از: مفتی محمد راشد ڈسکوی

دار الافتاء جامع مسجد اشتیاق، ڈسکہ، سیالکوٹ

            حضرت نبی اکرم ﷺ کی گھر سے باہر کی زندگی جو سو فیصد اعلائے کلمة اللہ کے لیے کاوشوں پر مشتمل تھی، اپنوں (یعنی: اسلام قبول کر لینے والوں) اور غیروں (یعنی: غیر مسلموں ) پر دین کی محنت ، اسلامی نظام خلافت کے قیام کی ترتیب ، اندرون عرب اور بیرون اشاعت اور غلبہ اسلام کی فکر وسوچ اور ترتیب ، مسلمانوں کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کی فکر ، اور پھر اس سب کے نتیجے میں (23سال کی) نہایت ہی قلیل مدت میں ایک ایسے ماحول اور فضا کا قائم ہوناکہ جس میں ہر آنے والا اُسی رنگ میں رنگا جاتا تھا، یعنی: وہ نبی اکرم ﷺ اور دین کی خاطر تن من اور دھن قربان کردینے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کر کے چلنے والا بن جاتا تھا۔

            اور پھرنبی اکرمﷺکی یہ محنت صرف زبانی جمع و خرچ ہی نہ تھی؛بلکہ آپ ﷺنے اپنا عملی کردار ایسا جامع ومکمل امت کے سامنے پیش کیا کہ اپنے تو اپنے غیروں کو بھی اس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں مل سکتا۔ وہ کردار ایسا مکمل اور نتیجہ خیز تھا کہ من جانب اللہ قرآن مجید میں بھی آپ علیہ السلام کی مبارک زندگی کو بطور ِ نمونہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو اسی کے مطابق ڈھالنے کا قانون بنا دیا گیا۔ ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾۔(الأحزاب:۲۱)ترجمہ: فی الحقیقت تمہارے لیے رسول الله(ﷺکی ذات)میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات)ہے ۔

            غرض یہ کہ آپﷺ کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ اور افرادِ خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، آج کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے،ایک مشکل ترین بات تھی؛ لیکن آپ ﷺ کی سیرت ِمبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج مطہرات ہوں یا اولاد، خدام ہوں یا اقربا، متعلقین ہوں یا احباب، آپ ﷺ ہر ایک کے حقوق کی اتنی رعایت فرماتے تھے اور اُسے اتنی محبت اور اہمیت دیتے تھے کہ وہ سمجھتا تھا کہ شاید آپ ﷺ سب سے زیادہ محبت اُسی سے کرتے ہیں، اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے تھے۔ ہر آن آپ ﷺکو ان کے حقوق کی فکر دامن گیر رہتی تھی، اس کے نتیجے میں آپ ﷺ بیویوں کے حق میں ایک نہایت محبت کرنے والے شوہر، اولاد کے حق میں ایک شفیق ومہربان باپ ، خدام کے حق میں ایک وسیع الظرف اور حلیم و بردبار آقا ، دوست واحباب کے حق میں نہایت جانثار اور بے لوث ساتھی کی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔

            گھر سے باہر کی زندگی میں آپ ﷺ مسجد میں مصلے پر کھڑے نمازیوں کی امامت کرتے ہوئے نظر آتے تھے، تو کبھی راہنمائی طلب کرنے والوں کے لیے بہترین رہبر اور مشیر نظر آتے تھے، میدان جنگ میں نہایت دلیر ودانا سپہ سالار ہوتے تھے توقتال کی صفِ اول کے نہایت بے جگری سے لڑنے والے مجاہد بھی ہوتے تھے، آپ انصاف پسند عادل حاکم بھی تھے اور امت کی تربیت میں مشغول صاحبِ بصیرت معلم بھی تھے۔ ساری اُمت جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے اس کے لیے آپ ﷺجہاں اُمت پر محنت فرماتے تھے وہاں ہی اُن کے غم میں ہر ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی اور گڑگڑا کر دعا کرتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔اس زندگی میں آپ کی صفات میں ”دائمُ الفکرة“ اور ”متواصلُ الأَحزان“کی تعبیرملتی ہے۔

گھر کے اندر کی زندگی کا عمومی نقشہ

            لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں آپ ﷺ کسی سخت مزاج اور جھگڑالوشوہر ، باپ ، یا بھائی کے روپ میں نظر نہیں آتے؛ بلکہ بیویوں کے ساتھ انتہائی ہنس مکھ ، اُن کی دل جوئی کرنے والے، اُن میں گھل مل کر رہنے والے، گھر کے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹانے والے، اُن کے دکھ درد میں شریک ہونے والے اور ہنسی مذاق، پیار ومحبت سے زندگی بسر کرنے والے اور تمام اَزواج میں عدل وبرابری کرنے والے تھے، بچوں کے ساتھ آپ بچے ہوتے تھے، اُن کو صرف کھلانے والے ہی نہیں؛ بلکہ اُن کے ساتھ بذاتِ خود کھیلنے والے ہوتے تھے۔

            آپ ﷺاپنے گھر والوں سے نہایت شفقت سے پیش آتے، اُن کی دل جوئی فرماتے اور تمام اہل خانہ کے ساتھ یکساں سلوک فرماتے۔ آپ ﷺکی گھریلو زندگی؛ گھر سے باہر کی زندگی کی طرح تمام کیفیات سے معمور اور پُر کشش تھی۔ آپﷺسوتے بھی تھے جاگتے بھی تھے، کھاتے بھی تھے اور بھوکے بھی رہتے تھے، غرض زندگی کے جتنے بھی پہلو ہوسکتے ہیں آپﷺکی گھریلوزندگی میں بھی پائے جاتے تھے۔ آپﷺکی گھریلو زندگی میں بے اعتدالی نہیں تھی؛ بلکہ ہر چیز ایک نظام کے تحت مرتب ہوتی تھی۔

            # آپ ﷺ کے گھر ہر قسم کے تکلفات اور دنیوی جاہ وجلال ، رکھ رکھاوٴ والے ظاہری پُر تعیش اَسباب سے خالی؛ لیکن سادگی اور صفائی وستھرائی کا خوبصورت منظر پیش کرنے والے ہوتے تھے۔

گھر میں آپﷺکے اوقات کی تقسیم

            # آپ ﷺ کی گھریلو زندگی کے معمولات کی تشریح کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہٴ مجاز عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی رحمہ اللہ اپنی تصنیف ”اسوہٴ رسولِ اکرم ﷺ“ میں بحوالہ شمائل ترمذی لکھتے ہیں کہ

            حضرت حسن اپنے والد ماجد حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کا اپنے گھر میں اپنے ذاتی حوائج ( طعام و منام)کے لیے تشریف لے جانا ظاہر ہے اور آپ اس بات کے لیے منجاب اللہ ماذون ومامور تھے ۔ سو آپ اپنے گھر میں تشریف لاتے تو اپنے گھر کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے۔

            (۱)       ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے

            (۲)       ایک حصہ اپنے گھر والوں کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کے لیے ( جس میں ان سے ہنسنا بولنا شامل تھا)

            (۳)      اور ایک حصہ اپنے نفس کی راحت کے لیے ۔

            پھر اپنے حصہ کواپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے (یعنی اس میں سے بھی بہت سا وقت اُمت کے کام میں صرف فرماتے اور اِس حصہ وقت کو خاص احباب کے واسطہ سے عام لوگوں کے کام میں لگا دیتے ،یعنی: اس حصہ ٴ وقت میں عام لوگ تو نہ آ سکتے تھے؛ مگر خواص حاضر ہوتے اور دین کی باتیں سن کر عوام کو پہنچاتے، اِس طرح عام لوگ بھی اُن منافع میں شریک ہو جاتے )۔ (المعجم الکبیر للطبراني، الرقم: ۴۱۴)

            # حضرت انس نے بیان کیا : ”أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّﷺ سَأَلُوا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ  عَنْ عَمَلِہ  فِي السِّرِّ، فقَالَ بَعْضُہُمْ: لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَآءَ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: لَا آکُلُ اللَّحْمَ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: لَا أَنَامُ عَلٰی فِرَاشٍ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، فقَالَ: ”مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَالُواکَذَا وَکَذَا، لَکِنِّيْ أُصَلِّيْ، وَأَنَامُ، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ، فَلَیْسَ مِنِّيْ“․ (صحیح مسلم، الرقم: ۳۴۰۳)ترجمہ: کہ نبی اکرم ﷺ کے چند صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺ کی اَزواجِ مطہرات سے آپ ﷺ کی خفیہ عبادت کا حال پوچھا، یعنی: جو عبادت آپ ﷺ گھر میں کرتے تھے (جب گھر میں آپ کی زندگی عام معمول کے مطابق سامنے آئی تو )ایک نے ان میں سے کہا کہ میں کبھی عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ کسی نے کہا:میں کبھی گوشت نہ کھاؤں گا۔ کسی نے کہا:میں کبھی بچھونے پر نہ سوؤں گا۔(یہ بات نبی اکرمﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺنے انھیں بُلایا) اور پھر نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی ،یعنی: خطبہ پڑھا اور فرمایا:کیا حال ہے اُن لوگوں کا جو ایسا ایسا کہتے ہیں اور میرا تو یہ حال ہے کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، یعنی: رات کو، اور سو بھی جاتا ہوں، اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ سو جو میرے طریقہ سے بے رغبتی کرے وہ میری امت میں سے نہیں ہے“ ۔

            # گھر میں عبادات کے درمیان اعتدال کے اعتبار سے مزید وضاحت ایک حدیث میں سامنے آتی ہے، جو حضرت انس بن مالک  سے مروی ہے، اُنہوں نے بیان کیا : ”جَاء َ ثَلَاثَةُ رَہْطٍ إِلٰی بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ یَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا أُخْبِرُوْا کَأَنَّہُمْ تَقَالُّوہَا، فَقَالُوا: وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبيِّ ﷺ قَدْ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ  وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ أَحَدُہُمْ: أَمَّا أَنَا، فَإِنِّيْ أُصَلِّي اللَّیْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّہْرَ وَلَا أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَآءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَآءَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: ”أَنْتُمُ الَّذِینَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا، أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّيْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ لَکِنِّيْ أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّيْ وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَآءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ“․ (صحیح البخاري، الرقم: ۵۰۶۳)ترجمہ: کہ تین حضرات (حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) نبی اکرم ﷺکی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انھیں نبی اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو انھوں نے اُسے کم سمجھا اور آپس میں کہا کہ ہمارا نبی اکرم ﷺسے کیا مقابلہ؟ آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں! ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو، اللہ تعالیٰ کی قسم!اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، اور میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ، لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں، (رات میں)نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، ”فَمِنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ“، میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔

گھر میں آپﷺ کی نماز کی کیفیت

            # آپ ﷺ گھر میں نفل نماز بھی ادا کیا کرتے تھے، رات کے وقت میں تہجد کی نماز ادا فرماتے، وتر بھی تہجد کے وقت میں گھر میں ہی ادا فرماتے تھے، فجر کی سنتیں بھی اکثر گھر میں ہی ادا کر کے مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ (صحیح البخاري، الرقم: ۶۲۶)

            # حضرت ابن عباس  سے منقول ہے وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ)میں نے اپنی خالہ (ام المؤمنین)حضرت میمونہ  کے گھر رات گزاری، تو (میں نے دیکھا کہ) جب تھوڑی رات باقی رہ گئی، تو رسول اللہ ﷺ رات کو اٹھے، آپ ﷺنے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا (یعنی: جلدی سے اور مختصر سا)۔ اور آپ ﷺکھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ جس طرح آپ ﷺنے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ ﷺکے بائیں طرف کھڑا ہو گیا توآپ ﷺنے مجھے پھیر کر اپنی داہنی جانب کر لیا۔ جس قدر اللہ کو منظور تھا آپ ﷺنے نماز پڑھی۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتیٰ کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں موٴذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (کیوں کہ احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔)(صحیح البخاري، الرقم: ۱۳۸)

گھر میں قرآن مجید پڑھنے کی کیفیت

            # رات کے وقت نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ ”قرآن مجید کی تلاوت“ بھی کرتے تھے، (صحیح مسلم، الرقم:۷۷۰)کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے، حضرت عضیف بن حارث  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا: کیا رسول اللہﷺ قرآن کو بآواز بلند پڑھتے تھے یا آہستہ آواز سے؟ انھوں نے جواب دیا کہ کبھی بآواز بلند پڑھتے اور کبھی دھیمی آواز سے، میں نے کہا اللہ اکبر ، الحمدللہ، اللہ نے اس کام میں وسعت رکھی۔(سنن ابن ماجة، الرقم:۱۳۵۴)

            # آپ ﷺبسا اوقات ٹیک لگا کر بھی قرآن پڑھتے تھے،حضرت عائشہ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم (اَزواج مطہرات) میں سے کسی کے گود میں سر رکھتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے؛ جبکہ وہ حیض سے ہوتی تھیں۔(صحیح البخاري، الرقم: ۲۹۷)

گھر میں اللہ سے دعا کرنا

            # رات کے وقت اکثر نماز تہجد میں دیر تک دعائیں کرتے تھے، اپنے لیے بھی اور اُمت کے لیے بھی، دورانِ قراء ت آیات ِرحمت پر رحمت کی دعائیں اور آیاتِ عذاب پر عذاب سے پناہ کی دعائیں کیا کرتے تھے، اور دعاوٴں میں اتنا روتے تھے کہ داڑھی مبارک آنسووٴں سے تر ہو جاتی۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۷۷۲)

گھر میں داخل ہونے کا نبوی طریقہ

            # جناب نبی کریم ﷺ اچانک گھر میں کبھی تشریف نہ لاتے تھے کہ گھر والوں کو پریشان کردیں بلکہ اس طرح تشریف لاتے کہ گھر والوں کو پہلے سے آپ کی تشریف آوری کا علم ہوتا۔ (صحیح البخاري، الرقم:۱۵۰۱)

             حضرت جابر بن عبداللہ  سے روایت ہے : ”نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ لَیْلًا یَتَخَوَّنُہُمْ أَوْ یَلْتَمِسُ عَثَرَاتِہِمْ“۔ ترجمہ: ”نبی اکرم ﷺنے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو (اچانک)گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت (جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے)کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے “۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۴۹۶۹)

            کیونکہ اس میں ایک تو گمان بد ہے جو شریعت میں منع ہے۔ دوسرے عورت کی دل شکنی کا باعث ہے اور اس میں صد ہا قباحتیں ہیں۔

            بالخصوص جب کوئی شخص سفر سے واپس آئے تو اس کے لیے اور زیادہ اہتمام کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں اچانک نہ آئے بلکہ اطلاع دے کر آئے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ  سے روایت ہے، ایک جہاد میں ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے ، جب ہم اس جہاد سے واپس مدینہ آئے تو ہم اپنے گھروں کو جانے لگے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”أَمْہِلُوا حَتَّی نَدْخُلَ لَیْلًا، أَيْ عِشَاءً کَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِیبَةُ“․ (صحیح مسلم، الرقم: ۴۹۶۴)ترجمہ: ”ٹھہرو ہم رات کو جائیں گے تاکہ جس عورت کے سر کے بال پریشان حال ہیں تو وہ کنگھی کرلے اور جس کا خاوند غائب تھا وہ بال صاف کر لے۔

            # گھر میں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺسلام کرتے ۔ (سنن أبو داوٴد، الرقم: ۵۹۶) جب آپ اندر تشریف لاتے توکچھ نہ کچھ دریافت فرمایا کرتے۔ بسا اوقات پوچھتے کہ کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ (سنن الترمذي، الرقم :۲۴۷۰)اور بسا اوقات خاموش رہتے یہاں تک کہ ما حضر پیش کر دیا جاتا ۔ نیز منقول ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف لاتے یہ دعا پڑھتے:”اَلْحمَدُ للّٰہ الَّذِيْ کَفَانِيْ وَاٰوَانِيْ وَالْحَمُدُ للِّٰہ الَّذيْ اَطْعَمَنِيْ وَ سَقَانِيْ وَ الْحَمْدُ للِّٰہ الَّذِيْ مَنَّ عَلَيَّ اَسْالُکَ أَنْ تُجِیْرَنِيْ مِنَ النَّارِ“۔ترجمہ: ”تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے میری (تمام ضروریات کی )کفایت فرمائی اور مجھے ٹھکانا بخشا، اورتمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے کھلایا اور پلایا، اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھ پر احسان فرمایا، (اے اللہ!) میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے (عذابِ)نار سے بچا لیجیے۔

گھر میں آپ ﷺ کے کام

            # حضرت اسود  سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ  سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر والوں میں آکرکیا کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے ۔ (مخدوم اور ممتاز بن کر نہ رہتے تھے بلکہ گھر کا کام بھی کر لیتے تھے ، مثلاً: بکری کا دودھ دوھ لینا۔ اپنی نعلین مبارک سی لینا ) اور جب نماز کا وقت آتا تو مسجد چلے جاتے۔ (سنن الترمذي، الرقم: ۲۴۸۹)

گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ برتاوٴ

            # حضور اکرمﷺ اپنے گھر والوں اور خادموں کے ساتھ بہت خوش اَخلاقی کا سلوک فرماتے اور کبھی کسی سے سر زنش اور سختی سے پیش نہ آتے۔ (مسلم: ۲۳۰۹) حضور اکرمﷺ گھر والوں کے لیے اس کا بڑا اہتمام فرماتے کہ کسی کو کسی بات کی نا گواری نہ ہو ۔(مسلم: ۲۰۵۵)

            # حضور اکرم ﷺ اَزواج مطہرات کے پاس ہوتے تو بہت نرمی ، خاطر داری کرتے اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے تھے۔(سنن الترمذي، الرقم: ۱۱۶۲)

بیوی بچوں کی عبادات کی فکر

            بہت ساری احادیث میں نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا یہ پہلو بھی موجود ہے کہ آپ ﷺ اپنے گھر کے افراد کو بھی اپنے ساتھ عبادت میں شریک کرتے تھے، اور گاہے گاہے انھیں بھی اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔

آپ ﷺ کی نیند کی مقدار

            # آپ ﷺابتدائے شب میں سوتے (صحیح البخاري، الرقم: ۵۸۶)اور نصف شب کی ابتداء میں بیدار ہو جاتے اُٹھ کر مسواک فرماتے اور وضو کر کے جس قدر اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھی ہوتی نماز پڑھتے ، گویا بدن کے جملہ اعضا ء اور تمام قویٰ کو نیند اور استراحت سے حصہ مل جاتا۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ۱۳۵۹۸)

            # آپ ﷺضرورت سے زیادہ نہیں سوتے تھے اور ضرورت سے زیادہ جاگتے بھی نہ تھے، چنانچہ جب ضرورت لاحق ہوتی تو آپ دائیں طرف اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آرام فرماتے حتیٰ کہ آپ کی آنکھوں پر نیند غالب آجاتی (صحیح البخاري، الرقم: ۲۴۷)۔ اس وقت آپ شکم سیرنہ ہوتے۔ نہ آپ سطح زمین پر لیٹ جاتے اور نہ زمین سے بچھونا زیادہ اونچا ہوتا بلکہ آپﷺ کا بستر چمڑے کا ہوتا۔ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوتی ۔ آپ تکیہ پر ٹیک لگاتے اور کبھی رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ لیتے اور سب سے بہتر نیند دائیں جانب کی ہے۔

            # حضور اکرم ﷺکی نیند بقدر اعتدال تھی ۔ قدر ضرورت سے زیادہ نہ سویا کرتے تھے اور نہ قدر ضرورت سے زیادہ اپنے آپ کو سونے سے باز رکھا کرتے تھے ۔ یعنی حضوراکرمﷺخواب بھی فرماتے اور قیام بھی فرماتے جیسا کہ نوافل و عبادت میں حضورﷺ کی عادت کریمہ تھی ، کبھی رات میں سو جاتے پھر اٹھ کرنماز پڑھتے اس کے بعد پھر سو جاتے ۔ اس طرح چند بار سوتے اور اٹھتے تھے۔ اس صورت میں یہ بات درست ہے کہ جو نیند میں دیکھنا چاہتا وہ بھی دیکھ لیتا اور جو بیدار دیکھنا چاہتا وہ بھی دیکھ لیتا ۔

آپ ﷺ کا بستر استراحت

            # حضرت امام باقر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا کہ آپﷺ کے یہاں حضور ﷺ کا بستر کیسا تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔ حضرت حفصہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں آپﷺ کا بستر کیسا تھا؟ آپ نے فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کرکے ہم حضورﷺکے نیچے بچھایا کرتے تھے تو ایک روز مجھے خیال ہوا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھادیا جائے تو زیادہ نرم ہوجائے گا۔ میں نے اسی طرح بچھا دیا۔ حضور ﷺ نے صبح کو دریافت فرمایا کہ میرے نیچے رات کو کیا چیز بچھائی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ وہی روزمرہ کا بستر تھا، رات کو اس کو چوہرا کردیا تھا تاکہ زیادہ نرم ہوجائے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا اس کو پہلے ہی حال پر رہنے دو اس کی نرمی رات کو مجھے تہجد سے مانع ہوئی (الشمائل المحمدیة للترمذي، الرقم: ۳۳۰)۔

            # حضرت عائشہ سے روایت کہ ایک مرتبہ ایک انصاری عورت نے حضورﷺ کا بستر دیکھا کہ عبا بچھا رکھی ہے، انھوں نے ایک بستر جس میں اون بھری ہوئی تھی تیار کرکے حضورﷺکے لیے میرے پاس بھیج دیا۔ جب حضور اکرمﷺ تشریف لائے تو اس کو رکھا ہوا دیکھا تو دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟۔ میں نے عرض کیا کہ فلاں انصاری عورت نے حضورﷺ کے لیے بنوا کر بھیجا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو واپس کردو،اور یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں چاہوں تو اللہ تعالی سونے اور چاندی کے پہاڑ میرے ساتھ کردیں(شعب الإیمان للبیھقي، الرقم: ۱۴۶۸)۔

            # حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے تھے، جس کے نشانات حضوراقدسﷺکے بدن اطہر پر ظاہر ہو رہے تھے، میں یہ دیکھ کر رونے لگا۔ حضورﷺنے فرمایا کیا بات ہے کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ قیصر و کسریٰ تو ریشم و مخمل کے گدوں پر سوئیں اور آپﷺ اس بورئیے پر۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا رونے کی بات نہیں ہے، ان کے لیے دنیا ہے اور ہمارے لیے آخرت ہے، میری مثال تو اس راہ گیر کی سی ہے جو چلتے چلتے راستے میں ذرا آرام لینے کے لیے کسی درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھ گیا ہو اور تھوڑی دیر بیٹھ کر آگے چل دیا ہو(المعجم الکبیر للطبراني، الرقم: ۱۰۳۲۷)۔

            # حضرت میمونہ بنت حارث سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ چٹائی پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے(صھیح البخاري، الرقم: ۳۷۹)۔

آپ ﷺ کا انداز استراحت

            حضرت براء  فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ جس وقت آرام فرماتے اپنا دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے: ”رَبِّ قِنِيْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ“۔ (سنن ابو داوٴد، الرقم: ۵۰۴۵) ترجمہ:”اے رب! تو مجھے اپنے عذاب سے بچائیو جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا“۔

            # حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا“۔ (صحیح البخاري، الرقم: ۶۳۲۵)ترجمہ:”اے اللہ!میں تیرا نام لے کر مرتا ہوں اور جیتا ہوں”۔

            # اور جب جاگتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ“۔ (صحیح البخاري، الرقم: ۶۳۲۵) ترجمہ: ”سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مار کر زندگی بخشی اور ہم کو اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے“۔

            # حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدسﷺہر رات میں جب بستر پر لیٹتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو دعا مانگنے کی طرح ملا کر بسم اللہ کے ساتھ سورہ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ان پر دم فرماتے پھر تمام بدن پر سر سے پاؤں تک جہاں جہاں ہاتھ جاتا، ہاتھ پھیرلیا کرتے۔ تین مرتبہ ایسا ہی کرتے، سر سے ابتداء کرتے اور پھر منہ اور بدن کا اگلا حصہ، پھر بدن کا پچھلا حصہ ۔ (صحیح البخاري، الرقم: ۵۷۱۸)

            # نبی کرمﷺ سے سونے کے وقت مختلف دعائیں اور کلام اللہ کی مختلف سورتیں پڑھنا بھی ثابت ہے، مثلا: سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں، سورہ ملک، سورہ الم سجدہ، سورہ کافرون وغیرہ۔ (صحیح البخاري، الرقم: ۴۰۰۸)

            # منقول ہے کہ جو شخص آیت الکرسی سوتے وقت پڑھے اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ محافظ اس کے لیے مقرر ہوجاتا ہے جو جاگنے کے وقت تک اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے(صحیح البخاري، الرقم: ۲۳۱۱)۔

            # حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِّمَّنْ لَا کَافِيَ لَہ وَلَا مُوٴْوِيَ“۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۶۸۹۴) ترجمہ:”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور ہماری (تمام ضروریات کی)کفالت فرمائی اور ہمیں ٹھکانا بخشا؛ چنانچہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کا نہ کوئی کفالت کرنے والا ہے اور نہ کوئی انھیں ٹھکانہ دینے والا ہے“۔

            # نبی اکرم ﷺ اوندھے منہ سونے سے منع فرمایا کرتے تھے (سنن الترمذي، الرقم ۲۷۶۸)۔

——————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2،  جلد: 106 ‏، جمادی الثانی۔رجب المرجب 1443ھ مطابق جنوری۔فروری 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts