از:حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم

            بزرگو اور دوستو! آج جو حادثہ پیش آیا ہے آپ سب حضرات کے علم میں ہے، ہم سب کے بزرگ وسرپرست حضرت مولانا قاری سیّدمحمدعثمان صاحب (صدرجمعیت علماء ہند ومعاون مہتمم دارالعلوم دیوبند) ہم سے رخصت ہوگئے، تقریباً ایک ماہ سے علالت کا شکار تھے، درمیان میں کبھی صحت یابی کی امید افزا اطلاع آتی تھی، کبھی بیماری میں اضافہ کی خبر ملتی تھی، اسی امیدوبیم کے اندر ان کو میدانتا ہسپتال گڑگاؤں میں داخل کیاگیا اور وہاں بھی جانچ میں کووڈ کی جو رپورٹ آئی وہ نگیٹیو تھی؛ لیکن تکلیف بہت تھی اور حالت خراب ہوتی جارہی تھی، رات ڈھائی بجے ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو وینٹی لیٹر پر رکھنا چاہیے، حضرت مولانا محمودصاحب دہلی سے پہنچے اور مشورہ ہوا، حضرت قاری صاحب کے صاحبزادگان مولانا مفتی محمد سلمان صاحب اور مولانا محمدعفان صاحب موجود تھے، طے یہ ہوا کہ جب اس کے بغیر کوئی چارئہ کارہی نہیں تو وینٹی لیٹر پر ہی رکھ دیا جائے؛ لیکن حالت میں کوئی سدھار نہیں ہوا اور صبح کو یہ فیصلہ ہوا کہ علاج چوں کہ دوا کے ذریعہ ہورہا ہے، قاری صاحب کو یہاں سے ڈسچارج کرکے دیوبند لے جایا جائے اور وہیں علاج کیا جائے، یہ مشورے ہوہی رہے تھے کہ سوا ایک بجے دن میں حضرت انتقال فرماگئے اور ابھی جیساکہ آپ نے سنا یہاں مسجدوں میں بعد نماز جمعہ حضرت کی صحت کے لیے دعائیں ہورہی تھیں اور وہ اپنے مالک حقیقی کی خدمت میں روانہ ہوچکے تھے۔

حضرت قاری صاحب کے عہدے اور خصوصیات

            ادھر ملک اور ملت کے بہت سے اکابر اور بہت سے علماء قائدین، مشایخ، ذمہ داران اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ رخصت ہوئے، جو ایک ملت کے لیے اجتماعی خسارہ ہے؛ لیکن ہرفرد کے اندر کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، حضرت مولانا قاری سیّدمحمدعثمان صاحب رحمة اللہ علیہ جتنی خوبیوں اور جتنی خدمات کے مالک تھے ایسی شخصیتیں بہت کم نظر آتی ہیں، عہدوں کے اعتبار سے وہ امیرالہند تھے، امارت شرعیہ ہند کے سربراہ اعلیٰ تھے اور امارت شرعیہ کے ناظم مولانا معزالدین کے انتقال کے بعد سے حضرت مولانا بہت فکرمند تھے ان کی جگہ کسی فرد کے انتخاب کے لیے، کئی مرتبہ کچھ فضلاء کو بلایا، ان سے گفتگو کی، ان کا انٹرویو لیا، ابھی اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرپائے تھے، عارضی طور پر اس کا چارج دفتر میں غالباً مولوی عبدالملک کو دے دیاگیا؛ لیکن کیا معلوم تھا کہ ناظم کے انتخاب سے پہلے خود حضرت امیرالہند رخصت ہوجائیں گے۔

حضرت قاری صاحب کی زندگی کے مختلف مراحل

            جمعیت علماء ہند کی صدارت کا عہدہ جن نازک حالات کے اندر قاری صاحب نے سنبھالا اورجس خوبی کے ساتھ جماعت کو لے کر چلے جماعت سے وابستہ تمام حضرات اس سے واقف ہیں، دارالعلوم دیوبند کے وہ انتہائی مقبول وباصلاحیت اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے، سنہ ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم میں بحیثیت مدرس وہ آئے ہیں، سنہ ۱۹۶۵ء میں ان کی فراغت ہوئی ہے، میں سنہ ۱۹۶۲ء میں دارالعلوم میں داخل ہوچکا تھا، میرے داخلہ کے تیسرے سال حضرت دورئہ حدیث میں شامل تھے اور ہمارے بنارس کے مرحوم مولانا محمدیونس صاحب ان کے ہم درس تھے، فراغت کے بعد جامعہ قاسمیہ ”گیا“ میں مدرس بن کر گئے، جو حضرت مولانا قاری وقف الدین صاحب کا مدرسہ تھا، جو حضرت مولانا مدنی کے اجل خلفاء میں ہیں، پانچ سال وہاں گزارے، پھر جامعہ امروہہ میں تشریف لائے، گیارہ سال وہاں خدمت کی، پھر دارالعلوم کے اندر آگئے، طالب علمی کے زمانہ میں بھی بہت نمایاں تھے۔

            انتہائی سنجیدہ، باوقار، طلباء کے درمیان محبوب، میرے اور ان کے درجہ تعلیم میں اگرچہ فرق تھا؛ لیکن ہمارے استاذ حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمة اللہ علیہ نے عربی ادب کے طلباء کے لیے جو انجمن قائم کی تھی ”النادی الادبی“ اس میں مختلف درجات کے طلبہ شریک رہتے تھے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے، میں بھی اس میں شریک تھا، معتمد کی ذمہ داری تھی، بعض پرچوں کی ادارت بھی تھی، قاری صاحب نے طلبا کی تربیت کے لیے بڑے عجیب عجیب نظام چلارکھے تھے، اس میں ایک شعبہ تھا شعبہٴ قضا، کہ اگر النادی سے وابستہ طلباء کے درمیان کسی طرح کا نزاع پیداہوتو بجائے اس کے کہ وہ آپس میں الجھیں سیدھے النادی کی طرف سے متعین کردہ جو قاضی ہوں ان کے پاس آئیں اور آکر اپنا مرافعہ پیش کریں اور پھر وہ تحقیقات کے بعد مناسب فیصلہ کریں۔

            حضرت قاری سیّدمحمدعثمان صاحب کو مولانا وحیدالزماں صاحب نے النادی کے اندر قاضی متعین کیا تھا اور مولانا فیض الحسین صاحب کو جو اس وقت طالب علم تھے، بعد میں دارالعلوم کے استاذ ہوئے، ان کو قاضی القضاة متعین کیا تھا، النادی کے تمام پروگراموں میں حضرت قاری صاحب بہت دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے تھے اور عربی زبان وادب کے ممتاز طلباء میں شمار کیے جاتے تھے اور یہ ان کا فن اور ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ سنہ ۱۹۸۲ء میں جب حضرت دارالعلوم میں تشریف لائے ہیں تو اس وقت سے لے کر اخیر تک شعبہ تکمیل ادب کے اسباق قاری صاحب سے متعلق رہتے تھے۔

            اس کے علاوہ غالباً سنہ ۱۹۹۹ء میں حضرت قاری صاحب کو حضرت مولانا مرغوب الرحمن کے زمانہ میں نائب مہتمم بنایاگیا اور بڑی کامیابی کے ساتھ انھوں نے یہ خدمت انجام دی، یہ سلسلہ ۲۰۰۸/ تک چلتا رہا، پھر جمعیت علماء ہند کا تنازعہ سامنے آیا تو دارالعلوم کی مجلس عاملہ کے فیصلہ کی وجہ سے حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب زیدمجدہ، یہ دونوں اپنے عہدوں سے سبکدوش ہوگئے، اب الحمدللہ حالات بدل گئے ہیں اور دونوں دارالعلوم کے اندر عہدوں پر واپس آچکے ہیں۔

حضرت قاری صاحب کی ذمہ داریاں اور طریقہٴ کار

            اس وقت ۲۰۰۸/ میں قاری صاحب نائب مہتمم کے عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے،اس سے پہلے کبھی ناظم دارالاقامہ اور کبھی ناظم تعلیمات کے عہدہ پر رہے اورجس شعبہ کے اندر رہے بہت کامیابی کے ساتھ انھوں نے ذمہ داری کو انجام دیا، ادھر میرا بہت دنوں سے یہ مطالبہ تھاکہ اہتمام کی ذمہ داری بہت بھاری محسوس ہوتی ہے، مجھے کوئی معاون دیا جائے، اس سال جب بخاری شریف کا سبق مجھ سے متعلق ہوا تو میں نے اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ مجھے مضبوط معاون چاہیے اور نام پیش کیا میں نے حضرت قاری صاحب کا؛ کیونکہ ان کو طویل تجربہ تھا، پھر ان کی شرافت نفس، ان کی سوجھ بوجھ، ان کی اصول پسندی، ان سب نے ان کو اور نمایاں کیا تھا، میں مجلس شوریٰ کا شکرگزار ہوں کہ اس درخواست کو قبول کیاگیا۔

            صفر۱۴۴۲ھ کی شوریٰ میں یہ تجویز منظور ہوئی ہے اور جس وقت یہ تجویز لکھ کر حضرت قاری صاحب کے پاس پہنچی ہے اگلے دن ہی دفتر میں آکر اپنی جگہ اس طرح بیٹھ گئے جیسے درمیان میں کوئی انقطاع رہا ہی نہ ہو، آتے ہی فوراً کام شروع کردیا اسی رفتار کے ساتھ، بیٹھے، بھائی فلاں دفتر سے ملازمین کا حاضری رجسٹر لے آؤ، منگوایا، دیکھا، فرمایا ذرا دیکھو وہاں کون کون موجود ہیں، ایک کھلبلی سی مچ گئی، عام طور پر دفتر اہتمام کے اندر ہم لوگ (نائب مہتمم اورمہتمم) تھوڑی تاخیر سے پہنچے ہیں؛ کیوں کہ کاغذات جو آتے ہیں دستخط کے لیے دیر میں آتے ہیں، قاری صاحب نے معمول یہ بنالیا کہ پہلا گھنٹہ لگتے ہی دفتر اہتمام میں پہنچ جاتے تھے، جب معاون مہتمم سب سے پہلے آکر بیٹھیں گے تو سارا عملہ اٹینشن ہوجائے گا، ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھنے کے بعد جاتے تھے، پھر چوتھے گھنٹہ میں آکر بیٹھ جاتے تھے، عجیب صلاحیت تھی، ایک خاص چیز یہ دیکھی کہ کام کی کثرت سے کبھی نہیں گھبراتے تھے، اتنے کام قاری صاحب نے اپنے ذمہ لاد رکھے تھے اوراس کی وجہ سے ان کو کوئی الجھن بھی نہیں ہوتی تھی، نئے نئے کام تعمیروترقی کے، علمی ترقی کے، خود اس کی تجویز پیش کرتے تھے اور اس کی ذمہ داری سنبھالتے تھے۔

لاک ڈاؤن کے زمانہ میں حضرت قاری صاحب کی خدمات

            ادھر جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع رہا قاری صاحب نے اور حضرت مولانا ارشدمدنی صاحب نے یہ فرمایا کہ بھائی ان اساتذئہ کرام سے کچھ علمی کام لینا چاہیے؛ چنانچہ اس سلسلہ میں دفتراہتمام میں تمام اساتذہ کی میٹنگ بلائی گئی اوراس میں تین کمیٹیاں بنیں:

اصلاح معاشرہ کمیٹی کی تشکیل

            ایک کمیٹی بنائی گئی اصلاح معاشرہ کے نام سے، جس کا کام یہ تھا کہ دیوبند اوراطراف کی تمام مساجد میں وہاں کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے ہفتہ کا کوئی دن اور کوئی نماز کا وقت طے کرکے اس میں جائیں اور وہاں بیان کریں، بیان میں ایک تو معاشرہ میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی ہو اور ان کی اصلاح ہو، دوسرے درس قرآن، جو لوگ قرآن پڑھے ہوئے نہیں ہیں ان کو قرآن پڑھانا، تیسرے تصحیح قرآن، جو بچپن کے قرآن پڑھے ہوئے ہیں؛ لیکن ان کا قرآن صحیح نہیں ہے اس کو ٹھیک کرانا، چوتھے درس حدیث، ہفتہ میں کسی دن حدیث پاک کا ترجمہ اور اس کی تشریح، پانچویں بیان مسائل، جو ضروری مسائل ہیں وہ لوگوں کے درمیان بیان کیے جائیں، اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، اس کا نام رکھا گیا اصلاح معاشرہ کمیٹی۔

            قاری صاحب خود اس کے سرپرست بنے اور پھر لگ گئے اس میں دیوبند کے اندر ۱۲۰/مساجد ہیں، ان کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تین دن مہمان خانہ میں ان کے متولیان کو بلاکر ان سے میٹنگ کی گئی اوران کے سامنے پروگرام رکھا گیا، ان کے مطالبہ پر ہر جگہ کے لیے اساتذئہ کرام کو متعین کیاگیا اور یہ سلسلہ چل پڑا۔

تحقیق و تالیف کے لیے کمیٹی کی تشکیل

            دوسری کمیٹی بنی تحقیق و تالیف کے لیے کہ ان اساتذئہ کرام سے دینی واصلاحی عنوانات پر نئی کتابیں مرتب کرائی جائیں اور ہمارے اکابر کی تصنیفات جو قدیم زمانہ میں طبع ہوئی تھیں اوراب ناپید ہوگئی ہیں ان کو نئے زمانے کے اعتبار سے ایڈٹ کرکے شائع کرایا جائے، اس کام کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی اس کے سرپرست بھی حضرت قاری صاحب بنے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ اس کام کو شروع کرایا اور اب تک اس کی تقریباً چھ سات میٹنگیں ہوچکی تھیں، اس میں جتنا کام ہوتا تھا اس کا جائزہ لیا جاتا تھا، جو کام مکمل ہوگیا اس کو کسی دوسرے استاذ کے حوالہ کیاگیا کہ آپ اس کے اوپر نظرثانی کرلیجیے، ہر چیز کو براہ راست بغور وہ دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے، سرسری طور سے نہیں۔

کتب خانہ کی ترتیب نو کے لیے کمیٹی کی تشکیل

            تیسری کمیٹی بنی کتب خانہ کی ترتیب نو کے لیے، کتب خانہ میں پرانے زمانے کا رجسٹرچلا آرہا ہے،اس میں ساری کتابیں ایک ساتھ درج ہیں، درسی وغیردرسی کو الگ کیا جائے، یہ سارے کام حضرت قاری صاحب کے ذہن کی اپج تھے اور سب کو انھوں نے انجام دیا۔

            اسی طرح دارالعلوم کی شوریٰ نے یہ تجویز منظور کی تھی کہ دیوبند میں دارالعلوم کی طرف سے جو مکاتب قائم ہیں، شہر میں اور اطراف میں جائزہ لے کر نئے مکاتب قائم کیے جائیں، یہ تجویز پڑی ہوئی تھی، قاری صاحب نے آنے کے بعد فوراً اس کو زندہ کیا، جو نگران مکاتب تھے ان کو بلایا اور ہمارے شوریٰ کے ممبر حضرت سید انظرحسین صاحب رکن شوریٰ کو بھی شامل کیا، دفتر تعلیمات کو متوجہ کیا اور جگہ جگہ بھیج کر جائزہ لیا اور درخواستیں لی گئیں اور چار پانچ نئے مکاتب قائم کرکے وہاں مدرسین رکھے گئے۔

دفترتحفظ ختم نبوت

            جب دارالعلوم میں قادیانیت کے فتنہ کو کچلنے کے لیے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی تحفظ ختم نبوت کا اجلاس ہوا اور مجلس تحفظ ختم نبوت قائم کی گئی اس کے ناظم بنائے گئے تھے، حضرت قاری عثمان صاحب اور ناظم اعلیٰ بنائے گئے تھے، حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب اور دارالعلوم کا مہتمم اس کا صدر ہوا کرتا تھا، اس وقت سے انھوں نے اس خدمت کو سنبھالا اوراس کے وہ روح رواں تھے، ایک حضرت قاری عثمان صاحب، دوسرے نائب ناظم مولانا شاہ عالم گورکھپوری ان دونوں نے مل کر ماشاء اللہ بہت کام کیا، پورے ملک کے اندر مجلسیں قائم کیں۔

            اسی طرح شعبہٴ مکاتب اسلامیہ بیرون دیوبند یعنی پورے ملک کے اندر جہاں جہاں ارتداد قادیانیت کے فتنے تھے وہاں پر مکاتب قائم کرنا اساتذہ کو بھیج کر ان کی نگرانی کرنا، اس شعبہ کے بھی سربراہ قاری صاحب تھے، میں نے چند کام شمار کرائے ہیں آپ کے سامنے اس کے علاوہ النادی الادبی کے طلبہ کی نگرانی، مدنی دارالمطالعہ کی سرپرستی اور جو طلبہ کے اپنی ذاتی معاملات ہیں ان سب کو دیکھنا، بے شمار کام اور ہر کام کو وہ تفصیل کے ساتھ دیکھتے تھے، ایک ایک جزء کو دیکھتے تھے، خاص بات یہ تھی کہ اصول پسند آدمی تھے، اصول کے خلاف کوئی کام ان کو منظور نہیں تھا؛ کیوں کہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن کے ساتھ ایک لمبے عرصہ تک کام کرچکے تھے، اس لیے ضابطوں سے امور معمولات سے اور تعامل سے بھی واقف تھے، حضرت قاری صاحب کے دفتر اہتمام میں آجانے سے مجھے بہت سہارا ملا تھا۔

            بہرحال حضرت قاری صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ تعالیٰ اُن کی خدمات کو قبول فرمائے، جمعیة علماء ہند، دارالعلوم دیوبند اور پوری ملت کو اُن کا نعم البدل عطافرمائے، آمین!

——————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :9،    جلد:105‏،  محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق   ستمبر 2021ء

٭        ٭        ٭

Related Posts