از: مولانا مفتی توقیر عالم قاسمی

سابق استاذ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان

تقوی کی تعریف

          التقوٰی مِن الوقایۃِ: وھيامتثالُ أوامرِہ تعالی واجتنابُ نواہیہ بفعلِ کلّ مأمورٍ بہ، وترکُ کلّ منہیّ عنہ حسبَ الطاقۃِ، مَن فَعَلَ ذلکَ فہو من المتقینَ۔ (دلیل الفالحین لطریق ریاض الصالحین:۱/۲۵۰)

            تقوی کہتے ہیں : اللہ تعالی کے اوامر کے امتثال کوبقدر استطاعت ہر حکم کی بجاآوری کے ذریعہ  اور اللہ کے نواہی سے اجتناب کو بقدر استطاعت ہر اس چیز کو ترک کرکے جس سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے ۔ پس جس نے ایسا کیا وہ متقین میں سے ہے۔

            قال عمر بن عبد العزیزؒ: لیس تقو ی اللّٰہ بصیامِ النہارِ، ولابقیامِ اللیلِ، والتخلیطِ فی ما بینَ ذلکَ، ولکنّ تقوٰی اللّٰہِ ترکُ ماحرّم اللّٰہُ، وأدائُ ما افترضَ اللّٰہُ، فَمَنْ رُزِقَ بعدَ ذلکَ خیراً فہوَ خیرٌ الی الخیرِ۔ (الدر المنثور:۱/۶۳۔ جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلیؒ:۴۰۰)         

            ترجمہ: حضرت عمر بن عبد العزیزؒنے فرمایا: اللہ کاتقوی دن میں روزہ رکھنے، رات میں عبادت کرنے اور رات و دن ریاضت ومجاہدہ کرنے سے نہیں ہے؛ بلکہ اللہ کا تقوی اس چیز کو چھوڑنا ہے جو اللہ نے حرام کیا ہے اور اس چیز کو ادا کرنا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے  اور جس شخص کو اس کے بعد خیر اور بھلائی کی توفیق ملی تو وہ خیر ہی خیر ہے۔

            قال ابنُ عمرؓ: التقوٰی أن لا تری نفسَک خیرًا مِن أحدٍ۔( تفسیر مظہری: ۱/۲۴)

            ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: تقوی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو کسی سے بہتر اور افضل مت سمجھو۔

          وقیل التقوی: الاقتدائُ بالنبيّصلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وأصحابِہ۔ (تفسیر الخازن: ۱/۲۴)

            ترجمہ: بعض علمانے کہا ہے کہ تقوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓکی اقتدا کرنا ہے۔

          التقوی: امتثالُ الأوامرِ واجتنابُ النواہِي۔ (مرقاۃ:۴/۱۶۹۱)

            ترجمہ:  تقوی امتثالِ اوامر اور اجتنابِ نواہی کو کہتے ہیں ، یعنی اللہ تعالی نے جن چیزوں کو کرنے کے لیے کہا ہے ان کو کرنا اور بجا لانا اور جن کاموں سے روکا اور منع کیا ہے ان سے رک جانا اور ان کو نہ کرنا۔

            اور کبھی تقوی کا استعمال اجتنابِ محرمات پر غالب آجاتاہے جیساکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے تقوی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:کیاتم کبھی کانٹے والے راستے سے گزرے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ، حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: تم اس وقت کیا کرتے ہو؟ قال إذا رأیتُ الشوکَ عدلتُ عنہ، أو جاوزتُہ، أو قصرتُ عنہ، قال: ذاک التقوٰی۔  اس نے کہا جب میں کانٹا دیکھتا ہوں تو اس سے بچ کر نکل جاتا ہوں ، یا راستہ بدل لیتا ہوں ، حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: یہی تقوی ہے(کہ محرمات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرو، جس طرح تم اپنے آپ کو کانٹے سے بچاتے ہو)۔  (جامع العلوم والحکم:۴۰۲)

تقوی اللہ کے معنی

            جب لفظ تقوی کی نسبت اللہ کی ذات کی جانب ہو جیسا کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں آیاہے ’’اتقوا اللّٰہ‘‘  تو اس کے معنی ہیں اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب سے ڈرو اور بچو، اور یہی وہ سب سے بڑ ی چیز ہے جس سے ڈرنا چاہیے؛ اس لیے کہ اللہ کے غضب و غصہ اور ناراضگی ہی سے اللہ کا دنیوی واخروی عذاب رونما ہوتاہے۔ (جامع العلوم والحکم: ۱/۳۹۸)

متقی اور متقین کس کو کہتے ہیں ؟

            حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : الذینَ یحذرونَ من اللّٰہ عقوبتَہ فی ترکِ ما یعرفونَ من الہدٰی، ویرجونَ رحمتَہ فی التصدیقِ بما جاءَ بہ۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۵۳۔ تفسیر طبری: ۱/۲۳۲)

            ترجمہ:متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ سے اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اس ہدایت کو چھوڑنے میں جس کو انہوں نے پہچانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اس چیز کی تصدیق میں جس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔

            حضرت معاذ بن جبلؓ نے متقیوں کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے: المتقونَ قومٌ اتقوا الشرکَ وعبادۃَ الأوثانِ، وأخلصُوا للّٰہِ العبادۃَ، فمرّوا إلی الجنۃِ۔(تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۵۳، سورۂ بقرہ آیت:۱)

            ترجمہ: متقین وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرک اور بتوں کی عبادت سے اپنے آپ کو بچایااور محفوظ رکھااور اپنی عبادت کو اللہ کے لیے خالص کیا، پس وہ جنت پہنچ گئے۔

            اورحضرت حسن بصریؒ نے متقین کا تعارف ان الفاط سے کرایا ہے: المتقینَ: اتقوا ما حرّم اللّٰہ علیہم، وأدّوا ما افترضَ علیہم۔(تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۵۳، ۱۵۴۔ تفسیر طبری: ۱/۲۳۲،۲۳۳)

            ترجمہ: متقی وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں سے بچیں جو اللہ نے ان پر حرام کیا ہے اور اس چیز کو ادا کریں جو اللہ نے ان پر فرض کیا ہے۔

            صاحب تفسیر مظہریؒ نے متقی کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے: والمتقی من یقي نفسَہ عما یضرّہ فی الآخرۃِ من الشرکِ، وذلکَ أدناہ، ومن المعاصي، وذلکَ أوسطُہ، ومن الاشتغال بما لایعنیہ، ویشغلہ عن ذکر اللّٰہ تعالی، وذلکَ أعلاہ، وہو المرادُ بقولہ تعالی: حَقَّ تُقَاتِہِ۔ (۱/۲۳،۲۴)

            ترجمہ:متقی وہ شخص ہے جواپنے آپ کوشرک سے بچائے جو آخرت میں اس کو نقصان پہنچانے والاہے۔ پھر تقوی کی تین قسمیں ہیں : (۱) شرک سے بچنا۔ اور یہ ادنی درجہ ہے۔ (۲) گناہوں سے بچنا ہے۔ اور یہ اوسط درجہ ہے۔ (۳) لایعنی باتوں اور چیزوں میں اشتغال سے بچنااور ایسی چیز میں اشتغال سے بچنا اور احتراز کرنا جو آدمی کو اللہ کے ذکر سے غافل کردے۔ اور یہ تقوی کا سب سے اعلی درجہ ہے اور یہی مراد ہے اللہ تعالی کا قول:   ’’حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘  سے۔یعنی اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

            اور ملا علی قاریؒ نے فرمایا: المتقي فی الشریعۃِ: الذي یقي نفسَہ تعاطي ما یستحقّ بہ العقوبۃَ مِن فعلٍ أو ترکٍ۔(مرقاۃ:۳/۱۱۳۶،تحت رقم حدیث: ۱۵۵۵)

            ترجمہ: شریعت میں متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو اس چیز کے ارتکاب سے بچائے جس سے وہ عذاب وسزا کا مستحق ہوگا، خواہ اس کا تعلق عمل سے ہو جیسے شراب پینا، یاترکِ عمل سے ہو جیسے غیبت نہ کرنا، سود نہ کھانا۔

            اور حضرت شہر بن حوشبؓ نے فرمایا: المتقي الذی یترکُ ما لابأسَ بہ حذرًا عمّا بہ بأسٌ۔ (تفسیر مظہری:۱/۲۴)

            ترجمہ: متقی وہ آدمی ہے جو اس چیز کو چھوڑدے جس میں کوئی قباحت نہ ہواس چیز سے بچنے کے لیے جس میں کوئی قباحت ہو۔

            اور تفسیر قرطبی میں ہے: المتقي الذي یتّقي بصالح عملِہ وخالصِ دعائِہ عذابَ اللّٰہِ تعالی۔ (تفسیر قرطبی: ۱/۱۶۱)

            ترجمہ: متقی وہ شخص ہے جو اپنے نیک عمل اور خالص دعا کے ذریعہ اللہ تعالی کے عذاب سے بچے۔

            حضرت نعمان بن بشیرؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: الحلالُ بیَنٌ والحرامُ بیّنٌ وبینہما أمورٌ مشتبہاتٌ لایعلمُہا کثیرٌ من الناسِ، فمن اتَّقٰی الشبہاتِ اِسْتَبْرَأ لِعِرضِہ ودینِہ، ومَن وَقَعَ فی الشبہاتِ وقع فی الحرامِ۔ (مسلم ۱۰۷،۱۰۸- ۱۵۹۹۔ بخاری: ۵۲۔تفسیر مظہری:۱/۲۴)

            یعنی بہت ساری چیزیں حلال ہیں اور ان کا حلال ہونا واضح ہے، اور بہت ساری چیزیں حرا م ہیں جن کا حرام ہوناواضح  ہے اور ان دونوں کے درمیان بہت سے معاملات ایسے ہیں جو مشتبہ ہیں ، جن کے بارے میں پتہ نہیں چلتاکہ حرام ہے یا حلال، آپ نے فرمایا کہ جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچااس نے اپنی عزت وآبرو اور دین کو پاک وصاف کرلیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں واقع ہوا تو وہ حرام میں بھی واقع ہوگا۔

            حضرت بایزید بسطامیؒ نے فرمایا: المتقي: مَن إذَا قال: قال للّٰہِ، ومَن إذا عمِل عمِل للّٰہِ۔  (تفسیر قرطبی: ۱/۱۶۱)

            ترجمہ: متقی وہ شخص ہے کہ جب بولے تو اللہ کے لیے بولے اور جب عمل کرے تواللہ کے لیے عمل کرے، یعنی متقی کا ہر قول وعمل اللہ کے لیے ہوتا ہے۔

            اور ابو سلیمان دارانیؒ نے فرمایا: المتقونَ الذینَ نَزَعَ اللّٰہُ عن قلوبِہم الشہواتِ۔ (تفسیرقرطبی: ۱/۱۶۱)

            ترجمہ: متقی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں سے اللہ تعالی نے شہوتوں کو نکال دیا ہے۔

            اور ملا علی قاریؒ نے مرقاۃ شرح مشکاۃ میں فرمایا:المتقونَ الذینَ یجتنبونَ الأفعالَ الدنیئۃَ والأقوالَ الردیئۃَ۔(مرقاۃ:۵/۱۹۰۱،تحت رقم حدیث: ۱۵۵۵)

            ترجمہ: متقی وہ لوگ ہیں جو گھٹیا افعال اور برے اقوال سے اجتناب واحتراز کریں ۔

متقی کو متقی کیوں کہتے ہیں ؟

          قال الثوری: إنّما سمّوا المتقینَ لأنّہم اتقوا مایُتقی۔ وقال موسی بن أعین: المتقونَ تنزّہوا عن أَشیاءَ من الحلالِ مخافۃَ أن یقعوا فی الحرامِ، فسمّاہم اللّٰہُ متقینَ۔ (جامع العلوم والحکم: ۴۰۲)

            ترجمہ: امام سفیان ثوری ؒنے فرمایاکہ متقیوں کا نام متقین اس وجہ سے رکھا گیاکہ وہ لوگ اس چیز سے بچے(تقوی اختیار کیا) جس سے ان کو بچنے کے لیے کہا گیا (تقوی اختیار کرنے کے لیے کہا گیا)۔ اور موسی بن اعینؒ نے فرمایا کہ متقی لوگ بہت سی حلال چیزوں سے بچتے ہیں اس ڈر سے کہ حرام میں واقع نہ ہوں ؛اس لیے اللہ نے ان کا نام متقین رکھا۔

متقی ہونے کی علامتیں

            حضرت مالک بن انسؒ، وہب بن کیسان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے عبد اللہ بن زبیرؓ کو نصیحت لکھ کر بھیجی،جس کا مضمون یہ تھا: أما بعد! فإنّ لأہلِ التقوٰی علاماتٌ یُعرفون بہا، ویَعرفونہا من أنفسہم، مَن صبر علی البلائِ، ورضِي بالقضائِ، وشَکَرَ النعمائَ، وذلّ لحکمِ القرآنِ۔   (الدر المنثور: ۱/۶۲)

            ترجمہ:بعد حمد و صلاۃ! بے شک اہلِ تقوی کی کچھ علامتیں اور نشانیاں ہیں ، جن کے ذریعہ وہ پہچانے جاتے ہیں ، اور جن کے ذریعہ خود اہلِ تقوی اپنے اندر تقوی کو پہچان پائیں گے۔ (۱) جو شخص بلا اور مصیبت پر صبر کرے (۲) اللہ کا فیصلہ اور نوشتۂ تقدیر پر راضی رہے (۳) نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے (۴)  اورقرآن کے حکم کے سامنے سرنگوں ہو جائے اور اس پر عمل کرے۔

          وعن ابنِ المبارکِ، قال داؤدُ لابنہ سلیمانَ علیہ السلامُ: یا بُنَيّ! إنّما تستدلّ علی تقوٰی الرجلِ بثلاثۃِ أشیائَ، لِحسنِ توکّلہ علی اللّٰہ فیما نَابَہ، ولِحسنِ رضاہ فیما أتاہ، ولِحسنِ زہدِہ فیما فَاتَہ۔ (الدر المنثور: ۱/۶۲)

            ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ سے مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام سے فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے! آدمی کے تقوی پر تین چیزوں کے ذریعہ استدلال کیا جاتا ہے یعنی جس آدمی میں تین علامتیں پائی جائیں اس کو متقی کہا جائے گا: (۱)جو چیز (یعنی حادثات اور واقعات ) اس کو پیش آئے اس بارے میں اللہ پر اچھی طرح توکل کرے (۲)اللہ نے جو کچھ اس کو عطا کیا ہے اس پر اچھی طرح راضی رہے (۳) اور جو چیز اس سے فوت ہوجائے اس میں اچھی طرح زہد اختیار کرے، اس سے بے رغبتی ظاہر کرے۔

            امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی تقوی کی لگام کو مظبوطی سے تھامے گا اس کا فائدہ اور اس کی غایت یہ ہوگی کہ وہ اپنے اعضاء وجوارح کو شہوتوں کے ارتکاب سے روکے گا، پس وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے گا اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے گا۔  (احیاء العلوم:۲/۲۸)

متقیوں کی صفات قرآن میں

            قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے متقیوں کی صفات کو ذکر فرمایا ہے، ہم اپنی جستجو کے مطابق کچھ آیتیں ذکر کرتے ہیں :

            (۱)  سورۂ بقرہ آیت نمبر:۲،۳،۴، میں متقیوں کے حسب ذیل اوصاف مذکور ہیں :

            متقین وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ، ہمیشہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ،اللہ کے عطاکردہ مال میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس سے پہلے نبیوں پر جو کچھ نازل ہوا اس پر ایمان ر کھتے ہیں اور وہ آخرت کو یقینی جانتے ہیں ۔

            (۲)  سورۂ بقرہ آیت نمبر:۱۷۷،میں متقیوں کے حسب ذیل اوصاف مذکور ہیں :

            متقین وہ ہیں جو اللہ پر، قیامت کے دن پر،فرشتوں ، کتابوں ، اور نبیوں پر ایمان لائیں ، اللہ کی محبت میں رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ،مسافروں اور مانگنے والوں کو مال دیں اور غلاموں کوآزاد کرانے میں مال خرچ کریں ،نماز قائم کریں ، زکاۃ اداکریں ،جب کسی سے عہد کریں تو عہد کو پورا کریں ،سختی میں ، تکلیف میں ، اور لڑائی کے وقت صبرکرنے والے ہوں ۔ مذکورہ اوصاف ہیں صادقین اور متقین کے۔

            (۳)  سورۂ آل عمران آیت نمبر:۱۳۴،۱۳۵، میں متقیوں کے حسب ذیل اوصاف مذکور ہیں :

            متقین وہ ہیں جومال خرچ کرتے ہیں خوشی میں بھی اور تکلیف میں بھی، غصہ کو دبا لیتے اور پی جاتے ہیں ، لوگوں کو معاف کرتے ہیں ، جب کوئی کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں ،یا کوئی برائی کرکے اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت مانگتے ہیں اور اپنے کیے ہوئے اعمالِ بد پر اصرار نہیں کرتے،اڑتے نہیں ہیں ۔

            (۴)  سورۂ نازعات آیت نمبر:۴۰،۴۱، میں متقیوں کے حسب ذیل اوصاف مذکور ہیں :

            متقی وہ ہے جو قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے۔

            (۵)  سورۂ اللیل آیت نمبر:۱۷،۲۱، میں متقی کا یہ وصف مذکور ہے:

            سب سے بڑے متقی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنا مال صدقہ وخیرات کرتا ہے؛ تاکہ نفس‘  رذیلۂ بخل وطمع سے پاک ہو جائے۔

            (۶)  سورۂ زمر آیت نمبر: ۳۳، میں متقیوں کے دو وصف بیان ہوئے ہیں :

            سچی بات لے کر آئیں اور ہمیشہ سچ کہیں اور اس کی تصدیق کریں ۔

            (۷)  سورۂ  الذاریات آیت نمبر:۱۵-۱۹، میں متقیں کے د رج ذیل اوصاف مذکور ہیں :متقی وہ ہیں جو اپنے رب کے دیے ہوئے مال اور نعمتوں کو خوشی خوشی قبول کرتے ہیں ۔ نیکی کا کام کرتے ہیں ۔ رات کو بہت کم سوتے ہیں ؛ بلکہ رات کا اکثر حصہ عبادتِ الٰہی میں گزارتے ہیں اور سحر کے وقت جب را ت ختم ہونے کو آتی ہے تو اللہ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہیں ۔سائلوں اور محتاجوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔

            (۸) سورۂ اعراف آیت نمبر:۲۰۱، میں متقیوں کی یہ صفت بیا ن ہوئی ہے:

             متقین پر جب شیطان کا گذرہوتا ہے اور ان سے کوئی کوتاہی اور برائی ہوجاتی ہے تو وہ غفلت میں پڑے ہوئے نہیں ہوتے؛ بلکہ فورا اللہ کو یاد کرکے چونک اٹھتے ہیں اور بہت جلد نازیبا کام سے رک جاتے ہیں ،جب کہ غیر متقی میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔

متقی کو آلِ محمد ہونے کی بشارت

            حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کون محمد کی آل ہیں ؟ آپ نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا کہ تم سے پہلے مسلمانوں نے اس بارے میں سوال نہیں کیا ہے، لہٰذا سنو!   ’’آلُ محمدٍ کلُّ تقيٍّ‘‘۔ محمد کی آل ہر متقی ہے۔ (بحر الفوائد المسمٰی بمعانی الأخبار:۱/۳۰۶)

متقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت

            حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو گورنر بنا کر یمن بھیجا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ گھر سے باہرنکلے اور رخصت کرتے ہوئے بالکل اخیر میں ان سے فرمایا:  ’’ إِنّ أولی الناسِ بي المتقونَ مَن کانُوا، وحیثُ کانُوا‘‘۔  قیامت کے دن یا جنت میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب متقین ہوں گے، جو بھی ہوں اور جس جگہ کے بھی ہوں ۔ (مسند أحمد حدیث نمبر: ۲۲۰۵۲)

            اور حکم بن میناءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’ یا معشرَ قریشٍ! اعلموا أنّ أولَی الناسِ بي المتقونَ‘‘۔اے جماعتِ قریش!جان لو کہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب متقین ہوں گے۔  (الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم حدیث: ۲۷۷۸)

            اور عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّما أولیائي المتقونَ۔ بے شک میرے دوست اور ناصر و مددگار متقین ہیں ۔   (ابوداؤد حدیث نمبر: ۴۲۴۲)

متقیوں کوبشارت

            حضرت قتادہؒ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالی نے جنت کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا: بات کرو! جنت نے کہا: ’’طوبٰی للمتقینَ‘‘  متقیوں کے لیے خوش خبری ہے۔

            اور مالک بن دینارؒ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ’’القیامۃُ عرسُ المتّقینَ‘‘۔ قیامت متقیوں کی دلہن ہے۔

            اللہ تبارک وتعالی نے متقیوں کو اپنی کتاب قرآن کریم میں بہت سے انعامات اور خصوصیات سے نوازا اور شرف بخشا ہے:جیسے اللہ تبارک وتعالی نے ان کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے، دشمنوں سے حفاظت اور نصرت ومدد کا وعدہ کیا ہے، شدائد وتکالیف سے نجات اور رزقِ حلال کا وعدہ کیا ہے، اصلاحِ اعمال، مغفرتِ ذنوب، قبولیت، عند اللہ اکرام واعزاز، جہنم کی آگ سے نجات، اور جنت میں ہمیشہ کے لیے قیام کی بشارت سنائی ہے، سب سے بڑی چیز اپنی محبت کا مژدہ سنایا ہے، نیز یوم آخرت میں خوف وحزن نہ ہونے اوردنیا وآخرت میں فوز وفلاح اور عظیم کامیابی سے نوازا ہے۔ (دلیل الفالحین لطریق ریاض الحالحین: ۱/۲۵۰)

تقوی کے اقسام

            تقوی کی تین قسمیں اور درجے ہیں :

            تفسیر بیضاوی میں ہے: للتقوٰی ثلاثُ مراتبَ، الأولی التوقّي من العذابِ المخلدِ بالتبرّي من الشرکِ، وعلیہ قولُہ تعالی: وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی۔ الثانیۃ: التجنّبُ عن کلّ ما یؤثمُ من فعلٍ أو ترکٍ حتی الصغائرعند قومٍ، وہو المتعارفُ باسم التقوٰی، وہو المعنی بقولہ تعالی: وَلَوْأَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی آمَنُوْا وَ اتَّقَوْا، والثالثۃُ: أن یتنزّہ عمّا یشغلُ سِرَّہ عن الحقّ، ویتبتّل بشراشرِہ، وہو التقوٰی الحقیقِي المطلوبُ بقولہ: ’’یَا أَیُّہَا الْذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘۔ (۱/ ۳۶)

            تقوی کے تین درجے اورقسمیں ہیں : (۱)شرک سے برأت ظاہر کرکے دائمی عذاب سے بچنا اور نجات پانا۔اللہ تعالی کا قول: ’’وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی‘‘ اور اللہ نے ان مومنوں کو پرہیزگاری کی بات یعنی تقوی پر قائم رکھا۔ اسی معنی پر محمول ہے۔ (۲) ہر قسم کے گناہ سے بچنا یہاں تک کہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق صغائر سے بھی احتراز کرنا، چاہے ان کا تعلق عمل سے ہو(جیسے شارب پینا، سود کھانا) یا ترکِ عمل سے ہو(جیسے غیبت نہ کرنا، رشوت نہ لینا)۔ اور عرف میں اسی کو تقوی کہتے ہیں اور یہی معنی ہیں اللہ تعالی کے اس قول کے: ’’وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی آمَنُوْا وَاتَّقَوْا‘‘۔ اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیز گار ہوجاتے (۳) اور تیسرے درجے کا تقوی یہ ہے کہ بچے اس چیز سے جو اس کے باطن کو حق (اللہ) سے غافل کردے اور اپنے نفس اور پورے جسم کے ساتھ دنیا سے بے رغبت وبے تعلق ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ اور یہی حقیقی تقوی ہے، جو اللہ تعالی کے اس قول سے مطلوب ہے:  ’’ یَا أُیُّہَا الْذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ‘‘۔  یعنی اے مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

            اور تفسیر راغب اصفہانی میں ہے:

          ولہا (للتقوی) منازلُ، الأول ترکُ المحظورِ، والثانی أن یتعاطٰی الخیرَ مِن تجنّب الشرّ، والثالثُ: التبرّؤ مِن کلّ شئٍ سِوی اللّٰہ عزّ وجلّ، فلاسکونَ إلی النفسِ ولا إلی شئٍ مِن القنیاتِ والجاہِ والأعراضِ، وہو المعنی بقولہ: اِتَّقُوْااللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ۔ (۱/۷۷، ۸۸)

            ترجمہ: تقوی کے چند درجے ہیں : (۱) ممنوع اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا۔ (۲) شر اور برائی سے بچتا ہوا کار خیر میں مشغول رہنا۔ (۳)اللہ تبارک وتعالی کے سوا ہر چیز سے برأت ظاہر کرنا، پس نفس کو سکون حاصل نہ ہو، نہ مال ومویشی سے اور نہ جاہ ومنصب سے۔ اللہ تعالی کا قول: ’’اتقوا اللّٰہ حق تقاتہ‘‘ کے یہی معنی ہیں ۔ یعنی اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

            اور مرقاۃ میں ہے: التقوٰی ولہ مراتبُ: أدناہا التقوٰی عن الشرکِ الجلي، وأوسطُہا عن المعاصي والمناہي والملاہي، وعن الشرکِ الخفي، وہو الریائُ والسُمعۃُ فی الطاعۃِ، وأعلاہا أن یکونَ دائمَ الحضورِ من اللّٰہ غائباً عن حضورِ مَا سِواہ، وإلیہ الأشارۃُ فیما رُوِيَ عنہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’مافضّلکم أبوبکرٍ بفضلِ صومٍ ولا صلاۃٍ، ولٰکِن بشئ وَقَرَ في قلبہ‘‘۔ ذکرہ الغزالیؒ۔  (۸/۳۲۵۵)

            ترجمہ: تقوی کے چند درجے ہیں : (۱) شرک جلی سے بچنا اور یہ ادنی درجہ ہے (۲) معاصی، منہیات اور لہو و لعب اور فضولیات سے بچنا ہے اوریہ اوسط درجہ ہے (۳) ہمیشہ اللہ کے حضور(یاد) میں مستغرق رہنا اور غیر اللہ کے حضور(یاد) سے غائب رہنا اور یہ اعلی درجے کا تقوی ہے۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی اس حدیث میں ، جو آپ نے حصرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے:’’ابوبکر کو تمہارے اوپر فضیلت روزہ ونماز کی زیادتی کی وجہ سے نہیں ہے؛ لیکن ان کو جو فضیلت ہے اس چیز (تقوی،خوف ِخدا،یادِ الٰہی) کی وجہ سے ہے، جو ان کے دل میں بیٹھی ہوئی ہے‘‘۔ اس بات کو امام غزالیؒ نے ذکر کیا ہے۔ 

            اور مرقاۃ میں ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ تقوی کے چند درجے ہیں : (۱) شرک جلی اور شرک خفی کو ترک کرنا، چھوڑنا (۲) تمام صغائر وکبائر گناہ سے اجتناب و احتراز کرنااور بچنا (۳) جس چیز کے حلال وحرام ہونے میں شبہ ہو اس سے بچنااور مباح چیزوں میں تورع واحتیاط اختیار کرنا (۴) شہوتوں اور خواہشاتِ نفس سے پرہیز کرنا(۵) اور دل سے غیر اللہ کی یاد اور حضور کو خالی کردینا۔اور تقوی ان تمام اقسام کے ساتھ اصحابِ کمال کی علامتوں میں سے ہے۔ (۷/۳۰۵۲، تحت حدیث رقم: ۴۸۶۶)

کامل اوراعلی درجے کا تقوی:

            صاحب جامع العلوم والحکم تحریر فرماتے ہیں :’’ویدخل فيا لتقوٰی الکاملۃِ فعلُ الواجباتِ وترکُ المحرماتِ والشبہاتِ وترکُ المکروہاتِ، وربما یدخلُ فیہا فعلُ المندوباتِ وترکُ المکروہاتِ،وہی أعلٰی درجاتِ التقوٰی‘‘ ۔ (۳۹۹)

            ترجمہ: کامل تقوی میں فرائض وواجبات پر عمل اور محرمات ومشتبہ چیزوں کا ترک کرنا داخل ہے، اور کبھی اس میں مستحبات پر عمل اور مکروہات کا ترک کرنا داخل ہوتا ہے اور یہ تقوی کے درجات میں سے اعلی درجے کا تقوی ہے۔

فضیلتِ تقوی

            تقوی تمام خیر اور بھلائی کو جامع ہے، اولین و آخرین میں اللہ کی وصیت ہے اور انسان جوکچھ کسب کرتا ہے اور حاصل کرتا ہے تقوی ان میں سب سے بہتر ہے جیساکہ حضرت ابو الدرداءؓ نے فرمایا،جب ان سے کسی نے کہا کہ آپ کے ساتھی شعر کہتے ہیں اور آپ سے کبھی کوئی شعر نہیں سناگیا؟  تو انہوں نے فرمایا:    

یُرِیْدُ المرأُ  أَنْ یُؤتٰی  مُنَاہ         و یَأْبٰی   اللّٰہُ   إِلاَّ   مَا   أَرَادَا

یقولُ المرأُ فائدتِي ومالِي وتقوٰی اللّٰہِ أَ فْضَلُ مَا اسْتَفَادَا

            ترجمہ: آدمی چاہتاہے کہ اس کا مقصد اور اس کی مراد حاصل ہو جائے اور حال یہ ہے کہ اللہ انکار کرتا ہے؛ مگر وہ جس چیز کا ارادہ کرے۔

            آدمی کہتا ہے میرا فائدہ اور میرا مال؛ حالاں کہ اللہ کا تقوی انسان کی حاصل کردہ چیز میں سب سے افضل ہے۔

            اورابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ مومن جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے ان میں سب سے افضل وبہتر’’اللہ کا تقوی‘‘ ہے اور اس کے بعد نیک بیوی ہے۔( ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۸۵۷)

            قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں تقوی کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ان میں سے چند آیتیں ذکر کی جاتی ہیں :

          (۱)  وَتَزَوَّدُوْا فَإِنَّ خَیْرَالزَّادِ التَّقْوٰی، وَاتَّقُوْنِ یَاأُولِیْ الْأَلْبَابِ۔  (البقرہ: ۱۹۷)

            ترجمہ: اور زادِ راہ لے لیا کرو، اور بہترین زادِ راہ تو تقوی ہے، اے اہل فہم! میرا ہی تقوی اختیار کیے رہو۔

            اللہ تبارک وتعالی نے یہ بتایا ہے کہ بہترین توشہ منہیات سے بچنا ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نے لوگوں کو حکم دیا کہ دنیاوی توشہ کے ساتھ اخروی توشہ یعنی تقوی کو بھی ملالو۔عطاء خراسانیؒ فرماتے ہیں کہ آخرت کا بہترین توشہ تقوی ہے۔(تفسیر قرطبی: ۲/۴۱۲، ابن کثیر: ۱/۸۴۵)

            اور البحر المحیط میں ہے کہ سفرِ آخرت کا توشہ تقوی ہے، اس آیت میں اللہ تعالی نے اسی کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔ (البحرالمحیط:۲/۲۹۱)

          (۲)  یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً،  وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔  (الأعراف: ۲۶)

            ترجمہ:اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیاہے (جو) تمہارے پردہ والے بدن کو چھپاتا ہے اور موجب ز ینت بھی ہے اور تقوی کا لباس اس سے بھی بڑھ کر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے؛ تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں ۔

            یعنی وہ دین داری کا معنوی لباس‘ ظاہری لباس سے بھی بڑھ کر ضروری ہے۔(تفسیر ماجدی)

          (۳)  وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوْااللّٰہَ، إِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ (المائدہ: ۲)

            ترجمہ: اور ایک دوسرے کی مددنیکی اور تقوی میں کرتے رہواور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

             یعنی خشیتِ الٰہی ہی وہ چیز ہے جو ہر مجاہدہ کو آسان اور ہر پابندی کو آسان بنا سکتی ہے۔

          (۴)  یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلاَتَتَنَاجَوْا بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَۃِ الرَّسُوْلِ، وَتَنَاجَوْا بِالبِرِّ وَالتَّقْوٰی، وَاتَّقُوْ اللّٰہَ الْذِیْ إِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ۔ (المجادلۃ: ۹)

            ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کسی سے سرگوشی کرو تو سرگوشی گناہ اور زیادتی اور نافرمانی رسول کی نہ کرو اور نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں کی سرگوشی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤگے۔

          (۵)  لَنْ یَنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلاَدِمَائُہَاوَلٰکِنْ یَنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ (الحج: ۳۷)

            ترجمہ: اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون؛ البتہ اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔

            یعنی اجر تو تمہارے اخلاص ونیتِ تقرب پر ملتا ہے اور جس درجہ نیتِ اخلاص کا ثبوت دوگے اسی درجہ کا تمہاراتقوی ثابت ہوگا۔(تفسیر ماجدی:۴/۳۶۹)

          (۶)   ہُوَأَہْلُ التَّقْوٰی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ۔ (المدثر: ۶۵)

            ترجمہ:  وہی ہے ڈرنے کے قابل اور وہی ہے مغفرت والا۔

            یعنی تقوی بھی صرف اسی سے اختیار کرنا جاہیے اور مغفرت بھی صرف وہی کر سکتا ہے، دوسروں سے خوف یا طمع دونوں لا حاصل ہیں ۔  (تفسیرماجدی: ۸/۳۸۹)

          (۷)  أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ عَلٰی الْہُدٰی أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوٰی۔ (العلق: ۱۱،۱۲)

            ترجمہ: کیا تونے دیکھا کہ وہ (بندہ ) اگرچہ حق پر ہو، یا تقوی کی ہدایت کررہا ہو۔

          (۸)  وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْاأَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَھَا، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَئٍ عَلِیْماً۔ (الفتح:۲۶)

            ترجمہ: اور (اللہ) انہیں تقوی کی بات پر جمائے رکھا، اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں اور اہل بھی اور اللہ تو ہر شئ کا خیال رکھتا ہے۔

            فضیلت تقوی پر چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :

            (۱)  حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے ارشاد فرمایا:’’علیکَ بتقوی اللّٰہِ ؛ فإنّہا جماعُ کلّ خیرٍ‘‘۔ اللہ کے تقوی کو لازم پکڑ لو، اس لیے کہ یہ ہر خیر اور بھلائی کو جامع ہے۔ (مسند أبو یعلی موصلی حدیث نمبر:۱۰۰۰۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث:۹۴۹)

            (۲) حضرت یزید بن سلمہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا؟ یارسول اللہ! میں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں اور مجھے خوف اور ڈر ہے کہ اس کا آخر اس کے اول کو مجھے بھلادے(سب حدیثیں مجھے یاد نہ رہیں اور میں بھول جاؤں ) لہٰذا مجھے کوئی ایسی بات اور کلمہ بیان فرمادیں جو جامع  ہو؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ’’اِتَّقِ اللّٰہَ فیما تعلمُ‘‘۔ اللہ سے ڈرو! اس چیز میں جس کو تم جانتے ہو اور جس کا تم کو علم ہے۔ (ترمذی حدیث نمبر: ۲۶۸۳، حدیث مرسل)

            (۳)حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے ہوئے سنا، آپ فرمارہے تھے: اتقوا اللّٰہ ربَکم، وصلّوا خمسَکم، وصومُوا شہرَکم، وأدّوا زکاۃَ أموالِکم، وأطیعُوا ذا أمرِکم، تدخلُوا جنّۃَ ربِّکمْ۔ اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچوں نمازیں پڑھو، رمضان مہینے کا روزہ رکھو،اپنے اموال کی زکاۃ ادا کرو،اور اپنے حاکم اور بادشاہ کی اطاعت کرو، اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (ترمذی حدیث نمبر:۶۱۶)

            (۴) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ثلاثٌ مُنجیاتٌ وثلاثٌ مہلکاتٌ، أمّا المنجیاتُ فتقوٰی اللّٰہ فی السرِّ والعلانیۃِ، والقولُ بالحق بالرضاء والسخطِ، والقصدُ فی الغنائِ والفقرِ، وأمّا المہلکاتُ فہوٰی مُتَّبَعٌ، وشُحٌّ مُطاعٌ، وإعجابُ المرأِ بنفسہ، وہي أشدّہنَّ۔(شعب الإ یمان للبیہقی حدیث نمبر:۶۸۶۵)

            ترجمہ: تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ، بہرحال نجات دلانے والی تین چیزیں یہ ہیں :(۱) اللہ کا خوف،تقوی اور ڈر‘ باطن میں بھی اور ظاہر میں بھی یعنی تنہائی میں بھی اور سب کے سامنے بھی(۲)حق بات کہنا‘ رضامندی میں اور ناراضگی میں (۳) اور مال کے خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا‘مال داری اور مفلسی میں ۔اور تین ہلاک کرنے والی چیزیں یہ ہیں :(۱) ایسی خواہش جس کی اتباع اور پیروی کی جائے (۲)ایسا بخل جس کی اطاعت کی جائے (۳) اور آدمی کی خود پسندی اور خود بینی،اور یہ ان تینوں میں سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے (یہ ان میں سب سے بڑا گناہ ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ ہے)۔

            (۵) حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرمارہے تھے:

          یاأیہا الناسُ اتخذوا تقوی اللّٰہ تجارۃً یأتیکم اللّٰہُ الرزقَ بلابضاعۃٍ وتجارۃٍ، ثمّ قرأ: ’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجاً، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبْ‘‘۔ (المجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر: ۱۹۰) 

            ترجمہ: اے لوگو! اللہ کے تقوی کو تجارت بنالو،( یعنی اس کو ہر وقت لازم پکڑلو) تمہارے پاس بغیرپونجی وسرمایہ اور بغیر تجارت کے رزق آئے گا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ’’جو شخص اللہ سے ڈرتاہے اللہ تعالی اس کے لیے کشائش پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔

            (۶) حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ ’’ہُوَ أَہْلُ التَّقْوٰی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ‘‘۔ کی تفسیر میں فرمایا:  اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:أنا أہلٌ أن اُتَّقٰی، فمن اتَّقَانی فلم یجعلْ معي إلٰہاً فأنا أہلٌ أنْ اغفِرَلہ۔ میں ہی اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، پس جو شخص مجھ سے ڈرا اور اس نے میرے ساتھ کسی معبود کو شریک نہیں کیاتو میں اہل ہوں اور میری شان یہ ہے کہ میں اس کی مغفرت کر دوں ۔ (ترمذی حدیث نمبر: ۳۳۲۸۔ ابن ماجہ حدیث نمبر: ۴۲۹۹)

            (۷) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے سب سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’تقوی اللّٰہِ وحسنُ الخلقِ‘‘ اللہ کا تقوی اور اچھے اخلاق۔(مسند أحمد:۹۶۹۶۔ مسندأبوداؤد الطیالسی حدیث نمبر:۲۵۹۶)

            (۸)  امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ نے فرمایا:أیہا الناسُ! اتقوا اللّٰہَ؛ فإنّ تقوٰی اللّٰہِ غُنْمٌ ۔ اے لوگو! اللہ سے ڈرو؛ اس لیے کہ اللہ کا تقوی بہت بڑی غنیمت ہے۔ (المجالسۃ وجواہر العلم، رقم:۱۲۹۲)

            (۹) حضرت سفیان ثوریؒ سے مروی ہے کہ حضرت لقمانؓ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

          یا بُنَيَّ! إنَّ الدنیا بحرٌ عمیقٌ،قد غَرِقَ فیہا ناسٌ کثیرٌ، فلتکن سفینتُک فیہا تقوٰی اللّٰہِ، وحشوُہا إِیماناً باللّٰہِ عزّ وجلّ، وشراعہا التوکّلُ علی اللّٰہ، لعلّک ناجٍ، ولا أراکَ ناجیاً۔ (الزہد والرقاق لابن مبارک،ص: ۲۵۷۔ الدعا للطبرانی رقم: ۱۷۳۷)

            ترجمہ: اے بیٹا! بے شک دنیا ایک گہرا سمندر ہے، اس میں بہت سے لوگ ڈوب گئے؛ لہٰذا اس میں تمہاری کشتی ’’اللہ کا تقوی‘‘ ہونا چاہیے اور اس کا بھراؤ ’’اللہ تبارک وتعالی پر ایمان ‘‘سے ہونا چاہیے اور اس کشتی کا بادبان ’’اللہ پر توکل‘‘ ہونا چاہیے،تو شاید کہ تم نجات پالو، اور میں نہیں سمجھتا کہ تم نجات پا سکوگے۔

افضیلت کا مدار تقوی پر

            بلاشبہ اللہ تعالی کے نزدیک افضلیت و بہتری اور مقبولیت ومحبوبیت کا دار ومدار تقوی پر ہے، فرمان باری تعالی ہے:

          یَا أَیُّہَاالنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی، وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا، إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (الحجرات:۱۳)

            ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا؛تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے۔بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے، پورا خبردار ہے۔

            رسول اکرم ﷺ  نے حدیث میں بالکل صراحت کے ساتھ واضح فرمایا ہے کہ تقوی، اللہ کا خوف اور پرہیز گاری ہی اللہ کے نزیک مقبولیت اور محبوبیت کا سبب ہے، درج ذیل دو حدیثیں پرھئے:

            (۱)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ کسی نے پوچھا:’’یَا رسولَ اللّٰہ! مَنْ أکرمُ الناسِ‘‘؟ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتر کو ن ہے؟ آپ نے فرمایا:  ’’أَتْقَاہُمْ‘‘۔ ان میں سے جو شخص سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار اور اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ (بخاری حدیث نمبر: ۳۳۵۳۔ مسلم حدیث: ۱۶۸-۲۳۷۸)

            (۲) حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

          اُنْظُرْ! لَسْتَ بخیرٍ مِنْ أحمرَ ولا أسودَ إلاّ أن تفضُلَہ بتقوی ۔ (مسند أحمد حدیث نمبر: ۲۱۴۰۷)

            دیکھو! تم کوکسی گورے یا کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے؛ مگر یہ کہ تم کو کسی پر فضیلت ہے تو وہ تقوی کی وجہ سے ہے ۔

تقوی بہترین زاد سفر

            حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے زادِ راہ اور توشہ عنایت فرمادیجیے؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:  ’’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوَی‘‘۔اللہ تعالی تم کو تقوے کا توشہ عطاکرے۔ (ترمذی حدیث نمبر: ۳۴۴۴)

            یعنی اللہ تعالی تم کو مخلوق سے استغناء اور امتثالِ اوامرو اجتنابِ نواہی کا توشہ عطا کرے۔ (مرقاۃ: ۴/۱۶۱۹)

اللہ سے ڈرو جہاں بھی رہو

            حضرت معاذ بن جبلؓ  اورحضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ سے ڈرو جہاں بھی رہو،گناہ کے بعد نیکی کرو، نیکی گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ اتقِ اللّٰہَ حیثُ مَا کنتَ، واتَّبِعْ السیّئۃَ الحسنۃَ، وخَالِقِ النَّاسَ بخُلقٍ حسنٍ۔(ترمذی حدیث: ۱۹۸۷۔ شعب الأیمان للبیہقی حدیث: ۷۶۶۰)

وصیتِ تقوی

            تقوی تمام مخلوق کے لیے اللہ کی وصیت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے وصیت ہے،آپ علیہ الصلاۃ والسلام جب کسی لشکر کو جنگ کے لیے بھجتے تو امیر لشکر کو تقوی کی وصیت ونصیحت فرماتے، آپ نے حجۃ الوداع میں قربانی کے دن خطبہ دیا تو لوگوں کو’’تقوی اللہ‘‘ کی وصیت فرمائی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی حدیثوں میں تقوی کی وصیت ونصیحت اور تاکید فرمائی ہے، ہم چند حدیثیں نکل کرتے ہیں :

            (۱) عرباض بن ساریۃؓسے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: یا رسول اللہ ! ہمیں وصیت فرمادیجیے؟ آپ نے فرمایا:’’أُوصِیْکُمْ بتقوی اللّٰہِ والسمعِ والطاعۃِ، وإن کانَ عبداً حبشیاً‘‘۔  میں تم کو’’اللہ کے تقوی‘‘ کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ امیر وحاکم وقت کی اطاعت کرنا اگرچہ وہ حبشی (کالا کلوٹا) غلام ہی کیوں نہ ہو ۔(مسند أحمد حدیث: ۱۷۱۴۴، ابوداؤد حدیث: ۴۶۰۷، ترمذی حدیث:۲۶۷۶)

            یعنی میں تم کو اللہ کے حکم کی مخالفت اور معصیت سے بچنے کی وصیت کرتاہوں ۔اور یہ جوامع الکلم میں سے ہے؛ اس لیے کہ تقوی امتثال مأمورات اور اجتناب منہیات کو کہتے ہیں اور تقوی زادِ آخرت ہے، عذابِ ابدی سے بچانے والا ہے، تم کو دار السرور یعنی جنت تک پہنچانے والا ہے اوررب ذو الجلال کی بارگاہ تک تمہارے پہنچنے کا موجب اور سبب ہے۔ (مرقاۃ: ۱/۲۵۱)

            (۲) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ’’أوصیکَ بتقوی اللّٰہ والتکبیرِ علی کلِّ شَرَفٍ‘‘۔ میں تم سب کو’’اللہ کے تقوی‘‘ کی وصیت کرتا ہوں اور ہر اونچے مقام پر چڑھتے وقت’’اللہ اکبر کہنے ‘‘کی وصیت کرتا ہوں ۔ (ابن ماجہ حدیث: ۲۷۷۱)

            (۳) حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یارسول اللہ! مجھے وصیت کردیجیے؟ آپ نے فرمایا:’’أوصیتک بتقوی اللّٰہ،عزّ وجلّ؛ فإنّہ أزینُ لأمرِکَ کلِّہ‘‘۔ میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں ؛ اس لیے کہ یہ تمہاری تمام چیزوں کے لیے خوب صورتی ہے۔ (شعب الإیمان للبیہقی حدیث: ۴۵۹۲)

            (۴) حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یارسول اللہ! مجھے وصیت کردیجیے؟ تو آپ نے فرمایا:  ’’علیک بتقوی اللّٰہ ما استطعتَ، واذکُر عند کلِّ حجرٍ وشجرٍ، وماعملتَ من سوئٍ فأَحْدِثْ فیہ للّٰہ توبۃً، السرَّ بالسرِّ، والعلانیۃَ بالعلانیۃِ‘‘۔

            ترجمہ: تم حتی الوسع اللہ کے تقوے کو لازم پکڑو،ہر پتھر اور درخت کے پاس (ہرجگہ) اللہ کا ذکر کرواور جب تم سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے اللہ کے لیے توبہ کرو، اگر گناہ چھپ کر ہوا ہے تو چھپ کر توبہ کرو اور اگر گناہ علانیہ ہوا ہے تو علانیہ سب کے سامنے توبہ کا اظہار کرو۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر: ۳۳۱)

            (۵)حصرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! میں سفر کا ارادہ رکھتاہوں ، لہٰذا مجھے وصیت کردیجیے؟ آپ نے فرمایا: ’’علیک بتقوی اللّٰہ، والتکبیرِ علی کلِّ شَرَفٍ‘‘۔  اللہ کے تقوی کو لازم پکڑواور ہر اونچے مقام پر چڑھتے وقت اللہ اکبر کہو۔ (ترمذی حدیث: ۳۴۴۵)

            (۶) حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو کسی لشکر کا امیربناتے تواس کو خاص کر اپنی ذات کے لیے اللہ کے تقوی کی وصیت فرماتے کہ تم اللہ سے ڈرنا،اور اس کے ساتھ جو مسلما ن ہیں ان کے لیے خیر کی وصیت فرماتے کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی کا معاملہ کرنا۔  (مسلم:۳-۱۷۳۱)

            (۷)  حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ دنوں تک ان سے فرمایا کہ اے ابو ذر !میں تم سے جوبات کہنے جارہاہوں تم اس کو اچھی طرح سمجھ لو، پھر ساتویں دن آپ نے فرمایا: أوصیک بتقوی اللّٰہ فی سِرِّ أمرِکَ وعلانیتِہ، وإذا أَسَئْتَ فأَحْسِنْ۔ یعنی میں تم کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں تنہائی میں بھی اور علانیہ بھی،اور جب تم کوئی برائی کر بیٹھو تو اس کے بعد فورا ًنیکی کرو( اس سے تمہارے گناہ دھل جائیں گے)۔ (مسند أحمد حدیث: ۲۱۵۷۳) 

            (۸) عبد اللہ بن عُقیم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ اپنے خطبے میں فرماتے تھے: ’’أوصیکم بتقوی اللہ، وأن تثنوا علیہ بما ہو لہ أہل‘‘۔ میں تم سب کو اللہ کا تقوی(اللہ سے ڈر نے اور خوف کرنے) کی وصیت کرتاہوں اور اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ کی تعریف کرو اس چیز(الفاظ) کے ذریعہ جس کا وہ اہل ہے۔(شعب الإیمان للبیہقی رقم: ۱۰۱۰۹)

            (۹)حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو حضرت عمرؓ کو بلایا اور ان کو وصیت کی اور سب سے پہلی بات جو انہوں نے حضرت عمر سے کہی، وہ یہ تھی:,,اتق اللّٰہ، یا عمرُ!‘‘۔ اے عمر!  اللہ سے ڈرو۔

             اور حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمر کو لکھ کر بھیجا: ’’أمّا بعدُ! فإنّی أوصیکَ بتقوی اللّٰہ عزّ وجلّ؛ فإنّہ مِن اتَّقَاہ وَقَاہ، ومَن أَقْرَضَہ جَزَاہ، وَمَن شَکَرَہ زَادَہ، وَاجْعَلِ التّقوٰی نصبَ عَیْنَیْکَ وَجِلاءَ قلبِکَ‘‘۔

            ترجمہ: بلاشبہ میں تم کو اللہ کے تقوے کی وصیت کرتا ہوں ؛ اس لیے کہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی حفاظت فرمائے گا، جو اللہ کو قرض دے گا(اللہ کے راستے میں مال خرچ کرے گا) اللہ تعالی اس کو بدلہ عطا کرے گا، اور جو اللہ کا شکر ادا کرے گا اللہ اس کو اور زیادہ عطا کرے گا، تقوی کو اپنا نصب العین اور اپنے قلب کا جلا(صیقل) بنالو۔

             اور حضرت علی بن ابی طالبؓ نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنایا تو ان سے فرمایا:

          ’’أوصیک بتقوٰی اللّٰہ الذی لابدّ لکَ مِن لقائِہ، ولامُنتہٰی لکَ دُوْنَہ، وہو یملکُ الدنیا والآخرۃَ‘‘۔

            ترجمہ:  میں تم کو وصیت کرتا ہوں اس اللہ سے تقوی اور ڈر وخوف کی جس سے تمہاری ملاقات (روزِقیامت) ضروری ہے، اس کے بغیر تمہارا کوئی چارۂ کار اورجائے پناہ نہیں اور وہ دنیا وآخرت کا مالک ہے۔

            اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ایک آدمی کو لکھ کر بھیجا تھا:

           ’’ أوصیک بتقوی اللّٰہ عزّ وجلّ التی لایقبلُ غیرَہا، ولایرحمُ إلا أہلَہا،ولایُثِیْبُ إلاّ علیہا، فإنّ الواعظینَ بِہا کثیرٌ، والعاملینَ بہا قلیلٌ،جَعَلَنَا اللّٰہُ وإیّاک مِن المتقینَ‘‘ ۔ (جامع العلوم والحکم: ۴۰۶)

            ترجمہ: میں تم کو اللہ کے تقوی اور خوف کی وصیت کرتا ہوں جس کے غیر کو اللہ تبارک وتعالی قبول نہیں کرتا، وہ اہلِ تقوی ہی پر رحم فرماتا ہے اور وہ تقوی ہی پر ثواب عطا کرتا ہے، بے شک تقوی کی نصیحت کرنے والے بہت ہیں اور اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں ، اللہ تعالی ہمیں اور تمہیں متقین میں سے بنائے۔ 

            (۱۰) ابن ابی الدنیا ؒ نے حضرت عروہ ؒسے تخریج کی ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے حضرت معاویہؓ کو لکھ کربھیجا:  فاتَّقِ اللّٰہ ؛ فإنّک إذا اتَّقَیْتَ اللّٰہَ کَفَاکَ الناسَ، وإذا اتَّقیتَ الناسَ لم یُغنوا عنکَ مِن اللّٰہِ شیئاً۔  یعنی تم اللہ سے ڈرو! اگر اللہ سے ڈروگے تو اللہ تعالی لوگوں کی طرف سے تمہارے لیے کافی ہو جائے گا(اوروہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے) اور اگر تم لوگوں سے ڈرے تو لو گ اللہ کی طرف سے تم کوکچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکتے (اور پھر اللہ تمہاری مدد نہیں کرے گا)۔

متقیوں کے لیے اعزاز واکرام اورانعامات جو قرآن میں بیان ہوئے

            (۱)  متقیوں کے مخصوص صفات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا:أُوْلٰئِکَ عَلٰی ہُدیً مِّنْ رَّ بِّہِمْ  وَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔(البقرۃ:۵)

            ترجمہ: یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور پورے بامراد اور کامیاب تو بس یہی ہیں ۔

          (۲)  وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۔ (البقرۃ: ۱۹۴)

            ترجمہ: اور اللہ سے ڈرتے رہواور جانتے رہو کہ اللہ پرہیزگاروں (متقیوں ) کے ساتھ ہے۔

          (۳)  قُلْ أَ أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ، لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْاعِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَأَزْوَاجٌ مُطَہَّرَۃٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِّالْعِبَادِ۔ (آل عمران:۱۵)

            ترجمہ: آپ کہ دیجیے کہ کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر دوں جو ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو ڈرتے رہتے ہیں ، ان کے پروردگار کے پاس باغ ہیں ، ان کے نیچے ندیاں پڑی بہ رہی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ،اور صاف ستھری کی ہوئی بیویاں ہوں گی، اور اللہ کی خوش نودی ہوگی، اور اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔

            اللہ کی خوش نودی ورضا مندی: جب سب اہلِ جنت جنت پہنچ کر مسرور ومطمئن ہو چکے ہوں گے اور کوئی تمنا نہ رہے گی جو پوری نہ کر دی گئی ہو تو اس وقت اللہ تعالی خود اہل جنت کو خطاب فرما ئیں گے کہ اب تم راضی اور مطمئن ہو، کسی اور چیز کی تو ضرورت نہیں ؟ وہ عرض کریں گے:اے ہمارے پروردگار! آپ نے اتنی نعمتیں عطا فرما دی ہیں کہ اس کے بعد اور کسی چیز کی کیا ضرورت رہ سکتی ہے، اللہ تعالی فرمائیں گے کہ اب میں تم کو ان سب نعمتوں سے بالا تر ایک اور نعمت دیتا ہوں : وہ یہ کہ تم سب کو میری رضااور قرب دائمی طور پر حاصل ہے، اب ناراضی کا کوئی خطرہ نہیں ؛ اس لیے جنت کی نعمتوں کے سلب ہو جانے کا،یا کم ہو جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ۔ (معارف القرآن: ۲/۳۲)

          (۴)  لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوْا مِنْہُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیْمٌ۔(آل عمران:۱۷۲)

            ترجمہ: ان میں سے جو نیک اور متقی ہیں ان کے لیے اجر عظیم ہے۔

          (۵)  لٰکِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَاُر خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، نُزُلًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ، وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْأَبْرَارِ۔(آل عمران:۱۹۸)

            ترجمہ: البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں ، ان کے لیے باغ ہوں گے، جن کے نیچے ندیاں بہ رہی ہوں گی، اور ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے،یہ تو مہمانی ہوگی اللہ کی طرف سے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیکوں کے حق میں کہیں بہتر ہے۔

          (۶)قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَاقَلِیْلٌ، وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقیٰ، وَلاَتُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً۔ (النساء: ۷۷)

            ترجمہ: آپ کہ دیجیے کہ دنیا کا سامان بہت ہی تھوڑا ہے، اور آخرت اس کے لیے کہیں بہتر ہے جو تقوی اختیار کرے، اور تم پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

          (۷)  فَمَنِ اتَّقیٰ وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (الأعراف:۳۵)

            ترجمہ: جوکوئی تقوی اختیار کرے اور اپنی اصلاح کرے تو ان لوگوں پر نہ کوئی خوف واقع ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

          (۸)  وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔(الأعراف:۱۲۸۔ القصص: ۸۳)

            ترجمہ: اور حسن انجام اللہ سے ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔

          (۹)  وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْویٰ۔  (طٰہٰ : ۱۳۲)

            ترجمہ: اور اچھا انجام اہلِ تقوی کے لیے ہے۔

          (۱۰)  وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَئٍ، فَسَأَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ، وَیُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِآیَاتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۔ (الأعراف:۱۵۶)

            ترجمہ: اور میری رحمت تو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے، سو اسے ان لوگوں کے لیے توضرور ہی لازم کردوں گاجو خوفِ خدا رکھتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ 

          (۱۱)  وَالدَّارُ الْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ، أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔ (الأعراف:۱۶۹)

            ترجمہ: اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو ڈرتے رہتے ہیں ۔

          (۱۲)  وَلَدَارُ الْآخِرَۃِ خَیْرٌ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا، أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ۔ (یوسف: ۱۰۹)

            ترجمہ: اور عالمِ آخرت ہی ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو تقوی اختیار کیے ہوئے ہیں ، سو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔

          (۱۳)  یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقَانًا،وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ،وَیَغْفِرْلَکُمْ،وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ (الانفال: ۲۹)

            ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہوگے تو وہ تمہیں ایک فیصلہ کی چیز دے دے گااور تم سے تمہارے گناہ دور کر دے گا، اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ ہی ہے بڑا فضل والا۔

            یعنی جو شخص عقل کو طبیعت پر غالب رکھ کر آزمائش میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالی کی اطاعت و محبت کو سب چیزوں پر مقدم رکھے جس کو قرآن وشریعت کی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے، تو اس کو اس کے صلے میں تین چیزیں عطا ہوتی ہیں ۔فرقان، کفارۂ سیئات اور مغفرت۔

              اس آیت میں تقوی اختیار کرنے والوں کو فرقان عطا ہونے کا اکثر مفسرین صحابہ کے نزدیک یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالی کی نصرت و امداد اور حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے کوئی دشمن ان کو گزند نہیں پہنچا سکتا اور تمام مقاصد میں کامیابی ان کی رفیق ہوتی ہے: ۔؎

ہرکہ ترسید از حق وتقویٰ گزید             ترسد از وے جن وانس وہر کہ دید

            دوسری چیز جو تقوی کے صلے میں عطا ہوتی ہے وہ کفارۂ سیئات ہے: یعنی جو خطائیں اور لغزشیں اس سے سرزد ہوتی ہیں دنیا میں اس کا کفارہ اور بدل کردیا جاتا ہے، یعنی اس کو ایسے اعمالِ صالحہ کی توفیق ہوجاتی ہے جو اس کی سب لغزشوں پرغالب آجاتے ہیں ۔

            تیسری چیز جو تقوی کے صلے میں ملتی ہے، وہ آخرت کی مغفرت اور سب گناہوں اور خطاؤں کی معافی ہے۔ (معارف القرآن:۴/۲۱۸،۲۱۹)

          (۱۴) مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ، تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ، أُکُلُہَا دَائِمَۃٌ وَظِلُّہَا، تِلْکَ عُقْبٰی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا، وَعُقْبٰی الْکَافِرِیْنَ النَارُ۔ (الرعد: ۳۵)

            ترجمہ: جنت جس کا وعدہ متقیوں کے لیے ہوا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں ندیاں جاری ہوں گی، اس کا پھل اور اس کا سایہ دائمی ہوگا، یہ انجام ہوگا اہلِ تقوی کا، اور کافروں کا انجام آتشِ دوزخ ہے۔

          (۱۵)  إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ ِفیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اُدْخُلُوْہَا بِسَلاَمٍ آمِنِیْنَ، وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِ ہِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ، لاَ یَمَسَّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ وَمَاہُمْ عَنْہَا بِمُخْرَجِیْنَ۔ (الحجر: ۴۵-۴۸)

            ترجمہ: بے شک پرہیزگار(متقین) باغوں اور چشموں میں بستے ہوں گے، تم داخل ہو اس میں سلامتی اور امن کے ساتھ اور جو کچھ ان کے دلوں میں کینہ ہوگااسے ہم دور کردیں گے، سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے آمنے سامنے تختوں پر، اس کے اندر ان کو کوئی تکلیف چھوئے گی بھی نہیں ، اور نہ وہ اس میں سے کبھی نکالے جائیں گے۔

            مذکورہ آیتوں سے جنت کی دو خصوصیات معلوم ہوئیں :اول یہ کہ کسی کو کبھی تکان اور ضعف محسوس نہ ہوگا۔ دوسری یہ کہ جو آرام وراحت اور نعمتیں وہاں کسی کو مل جائیں گی، وہ دائمی ہوں گی، نہ وہ نعمتیں کبھی کم ہوں گی، اور نہ ان میں سے اس شخص کو نکالا جائے گا۔ (معارف القرآن:۵/۲۰۳)

          (۱۶)  وَلَنِعْمَ دَارُالْمُتَّقِیْنَ۔ (النحل: ۳۰)

            ترجمہ: اور اہلِ تقوی کا وہ گھر واقعی کتنا اچھا ہے۔

          (۱۷)  وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ وَیَخَشَ اللّٰہَ وَیَتَّقِہِ فِأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ۔ (النور:۵۲)

            اور جو کوئی بھی کہا مانے گا اللہ اور اس کے رسول کااور اللہ سے ڈرے گااور اس کی نافرمانی سے بچے گا تو بس ایسے ہی لوگ بامراد اور کامیاب ہیں ۔

          (۱۸)  قُلْ أَذٰلِکَ خَیْرٌ أَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الْتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ، کَانَتْ لَہُمْ جَزَائً وَمَصِیْراً، لَہُمْ فِیْہَا مَا یَشَائُ وْنَ خٰلِدِیْنَ، کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ وَعْدًا مَّسْؤُلًا۔ (الفرقان: ۱۵،۱۶)

            ترجمہ: آپ کہ دیجیے ! کہ آیا یہ مصیبت اچھی ہے یا وہ ہمیشگی کی جنت جس کا وعدہ متقیوں سے کیا جا چکا ہے، اور وہ ان کے لیے صلہ ہے اور آخری ٹھکانا ہے، انہیں وہاں جو کچھ وہ چاہیں گے ملے گا، وہ ہمیشہ (اس میں )رہیں گے۔ یہ وعدہ ہے آپ کے پروردگار کے ذمے اور قابل درخواست۔

            اور قابل درخواست: یعنی اللہ نے اپنے فضل اور عنایت سے یہ اجر اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور یہ اس قابل ہے کہ اس کی درخواست کی جائے، بہتر یہ ہے کہ یہاں ’’مسئول‘‘ کو قابل درخواست یا مطلوب کے معنی میں لیا جائے۔

          (۱۹)   وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ (الشعراء:۹۰)

            ترجمہ: اور جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی۔

            یعنی محشر میں جنت مع اپنی انتہائی آرائش وزیبائش کے متقین کو قریب نظر آئے گی۔  (فوائد عثمانی)

          (۲۰)  یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا، یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ، وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ، وَمَن یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۔ (الأحزاب: ۷۰،۷۱)

            ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور راستی وسچائی کی بات کہو، اللہ تمہارے اعمال قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچ گیا۔

          (۲۱) وَإِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَآبٍ، جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَہُمُ الْأَبْوَابُ، مَتَّکِئِیْنَ فِیْہَا، یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَشَرَابٍ، وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ أَترَابٌ، ہَذَا مَاتُوْعَدُوْنَ لِیَوْمِ الْحِسَابِ۔ إِنَّ ھٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِنْ نَفَادٍ۔ (ص: ۴۹-۵۴)

            ترجمہ: اور پرہیزگاروں (متقیوں ) کے لیے اچھا ٹھکاناہے، یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے، تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے ان باغوں میں اور وہ بہت میوے اور پینے کی چیزیں منگوائیں گے اور ان کے پاس نیچی نگاہ والیاں ہم سِنیں (حوریں ) ہوں گی،یہی وہ نعمت ہے جس کا تم سے وعدہ روزِ حساب کے آنے پر کیا جاتا تھا۔ بے شک یہ ہماری عطا ہے، اس کا کہیں خاتمہ ہی نہیں ۔

            یعنی بخلاف دنیا کی نعمتوں کے ‘ کہ اس کا ذخیرہ بہرحال کہیں ختم ہوہی جاتا ہے۔

          (۲۲)  لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَاغُرَفٌ مَبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ، وَعْدَ اللّٰہِ،لاَیُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ۔  (الزمر: ۲۰)

            ترجمہ:  البتہ جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بالا خانے ہیں ، جن کے اوپر بنے بنائے تیار بالا خانے ہیں ، ان کے نیچے ندیاں بہ رہی ہیں ، یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

          (۲۳)  لَہُمْ مَا یَشَائُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ، ذٰلِکَ جَزَاؤُ الْمُحْسِنِیْنَ،لِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَسْوَءَ الَّذِیْ عَمِلُوْا، وَیَجْزِیَہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (الزمر: ۳۴،۳۵)

            ترجمہ:  وہ (متقین) جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس سب کچھ ہے، یہ صلہ ہے نیک کاروں کا؛ تاکہ اللہ ان سے ان کے ہرعمل کی برائیوں کو دور کردے اور ان کے عمل کی نیکیوں کا انہیں پورا اجردے۔           

          (۲۴)  وَیُنَجِّی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِہِمْ، لاَیَمَسُّہُمُ السُّوْئُ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (الزمر:۶۱)

            ترجمہ:  اور جو لوگ بچے رہے تھے(متقین) اللہ ان لوگوں کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، ان کو نہ تکلیف پہنچے گی اور نہ یہ غمگین ہوں گے۔

          (۲۵)  وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا حَتّٰیٓ إِذَا جَاء ُوْ ہَا،وَفُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ، طِبْتُمْ، فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ۔ (الزمر:۷۳)

            ترجمہ: اور جو لوگ اہلِ تقوی تھے وہ لوگ گروہ در گروہ روانہ کیے جائیں گے، یہاں تک کہ جب اس کے (جنت) کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھلے ہوں گے اور وہاں کے محافظ ان سے کہیں گے’’سلام علیکم‘‘ مزہ میں رہو، سو اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جاؤ۔

          (۲۶)  وَالْآخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ۔  (الزخرف: ۳۵)

            ترجمہ: اور آخرت تو آپ کے پروردگار کے ہاں خدا ترسوں (متقیوں ) کے لیے ہی ہے۔

          (۲۷)  إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ أَمِیْنٍ،فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، یَلْبَسُوْنَ مِنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ، کَذٰلِکَ، وَزَوَّجْنٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ، یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ، لاَیَذُوْقُوْنَ فِیْہَا الْمَوْتَ إِلاَّ الْمَوْتَۃَ الْأُولٰی وَوَقٰہُمْ عَذَا بَ الْجَحِیْمِ، فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکَ، ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔   (الدخان:۵۱- ۵۷)

            ترجمہ:اللہ سے ڈرنے والے بے شک امن کی جگہ میں ہوں گے، یعنی باغوں اور چشموں میں ، لباس پہنے ہوں گے باریک اور دبیز ریشم کا، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے، یہ بات اسی طرح ہے، اور ہم ان کو ملا دیں گے گوری گوریوں بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے، وہ وہاں ہر قسم کے میوے منگائیں گے اطمینان سے، وہ وہاں موت کا مزہ بھی نہ چکھیں گے، ہاں بجز اس پہلی موت کے، اللہ انہیں دوزخ سے بچائے گا، یہ سب آپ کے پروردگار کے فضل سے ہوگا۔ بڑی کامیابی یہی ہے۔

            متقین امن کی جگہ میں ہوں گے: ان آیات کے ذریعہ جنت کی سرمدی نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور نعمت کی تقریباً تمام اصناف کو جمع کردیا گیا ہے؛ کیوں کہ انسانی ضرورت کی چیزیں عموما یہ ہوتی ہیں : (۱) عمدہ رہائش (۲) عمدہ لباس (۳) بہتر شریک زندگی (۴) بہتر مأکولات (۵) پھر ان سب نعمتوں کے باقی رہنے کی ضمانت (۶) رنج وتکلیف سے کلی طورپر مأمون رہنے کا یقین۔ یہاں ان چھ کی چھ باتوں کو اہلِ جنت کے لیے ثابت کردیا گیا ہے جیساکہ ان آیتوں میں غور کرنے سے صاف ظاہر ہے۔ یہاں اہلِ جنت کی قیام گاہ کو  ’’امین‘‘ (پرامن) کہ کر اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ انسانی رہائش گاہ کی سب سے قابلِ تعریف صفت اس کا پُر امن یعنی خطرات سے محفوظ ہونا ہے۔

             جنت میں موت کا مزہ نہ چکھیں گے: یعنی جو موت دنیا میں ایک مرتبہ آچکی ہے اس کے بعد کوئی موت ان پر نہیں آئے گی۔ اور یہ اعلان اہلِ جنت کے لیے سرور وکیف میں اضافے کا باعث ہوگا ؛ کیوں کہ نعمت خواہ کتنی بڑی ہواس کے زوال کا تصور لازماً کدورت کا سبب ہوتا ہے اور اہلِ جنت جب یہ تصور کریں گے کہ نعمتیں کبھی ہم سے نہیں چھنیں گی تو اس سے ان کی مسرتوں میں اضافہ ہوگا۔ (معارف القرآن: ۷/۷۷۳،۷۷۴)

          (۲۸)  وَإِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْایُؤْتِکُمْ أُجُوْرَکُمْ وَلاَیَسْئَلْکُمْ أَمْوَالَکُمْ۔ (محمد: ۳۶)

            ترجمہ:اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوی اختیار کرو تو اللہ تم کو تمہارے اجر عطا کرے گااور تم سے تمہارا مال طلب نہ کرے گا۔

          (۲۹)  وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِییدٍ۔۔۔۔  لَہُمْ مَا یَشَائُ وُنْ َفِیْہَا وَوَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ۔ (ق:۳۱ -۳۵)

            ترجمہ: اور جنت متقیوں کے قریب لائی جائے گی کہ کچھ دور نہ رہے گی، یہی وہ چیز ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، ان لوگوں کو وہاں سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زائد ہے۔

            اور ہمارے پاس اور بھی زائد ہے:یعنی ہمارے پاس ایسی نعمتیں بھی ہیں جن کی طرف انسان کا وہم وخیال بھی نہیں جاسکتا؛اس لیے وہ ان کی خواہش بھی نہیں کر سکتا، حضرت انسؓ اور جابرؓ نے فرمایا کہ یہ ’’مزیدنعمت‘‘ حق تعالی کی زیارت بلا کیف ہے جو اہل جنت کو حاصل ہوگی۔ اس مضمون کی احادیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آیت  ’’لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ‘‘ کی تفسیر میں روایت کی گئی ہے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اہل جنت کو زیارت حق سبحانہ وتعالی جمعہ کے روز ہوا کرے گی۔ (تفسیر طبری:۱۷/۱۲، درمنثور: ۷/۵۰۶، معارف القرآن: ۸/۱۴۸)

            (۳۰)  إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَا اٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ، إِنَّہُمْ کَانُوْا قًبْلَ ذٰلِکَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (الذٰریٰت: ۱۵،۱۶)

            ترجمہ:  بے شک پرہیزگار لوگ(متقین) بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے، لے رہے ہوں گے جو ان کے پروردگار نے انہیں عطا کیا ہوگا، بے شک یہ لوگ اس سے قبل(دنیوی زندگی میں ) نکوکار تھے۔

          (۳۱)  إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَعِیْمٍ ۔۔۔۔  وَزَوَّجْنّٰہُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ۔ (الطور: ۱۷-۲۰)

            ترجمہ: بے شک متقی لوگ باغوں اور سامانِ عیش میں ہوں گے، خوش ہو رہے ہوں گے اس سے جو کچھ کہ ان کے پروردگار نے انہیں دیا ہوگا، اور ان کا پرور دگار انہیں عذابِ دوزخ سے محفوظ رکھے گا، (انہیں کہا جائے گا) خوب مزے سے کھاؤ پیو، ان نیکیوں کے بدلے جو تم کرتے رہے ہو، تکیہ لگائے

ہوئے ہوں گے برابر بچھے ہوئے تختوں پر، اور ان کا نکاح کریں گے گوری گوری بڑی آنکھ والیوں کے ساتھ۔

          (۳۲)  وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتٰنِ۔ ( الرحمن:۴۶)

            ترجمہ: اور جو کوئی اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہے اس کے لیے دو باغ ہوں گے۔

          (۳۳)  یَا أَیُّہَا الْذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَاٰمَنُوْا بِرَسُوْلِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہِ وَیَجْعَلْ لَکُمْ نَوْرًا تَمْشُوْنَ بِہِ، وَیَغْفِرْلَکُمْ،وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (الحدید: ۲۸)

            ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرواور اس کے پیمبر پر ایمان لاؤ تم کو اپنی رحمت سے دو حصہ دے گا، اور تمہارے لیے وہ نور پیدا کر دے گا کہ تم اسے لیے چلو پھروگے، اور وہ تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

          (۳۴)  وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجاً  وَیَرْزَقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِبُ۔ وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْرًا۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْعَنْہُ سَیِّاٰتِہِ وَیُعْظِمْ لَہُ أَجْرًا۔  (الطلاق: ۲-۵)

            ترجمہ:اورجو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے کشائش پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق پہنچتا تا ہے جہاں اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو کوئی اللہ سے تقوی اختیار کرے گااللہ اس کے ہر کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔ اور جو کوئی اللہ سے تقوی اختیار کرے گااللہ اس کے گناہ اس سے دور کردے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔

          (۳۵)  إِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۔ (القلم:۳۴)

            ترجمہ:بے شک پرہیز گاروں (متقیوں ) کے لیے ان کے پروردگار کے پاس عیش کے باغ ہیں ۔

           (۳۶) إِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا، حَدَائِقَ وَأَعْنَاباً، وَکَوَاعِبَ أَتْرَاباً، وَکَأْساً دِہَاقاً، لاَیَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْواً وَّلاَکِذَّاباً۔ (النبأ: ۳۰- ۳۵)

            ترجمہ: بے شک متقیوں (پرہیز گاروں ) کے لیے کامیابی ہے، یعنی باغ ہیں اور انگور، اور نوساختہ ہم عمر عورتیں ، اور لبالب جام، وہ نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ، یہ بدلہ ہوگا (کافی) انعام آپ کے پروردگار کی طرف سے۔

          (۳۷)  وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰی۔ (۴۰،۴۱)

            ترجمہ:اور جو کوئی ڈرا ہوگا اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے اور نفس کو خواہش سے روکا ہوگاتو ایسے کا ٹھکانا بس جنت ہی ہے۔

          (۳۸)  إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلاَلٍ وَّعُیُوْنٍ، وَفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ،کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْئاً بِّمَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ (المرسلات:۴۱-۴۴)

            ترجمہ: پرہیز گار لوگ (متقین) بے شک سایوں اور چشموں اور مرغوب میووں میں ہوں گے،(ان سے کہا جائے گا :)خوب مزے سے کھاؤ پیو،اپنے اعمال کے صلے میں ۔

          (۳۹) إِنَّ اْلمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَہَرٍ، فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ۔ (القمر:۵۴،۵۵)

            ترجمہ: جو پرہیز گار ہیں (متقین) ان باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں گے ایک اعلی مقام میں قدرت والے بادشاہ کے نزدیک۔

          (۴۰)  وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمَتَّقِیْنَ۔ (الجاثیۃ: ۱۹)

            ترجمہ:اور پرہیزگاروں (متقیوں )کا دوست تو اللہ ہے۔

          (۴۱)  وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۔ (التوبۃ: ۱۲۳)

            ترجمہ: اور جانے رہو کہ اللہ تو پرہیزگاروں (متقیوں ) کے ساتھ ہے۔

          (۴۲) إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ (التوبۃ: ۴،۷)

            ترجمہ: بے شک اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔

حصولِ تقوی کے اسباب اور طریقے

            تقوی کس طرح حاصل ہو، ایک مومن میں تقوی کی بیش قیمت دولت کیسے آئے ؟ہم قرآن وحدیث اور اقوالِ علما کی روشنی میں حصولِ تقوی کے چند اسباب اور طریقے ذکر کرتے ہیں ۔

(۱)        اہلِ تقوی کی صحبت

            قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:یَا أَیُّہَا الْذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ۔ (التوبۃ: ۱۱۹)

            یعنی اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو، اور صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔

            اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور آگے فرمایاکہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ، صادقین کے ساتھ بن جاؤ۔

            صادقین کون لوگ ہیں اور ان سے کون مراد ہیں ؟  ابن العربیؒ نے فرمایا:  قِیْلَ ہُمُ الَّذینَ استوتْ ظواہرُہم وبواطُنہم ۔ یعنی صادقین وہ لوگ ہیں جن کے ظاہر وباطن یکساں ہوں ۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ جس کی یہ صفت ہو اس کو صدیق کہتے ہیں جیسے ابوبکرؓ، عمرؓاور عثمان ؓ۔  (تفسیر قرطبی: ۸/۲۸۹)

            اور تفسیر روح المعانی وغیرہ میں ہے: المرادُ بالصادقینَ الذینَ صدقُوا فی الدینِ نیۃً و قولاً و وعملاً وإخلاصاً۔ (روح المعانی:۶/۴۳۔الکشاف: ۲/۳۲۰۔ تفسیر نسفی: ۱/۷۱۶)

            یعنی صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین میں سچے ہیں ‘ نیت، قول وعمل اور اخلاص کے اعتبار سے۔

            حاصل یہ کہ اللہ تبارک وتعالی ایمان والوں کو حکم یہ دے رہا ہے کہ اگر متقی بننا چاہتے ہو، اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو تو ضروری ہے کہ تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرو جن کے ظاہر وباطن یکساں ہیں ، جن کے باطن کی صفائی اور صیقل ہو چکا ہے، جو اخلاص کے پیکر ہیں اور جو قول وعمل ہر اعتبار سے سچے ہیں ، جن اوصاف کی وجہ سے بندۂ مومن صدیقیت کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے؛ لہٰذا صاحبِ نسبت بزرگانِ دین اور اہلِ تقوی اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنا حصولِ تقوی کا بڑا سبب ہے۔

            مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی فرماتے ہیں : تقوی اختیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تقوی رکھنے والے لوگوں کے ساتھ بن جاؤ، اگرآدمی ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، جن کو حلال وحرام کی فکر نہیں ، جن کو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے اور حساب وکتاب دینے کا احساس نہیں ، اگر انسان ایسے غافلوں کی صحبت میں رہے گا تو اس کے اندر بھی غفلت آجائے گی اور اگر تقوی والوں کی صحبت اختیار کرے گا اور ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جن کو اللہ نے ہمت عطا فرمائی ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے وہ بچتے ہیں ، تو جتنی صحبت بڑھتی جائے گی، ان شاء اللہ، اتنا ہی تقوی بھی بڑھتا جائے گا۔ (اصلاحی خطبات: ۱۷/۱۲۱)

(۲)       حصول تقوی کا دوسرا سبب روزہ رکھنا ہے

            اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں روزہ کے حکم کو بیان کرنے کے بعد اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:  ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘۔ تاکہ تم متقی ہو جاؤ۔ (البقرۃ:۱۸۳)

            مفسرین اس کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :

          لأنّ الصومَ وصلۃٌ إلی التقوٰی؛ لِما فیہِ من قہرِ النفسِ وکسرِہَا وترکِ الشہواتِ۔  (تفسیر البغوی: ۱/۲۱۴)

            ترجمہ: روزہ حصول تقوی کا وسیلہ اور سبب ہے؛ اس لیے کہ اس سے نفس پر کنٹرول اور غلبہ حاصل ہوتا ہے، کسر نفس ہوتا اور شہوتوں کو ترک کیا جاتا ہے۔

          لأنَّ الصیامَ سببُ تقوٰی ؛لأنّہ یُمیتُ الشہواتِ۔  (تفسیر قرطبی: ۲/ ۲۷۶)

            ترجمہ: روزہ تقوی کا سبب ہے ؛ اس لیے کہ یہ شہوتوں کو مارتا ہے۔

          سببُ فرضیۃ ِالصومِ ہو رجاء ُحصولِ التقوٰی لکم۔  (البحر المحیط:۲/۱۷۹)

            ترجمہ:  روزہ کی فرضیت کا سبب تمہارے لیے حصولِ تقوی کی امید ہے۔

          أنّہ سببٌ للتقوٰی، وتقوی اللّٰہِ عزّ وجلّ واجبۃٌ علی کلّ مکلَّفٍ عدٰی کلّ حالٍ و  فی کلٍّ زمانٍ۔ (تفسیر الراغب الأصفہانی: ۱/۳۸۸)

            ترجمہ:روزہ تقوی کا سبب ہے اور اللہ تبارک وتعالی کا تقوی،اس کا ڈر اور خوف ہر مکلف بندہ پر ہر حال اور ہر زمانے میں واجب اور ضروری ہے۔

            اور حضرت تھانویؒ مذکورہ آیت کے فوائد تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : ’’کیوں کہ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقوی کی‘‘۔

            اورترجمہ شیخ الہند میں :’’ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ‘‘ کے فوائد تفسیر میں لکھا ہے:’’یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑے گی، تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعاً حرام ہیں روک سکوگے اور روزہ سے نفس کی قوت وشہوت میں بھی ضعف آئے گا، تو اب تم متقی ہوجاؤگے، بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو دشوار معلوم ہوتے ہیں ، ان کا کرنا آسان ہوجائے‘‘۔

            الغرض مذکورہ تمام عبارتوں کا حاصل یہی ہے کہ روزہ حصولِ تقوی کا سبب ہے، اس سے بندۂ مومن میں تقوی پیدا ہوتا ہے۔

(۳)        مشتبہ حتی کہ بعض مباح چیزوں سے بچنا 

            حصول تقوی کا تیسرا سبب مشتبہ حتی کہ بعض مباح چیزوں سے بچنا ہے، حضرت عطیہ سعدیؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:   ’’لایبلغُ العبدُ أن یکونَ منَ المتقینَ حتی یَدَعَ مالابأسَ بہ حذرًا لِمابہ بأسٌ‘‘۔  (ترمذی حدیث نمبر: ۲۴۵۱، ابن ماجہ :۴۲۱۵)

            ترجمہ: بندہ اس وقت تک کامل پرہیزگاروں (متقیوں ) کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی قباحت ہے؛ تاکہ اس طرح وہ ان چیزوں سے بچ سکے جن میں قباحت ہے۔

            مظاہر حق جدید میں اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے: شرعی نقطئہ نظر سے متقی یعنی پرہیزگار وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھے جنہیں اختیار کرنا اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سبب ہو۔

            حاصل یہ ہے کہ بندہ اس وقت تک پورا متقی اور پرہیزگار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس خوف کی وجہ سے مباح چیزیں بھی نہیں چھوڑ دیتا کہ مبادا یہ مباح چیز کسی حرام، یا مکروہ،یا مشتبہ چیز تک پہنچنے کا ذریعہ نہ بن جائے،مثلاً اگر ایک آدمی شادی شدہ نہ ہو تو شہوت کے غلبہ اور حرام کاری میں مبتلا ہونے کے خوف سے پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائے؛ کیوں کہ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو شہوت کا غلبہ بھی زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح خوش بو وغیرہ نہ لگائے اور نہ کوئی ایسی مباح چیز استعمال کرے جس سے ہیجان پیدا ہوتا ہو۔ بہر کیف حرام، مکروہ اور مشتبہ چیزوں سے اجتناب کے بعد احتیاط کے پیش نظر بعض مباح چیزوں سے بھی بچنا تقوی وپرہیزگاری کا کامل ترین درجہ ہے؛ چناں چہ حضرت عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم حرام میں مبتلا ہوجانے کے خوف سے دس حلال حصوں میں سے نو  حصے چھوڑدیتے تھے ۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں منقول ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حرام میں مبتلا ہوجانے کے خوف سے از قسم مباح ستر حصے ترک کردیتے تھے۔  (مظاہر حق جدید:۳/ ۴۴۳،۴۴۴)

            اور حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ الحلالَ بیّنٌ، وإنّ الحرامَ بیّنٌ، وبینہما مشتبہاتٌ، لایعلمہنّ کثیرٌ من الناسِ، فمن اتَّقی الشبہاتِ استبرأ لدینہ وعرضِہ، ومَن وَقَعَ فی الشبہاتِ وقع فی الحرامِ۔(مسلم حدیث:۱۰۷-۱۵۹۹،  بخاری حدیث: ۵۲)

            ترجمہ: بہت سی چیزیں حلا ل ہیں ، ان کا حلال ہونا واضح اور ظاہر ہے، اور بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کا حرام ہونا واضح اور ظاہر ہے، اور ان کے درمیان بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مشتبہ ہیں ، جن کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ حرام ہے یا حلال، پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا اور جوشخص مشتبہ معاملات میں پڑا عنقریب وہ حرام چیز میں بھی واقع ہوگا، مبتلا ہوگا۔

            مشتبہ چیز کی مثال: ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ ناجائز آمدنی کے، اس صورت میں سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں ، لہٰذا ان روپیوں سے اجتناب وپرہیز کرنا جاہیے۔  (مظاہر حق جدید:۳/۴۳۳)

            بہرحال مشتبہ چیزوں سے بچنا اور بعض مرتبہ حلال اور مباح امور سے اجتناب واحتراز اور پرہیز کرنا حصول تقوی کا سبب ہے، اس سے تقوی پیدا ہوتا ہے۔

(۴)        محاسبۂ نفس

            حصولِ تقوی کا چوتھا سبب محاسبۂ نفس ہے، بندۂ مومن اپنے بارے میں یہ محاسبہ کرے کہ اس کاکھانا کیسا ہے؟ اس کا پینا کیسا ہے؟ اس کا لباس کیسا ہے؟ اس کی کمائی کیسی ہے؟ اس کے ذرائع آمدنی کیسے ہیں ؟ حضرت میمون بن مہرانؒ فرماتے ہیں کہ :  ’’آدمی اس وقت تک کامل متقی اور پرہیزگار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا اس سے زیادہ محاسبہ نہ کرلے جتنا کہ وہ اپنے ساتھی کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کاکھانا کیسا ہے، اس کا پینا کیسا ہے، اس کا لباس کیسا ہے، آیا یہ چیزیں اس کے پاس حلا ل طریقے سے آئیں ہیں ، یا حرام طریقے سے‘‘۔  ( الدرالمنثور: ۱/۶۳)

            پس جب آدمی اپنے آپ کا خوب خوب محاسبہ کرے گا، ہر وقت حرام وحلال کے درمیان تمیز کی فکر کرے گا اور دھیان رکھے گا تو اس میں تقوی آئے گا اور وہ متقی بن جائے گا۔

(۵)       اللہ کی رؤیت اور معیت کا احساس

            علامہ ابن رجب حنبلیؒ اپنی کتاب جامع العلوم والحکم میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ جو آدمی اس بات کو جان لے گا کہ اللہ تعالی اس کو دیکھ رہا ہے چاہے وہ جہاں بھی ہو اور اللہ اس کے ظاہروباطن اور اس کے سر وعلانیہ، ہر حالت پر مطلع ہے اور اللہ تعالی کو اپنی خلوت میں مستحضر رکھے اور اس کی معیت کا احساس ہر وقت دامن گیر رہے تو پھر یہ اس کو تنہائی میں ترکِ معاصی پر آمادہ کرے گا،اور یہ اس کے لیے گناہوں کو چھوڑنے کا موجب اور سبب ہوگا۔ اسی معنی کی طرف اللہ تعالی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اشارہ کیا ہے :’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ۔ الآیہ۔  اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو۔ (سورۂ نساء:ا)

(۶)         درج ذیل چار اعمال کو حصولِ تقوی کا سبب مانا گیا ہے:

            (۱)دل سے اللہ کی محبت (۲) محنت ومشقت کے ساتھ حتی الوسع احکامِ شریعت پر عمل کرنا (۳) تمام اولادِ آدم پر رحم کرنا (۴) اور جو اپنے لیے پسند نہیں وہ دوسرے کے لیے بھی پسند نہ کرنا،لہٰذا دوسرے کو ایذا اور تکلیف نہ پہنچانا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے کتاب الزہد میں اور ابن ابی الدنیا ؒنے کتاب التقوی میں سعید بن ابو سعید مقبریؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ: اے معلمِ خیر!میں کس طرح متقی اور اللہ سے ڈرنے والا بن جاؤں جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے؟  ’’کیف أکونُ تقیاً للّٰہِ کما ینبغی لَہ؟ قال: بِیسیرٍ مِن العملِ،  تُحِبُّ اللّٰہَ بقلبِکِ کلّہ، وتعمل بکدحک وقوتک ما استطعتَ، وترحّم ابنَ جنسِک، وما لاتحبُّ أن یؤتیٰ إلیک فلا تأتِہ إلی أحدٍ، فأنتَ تقیٌ للّٰہِ حقاً۔   (الدرالمنثور:۱/۶۲)

            جواب میں حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایاکہ تم تھوڑے سے عمل سے متقی بن جاؤ گے۔ ’’تم پوری دل جمعی کے ساتھ اللہ سے محبت کرو۔محنت ومشقت اور قوت کے ساتھ پوری طاقت کے مطابق عمل کرو ۔ تمام اولاد آدم پر رحم کرو۔ اور جوچیز اپنے لیے پسند نہیں کرتے اس میں دوسرے کو مبتلا مت کرو یعنی دوسرے کو تکلیف مت پہنچاؤ، پس تم کما حقہ اللہ سے ڈرنے والے اور متقی بن جاؤگے‘‘۔

(۷)        ’’لا إلٰہ إلاّ اللہ ‘‘کا ورد

            کلمہ ٔ  لا إلٰہ إلاّ اللہ کو کلمۂ تقوی بھی کہتے ہیں ،جیسا کہ اس کانام کلمۂ توحید اور کلمۂ اخلاص بھی ہے؛ لہٰذا کلمۂ لا إلٰہ إلا اللہ کا ورداور کثرت سے اس کا ذکر بھی حصولِ تقوی کا سبب ہے۔پس جو شخص جتنا زیادہ اس کا ورد وذکرکرے گا اس میں اتنا ہی زیادہ تقوی پیدا ہوگا۔ ان شاء اللہ (احیاء العلوم: ۱/۲۹۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصولِ تقوی کی دعا

            آدمی کو چاہیے کہ کثرت کے ساتھ تقوی کی دعا کرتا رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہرحال میں تقوی کی دعا فرمایا کرتے تھے۔

            حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے:  اللّٰہمّ إنّی أسئلُک الہدٰی والتُقٰی والعفافَ و الغنائَ۔

            اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ہدایت کا، تقوی کا، عفت و پاک دامنی کا اور استغنا وبے نیازی کا۔(مسلم حدیث: ۷۲-۲۷۲۱۔ ترمذی حدیث: ۳۴۸۹۔ ابن ماجہ حدیث: ۳۸۳۲)

            اور حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرمیں نکلنے کے لیے اپنے اونٹ پر سوار ہو جاتے تھے، تو یہ دعا کرتے تھے: أللّٰہمّ إنّا نسئلُک فی سفرِ ہذا البرَّ والتقوٰی۔  اے اللہ! بے شک ہم آپ سے اس سفرمیں نیکی اور تقوی کا سوال کرتے ہیں ۔ (مسلم حدیث:۴۲۵-۱۳۴۲)

تقوی اختیار کرنا واجب وفرض ہے

            اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں ۷۸ /سے زائد مرتبہ صیغۂ امرکے ذریعہ تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، ان میں سے ۶۶/ سے زیادہ دفعہ ’’اِتَّقُوْا اللّٰہَ‘‘   اللہ سے ڈرو!  یا  ’’اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ‘‘ اپنے رب سے ڈرو! ‘کے صیغے اور الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اور امر وجوب کے لیے آتا ہے؛ لہٰذا یہ وجوب اور فرضیت کا تقاضا کرتا ہے اور اس تاکیدی اور تکراری حکم سے تقوی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ پس تقوی کا اختیار کرنا فرض اور واجب ہے۔

            چناں چہ تفسیر روح المعانی میں ہے: والتقوٰی واجبۃٌ علیکم، المدلولُ علیہ بقولہ:  ’’اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ ‘‘ یعنی تقوی تمہارے اوپر لازم ہے ؛اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے ’’اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ ‘‘  تم سب اپنے رب سے ڈرو؛ اس لیے کہ یہ صیغۂ امر کے ذریعہ حکم ہے اور امر وجوب کے لیے آتا ہے۔ (روح المعانی: ۹/۱۱۷)

            علامہ ابن قیم جوزیؒ فرماتے ہیں :  إن اللّٰہَ أوجبَ علی العبادِ أن یتقوہ، وأصلُ التقوٰی معرفۃُ مایتّقی، ثُمَّ العملُ بہ، فالواجبُ علی کلّ عبدٍ أن یبذلَ جُہدہ فی معرفۃِ مایتقیہ ممّا أمرہ اللّٰہ بہ، ونہاہ عنہ، ثم یلتزمُ طاعۃَ اللّٰہِ ورسولَہ۔ ورأسُ التقوٰی والإحسانِ خلوصُ النیۃِ للّٰہ فی إقامۃِ الحقِّ۔ (إعلام الموقعین عن رب العالمین: ۲/۱۸۷، ۱۲۲)

            ترجمہ: اللہ تعالی نے بندوں پرلازم اور ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اس سے ڈریں ۔ اور تقوی کی اصل اس چیز کی معرفت حاصل کرنا ہے جس سے ڈراجائے، پھر اس پر عمل کرنا ہے، پس ہر بندہ پر واجب ہے کہ اپنی جہد وکوشش کو اس چیز کی معرفت میں خرچ کرے جس کے ذریعہ وہ اللہ سے ڈرے گایعنی اللہ تعالی نے جس چیز کے کرنے کا حکم دیا ہے اس کا علم حاصل کرے اور جس چیز سے روکا اور منع کیا ہے اس کا علم حاصل کرے، پھراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑے۔ اور واضح رہے کہ تقوی اور احسان(تصوف) کی اصل اور بنیاد ہر کام کے انجام دینے میں اللہ کے لیے خلوص ِنیت ہے(کہ ہر کام محض اللہ کو راضی اور خوش کرنے کے لیے ہو کوئی دنیاوی اغراض ومقاصد پنہاں نہ ہوں )۔

            اور امام راغب اصفہانیؒ نے لکھا ہے: تقوٰی اللّٰہِ عزّ وجلّ واجبۃٌ علٰی کلّ مکلّف عدی کلّ حالٍ و  فی کلّ زمانٍ۔  (تفسیر الراغب الأصفہانی: ۱/۳۸۸)

            یعنی اللہ تبارک وتعالی کا تقوی اوراس کا ڈر اور خوف ہر مکلف بندہ پر ہر حال اور ہر زمانے میں واجب اور ضروری ہے۔       

            اور امام رازیؒ آیت کریمہ :  یَا أَیُّہَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَئٌ عَظِیْمٌ۔ (الحج: ۱)

            ترجمہ:اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن کا زلزلہ بڑی بھاری چیز ہے۔  کی تقسیر کے تحت فرماتے ہیں :

          أنہ سبحانَہ وتعالٰی أمرَ الناسَ بالتقوٰی، ثم علّل وجوبَہا علیہم بذکرِ الساعۃِ، ووصفہا بأہولِ صفۃٍ، والمعنی أنَّ التقوٰی تقتضِی دفعَ مثلِ ہذا الضررِ العظیمِ عن النفسِ، ودفعُ الضررِ عن النفسِ معلومُ الوجوبِ، فیلزمُ أن تکونَ التقوٰی واجبۃً۔ (تفسیر رازی: ۲۳/۲۰۰)

            ترجمہ: اللہ سبحانہ وتعالی نے لوگوں کو تقوی کا حکم فرمایا، پھر بندوں پر اس کے وجوب کی علت کو قیامت کے ذکر کرنے کے ذریعہ بیان فرما یا۔اور اللہ تعالی نے (آگے) قیامت کے سب سے ہولناک وصف کو ذکر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تقوی نفس سے اس جیسے ضررعظیم کو دور کرنے کا تقاضہ کرتا ہے،اوریہ معلوم ہے کہ اپنے آپ سے ضرر کو دور کرنا واجب ہے، لہٰذا لازم آیا کہ تقوی واجب ہے۔ 

            تفسیرابن جزی میں ہے: التقوی واجبۃ۔ یعنی تقوی واجب ہے۔   ( التسہیل لعلوم التنزیل لابن جزی :۱/۱۲۸)

            تفسیر سعدی میں ہے: أصل التقوی واجبۃ۔ (۱/۹۵۱)  یعنی اصلِ تقوی  واجب ہے۔

            اللہ قادر مطلق سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں بھی تقوی عطا فرمائے، نورِ تقوی سے قلب کو منور فرمائے، ہر عمل میں اخلاص پیدا فرمائے اور ہرکام کو تقوی اور اپنی ذات سے ڈر اور خوف کے ساتھ انجام دینے کی توفیق بخشے! آمین یا رب العالمین!

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts