از: مولانا اشرف عباس قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

اسلامی جہاد اور دیگر جنگوں میں فرق

            چودہ سال کے مسلسل انتہائی صبرآزما حالات کے بعد ۲ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو جہاد اور کافروں سے قتال کی اجازت دی گئی؛ چنانچہ حکم الٰہی نازل ہوا:

          ’’أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ الَّذِینَ أُخْرِجُوْا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ‘‘(الحج:۳۹-۴۰)

            ’’لڑنے کی ان لوگوں کو اجازت دے دی گئی جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیاگیا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے غالب کردینے پرپوری قدرت رکھتا ہے جو اپنے گھروں سے بے وجہ نکالے گئے محض اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اوراگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ایک کا دوسرے سے زور نہ گھٹارہتا تو نصاریٰ کے خلوت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے سب منہدم ہوگئے ہوتے اور بیشک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو کہ اللہ کی مدد کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا غلبہ والا ہے‘‘

            امام رازیؒ فرماتے ہیں : ’’وہی أول آیۃ اذن فیہا بالقتال بعد ما نُہی عنہ فی نیف وسبعین آیۃ‘‘ (التفسیر الکبیر۲۳/۳۵)

            ’’حکم قتال کے امتناع میں ستر سے زائد آیات کے نزول کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اجازت دی گئی۔‘‘

            اس سے صاف واضح ہے کہ جہاد وقتال کی مشروعیت کا مقصد دین اسلام کا دفاع، اس کی اشاعت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنا، اسلام قبول کرنے کے خواہش مند افراد کو تحفظ فراہم کرنا، خدائے واحد کی پرستش اورعبادت کے تصور کو عام کرنا اور ظلم وناانصافی کا خاتمہ کرکے امن وانصاف کا ماحول قائم کرنا ہے۔

            قرآن کریم میں صراحتاً لفظ جہاد چھ مقامات پر وارد ہوا ہے، اسی طرح لفظ قتال بیس مرتبہ اور اتنی ہی بار قتال کا مرادف کوئی اورلفظ استعمال ہوا ہے؛ لیکن کہیں بھی جہاد کا قتال کا مقصد یہ نہیں ذکر کیاگیا ہے کہ زبردستی لوگوں کو مسلمان بنادیا جائے؛ بلکہ جو فتنہ پرور، ظالم اور شرپسند نہ ہوں ، کفر پر باقی رہتے ہوئے بھی ان سے جہاد کا حکم نہیں دیاگیا ہے۔ ارشاد باری ہے:

          ’’لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ، إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ‘‘ (الممتحنۃ:۸-۹)

            ’’اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتائو کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ تعالیٰ انصاف کا برتائو کرنے والوں سے محبت  رکھتے ہیں ، صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑے ہوں اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہو اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہو اور جو شخص ایسوں سے دوستی کرے گا سو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔‘‘

            اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی جہاد اور دوسری جنگوں میں طریقۂ کار کے اعتبار سے بھی واضح فرق ہے اور مقاصد وانجام کے اعتبار سے بھی۔

طریقۂ کار کے اعتبار سے فرق

            دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں میں عام طور سے وہ تمام حربے اور بلادریغ قتل وغارت گری کے وہ تمام طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے دشمنوں کو زیر کیاجاسکے؛ اس لیے بے قصوروں اور پرامن شہریوں پر بھی توپ وتفنگ کے دہانے کھول دیے جاتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں عورتوں ، بچوں اور مذہبی لوگوں کو نشانہ بناکر استعماری جذبات کو تسکین کا سامان فراہم کیاجاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جہاد کا مقصد چوں کہ قتل وغارت گری یا خوف و دہشت پیداکرنا نہیں ہے؛ اس لیے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لیے اصول وضوابط طے کیے اور جہاد کے صحیح طریقے سے روشناس کرایا۔

            چنانچہ امام مسلم نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی شخص کو کسی اسلامی لشکر کا سالار مقرر کرتے تو اسے تقویٰ اختیار کرنے اور ساتھی مجاہدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے، پھر فرماتے: اللہ کے راستے میں اللہ کا نام لے کر لڑو، کافروں سے قتل کرو، لڑو اور دھوکہ وفریب نہ دو، لاشوں کا مثلہ نہ کرو، کسی نوزائیدہ بچے کو مت قتل کرو۔‘‘

            اگر جہاد کے اس طریقۂ کار اور اخلاقیات کی خلاف ورزی ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے اور محاسبہ کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

          ’’کنا في غزاۃ فأصبنا ظفرا وقتلنا من المشرکین، حتی بلغ بہم القتل إلی أن قتلوا الذریۃ، فبلغ ذلک النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: ما بال اقوام بلغ بہم القتل إلی ان قتلوا الذریۃ؟ اَلا! لا تقنلنّ ذریۃ، قیل: لِمَ یا رسول اللّٰہ، ألیس ہم أولاد المشرکین؟ قال: اَوَلیس خیارُکم أولاد المشرکین‘‘ (سنن النسائی، رقم: ۸۶۱۶، کتاب السیر)

            ’’ہم ایک غزوے میں تھے۔ اس میں غلبہ نصیب ہوگیا اور ہم نے مشرکین کو قتل کیا، قتل کا یہ سلسلہ اس حد تک دراز ہوگیا کہ کچھ لوگوں نے بچوں کو بھی قتل کرڈالا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کا سلسلہ اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ انھوں نے بچوں کو قتل کرڈالا۔ خبردار! بچوں کو ہرگز قتل مت کرو، بچوں کو ہرگز قتل مت کرو، عرض کیاگیا: اے اللہ کے رسول! کیوں ؟ کیا وہ مشرکین کے بچے نہیں ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکین کے بچے نہیں تھے؟‘‘

            ایک غزوے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ لوگوں کی بھیڑجمع دیکھ ایک صاحب کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا، انھوں نے بتایا: ایک عورت جس کو قتل کردیاگیا ہے اس کے پاس لوگوں کی بھیڑ ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عورت تو جنگ نہیں کررہی تھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے دستے کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: خالد سے کہنا: عورتوں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے کو ہرگز قتل مت کرو۔‘‘ (سنن ابی دائود، باب فی قتل النساء، رقم:۲۶۶۹)

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سخت ہدایت تھی کہ فوراً ہی کسی قوم پر حملہ آور مت ہوجائو؛ بلکہ میدان کارزار میں بھی صلح اور اطاعت قبول کرلینے کا موقع دو۔

            ’’جب بھی کسی مشرک قوم سے مقابلہ ہو تو اسے تین باتوں کی دعوت دو، وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کرلے تو تم بھی انھیں قبول کرلو اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائو، اور اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیہ طلب کرو، اگر وہ جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجائیں تو انھیں اپنے حال پر چھوڑ دو، اور اگر وہ جزیہ دینے کے لیے آمادہ نہ ہوں تو پھر تم اللہ کی نصرت ومدد طلب کرو اور ان سے قتال کرو۔‘‘ (صحیح مسلم: حدیث نمبر:۱۷۳۱)

مقاصد اور انجام کے اعتبار سے فرق

            فتح کے بعد دنیا کے فاتحین عموماً بدمست ہوکر دشمن کے شہروں کو نذرآتش کردیتے، بربریت کا مظاہرہ کرتے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں ؛ لیکن پیغمبرانسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام حرکات سے منع فرمادیا ہے؛ کیوں کہ آپ کی تعلیمات کے اعتبار سے جنگ کا مقصد فتنہ وفساد کا خاتمہ اور ظالمین کی سرکوبی ہے۔ فتح سے یہ مقصد حاصل ہوگیا، اس کے بعدایسی کوئی بھی حرکت ازسرنو فتنہ وفساد کو ہوا دینا ہے جس کی سختی سے ممانعت کردی گئی ہے۔ ارشاد باری ہے:

          ’’وَلاَ تُفْسِدُواْ فِی الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا‘‘(الأعراف:۸۵)

            ’’اور روئے زمین میں بعد اس کے کہ اس کی درستگی کردی گئی فساد مت پھیلائو‘‘۔

            چنانچہ فتح مکہ کے بعد وہاں کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی گئی، شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیاگیا؛ بلکہ شہرکی حرمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے جانی دشمنوں کی نہ صرف جان بخشی کی گئی؛ بلکہ ان کے مکانات کو بھی جائے امن قرار دے دیاگیا اور اعلان کردیاگیا:

          ’’اذہبوا فأنتم الطلقاء، لا تثریب علیکم الیوم‘‘

            ’’جائو تم آزاد ہو اور آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔‘‘

            عموماً جنگ وجدال کے نتیجے میں دشمنوں اور حاسدین کی تعداد میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے فاتح کی تلواریں اپنے مخالفین کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کردیتی ہیں ؛ لیکن دلوں میں نفرت اور عداوت کے شعلے بھی بھڑکاجاتی ہیں ؛ اس لیے مفتوح قوم کو جب موقع ہاتھ لگتا ہے وہ فاتحین سے اپنا حساب برابر کرنے میں دیر نہیں لگاتی ہے؛ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے نتائج اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ ان جنگوں کے ذریعے آپ نے مخالفین کے دلوں کو فتح کرلیا اور دشمن کے بجائے دوست اور ہمدرد پیداکیے۔ ’’طائف کا محاصرہ اٹھانے کے بعد وہ لوگ انتقام کے مواقع تلاش نہیں کرتے؛ بلکہ فوراً حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے ہیں ، صلح حدیبیہ کی بہ ظاہر توہین آمیز شرائط کے باوجود اور قدرت رکھنے کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح جویانہ پالیسی خالد بن ولید اور عمروبن عاص جیسے عظیم جرنیلوں کے ذہن کے رخ موڑ دیتی ہے اور وہ اسلام کے سچے خدمت گزار بن جاتے ہیں ۔ مکہ کی فتح کے بعد صرف اہل مکہ ہی اس ’’اخلاقی ضرب‘‘ سے اسلام کے ہم نوا نہیں بن جاتے؛ بلکہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرکے اس قوت میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں ، بتلائیے کسی دنیوی جنگ نے بھی ایسے نتائج اخذ کیے ہیں ؟‘‘ (عبدالرحمن گیلانی مجلہ محدث اکتوبر۱۹۹۵)

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آمدہ غزوات وسرایا کی مجموعی تعداد ۸۲ ہے، اگر ان سب کو جنگ تسلیم کرلیا جائے تو بھی ان میں مقتولین کی مجموعی تعداد ۱۰۱۸ ہے، جن میں سے ۲۵۹ مسلمان اور ۷۵۹ فریق مخالف کے مقتولین ہیں ۔ اس مجموعی تعداد کو ۸۲ پر تقسیم کرنے سے فی جنگ۴۱–۱۱۸ اوسطاً نکلتا ہے۔

            اس کے بالمقابل ان ہلاکت خیزیوں پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے جو امن کے نام نہاد علم برداران نے پہلی (۲۸؍جولائی ۱۹۱۴تا ۱۱؍نومبر۱۹۱۸÷) اور دوسری (۱؍ستمبر۱۹۳۹تا ۲؍ستمبر ۱۹۴۵÷) جنگ عظیم کے ذریعے دنیا پر مسلط کردی، جس کے نتیجے میں ۶۱ ملکوں کے پانچ کروڑ افراد موت کے گھاٹ اتاردیے گئے۔

            قاضی محمد سلیمان منصورپوری فرماتے ہیں :

            ’’خیال کرو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا جنھوں نے فریقین کی صرف ۱۰۱۸ قربانیوں کے بعد اس قدر روحانی واخلاقی ومادی وملی فوائد حاصل کیے تھے جن کو بہ حیثیت مجموعی آج تک دنیا کی کوئی قوم اور ملک حاصل نہیں کرسکا۔ اہل دنیا کی لڑائیوں کا ذکر چھوڑو، مقدسین کی لڑائیاں اور مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم نہیں ، یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نے جس قدر نفوس کو ہلاک کیا ان کی تعداد لاکھوں سے زائد ہے۔ جان ڈیون پورٹ نے اپنی کتاب ’’اپالوجی آف محمد اینڈ قرآن‘‘ میں مذہبی عدالت کے احکام سے ہلاکت نفوس کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ بتائی ہے، جو عیسائیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کی ہوئی تھی‘‘ اکیلی سلطنت اسپین نے تین لاکھ چالیس ہزار عیسائیوں کو قتل کیا تھا، جن میں سے بتیس ہزار آدمی زندہ آگ میں جلائے گئے تھے۔‘‘ (رحمۃ للعالمین ۲/۱۷۴، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

            ڈاکٹر حمید اللہ فرماتے ہیں :

            (عہد رسالت میں ) تین ملین کلومیٹر رقبہ فتح کرنے کے لیے دشمن کے جتنے لوگ مرے ہیں ان کی تعداد مہینے میں دو بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے شہداء کی تعداد دشمن کے مقتولین سے بھی کم ہے۔ جس سے ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اسوئہ حسنہ بن کر دنیا کے حکمرانوں اور فاتحوں کو بتاتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ اور ان کو شکست دینے کی کوشش ضرور کرو؛ لیکن بے جا خون نہ بہائو۔‘‘ (خطبات بھاولپور، خطبہ نمبر۷)

اشاعت اسلام میں اخلاق وکردار کا اثر

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اورنظام کی غیرمعمولی اور حیرت انگیز ترقی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق، قائدانہ صفات، عفو وودرگزر، بصیرت وحکمت اور تعلیمات مساوات وانسانیت کو بڑا دخل ہے۔ سعیدروحیں جب اسلام کو قریب سے دیکھتیں تو اسے فطرت سے قریب پاکر اور اس کی خوبیوں سے متاثر ہوکر خود ہی اسے روح کی گہرائیوں میں اس طرح بسالیتیں کہ بڑے بڑے مظالم کے پہاڑ، حوادث کے طوفان اور طمع ولالچ کی وسیع دنیا بھی ان کے پائے استقامت میں جنبش پیدا نہیں کرپاتیں ۔ ذیل کے چند نمونے دیکھیے اور فیصلہ کیجیے کہ آپ کی تلوار کے خوف سے لوگ کلمہ پڑھتے تھے یا اخلاق کریمانہ کی بھینی بھینی خوشبوئوں سے ان کے قلوب ودماغ مسخر ہوتے تھے۔

            ہجرت کے چوتھے سال غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استراحت کے لیے الگ ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گئے، اپنی تلوار بھی اسی درخت سے لٹکادی، ایک مشرک شخص دبے پائوں وہاں آدھمکا اور ننگی تلوار سونت کر بولا، بتا اے محمد! اب تجھ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ اطمینان اور تسلی بھری آواز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’اللہ!‘‘ یہ جواب سن کر اس پر کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ اب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس سے پوچھا: اب تو بتا تجھ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ اس پر وہ رحم کی درخواست کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تم مسلمان ہوتے ہو؟  اس نے صاف جواب دیا: نہیں ؛ البتہ میں اس کی یقین دہانی کرتاہوں کہ میں آپ کے ساتھ نہیں لڑوں گا اورنہ ہی جنگ میں آپ کے دشمنوں کا ساتھ دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جانے دیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ کر کہا: میں تمہارے پاس ایک ایسے شخص کے پاس سے آرہا ہوں ، جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔‘‘ (رواہ ابوبکر الاسماعیلی فی صحیحہ)

            غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک جانی دشمن پوری طرح قابو میں ہونے کے باوجود قبول اسلام سے منع کردیتا ہے، پھر بھی اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر تلوار کے زور پر کلمہ پڑھانا ہوتا تو اس سے بہتر موقع شاید ہی ہاتھ آتا۔ اگرچہ واقدی نے لکھا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا اور اس سے خلق خدا کو بڑا فائدہ پہنچا۔

            ثمامہ بن اثال یمامہ کے حاکم، اللہ کے رسول کے شدید مخالف؛ بلکہ قسم کھارکھی تھی کہ اگر موقع ملا تو نعوذ باللہ اللہ کے رسول کا پنے ہاتھ سے خاتمہ کردیں گے۔ مکہ جاتے ہوئے مدینہ طیبہ کی حدود سے گزرے تو وہاں گشت پر مامور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھڑسوار دستے نے انھیں گرفتار کرلیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ یمامہ کا حاکم جس پر بعض صحابہ کے قتل کا بھی الزام ہے، قیدی کی حیثیت سے مسجد نبوی کے ستون سے بندھا ہوا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کسی طرح کی بازپرس نہیں کرتے، دو تین دن تک اس کا خوب خیال رکھا جاتا ہے۔ عندیہ معلوم کیے جانے پر جواب ہوتا ہے: اگرآپ مجھ پر احسان کریں تو میں اسے یاد رکھوں گا اور اگرآپ مال کے خواست گار ہیں تو بتائیے فراہم کردیا جائے گا۔ اس دوران وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور صحابہ کے رویے کا قریب سے مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ تیسرے دن رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم بلاکسی شرط اور معاوضے کے ثمامہ کی رہائی کا حکم جاری فرمادیتے ہیں ۔ ثمامہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں ۔ وہ آزاد ہوتے ہی جاکر غسل کرتے ہیں اور پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوجاتے ہیں اور برملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں :  ’’واللّٰہ ما کان علی الارض وجہٌ أبغض إليّ من وجہک‘‘  خدا کی قسم! روئے زمین پر میرے لیے آپ کے چہرے سے زیادہ ناپسندیدہ چہرہ کسی کا نہیں تھا۔‘‘  ’’فقد أصبح وجہک أحبّ الوجوہ کلہا‘‘  لیکن اب آپ کا چہرہ رئوے زمین پر میرے لیے تمام چہروں سے زیادہ محبوب بن چکا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۵۹/۱۷۶۲)

            اس واقعے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اسلام لانے کو بھی نہیں کہا گیا۔ اس کے باوجود ایسا سخت جانی دشمن بھی آپ کی کرم گستری اور وسعت قلبی کامشاہدہ کرکے آپ کے جانثاروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں ایسے دسیوں واقعات موجود ہیں ۔

            خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارومشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے کبھی تلوار کی دھمکی نہیں دی؛ بلکہ ہمیشہ اپنے اخلاق و کردار کو پیش کیا ہے، قرآن حکیم میں ہے:

            ’’فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ‘‘ (یونس:۱۶)

            ’’سو میں اس سے پہلے بھی ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں ۔‘‘

            مطلب یہ ہے کہ میں ایک مدت تک تمہارے درمیان رہا ہوں ، تم میرے سیرت وکردار سے واقف ہو؛ اس لیے تمہیں میری دعوت ضرور قبول کرلینی چاہیے۔

            اور جب پہلی بار صفا پہاڑی پر چڑھ کر آپ نے قریش کو حق کی دعوت دی تو وہاں بھی آپ نے اپنے اخلاق وکردار کا حوالہ دے کر قریش سے پوچھا تھا کیا تم کو میری بات کا یقین  آئے گا؟ تو اس پر سب نے بیک زبان کہاتھا: کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے، ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔

اشاعت اسلام کے ذرائع

            یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں ؛ بلکہ اس کے ذاتی محاسن وکمالات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار سے ہوئی ہے اور تلوار اور جبر واکراہ کوکبھی اس کا ذریعہ نہیں بنایا گیا؛ البتہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اشاعتِ اسلام میں چار ذرائع کو خصوصی اہمیت حاصل ہے:

            (۱) دعوت، (۲) ہجرت، (۳) مصالحت، (۴) مکاتبت۔ ان میں اصل دعوت ہے، باقی تین اس کی مختلف شکلیں اور تتمہ ہیں ۔

دعوت

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی دعوت الی اللہ سے عبارت ہے۔ یہ آپ کا فرض منصبی اور مقاصد بعثت میں سے ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

          ’’یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ‘‘ (المائدۃ:۶۷)

            ’’اے رسول جوکچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیاگیا ہے آپ سب پہنچادیجیے اور اگرآپ ایسا نہ کریں گے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام نہیں پہنچایا۔‘‘

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ انسانیت کے سب سے کامیاب داعی اور مبلغ گزرے ہیں ؛ اس لیے کہ آپ کا طریقۂ دعوت وحکمت، موعظت اورمجادلۂ حسنہ پر مشتمل تھا جس کا قرآن کریم نے حکم دے رکھا ہے:

          ’’ادْعُ إِلِی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ‘‘ (النحل:۱۲۵)

            ’’آپ اپنے رب کی راہ کی طرف علم کی باتوں اور اچھی نصیحتوں کے ذریعے بلائیے اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجیے۔‘‘

            حکمت کے یوں تو بہت سے معانی بیان ہوئے ہیں ؛ مگر ابوحیان اندلسی کی یہ تعبیر عام طور پر قبول کی جاتی ہے کہ حکمت سے مراد ایسا کلام یا سلوک ہے جس میں اکراہ وزبردستی کا پہلو موجود نہ ہو، طبع انسانی اُسے فوراً قبول کرلے اور وہ عقل وقلب دونوں کو متاثر کرے۔ (البحرالمحیط ۵/۵۳۰)

            اسی طرح لوگوں کے مزاج، ان کی افتاد طبع اورموقع محل کے مطابق کلام بھی حکمت میں داخل ہے، موعظۂ حسنہ کا مطلب ہے کہ مخاطب کی خیرخواہی کی بات اس طرح اس کے سامنے بیان کی جائے کہ وہ اس کے لیے قابل قبول ہو اور اس کا دل اس کے لیے نرم پڑجائے۔

            مجادلۂ حسنہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مخاطب کو مطمئن اور قائل کرنے کے لیے محبت، اعتماد، معقول دلیل اور حسن استدلال سے کام لیا جائے؛ چنانچہ مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں سے مناظرہ اسی قبیل سے ہے۔

            اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اسالیب دعوت کو اختیار کرتے ہوئے اصول تدریج کو بھی اپنایا ہے؛ چنانچہ مکہ کا انداز الگ ہے اور مدینہ کا انداز الگ ہے۔ اور ہمیشہ آپ نے دعوت میں نرم روی کو اپنایا ہے جس کی شہادت خود قرآن کریم دے رہا ہے:

          ’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظّاً غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الأَمْرِ‘‘ (آل عمران:۱۵۹)

            ’’بعد اس کے خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ تندخو اور سخت طبیعت ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے، سو آپ ان کو معاف کردیجیے اور آپ ان کے لیے استغفار کردیجیے اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔‘‘

            اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ دعوت میں جو کہ اشاعت اسلام کا بنیادی ذریعہ ہے؛ کہیں تشدد، تندخوئی اور اکراہ وجبر کا عنصر ہرگز نظر نہیں آئے گا۔

ہجرت

            ہجرت اسلام کی ترقی اوراس کی بنیادوں کے استحکام کا نقطئہ آغاز ہے۔ حبشہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو ایک گونہ اطمینان نصیب ہوا، اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد ایک نئی اسلامی مملکت کی تشکیل عمل میں آئی اوراشاعت اسلام کی نئی تاریخ رقم ہوئی؛ لیکن یہاں بھی جبر وسختی کا کوئی مطلب نہیں ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان اصحاب کے ہمراہ ہجرت کی تھی جو انتہائی مظلوم ومقہور تھے اور انصار مدینہ جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کررکھا تھا اور ہجرت کے بعد مسلمانوں کو پناہ اور ٹھکانہ دیا تھا، وہ بھی ہجرت سے قبل ہی آپ کی طاعت وغلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال چکے تھے۔

            حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ رقم طراز ہیں :

            ’’ہجرت کو اسلام کی اصلی شوکت وعظمت کا زمانہ سمجھا جاتا ہے اور حقیقت میں اسلام کی ترقی کا زمانہ اسی وقت سے شروع ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدا ہجرت سے کی گئی؛ لیکن ہمارے سابق بیان سے معلوم ہوچکا ہے کہ ہجرت سے پہلے ہی اسلام اصولاً مستحکم ومضبوط ہوچکا تھا، مکہ معظمہ کے سب سے بڑے خاندانوں میں باوجود سخت سے سخت مزاحمتوں کے اسلام اپنا رنگ جما چکا تھا۔ مدینہ کے قبیلۂ اوس وخزرج کے لوگ اس وقت مسلمان ہوئے جب کہ اہل مدینہ کے نزدیک اسلام سے بڑھ کر کوئی جرم نہ تھا؛ اسلام کی اشاعت کی رفتار (ہجرت کے بعد) بھی ویسی ہی تھی جو قبل ازہجرت نہایت مظلومی اور بے بسی کے زمانے میں تھی۔ اسلام جس قدر پھیلا انھیں خوبیوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور برگزیدہ تعلیم کی وجہ سے پھیلا۔ جس نے اسلام قبول کیا بہ طوع ورغبت قبول کیا۔ غالباً کوئی مخالف بھی کسی ایک تاریخی صحیح واقعہ کے حوالے سے ثابت نہ کرسکے گا کہ کسی ایک شخص کو بھی بہ زور مسلمان بنایا گیا ہو۔‘‘ (اشاعت اسلام حصہ اول، ص۴۷، ۵۳، شیخ الہنداکیڈمی دارالعلوم دیوبند)

مصالحت

            محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم جس مذہب کولے کر آئے، وہ امن وسلامتی اور صلح وآتشی کا مذہب ہے۔ زندگی بھر آپ نے صلح کو ترجیحی بنیاد پر اختیار کیا، خود قرآن مقدس نے آپ کو حکم دے رکھا ہے کہ اگر فریق مخالف صلح کی پیش کش کرے تو آپ اللہ پر بھروسہ کرکے اس پیش کش کو قبول کرلیں ۔

          ’’وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ‘‘ (الأنفال:۶۱)

            ’’اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جائیے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

            میدان کارزار میں مقابلے سے پہلے اسلام بہ صورتِ دیگر جزیہ کی پیش کش بھی اسی صلح پسند اسلامی روایت کا حصہ ہے جس کی رو سے مسلمان معمولی معاوضے کے عوض خون کے پیاسے جانی دشمنوں کی جان ومال کی حفاظت کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں ۔

            ۶ھ میں صلح حدیبیہ کا جو انتہائی اہمیت کا حامل واقعہ پیش آیا ہے، اس سے صاف واضح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ وجدل سے کس قدر گریزاں تھے اور امن وسلامتی کی قیمت پر طاقت وقوت کے باوجود سخت شرائط کو بھی منظور فرمالیتے تھے۔

            ذی قعدہ ۶ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، لڑائی کا ارادہ بالکل نہیں تھا؛ لیکن قریش مرنے مارنے پر تیار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفیر قریش کے پاس بھیج کر واضح کردیا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں اور بہتریہ ہے کہ قریش تھوڑی مدت کے لیے ہم سے صلح کا معادہ کرلیں ۔ اس کے بعد بھی قریش لڑنے کے لیے ایک دستہ بھیجتے ہیں جس کو پکڑلیا جاتا ہے؛ لیکن رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسے معافی دے کر چھوڑ دیتے ہیں ۔ قریش کی طرف سے کئی قاصد آتے ہیں ؛ لیکن بات نہیں بنتی ہے۔ ادھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پھیل جاتی ہے جس سے مسلمانوں میں زبردست ہیجان اور جوش پیداہوجاتا ہے۔ اس ساری صورت حال کے بعد قریش صلح پر آمادہ ہوجاتے ہیں جس کی اہم دفعات یہ تھیں : فریقین میں دس سال تک لڑائی موقوف رہے گی۔ مسلمان اس سال واپس جائیں اور ا گلے سال تین دن کے لیے آئیں ، تلوار کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور تلواریں بھی میان میں ہوں ، جاتے وقت مکہ میں جو مسلمان رہ گئے ہیں ان کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں ، قریش میں سے کوئی مسلمان ہوکر مدینے چلا جائے تو واپس کردیا جائے اور اگر کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکے چلا آئے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔

            یہ شرطیں ظاہر ہے مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت ناگواری ہورہی تھی؛ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جنگ بندی کی پیش کش کی تھی اور آپ ان سخت شرائط پر بھی رضامند ہوگئے تھے؛ اس لیے کس کو انکار کی جرأت ہوسکتی تھی۔ بعد میں یہی صلح مسلمانوں کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہوئی، خود اللہ رب العزت نے اس کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا۔ اس صلح کے نتیجے میں اسلام کو اپنی اشاعت کی آزادی کا حق مل گیا۔ جنگ بندی کے نتیجے میں کافروں کو مسلمانوں سے ملنے جلنے اور ان کی باتوں کو سننے اور اسلام کے روحانی انقلاب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، نتیجہ یہ ہوا کہ دوبرس کے اندر مسلمانوں کی تعداد دوگنی ہوگئی۔

            دیکھیے جنگوں سے نہیں ؛ بلکہ صلح سے اسلام کو غیرمعمولی اشاعت نصیب ہوئی۔ اس طرح صلح خود اسلام کی ضرورت ہے۔

مکاتبت

            ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد جب قریش کی طرف سے ایک گونہ اطمینان  ہوا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ بلاتفریق رنگ ونسل اور قوم ووطن پوری دنیا ئے انسانیت کے لیے ہادی اور مصلح بناکر بھیجے گئے تھے؛ لہٰذا شاہانِ عالم تک دعوت حق پہنچانے کے لیے آپ نے خطوط روانہ کیے، حبشہ کے بادشاہ نے اسلام قبول کرلیا، شہنشاہ ایران نے غصے سے خط کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خائب وخاسر ہوا، شاہ مصر نے شائستگی سے جواب دیا؛ جب کہ شاہ روم ابوسفیان سے مکالمے کے بعد صداقت کا قائل ہونے کے باوجود سلطنت کے چھن جانے کے خوف سے قبول حق نہیں کرسکا۔ جب کہ کئی رئوسائے عرب نے بھی اسلام کا کلمہ پڑھ لیا۔ ’’یہ وقت تھا کہ اسلام کی قوت خاص قبائل عرب میں بھی مستحکم نہ ہوئی تھی، اندرونی اور بیرونی دشمن پیچھے لگے ہوئے تھے، ایسی حالت میں زبردست بادشاہوں پر کیا اثر پڑسکتا تھا؟ کون سا عقل کا دشمن ہے جو یہ کہے کہ آپ نے شاہان دنیا سے قوت اور شوکت کی بنیاد پر مراسلت کی تھی، یا آپ کے پاس ایسا ظاہری سازوسامان تھا جس کو دیکھ کر کسی بادشاہ پر رعب پڑتا؟ نہیں ؛ بلکہ آپ کو حکم تھا کہ حق کا پیام سب کو پہنچادو، آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور سب کے پاس قریب قریب ایک ہی مضمون کے خط بھیج دیے، خطوط کا مضمون گو بالکل سادہ اورنہایت مختصر تھا؛ مگر اس کے اندر روحانی قوت مضمر تھی جس کی وجہ سے وہ قلوب جن کو حق وناحق کی تمیز اور صادق وکاذب کے ادراک کا مادہ تھا؛ بغیرمرعوب ومتاثر ہوئے نہیں رہ سکتے تھے۔‘‘ (اشاعت اسلام ۱/۷۰)

بعض مخالفین کا اعتراف حقیقت

            اب اس باب میں خود بعض مستشرقین وہندومؤرخین کے اعترافات پر اس مضمون کو ختم کیا جارہا ہے: برطانوی مصنفہ کرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب Muhammad western attempt to understanding Islam میں حقیقی صورت حال کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

            ’’محمد(ﷺ ) ایک ایسے مذہب اور تہذیب کے بانی تھے جس کی بنیاد تلوار پر نہ تھی، مغربی پروپیگنڈے اور افسانہ کے باوجود اسلام کا نام امن اور صلح کا مفہوم رکھنے والا ہے۔‘‘ (دیکھیے کتاب مذکور کا ص۲۶۶)

            ارتھر گلیمن فتح مکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح درحقیقت دنیا کی فتح تھی، سیاست کی فتح تھی، انھوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو مٹاڈالا اور ظالمانہ نظام سلطنت کو جڑ سے اکھاڑدیا۔‘‘ (Iihad.com)

            بی ایس رندھاوا ہوشیارپوری لکھتے ہیں :

            کوشش کی گئی ہے کہ پیغمبراسلام کو ایک خون خوار اور بے رحم انسان دکھایا جائے اور خواہ مخواہ دوسروں کو ان سے نفرت دلائی جائے،اس کا بڑا سبب یہ ہوا ہے کہ حضرت محمد ﷺ  کی لائف پر تنقید کرنے والوں نے اسلامی تاریخ اور بانی اسلام کی صحیح سیرت کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی؛ بلکہ سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں کو سرمایہ بناکر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی۔ (رسالہ مولوی ربیع الاول ۱۳۵۱÷)

            ایک اور ہندو مفکر راجندرنرائن نے لکھا ہے:

            ’’سب سے جارحانہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، اگر ایسا نہیں ہے تو دنیا میں متعدد مذاہب کے ہوتے ہوئے اسلام ہی معجزاتی طور پر دنیا بھر میں کیسے پھیل گیا؟ اس سوال یا شبہ کا مختصراً جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں اسلام کے اس نئے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی، سابقہ دھرموں کے بے کردار، پیروکاروں نے دھرم کو بھی بھرشت کردیا تھا؛ اس لیے انسانی فلاح کی خاطر اللہ کی مرضی کے مطابق اسلام کامیاب ہوا اور دنیا بھر میں پھیلا، تاریخ اس کی گواہ ہے۔‘‘ (سہ روزہ دعوت دہلی، ۲۸؍جولائی ۲۰۰۳÷، ص۲۰)

            غرض یہ کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ محسن انسانیت ﷺ  پر سخت گیری اور تلوار کے زور پر جہاں بانی کا الزام محض حقائق سے لاعلمی یا تعصب وعناد پر مبنی ہے۔ قرآن مقدس، دلائل عقلیہ اور تاریخی شواہد بہ جبر واکراہ کسی کو مسلمان بنانے کی سختی سے نفی کرتے ہیں ۔ جہاد کا مقصد بھی شروفساد کا خاتمہ، عدل وانصاف کا راج قائم کرنا، ہر شخص کو قبول حق کی آزادی فراہم کرنا اوراس راہ کے روڑے کو ہٹانا ہے۔ اشاعت اسلام کے لیے دعوت، مصالحت، ہجرت اورمکاتبت کی راہ اپنائی گئی ہے شمشیر خارا شگاف سے دلوں کو فتح نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں ، پیغمبر اسلام ﷺ  کے مکارم اخلاق، مطابق فطرت بلند پایہ تعلیمات، ہمدردی ومساوات اور اعلیٰ کردار سے پھیلا ہے۔ تلوار کے زور سے نہیں ۔

          ’’یُرِیدُونَ لِیُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَـٰـفِرُونَ‘‘ (الصف:۸)

            ’’یہ لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھادیں ؛ حالاں کہ اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچاکر رہے گا گو کافر کیسے ہی ناخوش ہوں ۔‘‘

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts