزہ دار کا یہی اخلاص ہے جس کی بنا پر اس کے منہ کی بواللہ کومشک کی خوشبو سے عزیز ترہے،اورکل قیامت کے دن اس کواپنے اس اخلاص کاصلہ خاص اللہ کے ہاتھوں سے ملنے والاہے، روزہ گناہوں کے معاف کرانے اورنیکیوں کا ذخیرہ جمع کرنے بہترین ذریعہ ہے، اس کے لیے بس ذرا سی توجہ اورہمت درکارہوتی ہے۔(زاد المعاد ابن القیم۱/۲۶۶)

            روزہ ہویا دوسری عبادتیں ان کے مقاصد اوران کے فوائد وثمرات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ ان کو پورے ذوق وشوق سے ان کے شرائط وآداب کے ساتھ انجام دیا جائے، اس کے بغیر مطلوبہ فوائد پوری طرح حاصل نہیں ہوتے،عبادات میں ذوق وشوق پیداکرنے کا سب سے بہترین ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ کی سیرت وعمل ہیں اوران کے شرائط وآداب جاننے کا سب سے بنیادی ذریعہ قرآن کریم اوررسول اللہ صلی اللہ کے ارشادات وفرمودات ہیں؛ اس لیے آئیے ذیل کی سطروں میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ روزے کے سب سے حسین موسم رمضان المبارک کوکس طرح گذارتے تھے، آپ کے معمولات کیا ہوتے تھے، اورآپ نے روزوں کے خیروبرکت پانے کے لیے امت کوکیا ہدایات دیں؟

عبادت وریاضت اوردعاوٴں کا غیرمعمولی اہتمام

            رسول اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمہ جہت اورہمہ گیر ہے، آپ ایک رسول تھے، داعی ومصلح تھے، حاکم وقت تھے، قاضی وفیصل تھے، قائد اورسالار لشکرتھے،آپ پر خانگی اورعائلی اورنہ جانے کون کون سی ذمہ داریاں تھیں اور آپ بیک وقت یہ ساری ذمہ داریاں اس طرح بحسن خوبی انجام دیتے تھے، کہ کہیں کوئی خلل اورکمزوری نظر نہیں آتی؛مگر ان تمام ذمہ داریوں اوراوصاف حمیدہ میں جوسب سے نمایاں اورغالب وصف ہے وہ آپ کی عبدیت و بندگی اورذوق عبادت ہے، امن ہوجنگ ہو ، رزم ہوبزم ہو، سفرہوحضرہو،خلوت ہوجلوت ہو،آپ کونمازوں کا اہتمام ملے گا، روزوں کی کثرت ملے گی،عبادت ریاضت ملے گی، ذکر ومناجات ملے گی،آہ سحرگاہی اورنالہ نیم شبی ملے گا،لمبے سجدے ملیں گے، طویل دعائیں ملیں گے، رب کے حضورعجز ونیاز ملے گا،حضور کی زندگی کے جس پہلو کو بھی چاہیں اٹھالیں، کوئی پہلوبھی عبدیت وبندگی سے خالی نہیں ملے گا۔

            جیساکہ اوپر واضح کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام زندگی میں بھی آپ کی عبدیت اورذوق عبادت کا پہلو بہت ہی نمایاں اورممتاز تھا، توپھر رمضان کے کیاکہنے! یہ تو طبع مبارک کے لیے خاص بہار ونشاط کا زمانہ تھا، ذوق عبادت اپنے عروج پر ہوتا، مشقت ریاضت بڑھ جاتی،خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا، دعاوٴں میں الحاح وزاری کی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا؛یہاں تک کہ مجاہدے کے اثر اورخوف وخشیت کے غلبے سے آپ کا رنگ بد ل جاتا ؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

                                                 ”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَآلِہِ وَسَلَّمْ إذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَیَّرَ لَونُہُ وَکُثُرَتْ صَلَاتُہُ وَابْتَہَلَ فِی الدُّعَاءِ وَأشْفَقَ مِنْہ (بیہقی شعب الایمان، رقم:۳۶۲۵)

            ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ جب رمضان داخل ہوتا توآپ کا رنگ بدل جاتا، نمازوں میں اضافہ ہوجاتا،دعاوٴں میں خوب الحاح وزاری کرتے، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا)

            رمضان میں آپ کے یہ جومختصر حالات اس حدیث میں بیان ہوئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہی شخص رمضان المبارک کی برکتوں سے صحیح طورپر فیض یاب ہوسکتاہے جسے اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی دھن لگی ہو، اس کے ایک لمحے کی قدر کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتاہو،اورآخرت کے ثواب اورجنت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اپنے راحت وآرام کوتج دیتاہو، ہمارے بزرگوں کے واقعات کتابوں میں مذکورہیں یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے رمضان میں راحت آرام اورغیر ضروری مصروفیات کوچھوڑ کرریاضت ومجاہدے کے لیے اپنے کو وقف کردیتے، اوراس کی برکتوں سے پوری طرح فیض یاب ہوتے۔

 سحری وافطاری

            دین نام ہے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کا ، جس وقت جوحکم ہوبندہ چوں چرا کے بغیر اس کے تعمیل کے لیے آمادہ رہے، روزے میں اللہ تعالی نے دن بھر کھانے پینے اورشرم گاہ کی خواہشات کوحرام قراردیاہے، طلوع فجر سے لے کرغروب آفتاب کے درمیانی وقفے میں پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے اترآئے توروزہ ٹوٹ جاتاہے، اس طرح اللہ بندوں کے جذبہ اطاعت اورصبر واستقامت کا امتحان لیتاہے؛ مگر روزہ وقت پورا ہوتے ہی افطار کو نہ صرف جائز قرار دیتاہے؛ بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے،ان پر برکت اورخیرومغفرت کے وعدے کیے ہیں،بندوں کے ضعف کی رعایت کرتے ہوئے افطاری میں جلدی اورسحری میں تاخیر کوافضل قراردیاہے؛ تاکہ روزے کا عمل ان کے لیے آسان بھی ہواورمختصر بھی ، بندہ روزہ رکھ کربھی اللہ کے الطاف وعنایات کا مورد بنتا ہے اورسحری اورافطار میں کھا پی کربھی انعام ونوازش کا مستحق قرارپاتاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً خود بھی سحری وافطاری کا اہتمام فرماتے اوردوسروں کوبھی ترغیب دیتے؛چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                                                ”تَسَحَّرُوْا فَإنَّ فِی السُّحُورِبَرَکَة“( صحیح مسلم : رقم۱۰۹۵)

            (سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہے)

            ایک دوسروی روایت میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

                                                ” أمِرْنَا اَنْ نُعَجِّلَ ِافْطَارَنَا وَنُوَخِّرَ سُحُورَنَا“ (السنن الکبری،۴/۲۳۸)

            (ہمیں اس بات کا حکم دیا گیاہے کہ ہم افطار میں جلدی کریں اورسحری میں تاخیرکریں)

            حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

                                                ”لاَیَزَالُ النَّاسُ بِخِیْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْاِفْطَارَ“ (صحیح مسلم رقم۱۰۹۸ وجامع الترمذی رقم۷۰۰)

            (لوگ جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے خیرکے ساتھ رہیں گے۔)

            ایک حدیث قدسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:

                                                ”قَالَ اللّہُ تَعَالَی أحَبُّ عِبَادِیْ إليَّ أعْجَلُہُمْ فِطرًا“(جامع الترمذی رقم۷۰۰)

            (اللہ تعالی فرماتاہے کہ میرے بندوں میں مجھے سب زیادہ محبوب وہ ہے جو افطارمیں سب سے زیادہ جلدی کرتاہو)

            سحری میں تاخیر اورافطار میں جلدی کرنے کی فضلیت میں بہت سی رواتیں وارد ہوئیں،بعض طبیعتیں حد درجہ احتیاط پسند ہوتی ہوتیں ہیں؛ مگر سحری اورافطاری میں حددرجہ احتیاط کی وجہ سے روزہ کافی لمباہوسکتاہے،جولوگوں کے لیے باعث پریشانی ہوگا؛اس لیے سحری میں تاخیر اورافطار میں جلدی کومستحب قرار دیا گیاہے؛ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ضروری احتیاط بھی چھوڑدی جائے اورآدمی سحری میں اتنی تاخیر اورافطار میں اتنی جلدی کرنے لگے کہ روزہ ہی مشکوک ہوجائے، سحری میں ایسی تاخیر اورافطار میں اتنی جلدی جس سے روزہ ہی مشکوک ہوجائے جائز نہیں ہے۔

کھجور یاپانی سے سحر وافطار

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کھجور سے سحری وافطارکرنے کی ترغیب دی ہے، اورکھجورنہ ہونے کی صورت میں پانی سے افطار کی ترغیب دی ہے، جس کی وجہ سے علماء نے کھجور اورکھجورکی عدم موجودگی میں پانی سے افطارکومسنون قراردیاہے،علامہ ابن القیم نے لکھا ہے کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکھجور اورپانی سے روزہ افطار کی ترغیب دینا درحقیقت امت پر شفقت اورہمدردی کی وجہ سے تھا؛اس لیے کہ خالی معدہ میٹھی چیز کو زیادہ قبول کرتاہے،اورجسم کواس سے اورچیزوں کی بنسبت زیادہ توانائی حاصل ہوتی ہے،رہا پانی کا استعمال تومعدہ میں دیر سے بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے خشکی پیدا ہوجاتی ہے،شروع میں تھوڑا پانی استعمال کرنے سے معدے میں تری پیدا ہوجاتی ہے،جس سے بعد میں کھائی جانی والی غذا زیادہ صحت بخش ہوجاتی ہے،یہ توجسمانی فائدہ ہوا، کھجوراورپانی کے ایک ساتھ استعمال سے کچھ ایسی خاصیت بھی پیدا ہوجاتی ہے جوقلب کے صلاح میں بھی موثرہے،اہل اللہ پر یہ تاثیر مخفی نہیں۔“(زاد المعاد:۱/۲۷۷)

            ابن القیم رحمة اللہ نے زاد المعاد میں ایک حدیث بھی نقل فرمائی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم بھی افطار میں کھجور یا پانی کا استعمال فرماتے تھے،حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

                                                ”کَانَ یُفْطِرُ صَلَّی اللَہُ عَلَی رُطَبَاتٌ قَبْلَ اَنْ یُصَلِّیَ ، فَاِنْ لَمْ تَکُنْ رُطَبَاتٌ فَتَمَرَاتٌ، فَاِنْ لَمْ یَکُنْ تَمَرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ“ (سنن ابی داوٴد رقم:۲۳۵۶ وجامع الترمذی رقم:۶۹۶)

            ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کی ادائیگی سے پہلے چند ترکھجوروں سے افطار فرماتے تھے،اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں توچند چھوہاروں سے افطار کرتے اوراگر چھوہارے بھی نہ ہوتے توآپ پانی کے چند گھونٹ نوش فرماتے۔“

            ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے صحابہ کوکھجور اورپانی کی ترغیب دیتے ہوا ارشا د فرمایا:

                                                ”إذاافطرأحدکم فَلْیُفْطِرْ علی تَمَرٍ؛ فإنَّہ  برکةٌ، فإنْ لم یَجِدْ فَلْیُفْطِرْ علی ماءٍ؛ فإنّہ طہور“ (جامع الترمذی ، رقم: ۶۵۸)

            (تم میں جب کوئی افطار کرے توکھجورسے کرے؛ اس لیے کہ کھجور میں برکت ہے،پس اگر کھجورمیسرنہ ہوتوپانی سے افطار کرلے؛ اس لیے کہ پانی نہایت پاک چیزہے)

            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

                                                ” نِعْمَ سُحُورُ المُومِنِ التَّمَرُ“(سنن أبی داوٴد، رقم:۲۳۴۵)

            (کھجور مومن کے لیے کیا بہترین سحری ہے!)

قیام اللیل اورتروایح

            انسان درحقیقت دوعنصر سے بنا ہے ، ایک اس کا حیوانی وجود ہے،جس کی وجہ سے انسان میں کھانے پینے راحت وآرام کے تقاضے اورجنسی خواہشات ہوتی ہیں، اورانسان کا ایک ملکوتی اور روحانی وجود ہے جس سے انسان میں ذوق عبادت ، طاعت وبندگی ،اللہ کے احکام کی بجاآوری اور اس کی حمد وثنا کا جذبہ پیدا ہوتاہے،حیوانی وجود انسان کو پستی کی طرف کی ڈھکیلتا ہے ،جب کہ روحانی اورملکوتی عنصر آدمی کوبلندی اوراللہ کے قرب کی طرف کھینچتاہے،روزے میں انسان کھانا پینا اورجنسی شہوتوں کو ترک کرکے اپنے حیوانی اوربہیمی عنصرکوکمزوراورروحانی وملکوتی عنصر کوصحت مند اورتوانا بناتاہے اور پھر اس پر مزید عبادتوں کا اہتمام کرکے ملکوتی وجود کوپیہم ایمانی غذا دیتاہے؛ تاکہ اس کا روحانی وجود غالب اورحیوانی وجود مغلوب ہوجائے کہ یہی انسان کی دنیوی واخروی سعادت کا ذریعہ ہے، رمضان میں مختلف عبادتوں کااہتمام کرایا جاتا ہے،جس میں ایک عبادت قیام اللیل اورتراویح کی نمازہے، رسول اللہ خودبھی قیام اللیل کا اہتمام کرتے تھے اوردوسروں کو بھی اس ترغیب بھی دیتے تھے، چنانچہ” عبادت وریاضت کے اہتمام“ کے عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ حالات گذر چکے ہیں:

            (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ تھی کہ جب رمضان داخل ہوتا توآپ کا رنگ بدل جاتا، نمازوں میں اضافہ ہوجاتا،دعاوٴں میں الحاح وزاری کرتے، خوف وخشیت کا غلبہ ہوتا)

             اس ارشاد میں یہ وضاحت ہے کہ رمضان میں آپ کی نمازیں اوردنوں کے مقابلے میں بڑھ جاتی تھیں اس سلسلے کی بعض اورروایات بھی پیش کی جاتی ہیں؛ چنانچہ حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

                                                کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یُرَغِّبُ فِي قِیامِ رَمَضَانَ مِنْ غِیرِ أنْ یَامُرَہُمْ فِیہِ بِعَزِیْمَةٍ فَیَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَاناً وَاِحْتِسَابًاغُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ رَمَضَانَ مِنْ ذَنْبِہِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّم وَالأمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الأمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِيْ خِلَافَةِ أبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَصَدْرًا مِنْ خِلافَةِ عُمَرَرَضِي اللّہُ عَنْہُ عَلَی ذَلِکَ (صحیح مسلم، رقم۷۵۹ )

            ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دیتے وجوب کا حکم نہیں، آپ فرماتے : جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھے اللہ پر ایمان رکھتے اوراس سے ثواب کی امید کرتے ہوئے تواللہ اس کے سابقہ گناہوں کا معاف کردے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہی عمل رہا، دورصدیقی اورابتداء دورفاروقی میں بھی یہی عمل رہا“

            اورایک روایت میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

                                                إنَّ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِیْ الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَیْلَةٍ، فَصَلّی بِصَلَاتِہِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلّی مِنَ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوْا مِنْ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ أوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ یَخْرُجْ إلَیہِمْ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أصْبَحَ قَالَ: قَدَ رَأیْتُ الَّذِيْ صَنَعْتُمْ ، فَلَمْ یَمْنَعْنِيْ مِنَ الْخُرُوجِ إلَیْکُمْ إلّاأنِّيْ خَشِیتُ أنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ قَالَ: وَذَلَکَ فِيْ رَمَضَانَ (صحیح مسلم، رقم:۷۶۱)

            ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی ، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر دوسری رات جب آپ نے نماز پڑھی تو مقتدی زیادہ ہوگئے ، تیسری یا چوتھی رات آپ نماز تراویح کے لیے تشریف نہ لائے، اورصبح کو فرمایا:میں نے تمہارا وہ شوق دیکھا جس کا مظاہرہ تم نے رات میں کیا، اورمیں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں (تراویح)فرض نہ کردی جائے“

            مذکورہ بالا احادیث چند باتیں معلوم ہوئیں(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سات چند رات تراویح باجماعت پڑھی، (۲) پھر جب لوگوں کا شوق دیکھا تو اس اندیشہ سے جماعت ترک کردی کہ کہیں تراویح باجماعت فرض نہ ہوجائے(۳) حضورصلی اللہ علیہ نے جماعت کا اہتمام گرچہ ترک کردیا؛ لیکن خودبھی رمضان کی راتوں میں نمازوں کثرت رکھتے تھے اورلوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ترغیب دلانے سے لوگ خود حضور کی حیات طیبہ اوراس کے بعد دورصدیقی اوردور فاروقی کے ابتدائی زمانے میں اپنے اپنے طورپر تروایح کا اہتمام کرتے تھے(۵) نماز تروایح میں انتہائی ذوق وشوق کا مظاہر ہ کیا کرتے تھے (۶) تروایح اگر اخلاص کے ساتھ اداکی جائے تواس سے عمر بھر کے گناہ (صغیرہ) معاف ہوجاتے ہیں۔

             تروایح حضورﷺ نے چند روز باجماعت پڑھائی تھی اورپھر فرض کے خوف سے ترک کردیا تھا، آپ کی وفات کے بعد فرضیت کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا؛ اس لیے حضرت عمر نے اپنے دورحکومت میں چند سالوں کے بعد اس کوحضورصلی اللہ علیہ کے ابتدائی طریقے کے مطابق باجماعت شروع کردیا، جسے صحابہ نے پسند فرمایا اوروہی طریقہ امت میں آج تک چلا آرہاہے۔

            بہر حال تروایح رمضان کا بہت اہم اورمبارک عمل ہے، اس کی ادائیگی مغفرت کا ذریعہ اورباعث اجرو ثواب ہے اوراس سے غفلت بہت بڑی محرومی کاسبب ہے۔

 تہجد کا اہتمام

            تہجدکی نماز اللہ تعالی نے بندوں کے ضعف کی رعایت کرتے ہوئے گوفرض نہیں کی ہے؛ مگر اس کے فضائل اوراس کا ثواب بہت زیادہ ہے اورنفس کی سرکشی کا دورکرنے میں اس کا بڑا اہم کردار ہے ،احادیث میں اس نماز کی بڑی تاکید واردہوئی ہیں،خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بڑے زور دار انداز میں اس کی تاکید کی ہے،سورہ مزمل کی ابتدائی آیات اس کی تاکید وترغیب اوراہمیت فضیلت کے بیان میں وارد ہوئی ہیں،تہجد کا فائدہ بتاتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:

                                                ”اِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَاَقْوَمُ قِیْلاً“‘(المزمل:۶)

            ” بیشک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتاہے، اوربات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے“

            ( یعنی رات کواٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے سے انسان کے لیے اپنی نفسانی خواہشات پر قابوپانا آسان ہوجاتاہے، اوررات کے وقت چوں کہ شوروغل نہیں ہوتا؛ اس لیے تلاوت اوردعا ٹھیک ٹھیک اورحضورقلب کے ساتھ ادا ہوتی ہے، دن کے وقت یہ فائدے کم ہوتے ہیں)

            ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تہجد کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

                                                ”عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإنَّہُ دَأبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ“( سنن النسائی ، رقم:۳۵۴۹)

            (لوگو! رات میں اللہ کے حضور نمازوں میں کھڑے ہونے کو لازم پکڑلو؛ اس لیے کہ یہ تم سے پہلے نیکوں کا طریقہ رہاہے)

            تہجد آپ عام دنوں میں بھی پڑھتے تھے اوررمضان میں بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے؛چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

                                                ”مَاکَانَ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلَافِیْ غَیْرِہِ عَلَی أحَدَ عَشَرَةَ رَکَعَةً یُصَلِّی أرْبَعًا فَلاَتَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ، ثُمَّ یُصَلِّی أرْبَعًا فَلاتَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُوْلِہِنَّ ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلاثًا“ (صحیح البخاری، رقم۲۰۱۳)

            (رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم رمضان اوررمضان کے علاوہ میں بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،آپ چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے ،مت پوچھیے یہ چار رکعتیں کتنی اچھی اورکتنی لمبی ہوتی تھیں،پھرآپ مزید چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے ،مت پوچھیے کہ یہ چار رکعتیں کتنی اچھی اورکتنی لمبی ہوتی تھیں ، پھر آپ تین رکعتیں پڑھتے تھے)

            اس حدیث میں کل گیارہ رکعت کا ذکرہے،جس میں آٹھ رکعتیں تہجد کی ہیں،اورتین رکعتیں وترکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ کاعام معمول آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کا ہی تھا؛ مگر بعض اوقا ت آپ نے بارہ اور چاررکعت بھی ادا فرمائی ہے۔

            عام دنوں میں تہجد کی ادائیگی قدرے مشکل کام ہے، رات کے آخری پہر میں نیند گہری ہوتی ہے،ایسی گہری اورمیٹھی نیند کوقربان کرکے تہجد اداکرنا طبیعت کے لیے خاصا دشوار ہے؛مگر رمضان میں سحری کے لیے ہرکوئی بیدارہوتاہے ، تہجد اورتلاوت کا ایک ماحول ہوتاہے،لہٰذا رمضان میں تہجد کی ادائیگی بہت ہی آسان ہے، بس ذرا اس طرف توجہ کی ضرورت ہے ، یہ نماز بڑے فضائل رکھتی ہے ، کم ازکم رمضان میں ان فضائل کے حاصل کرنے کااہتمام توکرنا ہی چاہیے، افسوس کہ بہت سے لوگ اپنی ذرا سی غفلت کی وجہ سے بہت بڑے خیر سے محروم رہ جاتے ہیں۔

عشرة اخیرہ میں خصوصی اہتما م اورگھر والوں کوشب بیداری کی ترغیب

            یوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا رمضان عبادت وریاضت کے لیے وقف تھا؛مگر عشرئہ اخیرہ میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتاتھا، راتوں رات عبادت میں مشغول رہتے، گھر والوں کوبھی جگاتے اور نماز وعبادت میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتے؛چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہے:

                                                ”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ إذَا دَخَلَ الْعَشْرُ أحْیَا اللَّیلَ وَأیْقَظَ أہَلَہُ وَشَدَّ الْمِئْزَر“َ(جامع الترمذی، رقم:۷۹۵ ومسند أحمد، رقم:۱۱۰۵)

            ”جب آخری عشرہ شروع ہوتا توآپ راتوں کو عبادت سے آباد کرتے،اپنے گھر والوں عبادت کے لیے بیدار کرتے،اورکمر کس لیتے“

            (کمر کس لینے کا یہاں دومفہوم ہوسکتاہے،ایک تویہ کہ آپ بیویوں سے ملنا ملانا بھی ترک کردیتے اورہمہ وقت صرف یاد الہی میں مصروف رہتے، اوردوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ عبادت وریاضیت کے لیے حد درجہ مستعد ہوجاتے تھے)

            ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں:

                                                ”کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَجْتَہِدُ فِیْ الْعَشْرِ الَاوَخِرِ مَا لَایَجْتَہِدُ فِیْ غَیْرِہَا ( صحیح مسلم رقم ۱۱۷۵)

            ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عباد ت وغیرہ میں وہ مجاہدہ کرتے اوروہ مشقت اٹھاتے جودوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے“

            کیا ہی اچھا ہوکہ آدمی رمضان کے آخری عشرے کی برکتوں اورسعادتوں سے خود بھی زیادہ سے زیادہ حصہ پائے اوراپنے گھر والوں کوبھی اس کی ترغیب دے ،آخر دنیا کی بھلائیوں میں ہم اپنے گھر والوں کو یاد رکھتے ہی ہیں اوران کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے فکر مند رہتے ہیں،توپھر ان کی آخرت کی بھلائی کے لیے ان کے تئیں فکرمند کیوں نہ ہوں۔

قرآن کریم کی تلاوت اوراس کا سننا سنانا

            رمضان کے بابرکت مہینے کو قرآن پاک سے بڑی مناسبت ہے، قرآن پاک کی تصریح کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے اس پاکیزہ کلام کولوح محفوظ سے سب آخری آسمان پر اتارنے کے لیے اسی مبارک مہینے اوراس کی بابرکت رات شب قدر کا انتخاب فرمایا،احادیث سے بھی قرآن اور روزے میں خاص تعلق کا پتہ چلتاہے،چنانچہ وارد ہے:

                                                ”اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أيْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہْوَةَ فَشَفِّعْنِيْ فِیْہِ، وَیَقُولُ الْقُرْآنُ:مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ، فَشَفِّعْنِيْ فِیہِ، قَالَ: فَیَشْفَعَانِ (مسند احمد رقم۶۶۲۶ الطبرانی رقم۱۴۶۷۲)

            ”روزہ اورقرآن دونوں قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا،اے رب میں نے اس بندے کوکھانے اورخواہشات سے روکاہے؛ لہٰذا تواس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما،اورقرآن کہے گا میں نے اس بندے کورات میں سونے سے روکاہے(یعنی راتوں کو جاگ کر تراویح اورنفلوں میں قرآن پڑھتا تھا)لہٰذا اس کے بارے میں میری سفارش کوقبول فرما، اللہ کے رسول نے فرمایاتویہ دونوں ہی سفارش کریں گے“

             راتوں کو نوافل میں قرآن کریم کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول تھا،رمضان میں آپ کا یہ معمول مزید بڑھ جاتا تھا،پھر رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل خاص طورسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ مل کر قرآن سنتے اورسناتے تھے؛ چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہے:

                                                عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُولُ اللّہُ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ أجْوَدَ النَّاس،ِ وَکَانَ اَجْوَدََ مَایَکُونُ فِیْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہْ جِبْرِیْلُ، وَکَانَ جِبْرِیْلُ یَلْقَاہُ فِی کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ الْقُرْآنَ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیہِ السَّلَامُ أجْوَدَ بِالْخَیرِ مِن الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ(سنن النسائی، رقم:۲۰۹۴)

            ” حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کی بخشش اورخلق کی نفع رسانی میں اللہ کے سب بندوں سے فائق تھے،اوررمضان مبارک میں آپ کی یہ کریمانہ صفت اورزیادہ ترقی کرجاتی تھی،رمضان میں ہر رات جبریل امین آپ سے ملتے تھے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوقرآن مجید سناتے تھے، توجب جبریل آپ سے ملتے تھے توآپ کی اس کریمانہ نفع رسانی اورخیر کی بخشش میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہواوٴں سے بھی زیادہ تیزی آجاتی اورزور پیداہوتا“

            اس حدیث پاک سے معلو م ہواکہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نہ صرف تلاوت کرتے تھے، بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام کو قرآن سناتے بھی تھے،لہٰذا رمضان میں حفاظ کرام قرآن کے پاک سننے اورسنانے کا جواہتمام کرتے ہیں وہ دوہرے اجرکے مستحق ہوتے ہیں ، ایک اجر قرآن سننے اورسنانے کا اوردوسرا رسو ل اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کوزندہ کرنے کا؛لہٰذا اس کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔

صدقات وخیرات اورنفع رسانی کی کثرت

            رمضان مبارک میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتاہے؛لہٰذا ذکرو تلاوت دعا وتسبیح اورنماز کی کثرت واہتمام کے ساتھ اپنی بساط بھر زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں اس کی ترغیب دی ہے ، روزہ داروں کوروزہ افطارکرانے پر بڑے اجر وثواب کے وعدے کیے گئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں یوں ہی سخاوت دادودہش اورلوگوں کاحاجت روائی کا اہتمام کچھ کم نہ تھا؛ مگر رمضان میں آپ کی طبیعت پر کچھ عجیب کیف و نشاط کا عالم طاری رہتا؛چنانچہ جہاں آپ کے اوراعمال میں اضافہ ہوتا، وہیں آپ کی جود وسخا اورلوگوں کو دینی ودنیاوی فائدہ پہنچانے کا جذبہ بھی بہت بڑھ جاتا تھا جس سے ہر کوئی فیض یاب ہوتا، اوپر کی حدیث میں مذکور یہ الفاظ ایک بار پھر پڑھیے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جود وسخا اورجذبہ نفع رسانی کا کچھ انداز ہ لگائیے :

                                                ”قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّہِ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیہِ السَّلَامُ أجْوَدَ بِالْخَیرِ مِن الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ“ ( سنن النسائی، رقم:۲۰۹۴)

            ”فرمایا:جب جبریل آپ سے ملتے تھے توآپ کی اس کریمانہ نفع رسانی اورخیر کی بخشش میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہواوٴں سے بھی زیادہ تیزی آجاتی اورزور پیداہوتا“

            جس طرح بارش سے پہلے آنے والے ٹھنڈی ہواوٴں کے مست جھونکے ہر کسی کے بدن کو چھوتے اوراس کے دل کے خوش کردیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی جود وسخا کے بابرکت جھونکے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو فیضاب کرتے اوران کے لیے باعث فرحت وشادمانی بنتے ہیں؛ لہٰذا امت کے افراد کو اپنی اپنی بساط کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنی چاہیے،اورصدقہ وخیرات اورخیر کی تعلیم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کوفائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اعتکاف

            رمضان المبارک رب کریم کی عطا، اس کی داد ودہش ، اس کی عنایت خسروانہ اورالطاف کریمانہ کا موسم بہار اوراس کے عفو درگذر کوحاصل کرنے کا خاص سیزن ہے، اوراعتکاف ان عظیم سوغاتوں اورنوازشوں کے سمیٹنے کا سب سے بڑا اوراہم ذریعہ ہے،اعتکاف کیاہے؟ اعتکاف نام ہے ہرطرف سے یکسو ہو کر مولاکے گھر پڑجانے کا، اس کے در دولت کی چوکھٹ کوتھام کر اس کومنانے اوراس سے مانگنے کا اوراس کے کرم کی بارش سے اپنے دامن مراد کوبھرنے کا،دوسری ساری عبادتیں آدمی کچھ وقت تک ہی انجام دے سکتاہے،جہاں کسی اورکام میں مشغول ہواعبادت کا سلسلہ رک جاتاہے؛ لیکن اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں آدمی سوتے جاگتے ،کھاتے پیتے اوربات کرتے ہر وقت عبادت میں ہوتاہے،دوران اعتکاف کسی اورکار خیر یاعبادت میں مشغول ہوجائے توکیا کہنے! سونے پر سہاگا،نور علی نور؛ بلکہ بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آدمی اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں کے کرنے سے مجبور ہوجاتاہے اس کے نامہٴ اعمال میں اللہ کے حکم سے ان نیکیوں کا بھی ثواب لکھا جاتاہے ۔( معارف الحدیث:۴/۱۲۲)

کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف کا اہتمام کرتے اوردسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے،اعتکاف کے فضائل بہت زیادہ ہیں،کسی بھی مسلمان کواس کے محروم نہیں رہنا چاہیے ،اگر ہر رمضان میں اس کی توفیق ہوجایا کرے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا توکیا کہنے! قابل رشک ایسے لوگ؛ لیکن اگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے، توپھر کسی کسی سال تواس کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے، آدمی روزی روٹی کی خاطر سالہا سال کے لیے بیوی بچے وطن اورنہ جانے کیا کیا چھوڑ دیتاہے،جنت کے حصول اورجہنم سے نجات کے لیے چند دن کے لیے گھر چھوڑ کر مسجد میں پڑجانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے، بس ہمت اورارادے کی ضرورت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

                                                ”اِنَّ النَّبِیَّ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَالأوَاخِرَمِنْ رَمَضَانَ حَتّی تَوَفّاہُ اللّہُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہ“ِ( صحیح البخاری، رقم:۱۹۲۲)

            ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخر ی دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے ،آپ کا یہ معمول جاری رہا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کووفات دے دی ، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے (اپنے گھر کے معتکف میں) اعتکاف کے معمول کوجاری رکھا۔“

            حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

                                                ”کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلّمَ یَعْتَکِفُ کُلَّ رَمَضَانَ عَشَرَةَ اَیَّامٍ ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیہِ اِعْتَکَفَ عِشْرِیْنَ یَوماً“(صحیح البخاری ، رقم:۱۹۳۹)

             ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے،جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا“

آداب صوم کی تلقین

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت براہ راست اللہ تعالی نے خود فرمائی؛ اس لیے آپ کی فطرت اعلی اخلاق کے بہترین سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ، اللہ تعالی کا ارشادہے ”وَاِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیمٍ“ (القلم:۶۸)( اے نبی ! بلاشبہ آپ زبردست اخلاق کے حامل ہیں) رمضان توخیررمضان ہی ہے، آپ اپنی عام زندگی میں بھی بدگوئی ، غیبت، بہتان تراشی اوربیہودہ وفضول قسم کی باتوں سے ہمیشہ پاک وصاف رہے، آپ امت کو بھی ان برائیوں سے دورکھناچاہتے تھے؛چنانچہ لوگوں کوان سے آگاہ کرتے، رمضان میں خاص طور پران سے دوررہنے کی تلقین فرمائی ہے؛اس لیے کہ ان برائیوں سے پرہیز کیے بغیر روزہ ضابطے میں گوادا ہوجاتاہے؛ مگر روزے کے جو فوائد وثمرات ہیں ، اس کی جو اصل روحانی برکتیں ہیں،اوراس کے ذریعے ہمارے نفس کی جس طرح کی تربیت مقصود ہے وہ ان برائیوں سے بچے بغیر حاصل نہیں ہوتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

                                                ”اَلصِّیامُ جُنَّةٌ، فَإذَا کَانَ أحَدُکُمْ صَائمًا فَلایَرْفَثْ، وَلَایَجْہَلْ، فَإنِ امْرُوٌٴ شَاتَمَہُ أوْ قَاتَلَہُ فَلْیَقُلُ إنِّیْ صَائِمٌ“(صحیح البخاری رقم:۱۸۹۴)

            ”روزہ ( نفس اورشیطان کے حملوں سے بچاوٴ کے لیے )ڈھال ہے،اورجب تم سے کسی کا روزہ ہوتوچاہیے کہ وہ بیہودہ اورفحش باتیں نہ بکے، اورنہ حماقت ونادانی کرے اوراگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوج یاجھگڑاکرے توکہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں“ (اوریہ کہہ کر کنارہ کش ہوجائے)

            ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا:

                                                مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ، وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّہِ حَاجَةٌ فِی أنْ یَدَعَ طَعَامَہَ وَشَرَابَہُ (صحیح البخاری، رقم:۱۹۰۳)

            ”جوآدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اورباطل کام نہ چھوڑے تواللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں“

            رمضان میں حضور کے معمولات کے تعلق سے یہ چند موٹی موٹی باتیں پیش کی گئیں، اللہ تعالی ان کوسب کے لیے نافع اورمفید بنائے، اورہم سبھی کوان پر زیادہ سے زیادہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts