حضرت قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوریؒ
ایک مشفق ومربی استاذ
از:مولانا محمد ساجد قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
پچھلے دنوں ہم جن شخصیات کے سانحہٴ وفات سے دوچار ہو ئے ان میں سے ایک استاذ گرامیٴ مرتبت حضرت قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی شخصیت ہے۔ آپ ۸/شوال ۱۴۴۲ھ (۲۱/مئی ۲۰۲۱ء)کو ہمارے درمیاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے ۔ إِنَّا للّٰہِ وإنَّا إِلیہ رَاجِعُونَ۔
آپ کی وفات سے بہت سے علمی ، تربیتی اور انتظامی میدانوں میں جو خلا پیدا ہوا وہ بظاہر پر ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ یوں تو جو بھی شخصیات ہمارے درمیان سے رخصت ہوئیں ان کے جانے سے دکھ ہوا ؛ لیکن آپ کے سانحہٴ وفات کو کئی اعتبار سے ہم لوگوں نے بہت زیادہ محسوس کیا۔ آئندہ بہت سے علمی وانتظامی کاموں میں آپ کی قدم قدم پرکمی محسوس ہوگی۔
عادات وخصوصیات
آپ ایک باوقار وپر تمکنت شخصیت کے مالک تھے، شرافت ووضعداری کا پیکرتھے، خوش خلقی و ملنساری آپ کا نمایاں وصف تھا، آپ کے یہاں طلبہ کے ساتھ شفقت وہمدردی اوران کی تربیت کا خاص خیال تھا۔ کوئی بھی کام پورے اطمینان سے انجام دیتے تھے ، عجلت پسندی اور جلد بازی بالکل نہیں تھی۔ نظم وضبط اور قاعدہ قانون کا بڑا پاس رکھتے تھے۔ کوئی بھی کام ضابطے کے دائرے میں ہی ہونا چاہیے، خودبھی ضابطے کی پابندی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی پابند رہنے کے لیے کہتے تھے اور خلاف ورزی کی صورت میں باز پرس بھی کرتے تھے۔چونکہ آپ نے ایک عرصے تک دارالعلوم کے نیابت اہتمام کا عہدہ سنبھالا تھا اس لیے دارالعلوم کے معمول اور اس کی روایات سے اچھی طرح واقف تھے کبھی کسی کے ذہن سے اگر اس کا معمول نکل جاتا تو آپ اس کو یا د دلاتے تھے۔
آپ مجالس میں اپنی رائے بڑی بے باکی کے ساتھ پیش کرتے تھے، کسی نامناسب بات اور رائے پر آپ خاموش نہیں رہ پاتے ، اگر اس سلسلے میں کوئی ضابطہ ہے یا دارالعلوم کی کوئی روایت ہے تو آپ اسے ضرور بیان کرتے تھے۔
دوسروں کی خاطر داری اور دلجوئی کا آپ ہمیشہ خیال رکھتے تھے، النادی کے پروگراموں میں دیکھا کہ اگر پروگرام رات کے ایک یا ڈیڑھ بجے بھی ختم ہوا اور طلبہ نے ناشتے کے لیے کہا (اور وہ ضرور کہتے تھے) تو آپ ان کی دلجوئی کی خاطرتھوڑی دیر کے لیے ان کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے تھے۔
اسی طرح کوئی ملازم اپنے گھر جانے کے لیے کہتا تو آپ اس کی دلجوئی کے لیے ساتھ چلے جاتے تھے۔ دارالعلوم میں کہیں کوئی معائنہ کرنا ہو تا توآپ خو د بے تکلف وہا ں پہنچ جاتے تھے۔آپ ہمیشہ مسکراکر سلام کا جواب دیتے تھے اور خیرت معلوم کرتے تھے۔
آپ سے تعلق کی سرگذشت
راقم الحروف کو ۱۹۹۴ئمیں دورے کے سال آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا، آپ سے موطا امام محمد پڑھنے کا اتفاق ہوا، چونکہ آپ نے عربی زبان حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی سے پڑھی تھی جو طلبہ کے عربی لکھنے اور بولنے پربہت حوصلہ افزائی کرتے تھے، اس لیے آپ بھی عربی میں پرچہٴ سوالات حل کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے اور پورے نمبرات دیتے تھے ۔ چنانچہ میں نے بھی دیگر کتابوں کے ساتھ موطا امام محمد کا پر چہ عربی میں حل کیا اور آپ نے ہمیں پور ے ۵۰نمبر دیے(واضح رہے کہ اس وقت دارالعلوم میں آخری نمبر۵۰تھا جو ابھی چند سالوں پہلے ۱۰۰کردیا گیا ہے)۔
جب میں ۲۰۲۱ء میں دارالعلوم میں تقرری کے لیے انٹرویو میں شریک ہوا تو انٹرویو کمیٹی کے سامنے آپ نے ہی میر ا تقریری و تحریری انٹرویو لیا ۔ انٹرویو ہونے کے بعد آپ نے مجھ سے کہا کہ اب آپ جاسکتے ہیں، جیسا کچھ ہوگا آپ کو بذریعہ ڈاک اطلاع دی جائے گی ۔ چنانچہ میں مراد آباد واپس چلاگیا۔ بعض احباب نے مجھے اطلاع دی کی تمہارا تقرر ہوگیا ہے۔ چنانچہ میں دیوبند آگیا ۔ ادھر حضرت قاری صاحب کہیں سفر میں جاتے ہوئے مدرسہ شاہی مراد آباد تشریف لائے اور میرا تقررنامہ اپنے ساتھ لے لائے ۔ آپ نے مجھے مدرسے میں معلوم کرایا؛ لیکن میں مدرسہ میں موجود نہیں تھا؛ کیونکہ میں دارالعلوم آگیا تھا۔ آپ نے وہ تقرر نامہ مفتی محمد سلمان صاحب کے حوالے کردیا کہ وہ مجھے دیے دیں؛ چنانچہ جب میں مدرسہ واپس پہنچا تو انھوں نے وہ تقرر نامہ میرے حوالے کیا۔
دارالعلوم میں تقرری کے بعد جب مجھے کسی معاملے میں رائے مشورہ کی ضرورت ہوئی تو آپ نے اس سلسلے میں مشورہ دیا اور بھر پور رہنمائی فرمائی ۔
النادی الادبی کی سرپرستی
حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی کے بعد آپ نے النادی الادبی کی مکمل سرپرستی فرمائی ، جس زمانے میں آپ نے نیابت اہتمام کی ذمے داری سنبھالی اس دوران تو آپ طلبہ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے اور تکمیل ادب کے اساتذہ طلبہ کی رہنمائی وغیرہ کا کام انجام دیتے تھے، ورنہ آپ نے ہمیشہ النادی الادبی کی سرپرستی فرمائی اور اس سے منسلک طلبہ کو بہت وقت دیا۔ پچھلے کئی سالوں سے آپ النادی کے طلبہ کی مکمل رہنمائی اور سرپرستی فرمارہے تھے۔ ہم النادی کا کوئی بھی پروگرام آپ سے وقت معلوم کیے بغیر طے نہیں کرتے تھے ، اگر آپ کا قیام دیوبند میں ہوتا تو صدارت آپ کی ہی رکھتے تھے۔ آپ نہ صرف اس کو قبول فرما لیتے تھے؛بلکہ پروگرام میں اخیر تک تشریف فرما رہتے تھے اور آخری خطاب آپ ہی کا ہوتا تھا۔
آپ النادی کے پروگراموں میں آخری خطاب عربی ہی میں کرتے تھے۔ آپ بہت آسان اور بے تکلف عربی بولتے تھے۔ جتنی بے تکلفی سے اردو بولتے تھے۔خواہ کیساہی مجمع ہو یا کیسے ہی لوگ ہوں آپ کبھی متاثر نہیں ہوتے تھے بلکہ سادگی اور بے تکلفی سے کفتگو اور خطاب کرتے تھے۔
آپ اپنے خطاب میں اور النادی الادبی کی میٹنگوں میں حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے حوالے سے عربی بولنے اورعربی میں تقریر کرنے کے سلسلے میں طلبہ کو بہت سی قیمتی نصیحتیں کیا کرتے تھے۔
آپ طلبہ سے فرماتے تھے کہ اگر عربی بول چال کے دوران تمھیں کسی چیز کی عربی معلوم نہیں ہے، تو وہی اردو کا لفظ بولدو، (اس طرح بولنے کی روانی متاثر نہیں ہوگی اور اس چیز کی عربی معلوم کرنے کی جستجوا پیدا ہوگی)۔
اسی طرح آپ فرما تے تھے کہ بعض طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو عربی میں زبانی رٹ کر تقریر کرتے تو یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ آپ فرماتے تھے کہ طالب علم کا عربی تقریر زبانی یاد کرکے ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر پیش کر دینا بھی بہت بڑی بات ہے۔(یعنی اس سے طالب علم کو کھڑے ہوکر بولنے اور تقریر کرنے کی ہمت ہوگی اور اس سے اس کی جھجھک دور ہوگی اور اسی طرح وہ اس میدان میں ترقی کرے گا)۔ آپ فرماتے تھے تنقید کرنے والوں سے کہو کہ اگر یہ کام اتنا آسان ہے تو تم بھی اسی طرح زبانی یاد کرکے کھڑے ہوکر بیان کرو۔
آپ ایک بات اور فرماتے تھے کہ بعض طلبہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم عربی سیکھ کر کیا کریں گے؟ ہمیں کہیں عرب ممالک میں توجانا نہیں ہے ، ہم یہیں رہیں گے اوریہاں اردو بولی جاتی ہے، عربی کوئی سمجھتا بھی نہیں ہے۔
آپ اس خیال کی تردید فرماتے تھے ،آپ کا کہنا تھا کہ عربی زبان کے سیکھنے کا صرف یہی مقصد نہیں ہے کہ ہم عرب ممالک جائیں اور وہاں عربوں سے عربی میں بات کریں؛ بلکہ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنی درسی کتابوں کو اچھی طرح سمجھ سکیں؛ چنانچہ جو طلبہ عربی سیکھتے ہیں ان کی استعداد زیادہ اچھی ہوتی ہے اور کسی بھی عربی کتاب کو حل کرنے اور اس کو سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ان طلبہ کے مقابلے میں جو عربی نہیں سیکھتے ہیں۔
النہضة الأدبیة کا اجراء
اب سے تقریباً تین سال پہلے آپ نے النادی کے اجلاس کے بعد جب ہم لوگ ناشتے کے لیے دسترخوان پر بیٹھے تو آپ نے تذکرہ کیاکہ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب عربی میں مجلہ دعوة الحق نکالتے تھے جس کی زبان آسان ہوتی تھی جس کو طلبہ بھی آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ النادی کی طرف سے بھی اس قسم کا کوئی مجلہ شائع ہونا چاہیے۔ ہم لوگوں نے بھی آپ کی رائے کی تائید کی۔
آئندہ سال آپ نے تکمیل اد ب کے طلبہ سے اس قسم کے مجلے کے اجراء کے لیے حضرت مہتمم صاحب کے نام ایک درخواست لکھوائی،اور اس پر تکمیل ادب کے اساتذہ سے تائید کے لیے دستخط کروائے۔ چنانچہ یہ درخواست حضرت مہتمم صاحب کے واسطے سے مجلس شوری میں پیش ہوئی ۔ مجلس نے مجلے کے اخراجات وغیرہ کا ایک تخمینہ مانگا اور اگلی شوری کے موقع پر پیش کرنے کے لیے کہا۔ چنانچہ آپ نے وہ تخمینہ لے کر دوبارہ شوری میں درخواست دلوائی ۔ بالآخر شوری نے النہضة الأدبیة کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ نکالنے کی منظوری دی اور اس کی تجویز آپ کے نام بھی بھیجی۔ اس کے بعد حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات کرکے اس کی ادارت کے لیے راقم الحروف کا نام تجویز کرایا؛ چنانچہ اس طرح آپ کی توجہ اور کوششوں سے النہضة الأدبیة کا اجراء عمل میں آیا، جس کے تادم تحریر سات شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس کے اجراء کا اعلان ماہنامہ دارالعلوم اور الداعی میں بھی آنا چاہیے، تاکہ مدارس کے طلبہ کو اس کی اطلاع ہو اور وہ ان کے ہاتھوں تک پہنچے۔چنانچہ رفیق محترم جناب مولانامصلح الدین صاحب (استاذ دارالعلوم دیوبند) نے اس پر تبصرہ لکھا جو ماہنامہ دارالعلوم کے اپریل ومئی ۲۰۲۱ئکے شمارے میں شائع ہوا۔
حضرت قاری صاحب کے تعلق سے یہ چند یادیں اور باتیں سپرد قرطاس کر دیں، ممکن ہے کہ اس میں کسی شہید جستجو کو کوئی کار آمد بات مل جائے۔
———————————————-
دارالعلوم ، شمارہ :9، جلد:105، محرم الحرام – صفر المظفر 1443ھ مطابق ستمبر 2021ء
٭ ٭ ٭