اذان کی حقیقت و عظمت عقل اور فطرت کی روشنی میں (۲/۲)

از:  مفتی رشید احمد فریدی

مدرسہ مفتاح العلوم،تراج ، سورت ،گجرات

نبی ٔخاتم کا پیغام

            ایک پالنہار اور نفع وضرر کے مالک کو  دل سے مان لینے کے بعد اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہنا یہی عقل کا تقاضا ہے اور یہی دنیوی زندگی کا بنیادی مقصد بھی ہے یعنی زندگی بندگی کے لیے ہے اور اس بندگی کا سب سے جامع اور اعلیٰ طریقہ ’’ نماز‘‘ہے جس کو ’’الصلوٰۃ‘‘ کہتے ہیں جس میں بہت سی تعلیمات نبوی کے اشارے موجود ہیں ؛ چنانچہ اپنے خالق و مالک اور محسن حقیقی کے دربار میں کھڑے ہونے کے قابل بننا،اپنے جسم اور لباس کوپاک و صاف رکھنا، اپنے قدموں کو  طریقہ نبوی کے مطابق جمانا، غیر اللہ کے خیالات کو دل ودماغ سے نکال کرپس پشت ڈال دینا ، نیاز مندی کے اظہار کے لیے جسم کا سب سے اونچا حصہ یعنی سر کو اسی کے سامنے جھکانا ،ہر حال میں اسی کی پاکی اور بزرگی بیان کرنا،کسی بھی  فرد کو اپنی ذات سے ایذا  نہ دینا ،آپس میں متحد و متفق رہنا،اپنے تمام اعضاء کو اسی کے منشا ء کے مطابق رکھناخصوصاً نگاہوں کی حفاظت کرنا ،ظاہر و باطن سے پورے طور پر آقا کی طرف متوجہ رہنا،بلا ضرورت دنیا کی طرف التفات نہ کرنا ،بس اسی کے کلام کو پڑھنا اور سننا ،فضول بات اور حرکت سے بچنا؛ بلکہ جائز کھانا ،پینا اور خواہش نفس کو روک کر مالک کی رضا حاصل کرنا ،وقت کو ضائع نہ کرنا ،اپنی انگلی کے اشارہ سے بھی کسی کو برا بھلا نہ کہنا؛ بلکہ محسن حقیقی کی وحدانیت کے لیے ہی اٹھانا،اور جسم و روح کی تمام نعمتیں جس محبوب ہستی کے صدقہ میں ملی ہیں ان کو خصوصاً عظمت سے یاد رکھنا، امن و سلامتی کی دعا میں نیک لوگوں کو بھی شامل کر لینا اور ان سب کاموں کے ساتھ اپنے قصور کا اقرار کرکے مولائے حقیقی سے معافی چاہنا اور جدھر رُخ کرے ادھر کے لوگو ں کو سلامتی سے نوازنا اور پھر اپنی حاجتیں پیش کر نے کے لیے اسی آقاکے سامنے ہاتھ پھیلانا یہ سب پیغامات آخری رسول کی بے شمار تعلیمات کا بہت مختصر خلاصہ ہے جس کا سب سے عمدہ اور عملی نمونہ’’ نماز ‘‘ہے؛  لہٰذا بندگی کے لیے نماز لازم ہے اور نماز کی دعوت گویا کامل دستور حیات کی دعوت ہے؛ چنانچہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘آو  نماز کی طرف۔ کی صدا لگائی جاتی ہے ۔

انجام کا علم اور یقین

            اب ایک فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی مالک اور مخلوق کی تمام ضرورتوں کا جاننے والا اور انسا ن کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے والے کو مان کر اس کے بھیجے ہوئے دستورحیات پر جب کوئی اپنی زندگی کو بنائے اور سجائے گایعنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرے گا تو اسے کیا صلہ(بدلہ)ملے گا؟ تو اس چیز کو بھی اللہ کے آخری رسول اور انس و جن دونوں کے نبی نے بتا دیا ہے؛ کیونکہ انجام سے بے خبر رہ کر محنت کرنا اور اپنی جان و مال کی بازی لگانا مشکل ہے اور چونکہ محنت پوری دنیوی زندگی کو خالق کی مرضی پر کھپانا ہے؛ اس لیے بدلہ بھی ایسا ہو کہ اس سے زیادہ اور بڑا کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہے ہمیشہ کے عذاب سے بچنا اور ہمیشہ کی زندگی، راحت،صحت،جوانی ا ور خواہشات کا پانا ہے جس کا محل جنت ہے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ایسی کامیابی کو عربی میں ’’الفلاح ‘‘کہتے ہیں اور کامیابی کا یقین آدمی کو عمل پر ابھارتا ہے؛ اس لیے حی علی الصلاۃ کے بعد’’ حی علی الفلاح‘‘  آئو کامیابی کی طرف! کی نداء بھی لگائی جاتی ہے ۔

            اور جس طرح موت یقینی ہے کہ آج تک کوئی اس کا انکار نہیں کر سکا اسی طرح مرنے (کے ایک مدت) کے بعد دوسری زندگی کا ملنا بھی ضروری اور یقینی  ہے اور دنیا کی اکثر قومیں اسے مانتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض قومیں یہ کہتی ہیں کہ اسی دنیا میں دوسری زندگی مل جاتی ہے جب کہ دوسری قوموں کایہ عقیدہ ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسرے عالَم میں دوسری زندگی ملے گی یعنی اچھے اور برے کام کا انجام اور نتیجہ پانے کے لیے جیسے دوسری زندگی ضروری ہے (کیونکہ پہلی اوردنیوی زندگی میں جو کہ محنت اور عمل کے لیے ہے بدلہ نہیں دیا جا سکتا کہ اس میں پورے بدلہ کی صلاحیت اور وسعت نہیں ہے )ایسے ہی محل نتیجہ کے لیے بھی دوسراعالم ضرور ہوگا؛اس لیے کہ یہ دنیا عمل و محنت کا مقام ہے اور محنت وعمل کی جگہ کو جزا و سزا سے بدل دینا عقل سلیم اور عقلائے زمانہ کے دستور کے خلاف ہے۔

توحید پر استقامت

            بہر حال مرنے کے بعد کی دوسری دائمی زندگی کے لیے ’’حی علی الفلاح‘‘میں جو کامیابی کی بشارت سنائی گئی ہے اسے پانے کے لیے ہر فرد انسان کا اللہ کی وحدانیت کے اقرار و تسلیم پر موت تک قائم رہنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ دنیا میں پیدائش سے موت تک یہی پہلی اور عملی زندگی ہے اور اسی زندگی کو ابتدائے جوانی سے موت تک صحیح عقیدہ اور اچھے عمل سے وابستہ رکھنا لازم ہے اور یہ بات عقلاء و حکماء تسلیم کرتے ہیں کہ کسی چیز کی ابتداء کے مقابلہ میں اس کے خاتمہ کا زیادہ اعتبار کیا جاتا ہے لہٰذآخرت یعنی دوسری زندگی میں فلاح پانے کے لیے  دنیا سے انتقال اس حال میں ہونا چاہیے کہ دل میں ایمان یعنی خالق اورنفع و ضررکے مالک کی وحدانیت کا یقین بہر حال موجود ہو ،خدا نخواستہ اگر ابتدائے زندگی میں اللہ کو ایک ماناتھا اور موت سے پہلے پہلے وحدانیت کا منکر ہوگیا تو ہمیشہ کے لیے اس کا بیڑا غرق ہوگیا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے حی علی الفلاح کے بعد ’’اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کی پھر صداء لگائی جاتی ہے؛ تاکہ زندگی کی صبح توحید کے ساتھ قائم ہوئی ہے تو شام ِزندگی بھی توحید پر ہونی چاہیے ،پس دیکھیے اذان کس قدر عقل و فطرت کی جامع پکار اور کامل دعوت ہے ۔

اذان فطرت کی آواز اور سعادت کا ذریعہ

            یہ ہیں وہ حقائق اور خوبیاں جو اذان کے الفاظ میں پوشیدہ ہیں یہ مخصوص الفاظ دنیائے انسانیت کی ضمیر کی آواز ہے جو غافل کانوں کو دستک دیتی ہے اور دلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے یہ صرف مسلمانوں کے لیے نماز کی اطلاع نہیں ہے؛ بلکہ سارے انسان کوابدی نفع پہونچانے اور دائمی نقصان سے بچانے کے لیے دنیا کے قائم رہنے تک خالق و مالک نے سب کو سنانے کا ایک خاص نظام بنایا ہے؛ تاکہ غفلت کی شکار ہر قوم و ملت اس سے اپنے  ابدی پیغام او ر دائمی نجات کاتحفہ( سندیش) حاصل کرے۔ ان الفاظ کومسلمان ’’اذان ‘‘کہتے ہیں یہ اذان دین اسلام کا ایک شعار ہے؛ لیکن اس کی فطری حقیقت جیسی ہے وہ پوری انسانیت کے لیے فائد ہ مند ہے شرط یہ ہے کہ اس کی قدر کی جائے۔  اس کی سچی قدر دانی یہی ہے کہ اذان کی حقیقتوں کو دل سے تسلیم کر کے صحیح زندگی گذارنے کا عزم کرے اور ایسے طریقہ سے جو انسانیت اور مقصد پیدائش سے دور ہو اس سے نکل آئے پس جو کوئی بھی اس اذان کی قدر اور عظمت کرے گا  وہ سعادت پائے گااور کامیاب ہوگااور جو اس کی مخالفت کرے گا تو آسمان و زمین کوتھامنے والا اور سب سے بڑی قدرت والا ہے اس سے ڈرتا رہے کہ اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔

اذان کا خصوصی امتیاز

            یہ اذان چونکہ دین اسلام کا خاص شعار ہے ،شعار کہتے ہیں کسی بھی مذہب کی خاص علامت اور نشانی کو اور شعار میں ایسے لوگوں کی مشابہت سے بچنا مطلوب ہے جو راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہوں ؛ اس لیے اذان میں بھی اس پہلو کا لحاظ رکھا گیا ہے جیسا کہ اذان کی ابتداء کی تاریخ میں صاف صاف موجود ہے ۔

            چنانچہ پنجو قتہ نماز باجماعت کی آگاہی اور طریقۂ اطلاع مقرر کرنے کے لیے جب مشورہ ہوا تو کسی صحابی نے رائے دی کہ آگ روشن کی جائے ،کسی نے مشورہ دیا کہ قَرن (نرسنگا)کے ذریعہ آواز بلند کی جائے ،کسی اور صحابی نے رائے دی کہ ناقوس (نقارہ)بجایا جائے ،حضور ﷺنے دین حق کی امتیازی شان کو مد نظر رکھتے ہوئے ان تمام تجاویز کو قبول نہیں فرمایا کہ اس میں مجوس یا یہود یا نصاری سے مشابہت پائی جاتی ہے اور بغیر کسی حتمی فیصلہ کے مجلس برخواست ہوگئی؛ البتہ عارضی طور پر یہ طے کیا گیا کہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے ’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ کی صدا لگائی جائے!

            بالآخر چند روز کے بعد ایک صحابی کو خواب میں فرشتہ کے ذریعہ وہ کلمات سکھلائے گئے جو فطری حقائق پر مشتمل اور امتیازی شان کے حامل ہیں حضور ﷺ نے ان کا خواب سن کر تصدیق فرمائی کہ یہ حق ہے یعنی اللہ کی طرف سے ہے پھر نما ز کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے انہی کلمات کو ہمیشہ کے لیے جاری فرمایا، پس دین اسلام جس طرح برحق اور امتیازی شان رکھتا ہے اسی طرح اذان بھی حق اورفطرت کی آواز ہونے کی وجہ سے خصوصی امتیاز کا حامل ہے۔

اذان کی تاثیر اور فوائد

            اس اذان کے عام فوائدبھی بہت ہیں ،پریشانی میں دلوں سے غم دور ہوتا ہے ، آفتیں اور بلائیں ٹل جاتی ہیں ،لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہوجاتے ہیں ؛ بلکہ زندگی کی قسمت بدل جاتی ہے گویا اذان کا وجود ایک طرح ’’ہُما‘‘(پرندہ) ہے جس کے سایہ میں آنا ہر انسان پسند کرتا ہے اور اذان کا نہ ہونا ایک طرح کا ’’بوم‘‘(پرندہ)ہے جس کو ہر انسان منحوس سمجھتا ہے ،شیخ سعدی فرماتے ہیں ۔     

گر ہما از جہاں شود معدوم                   کس نیاید زیر سایہ بوم

            ایک مرتبہ حضرت علی ؓ غمگین تھے حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہارا غم دور نہ کروں ؟ چنانچہ ایک شخص سے کہا کہ علی کے کان میں اذان دو؛چنانچہ انہوں نے اذان دی تو حضرت علی کا غم دور ہوگیا اور حضرت ابو محذورہ بچپن میں اذان کی نقل اتار رہے تھے حضور ﷺ نے ان کو بلا یا اور ان سے کہا کہ پھر سے اذان کہو بس یہی اذان ان کے دین حق کو قبول کرنے کا ذریعہ بن گئی۔

                 اور دنیا میں زندگی گذارتے ہوئے انسان کبھی ایسی مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتا ہے کہ جان ومال سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اذان سے اللہ تعالیٰ ایسی مصیبتیں بھی دور فرمادیتے ہیں ،سفر نامہ ’’ابن بطوطہ‘‘میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ بحر انٹلا نٹک میں ایک مرتبہ طوفان کی وجہ سے عربوں کا ایک جہاز ٹوٹ گیا ،سمندر کی موجوں نے اسے برباد کردیا؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ایک عرب کو جزیرہ کی طرف پہونچا دیا وہ آبادی میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ پوری بستی غیر مسلموں سے آباد ہے ایک غریب کے جھونپڑے میں فروکش ہوئے کچھ مدت کے بعد گھر والے غمگین اور شکستہ دل تھے ،عرب مہمان نے اپنے محسن مالک ِمکان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں ہر سال سمندر سے ایک بلا آتی ہے اور بستی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اس بلا کو ٹالنے کے لیے ایک رسم ادا کی جاتی ہے کہ پوری بستی میں سے ایک حسین و جمیل لڑکی کو زیورات سے آراستہ کر کے سمندر کے کنارے ایک مندر میں رات میں چھوڑ آتے ہیں لڑکی بلا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور بلا دور ہو جاتی ہے؛ مگر دوسرے دن وہ لڑکی مردہ ہوتی ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو ساری بستی والے کی جانوں کو خطرہ ہوتا ہے اس سال میری لڑکی کی باری ہے اس لیے فکر  و غم لاحق ہے مسلم عرب نے کہا گھبراؤ نہیں  اس کی جگہ پر مجھے بنا سنوار کر بھیج دو؛ چنانچہ گھر والوں نے ایسا ہی کیا اور مندر میں چھوڑ آئے  اور وہ باہمت عرب قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوگئے پھر جب رات کو سمندر کی طرف سے ایک بلا  جہاز کی شکل میں ساحل کی طرف آرہی تھی مسلم عرب نے بلا دیکھتے ہی اذان کہنی شروع کی، اشہد ان محمداً رسول اللّٰہ پر پہنچتے ہی بلا لوٹ گئی صبح وہ عرب صحیح سلامت گھر واپس آگئے ملک میں چرچا ہونے لگا اور سب حیران اور متأثر تھے؛ یہاں تک کہ بادشاہ وقت تک یہ خبر پہنچ گئی دوسرے سال پھر اسی طرح کیا گیا کہ اس مسلم عرب مہمان کو آراستہ کرکے مندر میں چھوڑ آئے رات میں بلا آئی اور مسلم مہمان نے اذان کہنی شروع کی اور اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ پر ہی بلا واپس ہوگئی لوگوں کا تأثر بڑھ گیا بادشاہ نے ابھی بھی احتیاط سے کام لیا تیسرے سال پھر اسی طرح کیا گیا بلا آنے پر مسلم عرب نے جیسے اذان شروع کی اور’’ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر‘‘ کہا تو وہ بلا ہمیشہ کے لیے غائب ہوگئی؛ چنانچہ بادشاہ اپنے وزیر سمیت اسلام سے مشرف ہوا اور اس کی وجہ سے ساری رعایا بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی ۔ (عرب ہند کے تعلقات۱۷۴)

اذان کے خاص فوائد ونتائج

            شروع سے اب تک تفصیلی کلام سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ اذا ن کس قدر حقائق اور حیرت انگیز فوائد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ان میں سے بعض سے تو انسان اسی دنیا میں فائدہ اٹھاتا ہے اور بعض فوائد ایسے بھی ہے جو بطور نتائج دوسری زندگی یعنی آخرت میں حاصل ہوں گے ،ان فوائد کو اسی آخری نبی محمد  ﷺ کے مبارک کلام کی روشنی میں پیش کرتے ہیں ۔

            (۱) اذان دئے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمان آباد ہیں اور وہ علاقہ فوج کشی سے محفوظ رہتا ہے۔

            (۲) اذان نبوی مشن کا ایک اہم جز ہے؛ کیونکہ نبی کا کام لوگوں کو دین کی دعوت دینا ہے اور اذان بھی دعوت ہے ۔

            (۳) اذان سے انسان کا اصلی دشمن شیطان دور بھاگتا ہے؛ کیونکہ اذان کا فائدہ دوسروں کو پہنچتا ہے اور ایسی عبادت جس کا نفع دوسروں کوپہنچے شیطان پر بھاری ہوتی ہے ۔

            (۴) اذان دینے والے شخص کی گردن اور لوگوں کے مقابلہ میں قیامت کے دن لمبی ہوگی۔

            (۵)اذان دینے والے کے لیے بخشش کی جائے گی اور مؤذن کے حق میں ہر خشک و تر چیز قیامت کے دن گواہی دے گی ۔

            (۶) جہاں تک مؤذن کی آواز جاتی ہے جنات، انسان اور دوسری مخلوق جو اذان کی آواز سنتی ہے وہ سب گواہی دیں گے۔

            (۷) سات سال تک (ایک روایت میں بارہ سال) رضائے الٰہی کے لیے اذان دینے پر جہنم سے آزادی کا پروانہ نصیب ہوتا ہے ۔

            (۸) اخلاص سے اذان دینا (اور نماز کا اہتمام کرنا)گناہوں کی بخشش اور دخول جنت کا ذریعہ ہے۔

            (۹)اذان کا جواب دینے سے جواب دینے والے کے لیے بھی جنت کا وعدہ ہے۔

            (۱۰) اذان کے بعد یا اذان و اقامت کے درمیان دعا قبول ہوتی ہے رد نہیں ہوتی ۔

            اذان سے متعلق قدر کرنے والوں کے متعدد واقعات تاریخ کی کتابوں میں مل سکتے ہیں ، یہاں صرف ایک واقعہ ذکر کر کے مضمون ختم کیا جاتا ہے، غالباً حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ کے زمانہ میں دہلی کا ہے کہ ایک عورت کے مرنے کا جب وقت آیا تو اس کی زبان سے ایک عجیب جملہ نکل رہا تھا گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہی ہے پھر کسی عالم کو بلا کر اس عورت کے بول سنائے گئے تو اس عالم دین نے فرمایا کہ عورت کہہ رہی ہے کہ مجھے ’’فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی‘‘ (ترجمہ: اب میرے بندوں میں داخل ہوجائو اورمیری جنت میں داخل ہوجائو!) کی آواز دی جارہی ہے اس کے بعد عورت کا انتقال ہوگیا ،دفن کے بعد جب گھر والوں سے تحقیق کی گئی تو بتا یا گیا کہ وہ نہ نماز پڑھتی اور نہ تلاوت وغیرہ کرتی تھی؛ البتہ جب بھی اذان ہوتی تو گھر والوں کو زبردستی خاموش کرتی تھی اور اذان کے معاملہ میں اس کا یہ ہمیشہ کا معمول تھا کہ ڈانٹ ڈانٹ کر خاموش کیا کرتی تھی ،اس عالم ربانی نے کہا  بس یہ اذان کے دل سے احترام کا صلہ ہے کہ مرنے سے پہلے اسے جنت کی بشارت مل گئی ۔فقط

———————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ :1-2،    جلد:105‏،  جمادی الاول-  رجب المرجب 1442ھ مطابق   جنوری- فروری 2021ء

٭           ٭           ٭

Related Posts