حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ (خاکہ، زبان وبیان اور شاعرانہ عبقریت) (۲)

بہ قلم: ڈاکٹرمولانا  اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

شاعری

            حضرت حکیم الاسلام دیدہ ور فقیہ، بے مثال خطیب، باریک بیں محدث دوربیں منتظم، باکمال مصنف، ژرف نگاہ مفکر اور وسیع نظر مدرس تو تھے ہی؛ زبان وادب، نظم ونثر کے رمزشناس زبان داں بھی تھے اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے دادا کا عکسِ جمیل تھے، ان کی کتابِ زندگی کا ہر عنوان پرکشش تھا، ان کے فکر وفن کے نگارخانے کا ہرزاویہ اپنی رونق اور جدت طرازی میں دعوتِ نظارہ دیتا ہوا نظر آتا تھا۔

            اپنی واردات قلبی کو شاعرانہ قالب میں ڈھالنے کا ہنرجانتے تھے، شاعری میں انھیں یدطولیٰ حاصل تھا؛ بلکہ شاعری ان کا طُرئہ امتیاز تھی، اگرچہ انھوں نے شاعری کو اپنا مشغلہ نہیں بنایا؛ مگر سوزِدروں نے جب بھی بے قرار کیا خود بخود جذبات واحساسات موزوں ہوتے چلے گئے، نہ اس کے لیے آپ کی مصروفیت مانع ہوئی اور نہ ہی ہجوم افکار، الفاظ، تراکیب، صنائع، بدائع، تخیل کی بلندی، مضامین کی بالیدگی، نکتہ آفرینی،اصولِ شاعری کی پابندی؛ غرض یہ کہ سارے شعری محاسن کلام میں موجود ہوتے، بڑے بڑے ادیب اور شاعر داددیے بغیر نہ رہتے! حضرت مولانا عبدالحفیظ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اسلام کی روانی‘‘ اور ’’آنکھ کی کہانی‘‘ دونوں پر ایک جامع تجزیہ تحریر فرمایا ہے، آئیے  اس سے استفادہ کرتے ہیں ، فرماتے ہیں :

            چوں کہ حضرت حکیم الاسلام نمونۂ اسلاف اوران کے علوم ومعارف کے امین ووارث تھے؛ اس لیے ان کا ادب وشعر بھی اسلام کے محور پر گھومتا ہے، اسلاف کی روش سے کہیں انحراف نہیں ملتا اور نہ ہی ان کی شاعری میں آورد ہے، کسی شخصیت سے متاثر ہوئے یا واقعات وحوادث نظر سے گذرے اور انھوں نے اظہار جذبات پر مجبور کیا تو خیالات وتاثرات اشعار کے سانچے میں ڈھلتے گئے اور ادبی دنیا میں ایک وقیع اضافہ ہوتاگیا، شعر وشاعری مستقل مشغلہ نہیں تھا اور ایک عالم باعمل اس کو مشغلہ بنائے بھی تو کیسے؟ کتاب وسنت کی اجازت تو محدود ہے، ان حدود سے حکیم الاسلامؒ قدم باہر کیسے نکال سکتے تھے؟ پھر اسلاف کے جووارث وامین تھے تو نرے شاعر کیسے ہوسکتے تھے؟ ہاں جو کچھ کہا اور شاعری کے جو نمونے منظرعام پر آئے وہ اپنی نظیر آپ ہیں ، شاعرانہ محاسن پر توحیرت ہوتی ہے کہ تمام مصروفیات اور علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ اتنی اچھی شاعری کیسے وجود میں آگئی، جس کی داد وتحسین صاحب طرز ادیب ونقاد عبدالماجد دریابادیؒ کے قلم  حقیقت رقم سے بھی نکلی۔ جی چاہتاہے کہ مولانا دریابادیؒ کے الفاظ آپ کو اسی موقع پر سنادیے جائیں تو لیجیے سماعت فرمائیے:

            حضرت محترم، السلام علیکم

            ’’آنکھ کی کہانی‘‘ آں محترم کا عطیہ، یہاں آتے ہی پڑھ ڈالی، سبحان اللہ، ما شاء اللہ مجھے علم نہ تھا کہ آپ کو شعرونظم پر بھی اس درجہ قدرت حاصل ہے، ذلک فضل اللہ، کیا کیا قافیے نکالے ہیں ؟ کیسے کیسے مضمون باندھے ہیں کہ پیشہ ور شاعروں کے بھی چھکے چھوٹ جائیں ! نہ کہیں جھول، نہ اتنی طویل نظم میں کہیں آورد، بس آمد ہی آمد، خوش دماغ توبہ حیثیت ایک سچے قاسم زادہ کے آپ تھے ہی، اب معلوم ہوا کہ ما شاء اللہ خوش فکر بھی اسی درجہ میں ہیں ‘‘۔ ما شاء اللہ             دعا گوودعا جو

                                                                                                                                    عبدالماجد

                                                                                                                                    ۱۵؍دسمبر۱۹۶۴÷

            اس داد وتحسین کے بعد کسی اور داد کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے؛ لیکن انسانی فطرت اور اختلافِ ذوق وفکر کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، ہر صاحبِ فکر وفن کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے زاویۂ فکر ونظر کے مطابق کلام کا جائزہ لے؛ چناں چہ بہت سے ارباب فن نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی شعرو شاعری پر بہترین تبصرے کیے اور قادر الکلامی کی بھرپور داد دی۔

            حضرت حکیم الاسلامؒ کی تمام نظموں میں ’’اسلام کی روانی‘‘ اور ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کو امتیاز حاصل ہے، اکبر الٰہ آبادی مرحوم کی نظم ’’پانی کی روانی‘‘ کی زمین میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے اسلامی ذہن وفکر کے جلو میں ’’اسلام کی روانی‘‘ میں جو روانی طبع دکھائی ہے وہ ہرزاویہ سے ’’پانی کی روانی‘‘ سے کم نہیں ؛ بلکہ ’’اسلام کی روانی‘‘ کے حسن کو دوچند کردیا ہے؛ نظم خاصی طویل ہے؛ لیکن زورِ بیان، روانی وبرجستگی اور حقیقت بیانی میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ اس کو قادر الکلامی اور شاعرانہ کمال نہ کہیے تو کیا کہیے؟ چند اشعار آپ بھی سماعت فرمالیں تو ہمنوائی میں ذراتامل نہ ہوگا، لسان العصراکبرالٰہ آبادی مرحوم ان الفاظ میں اس نظم کی داد دے چکے ہیں ۔

            ’’مولانا محمدطیب صاحبؒ کی نظم ’’روانی اسلام‘‘ نظر سے گذری۔ ما شاء اللہ وصل علی، جزاک اللہ، نقاش نقشِ ثانی بہتر کشد زاول، خاکسار:اکبر۔

            ہاں تو مرحوم اکبرؔالٰہ آبادیؒ کے اعترافِ کمال کے بعد اشعار کی قدروقیمت کا اندازہ لگانا بھی مشکل تولیجیے اشعار سماعت فرمائیے۔

چلا ارضِ بطحا سے اِک بحر زاخر  ٭        کہ تھا جس کی موجوں کا اوّل نہ آخر

وہ توحید کی نَے بجاتا ہوا         ٭        سُرودِ حجازی میں گاتا ہوا

وہ جنگل میں منگل مناتا ہوا     ٭        وہ شہروں میں شادی رچاتا ہوا

پہاڑوں پہ نعرے لگاتا ہوا      ٭        سمندر میں طوفاں اٹھاتا ہوا

ضلالت کے پیڑوں کو ڈھاتا ہوا            ٭        زمانہ میں اُدّھم مچاتا ہوا

محیطِ زمیں پر وہ چھاتا ہوا        ٭        خبائث کی وسعت گھٹاتا ہوا

بتوں سے وہ رشتے تُڑاتا ہوا     ٭        وہ باطل کو نیچا دکھاتا ہوا

            یہ ہے ’’اسلام کی روانی‘‘ جس کی روانی پر علماء وحکماء انگشت بدنداں ؛ توادباء شعراء محوحیرت! اس میں فنی محاسن کیا ہیں ؟ جن کو دیکھ دیکھ اہل فن عش عش کررہے ہیں ، تفصیل میں کیوں جائیے، یہی جو چند اشعار پیش کیے گئے، انھیں کا حسن دیکھ لیجیے، جنگل میں منگل منانا، کون نہیں جانتا کہ مشہور محاورہ ہے اس کو کس خوبصورتی سے مصرع میں موزوں کیاگیا ہے اورمحاورہ کو زمین سے اٹھاکر آسمان کی رفعتوں تک پہنچادیاگیا ہے، یہ بھی نظر میں رہے کہ عرب کی سرزمین کیا تھی اور بروقت بھی کیا ہے؟ اس تناظر میں دیکھیے تو محاورہ محض تخیل کی پرواز، حقیقت کا عکاس ہے، اسی طرح لَے اور سرود کی مناسبت نے شعری حسن میں اضافہ کردیا ہے، پہاڑوں پر صدائے توحید بلند کرنا حقیقت ہے، فاران کی چوٹیوں کا آج بھی نعرئہ توحید بلند کرنا حقیقت ہے، فاران کی چوٹیاں آج بھی نعرئہ توحید کی تاثیر سے رشکِ آسماں ہیں ، بتوں سے رشتے ناتے تڑاتا اور خدا سے رشتہ جوڑ دینا تجنیس معنونی کی اچھی مثال ہے، ان اشارات سے مقصود صرف اتنا ہے اور اشعار میں صرف روانی ہی نہیں محاسن شعری بھی جگمگارہے ہیں ۔

            اب آئیے مشہور ترین نظم ’’آنکھ کی کہانی‘‘ پر آنکھیں جمائیں اور دیکھیں کہ بیمار آنکھ نے کیا کیا رنگ دکھائے ہیں ، روانی وبرجستگی کا تو کہنا ہی کیا، اظہار واقعہ میں بھی کہیں جھول نظر نہیں آتا اور جہاں آنکھ کے کارنامے اورمحاورے باندھے ہیں ان میں تغزل کا رنگ اتنا چمک گیا ہے کہ آنکھ کام نہیں کرتی اور محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے گوغزلیں نہیں کہی ہیں ؛ لیکن غزل گوئی پر پوری قدرت حاصل تھی، چند اشعار آپ بھی سماعت فرمالیں تو دل میں گدگدی اور آنکھوں میں چمک پیدا ہوجائے، یوں تو پوری کہانی سننے اور پڑھنے کے لائق، آمد ہی آمد، آورد کا کہیں نام ونشان نہیں ۔ ہر شعر میں محاسن شعری کا حسن اور ہر شعر میں واقعیت کی کشش، مبالغہ آرائی کو راہ ہی نہیں مل سکی اور شاعر کا کمال یہی ہے کہ اس نے واقعیت کو پُرکشش بنادیاہے، مبالغہ آرائی وہ شعراء کریں جو اس کے بغیر شاعری کے میدان میں نہیں اترسکتے، حکیم الاسلامؒ نے میدان شعروادب کو ایک نئی سمت عطا کی ہے اور نیا رجحان پیش کیا ہے، نظامی گنجوی کا فارمولہ ’’احسن اوست اکذب اوست‘‘ سر پٹختا ہوا نظر آرہا ہے اور حکیم الاسلامؒ کی شاعری آنکھ دکھارہی ہے تو لیجیے آنکھ کے چند اشعار پرآنکھ جماہی دیجیے:

ہوکھلی آنکھ تو اس سے ہے ظہورِ اعیان

اور ہو بند تو ہے زیرِ نظر عالمِ خواب

آنکھ کھل جائے جو بھرپور، ہے بجلی دل پر

نیم وا ہو، تو بھری اُس میں مستیٔ شراب

آنکھ نیچی ہو، تو ہے نورِ حیا کا چشمہ

اور اُٹھ جائے تو ہے نارِ فروزانِ عتاب

آنکھ پھرجائے تو ہے شعلۂ نفرت کی بھڑک

اور بھرآئے تو ہے بارشِ رحمت کا سحاب

آنکھ ترچھی ہو، تو پھٹ جائے قضائِ پیشیں

اور سیدھی ہو، تو سیدھا ہے جہانِ اسباب

آنکھ گرامن پسند ہے، تو ہے دل بھی آزاد

آنکھ لڑجائے، تو پھر دل ہے گرفتارِ عذاب

آگئی آنکھ تو کہتے ہیں کہ بیمار ہوئی

اورنہ آئی تو سمجھتے ہیں صحیح اور صواب

چشم حق بیں ہو تو ہے نافعِ دین ودنیا

چشم بد ہیں تو دارین کا خُسران وعذاب

آنکھیں دوہیں تو وہ ہیں کاشفِ الوانِ جہاں

چار ہوجائیں تو ہیں سرمحبت کا نقاب

کشش ودفع کی نظریں ہیں بہم آنکھوں میں

ق

پُرکشش تارِ نظر تیرِ نظر وجہ عذاب

تیراندازی نگاہوں سے ہے آنکھوں کا عمل

آنکھ کے سارے ہی ایام ہیں یوم الاحزاب

خبرِ مہرو وفا لائے اگر خمارِ نگاہ

یہی ایام پھر ہوجاتے ہیں یوم الاحباب

غرض آنکھوں کا کوئی رُخ نہیں بے کار وقبیح

ہوتو دنیا ہے، نہ ہوگر تو زہے یوم حساب

            حضرت حکیم الاسلامؒ نے اسی پراکتفا نہیں کیا؛ بلکہ ان کے وفور علم اور پروازِ خیال نے آنکھ کے ایسے نظارے کرائے ہیں جو دیدہ وروں کے بھی خواب وخیال میں نہیں آتے، دیکھنا تو درکنار؛ لیکن کہانی کا رنگ یہی ایک نہیں ؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کہاں ہفت رنگ اور قوسِ قُزَحْ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

            اس ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کا آغاز قدیم شعراء کی طرز پر حمدونعت سے ہوا ہے،اس میں بھی شاعر نے خوبصورت مضمون باندھے ہیں اور طبع رسانے، دیدہ زیب گلکاریاں کی ہیں ، حمد کا پہلا شعر ہے، سماعت فرمائیے۔

مستحق حمد و ثنا کا ہے خدائے وہاب

جس نے دی آنکھ ہمیں آنکھ کو دی نور سے آب

            حمد کے بعد نعت پاک کے اشعار ہیں وہ بھی اپنے رنگ میں منفرد اور آنکھ کی رعایت سے پاکیزہ مضامین سے صاف وشفاف کہ آنکھ نہ ہٹے، دو شعر آپ بھی سن لیں ، کیا خوب نعت کے اشعار ہیں ۔؎

نعت وتوصیف ہے اُس ذاتِ مقدس کے لیے

دل کی بند آنکھ کے جس ذات نے کھولے ابواب

ختم جس ذات پہ ہے عینِ نبوت کا کمال

خوشہ چیں جن کے ہیں انسان و ملک اور دَواب

            حمدونعت کے بعدحکیم الاسلامؒ نے صحابۂ کرامؓ کی مدح ومنقبت میں چند اشعار کہے ہیں اور قرآنی ترتیب کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس کو اگر حکیم الاسلامؒ نہ پورا کرتے تو کون کرتا؟ جس درجہ میں جس کی محبت ہونی چاہیے اور جس طرح محبت کا اظہار ہونا چاہیے، حکیم الاسلامؒ کے اشعار میں آداب ومحبت کے وہ سب رموز پائے جاتے ہیں ، مدح وثنا کا پہلا ہی شعر دل ودماغ کے تاروں کو چھیڑدیتا ہے اور سامع پر صحابۂ کرامؓ کی عظمت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے۔ سماعت فرمائیے۔؎

مدح اعلیٰ کے ہیں حقدار وہ اصحابِ نبی

عقل کو آنکھ ملی جن سے بآیاتِ کتاب

            اشعار تو ایک سے بڑھ کر ایک، کسی پر نہ انگشت نمائی کی گنجائش اورنہ آنکھ دکھانے کی مجال، ہاں ہر شعردل میں بسانے کے قابل اور آنکھوں میں کھپ جانے والا دیکھیے کیا شعر کہا ہے۔؎

جو ہیں اُمت کے لیے علم وعمل کا معیار

راہ بینا کی ہے، اُن ہی کے رسوم وآداب

آنکھ اُن کی تھی نظر اُن کی، بصیرت اُن کی

اُن کے آثار سے روشن ہیں بیوت وابواب

            حمدونعت اور مدحِ صحابہؓ کے بعد متعدد عنوانات کے تحت بصیرت افروز مضامین کی جھڑی نظر آتی ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سلسلہ عالم ناسوت سے نہیں کسی اور جہان سے ہے۔ کہاں تک تفصیل بیان کیجیے، صرف عنوانات سنادئیے جائیں تو غواصِ معانی کی جودتِ غواصی کا اندازہ ہوجائے، لیجیے عناوین سن لیجیے اور شاعر کی طبع رسا کو داد دیجیے۔

            آنکھ کی اہمیت، آنکھ کی افادیت کے مختلف پہلو، آنکھ کے جامع مقامات، آنکھ کی اصلی اور سابقہ کیفیت، آنکھوں میں تغیر، تلاش علاج معالجہ کا آغاز، معالجہ کی کیفیت، تعمیرِ نو، انکشافِ عالمِ خواب، نتیجۂ علاج، پرہیز اوراحتیاط کی بندشیں ، تسلی اوراطمینان دہانی، معاون کریم، شکریہ اور دعا، نتیجہ اور خاتمۂ کلام، تتمہ کلام اور چشمۂ صافی۔ یہ عناوین آنکھ کی کہانی حصہ اوّل کے تھے۔

            کہانی کا ’’دوسرا حصہ‘‘ بھی ہے، اس کا آغاز بھی حسب سابق حمد سے ہوا ہے، اس میں بھی متعددد عناوین ہیں اس حصہ میں بھی رنگ وآہنگ وہی ہے، وہی قافیہ، مضامین کی ندرت، روانی وبرجستگی اور بندش کی خوبیاں ، کہیں نہ کوئی جھول اور نہ آورد کا شبہ، عنوانات بھی جداگانہ، ذرا سنیے تو سہی، عناوین یہ ہیں ۔

            حمدالٰہی، ربوبیت کا مقام، ربوبیت مجمع صفات ہے، ربوبیت اور رحمت، ربوبیت اور مالکیت، ربوبیت اور قہر، ربوبیت اور حفظ ونصرت، ربوبیت اور غنا وعطا، ربوبیت اور صمدیت، ربوبیت اور حلم ربوبیت کا منشا معرفت ہے، ہر انقلاب مال پر رب کا سوال، ربوبیت کی جامعیت،حمد جامع اعتراف ربوبیت ہی سے ممکن ہے۔ ہر انقلاب مال پر رب کا سوال، ربوبیت ہی سے قائم ہے، توحید ربوبیت، ربوبیت مجازی اس عنوان کے تحت بارہ عنوانات ہیں ۔ اسی طرح ’’نعتِ رسالت پناہی‘‘ کے تحت آٹھ عناوین ہیں ، نعت کے بعد دوسری آنکھ کی نوبت آگئی، اس کی کہانی تمہید سے شروع ہوتی ہے اور پینتیس عناوین میں کہانی مکمل ہوجاتی ہے، دونوں حصوں میں سات سو اشعار ہیں ، دائیں آنکھ کے آپریشن کے موقع پر جو اشعار موزوں ہوئے تھے کون سوچ سکتا تھا کہ دوسال کے بعد بائیں آنکھ کے آپریشن پر نئے مضامین نئی سج دھج کے ساتھ اتنے ہی اشعار پر مشتمل مزیدموزوں ہوجائیں گے، اس کی حیرت انگیزی پر کس کو شبہ ہوسکتا ہے؛ یکساں حالات کے باوجود اشعار بالکل نئے مضامین کے ساتھ اپنی داد لینے کے لیے منظر عام پر ایک ایک شعر کے محاسن تک گنائے جائیں ،اشعار سے لطف اندوزی کا تعلق تو سننے اور پڑھنے سے ہے، خواہ یہ ’’اسلام کی روانی‘‘ کے اشعار ہوں یا ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کے جس عنوان کے تحت نظمیں لکھی گئی ہیں ، وہ اردو ادب وشاعری میں وقیع اضافہ ہیں ؛ کیوں کہ ان تمام نظموں کا تعلق تخیلات سے نہیں واردات وتاثرات سے ہے، مجموعۂ کلام میں ستاون عناوین کے تحت نظمیں جمع کی گئی ہیں ، ان میں قندپارسی کی چاشنی بھی ہے اور عربی کا زورِبیان بھی، طویل نعت کے بعد ’’بارگاہِ نبوت میں فریاد‘‘ کے جو فریادی اشعار ہیں ،اس کا ہر شعر اضطرابِ قلب اور سوزِ دروں کا آئینہ دار ہے محسوس ہوتا ہے کہ امت کا حالِ زبوں دیکھ کر شاعر کا دل پارہ پارہ ہے اوراس نے جگر لخت لخت کیا ہے اور پھر بندکا یہ شعر اس خطاب کے بعد مدعا کا آئینہ ہے، ملاحظہ فرمائیے:

بنگر سوئے امتِ شکستہ          ٭        جاں باختہ، دل بجاں گُسَسْتہ

جی چاہتا ہے کہ فریاد کے آخری بند کے چند اشعار جو فریاد کی روح اور قلب حزیں کا مظہر ہیں پیش کردیے جائیں ، سماعت فرمائیے:

چشمے بمنِ گدائے خستہ

گوشے بصدائے دل گرفتہ

چشم وجگر ودل و دماغم

ماتم کدئہ بہارِ رفتہ

آں رشتہ کہ رشتۂ خدا بود

حسرت کہ زدستِ قوم رُستہ

قسمت کہ شدہ ست پارہ پارہ

شیرازئہ دیں کہ بود بستہ

سلکے کہ زدُرِّ آبگوں بود

اے آہ کنوں زسنگ سفتہ

کوشے کہ زمُحدثات وبدعات

مخلوط کنیم دین شُستہ

            فریاد کا آخری شعر ہے:

برخیز کہ خالی انجمن شد         ٭        بے برگ وثمر ہمہ چمن شد

کہنا چاہیے کہ شاعر نے اپنا دل وجگر نکال کر رکھ دیاہے اور بارگاہِ رسالت پناہی میں عقیدت کے پھول ہی نچھاور نہیں کیے ہیں ؛ بلکہ امت کی کس مپرسی پیش کرکے سفینۂ ملت کو ساحل سے ہمکنار کرنے کی فریاد کی ہے، خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اپنا دردِ دل ہندی ساز پر چھیڑاہے تو حضرت حکیم الاسلامؒ نے فارسی کی شیرینی میں اپنا درد کھول دیا ہے۔ دونوں بزرگوں کی فریادیں آمنے سامنے رکھ کر پڑھیے تو قلب وجگر پر عجیب کیفیت طاری ہوگی۔

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آج عجب وقت پڑا ہے

            یہ دردوغم، سوز وگداز اور دل ربودگی ان مرثیوں میں بھی ہے جو حضرت شیخ الہندؒ اور دیگر بزرگوں کی وفات پر لکھے گئے ہیں ، کہاں تک ایک ایک نظم کا تعارف کرائیے اور اشعار کی داد دیجیے، ہر نظم اس کی متقاضی ہے کہ اس کو پڑھا جائے اور ہر شعر ایسا کہ اس پر سردُھنا جائے، مجموعۂ کلام کی ضخامت ۲۸۰ آخری صفحات میں عربی کلام ہے، ہے تو مختصر؛ لیکن عربی پر عبور وقدرت کا مظہر ہے، پہلی نظم فکاہیہ ہے، پہلا مصرعہ عربی میں ہے اور دوسرے مصرع کا قافیہ اردو ہے، نظم بھی ماشاء اللہ طویل سو اشعار پر مشتمل ہے، خاصی دلچسپ اور حکیمانہ مضامین سے معمور ومرصع، دوایک شعر ضیافتِ طبع کے لیے حاضر ہیں ، سنیے اور لطف اٹھائیے۔

ألا یا صدیقي اُترکِ الدَّہرَ کلَّہ

فَاِنَّ متاعَ الدہرِ لَغوٌ وَبُوگسٗ

وَمَا ہِیَ اِلَّا زینَۃٌ ذاتَ کُدرۃٍ

وقِشرٌ بلا لُبٍّ وقصبٌ بلا رَسٖ

            دوسری طویل نظم مشاہیرِ امت کے عنوان سے ہے، اس میں مشاہیرِامت کا مختصرترین تعارف، نہایت بلیغ انداز میں پیش کیاگیا ہے،مشاہیربالترتیب یہ ہیں ، حضرت ابوبکرصدیقؓ، اخلاق وعلمِ نبوت اور علمِ انساب میں ، حضرت عمرؓ شدت دینِ حنیف میں ، حضرت عثمانؓ صفت حیاء میں ، حضرت علیؓ علم وقضا میں ، حضرت ابوذرغفاریؓ حق گوئی میں ، حضرت ابوعبیدہ امانت داری میں ، حضرت خالد بن ولیدؓ شجاعت میں ، حضرت ابی بن کعبؓ  علمِ تجویدوقراء ت میں ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ علم تفسیر میں ، حضرت زید بن ثابتؓ علم فرائض میں ، حضرت حسن بصریؓ وعظ میں ، حضرت وہب بن منبہؓ علمِ قصص وتاریخ میں ، حضرت محمد بن سیرین ؒ علمِ تعبیر رویا میں ، حضرت جنید بغدادیؒ علمِ تصوف میں ، حضرت فضیل بن عیاضؒ علمِ معرفت میں ، حضرت نافع مدنیؒ علمِ قراء ت میں ، حضرت مقاتل بن سلیمان علمِ تاویل القرآن میں ، محمد بن السائب کلبی علم القصص میں ، امام اعظم ابوحنیفہؒ علم الفقہ میں ، امام شافعیؒ علمِ معرفۃ الحدیث میں ،امام مالکؒ علم الحدیث میں ، امام احمد بن حنبلؒ عمل بالسنۃ میں ، حضرت علی بن المدینی علم معرفۃ العلل میں ، حضرت محمد بن نصر علم خلافیات میں ، ابوالقاسم علم العوالی میں ، ابن اسحاق علم المغازی میں ، یحییٰ بن معین علم اسماء الرجال میں ، امام بخاریؒ علم نقد حدیث میں ، ابن مندہ سیاحت میں ، ابن حزم ظاہری فنِ ظواہر میں ، ابوالحسن اشعری علم کلام میں ، خطیب بغدادی علم اداء قرآن میں ، محمد بن زکریا رازی علم طب میں ،ابومحمدحریری فن ادب میں ، حبیب الطائی علم الشعر میں ، بختری علم تشبیہ میں ،ابوالفرج اصبہانی علم محاضرۃ الادباء میں ، قاضی فاضل صنعتِ انشاء میں ،ابن نبات فن خطابت میں ، اصمعی علم النوادر میں ، سیبویہ علم النحو میں ، خلیل ابن احمد علم عَروض میں ،ابومحشر علم نجوم میں ، علی بن ہلال صنعت خوش نویسی میں ، شیخ بوعلی سینا فنِ منطق میں ،ابوعلی جبائی صنعت اعتزال میں ، موصلی اور معبد فنِ موسیقی میں ،ابوالحسن کذاب صفتِ کذب میں ، عطاء سلمی صفت بزدلی میں ، اَشعب طماع صفتِ طمع میں اور مادر صفت بخل میں ۔

            یہ وہ مشاہیرامت ہیں جن کو امام  ذہبیؒ نے اپنی تحریر میں علم وفن کی تعیین کے ساتھ بیان کیا تھا علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور کتاب تاریخ الخلفاء میں ان مشاہیر کو بجنسہٖ نقل کردیا ہے، حکیم الاسلام مولانا محمدطیب صاحبؒ نے علامہ سیوطی کے بیان کو نہایت بلیغ انداز میں اشعار کا جامہ پہنادیا ہے۔

            مشاہیرامت کے علاوہ دو نظمیں اور اسی مجموعہ میں شامل ہیں ، حیرت ہے کہ شاعر گرامی مرتبت نے یہ عربی اشعار زمانۂ طالب علمی میں کہے ہیں جب وہ حماسہ پڑھ رہے تھے، ہاں حماسہ کے استاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ تھے جن کے ادب وشعر کا چرچا علمی حلقو میں تو تھا ہی، عوام میں بھی ادبی مجلسوں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی تھی تو آپ تینوں زبانوں میں شاعری کا لطف اٹھاچکے ہیں ، محاسن شعری بھی آپ کی نظر میں ہوں گے؛ لیکن جی چاہتا ہے کہ چند محاسن شعری کو اجاگر کردیا جائے اور حسن کی داد دی جائے۔

            شاعری کا ایک حسن سہلِ ممتنع ہے،اس کو کمالِ حسن بھی کہتے ہیں لیجیے ایک شعر زبان پر آگیا جو بلاغت کی بھی داد چاہتا ہے۔

آگئی آنکھ تو کہتے ہیں کہ بیمار ہوئی

اور نہ آئی تو سمجھتے ہیں صحیح و صواب

            ذراتوجہ دیجیے تو استعارہ کی ہرقسم کے جلوے نظر آتے ہیں ، استعارہ بالتصرح ہو یا استعارہ بالکنایہ، استعارئہ بلیغ ہو یا استعارئہ تمثیلیہ، استعارئہ عامیہ ہو یا استعارئہ عنادیہ، استعارئہ غریبہ ہو یا استعارئہ وفاقیہ، سب کچھ مجموعہ کلام میں موجود، دیکھیے استعارہ بالتصریح کا شعر سامنے آیا اس کو کیسے نظرانداز کردیا جائے۔؎

آنکھ نافذ ہے کتابوں میں مثال سوزن

کیا تعجب ہے، کہیں گر کہ ہے آنکھ اہل کتاب

            اسی طرح استخدام، تضاد، حسن تعلیل اور دیگر صنعتوں کے اشعار مجموعۂ کلام میں جابجا موجود ہیں ، اہلِ فن  نے ان کو بہ نظرِ استحسان دیکھا ہے اور مرورایام کے ساتھ ان کی قدروقیمت میں اضافہ ہوتاجائے گا۔

            ہاں اس شعری مجموعہ اور حضرت حکیم الاسلامؒ کی شاعری کا ایک اہم گوشہ تو رہاہی جاتا ہے وہ ہے تصوف اور عرفانِ حقیقت، کوئی عنوان دیکھیے اس میں تصوف کی چاشنی ضرور ملے گی، حق بھی یہی تھا کہ مجاز کو حقیقت سے آشنا کردیتے اور وہ حقائق جو پردئہ خفا میں تھے ان کی نقاب الٹ، سب کے روبرو کردیتے، آخر تھے حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خلیفۂ اجل؛ اس لیے حب تصوف کی جولان گاہ میں قدم رکھا تو گوئے سبقت لے گئے، عشق ومحبت کے حدود وآداب کی پاسداری اسی تصوف اور عرفان حقیقت کا نتیجہ ہے، منصور نے ’’انا الحق‘‘ کا نعرہ بلند کیاتو کسی نے ’’سبحانی ما اعظم شانی‘‘ کہہ کر عشق کو بے حجاب کردیا، حکیم الاسلام نے رازداروں کو افشاء کرنے پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہی تصوف کی روح ہیں ، دیکھیے حضرت حکیم الاسلامؒ کے اشعار میں شریعت وتصوف دوجداگانہ راستے نہیں ، ایک ہی نظر آتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف شریعت سے جدانہیں ؛ بلکہ اس کی آب وآبرو ہے، اب ذرا حضرت حکیم الاسلامؒ کے اشعار میں عشق ومحبت کے حدود وآداب کی پاسداری ملاحظہ فرمائیے۔

اے نواسنجِ انا الحق ترا کہنا تھا بجا

پر نہیں پاسِ ادب عشق میں دعویٰ ہونا

ہے اَنا عشق میں اک رازِ درونِ پردہ

پر نہیں راز کا حق ، راز کا افشا ہونا

عشق خود دار ہے خود راز درونِ عشاق

عشق کی خامی و رسوائی ہے لب وا ہونا

شور برپا نہ ہو ہر ایک بلا ہو برسر

یاں ہے برسر ہی ہنر عیب ہے برپا ہونا

اپنے آپے میں خودی ہو تو خودی ہے ورنہ

اپنے آپے سے گذرنا ہی ہے رُسوا ہونا

            ’’انا الحق‘‘ کے عنوان سے عشق ومحبت کے جو اسرار ورموز اور آداب سامنے آئے ہیں وہ نہ صرف تصوف کا پتہ دیتے ہیں ؛ بلکہ عرفانِ حقیقت کی سراغ رسانی بھی کرتے ہیں ، یہ تو ایک نظم کے چند اشعار ہیں ’’آنکھ کی کہانی‘‘ میں بھی ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے جن میں تصوف کا گہرا رنگ ہے اور شاعر نے اپنی مقصد زندگی نہایت سادگی سے بیان کی ہے:

مقصد زندگی ہے طاعتِ حق   ٭        نہ کہ فکر جہاں میں پڑنا ہے

            یہی ہے وہ تصوف وسلوک جو حکیم الامتؒ کے فیض صحبت نے حکیم الاسلامؒ کے دامنِ علم کو آہ سحرگاہی سے آشنا کردیا اور ہزاروں بندگانِ خدا نے اپنی عاقب سنوار لی۔ (حیات طیب، ص۱۴۹-۱۵۸ مع حذف واضافہ)

            غرض یہ کہ حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنی شاعری میں واردات قلبی اور شعور ذہنی کو شاعری کا حسین جامہ پہنادیا ہے اور علوم ومعارف کے وہ معانی سمودیے ہیں جن کی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی، محاسنِ لفظیہ اور معنویہ سے لبریز نظمیہ شاعری کے نگارخانے کا نظارہ صرف نگاہوں کو نہیں دل ودماغ کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ چوں کہ بات دراز نفس ہوتی جارہی ہے؛ اس لیے موصوف کی دیگرمطبوعہ اور جملہ غیرمطبوعہ شاعری پر کسی اور مجلس میں گفتگو کریں گے۔ وباللہ التوفیق!

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :4-5،    جلد:105‏،  شعبان المعظم – شوال المكرم 1442ھ مطابق   اپریل-مئی 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts