از: مولانا ابرار احمد اجراوی
بی ایم کالج، رہیکا، مدھوبنی، بہار
مشہور عالم دین، مجاہد آزادی اور سیاسی رہ نمامولانا حفظ الرحمن سیوہاروی عالمی اسلامی درس گاہ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے، وہ اپنے عہد کے ممتاز ترین طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں مایۂ نازمحدث اور فخر زمانہ علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ سے شرف تلمذ حاصل تھا۔وہ ان کے چہیتے شاگرد رہے تھے۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعدانھوں نے بھی اپنے اسلاف اور اساتذہ کے نقش قدم پر تدریسی و تعلیمی زندگی اختیار کی؛ مگر شاید یہ خالق کائنات کو مقصود نہ تھا کہ مولانا سیو ہاروی کسی طبقہ اور جماعت کے لیے ہی نہیں ، پوری امت مسلمہ کی سماجی، معاشرتی فلاح اور ان کی سیاسی اصلاح و قیادت کے لیے پیدا ہوئے تھے؛ اس لیے وہ صرف واجبی مدرسی تعلیم تک اور صرف مدارس کی چہار دیواری میں محصور و محدودہوکر نہ رہے؛بلکہ اپنی فکر و نظر کے دریچے کھلے رکھے۔وہ ایک وسیع النظر اورجہاں دیدہ عالم دین تھے،انھوں نے قصۂ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری تصور کیا اور علم و فن کی صاف ستھری ہواؤوں کے استقبال لیے اپنے دل و دماغ کی ساری کھڑکیاں کھلی رکھیں ،وہ ایک ہمہ جہت شخص تھے،میدان سیاست میں بھی طبع آزمائی کی، انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے جنگ آزادی میں بھی مردانہ وار حصہ لیا، تقسیم ہند کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں دلی والوں پر جو قیامت ٹوٹی، اس الم ناک موقع پر دہلی والوں کے لیے شجر سایہ دار بن کر نمودار ہوئے، ایک وفا داراور جاں باز سپاہی کی طرح ہر محاذ پر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا،مظلوم و مجبور ہندستانیوں خصوصاً مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی، ان کے اکھڑے ہوئے قدموں کو جمایا، اپنی زبر دست قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں دستور ساز اسمبلی میں ممبربھی منتخب ہوئے، جمہوری اور سیکولر آئین وضع کرنے میں خاص رول ادا کیا، ملک میں جمہوریت نافذ ہوئی اور جو پہلی پارلیمنٹ بنی اس میں مولانا بھی ممبر پارلیمنٹ بنے، انھوں نے تین میقات کے لیے امروہہ کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور تینوں ہی بار مسلمانوں کے حقوق کی بحالی اور حکومت کو دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیا۔
جب تک بقید حیات رہے، انھوں نے مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے تو سر توڑکوشش کی، تقسیم ہند کے زخموں سے چور اور سیاسی تعصب کی شکار پیاری اردو زبان کے لیے بھی انھوں نے ہر سطح پر کوشش کی۔سماج سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک انھوں نے اردو کے حق کے لیے تحریک چلائی، انھوں نے تینوں میعاد میں نہ صرف ایوان پارلیمنٹ کے اندر؛ بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اردو کے حقوق کی بحالی کے لیے مجاہدہ ومباحثہ کیا۔ انھوں نے اردو کو دیس نکالا دینے کی کوششوں اور اس قسم کی متعصبانہ آوازوں کا مجاہدانہ مقابلہ کیا اور پاکستان کی آڑ میں جو فاشسٹ عناصر اردو کو اس کے لسانی حقوق سے محروم کرنے کے سیاسی حربے آزمایا کرتے تھے، ان تمام کا منہ توڑ جواب دیا،جب تک ان کی سانسیں چلتی رہیں وہ اردو کاز کے لیے سرگرم و فعال رہے۔
اب یہ بات مخفی نہیں رہ گئی ہے کہ آزادی اور تقسیم ہندسے قبل تک ملک کی قومی زبان کے تعلق سے نہ صرف کانگریس پارٹی؛ بلکہ گاندھی جی دونوں کا نظریہ دو ٹوک اوربہت واضح تھاکہ آزاد ہندستان کی زبان وہ عام فہم ہندستانی(۱) ہوگی، جو شمالی ہندکے بڑے خطے میں عمومی طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان دونوں کا رسم الخط بھی الگ الگ یعنی اردوکا(فارسی) اورہندی کا دیو ناگری ہوگا؛ لیکن جس طرح تقسیم وطن سے قبل کے سارے طے شدہ اصولوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی گئی، ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعداردو زبان کے حوالے سے بھی سارے مسلمہ اصول اور ماضی کے سارے وعدے ارادے کالعدم کردیے گئے اور اس مجوزہ عام فہم ہندستانی کی جگہ ہندی کو دیو ناگری رسم الخط کے ساتھ قومی زبان بنانے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی میں جب ہندستان کی قومی زبان کا مسئلہ درپیش ہوا، تو کانگریس اپنے سابقہ قول و قرار سے منحرف تھی،وہ شدت پسندوں اور یوں کہیے کہ اردو دشمنوں کے سامنے سر بہ سجود تھی اور ہندی کو قومی زبان بنانے پر تلی ہوئی تھی، بہت کم لوگ گاندھی جی کے نظریے سے متفق تھے؛ مگرمولانا سیوہاروی ان لوگوں میں سے ایک تھے، جوقومی زبان کے تعلق سے گاندھی جی کے نظریے کو ہی صحیح مانتے تھے۔ مولانا کے علاوہ، مسٹر رفیع احمد قُدوائی اور ان کے دست راست آں جہانی خورشیدی لال ہندستانی کی حمایت کر رہے تھے۔ مگر گاندھی جی کے موقف کی حمایت و وکالت کرنے والے معدودے چند تھے، مولانانے اکیلے ہی اردو کے حق کی جنگ نہیں لڑی؛ بلکہ اپنے ایک ایک حامی کو ڈھونڈ کر لاتے رہے ۔ مولانا اس حوالے سے بہت مضطرب اوربے چین تھے اور انھیں ہر دم یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں کانگریس نام نہاد اکثریت کے سامنے اپنے سابقہ نظریے سے منحرف نہ ہوجائے؛مگر ہوا وہی جو ہونا تھا اور جس کے لیے فرقہ پرست عناصرعرصے سے کوشاں تھے، ہندستانی زبان کے گاندھیائی فلسفہ کو پیروں تلے روند دیا گیا اور اردو کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔جب عددی اکثریت کے ساتھ ہندستانی کو نظر انداز کرکے ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا، تو مولانا سخت ملول اور رنجیدہ تھے،پھر بھی وہ خاموش نہیں بیٹھے، انھوں نے اس فرقہ پرستانہ رویے پر زبردست احتجاج کیا اور قومی زبان کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کانگریس کو خوب کھری کھوٹی سنائی، انھوں نے کہا:
’’تیس سال تک کانگریس کے پلیٹ فارم سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس ملک کی زبان ہندستانی ہوگی،جو فرانٹیر تک شمالی ہندستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور زبان کا رسم الخط ہندی اور اردو ہوگا۔ مہاتما گاندھی بھی آخر تک اسی زبان کے حامی رہے؛ لیکن آج میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے کانگریس اور مہاتما گاندھی کے اس اصول کو ٹھکرادیا اور صرف ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے پر زور دینے لگے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص:۲۴۸، اشاعت:۱۹۶۳ء)
مولانا کی تقریر سے پہلے چند متشدد لوگوں نے ہندی کی حمایت میں تقریریں کی تھیں ، ہندی کے حامیوں نے جو دلیل اور وجوہ دی تھی، مولانا نے ان کی دلیلوں کو شواہد سے مسترد کرتے ہوئے گاندھی جی کے حوالے سے کہا:
’’۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء کے بھیانک حادثے سے جب کہ مہاتما گاندھی جی ہم سے چھین لیے گئے، تین روز قبل انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا تھا کہ اب امن و امان ہوتا جارہا ہے، جس طرح تم لوگوں نے قیام امن کے سلسلے میں میری امداد کی، اسی طرح تمھیں ہندستانی کے پرچار میں بھی ساتھ دینا ہوگا۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۸)
مولانا سے پہلے اردو مخالف اور اپنی شدت پسندی کے لیے مشہور سیٹھ گوووند داس(۲) نے ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت میں تقریر کی تھی، انھوں نے اردو کی مخالفت میں بہت لچر اور بودی دلیلیں پیش کی تھیں کہ اردو میں غیر ملکی او ربدیشی عناصر ہیں ، وہ کیسے ہندستانی زبان ہوسکتی ہے،مولانا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :
سیٹھ گووند داس نے ابھی پہلے کہا کہ اردو میں ہندستان کی چیزوں کے مقابلے میں غیر ملکی چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، یہ قطعی طور پر غلط ہے اور استدلال میں محسن کاکوروی کا یہ شعر پیش کرتے ہیں کہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
بادلوں پر لیے پھرتی ہے ہوا گنگا جل(۳)
اس میں جتنے مقامات کا ذکر ہے وہ سب ہندستانی؛ بلکہ خالص ہندو مذہب سے متعلق ہیں ۔ کاشی، متھرا، گنگا سبھی کو ہندو دھرم میں مقدس مانا جاتا ہے۔ اس میں دور دور تک اسلام اور اسلامیات کا شائبہ نہیں ہے۔ نہ تو مدینہ کا ذکر ہے اور نہ مکہ کا، نہ آب زم زم کا۔
سیٹھ گووند داس کم علمی کی وجہ سے اردو زبان کو اسلامی تہذیب کا نمائندہ قرار دیتے تھے، انھوں نے اپنی تقریر میں یہ اعتراض درج کیا تھا کہ اردو کو اس ملک میں اس لیے جائے قرار نہیں مل سکتی کہ کسی ایک ملک میں دو تہذیبوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں ۔ در اصل گووند داس زبان کو تہذیب کی بنیاد منوانے پر تلے ہوئے تھے۔مولانا سیوہاروی نے زبان کو تہذیب کی بنیاد قررا دینے کی منطق کو دلائل سے رد کیا اورچھوٹے سے ملک سوئزر لینڈ کی (جہاں چارچار زبانوں (۴) کو باضابطہ سرکاری حیثیت حاصل ہے) مثال دیتے ہوئے ذرا تلخی آمیز انداز میں کہا:
’’اگر تہذیب اور سنسکرتی کی بنیاد زبان پر ہے تو ہندستان میں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ ایک سنسکرتی کے لیے ان سب زبانوں کو ملیا میٹ کردینا چاہیے۔‘‘ (ایضا، ص:۲۴۹)
دسمبر ۱۹۵۵ء میں لوک سبھا میں حد بندی کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ پرجو بحث ہوئی، اس میں مولاناسیوہاروی نے بھی حصہ لیا۔ اور انھوں نے پارلیمنٹ سے یہ اپیل کی کہ وہ دہلی، یوپی اور بہار میں اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح جنوبی ہندستان میں زبان کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے، شمالی ہندستان میں بھی اس کو اہمیت دی جائے۔ مولانا اس کے بھی حامی تھے کہ اگر ایک اسٹیٹ میں دو یا تین زبانیں بولی جارہی ہیں توکسی زبان کے ساتھ تعصب یا بھید بھاؤ نہ کیا جائے اور بلا تفریق ان سب کو سرکاری حیثیت دی جائے۔ اردو کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے اس زبان کو ایک علاقہ مختص کرنے کی وکالت کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہتے ہیں :
’’اگر اردو کو کوئی علاقہ دیا جائے گا تو اس سے ہندی کو نقصان پہنچے گا، اس پر مجھے اختلاف ہے۔ ہماری چودہ زبانیں ہیں ، جس طرح بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، تمل، ملیالم وغیرہ کو اسٹیٹ لنگویج کی حیثیت دی جاتی ہے، اسی طرح کیا وجہ ہے کہ اردو کے مسئلے میں وہی پوزیشن اختیار نہیں کی گئی۔۔۔۔ جس طرح دوسری زبانوں کے علاقے ہیں ، جن میں کہ وہ زبانیں سرکاری حیثیت پاکر پھیلیں گی اور پھولیں گی اسی طرح اردو بھی سرکاری حیثیت پاکر پھلے گی پھولے گی۔ ۔۔۔جس طرح اور زبانوں کے پاس علاقے ہیں اسی طرح اردو کے لیے بھی ایک علاقہ ہونا چاہیے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۲۵۴)
اس بحث میں اردو مخالفین نے بھی حصہ کیا اور شری پرشوتم داس(۵) اور سیٹھ گووند داس نے پاکستان اور مسلم لیگ کے بہانے اردو کی زبر دست مخالفت کی، مولانا نے کہا کہ ان کا اردو مخالف رویہ ملک اور قوم کے ساتھ ایوان جمہوریت کے لیے بھی باعث تکلیف ہوگا۔ مولانا نے ان شدت پسندوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اردو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ ہندی راشٹریہ بھاشا ہے اور پورے ملک کی سرکاری زبان تسلیم کرلی گئی ہے۔ آیا اردو زبان کو یا دوسری علاقائی زبانوں کو اس ملک میں پھلنے پھولنے کا حق ہے یا نہیں ؟۔۔۔جو لوگ اردو کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں جیساکہ ٹنڈن جی کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے یا جو لوگ اس کو انگریزی کی طرح دیس نکالا دینا چاہتے ہیں ، جیساکہ سیٹھ گووند داس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے، یہ دونوں باتیں اس ملک میں نہیں ہونے دی جائیں گی۔ان کا ڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا۔ ۔۔۔ٹنڈن جی کا یہ فرمانا کہ یوپی میں جو تحریک اردو کے بارے میں چلائی جا رہی ہے،وہ بھارتیہ کلچر کے خلاف فرقہ پرستی کی تحریک ہے اور دوسرے پاکستان یا دوسرے مسلم لیگی نظریے کو زندہ کرنا ہے، میرے نزدیک ہی نہیں ؛ بلکہ پورے ہاؤس کے نزدیک اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ میں ٹنڈن جی اور سیٹھ جی دونوں سے گزارش کروں گا کہ اردو کی تحریک کو جس طرح ہم لوگ چلا رہے ہیں ، وہ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے۔ وہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی اور یوپی کے بسنے والے ہر آدمی کی، جو اردو سے تعلق رکھتا ہے، ملی جلی تحریک ہے۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ، ص:۴۰۴، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، فرید بک ڈپو نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)
تقسیم وطن کا سارا الزام اردو کے سر منڈھ دیا گیا، وہ مطعون و معتوب قرار دی گئی، یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست عناصر اردو کو دیس نکالا دینے کے لیے ادنی سے ادنی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اوراس معاملے میں لچر سے لچر دلیل کا سہارا لینے کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے اردو دشمنی سے متاثر ہوکر تاریخی حقائق سے بھی یک سر منہ پھیر لیا، انھوں نے کھلے لفظوں میں مشترکہ تہذیب و ثقافت اور قومی یک جہتی کی حامی زبان اردو کوہی پاکستان کا خالق و بانی قرار دے دیا۔اس وقت اتر پردیش میں جو اردو تحریک عروج پر تھی اور جس کے سالار قافلہ مولانا تھے،یہ لوگ اس کو ایک اور پاکستان کے مترادف کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ لوگ اردو کے مستقل وجود کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے یہ عذرلنگ پیش کرتے تھے کہ اگر کسی ریاست میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو اسی قسم کا مطالبہ ہر ریاست میں شروع ہوجائے گا جو ملک کی اجتماعیت اور اتحاد کے لیے شدید خطرہ کا اشارہ ہوگا۔ مولانا نے ان کی ان دلیلوں کو تار عنکبوت قرار دیتے ہوئے کہا :
’’اگر آئین کے مطابق بہار، مدھیہ پردیش، مدھیہ بھارت اور دوسری ریاستوں میں ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی مقدار ثابت ہوجائے، جس کی بنا پر اردو کو سرکاری طور پر تعلیمی اداروں اور سرکاری عدالتوں میں سہولتیں حاصل ہوں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ کیا علاقائی زبانوں سے پاکستان بن جایا کرتے ہیں ، اتنی لچر بات شاید اس ہاؤس میں کبھی نہیں کہی گئی ہوگی۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ، ص:۴۰۶)
مولانا روایتی قسم کے خشک مولوی نہ تھے، وہ ایک دانش ور عالم تھے۔ انھیں زبان و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ان کو اردو زبان کی پیدائش،اس کے آغاز و ارتقا، اس کی مکمل تاریخ، اس کا ہندستانی پس منظر اور اس کے عناصر ترکیبی کا بھی بھرپور علم تھا؛ چناں چہ جب بعض فرقہ پرست اور فسطائی ذہنیت کے حامل ارکان پارلیمنٹ نے دسمبر ۱۹۵۵ء والی اسی لوک سبھا میں یہ اعتراض کیا کہ فرض کرلیجیے کہ اردو زبان ہندستانی ہے، اسی سر زمین پر اس نے جنم لیا؛مگر اس کا رسم الخط توقطعی ہندستانی نہیں ، یہ دوسری غیر ملکی زبانوں سے مستعار ہے۔پھر اردو کو ہندستانی زبان کیوں تسلیم کیا جائے۔ تو مولانا نے بڑے ادب سے عرض کیا:
’’کسی زبان کے رسم الخط کا دوسری زبان کے رسم الخط سے فائدہ اٹھانا کوئی عیب نہیں ۔ سندھی زبان نے دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھایا ہے؛ لیکن جو رسم الخط آج ہم ہندستان میں اردو کے لیے استعمال کر رہے ہیں ، وہ عربی رسم الخط نہیں ہے۔ عربی رسم الخط سے ہم نے فائدہ ضرور اٹھایا ہے؛ لیکن اس سے فرق پیدا کردیا ہے، جو عربی کا رسم الخط ہے اس کو نسخ کہتے ہیں اور جو اردو کا رسم الخط ہے اس کو نستعلیق کہتے ہیں ۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۵)
مولانا کی پارلیمانی تقریرسے دوست یار اور احباب و اغیار سبھی متأثر ہوتے تھے۔زبان کے اہم مسئلہ پرمولانا کی تقریر اتنی جامع اور زور دارہوتی تھی کہ اس کی باز گشت اخبار اور ذرائع ابلاغ سے لے کر دور دراز کے حلقوں میں بھی سنائی دیتی تھی۔ اخبارات میں اس پر تبصرے اور تجزیے شائع ہوتے تھے۔ رسائل اس پر اداریہ شائع کرتے اوراردو کے تئیں مولانا کے اس مخلصانہ جذبے کی سبھی بیک زبان ستائش کرتے تھے۔کثیر التصانیف مؤلف اور مشہور قلم کار مولانا سعید احمد اکبرآبادی ماہ نامہ برہان(اکتوبر ۱۹۴۹ء) کے اداریے میں ایک بار یوں لکھتے ہیں :
’’پچھلے دنوں برادر مکرم مولانا محمد حفظ الرحمن نے کانگریس اسمبلی پارٹی اور دستور ساز اسمبلی میں زبان کے مسئلہ پر جو بلند پایہ تقریر کی ہے اس کا ذکر اخبارات میں آچکا ہے آئینی حیثیت سے اگرچہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ حقائق کے اظہار اور دلائل کے اعتبار سے یہ تقریر انڈین یونین کی مجلس دستور ساز کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی اس کی اخلاقی فتح یہ ہی کچھ کم نہیں ہے کہ اس نے ہندی کے ایک زبردست حامی ہندو ممبر سے جومولانا کی تقریر سن کر اس درجہ چراغ پا ہوگئے تھے کہ وزیر اعظم اور صدر اسمبلی دونوں کو انھیں متنبہ کرنا پڑا۔ صاف لفظوں میں یہ اقبال کرنا پڑا کہ بیشک اس وقت اکثریت تقسیم ہند کے زیر اثر اس مسئلہ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مولانا اور ان کے ہم خیال ابھی دو تین برس ٹھہریں پھر اردو فارسی بھی ہوگی اور اس کا رسم الخط بھی ہوگا۔‘‘ (اداریہ ماہ نامہ برہان، ج:۲۳، شمارہ:۴، اکتوبر ۱۹۴۹ء)
مولانا اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے مرکز میں ہی نہیں ، مختلف ریاستوں میں بھی مہم چلاتے تھے اور اس کو ایک علاقائی زبان کے طور پر تسلیم کرنے کی بھر پور جدو جہد کرتے تھے۔ جب سہ لسانی فارمولے کی آڑ میں ریاست اتر پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی سازش ہونے لگی تواس وقت اتفاق سے مولانا بیمار تھے اور سات سمندر پار امریکہ میں زیر علاج تھے۔ یہ خبر سن کر مولانا بے چین ہوگئے اور انھوں نے بستر علالت سے وزیر اعلی شری سی، بی گپتا(۶) کو تنبیہی خط لکھا اور اس کی ایک نقل وزیر اعظم ہند پنڈت نہرو کو بھی بھیجی، جنھوں نے اس خط کا زبردست نوٹس لیا اور اس کا جواب دے کر مولانا کو مطمئن کیا۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭
حواشی و حوالے:
(۱) گاندھی جی ہندستانی کے سب سے بڑے حامی تھے۔ ہندستانی کا مطلب ایک ایسی زبان تھا جس میں ہندی اور اردو دونوں کی مساوی شراکت تھی؛تاکہ نہ شمال والوں کو جنوب میں ترسیل میں دقت پیش آئے اور نہ جنوب والوں کو شمالی ہندستان میں مراسلت اور بات چیت میں دشواری ہو۔ ہندی اردو کی سخت کشاکش کے بعد یہ نظریہ انھوں نے ۱۹۱۷ء میں پیش کیا تھا۔ہندوستانی کا مفہوم گاندھی جی کی نظر میں کیا تھا، شورش کاشمیری کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے ہندوستانی کی یوں تشریح کی:
’’میں نے سوال کیا، آپ کے نزدیک ہندوستان کی قومی زبان کونسی ہے؟
’’ہندوستانی‘‘
ہندوستانی سے آپ کی کیا مراد ہے؟
’’جس میں عربی اور سنسکرت کے موٹے موٹے شبد نہ ہوں ۔‘‘(بوئے گل، نالۂ دل دود چراغ محفل، ص:۳۸۷، چٹان پرنٹنگ پریس لاہور، ۱۹۷۲ء)
گاندھی جی کے اس نظریۂ ہندستانی کے حامیوں میں پنڈت جواہر لال نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، ڈاکٹر تارا چند، مرار جی ڈیسائی، پنڈت سدرشن وغیرہ اہم ہیں ۔ اس نظریہ کے حامی مسلمانوں میں ، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، آصف علی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاری اور رفیع احمد قدوائی تھے۔ اپنے اسی نظریۂ ہندستانی کی حمایت اور تبلیغ و اشاعت کے لیے گاندھی جی نے سیٹھ جمنا لال بجاج کی ایما پر ۱۹۲۰ء میں ہندستانی پرچار سبھا قائم کی تھی۔ وہ اردو ہندی تنازع کو ختم کرنے کے لیے ہندستانی کو شاہ کلید تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف عام فہم ہندستانی زبان میں بات چیت اور تقریر کرتے تھے؛ بلکہ جو اخبارات وہ نکالتے تھے، اس کو ہندی اور اردو دونوں رسم الخط میں شائع کرتے تھے؛ تاکہ کسی مخصوص زبان کی حمایت کا شائبہ نہ ہو اور کسی زبان کی تحقیر نہ ہو۔وہ جن رہ نماؤوں سے خط و کتابت کرتے تھے، اس میں بھی ہندی اور اردودونوں کا لحاظ کرتے تھے اور خطوط پرہندی اردو دونوں میں دستخط ثبت کرتے تھے۔ گاندھی جی خود بھی اردو سیکھنے کے لیے پرجوش رہا کرتے تھے، وہ اردو کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، اور اس معاملے میں موضوع کی کوئی قید بھی نہ تھی۔ انھوں نے مولانا آزاد کی ترجمان القرآن اور علامہ شبلی کی سیرت النبی کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ علامہ اقبال کی نظم’’ترانۂ ہندی‘‘ اور’’ ہمالہ‘‘ کو وہ بہت پسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر کسی شخص کو ہندستانی زبان کا تصور اور اس کا صحیح نمونہ دیکھنا ہو تو ترانۂ ہندی کا مطالعہ کرے۔ وہ ترانۂ ہندی کے اشعار کو اپنی تقریروں اور تحریروں میں بھی کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ۲۵؍جنوری ۱۹۴۸ء کو قومی زبان کے مسئلہ پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا:
’’میں اس نظم کی زبان کے بارے میں کیا کہ سکتا ہوں ۔ ہندی، ہندستانی یا اردو؟ ممکن ہے میں اپنے وچاروں میں اکیلا ہوں گا؛ لیکن یہ بات صاف ہے کہ یہ سنسکرت مشرت ہندی ہے، نہ فارسی آمیز اردو، یہ صرف ہندستانی ہے۔ جس کی آخر کار جیت ہونے والی ہے۔‘‘
دستور ساز اسمبلی میں جب ہندی کو دیوناگری رسم الخط کے ساتھ قومی زبان کے طور پر منظورکرلیا گیا، اس وقت بھی وہ اپنے نظریۂ ہندستانی پر جمے رہے۔ان کے نزدیک قومی زبان یا راشٹر بھاشا کا مطلب بہت صاف تھا۔ اس سلسلے میں ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’میرے نزدیک راشٹر بھاشا کا مطلب ہندی+اردو=ہندستانی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ان دونوں کو ملا کر اس بڑے اصول کی پابندی کی جائے۔ جس کے معنی ہیں ہندی اردو امتزاج۔‘‘(تلخیص از مضمون’ہندستانی زبان اور مہاتما گاندھی، مشمولہ:ماہ نامہ آجکل، ج:۷۸، شمارہ:۳، اکتوبر ۲۰۱۹ء، مضمون نگار:ڈاکٹر ابراہیم افسر)
(۲) سیٹھ گووند داس(۱۹۷۴-۱۸۹۶ء) ہندی کے ایک ادیب اور ساہتیہ کار تھے۔انھیں ادب اور تعلیم کے میدان میں خدمات کے اعتراف میں ۱۹۶۱ء میں پدم وبھوشن سے نوازا گیا تھا۔۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۴ء تک ممبر پارلیمنٹ رہے۔ جبل پور سے لوک سبھا کے لیے منتخب ہوتے تھے۔ ہندی کے زبردست حامی اور اردو دشمن کے طور پر مشہور تھے۔ جب پنڈت جواہر لال نہرو آٹھویں شیڈول میں شامل زبانوں کی فہرست پیش کر رہے تھے، جس میں اردو بھی شامل تھی، انھوں نے سیٹھ گووند اس کے اس اعتراض پر کہ اردو کس کی مادری زبان ہوسکتی ہے؟ پنڈت جی نے چیخ کر اونچی آواز میں جواب دیا تھا کہ اردو میری ماں اور دادی کی زبان ہے جسے میں بچپن سے بولتاآیا ہوں ۔
(۳) محسن کاکوری(۱۹۰۵-۱۸۳۷ء) اردو میں نعت گوئی کے حوالے سے بڑا مشہور نام ہے۔ انھیں حسان وقت کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔پورا نعتیہ قصیدہ بہت ہی دل چسپ ہے، جو ہندستان کی اکثر جامعات کے نصاب میں داخل ہے۔اس کے ابتدائی اشعار اردو میں ہندستانی عناصر کی آمیزش یا اردو کی ہندستانیت کے حوالے سے دلیل کے طور پر بہت مناسب ہیں ۔مولانا سے دوسرے مصرع کے نقل میں ذرا سہو بھی ہوگیا ہے۔اس کے کے ابتدائی چند اشعار اس طرح ہیں :
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول ِامل
خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل
تہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل
(۴) سوٹزرلینڈ میں جن زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، وہ یہ ہیں ۔ فرنچ، جرمن، اٹالین اور رومانش۔
(۵) ان کا پورا نام پرشوتم داس ٹنڈن(۱۹۶۲-۱۸۸۲ء) تھا۔ ان کا جنم الہ آباد میں ہوا۔ یہ ایک سیاست داں ، صحافی، شعلہ بیان مقرر اور ہندی کے زبردست حامی تھے، ۱۹۵۲ء میں الہ آباد سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یہ اتر پردیش سے راجیہ سبھا کے بھی ممبر رہے، انھیں اعلی ترین شہری ایوارڈ بھارت رتن سے بھی نوازا گیا۔ یہ اتنے شدت پسند تھے کہ انھوں نے چمڑے کا جوتا پہننا بھی چھوڑ دیا تھا۔انھوں نے ۱۹۴۹ء میں کانسٹی ٹوینٹ اسمبلی میں ہندی کو قومی زبان کا درجہ دلانے اور دیوناگری رسم الخط کو منظور کرانے میں اہم رول ادا کیا ۔
(۶) سی بی گپتا کا پورا نام چندر بابو گپتا ہے۔ یہ ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوئے۔جائے ولادت اترولی علی گڑھ ہے۔اپنے وقت کے مشہور مصنف و قلم کار تھے۔ تین بار اتر پردیش کے وزیر اعلی رہے۔ ۱۹۸۰ء میں وفات پائی۔
———————————————
دارالعلوم ، شمارہ :3، جلد:105، رجب المرجب – شعبان المعظم 1442ھ مطابق مارچ 2021ء
٭ ٭ ٭