علماء اور مدارس عبادت کے ذرائع ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گے

از: مولانا  شاہ عالم گورکھپوری

            قال اللّٰہ فی کتابہ العزیز ’’اللّٰہ لا الٰہ إلا ہو‘‘  اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔

            اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا معبود ہونا بیان کیاگیا ہے کہ عبادت کے لائق صرف اسی کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے عقل وفہم میں وہ قوت نہیں دی کہ اس کی ذات کی حقیقت تک انسان رسائی حاصل کرسکے؛ البتہ اس کی پہچان کے لیے کچھ صفات ہیں جن کے ذریعہ انسان اپنے فہم وفراست سے اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے۔

            اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات کی دوقسمیں ہیں :

            (۱) صفات ثبوتیہ، جنھیں صفات جمالیہ بھی کہا جاتا ہے اور اسی کو علامہ تفتازانی صاحبِ شرح عقاید نے صفات ازلیہ سے تعبیر کیا ’’ولہ صفات ازلیۃ‘‘۔

            (۲) صفات سلبیہ، جنھیں صفات جلالیہ بھی کہا جاتا ہے۔

صفات ثبوتیہ:

            صفات ثبوتیہ ان صفات کو کہتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ماننا لازم اور ضروری ہو۔ یہ آٹھ ہیں : علم، قدرت، سمع، بصر، حیات، کلام، ارادہ مشیت اور تکوین۔ یہ صفات نہ عین اللہ ہیں نہ غیراللہ ہیں ۔

صفات سلبیہ:

            صفات سلبیہ ان صفات کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے جن کی نفی کرنی ضروری ہو۔ جیسے  ’’اللّٰہ لیس بجسم، اللّٰہ لیس بعرض‘‘ وغیرہ۔

            صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) محکمات (۲) متشابہات

            محکمات: محکمات ان صفات کو کہتے ہیں جن کا معنی معلوم ہو جیسے علم، قدرت، سمع، بصر وغیرہ۔

            متشابہات: متشابہات ان صفات کو کہتے ہیں جن کا معنی معلوم نہ ہو۔ صفات متشابہات دو طرح کی ہوتی ہیں :

            (۱) غیرمعلوم المعنی غیرمعلوم المراد یعنی جن کا معنی لغوی اورمعنی مرادی کچھ بھی معلوم نہ ہو، جیسے ’’الم، عسق، حم‘‘۔

            (۲) معلوم المعنی غیرمعلوم المراد یعنی معنی لغوی تو معلوم ہو؛ لیکن معنی مرادی معلوم نہ ہو۔ جیسے ’’ید اللّٰہ، وجہ اللّٰہ، ساق اللّٰہ‘‘۔

آمدم برسرمطلب

            اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ دنیا میں عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔ اس کا معنی اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ رہے گا، اللہ پر کبھی فناء طاری نہیں ہوگا۔ خود لفظ ’’اللہ‘‘ سے بھی یہی بات مفہوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ اللہ نام ہے ذات واجب الوجود کا جیساکہ درس نظامی میں شامل علم کلام کی مشہور کتاب ’’شرح عقائد‘‘ میں ہے:  ’’والمحدث للعالم ہو اللّٰہ أی الذات الواجب الوجود‘‘  کہ تمام عالم کو پیدا کرنے والا اللہ یعنی ذات واجب الوجود ہے۔ واجب الوجود کا اطلاق اس ذات پر ہوتا ہے جس کا ہمیشہ موجود رہنا ضروری ہو اور اس کے اوپر عدم کا طاری ہونا محال ہو؛ چنانچہ اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ محمد عبدالعزیز فرہارویؒ فرماتے ہیں :

            ’’فسر اسم اللّٰہ سبحانہ بالواجب لأن کون الحق سبحانہ مبدعا للمحدثات کلہا ومبدء سلسلۃ الممکنات بأجمعہا وموصوفا بالوحدۃ والقدم۔۔۔ إنما ہو من حیث کونہ واجب الوجود‘‘۔ (النبراس شرح شرح عقائد، ص:۹۶-۹۷)

            ترجمہ: شارحؒ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تفسیر لفظ ’’واجب‘‘ سے اس لیے کی ہے کہ حق تعالیٰ تمام مخلوقات کو انوکھے طرز پر پیدا کرنے، جمیع ممکنات کو ایجاد کرنے اور قدم ووحدت کی صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے ایسے ہیں کہ ان کا ہمیشہ ہمیش موجود رہنا ضروری ہے۔

            علامہ مصلح الدین مصطفی بن محمدالقسطلانی، الرومی، الحنفیؒ، المعروف بـ’’کستلی‘‘ فرماتے ہیں :

            ’’قولہ: (أی الذات الواجب) یرید أن ہذااللفظ وإن کان وضعہ بازاء ذات الواجب الوجود لکن لما کان امتیاز ذلک عندنا بوصف الألوہیۃ۔ صار قولنا: (اللّٰہ) بمنزلۃ أن یقول: الذات الموصوف بالألوہیۃ، والألوہیۃ علی ما صرح بہ: عبارۃ عن وجوب الوجود القدم الذاتی‘‘ (المجموعۃ السنیۃ علی شرح العقائد النسفیۃ، ص:۲۰۸، ۲۰۹)

            ترجمہ: شارحؒ نے اپنے قول ’’ذات واجب الوجود‘‘ سے یہ مراد لیا ہے کہ لفظ اللہ اگرچہ اس ذات کے لیے وضع کیاگیا ہے جو واجب الوجود ہو؛ لیکن ہمارے یہاں اس کا امتیاز صفت الوہیت سے متصف ہونا ہے۔ اب ہمارا قول ’’اللہ‘‘ اس درجہ میں ہوگا کہ کہا جائے کہ اللہ اس ذات کا نام ہے جو صفت الوہیت سے متصف ہے اور الوہیت ’’جیساکہ بیان کیاگیا‘‘ قدم ذاتی اور وجود کے ہمیشہ ہمیش رہنے کا نام ہے۔

            علامہؒ کے قول  ’’وإن کان وضعہ بازاء ذات الواجب الوجود‘‘  سے یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ لفظ ’’اللہ‘‘ کا حقیقی معنی ’’ذات واجب الوجود‘‘ ہے۔ یعنی جس کا ہمیشہ موجود رہنا ضروری ہو اور جس کی ہمیشہ ہمیش عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایاہے؛ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

          ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ‘‘

            ترجمہ: کہ ہم نے جناتوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

            مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات صاف ہوگئی کہ عبادت اللہ کی کی جائے گی، عبادت کرنے والے انس وجن ہوں گے اور چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ موجود رہیں گے اس لیے جب تک ان کی مرضی ہوگی انسان وجنات ان کی عبادت کرتے رہیں گے یعنی ان کی عبادت کرنے والے افراد اس روئے زمین پر موجود رہیں گے۔

            اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری کمزورنگاہوں سے اوجھل ہیں ، نہ تو ہم اللہ کو دیکھ سکتے ہیں اورنہ ہی سن سکتے ہیں ، تو پھر اللہ کی عبادت کیسے (کن طرق وافعال کے ذریعے) کی جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی معمہ کو حل کرنے کے لیے انبیاء کرام علیہ السلام اور کتب مقدسہ کا پاکیزہ سلسلہ شروع فرمایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوچکا۔ اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اس کی تعلیم دی، صحابہؓ نے تابعینؒ کو، تابعینؒ نے تبع تابعینؒ کو، انھوں نے محدثین وفقہاء کو، محدثین وفقہاء نے علماء کو۔ اس طرح سینہ بہ سینہ یہ علم اور عبادت کا طریقہ ہم تک پہونچا۔ عصر حاضر میں جس جگہ اس کی تعلیم ہوتی ہے اور جو لوگ اس کی تعلیم دیتے ہیں انھیں مسجد، مدرسہ علماء، فضلاء اور حفاظ کے نام سے معنون ومنسوب کیا جاتا ہے۔

            اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہیں گے، جب تک چاہیں گے انسانوں کو باقی رکھیں گے اوران سے عبادت کا کام لیتے رہیں گے۔ جب یہ دونوں باتیں طے ہیں تو یہ بھی متیقن ہے کہ جن ذرائع سے اللہ کی عبادت کا طریقہ بتایا جاتا ہے اور جو لوگ طریقہ بتاتے ہیں وہ بھی ہمیشہ رہیں گے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ زمانوں میں انھیں کسی اورنام سے معنون ومنسوب کیا جانے لگے۔ جیسے ان ہی ذرائع کو دو اوّل میں نبی اور پیغمبر سے بتانے کی خاص جگہ کو دورنبویؐ میں صفہ کہا جاتا تھا، ما بعد کے زمانے میں ان ذرائع کو مختلف ناموں سے جانا گیا اوراب اس زمانے میں عالم، مفتی، حافظ، قاری اور بتانے کی جگہوں کو مدرسہ، مسجد، کے نام سے جانا جاتاہے اسی طرح ممکن ہے کہ بعد میں ان کا کچھ اور نام ہوجائے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ نام میں اگرچہ تبدیلی ہوجائے جیساکہ ماضی میں تبدیلی ہوتی آئی ہے؛ لیکن یہ ذرائع تاقیامت باقی رہیں گے اور جو لوگ بھی ان کے مٹانے کے درپے ہوں گے وہ خود مٹ جائیں گے؛ لیکن ان پر کسی طرح کی آنچ نہیں آئے گی؛ اس لیے کہ یہ ذرائع مٹ گئے تو اللہ کی عبادت کاطریقہ اپنے بعد والوں کو کوئی بتانے والا نہیں رہے گا اور جب یہ سلسلہ نہیں رہے گا تواس کے بغیر اللہ کی عبادت ناممکن ہوگی اور جب اللہ کی عبادت نہیں ہوگی تو نعوذ باللہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی معبودیت پر حرف آئے گا۔

ایک سوال:

            مدارس ومساجد اور علماء وفضلاء عبادت یا اللہ کی معبودیت کے لیے سبب کے درجہ میں ہیں ؛ لہٰذا یہ ذرائع سبب ہوئے اور عبادت مسبّب اور سبب کے فوت ہونے سے مسبّب کو  فوت ہونا لازم نہیں آتا؛ اس لیے اگر یہ مدارس اور علماء نہیں رہے تو اس سے عبادت یا اللہ کی معبودیت پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ مدارس ومساجد فنا ہوسکتے ہیں ۔

جواب:

            اولاً: ان ذرائع اور عبادت کے درمیان سبب مسبّب کا نہیں ؛ بلکہ موقوف اور مقوف علیہ کا علاقہ ہے۔ عبادت موقوف ہے اوریہ ذرائع موقوف علیہ۔ اور موقوف کی بقا کے لیے موقوف علیہ کی بقا شرط ہوتی ہے، ثابت ہوا کہ مدارس ومساجد اور علماء وفضلاء کا باقی رہنا ضروری ہے۔

            ثانیا: سبب کی دو صورتیں ہیں : (۱) مسبّب سبب کے ساتھ خاص نہ ہو۔ جیسے لفظ ’’عتق‘‘ اور ’’زوال ملک متعہ‘‘۔ اس مثال میں لفظ ’’عتق‘‘ زوال ملک متعہ کے لیے سبب ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے کہ ’’عتق‘‘ کے ساتھ ہمیشہ زوال ملک متعہ ہو۔ جیسے اگر مولی اس لفظ کو باندی کی طرف منسوب کرے تو زوال ملک رقبہ کے واسطے سے زوال ملک متعہ ہوگا؛ لیکن اگر یہی لفظ غلام کے لیے استعمال کرے تو صرف زوال رقبہ ہوگا زوال ملک متعہ نہیں ۔

            (۲) مسبّب سبب کے ساتھ خاص ہو۔ جیسے خمر (شراب) اور عنب (انگور)۔ اس مثال میں ’’عنب‘‘ خمر کے لیے ایسا سبب ہے جس کے ساتھ مسبّب (خمر) خاص ہے؛ کیونکہ احناف کے یہاں خمر کا اطلاق صرف کچے شیرہ انگور پر ہی ہوتا ہے۔

            پہلی صورت میں (جب مسبّب سبب کے ساتھ خاص نہ ہو) دونوں میں سے ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی؛ لیکن دوسری صورت میں (جب مسبّب سبب کے ساتھ خاص ہو) ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم ہوا کرتی ہے (خلاصۃ نامی شرح حسامی ص:۳۱، نورالانوار بحث: علاقہ مجاز)۔ بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ عبادت اور ذرائع عبادت میں سببیت کا علاقہ ہے تو یہاں سبب کی دوسری صورت مراد ہوگی۔ یعنی ذرائع عبادت کے فوت ہونے سے نفس عبادت کا فوت ہونا لازم آئے گا۔

            ثالثاً: سوال میں مذکورہ قاعدہ اس سبب کے بارے میں ہے جو انسانوں کا وضع کردہ ہو۔ زیربحث مسئلہ میں مدارس ومساجد یا علماء و فضلاء کو سبب انسانوں نے نہیں ؛ بلکہ خدانے قرار دیا ہے اور خدا کے متعین کردہ سبب میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوگا۔

            اب یہاں ایک بات رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح مدارس ومساجد اور علماء و فضلاء کو سبب بنانے پر قادر ہے، اسی طرح ان کے علاوہ دیگر اشیاء کو بھی سبب بنانے پر قادر ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ دوممکنہ صورتوں میں سے جب ایک کو متعین کرلیا جائے تو دوسری صورت کالعدم شمار ہوتی ہے اوراس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا چہ جائے کہ اس کو بنیاد بناکر معینہ صورت پراعتراض کیا جائے۔

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts