حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ (خاکہ، زبان وبیان اور شاعرانہ عبقریت) (۱)

بہ قلم: ڈاکٹرمولانا  اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

            حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے امتیازات سے نوازا تھا، عظیم انتظامی صلاحیت کے مالک، ذوقِ عبادت، خاندانی شرافت، حلم وبردباری عفوودرگزر، عزم واستقلال، صبر وضبط، اعلیٰ ظرفی، اعتدال اور مسلک ومشرب کی ترجمانی ان سب صفات میں منفرد شخصیت کے حامل تھے، آپ کے دورِ انتظام میں دارالعلوم دیوبند نے شش جہتی ترقی کی، تعمیر میں بھی، تعلیم میں بھی، ظاہر میں بھی باطن میں بھی؛ آفاقِ عالم میں اس کی شہرت ہوئی اور چار دانگ عالم میں اس کی نیک نامی کا ڈنکا بجنے لگا۔

ولادت اور نام نامی

            ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء کو دیوبند میں پیداہوئے، تاریخی نام: ’’مظفرالدین‘‘ رکھا گیا، پہلے ’’خورشید قاسم‘‘ نام تھا پھر ’’محمدطیب‘‘ رکھا گیااور اسی سے شہرت ہوئی۔

تعلیم وتربیت

            حضرت شیخ الہندؒ کے والد ماجد حضرت مولانا ذوالفقار دیوبندی اور مولانا فضل الرحمن عثمانی دیوبندی وغیرہ بزرگوں نے آپ کو ’’بسم اللہ‘‘ کرایا، پھر حضرت قاری عبدالوحید خان الٰہ آبادیؒ نے ناظرئہ قرآن اور حفظ کی تعلیم دی، ۱۳۲۶ھ میں حفظ کی تکمیل کے بعد اگلے سال درجۂ فارسی میں داخلہ لیا، فارسی کی تمام کتابیں حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یاسین دیوبندیؒ سے پڑھیں ، فارسی کے ساتھ حساب، جیومیٹری اور دیگر ضروری علوم عصریہ کو بھی حاصل کیا۔ پھر ۱۳۳۰ھ میں اوّل عربی میں داخلہ لیا اور ۱۳۳۷ھ تک آٹھ سال میں دارالعلوم دیوبند میں فضیلت کا نصاب پورا کیا۔ آپ کے معروف اساتذہ میں شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ، علامہ محمدانورشاہ کشمیریؒ، حضرت مفتی عزیزالرحمن عثمانیؒ، حضرت مولانا نبیہہ حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا شبیراحمدعثمانیؒ، علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ، حضرت مولانا میاں سید محمد اصغراور والد محترم حافظ محمد احمد صاحبؒ وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔

            حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت ہوئے، علامہ کشمیریؒ سے تربیت پائی، حضرت تھانویؒ سے سلوک کی تکمیل ہوئی اور خرقۂ خلافت سے نوازے گئے۔

تدریس واہتمام

            ۱۳۳۷ھ سے تدریس کی ابتداء ہوئی، دارالعلوم کے نودرے کی درمیانی درس گاہ کو اپنے لیے منتخب فرمایا مشکوٰۃ المصابیح، صحیح بخاری بھی متعلق رہیں ، حجۃ اللہ البالغہ اور دیگر کتابیں اخیرعمر تک پڑھاتے رہے۔ ۱۳۴۳ھ میں قائم مقام مہتمم بنائے گئے، پھر ۱۳۴۸ھ میں باضابطہ مہتمم ہوئے، ۱۴۰۰ھ تک اس عہدے پر فائز رہے، اس دوران دارالعلوم نے ہمہ جہت ترقی کے منازل طے کیے۔

            وفات: ۶؍شوال ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۷؍جولائی ۱۹۸۳ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے آبائی قبرستان قاسمی میں سپرد لحد ہوئے۔

تصانیف

            حکیم الاسلامؒ کو رب دوجہاں نے تصنیف وتالیف اور تحریر وانشاء کی ایسی بے نظیر صلاحیت اور نفیس ذوق سے نوازا تھا کہ حلقۂ دیوبند میں اس شان کا مصنف حکیم الامتؒ کے بعد نظر نہیں آتا،جس کے قلم سے انتہائی معرکۃ الآراء اور بصیرت افروز کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ وجود میں آیا ہو۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کے قلم سے پانچ درجن سے زیادہ مستقل تصانیف وجود میں آئیں ۔ حکیم الاسلامؒ نے اپنے قلم سے علم وحکمت کے اتنے دلکش، سحرانگیز اور خوبصورت پیکر تراشے ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے، اسلوب تحریر کی جاذبیت اور کشش ایسی کہ ایک پامال موضوع پر بھی ان کی جس کتاب کو شروع کیجیے تمت بالخیر سے پہلے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ کتاب کے مضامین آدمی کو پکڑکر بیٹھ جاتے ہیں ، نئے نئے عنوانات، نئے نئے انکشافات،نکتہ آفرینیاں ، خوب صورت مثالیں ، ایمان افروز قصے، ظرافتیں ، علم وادب کے جواہر پارے، چشم کشا حقائق، بصیرتیں ، نصیحتیں اوراخلاقی تعلیمات کے حسین مناظر جگہ جگہ، مضامین کی ندرت، تسلسل اور جامعیت سے آپ کی چھوٹی سے چھوٹی کتاب یہاں تک کہ کوئی مختصر سے مختصر مکتوب بھی خالی نہیں ، تدریس، تقریر، تحریر، تصنیف، اورمجلسی گفتگوہرجگہ حکمت وبصیرت کی فراوانی نظر آتی ہے۔

            حکیم الاسلامؒ کے طرزتحریر کو ’’سہل ممتنع‘‘ کی صنعت کا اعجاز کہاجاسکتا ہے، کسی بھی کتاب  اٹھاکر دیکھیے، اس کی سطر سطر وسعتِ مطالعہ اور دقتِ نظر کااعلان کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ کوئی بھی مضمون پڑھیے لفظ لفظ سے علم وحکمت کی تیز روشنی پھوٹتی ہوئی ملے گی۔ (تلخیص مع اضافہ از: حیاتِ طیب:۱/۳۶۳)

            صاحب زادئہ محترم خطیب الاسلام حضرت مولانا محمدسالم صاحب قاسمیؒ فرماتے ہیں :

            ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی معتدل اسوئہ منصوصہ کو حضرت حکیم الاسلامؒ نے زندگی بھر اپنی پُرتاثیر تحریر وتقریر کے ذریعہ عالمی پیمانے پر مسائلِ دینیہ کا مرکزی موضوع قرار دیا،جس کے نتیجے میں دنیا کے بے شمار ممالک کے قلیل العلم یا محروم العلم مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے کتاب وسنت سے عقیدۃً اور عملاً وابستہ فرمانے کا عالمی اور تاریخی وسیلہ بناکر حضرت حکیم الاسلامؒ کو دین کی اس عظیم واہم تر خدمت سے مشرف فرمایا کہ جو امت میں کم ہی لوگوں کو نصیب ہوئی۔‘‘

            حضرت مولانامحمد اسلم صاحب قاسمیؒ رقم طراز ہیں :

            ’’جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں حقائق وواقعات کے ساتھ عقلی ونقلی دلائل کا انبار لگادیا کہ قاری اس میں کھوکر دریائے تحیر میں غرق ہوجاتا اور زبان وبیان کی شستگی، سلاست اور روانی ایسی کہ لگتا الفاظ ومعانی کا دریا بہہ رہا ہے، آپ کے شب وروز میں سب سے زیادہ وقت تحریری وتصنیفی کام کرنے میں صرف ہوتا، لکھنے میں مضامین کی اس قدر آمد ہوتی کہ گھنٹوں قلم کاغذ پر سے نہ اٹھتا، ایسا لگتا کہ آپ کے سامنے کوئی کھلی کتاب رکھی ہے اور اسے مسلسل نقل کررہے ہیں ، یہی وجہ تھی کہ لکھنے کے دوران آپ گردوپیش سے بالکل غافل ہوجاتے، کوئی آکر سامنے بیٹھ جائے اورمتوجہ نہ کرے تو آپ کو اس کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوتا۔ تحریری مشغولیت سفر کے دوران بھی ایسی ہی رہتی حتیٰ کہ ٹرین اور ہوائی جہاز میں بھی تصنیفی کام برابر جاری رہتا۔ عام طور پر ٹرین میں اس کی مسلسل حرکت کی وجہ سے لکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور حروف بھی صحیح نہیں بنتے؛ بلکہ تحریربگڑجاتی ہے؛ مگر حضرتؒ ٹرین میں بھی اسی روانی اور تحریر کی شستگی کے ساتھ لکھتے جاتے جیسے اپنے ڈیسک کے سامنے لکھتے،احقر کو بارہا ملک اور بیرون ملک کے دوروں میں حضرت والد مکرم کا ہم سفر ہونے کا اتفاق ہوا، میں نے کبھی آپ کو سفر میں خالی بیٹھے نہ پایا، ایک بریف کیس جو چند کتابوں اور کاغذات پر مشتمل تھا ہمیشہ سفر میں آپ کے ساتھ رہتا تھا، کار کے سفر میں اس میں سے کتاب نکال کر دوران سفر مطالعہ میں منہمک رہتے اور ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفرمیں اس میں کاغذاتنکال لیتے اور تحریری کام میں مصروف ہوجاتے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو وقت کی قیمت کا کیسا زبردست احساس تھا،اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ علمی ودینی تصانیف کا ایک زبردست ذخیرہ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے جن میں سو کے قریب تصانیف تو آپ کی زندگی میں ہی چھپ کر لاکھوں انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنیں اور مقبول خاص وعام ہوئیں ؛ جب کہ بہت ساری تصانیف مسودہ کی شکل میں غیرمطبوعہ ہیں جو رفتہ رفتہ شائع ہورہی ہیں ۔

            آپ کی پوری زندگی سفروں میں گذری،اگرکبھی دوچار دن گھر پر رہنے کا موقع ملتا تو اس میں بھی سارا وقت مطالعہ اور تحریروتصنیف میں گذرجاتا، آپ کا کمرہ علیحدہ تھا، جس میں فرش پر تھوڑے حصے میں دری بچھی ہوئی تھی، سامنے ڈیسک اور گردوپیش میں کتابوں کا ایک انبار ہوتا، حسب ضرورت کتابیں بدلتی رہتیں ، دن بھر تو یہ لکھنے کا سلسلہ رہتا؛ البتہ دوپہر کو آرام کے لیے اور نماز ظہر سے واپس آکر پھر وہی مشغولیت شروع ہوجاتی، جس میں ایسے منہمک ہوتے کہ دوپہر اور رات کو بار بار آکر عرض کیا جاتاکہ اباجی! کھانا تیار ہے۔ تو جواب ملتا کہ سطرپوری کرکے آتاہوں ؛ مگر اس کو پوری کرتے کرتے بھول جاتے کہ کھانے کے لیے اٹھنا ہے۔ اکثر بار بار یاددہانی کرنے پر زچ ہوکر فرمادیتے کہ ابھی بھوک نہیں ہے، گویا کھانا پینا غیرضروری تھا اور اصل واہم مشغولیت صرف تحریر وتصنیف تھی۔‘‘ (سہ ماہی ندائے دارالعلوم دیوبند، جولائی، سمتبر ۱۹۹۴ء)

            حضرت مولانا سیدمحمدانظرشاہ صاحبؒ فرماتے ہیں :

            ’’تحریر کے لیے قلم اٹھاتے تو نکتہ آفرینیوں کا مرقع تیار کرتے، لکھنے لکھانے میں نہ جہاز کے ہچکولے مانع ہوتے، نہ ریل کی گھڑگھڑاہٹ اور اس کے جھٹکے، مجلس شوریٰ کی بقراط وسقراط چھوٹے چھوٹے مسئلہ کو جذرِاصم بناتے تو حکیم الاسلامؒ قرطاس وقلم کی کائنات میں گم ہوجاتے، میں نے خود ایک دن دیکھا کہ مولانا سعیداحمد اکبرآبادیؒ ان  کے شغل کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں ، غالباً وہ سوچ رہے تھے کہ ہمیں لکھنے لکھانے کے لیے خلوت درکار، یکسوئی مطلوب اور اس شخص کو نہ تنہائی کی ضرورت، نہ بے چیخ و پکار کی فضا کی۔‘‘ (ایضاً)

حکیم الاسلام کی خطابت

            اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف اور شعر وشاعری کے ساتھ خطابت کا بھی خاص ذوق عطا فرمایا تھا، افہام و تفہیم میں بڑی انفرادیت تھی، اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں بلاتکلف خطاب فرماتے تھے، زبان اتنی صاف ستھری، شستہ اور شگفتہ کہ جیسے آپ لکھ کر سنارہے ہیں ، علوم کی جامعیت، افکار کا تنوع، تعبیرات کی خوبی اورالفاظ کا انتخاب سامعین کو اپنی طرف کھینچتا ہوا نظر آتا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک چشمہ رواں دواں ہے، آبشار اوپر سے نیچے کی طرف بڑے پُرسکون انداز میں بہہ رہا ہے اور اپنے جلو میں حقائق ودقائق، علوم ومعارف اوراسرار وحکم لیے ہوئے ہے، ’’ازدل خیزد وبردل ریزد‘‘ کی مثال بن رہا ہے، سامعین ’’ٹک ٹک دید ودم نہ کشید‘‘ کا مظہر ہوتے تھے، خطابت ان کا ایسا جوہر تھا جس میں ان کاکوئی ہمسر نظر نہ آتا تھا۔

            آیات واحادیث پڑھتے اور نہایت ہی سلیس ترجمہ کرتے جاتے اقوال سلف سے استدلال عبرت خیز واقعات، حکایات وخیالات پیش کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتے کہ جیسے ساری چیزیں ان کو ازبرہیں ، کوئی سامع متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، ’’خطبات حکیم الاسلام‘‘ کے نام سے دسیوں جلدیں منظر عام پر آگئی ہیں ، جن سے ہر آدمی کو ان کے معارف سے استفادہ آسان ہے؛ لیکن مجلس اور خطاب کالطف بہرحال واپس آنا مشکل اور ناممکن ہے۔؎

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

(غالبؔ)

فارسی زبان میں مہارت

            حضرت حکیم الاسلامؒ نے دارالعلوم دیوبند میں فارسی زبان کے پانچ درجے پڑھے، ان میں مغلیہ دور کے نصاب کی فارسی دسویں جماعت کے برابر پڑھائی جاتی تھی، مہتمم صاحب کے فرزند ارجمند ہونے کی وجہ سے اساتذئہ کرام کی اچھی خاصی توجہ نصیب ہوئی؛ چناں چہ اردو کی طرح فارسی میں بھی بے تکلف بولنے اور لکھنے پر قدرت ہوگئی؛ بلکہ برجستہ اشعار بھی دونوں زبانوں میں کہنے لگے، دونوں زبانوں کے محاورات، امثال اور استعارات خوب یاد ہوگئے، الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ حافظے کے خزانے میں جمع ہوگیا۔

            جب حضرت حکیم الاسلامؒ افغانستان کے سفر ۱۳۵۸ھ پر تشریف لے گئے تو شاہی مجلس میں بھی آپ کی فارسی دانی کا خوب اعتراف کیاگیا، وہاں کے اہلِ علم وفضل اور اربابِ حکومت متاثر ہوئے، دارالعلوم کی روداد فارسی زبان میں سنائی، لوگوں سے مجلسی گفتگوبھی اسی زبان میں ہوئی، علمی سوالات کے جواب بھی اسی زبان میں دیے، جب جمعیۃ علمائے افغانستان کی طرف سے ’’سپاس نامہ‘‘ پیش کیاگیاتو آپ نے برجستہ، نہایت رواں دواں انداز میں جوابی تقریر پیش فرمائی، اس سے وہاں کے اساطین اہل علم وفضل کو یقین کرنا پڑا کہ دارالعلوم دیوبند میں فارسی زبان بھی نہایت معیاری اور کلاسیکی انداز میں پڑھائی جاتی ہے۔

زبان اور قومی روایات کے باہمی ربط سے متعلق حکیم الاسلام کی صراحت

            زبان اور قومی روایات کی وضاحت کا یہ اچھوتا اسلوب بڑے بڑے زبان دانوں اور دانشوروں کے لیے چشم کشا اور دنیائے ادب کے لیے سرمایۂ افتخار ہے، فرماتے ہیں :

            عادت اور تجربہ شاہد ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان اور اس کا لٹریچر صرف اسی کے تہذیب وتمدن کی ترجمانی کرتاہے کہ وہ زبان ان ہی اشیاء کی ترجمانی کے لیے منصہ ظہور پر آتی ہے، جو اس قوم میں مرزبوم کی خصوصیات، مذہبی روایات اور اس قوم کی مخصوص ذہنیت کے ماتحت رائج ہوتی ہیں ، گویا ہر ایک قوم اپنی زبان کے ذریعہ اپنے ہی احوال وکیفیات کا اظہار کرتی ہے، نہ کہ دوسری اقوام کے حالات کا۔

            مثلاً اہل دیہات اپنی بول چال میں شہری حالات کی ترجمانی نہیں کریں گے؛ بلکہ وہی اپنے بدوی مقامات ظاہر کریں گے، ان کے محاورات، ضروب الامثال اور عام تشبیہات واستعارات کھیت کے ڈلوں ، مویشیوں اور گھاس پھوس وغیرہ سے آگے نہیں گذرسکتے کہ ان کی زبان انھیں کے حالات کی ترجمانی کے لیے ہے اور وہ حالاتِ بداوت ہی سے تعلق رکھتے ہیں ، نہ کہ حضارت وشہریت سے، اسی طرح ایک متمدن اور شہری قوم کا لٹریچر اپنے محاورات وتعبیرات کے لحاظ سے گھاس پھوس وغیرہ کے بجائے انجن، مشین، ریل، تار، سربفلک عمارات اور عام تمدنی ترقیات کا آئینہ دار ہوگا، گویا وہ تمام مادّی ترقیات جو ان کے عمل نے سطح زمین پر مجسم کی ہیں ان کی زبان اور لغت انھیں کی ترجمانی کرے گی، جو چیز ان کی قومیت کے دائرہ میں موجود ہی نہیں اس کی ترجمانی اس لٹریچر میں کیسے ہوسکتی ہے؟

            پھر اسی طرح جس قوم کے حالات وکیفیات میں مادّیت کے بجائے مثلاً روحانیت کا غلبہ ہو، تدین، اخلاص اور وابستگی حق اس پر چھایا ہوا ہوتو اس کے لغت، محاورہ، کہاوتوں ، مثلوں ، تشبیہوں اور استعاروں میں بھی انھیں امور کی عام ترجمانی ہوگی، زبان کا ہر ہر جملہ حقائقِ مذہب، معارفِ الٰہیہ، اخلاقِ ربانی اور اسماء خداوندی سے لبریز ہوگا اوراس زبان کا بولنا ایسا ہوگا گویا ایک مذہبی وعظ ہورہا ہے۔

            ظاہر ہے کہ اگر کوئی قبیلہ یاقوم اہلِ دیہات کے محاورات کا گرویدہ ہوکر انھیں حاصل کرے تو زبان کے ذریعہ درحقیت وہ دیہی زندگی اور بداوت کے حالات حاصل کررہا ہے، یا کسی متمدن قوم کا لٹریچر حاصل کرے تو لغت کے واسطہ سے وہ اس کی تمدنی روایات حاصل کررہا ہے اورکسی مذہبی قوم کی زبان سیکھے تو وہ فی الحقیقت اس کے مذہبی خیالات سیکھ رہا ہے کہ وہ زبان ان حالات وخیالات ہی کی ترجمانی اور انھیں کیفیات کا دوسرا رخ ہے۔

            بہرحال جب کہ واقعہ ہے کہ کسی قوم کی لغت پر عبور حاصل کرنا حقیقتاً اس قوم کی تہذیب وتمدن اور مذہب ومعاشرت پر علماً وخیالاً عبور کرجانا ہے تو ساتھ اس پر بھی عبور کرلینا چاہیے کہ جب ہر تہذیب وتمدن میں کچھ جزئیات دلفریب اور دلکش بھی ہوتی ہیں ، تو یہ ناممکن ہے کہ ان کے مقابلہ میں اپنی تہذیب ومعاشرت کی مخصوص جزئیات سے بُعد یا کم از کم اُن کی بے وقعتی، یا اور بھی کچھ نہیں تو ان کی موزونیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ شکوک وشبہات اوراعتراضات نہ پیدا ہوجائیں ، ظاہر ہے کہ ذہنیت کی اس طبعی رفتار کے ماتحت جتنا جتنا کسی قوم کی زبان اور لٹریچر کا مطالعہ وسیع ہوتا جائے گا اسی حد تک اس کی تہذیب وتمدن سے موانست اور اپنی تہذیب وتمدن سے بیزاری اور بے رخی بڑھتی جائے گی اوراس کا آخری نتیجہ قدرتی طور پر یہی ہوسکتا ہے کہ انسان کی جدت پسند ذہنیت کے ماتحت یہ متعلّم قوم ہمیشہ کے لیے اپنی قدیم مخصوص قومیت کا سرمایہ چھوڑ کر معلم قوم کی دریوزہ گر ہوجائے اور پھر اسی کی قومیت کا ایک پرزہ بن کر گھومنے لگے۔ (اردوزبان کی شرعی حیثیت: ازحکیم الاسلام:۳۹۵)

حضرت حکیم الاسلام کے نزدیک اردو زبان کی اسلامی حیثیت

            اردو زبان فارسی، عربی، سنسکرت، برج بھاشا، کھڑی بولی اور ہندوستان کی رنگارنگ زبانوں سے مرکب ایک شیریں زبان ہے، جس کو ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کی حیثیت بھی حاصل ہے، اسلامی علوم وفنون، شعروادب، تاریخ وتمدن کا ایک عظیم سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہوچکا ہے، جو علماء کرام اورمدارسِ دینیہ کے مرہون منت ہے، حکیم الاسلامؒ نے ذیل میں ان تمام گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو زبان کی اہمیت پر اپنے مخصوص انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔

            ’’آج ہندوستان میں اردو کی حیثیت کلیتاً یہی ہے کہ وہ اسلامی محاورات کی امین،عربیت کی ترجمان، اسلامی علوم وفنون کی حامل اور عام اسلامی ذہنیت کی آئینہ دار ہے، اس کی شاعری ہو یا نثر، کتب ورسائل ہوں یا مضامین ومقالات، پھر ادبی سلسلہ میں غزلیات ہوں یا قصائد، حقائق نویسی ہو یا واقعہ نگاری، تشبیہات ہوں یا استعارات، ضرب الامثال ہوں یا کہاوتیں ، قصص تاریخ وایام ہوں یا سنین وشہور، اصطلاحات ہوں یا عنوانات، نعرے ہوں یا رجز، تحیات ہوں یا القاب وخطاب؛ غرض اس زبان کا کوئی بھی شعبہ ہو، سب میں اسلامی ذہنیت کی روشنی، مذہبیت کا رنگ، دینی جذبات کی آمیزش، خداشناسی کی جھلک، اکابرین اسلام کی روایات اور پیغمبروں اور اولیاء کی سیرتوں کی چاشنی اس درجہ اس میں رچی ہوئی ہے کہ اس کا ہرگوشہ عام نگاہوں میں اسلامی گوشہ اور اس کا ہر فقرہ اسلام کا فقرہ محسوس ہوتا ہے۔

            ایک مسلمان اپنی روزمرہ کی بات چیت اور محاورات میں جو کلمات استعمال کرتا ہے وہ عربیت اور اسلامیت کی اس درجہ آمیزش لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ غیرمسلم ان کے استعمال کی کبھی جرأت ہی نہیں کرسکتا، مثلاً ابتداء کارپربسم اللہ، من مانے کام ہوجانے پر الحمدللہ، تعجب پر سبحان اللہ، قدرافزائی پر ماشاء اللہ، تحاشی وتبری پر معاذ اللہ، ندامت پر استغفراللہ، افسوس پر انا للہ، حلف پر واللہ باللہ، توقع پر ان شاء اللہ، بچائو پر اللہ اللہ، ندامت پر یا اللہ، شکریہ پر جزاک اللہ، اظہار عظمت پر لا الٰہ الا اللہ، ظہورمنکر پر لاحول ولاقوۃ الا باللہ،پیغمبروں کا نام آنے پر صلی اللہ، جوش پر اللہ اکبر وغیرہ، ان کی بے تکلف زندگی ہے؛ جب کہ اسی قسم کے اسلامیت شعاراور عربیت نواز محاورے اردو کی روح ہیں ، تو پھر کونسی وجہ ہوسکتی ہے کہ اسے اسلامی زبان نہ کہا جائے اور مسلمانوں کی چیز شمار نہ کیا جائے؟

            دو مسلمانوں میں ملاقات اور مکالمے کا آغاز ہوتے ہی بے تکلف جو کلمات نکلتے ہیں وہ صرف عربیت و اسلامیت ہی کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، مثلاً السلام علیکم! مزاجِ اقدس یا مزاج شریف، جناب عالی، خیروعافیت، تشریف ارزانی، ماحضرتناول، اہل بیت کی صحت، حاضرہوتا ہوں ، وغیرہ ان جملوں کا اگر عطرکشید کیا جائے تو اسلامیت، عربیت کے سوا ان میں سے اور کیانکل سکتا ہے؟ یہ وہ جملے ہیں جو ملاقات ہوتے ہی گویا ایک سانس میں زبان سے نکلتے ہیں ،اس سے دوسری عام بے تکلف گفتگوئوں کا اندازہ کرلیا جائے اور وہ تصانیف یا عبارت یا شاعری جس میں ایک اردو کا مصنف یا شاعر کچھ سوچ بچار سے کام لے کر کلام کرے تواس کی اسلامی ذہنیت جس عربیت واسلامیت کا مظاہرہ کرے گی، وہ اس سے بھی زیادہ ہوگا جو ان جملوں سے اندازہ کرایاگیا ہے۔

            غرض عربی زبان جوہر ہے اور اردو زبان وہ آئینہ ہے جس میں اس جوہر کی عکاسی ہورہی ہے، تو کیا اسلامیت کی آئینہ داری کے ہوتے ہوئے اردو مسلمانوں کے لیے کوئی ناقابل اعتنا زبان رہ جاتی ہے؟ اگر فی الحقیقت اللہ کے ان ناموں ، اس کے ان محاوراتی حقائق ومعارف کی حفاظت اسلامی فریضہ ہے جن کو اردو کی تعبیرات نے اپنے دامنوں میں چھپا رکھا ہے تو خود اردو کی حفاظت کیوں اسلامی فریضہ نہیں ہے؟ پھر اردو کی صورت چھوڑ کر اگر اس کے مادہ پر غور کیا جائے تو مسلمانوں نے اپنے مخصوص علمی مذاق کے ماتحت اسلامی علوم اس میں منتقل کیے، آج کوئی علم وفن ایسا نہیں جس میں ہزاروں کی تعداد میں اردو کے سفینے موجود نہ ہوں اور عربی سے اردو میں منتقل نہ ہوچکے ہیں ۔

            پھر ایک علوم قدیمہ ہی نہیں ؛ بلکہ علومِ جدیدہ اور فنونِ عصریہ کالامحدود ذخیرہ جسے مسلمانوں نے اردو کی زینت بنادیا ہے، دکن کی دولت ابدمدت نے لاکھوں روپیہ صرف کرکے سائنس فلسفہ، کیمسٹری، تاریخ،جغرافیہ اور تمام جدید فنون کو دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل کردیا ہے۔

            غرض اردو زبان آج ایک قابل فخرعلمی زبان بن گئی ہے، جس نے تمام علوم قدیمہ وجدیدہ کو اپنے وسیع دامنوں میں چھپالیا ہے، پس جس طرح اس وقت ہندوستان کی کوئی ایک زبان بھی خواہ ہندی ہو یا سنسکرت، اس میدان میں اپنے کو سرخروئی کے ساتھ پیش نہیں کرسکتی کہ اس نے اس  قدر علوم وفنون کا ذخیرہ اپنی تعبیرات کے بطون میں پنہاں کررکھا ہو، اسی طرح اس ملک کی کوئی ایک قوم بھی خواہ وہ ہندوہو یا غیرہندو اپنے کو پیش نہیں کرسکتی کہ اس نے مسلمانوں کے برابر نہ سہی اس کی آدھی تہائی بھی ترقی اردو اور اس کے مادہ وصورت کے بنانے اور سنوارنے میں حصہ لیا ہے؛ چناں چہ اردو کے اسلامی اور مسلمانوں کی زبان ہونے کی ایک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ ہندوستان کے غیرمسلم اسے بحالت موجودہ اپنی نہیں ؛ بلکہ مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اس کی نوک وپلک قطع کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔

            غور اس پر کیجیے کہ وہ اردو کی فکر میں محض ایک زبان ہونے کی حیثیت سے نہیں ؛ بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ وہ اسلامیت اور عربیت کی ترجمان ہے، پس وہ نفس اردو کو مٹانا نہیں چاہتے؛ بلکہ اس کی عربیت اور اس مخصوص اسلامیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، پس اگر وہ اسلامیت وعربیت کے فنا کرنے کی خاطر اردو کی ہیئت تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اسی اسلامیت کی بقا کی خاطر مسلمانوں کا شرعی فریضہ نہ ہوگا کہ وہ اردو کو اس کی اسی ہیئت کذائی کے ساتھ باقی رکھنے کی انتھک سعی کریں !

            جب کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ خود عربی زبان کا بقا وتحفظ بھی اسی اسلامیت کے بقا کے لیے ایک شرعی فریضہ ہے، پس علت کے اشتراک سے حکم بھی مشترک رہے گا، اگر عربی زبان کی بقا اسلامیت کی خاطر فرض ہے تو ہندوستان میں اسی علت وحکمت کی خاطر اردوکی بقا بھی شرعی فرض ہوگی، اگر خدانخواستہ اردو کا یہ اسلامی مغزنکال کر اس کے چھلکے کو باقی رکھا جائے یا اس کے موجودہ شیریں مغز کے بجائے اس میں کسی مردہ زبان کا تلخ مغز بھردیا جائے تو مسلمان اُسے کیسے برداشت کرسکیں گے کہ ان کے یہاں چھلکے کا تحفظ ہی صرف مغز کی خاطر ہے‘‘۔ (اردو زبان کی شرعی حیثیت: ازحکیم الاسلامؒ، ص۱۰۱،  حیاتِ طیب، ص۳۷۳ تا ۳۷۵)

شگفتہ مزاجی

            حضرت حکیم الاسلامؒ کی طبیعت مرنجامرنج تھی،  مزاج میں شگفتگی تھی، ان کی ظرافت سے مخاطب محظوظ ہوتا تھا، ظرافت میں عالمانہ لطافت کا غلبہ تھا۔

            (۱) ایک بار کسی عقیدت مند نے ٹرین پر سوار ہوتے ہوئے ٹکٹ پیش کیا؛ مگر ان سے غلطی یہ ہوگئی کہ اصل ٹکٹ جیب میں رہ گیا اور پلیٹ فارم ٹکٹ حضرت کے ہاتھ میں تھمادیا، ٹرین چل پڑی، دونوں کو افسوس ہوا، جب سفر سے واپس ہوئے توفرمایا: ’’بھائی! کچھ لوگ طبعاً مخلص؛ مگر عقلاً مفلس ہوتے ہیں ‘‘۔ (حیاتِ طیب:۱/۳۱۶)

            (۲) حضرت کو ’’رائتا‘‘ پسند نہیں تھا، سنا ہے کہ کسی صاحب نے دسترخوان پر ’’رائتا‘‘ کی طرف بار بار متوجہ کیا ’’حضرت! رائتا‘‘ تو جواب میں فرمایا: ’’نعم، رأیتُ‘‘ عربی جاننے والے جانتے ہیں کہ رأیتَ کے معنی ہیں : آپ نے دیکھا؟  تو اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا: ہاں ! میں نے دیکھ لیا، مجلس عطربیز ہوگئی۔

            (۳) ایک بار کسی نے مزاج پوچھا، تو برجستہ فرمایا: ’’بھائی! بیماروں میں اچھا ہوں اور اچھوں میں بیمار ہوں ‘‘۔

(باقی آئندہ)

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ :3،    جلد:105‏،  رجب المرجب – شعبان المعظم 1442ھ مطابق   مارچ  2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts