از: مولانا محمد قاسم اوجھاری

            ایک لمبے زمانے تک انسان چاند، ستاروں اور سیاروں کی طرف بڑی حیرت و حسرت سے دیکھتا تھا، پھر انسان نے اپنی خودی کو پہچانا اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت عقل کے نور سے اس کے اندر شعور و آگاہی کی شمعیں روشن ہوئیں ؛ عقل و شعور نے انسان کو بلند خیالی، بلند پرواز، اور بلند فکر ونظر عطا کی؛ اور پھر انسان چاند ستاروں اور سیاروں کی طرف بڑھنے لگا، انسان نے ایجادات کے انبار لگادیے، بہت سی محیر العقول چیزیں ایجاد کر ڈالیں ، ان ایجادات نے انسانی زندگی کی مشکلات کو آسانیوں میں تبدیل کردیا؛ ان ایجادات میں سے ایک اہم ایجاد انٹرنیٹ کا مواصلاتی نظام ہے۔

            بہت عرصہ پہلے امریکہ میں ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا کے ہر گھر میں کمپیوٹر ہوگا، پھر اس نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ایک کمپنی بنائی، وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی گئی، اسی ترقی کے نتیجے میں انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی؛ سب سے پہلے امریکہ کے سائنس دانوں نے ۱۹۶۰ء میں نیٹ ورکنگ کا جال بچھایا، جس کا مقصد یہ تھا کہ فوجیوں کو ضروری ہدایات اور معلومات بسرعت پہنچائی جائیں ، پھر۱۹۸۲ئمیں انٹرنیٹ عالمی سطح پر کارگر ہوا، پھر۱۹۹۱ئمیں ’’یورپین ہائی انرجی فزکس لیبریٹری‘‘ نے ایک ایسے سوفٹ ویئر کو فروغ دیا جس کی مدد سے کسی بھی طرح کی معلومات انٹرنیٹ پر تلاش کی جاسکتی تھیں ، اور اس کا نام ’’ورلڈ وائڈ ویب‘‘ رکھا، اس ویب نے بہت ہی کم عرصے میں رفتہ رفتہ پوری دنیا کو اپنے دائرے میں لے لیا؛ آج پوری دنیا عموماً اسی ویب کا استعمال کرتی ہے اور اسی کے ساتھ دنیا ’’گلوبل ولیج‘‘کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

            آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انٹرنیٹ نے ایک خاص مقبولیت حاصل کرلی ہے، آج انسان نے انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے، انٹرنیٹ ایک آزاد نیٹ ورک ہے، ہر کوئی گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات، تجربات اور مشاہدات انٹرنیٹ پر شائع کر سکتا ہے، انٹرنیٹ کی رفتار بجلی سے بھی زیادہ سریع السیر ہے، منٹوں اور سکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کوئی بھی خبر پہنچائی جا سکتی ہے اور دنیا کے حالات سے ہر وقت باخبر رہا جا سکتا ہے، گویا انٹرنیٹ عالمی سطح پر پھیلا ہوا ایک لمبا جال ہے جو انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب آپ اپنا کمپیوٹر انٹرنیٹ سے جوڑتے ہیں تو آپ بھی اس جال کا ایک حصہ بن جاتے ہیں اور اب آپ اس جال سے جڑے ہوئے دوسرے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بھیج سکتے ہیں ۔ کمپیوٹر کو ٹیلی فون لائن، کیبل لائن اور سٹیلائٹ وغیرہ کے ذریعہ آپس میں ایک دوسرے سے جوڑا جاتاہے۔ اور اب انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ’’لیپ ٹاپ‘‘ اور ’’وائی فائی‘‘ جیسی ٹکنالوجی بھی موجود ہے اور اس سے بھی آسان اور سستی ٹیکنالوجی 2G, 3G, اور 4G ہے جس کے ذریعہ موبائل میں بھی انٹرنیٹ استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کو دنیا کی ایک بڑی آبادی استعمال کر رہی ہے۔

            انٹرنیٹ کو جب نفع و ضرر کے میزان میں تولا جاتا ہے تو واضح ہوتا ہے کہ اس کے فوائد بھی کثیر ہیں اور نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں ؛ انٹرنیٹ ایک ایسا تباہ کن سوفٹ وئیر ہے جس کے نقصانات سیکڑوں نہیں ہزاروں ہیں ، آج معاشرے میں فحاشی و بے حیائی کو عام کرنے میں انٹرنیٹ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، فحاشی و عریانی سے لبریز ہزاروں ویب سائٹس انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، اور نوجوان نسل ان ویب سائٹوں سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں ، انٹرنیٹ پر موجود فلمی ڈرامے اور گانوں نے انسانی ذہنوں پر ایک عجیب کیفیت مسلط کر دی ہے، یوٹیوب وغیرہ پر فحاشی و عریانی اور جنسی انارکی پر مشتمل ایسا کثیر مواد موجود ہے جس سے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں ، فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ نے ناجائز تعلقات کے راستے کھول دئیے ہیں ، جس سے نہ صرف اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ؛ بلکہ جنسی آوارگی کے تمام سامان مہیا ہوگئے ہیں ؛ سوشل میڈیا کا استعمال بچوں اور نوجوانوں کو نشے کی لت کی طرح لگتا جا رہا ہے؛ امریکی نوجوان طالب علم مارک زکر برگ نے ہارڈ ورڈ یونیورسٹی میں اپنے دوستوں سے رابطے کے لیے فیس بک سوفٹ ویئر بنایا تھا، پھر اس نے چند ہی دن میں پوری برطانیہ میں مقبولیت حاصل کرلی اور پھر رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا، اس وقت 548 ملین سے زائد افراد فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں ، جس میں اکثر لوگ نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے قائم کرتے ہیں اور پھر معاملات بہت آگے تک چلے جاتے ہیں ، جس کے مشاہدات آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی بدولت نہ جانے کتنے نوجوانوں نے اپنی ماؤں بہنوں اور حقیقی رشتہ داروں کے ساتھ منہ کالا کرکے شرم و حیا کا پردہ چاک کیا ہے، کتنے لوگوں نے اپنے گھریلو افراد کے ساتھ غلط تعلقات قائم کرکے انسانیت کی بدترین مثال پیش کی ہے، انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے جنسی بے راہ روی، فحاشی و عریانیت اور ہر طرح کی بدکاری معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ جھوٹی خبریں افواہیں اور غلط پروپیگنڈے انٹرنیٹ کے ذریعہ عام کیے جاتے ہیں جو معاشرے میں بد امنی اور فساد کا سبب بنتے ہیں ۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے مہلک نقصانات میں بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم، معاشی دھاندلیاں ، رقومات کی ناجائز منتقلی، ذاتی معلومات کی فریب دہی، جلد دولت مند بننے کے نشہ میں دھوکہ دہی، فریب دہی کے نئے نئے طریقے، دھمکی آمیز پیغامات اور فحش مواد کی ترسیل واشاعت وغیرہ بھی شامل ہے۔

            انٹرنیٹ کے جہاں تباہ کن نقصانات ہیں وہیں اس کے فوائد بھی ہیں ؛ اس کی اہمیت اور افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، گویا انٹرنیٹ برائیوں اور خوبیوں کا سنگم ہے، ہم انٹرنیٹ کے ذریعے ای میل، ای کامرس، ای بزنس، فائل ٹرانسفر، آن لائن تعلیم، یونیورسٹی اور کمپنیوں کی معلومات، اشیاء ، اخبار ورسائل، فلاحی وزرعی تنظیموں کی جانکاری، بینکنگ، تمام طرح کے بلوں کی ادائیگی، اور طبی و سائنسی معلومات وغیرہ حاصل کر سکتے ہیں ؛ اور آج کے دور میں انٹرنیٹ نے اہل علم کے لیے بھی بڑی سہولیات پیدا کردی ہیں ، بہت سی وہ نایاب کتابیں جن کا حصول دشوار ہے انٹرنیٹ نے بسہولت ہمیں گھر بیٹھے مہیا کر دی ہیں ، مکتبہ جبریل اور مکتبہ شاملہ وغیرہ نے محققین کے کاموں کو نہایت آسان کر دیا ہے، دینی امور کے لیے بھی انٹرنیٹ کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور معاشرے میں ایک صالح انقلاب لایا جا سکتا ہے، صرف انگلی کی ایک جنبش سے دینی پیغامات، احادیث مبارکہ اور شرعی مسائل کروڑوں انسانوں تک پہنچائے جاسکتے ہیں ۔

            جب کوئی چیز برائی اور خوبیوں کا سنگم ہو تو ظاہر سی بات ہے کہ خوبیوں والے پہلو کو اختیار کرنے میں ہی بھلائی اور کامیابی ہے، ہر چیز کا استعمال کار آمد تب ہی ہو سکتا ہے جب اس کو استعمال کرنے والا اپنی استعداد اور شئے کی افادیت کے اعتبار سے کام میں لائے۔ بیمار کو دوا سے شفا تب ہی مل سکتی ہے جب اس کا استعمال صحیح وقت اور ٹھیک مقدار میں ہو؛ اللہ تعالی نے ہر ذی شعور کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جو لوگ مثبت اور تعمیری سوچ رکھتے ہیں اور اپنی سوچ کو اعلی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ یقیناً کامیاب ہوتے ہیں ؛ اس لیے ہم یہ نہیں کہتے کہ انٹرنیٹ سے کلی طور پر کنارہ کشی اختیار کی جائے؛ بلکہ مثبت طریقے پر اس کا استعمال کریں ، اس سے فائدہ اٹھائیں ، تعمیری کام اور جائز مقاصد کے حصول کے لیے اس کو استعمال میں لائیں ، اس کے ذریعے اسلامی پیغامات و احکامات دوسروں تک پہنچائیں ، دینی مسائل عام کریں ، اللہ تعالی ہمیں حدود میں رہ کر انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھانے کی توفیق مرحمت فرمائے!

—————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts